मंगलवार, 30 जुलाई 2019

شاید ہمارے معاشرے میں اچھے رشتوں کا کال پڑ گیا

شاید ہمارے معاشرے میں اچھے رشتوں کا کال پڑ گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ تو ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پہ طے ہوتے ہیں پھر بھی ہر کوئی رشتے نہ ہونے یا دیر سے ہونے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خاص کر لڑکی کے والدین زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔روز بروز یہ مسئلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہردوسرے گھر میں یہی مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ لڑکیوں کی عمریں گزرتی جا رہی ہیں اور والدین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ وہ اس پریشانی میں وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یقینا سب کو اپنی اولاد کے اس فرض سے جلد از جلد فارغ ہونے کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ اولاد کی جوانی والدین کی نظروں کے سامنے ڈھلتے موسموں کی طرح ہوتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میاں اور بیوی جب زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ایسے گھرانے کی بنیاد رکھتے ہیں جس پر ان کے خاندان کی آئندہ نسلوں کی خوشیوں کا انحصار ہوتا ہے مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کے دور میں لڑکا بلند معیار زندگی کے چکروں میں عمر کے قیمتی سال ضائع کر دیتا ہے جو اسے اپنی شریک سفر اور آنے والی اولاد کے ساتھ گزارنے چاہئیں تھے۔ اس مادی دور کی خواہشات کے چکر میں آج کے نوجوان اپنے آپ کو پیستے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ میڈیا کے زیر اثر ہونے کے باعث خوبصورتی اور گلیمر کا بھوت لوگوں پر سوار ہو چکا ہے اس کی وجہ سے لڑکے اور اس کے والدین آنے والی بہو کے روپ میں ایک سجی سجائی ماڈل تلاش کرتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کا معیار اس قدر تلخ ہو چکا ہے کہ مناسب شکل و صورت کی لڑکیاں بھی مسترد کر دی جاتی ہیں۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ایک سانولے اور عام قد وقامت والے لڑکے کے لئے اس کے والدین نہایت حسین و جمیل ،خوبصورت اور گوری بہو کی جستجو کرتے ہیں جبکہ ان کے اپنے گھر میں سانولی رنگت والی ان کی بیٹی رشتے کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے اور اس کی عمر گزر رہی ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وہ انہیں نظر نہیں آتی حالانکہ دیکھا جائے تو وہ خو دبھی اسی کشتی پر سوار ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کی ددسری قابل مذمت بات یہ ہے کہ اگر کہیں لڑکیوں کے اچھے رشتے آتے بھی ہیں تو والدین یا تو خود منع کر دیتے ہیں یا پھر لڑکیاں انکار کر دیتی ہیں پھر خوب سے خوب تر کی تلاش جاری و ساری رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے والدین کو اپنی بچیوں کے لئے وہ دن دیکھنے پڑتے ہیں جو انہیں ایسی منزل پر پہنچا دیتے ہیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ لڑکا جیسا بھی ہو ، منظور ہے۔

اگر کسی خاندان میں لڑکی کے معیار کے مطابق مناسب رشتہ نہ آرہا ہو تو اکثر مائیں یہ کہتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں کہ میری بیٹی کے رشتے پر کسی نے بندش لگوا دی ہے ،کچھ کروا دیا ہے وغیرہ وغیرہ اور ایسی بہت سی باتیں کہی اور سنی جاتی ہیں جو ان کی پریشانیوں او راذیتوں کو کم کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے گھروں پر نت نئی مصیبتیں او راذتیں دستک دیتی رہتی ہیں پھر ایسے لوگ توہم پرستی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔پیروں، فقیروں کے چکر لگائے جاتے ہیں او رٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں۔ وہ پریشانی کے عالم میں عجیب و غریب حربے استعمال کر بیٹھتے ہیں جس کا انہیں خو دبھی اندازہ نہیں ہوتا ۔

آج کے دور میں زیادہ تر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکی کے والدین اپنی بچی کی شادی کسی ایسے نوجوان سے کرنا چاہتے ہیں جس کا خاندان مختصر ہو ، لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو ، کوٹھی اورکار کا مالک ہو۔ اس قسم کی سوچ رکھنے اورغیر ضروری معیار بنا لینے سے یقیناً رشتوں میں مزید رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح رشتو ں کی تلاش میں لڑکے والوں کا معیار بھی ظاہری خوبصورتی ہوتا ہے جس سے معاشرے میں کافی لوگوں کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہے۔ اکثر رشتے سے انکار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ لڑکی کی سانولی رنگت ہے یا موٹی ناک ، ہے ،چھوٹا قد، چھوٹی آنکھیں ہیں۔ دیکھا جائے تو کسی بھی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی بھی انسان کی شکل و صورت پر تبصرہ کرے کیونکہ یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ یقیناً ہم ایسے معیارات متعین کر کے در حقیقت گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اچھے رشتوں کا معاشرے میں کال پڑچکا ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ برائیوں کی آندھیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور معاشرہ برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں کسی بات کا ہوش نہیں رہا۔ ہمیں یہ احساس بھی نہیں کہ ہماری نوجوان نسل بہت تیزی سے تباہی کی روش اپنا رہی ہے اور ہمارے خوابیدہ معاشرے کو اس تباہی کی سنگینی کا نہ تو اندازہ ہے اور نہ ہی پروا۔




