शुक्रवार, 31 मार्च 2017
سیرتِ خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ___________ __________________________سر زمین ہند میں جہاں ہزارہا برس سے معبودان باطلہ کی پرستش کی جاتی تھی،اس زمین کی ہواؤں اورفضاؤں نے اسم باریٔ تعالی ونام مصطفوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے اپنی سماعت کو بہرورنہ کیاتھا، جہاں ظلم واستبداد ،حق تلفی اورقتل وغارت گری کو عزت وشان تصور کیا جاتا تھا، امام الاولیاء،قدوۃ الاصفیاء ، غواص بحر معرفت،سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمان نبوی پر یہاں تشریف لاکر اس سرزمین کو انوار توحید ورسالت سے منور کیا ،باطل پر ستی کا قلع قمع فرماکر ذرہ ذرہ کو معرفت آگاہ وحق شناس بنا دیا ۔شجر اسلام کا بیج بونے کیلئے آپکو پر خطر حالات کا سامنا کرنا پڑا،آپ اور آپکے مریدین کی مختصر جماعت کے سوا سارے دیار ہند میں باطل پرستوں کا شورو غلبہ تھا، اس اجنبی ماحول میں آپ نے مخالفت کی ہواؤں کا جبل استقامت بن کر مقابلہ کیا۔آج کے پر فتن دور میں تعلیمات اسلامیہ عام کرنے اور اشاعت دین کے لئے نصیحت و موعظت کا اسلوب اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام کا پیام باہم محبت و الفت کا فروغ اور امن و سلامتی کی اشاعت ہے، ہمیں اسلاف کرام و صالحین عظام کے اسلوبِ تبلیغ کو اپنانا چاہئے ۔ خواجۂ ہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے ہندوستان میں شمع اسلام کو روشن کیا اور اسلام کے پیغام کو عام کیا جب ہندوستان تشریف لائے تو اپنے ساتھ لشکر جرار،تیر و تلوار لے کر نہیں آئے بلکہ اخلاقِ احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم‘بلندکردار اور اسلامی اقدارلے کر آئے، حضرت سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ آیات قرآنیہ‘ احادیث نبویہ اور بزرگان دین کے اقوال واعمال کا ذکر فرماکر لوگوں کی اصلاح فرماتے ،حاضرین اپنی اپنی استعداد کے مطابق مستفیض ہوتے، آپ کی مبارک مجالس میں شریعت وطریقت اور حقیقت ومعرفت کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جاتااور فرائض وسنت کی ادائیگی،ریاضت ومجاہدہ ،پاکیزگی وخلوص ،طہارت ونفاست ،صدق وصفا،خوف خدا ،اور مخلوق خدا کی خدمت کی تعلیم دی جاتی ۔
मंगलवार, 28 मार्च 2017
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ غیرو کی نظر میں! ____________________________________________________________ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستان کفر و شرک کا گہوارہ تھا، اصنام پرستی عام تھی، ایمان بالغیب کا کوئی تصور نہ تھا کیونکہ یہاں کے باسی محسوس خداؤں کی پرستش کے خوگر بن چکے تھے۔ ہر سُو ظلم و بربریّت کا دور دورہ تھا۔ مختلف مذاہب کے لوگ تو درکنار، ایک ہی دھرم کے پجاریوں میں بھی مساواتِ انسانی کا کوئی تصور نہ تھا۔ ایک آدم کی اولاد چار ذاتوں میں منقسم ہو چکی تھی۔ کسی کی جان و مال یا آبرو محفوظ نہ تھی۔ عورت کو ذلیل سمجھا جاتا ، وہ اپنے شوہر کی موت پر اس کی چتا میں زندہ جل مرنا اپنا مذہبی فریضہ گردانتی تھی۔ برہمن دیگر ہندوؤں کیلئے معاشی طفیلئے (Economic Parasite)تھے۔ اِن حالات میں برصغیر میں مسلمانوں کے دو گروہ داخل ہوئے۔ ایک مسلم فاتحین جنہوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور دوسرے مسلمان صوفیاء عظام، جنہوں نے یہاں کے باسیوں کے دِلوں کو مسخر کیا۔ اِن دونوں طبقات نے برصغیر کی انسانی تہذیب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مؤخرالذّکر طبقے کے لوگ ایسے بلند کردار، انسان دوست اور بااخلاق تھے کہ انہوں نے رنگ و نسل اور مذہب وملت کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر ایک تک اپنا محبت بھرا پیغام پہنچانے کی سعی کی۔ اِن شخصیات میں اتنی کشش تھی کہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اِن کی خانقاہوں پرحاضری دیتے اور اِن کے پیغام کی تاثیر سے حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ۔ اِن برگزیدہ ہستیوں میں ایک نام حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین حسن سجزی ثم اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کا ہے، جو ہند میں سرخیلِ اولیاءِ چشت مانے جاتے ہیں۔ خواجۂ اجمیری علیہ الرحمتہ کی حیات و خدمات، کشف وکرامات اور افکار وار شادات کے متعلق مختلف زبانوں میں نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اُن کے بارے میں صرف مسلم قلمکاروں نے ہی نہیں لکھابلکہ غیر مسلم اور مغرب کے دانشور بھی اُن کی تعریف و توصیف میں رطب اللّسان نظر آتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں غیر مسلم مصنفین کی کُتب سے کچھ اقتباسات نقل کیے جارہے ہیں کیونکہ کسی مسلمان کا خواجۂ اجمیری ؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تو اسکی عقیدت کا مظہر ہے لیکن دائرہ اسلام میں داخل ہوئے بغیر کسی شخص کا اس عظیم صوفی کی عظمت کا اعتراف بہت بڑی بات ہے۔ کسی عربی شاعر نے کیاخوب کہاہے۔ اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَآء (1) (فضیلت اُس گواہی کو ہے جو دشمن دیں ) پروفیسر تھا مس آرنلڈ (Thomas Arnold)شاعرِ مشرق، حکیم الامّت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اُستاد تھے۔ انہوں نے اپنی معروف کتاب "The Preaching of Islam"میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر اِن الفاظ میں کیا ہے:۔ "One of the most famous of the Muslim saints of India and a pioneer of Islam in Rajputana was Khawaja Muin ul-Din Chishti, who died in Ajmir in A.D 1234. He was a native of Sajistan, to the east of Persia and is said to have received his call to preach Islam to the unbelievers in India while on a Pilgrimage to Madina. Here the Prophet (PBUH) appeared to him in a dream and thus addressed him! "The Almighty has entrusted the country of India to thee. Go thither and settle in Ajmer. By God's help the faith of Islam shall through the piety and that of thy followers, be spread in that land." He obeyed the call and made his way to Ajmer which was then under Hindu rule and idolatory prevailed through out the land. Among the first of his converts here was a yogi, who was the spiritual preceptor of the Raja himself : gradually he gathered around him a large body of disciples whom his teaching has won from the ranks of infidelity, and his fame as a religious leader became very widespread and attracted to Ajmer great number of Hindus whom he persuaded to embrace Islam. On his way to Ajmer he is said to have converted as many as 700 persons in the city of Delhi." (2) ہندوستان کے مشہور و معروف اولیائے کبار میں سے خواجہ معین الدین چشتی ؒ بھی ہیں جنہوں نے راجپوتانہ میں اسلام کی تبلیغ کی اور 1234ء میں اجمیر میں انتقال کیا۔ وہ سجستان کے رہنے والے تھے جو ایران کے مشرق میں واقع ہے۔ مشہور ہے کہ جب خواجہ صاحبؒ مدینہ منورہ کی زیارت کیلئے گئے تو وہاں آپ کو ہندوستان کے کفار میں تبلیغ اسلام کا حکم ملا۔ رسولِ خدا ﷺ اُن کے خواب میں تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ ’’خدا نے ہندوستان کا ملک تیرے سپرد کیا ہے۔ وہاں جا اوراجمیر میں سکونت اختیار کر، خدا کی مدد سے دینِ اسلام تیرے اور تیرے ارادت مندوں کی پرہیز گاری سے اُس سرزمین میں پھیل جائے گا۔