शुक्रवार, 3 फ़रवरी 2017

سائنس کا جاہلانہ نظریہ انسان پہلے بندر تھا!

سائنس کا جاہلانہ نظریہ انسان پہلے بندر  تھا
________________________________

کچھ لوگ سائنس پر اندھا دھند اعتبار کرتے ہیں اور اس کی ہر بات کو سچ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش بھی کرتے
ہیں۔لیکن سائنس میں کچھ نظریات ایسے بھی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ جن کی بنیاد صرف مفروضات پر مبنی ہے۔ انہی میں سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ " انسان پہلے بندر تھا یا انسان بندر سے وجود میں آیا "۔
یہ پرلے درجے کی نامعقول اور ایک غیر حقیقی بات ہے۔ یہاں ہم سنجیدگی کے ساتھ اپنے زرا سوچو پیج کے دوستوں کے سامنے چند سوالات رکھتے ہیں۔ آپ ان پر غور کرلیں ، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔
1۔سوال یہ ہے کہ اگر انسان بندر ہی سے بنا ہے تو کئی ہزار سالوں سے کوئی جدید بندر انسان کیوں نہ بن سکا اور آج ساری دنیا پوری کوشش کرکے کسی بندر کو انسان کیوں نہ بنا سکی؟
2۔ نیز بندروں سے انسان بننے کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا ؟
3۔کس نے یہ بنتے دیکھا تھا؟
4۔ کون اس کا راوی ہے؟
5۔ کس پرانی کتاب سے یہ بات مطالعہ میں آئی ہے؟
6۔نیز یہ سلسلہ شروع کب ہوا اور کب سے بندروں پر پابندی لگ گئی کہ جناب! آئندہ آپ میں کوئی انسان بننے کی جرأت نہ کرے۔
7۔ نیز بندر سے انسان بنا تو دُم کا کیا بنا تھا؟ کیا انسان بنتے ہی دُم جھڑ گئی تھی یا کچھ عرصے بعد کاٹی گئی یا گھسٹ گھسٹ کر ختم ہوگئی ۔
بہرحال جو کچھ بھی ہوا ،کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ دُم والے انسان پائے جاتے تھے۔ الغرض بندروں والی بات بندر ہی کرسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں جس بات کا شور مچایا ہوا ہے۔ اس کی کوئی کَڑی سلامت نہیں ، اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ بس خیالی مفروضے قائم کرکے اچھے بھلے انسان کو بندر سے جاملایا۔
آئیے اپنے زرا سوچو پیج کے دوستوں کو انسان کی ابتدا کے متعلق عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ابتداء حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہوئی اور اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے انسانیت کی ابتداء ہونا بڑی قوی دلیل سے ثابت ہے مثلاً دنیا کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے دنیا میں انسانوں کی تعداد آج سے بہت کم تھی اور اس سے سو برس پہلے اور بھی کم تو اس طرح ماضی کی طرف چلتے چلتے اس کمی کی انتہاء ایک ذات قرار پائے گی اور وہ ذات حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا یوں کہئے کہ قبیلوں کی کثیر تعداد ایک شخص پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں مثلاً سیّد دنیا میں کروڑوں پائے جائیں گے مگر اُن کی انتہا رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ایک ذات پر ہوگی، یونہی بنی اسرائیل کتنے بھی کثیر ہوں مگر اس تمام کثرت کا اختتام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک ذات پر ہوگا۔ اب اسی طرح اور اوپر کو چلنا شروع کریں تو انسان کے تمام کنبوں ، قبیلوں کی انتہا ایک ذات پر ہوگی جس کا نام تمام آسمانی کتابوں میں آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک شخص پیدائش کے موجود طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی ماں باپ سے پیدا ہوا ہو کیونکہ اگر اس کے لئے باپ فرض بھی کیا جائے تو ماں کہاں سے آئے اور پھر جسے باپ مانا وہ خود کہاں سے آیا؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیدائش بغیر ماں باپ کے ہو اور جب بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو بالیقین وہ اِس طریقے سے ہٹ کر پیدا ہوا اور وہ طریقہ قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا جو انسان کی رہائش یعنی دنیا کا بنیادی جز ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ایک انسان یوں وجود میں آگیا تو دوسرا ایسا وجود چاہیے جس سے نسلِ انسانی چل سکے تو دوسرے کو بھی پیدا کیا گیا لیکن دوسرے کو پہلے کی طرح مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کی بجائے جو ایک شخص انسانی موجود تھا اسی کے وجود سے پید افرما دیا کیونکہ ایک شخص کے پیدا ہونے سے نوع موجود ہوچکی تھی چنانچہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا کیا گیا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بائیں پسلی ان کے آرام کے دوران نکالی اور اُن سے اُن کی بیوی حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا کیا گیا۔ چونکہ حضرت حوا علیہاالسلام مرد وعورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں اس لئے وہ اولاد نہیں ہو سکتیں۔ خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پاس حضرت حواعلیہاالسلام کو دیکھا تو ہم جنس کی محبت دل میں پیدا ہوئی ۔ مخاطب کرکے حضرت حوا علیہاالسلام سے فرمایا تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا: عورت۔ فرمایا: کس لئے پیدا کی گئی ہو؟ عرض کیا: آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تسکین کی خاطر، چنانچہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے مانوس ہوگئے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۳۴۰)

تو یہ اصل انسانی تخلیق تھی۔ انسان انسان سے ہی پیدا ہوا نہ کہ کسی بندر سے۔ بس ذہن میں رہے کہ سائنس ہمیشہ سچ نہیں کہتی۔  

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...