मंगलवार, 9 जुलाई 2019

تذکرہ حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ

تذکرہ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نام و نسب: اسم گرامی: محمد اسماعیل رضا۔
لقب: تاج الشریعہ۔ عرفیت: اختر رضا۔آپ ’’اختر‘‘ بطورِ تخلص استعمال فرماتے تھے۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے: تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں بن مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا خاں بن حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں بن شیخ الاسلام امام احمد رضا خاں بن رئیس الاتقیا مولانا نقی علی خاں بن امام العلماء مولانا رضا علی خاں بن مولانا شاہ محمد اعظم خاں بن مولانا حافظ کاظم علی خاں بن محمد سعادت یار خاں بن شجاعت جنگ سعید اللہ خاں قندھاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔(مفتی اعظم اور ان کے خلفاء، ص145)

حضرت تاج الشریعہ، مفسر اعظم مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی میاں کے صاحبزادے، حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں کے پوتے، مفتیِ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں کے نواسے؛ اور شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پڑپوتے تھے۔

تاریخِ ولادت: آپ کی تاریخِ ولادت میں مختلف اقوال ہیں: 14؍ ذوالقعدہ 1361ھ/ 23؍نومبر1942ء، بروز منگل ۔ 24؍ذوالقعدہ 1362ھ،مطابق 23؍نومبر 1943ء ۔25؍محرم الحرام 1362ھ/یکم فروری 1943ء۔25؍ صفر 1361ھ /1942ء۔ صاحبِ سوانحِ تاج الشریعہ کے بقول اول الذکر راجح ہے۔(سوانح تاج الشریعہ، ص18)
تحصیل علم: حضرت تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر شریف جب 4 ؍سال، 4؍ماہ، اور 4؍ دن ہوئی تو آپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خاں جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد فرمائی۔ اس تقریب سعید میں دارالعلوم منظر الاسلام کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کرائی۔ قرآن مجید والدہ ماجدہ سے گھر پر مکمل کیا۔ والد ماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں، اس کے بعد والد ماجد نے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کرا دیا۔ درس نظامی کی تکمیل دارالعلوم منظر اسلام سے کی۔ تاج الشریعہ بچپن ہی سے ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کے مالک، اور عربی ادب کے دلدادہ تھے۔ جامعہ ازہر مصر میں داخلہ کے بعد جب آپ کی جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ سے گفتگو ہوتی تو وہ آپ کی بے تکلف فصیح و بلیغ عربی سن کر محوِ حیرت ہو جاتے ،اور کہتے کہ ایک عجمی النسل ہندوستانی عربی النسل اہلِ علم حضرات سے گفتگو کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا۔

درسِ نظامی کی تکمیل کےبعد 1963ءمیں جامعۃ الازہر قاہرہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ’’کلیۃ اصول الدین‘‘ میں داخلہ لیا اور مسلسل تین سال تک جامعۃ الازہر مصر میں فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ حضرت تاج الشریعہ 1966ء /1386ھ کو جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ جامعۃ الازہر میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر ’’جامعۃ الازہر ایوارڈ‘‘سے نوازے گئے۔ آپ تمام علوم ِقدیمہ اور جدیدہ پر مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ قرأت عشرہ کے ماہر تھے، بالخصوص جب مصری لہجے میں تلاوت فرماتے تو سامعین جھوم جھاتے، حضرت تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو چھتیس علوم پر مہارت، اور عربی، اردو، فارسی، اور انگلش پرمکمل عبور حاصل تھا۔ ان کے علاوہ علاقائی زبانیں میں بھی بات چیت فرمایا کرتے تھے۔

آپ کے اساتذہ کرام:
آپ کے اساتذہ میں قابل ذکر اساتذہ کرام یہ ہیں: مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا خاں، بحر العلوم مفتی سید محمد افضل حسین مونگیری، مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی، فضیلۃ الشیخ علامہ محمد سماحی، شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر ،حضرت علامہ محمود عبدالغفار، استاذ الحدیث جامعہ ازہر ، ریحان ملت مولانا محمد ریحان رضا خاں رحمانی میاں، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔(مفتی اعظم ہند اور آپ کے خلفاء، ص150)