‘‘ خواجہ صاحب نے اس حکم کی تعمیل کی اور اجمیر میں آئے جہاں کا راجہ ہندو تھا اور ملک میں ہر طرف بت پرستی پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں پہنچنے کے بعد جس ہندو کو پہلے پہل آپ نے مسلمان کیا، وہ راجہ کا ایک جوگی گرو تھا۔ رفتہ رفتہ اُن کے مریدوں کی ایک کثیر جماعت اُن کے پاس جمع ہو گئی جنہوں نے ان کی تعلیم و تلقین سے بت پرستی چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا۔ اب ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے آپ کی شہرت سب طرف پھیل گئی اور آپ کا شہرہ سُن کر بہت سے ہندو لوگ اجمیر میں آئے اور آپ کی ترغیب سے مسلمان ہو گئے۔ روایت ہے کہ جب آپ اجمیر جاتے ہوئے راستے میں دہلی میں ٹھہرے تھے تو وہاں آپ نے سات سو ہندوؤں کو مسلمان کیا تھا۔ (3) ایک اور مستشرق جے، اسپنسر ٹری منگھم (j. Spencer Trimingham)نے اپنی کتاب میں سلسلۂ چشتیہ کو قدیم ترین تصوّف کے سلاسل میں شمار کیا ہے۔ وہ "The Sufi Orders in Islam"میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے متعلق رقمطراز ہیں: " Mu'in ud-din went to Delhi in 589AH/1193AD, then to Ajmer, seat of an important Hindu state, where he finally settled and died (633AH/ 1236AD), and where his tomb became centre for pilgrimage." (4) حضرت معین الدین 589ھ 1193/ء میں دہلی تشریف لے گئے،پھر اجمیر گئے جو ایک اہم ہندو ریاست کا صدر مقام تھا۔جہاں بالآخر آپ سکونت پذیرہو گئے اور633ھ 1236/ء میں انتقال فرمایا اور وہاں آپ کا مزار زیارت کا مرکز بن گیا۔ مرے ٹی ۔ٹائی ٹس (Murray T.Titus)نے اُنیس برس تک برصغیر پاک و ہند میں رہ کر اس خطے میں اشاعتِ اسلام کے موضوع پر تحقیق کی۔اس مقالے کی تکمیل پر انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔اُن کا یہ مقالہ پہلی بار 1929ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا اور پھر 1990ء میں پاکستان میں بھی اشاعت پذیر ہوا۔ اس مستشرق نے خواجہ صاحب کوہندوستان کا سب سے معروف مسلم مبلّغ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:۔ "Perhaps the Most famous Muslim missionary of India was Khawaja Mu'in ud-Din Chishit, who died in Ajmer in 1236AD." (5) مرے مزید لکھتا ہے کہ خواجہ صاحب کی شہرت ایک مرشد کی حیثیت سے اجمیر کے قرب وجوار تک پھیل گئی اور ہندو بڑی تعداد میں اُن کے پاس آتے اور اُن کی ترغیب سے دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتے۔(4) اے جے ۔ آربیری (A.J.Arberry)نے "Sufism"میں قادریہ، سہروردیہ، شاذلیہ کے علاوہ مولانا جلال الدین رومیؒ کے سلسلہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ (7) لیکن انہوں نے سلسلۂ چشتیہ کو نہ جانے کیوں نظر انداز کر دیا۔ اس لئے اُن کی کتاب میں خواجۂ اجمیری ؒ کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ولیم سٹوڈارٹ (William Stoddart)نے تصوّف کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:۔ "The most renowned Sufi Order to originate in India...........is the Chishti Tariqa, founded by Mu'in ud-Din Chishti (1142AD-1236AD), whose tomb at Ajmer is one of the greatest shrines in the sub-continent, and is much visited and revered by Hindus and Muslims alike." (8) ہندوستان میں جاری ہونے والا سب سے معروف صوفی سلسلہ چشتی طریقہ ہے، جس کے بانی معین الدین چشتی ؒ (1142ء۔ 1236ء) ہیں، جن کا اجمیر میں مزار برصغیر کے عظیم مزاروں میں سے ایک ہے اور ہندو اور مسلمان یکساں طور پر اس پر بہت حاضری دیتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ دراصل خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی اجمیر میں آمد سے قبل ہندو ذات پات کے ایسے نظام میں جکڑے ہوئے تھے کہ ادنیٰ ذات کے ہندوؤں کو اعلیٰ ذات کے مندروں میں جانے تک کی بھی اجازت نہ تھی۔ اگر کوئی مسلمان ان کی رسوئی میں پاؤں رکھ دیتا تو اِن کا سب کچھ بھرشٹ ہوجاتا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظرےۂ توحید عملی حیثیت سے پیش کیا اور بتایا کہ یہ صرف ایک تخیّلی چیز نہیں بلکہ زندگی کاایک ایسا اُصول ہے جس کو تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنی ہوجاتی ہے۔ (9) خواجہ غریب نواز ؒ کی زندگی میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو اُن کی درگاہ پر حاضر ہونے کی اجازت تھی۔ خواجہ اجمیریؒ نے اجمیر میں سکونت پذیر ہونے کے بعد لنگرخانہ قائم کیا جہاں ہندو اور مسلمان غرباء کو روزانہ کھانا ملتاتھا۔ (10) اُن کے وصال کے بعد بھی غیر مسلم اُن کے مزارِ اقدس پر حاضری دیتے ہیں۔ اس کا ذکرسیّد امیر علی نے "The Spirit of Islam"میں یوں کیا ہے:۔ "His mausoleum at Ajmer is the resort of pilgrims, both Moslem and Hindu, from all parts of India." (11) ’’اُن کا مزار سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی زیارت گاہ ہے۔ ‘‘ پی،ایم کیوری(P.M.Currie)نے لکھا ہے کہ ہندو بھی اُن کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔(12) ای۔جے برل لیڈن کے مطبوعہ "The Encyclopaedia of Islam"میں مقالہ نگار خلیق احمد نظامی نے لکھاہے:۔ "His tomb is venerated by Hindus and Muslims alike and hundreds of thousands of people from all over Indo-Pakistan sub- continent assemble there on the occasion of his ‘‘Urs’’." (13) اُن کے مزار کا ہندو اور مسلمان یکساں طور پر احترام کرتے ہیں اور برصغیر ہندو پاکستان سے لاکھوں لوگ اُن کے عرس کے موقع پر وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہی بات Murray T.Titusنے اپنے الفاظ میں یوں رقم کی ہے:۔ "His tomb at Ajmir is the centre of attraction for tens of thousands of Muslim, and even Hindus, who annually visit the city on the occasion of the ‘‘Urs’’, or festival, which celebrates the anniversary of the death of the saint." (14) اکبر ایس۔ احمد نے اپنی تصنیف "Living Islam"میں لکھا ہے کہ معین الدین چشتی ؒ کا پیغام صلحِ کل تھا، یہی وجہ ہے کہ زائرین سینکڑوں کی تعداد میں اُن کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، جن میں اکثریت ہندوؤں کی ہوتی ہے۔ اُن کے اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:۔ "Muin ul-Din arrived in Indea in the twelfth century, and the continuing validity of his message........"pcace for with all", "Sulh-i-Kul"........is illustrated by the hundred of pilgrims who daily visit his shrine. The majority are Hindus, and their presence is a testimony to the synthesis and harmony the Sufi saint effected."(15) بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’’اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین چشتی قدس سرہ العزیز کی عالمگیر مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یقینی امر ہے کہ وہ ہندی زبان سے ضرور واقف تھے کیونکہ ہندو بھی مسلمانوں سے کم اِن کے معتقد نہیں ۔(16) دراصل خواجہ اجمیری ؒ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی محفل میں آنے والے ہر غیر مسلم کو آتے ہی اپنا مذہب تبدیل کرنے کے بجائے اپنے کردار اور گفتار سے اُس کے دل میں گھر کر لیتے اور پھر دھیر ے دھیرے اسلام کی خوبیاں اُس کے دل میں اتارتے جاتے حتیٰ کہ وہ خود ہی حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے لئے تیار ہو جاتا،جیسا کہ معروف جرمن مستشرق ڈاکٹر این میری شمل) (Anne Marie Schimmelنے اپنی کتاب "Islam in the India sub-continent"میں خواجہ معین الدینؒ کے طریقِ تبلیغ و تعلیم کے متعلق لکھا ہے:۔ "He did not insist upon the formal conversion of a non-Muslim before the novice had tasted the truth". (17) یعنی آپ اس سے پہلے کہ ایک نیا آنے والا غیر مسلم صداقت کا ذائقہ نہ چکھ لے، اُس کے قبولِ اسلام پر اصرار نہیں کرتے تھے۔ برصغیر کے اس عظیم صوفی کو غیر مسلم قلمکاروں نے صرف نثر ہی میں خراجِ عقیدت پیش نہیں کیا بلکہ بعض غیر مسلم شعراء نے منظوم نذرانۂ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ مشائخِ عظام کی ہندو یاسکھ شعراء کی مدح سرائی کے دو اہم اسباب تھے۔ اوّلاً اِن صوفیاء کرام کو خوش کرنے اور فیوض و برکات کا حصول، ثانیاً تمام مذاہب کی صداقت کا اقرار۔ جیسا کہ دُرگا سہائے سرور جہاں آبادی نے کہا ہے: بُت خانے جدا ہیں، خانقاہیں ہیں جدا ارباب پر سب کی نگاہیں ہیں جدا جویا ترے شیخ و برہمن ہیں دونوں منزل وہی ایک ہے، راہیں ہیں جدا(18) جگن ناتھ آزاد اُردو زبان کے قادر الکلام شاعر، نقّاد اور ماہر اقبالیات ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اسلام ، بانیئاسلام ﷺ اور مسلمانوں کے متعلق بہت کچھ کہاہے ۔ جہاں انہوں نے نعتیہ شاعری میں حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی دل کھول کر مدحت سرائی کی ہے، وہاں بعض اولیاء کرام کو بھی بڑے خوبصورت اشعار میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اُن سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے مجموعۂ کلام ’’نسیم حجاز‘‘ میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی مدح سرائی کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ ضیاء الدین اصلاحی مدیر ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کے مطابق جگن ناتھ آزاد نے خواجہ اجمیریؒ کے مزار پُر انوار پر حاضری کی سعادت بھی حاصل کی۔ (19) آزاد نے اپنی نظم ’’ہندوستان ہمارا‘‘ میں ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا:۔ یہ چشتی خانداں، نازاں ہے جس پر رتبۂ عالی بِنا خواجہ نے اس کی وادیِ اجمیر میں ڈالی پَھلا پُھولا بڑھا یہ خانداں اک پیڑ کی صورت زمیں پر اس کا پھیلا سائباں اک پیڑ کی صورت تنا اور پیڑ ہے یہ اور شاخیں ہیں کئی اس کی ہزاروں دور گزرے پھر بھی صورت نئیہے اس کی (20) اپنی نظم ’’اے کشورِ ہندوستاں ‘‘ میں جگن ناتھ آزاد سرزمینِ خواجہ کا یوں ذکر کرتے ہیں:۔ اجمیر کی درگاہ سے تیری زمیں ہے آسماں ذرے ہیں تیرے کہکشاں اونچا رہے تیرا نِشاں اے کشور ہندوستاں (21) اس شاعر نے اپنی شاعری میں متعدد صوفیاء کرام کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اپنی نظم ’’بھارت کے مسلماں‘‘ میں انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ العزیز کے علاوہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ ، علاؤ الدین صابر کلیریؒ ، شیخ جمال ہانسوی ؒ اور مجدد الف ثانی ؒ کا اس طرح ذکر کیا ہے:۔ اجمیر کی درگاہِ معلی تری جاگیر محبوب الٰہی کی زمیں پر تری تنویر ذرّات میں کلیر کے فروزاں تری تصویر ہانسی کی فضاؤں میں ترے کیف کی تاثیر سر ہند کی مٹی ہے ترے دم سے فروزاں بھارت کے مسلماں (22) جگن ناتھ نے خواجہ اجمیری ؒ کے سلسلے کے کئی اولیاء کرام کا ذکر مختلف نظموں میں کیا ہے۔ان میں امام الاولیاء، قطب زماں حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمہما اللہ تعالیٰ جیسی ہستیاں شامل ہیں۔ حضرت معین الدین اجمیری ؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دینے والوں میں ہندو و مسلم عوام کے علاوہ خواص بھی ہوتے ہیں۔ اُن کی درگاہ پر حاضر ہونیوالوں میں مسلم اور غیر مسلم حکمران بھی شامل ہیں۔ جو دھپور کا راجا مالدیو، خواجہ غریب ؒ کی اس قدر عزت کرتا تھا کہ اُس نے آپ کے مزار کے قرب و جوار میں کچھ نئی تعمیرات کرائیں اور آپ کی اولاد کا بہت احترام کیا کرتا تھا۔(23) یوں لگتا ہے کہ خواجہ غریب نوازؒ کے فیوض و برکات سے مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی مستفیدہوتے رہے ہیں۔ بقولِ شاعر ہوئے سیراب اس چشمے سے ہندو بھی، مسلماں بھی جب جارج پنجم (George V)ہندوستان کے دورے پر آیا تو اس کی تفریحِ طبع کیلئے شیر کے شکار کااہتمام کیا گیا اور اس کی اہلیہ کوئین میری کو اجمیر شریف کی زیارت کرائی گئی اور وہ مزار کی زیارت سے بہت متاثر نظر آئی۔(24) آج بھی حکومت ہند کے مسندِ اقتدار پر متمکن لوگ خواجۂ اجمیر ؒ کے حضور حاضری دینا اپنے لیے باعثِ برکت خیال کرتے ہیں۔ حوالہ جات 1۔ بعض رسائل و جرائد میں اس عربی مصرعے کو حدیث لکھ دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ قولِ رسول ﷺ ہرگز نہیں۔ جس عربی شعر کا مصرعِ ثانی ہے، وہ ملاحظہ ہو: وملیحۃ شھدت لھا ضراتھا والفضل ماشھدت بہ الاعداءٗ ترجمہ:۔ صحیح معنوں میں خوبصورت عورت وہ ہے جس کی سوکنیں اُس کی خوبصورتی کی شہادت دیں۔ حقیقی فضیلت تو وہی ہے کہ دشمن بھی اُس کی گواہی دیں۔ 2۔ Arnold, Sir Thomas, The Preaching of Islam Lahor: Shirkat-i-Qualam,1956. P.281. 3۔ آرنلڈ، پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔دعوتِ اسلام، مترجم ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ (لاہور:محکمہ اوقاف پنجاب، 1972ء) ص: 279۔ 4۔ Trimingham,J. Spencer, The Sufi Orders in Islam (Oxford University press, 1971) P.64-65 5۔ Titus, Murray. T. Islam in India and Pakistan (Karachi: Royal Books company,1990) P. 43. 6۔ Ibid, P. 44 7۔ Arberry, A.j, Sufism (London: George Allen & Unwin Ltd. 1972) P. 84-92 8۔ Stoddart, W. Sufism. The Mystical Doctrine and Methods of Islam (Wellingborough: Thorsons Publishers Ltd.1976) P.59-60 9۔ نظامی، خلیق احمد، مشائخِ چشت (اسلام آباد: دارالمؤلفین) ص: 146۔ 10۔ Muneera Haeri, The Chishtis........A Living light (Oxford University press, 2001) P. 40. 11۔ Ameer Ali, Syed, The Spirit of Islam (Karachi: Elite Publishers (Private) Ltd, 1988) P. 388. اردو ترجمہ کیلئے ملاحظہ ہو: امیر علی، سید روحِ اسلام، مترجم محمد ہادی حسین۔ لاہور : ادارہ ثقافت اسلامیہ 1972ء ص : 669۔ 12۔ Currie, P.M. The Shrine and Cult of Mu'in al-Din Chishti of Ajmer (Delhi: Oxford university press,1989). P. 119. 13۔ The Encyclopaedia of Islam (Leiden: E.J.Brill, 1983) P.49-5 14۔ Titus,M.T.Islam in India and Pakistan, P.124 15۔ Akbar S.Ahmad. Living Islam (London: BBC books Ltd,1993. P.92. 16۔ عبدالحق ، ڈاکٹر مولوی، اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام (کراچی: انجمن ترقی اُردو) ص: 9 17۔ Schimmel, Anne Marie. Islam in the Indian Sub-Continent (Lahore: Sang-e-Meel Publications, 1993.) 18۔ راجا رشید محمود ، غیر مسلموں کی نعت گوئی، ماہنامہ ’’نعت‘‘لاہور ، جلد 8، شمارہ 11(نومبر 1995ء) ص : 173۔ 19۔ آزاد ،جگن ناتھ ، نسیمِ حجاز (نئی دہلی : محروم میموریل لٹریری سوسائٹی، 1999ء) ص: 29۔ 20۔ حوالۂسابق، ص 106-105۔ 21۔ حوالۂسابق، ص 147۔ 22۔ حوالۂ سابق، ص 124۔ 23۔ Muneera Haeri. The Chishtis........A Living Light, P.39-40. 24۔ Ibid, P.40.
सदस्यता लें
संदेश (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...