मंगलवार, 12 जून 2018

عید کی خوشی میں غریبوں کو شریک کیجئیے! _________________________________ اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے، جس نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اصول قائم کر کے دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو ایک دوسرے انسان کے بیچ محبت و بھائی چارگی قائم رکھنے کے لئے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ضروری قرار دیا ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا کیا پوچھنا ! آپ نے عید کے دن خاص طور سے غریبوں، مسکیوں اور ہمسایوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی، اور عید کی خوشی میں شریک کرنے کیلئے صدقہ فطر کا حکم دیا تاکہ وہ نادار جو اپنی ناداری کے باعث اس روز سعید کی خوشی نہیں منا سکتے اب وہ بھی خوشی منا سکیں۔ عید الفطرکے سارے فضائل اوربرکتیں اپنی جگہ لیکن اس مبارک دن کا سب سے عظیم فلسفہ یہ ہے کہ یہ امیروں اور غریبوں سبھی کے لئے خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتاہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کیا جائے ۔اپنے پڑوسیوں ،رشتے داروں ،خاندان والوں ،غریبوں اور مفلسوں کاخاص خیال رکھا جائے تبھی صحیح معنوں میں عیدالفطر کی حقیقی خوشی حاصل ہوگی اور عید الفطر کے تقاضے پورے ہوں گے ۔ مگر افسوس آج ہم عید الفطر کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ حساس، باغیرت اور دردمند افراد سے خالی ہوتا جا رہا ہے ۔ایسے افراد اب دھیرے دھیرے عنقا ہوتے جا رہے ہیں جو دوسروں کا بھی خاص خیال رکھتے ہو، عام طور سے ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ عید کے دن اپنے گھروالوں اور بیوی بچوں کا توخوب خیال رکھتے ہیں ان کے لئے مہنگے سے مہنگے اور اچھے سے اچھے ملبوسات حسب وسعت خریدتے ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر بچوں کو ہر خواہش پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اچھے سے اچھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ ماقولات و مشروبات سے شادکام ہوتے ہیں اس تہوارکے موقع پر ان کی فیاضی اپنے شباب پر ہوتی ہے مگر افسوس ان کے ارد گرد ایسے بے شمار لوگ مل جائیں گے جو عید کی لذتوں سے محروم رہ جاتے ہیں نہ ان کے پاس کپڑے خریدنے کے لئے پیسے ہوتے ہیں اورنہ عید کی خوشی حاصل کرنے کے لئے مادی ذرائع ۔ذرا معاشرے میں جھانک کر دیکھے اسی عید کے دن ایک نہیں بہت سارے گھروں میں چولہا تک نہیں جلتا،اپنے بچوں کو عیدی دینے کے لئے ان کے پاس پیسے تک نہیں ہوتے اس لئے ان کے بچوں کے چہروں پروہ خوشیاں دیکھنے کونہیں ملتیں جو دوسروں کے بچوں کے چہروں پر نظر آتی ہیں اپنے بچوں کے پھول جیسے چہرے کو مرجھایا ہوا دیکھ کر ان لوگوں کے دل پر کیا بیتتی ہوگی کیا کبھی اس کا بھی تصوّر کیا ہے ؟ آپ اندازہ فرمائیں کہ جب خاص عید کے دن یہ بے چارے غریب بچے آپ کے بچوں کو ہنسی خوشی کھیلتے کودتے،ماحول کو خوشیاں تقسیم کرتے ،اچھے کپڑے پہنے ہوئے دیکھتے ہوگے تو کیا ان کو اپنی غربت کا احساس نہیں ہوتا ہوگا؟ جن بچوں کے پاس عیدی کے نام پر ایک پیسہ بھی نہ ہو اچھے کپڑے نہ ہوں اور خواہشات کی تکمیل کے ذرائع نہ ہو ں تو ظاہر ہے ان کے دل کو ٹھیس ضرور پہونچے گی۔ اس لئے ہماری آپ کی سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں ،نادار بچوں کو عیدی تقسیم کریں،ان کے گھروں پر سوئیاں اور مٹھائیاں بھجوائیں، ان کو مبارک باد پیش کریں، ان سے نرمی کا برتاؤ کریں اوران سے مساوات کارویہ اپنائیں تا کہ ان کو بھی سماج میں اپنے وقار اور عظمت کا احساس ہو اور وہ اچھے شہری ثابت ہوسکیں اور وہ بھی عیدالفطر کی خوشی میں شامل ہوجائیں ۔ اگر آپ اپنے معاشرے کی فلاح چاہتے ہیں اس کو ترقی سے ہم کنار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس عید الفطر کے دن سے زیادہ کوئی اچھا موقع فراہم نہیں ہوسکتا۔دل سے سارے رنج وغم مٹا ڈالیئے ،محبتیں تقسیم کرنا شروع کر دیجے، آج ہی سے اس کار خیر کی شروعات خود سے کیجئے دوسروں کے انتظار میں مت رہیے اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیجئے اور اخوت اور بھائی چارگی کا مظاہر ہ کیجئے ان شاء اللہ تعالٰی سماج میں صالحیت کا انقلاب برپا ہو جائے گا ۔عیدالفطر میں انفرادی نہیں اجتماعی خوشیاں منائیے در اصل یہی عید الفطر کا پیغام ہے اور یہی اس کا تقاضہ بھی

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...