معاشرے کی برائیاں اور ان کی اصلاح
मंगलवार, 13 फ़रवरी 2018
معاشرے کی برائیاں اور ان کی اصلاح _________________________ معاشرہ کسی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی قوت اور درستی پر قوم کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قومی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو اس کا فساد قوم کو گُھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ اگر ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كے سلسلے میں كی جانے والی ہماری كوششیں اور تمام تدبیریں اخلاص و للہیت سے بھرپور اور صحیح طریقے پر ہو تو ضرور اللہ كی مدد شامل حال ہوگی اور نصرت خداوندی متوجہ ہوگی، پھر عوام اس سے متاثر ہوں گے اور اس كے صحیح، بہتر اور خوش كن نتائج ضرور برآمد ہوں گے ؎ ”اگر سینے میں دل ہے اور تڑپ اسلام كی دل میں، اترسكتا ہے ابرِ رحمتِ پروردگار اب بھی“ آج معاشرہ میں جو برائیاں سرکش عفریت کی طرح سر اٹھائے کھڑی ہیں ان کا شمار کرنا نا ممکن ہے ،ان میں سرفہرست چند اہم برائیوں بلکہ تباہ کاریوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔یہ وہ خرابیاں ہیں جن پر اگر قابو پا لیا جائے تو معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے وگرنہ ضلالت و گمراہی کے مزید شاہراہیں کھلتی چلی جائیں گی اور معاشرہ مزید تباہی و بربادی کی طرف جائے گا جو ہمارے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہو گا۔یہ خرابیاں اسلامی معاشرہ کے چہرے پر بدنما دھبہ ہے۔ اگر آج ہم اپنے معاشرہ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کتنی ہی خرافات ، برائیاں اور بد اخلاقیاں ہیں جو پوری طرح معاشرہ کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہیں ۔ اللہ و رسول ﷺ کو بھول کر فضولیات میں وقت ضائع کرنا قوم کا شیوہ بن چکا ہے۔آج ہماری قوم کے قلوب و اذہان کو اللہ و رسول ﷺ کے ذکر سے نہیں باطل خرافات اور شیطانوں کی محافل سے سکون ملتا ہے۔ بت بینی، ڈرامہ و فلم سازی، موسیقی کی دھنیں پر مست ہونا، ناچ راگ، فضول اور بیہودہ گفتار قوم میں پوری سراعت کر چکی ہے ۔ اصلاح معاشرہ کی طرف کوئی سوچ، کوئی قدم اٹھتے نظر نہیں آتے نہ انفرادی نہ اجتماعی۔ ان احوال میں امت پر خدا کا غضب اور قہر نازل نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ اسلام میں قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور سرایت کر گئے ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہوجاتی ہے۔ اس کی تباہی و بربادی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ ان کے گمراہی، ضلالت، فسق و فجور ،فساد، فتنہ و بدخلقی کی نوعیت کیا ہے، بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت حقیر سے حقیر تر کیوں نہ ہو، اور سائز میں ذرہ سے بھی چھوٹی ہو جب بھی وہ کسی معاشرہ کا اجتماعی کردار بن جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ اس کی تباہی بربادی کا سماں بن گیا ہے ۔ اب وہ فطرت ، قانونِ قدرت کے رحم و کرم پر ہے چاہے تو اسے قائم رکھے، چاہے تو ڈبو دے۔ معاشرہ کے اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا ہے اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے۔ بلکہ ہر شعبہ زندگی اور قوم کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لیے فکر مند نہیں ہوتے ، وہ معاشرہ اگر اصلاح کی طرف نہیں آتا تو قہر خداوندی اس کا منتظر ہے جو کسی بھی وقت اس پر برس سکتا ہے۔ اس قہر اور غضب خداوندی کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے اور پیغام آئے بھی مگر ہم نے ان پر کان نہیں دھرے ، اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ جب اصلاح کار کی کوئی گنجائش نہ رہے تو پھر قہر خداوندی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے۔ یہ کوڑا کئی بار ہم پر ہماری بد اعمالی اور غفلت کے سبب برس بھی چکا ہے، اور برس بھی رہا ہے زلزلوں ، قدرتی آفتوں ، یزید پلید، تاتاریوں ، منگولوں ، چنگیزیوں ، ہلاکیوں کی صورت میں مگر ہم نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔ بد قسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے جس کی وجہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسواء اور زوال پذیر ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات کا عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا، آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، جیل خانہ جات میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ میں جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔ منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سی وہ اخلاقی مرض اور بیماری ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی ۔ خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو اس ملک میں زوروں پر نہیں ؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ایسے غلیظ اخلاق و اطوار والی قوم کا مسلمان کہلوانا تو دور کی بات ، ہمارے اسلاف کہتے ہیں کہ ایسے میں اسلام ، اللہ و رسول ﷺ کا نام پاک بھی اپنی ناپاک زبانوں سے لینے کی جسارت نہ کرو اس لیے کہ تم ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہو۔ آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہمارے کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گذرے ہیں ۔ ہم سے تو سکھ لوگ بہتر ہیں جو اپنے گرو کی ایک ایک ادا کو اپنائے ہوئے ہیں ، سکھ لوگ اس وقت دنیا میں جہاں بھی ہیں ، جس عہدہ ، جس منصب پر بھی ہیں وہ اپنے گرو کا نمونہ پیش کرتے ہیں ، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر پہنچ کر بھی اپنے گرو کی سی داڑھی اور سر پر گرو کی سی پگ رکھنے سے نفرت و ہتک محسوس نہیں کرتے۔ہمارے ہاں مجموعی افراد ملت تو دور کی بات جب ہم برصغیر اور بعض عرب ممالک سے باہر کے مذہبی راہنما، دینی سکالرز، روحانی پیشوا ، مساجد کے امام و خطیب دیکھیں تو ان کے چہروں پر نبی کریم ﷺ کی سنت دیکھائی نہیں دیتی یہ حال ہے ہمارے مذہبی پیشواؤں کا۔ ہماری قوم کا اجتماعی رنگ و روپ مغرب و ہنود زدہ ہے اسلام زدہ نہیں ۔ ہمارے مجموعی اوصاف کلیساء والوں سے ملتے جلتے اور مماثل آتے ہیں ۔ آپ ملک کے جس محکمہ، ادارہ، دفتر، بنک، سکول ، کالج و یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو مغربی مقلد نظر آئیں گے ، سب آپ کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھلے نظر پڑیں گے، کلین شیو، پینٹ شرٹ، ٹائی باندھے بظاہر مغربی ، ایمان اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ان کے اندر ایک بند کونے میں چھپی ہوتی ہے کہ بظاہر کوئی دیکھ کر نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں ، جبکہ رسول اللہ ﷺ سے وابستگی و محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا آپ کو دور سے دیکھ کر جان جائے کہ یہ محمد کریم ﷺ کا غلام ہے۔ ہم میں مجموعی طور پر اپنے آقا کریم ﷺ کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم ﷺ کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں ؟ ہم میں آپ ﷺ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ ﷺ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں ؟ جواب ۔۔۔۔یقیناً کوئی نہیں ۔مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں ، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، بیہودگی ہے،وہ کون سے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن کی ہم میں کثرت نہیں ؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ہے؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں ؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ا ن سوالات کا جواب یقیناً ہاں میں ملے گا۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ برا ہے ہمارے معاشرہ میں مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ اچھے مسلمان تو بہت دور کی بات ہم تو اچھے انسان بھی نہیں ہیں ۔ہماری مسجدوں سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں گلی میں چلتے موبائل فون جھپٹ کر لے جاتے ہیں ، ہمارے ہاں سٹرکوں پر عوام و الناس کی حفاظت کیلئے جو اسپیڈ بریکر نصب ہوتے ہیں لوگ ان سے گذرتے ہوئے طرح طرح کی گالیاں بکتے ہیں کہ فلاں فلاں یہ کیا مصیبت کھڑی کر دی ہمارے لیے، ہم تو نہ روکنے والے، نہ تھمنے والے بے لگام و بے مہار جانور تھے ، ہمیں یہاں کیوں روکنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں گلی بازاروں میں واٹر کولر نصب ہوں تو گلاس کو زنجیر سے باندھ کے رکھنا پڑتا ہے، ایک منٹ کیلئے گلاس کو بے زنجیر کر دیں تو کسی کو ڈھونڈے نہیں ملے گا۔بے شعور قوم کو ذرا احساس اور فہم نہیں کہ واٹر کولر کے گلاس رکھنے کا مقصد کیا ہے؟سب اپنی اپنی غرض کے بندے ہیں کسی کو دوسرے کی پریشانی کا احساس نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارے کردار کی جھلک۔ قرآن کریم کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے ، ہماری منزل اور ہمارا مقصود کچھ اور ہے، ہم کچھ اور کے طلبگار ہیں ، ہم قرآن بھی رکھنا چاہتے ہیں اور باطل اطوار و روایات بھی، ہم سنت بھی رکھنا چاہتے ہیں اور غلط خرافات و کردار بھی۔ قرآن کے احکام، اصول و ضوابط کچھ اور ہے جبکہ ہمارے رسوم، ہمارے اطوار، ہماری روایات کچھ اور ہیں ۔ ہم قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان کے دل میں جلا دینے والی وہ آگ نہیں ہے جو ہر باطل کو جلا دے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ ان کے سینوں میں زندہ نہیں ہیں ، ان کے دلوں میں حضور اکرم ﷺ کی محبت و الفت باقی نہیں ہے۔