بیعت و خلافت: حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حاصل ہے۔ حضرت مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بچپن میں آپ کو بیعت کا شرف عطاء فرما دیا تھا، اور صرف 19؍ سال کی عمر میں 15؍جنوری 1962ء/1381ھ کو تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ علاوہ ازیں خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء شاہ آل مصطفیٰ برکاتی، احسن العلماء سید حیدر حسن میاں برکاتی، والد ماجد مفسر اعظم مفتی ابراہیم رضاخاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔(ایضا:ص160)

حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر بچپن میں آثارِ سعادت و ولایت ظاہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو آپ کے بچپن سے ہی بے انتہا توقعات وابستہ تھیں، جس کا اندازہ آپ کے ان ارشادات عالیہ سے لگایا جا سکتا ہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے: ’’اس لڑکے(حضرت تاج الشریعہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) سے بہت امید ہے‘‘۔(تذکرہ تاج الشریعہ، ص4)

سیرت و خصائص: سراج المفسرین، فخر المحدثین، زبدۃ العارفین، فقیہ الاسلام، تاج الاسلام، نبیرۂ اعلیٰ حضرت، وارثِ علوم ِ مجدد دین و ملت، مظہر حجۃ الاسلام، شہزداۂ مفسرِ اعظم، جانشینِ مفتیِ اعظم، قاضی القضاۃ فی الہند، مفتی اعظم ہند، شیخ العربِ والعجم، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ آپ رحمۃ للہ تعالیٰ علیہ اہل السنۃ والجماعت کے ممتاز ترین صاحبِ علم و بصیرت، اور باقیاتِ صالحین میں سے ایک تھے۔ آپ حقیقۃً امام اہل سنت شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلفِ صادق، جانشینِ کامل،حجۃ الاسلام کے عکسِ جمیل، مفتیِ اعظم ہند اور مفسر اعظم ہند کے علوم و معارف کے وارثِ اکمل تھے۔ ذکاوتِ طبع اور قوتِ اتقان، وسعتِ مطالعہ میں اپنی مثال آپ تھے۔درس و تدریس، فقہ و افتاء، قرأت و تجوید، منطق و فلسفہ، ریاضی، علم جفر و تکسیر، اور علم ہیئت و توقیت میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ مفتی عبدالرحیم بستوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ’’ سب ہی (خاندانی) حضرات ِ گرامی کے کمالات ِ علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملا ہے۔ فہم و ذکا، قوتِ حافظہ و تقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے، جودتِ طبع و مہارت تامہ (عربی ادب) حضور حجۃ الاسلام سے، فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتی اعظم ہند سے،قوتِ خطابت و بیان والدِ ذی وقار مفسر اعظم ہند سے۔ یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کو وراثتاً حاصل ہیں جن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے۔(سوانح تاج الشریعہ) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کثیر کتب کے مصنف تھے۔ فنی موضوعات پر علمی زبان استعمال کرتے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کی تحریرات سےثقالت و اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی،آپ ہر موضوع پر ادیبانہ اسلوب اختیار کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔آپ کی تحریروں میں سلاست و روانی،ایجاز و اختصار، تشبیہات و استعارات، فصاحت و بلاغت، پائی جاتی ہے۔ بالخصوص فقہ و افتاء میں خصوصی مہارت حاصل تھی، فقہی جزئیات ،اور علمی استدلال سے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جھلک پائی جاتی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاویٰ علم کے خزینے، اور مجتہدانہ بصیرت کے حامل ہیں۔اسی طرح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو عربی، فارسی،اردو، ہندی،ادب پر دسترس حاصل تھی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح جس زبان میں سوال کیا جاتا تھا، اسی میں جواب دیتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تدریسی اور بحیثیت مفتی دارالافتاء منظر اسلام میں اکیاون (51) سالہ خدمات ہیں۔ جس میں دنیا بھر سے ہزاروں فتاویٰ جات کے جوابات، مختلف موضوعات اور مختلف زبانوں پر علمی تحریرات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سب مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا فیضان تھا، حضرت مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ’’اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے، کبھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتے، اب تم اس کام کوانجام دو، میں تمہارے سپرد کرتاہوں‘‘۔ پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ سے رجوع کریں، انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں‘‘۔ تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسند افتاء کا ایسا حق ادا کیا کہ اعلیٰ حضرت مجدد اسلام اور مفتی اعظم ہند علیہما الرحمہ کی یاد تازہ ہوگئی، اور دنیا میں ’’تاج الشریعہ‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے، اوریہ لقب ایسا سجا کہ جیسے اعلیٰ حضرت سنتے ہی ذہن فوراً امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، اسی طرح ’’تاج الشریعہ‘‘ سے ذہن مفتی اختر رضاخاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے آپ کو ذوقِ سخن سے بھی وافر حصہ عطاء فرمایا تھا۔ عربی، فارسی، اور اردو تینوں زبانوں میں آپ کی نعتیہ شاعری موجود ہے۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے نام سے متعدد بار شائع ہو کر ارباب ِ سخن سے دادِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔ جہاں آپ کے نثری شہ پارے ادبی حیثیت کے حامل ہیں، وہی آپ کی شاعری بھی آپ کی قادر الکلامی پر شاہد و عادل ہے۔ اللہ رب العزت نے جانشین مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جن گو ناگوں صفات سے متصف کیا تھا۔ ان صفات میں سے ایک حق گوئی اور بے باکی بھی ہے۔ آپ نے کبھی بھی صداقت و حقانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ چاہے کتنے ہی مصلحت کے تقاضے کیوں نہ ہوں، چاہے کتنے ہی قیدو بند، مصائب وآلام اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہننا پڑیں کبھی کسی کو خوش کرنے کے لئے اس کی منشاء کے مطابق فتویٰ نہیں تحریر فرمایا۔ جب کبھی کوئی فتویٰ تحریر فرمایا تو اپنے اسلاف، اپنے آباؤاجداد کے قدم بقدم ہو کر تحریر فرمایا۔ جس طرح جد امجد امام احمد رضا فاضل بریلوی اور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری نے بے خوف و خطر فتاویٰ تحریر فرمائے اسی طرح اپنے اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جانشین مفتی اعظم نظر آتے ہیں۔ اس حق گوئی کے شواہد آج آپ کے ہزاروں فتاویٰ ہیں جو ملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح تصلب فی الدین اور مسلک اعلیٰ حضرت، اور تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پوری دنیا میں تبلیغی دورے فرماتے تھے، لیکن صلح کلیت کے بالکل خلاف تھے۔ امت ِ مسلمہ کی زبوں حالی، اور بابری مسجد کی شہادت و پامالی پر لوگوں نے آنسو بہاتے دیکھا، اور اسی طرح مسلمانانِ ہند پر ہنود کے مظالم پر کبھی خاموش نہ رہے، ساری زندگی حق کی آواز بلند فرماتے رہے۔ ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔ اس میں اپنے پرائے کی کبھی پراوہ نہ کی۔ اس آواز کو منصب و عہدے کا لالچ دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی،تو آپ نے اپنے جد امجد کی آواز میں یہ جواب دیا:؏:
میں غلام ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ نان نہیں یہ آپ ہی تھے کہ 1995ء کو وزیر اعظم ہند7؍گھنٹے بریلی سرکٹ ہاؤس میں آپ کا انتظار کرتا رہا، اور اس کا سیکرٹری بار بار حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ لیکن حضرت نے یہ کہہ کر ملاقات سے صاف انکار کردیا: ’’میں ایسے شخص سے ملاقات نہیں کرسکتا؛ جس کے ہاتھ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ہیں‘‘۔(سوانح تاج الشریعہ:72)
اہل سنت وجماعت کی موجودہ صورت حال جس میں باالعموم پاک وہند کے سنی علماءِ کرام کا پوری دنیا کے سنی علماء و شیوخ سےکوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔ جب کہ بدمذہبوں نے پوری دنیا کے حنفی اور صوفیاء کو اپنی عیاری اور چالاکی سے متوجہ کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے علماء و صوفیاء کی نظر میں ہماری کوئی شخصیت نہیں ہے، جن کا علمی، یا ویسے ہی کسی لحاظ سے ان کے ہاں کوئی تعارف موجود ہو۔ یہ حضرت تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذاتِ گرامی تھی، کہ جن کا عرب اور مسلم دنیا میں ایک خاص مقام تھا۔ عرب کے جید علماء و صوفیاء اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نسبت اور آپ کی علمی قابلیت و صلاحیت کی بناء پر قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔عرب دنیا کے سوشل و الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر حضرت کے وصال کی خبر ایسے ہی شائع ہوئی جس طرح پاک و ہند میں ہوئی۔ بڑے بڑے شیوخ نے تعزیتی کلمات کے ساتھ لواحقین سے اظہارِ تعزیت فرمایا، جب کہ ایصالِ ثواب کا سلسلہ پوری دنیا میں ہوتا رہا۔حضرت تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فیضانِ علوم و معارفِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پوری دنیا میں عام کیا۔ آپ کےحلقہ ارادت میں ہرطبقہ فکر کے لوگ پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔

وصال پر ملال: 7؍ ذوالقعدہ 1439ھ، مطابق 20؍ جولائی 2018ء، بروز جمعۃ المبارک؛ بوقتِ آذانِ مغرب،واصل باللہ ہوئے۔ازہری گیسٹ ہاؤس بریلی شریف(ہند) میں ابدی آرام فرماہیں۔












کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...