ویلینٹائن ڈے پر شرم و حیا کا قتل ----------------------------------------------------- ویلنٹائن ڈے (valentines day) بے حیائی پر مشتمل غیر اسلامی رسم ہے،اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے،مسلمان ایک بامقصد قوم ہے،وہ باطل رسوم وخرافات سے بالاتر ہو کر مقصدیت کی طرف آئیں،ہمارادین اسلام‘ ایک مذہب مہذب ہے، جو حیاء وپاکدامنی کی تعلیم دیتا ہے،وہ ہر قسم کی بے حیائی سے بچنے کی تاکید کرتا ہے؛ تاکہ فحاشی وعریانیت کے عیب سے کسی کا دامن داغدار نہ ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو بے مثال کردار کا حامل بنانے کے لئے"حیاء"کو ایمان کی عظیم شاخ قرار دیا کیونکہ"حیاء"وہ بیش بہا جوہر اور قیمتی زیور ہے‘جو انسان کو بہائم سے ممتاز کرتا ہے،حیاء ہی وہ صفت ہے جو انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ۔ ترجمہ:اور تم بے حیائی کی چیزوں کے قریب بھی نہ جاؤ،ان سے جو ظاہر ہوں اور پوشیدہ ہوں۔(6،سورۃ الانعام:151) فرمانِ خداوندی ہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ (ترجمہ)بیشک اللہ تعالٰی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم (ہر معاملہ میں) انصاف کرواور (سب کے ساتھ)بھلائی کرو،اوررشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو،اور بے حیائی،برے کاموں اور سرکشی سے منع فرماتاہے،اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔(16،النحل:90) اعمال خیر کی انجام دہی اور برائیوں سے بچنے سے متعلق یہ آیت کریمہ نہایت جامع ترین ہے،اور جمعہ کے خطبہ میں اہمیت کے ساتھ اسے پڑھا جاتاہے۔ ویلنٹائن ڈے< valentines day>14/فروری کو یوم عاشقاں منایا جاتا ہے،ایک رومی پادری جسے ایک جیلر کی لڑکی سے محبت کے جرم کی وجہ سے سزائے موت دی گئی تھی اس کی یاد میں‘اس دن کو یوم عاشقاں اور محبت کا تہوار قرار دیکر اخلاقی اقدار کو پامال کیا جاتا ہے اور حیاء کی چادر کو تارتار کیا جاتاہے اور تہذیب وثقافت کو تاراج کیا جاتا ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سرخ لباس زیب تن کرکے آپس میں پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں،محبت کے کارڈس تقسیم کئے جاتے ہیں اور عشقیہ یس یم یس بھیجے جاتے ہیں،مغرب کی اندھی تقلید میں اس کھلی بے حیائی کو محبت کا نام دیکر یہ تصور دیا جاتا ہے کہ محبت کے تہوار کے موقع پر محبت کی پیش کش کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ آج اسلام دشمن طاقتیں اسلامی ثقافت وتمدن کو بے حیائی وعریانیت میں تبدیل کرکے اسے روشن خیالی اور آزادی کا نام دینے کے لئے کوشاں ہیں،وہ فحاشی پر مبنی رسوم کو اس طرح آراستہ کرکے پیش کررہے ہیں کہ مسلمان اپنی پاکیزہ تہذیب وعمدہ تمدن کو چھوڑکر اغیار کے تہواروں کا دلدادہ ہوتاجارہا ہے۔آزادی کے نام پر غیر محرم کے ساتھ گھومنے پھرنے اور جنسی تعلقات قائم کرنے کو باعث فخر سمجھاجارہا ہے،جس کے نتیجہ میں یہ حیا سوز حرکتیں صرف کلبوں اور ہوٹلوں ہی میں نہیں کی جارہی ہیں بلکہ کالجس اور سڑکوں پر بھی طوفان بے حیائی بپاکیا جارہا ہے۔ یہ تمام رسوم‘ اسلامی تعلیمات کے مغائر ہیں،صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور،صاحب عقل ‘ان بیہودہ رسوم کی قباحت وشناعت کی گواہی دیگا۔اوراسلام نے نہ صرف بے حیائی اور فحاشی سے منع کیا بلکہ اس کے اسباب و مقدمات سے بھی روکا ہے،بے حیائی کا عمل کرنا تو کجا‘بے حیائی کے قریب جانے سے تک منع کیا ہے۔ مسلمان‘مرد وعورت کو اس بات کا پابند کیاکہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں،اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کریں۔مسلمان‘انسانی کردار اورمذہبی اقدار کے منافی چیزوں سے گریز کریں۔ بدکاری اور بے حیائی سے متعلق جو سخت سزائیں اور وعیدیں بیان کی گئی ہیں انہیں سامنے رکھیں اور ہر حال میں یہ بات پیش نظر رہے کہ اللہ تعالی ہمیں دیکھ رہاہے۔
शुक्रवार, 9 फ़रवरी 2018
تعارف سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ ____________________________________________________________________ چھٹی صدی ہجری میں جن نفوس قدسیہ نے اپنے وجود مسعود سے ایک جہان کو فیضیاب کیا، اُن میں ایک اہم نام شیخ کبیر سیداحمد کبیررفاعی قدس سرہٗ کا ہے۔ شیخ کبیر کی پوری زندگی خدمت خلق اورمخلوق کو بہرصورت فائدہ پہنچانے سے عبارت ہے۔ اُن کا اصل نام احمد، کنیت ابوالعباس، اورلقب محی الدین ہے۔ جدامجدسید حسن اصغر ہاشمی مکی معروف بہ رفاعہ قدس سرہٗ کی مناسبت سے رفاعی کہلاتے ہیں ، اورچوں کہ امام موسیٰ کاظم اور شہیداعظم سیدناامام حسین رضی اللہ عنہماکی اولاد سے ہیں ، اس لیے موسوی اور حسینی بھی کہلاتے ہیں۔ بلنددرجات اور اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے معتقدین کے نزدیک سلطان الاولیاء اورشیخ کبیرسے مشہورومعروف ہیں ، جب کہ مسلکاً شافعی المذہب ہیں۔ بشارت و ہدایت نبوی: شان رفاعی میں ہے کہ شیخ کبیرکی پیدائش سے چالیس دن پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شیخ سیدمنصوربطائحی کے خواب میں تشریف لائے اور اُن کی پیدائش کی خبردیتے ہوئے فرمایا:اے منصور!آج سے چالیس دن بعد تیری بہن کے یہاں ایک لڑکا پید ا ہوگا، اس کا نام احمد رکھنا۔ وہ تمام اولیاکا سردار ہوگا جس طرح میں تمام انبیا کا سردار ہوں۔ اس کی وجہ سے میری اُمت میں شریعت وطریقت اورمعرفت کا نورپھوٹے گا۔ اس کی پیدائش کی خبر لوگوں تک پہنچادو۔ جب وہ ہوشیار ہوجائے تو تعلیم کے لیے اُسے شیخ علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا، اُس کی تربیت میں غفلت نہ کرنااوربطور خاص اس کا خیال رکھنا۔ (ص:29) ولادت باسعادت اورپرورش: بشارت نبوی کے ٹھیک چالیس دن بعدشیخ کبیر سیداحمد رفاعی 15؍ رجب 512ھ؍مطابق یکم نومبر1118 ء کوبمقام اُم عبیدہ قصبہ حسن میں پیدا ہوئے۔ اس وقت مسترشد باللہ عباسی کاعہدخلافت تھا۔ شیخ کبیر ابھی سات ہی کے تھے کہ والد ماجدسید علی ہاشمی مکی قدس سرہٗ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس کے بعد اُن کی نشو ونما اور پرورش وپرداخت شیخ سیدمنصور بطائحی قدس سرہٗ کی زیرنگرانی ہوئی، جو اُن کے حقیقی ماموں تھے۔ تعلیم وتربیت: شیخ کبیراپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرلینے کے بعدشیخ عبدالسمیع حربونی کی نگرانی میں پہنچے اوراُن کی شاگردی میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا، اور مزید تعلیم وتربیت کے لیے شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہٗ کے سپرد ہوئے، جہاں شیخ کبیر نے عقلی ونقلی علوم مثلاً:حدیث، تفسیر، منطق وفلسفہ نیز مروجہ علوم وغیرہ میں بطورخاص کمال ومہارت حاصل کی اور مختلف علمی فضل وکمال کے گوہرمراد سے اپنے دامن آرزو کو پُرکیا۔ اساتذۂ کرام: شیخ کبیر کے مشہورومعروف اورناموروجلیل القدراساتذہ میں شیخ منصور بطائحی، شیخ عبدالسمیع حربونی، شیخ ابوالفضل واسطی، شیخ ابوالفتح محمد بن عبد الباقی، شیخ محمد بن عبد السمیع عباسی ہاشمی، شیخ ابوبکر واسطی اور عارف باللہ سیدعبد الملک بن حسین حربونی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ درس وتدریس: شیخ کبیر نے جس شہر علم ومعرفت میں تعلیم حاصل کیا اُسی شہر واسط میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اللہ دادقابلیت اورانتہائی ذکاوت کی وجہ سے جب اُن کی علمی شہرت چاروں طرف پھیل گئی، تو طالبانِ علوم اپنی تشنگی بجھانے کے لیے شہر واسط کارُخ کرنے لگے اوراِس کے علاوہ عظیم علماوفضلا بھی اُن کیدرس بافیض سے فیضیاب ہونے کی خاطر اُن کی خدمت میں پہنچتے اوراُن کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے۔ جناب طیب قاسم رشید عمرانی کے مطابق :شیخ کبیر کے درس وتدریس کا معمول یہ تھاکہ روزانہ صبح وشام حدیث، فقہ، تفسیر اورعقائد کادرس دیتے، جس میں کثرت سے طلبا شریک ہوتے تھے۔ ان میں علماوفضلا اور اپنے عہد کے مشائخ کبار بھی شامل تھے۔ (معدن الاسرار) تصنیفات و تالیفات: توحیدوتصوف، پندونصائح اور فقہ وتفسیرکے موضوع پر مشتمل جن مفیدو گراں قدر کتابوں کو شیخ کبیر سے منسوب کیاجاتا ہے، اُن میں چند یہ ہیں ، مثلاً:برہان موید، حکم رفاعیہ، احزاب رفاعیہ، تفسیر معانی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، عقائد رفاعیہ، مجالس احمدیہ، تفسیر سورۃ القدر، شرح تنبیہ، ست، رحیق الکوثر، الوصایاوغیرہ۔ سیرت وشخصیت: طبقات امام شعرانی میں ہے کہ صوفیائے کرام کے احوال کی شرح اور اُن کے منازل کی مشکلات حل کرنے کی سرداری شیخ کبیر پر ختم ہے، اورعلاقہ بطائح میں تربیت مریدین کا عمل ان کی وجہ سے پروان چڑھا، نیزبے شمار مخلوق نے ان سے تزکیہ وتصفیہ کا نور پایا۔ مؤلف شان رفاعی کے مطابق:قناعت وشکر کا یہ حال تھا کہ کبھی اپنے پاس دوقمیصیں نہ رکھتے تھے۔ جب قمیص دھونے کی ضرورت پیش آتی تو دریا میں خودہی اُترجاتے، قمیص کا میل کچیل بھی خودہی صاف کرتے، یہاں تک کہ دھوپ میں کھڑے ہوکر اُسے خودہی سوکھاتے بھی تھے اور اُس وقت تک دھوپ میں کھڑے رہتے تھے جب تک کہ قمیص خشک نہیں ہوجاتی۔ کھانے کا معاملہ ایسا تھاکہ دو تین بعدایک آدھ لقمہ کھاتے، البتہ!اگر کوئی مہمان آجاتا تو اُس کے کھانے پینے کا ضرور انتظام فرماتے۔ اُن کے اندرخدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خودجنگل جاتے، لکڑیاں جمع کرتے، اُسے خود اُٹھا کرلاتے اوربیوگان ومساکین اورغربا کے گھروں میں پہنچاتے، بلکہ اُن گھروں میں پانی بھی خود بھر دیتے تھے۔ شیخ کبیر اِس قدر نرم دل اور محبتی تھے کہ انسان تو انسان، چرندوپرندسے بھی بے پناہ محبت فرماتے اوراُس کے آرام کا ہر ممکن خیال فرمایا کرتے تھے۔ طبقات امام شعرانی میں ہے کہ جو شخص بھی ملتااُسے پہلے سلام کرتے، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی دیکھتے تو فرماتے کہ تمہاری صبح اچھی ہو۔ اس تعلق سے دریافت کیاجاتا تو فرماتے کہ میں اپنے نفس کو اچھے کاموں کا عادی بناتاہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اُن کے جسم پر مچھر بیٹھ جاتا تو اُسے اڑاتے نہ کسی کو اُڑانے دیتے اور فرماتے کہ اُسے خون پینے دو، جتناکہ اللہ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ جب دھوپ میں چل رہے ہوتے اورٹڈی اُن کے کپڑے پر بیٹھ جاتی تو اُس وقت تک سایہ دار جگہ پر ٹھہرے رہتے جب تک کہ ٹڈی سایہ میں بیٹھ نہ جاتی۔ جب کبھی بلی اُن کی آستین پر سوجاتی اور نماز کا وقت ہوجاتا تو نیچے سے آستین کاٹ دیتے لیکن بلی کو نہ جگاتے، اور جب نماز سے واپس آتے تو آستین کو اُس کے دوسرے حصے کے ساتھ سی لیتے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ شیخ کبیر نے ایک خارش زدہ کتا کو دیکھاجسے لوگوں نے گاؤں سے باہر نکال دیا تھا۔ شیخ کبیر اُس کتے کے ساتھ جنگل چلے گئے۔ اُسے تیل لگاتے رہے اور اُسے کھلاتے پلاتے اور کپڑوں کی مدد سے اُس کی خارش کوبھی کھرچتے رہے۔ پھر جب اُس کی خارش ٹھیک ہوگئی تو گرم پانی سیاُس کو نہلایااور اُس کی پوری نگہداشت کی۔ بستی میں کسی کی بیماری کا حال سنتے اگرچہ وہ دور کا ہوتا، اُس کی عیادت اور خبرگیری کے لیے جاتے۔ جب کسی بوڑھے کو دیکھتے تو اُس کے محلے والوں کے پاس جاتے اور اُس بوڑھے شخص کے بارے میں نصیحت فرماتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے سفید بال والے مسلمان کی تعظیم وعزت کی اللہ رب العزت بڑھاپے میں اُس کی عزت وتعظیم کرنے والا مقرر فرمائے گا۔ شیخ کبیر دوسروں کی خیر خواہی کا کوئی موقع بھی نہیں گنواتے تھے، بلکہ بڑے انوکھے اندازمیں ہر ایک خیرخواہی فرماتے تھے۔ مثال کے طورپر جب اُنھیں پتا چلتاکہ فقرا میں کوئی اپنی لغزش کی بنیاد پر پٹائی کھانے والا ہے تو اُس سے اُس کے کپڑے بطور عاریت لیتے اور اُسے پہن اُس کی جگہ پر سور ہتے، اور اِس طرح فقرا اُن کی پٹائی کردیتے۔ جب پٹائی ہوجاتی اور فقرا کا غصہ سرد پڑجاتا تو اپنا چہرہ کھول دیتے، حالاں کہ اُن پر غشی طاری ہوجاتی لیکن اُن سے فرماتے کہ تمہارا بھلا ہوکہ تم لوگوں نے مجھے اجروثواب کمانے کا موقع دیا۔ فقرا ایک دوسرے سے کہتے کہ یہ اخلاق سیکھو۔ (ص:294-300) خلافت وسجادگی: تقریباً بیس سال کی عمرکے ہوگئے تو اُستاذ ومربی شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہ نیان کو تمام علوم شریعت وطریقت کی اجازت عنایت فرمادی، اور اس کے ساتھ خرقہ وخلعت خلافت سے بھی نوازدیا۔ تاہم اس کے بعد بھی علم حاصل کرناجاری رکھااور اپنے مرشد ومربی کی نگرانی میں نورِتصوف سے منورہونے کے بعد اپنے ماموں شیخ سیدمنصور بطائحی سے علم فقہ میں کامل مہارت حاصل کی، اور اس طرح فقہ وتصوف کے عطرمجموعہ قرارپائے۔ شیخ سیدمنصوربطائحی قدس سرہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں پہنچے تواُنھوں نے شیخ کبیرکواپنے مرشدومربی شیخ الشیوخ کی اَمانت اور اپنے خاص وظائف کااُن سے عہد لیا، اور پھراُن کو مسندسجادگی اورمنصب ارشاد پر فائز فرمادیا۔ (شان رفاعی) تعلیمات وارشادات: شیخ کبیر کے چند مفید تعلیمات وارشادات یہ ہیں : رسول کریم سے محبت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شان کو بہت بڑی شان والاجانو۔ خالق ومخلوق کے درمیان آپ واسطہ بھی ہیں اور وسیلہ بھی۔ آپ ہی نے خالق ومخلوق کا فرق واضح فرمایاہے۔ آپ اللہ کے خاص بندے، اللہ کے محبوب اور اللہ کے رسول ہیں۔ آپ تمام مخلوق میں سب سے کامل اور تمام پیغمبروں میں سب سے افضل ہیں۔ آپ اللہ کی راہ دکھانے اور اللہ کی طرف بلانے والے ہیں ، اور آپ ہی سب کے لیے بارگاہِ رحمانی کا دروازہ اور بارگاہِ صمدیت کا وسیلہ ہیں۔ خوب جان لو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، وفات کے بعد بھی اسی طرح باقی ہے جس طرح حیات میں باقی تھی۔ تمام مخلوق قیامت تک آپ کی ہی شریعت کے مکلف ہیں اور آپ کا معجزہ قرآن کریم ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیثوں کو رَد کیاگویا اُس نے کلام اللہ کو رَد کیا۔ (شان رفاعی) صحابہ کرام سے محبت: صحابۂ کرام میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق، پھر سیدنا عمر فاروق، پھر سیدنا عثمان ذوالنورین، پھر سیدنا علی مرتضیٰ ہیں۔ تمام صحابہ کرام ہدایت پر ہیں (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانندہیں۔ تم اُن میں سے جس کسی کی بھی تابع داری کرلوگے ہدایت پالوگے۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)سے محبت رکھو۔ اُن کے ذکر وتذکرے سے برکت حاصل کرو، اوراُن جیسے اخلاق اپنے اندرپیداکرنے کی کوشش کرو۔ (ایضاً) اہل بیت سے محبت: دوستو!اپنے دلوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل -اولاد کی محبت سے بھی روشن کرو، کیوں کہ یہ نفوس قدسیہ جود کے چمکتے ہوئے انوار اور سعادت کے منور آفتاب ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے اہل بیت کے تعلق سے اللہ ڈرو، اور اُن کے حقوق ادا کرو۔ اہل بیت کو اپنے سے مقدم رکھو۔ خوداُن سے مقدم نہ رہو۔ اُن کی مدد کرو، اُن کی تعظیم کرو، اُن کا ادب کرو، اُس کی برکتیں تمہارے اُوپر برسیں گی۔ (ایضاً) اولیاء اللہ سے محبت: اولیاء اللہ کے دامن سے چمٹ جاو۔ اولیاء اللہ پر نہ کوئی خطرہ ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ولی وہ ہے جو اللہ سے محبت رکھتا ہے، لہٰذاجس کو اللہ سے محبت ہو اُس سے دشمنی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی شخص میرے کسی ولی/دوست کو تکلیف دے گا میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں ، گویا جواولیاء اللہ کو تکلیف دیتا ہے اللہ اُس سے انتقام لیتاہے اور جواولیاء اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ اُس کی حفاظت فرماتا ہے، اس لیے تم بھی اولیاء اللہ کی محبت کواپنے اوپر لازم کرلو۔ اُن کا قرب حاصل کرو۔ اُن کے ساتھ اپنے اعتقاد مضبوط رکھو۔ اُن کی وجہ سے تمھیں برکت اور سعادت ملے گی۔ (ایضاً) مسلمانوں کو نصیحت: عزیز من!شریعت کی پابندی لازم پکڑلو۔ ظاہری احکام میں بھی اور باطنی احکام میں بھی، اور اپنے دل کو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی چیزوں سے بچاؤ۔ درویشوں اور غریبوں کی خدمت کو لازم جانواور نیک کاموں میں ہمیشہ جلدی کرو۔ سستی اور کاہلی سے بہر حال بچو۔ اللہ رب العزت کی مرضی پر ہمیشہ جمے رہو۔ اپنے آپ کو رات میں عبادت کا عادی بناو۔ ریاکاری سے دور بھاگو۔ خلوت اور جلوت ہرجگہ اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ۔ (البرہان الموید) علماکی صحبت: علما سے میل جول ختم نہ کرو۔ اُن کی مجلسوں میں بیٹھاکرو۔ اُن سے علم حاصل کرو، اور یہ مت کہو کہ فلاں عالم بے عمل ہے۔ تم اس سے علم کی باتیں لے لو، اور خود اُن پر عمل کرو، اوراُس کو اوراُس کے عمل کو اللہ رب العزت کے حوالے کردو۔ (ایضاً) وصال مبارک: اس طرح ارشادات فرمودات کے گوہر آبدار لٹاتے رہے کہ ایک دن شیخ کبیرسیداحمد رفاعی پیٹ کیایک مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے۔ اس کی وجہ سے مہینہ بھر صاحب فراش رہے اور پھریہی بیماری مرضِ الموت کی شکل اختیار کرگئی۔ بالآخر66؍ سال کی عمرمیں 12؍جمادی الاولیٰ 578ھ کوشریعت وطریقت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اوراپنے جد کریم شیخ یحییٰ بخاری کے گنبد تلے بمقام اُم عبیدہ، عراق میں مدفون ہوئے۔ اُن کاروضہ انورآج بھی ہرخاص وعام کے لیے مرکز عقیدت کی حیثیت رکھتا ہے۔
सदस्यता लें
संदेश (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...