बुधवार, 15 मार्च 2017
وہابیت اور اس کا بانی _____________________________________________________________ جیسا کہ فرقۂ وہابیت کے نام ہی سے واضح ہے کہ یہ فرقہ محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان نجدی سے منسوب ہے جو ١١١١ھ میں پیداہوئے تھے اور ١٢٠٦ ھ میں انتقال کیا ۔ محمد بن عبد الوہاب نے تھوڑی بہت دینی تعلیم حاصل کی تھی مگر کیونکہ انھیں جھوٹے مدعیان نبوت ،یعنی مسیلمۂ کذّاب، سجاج، اسود عنسی اور طُلَیحۂ اسدی جیسے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی اسی بنا پر اپنی تعلیم کے دوران ہی ان کے اندر انحراف اور گمراہی کے آثار اس حد تک نمایاں ہوچکے تھے کہ ان کے والد اور اساتذہ اس خطرہ سے لوگوں کو ہوشیار کرنے پر مجبور ہوگئے اس بارے میں ان حضرات کے یہ الفاظ ملاحظہ فرما ئیے۔ ''یہ (محمد بن عبد الوہاب) بہت جلد گمراہ ہونے والا ہے اور جن لوگوں کو خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر کے شقاوت (بدبختی) میں مبتلا کرنا چاہے گاانہیں اس کے ذریعہ گمراہ کردے گا'' ١١٤٣ھ میں محمد بن عبد الوہاب نے اپنے نئے مذہب (فرقہ) کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کی تو سب سے پہلے ان کے والد اور اساتذہ ہی اس انحراف کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی تمام باتوں کا جواب دیتے رہے اسی لئے انہیں کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ ١١٥٣ھ میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ سادہ لوح عوام کے درمیان اپنے افکار (وہابیت ) کی تبلیغ شروع کردی، اگرچہ اس بار چند کم مایہ افراد نے موصوف کی پیروی ضرور کی مگر ان کے شہر والوں نے ہی ان کے خلاف ہنگامہ کردیا اور وہ ان کے قتل پر تیار ہوگئے جس کے خوف سے انہیں ''عینیہ'' شہر کی طرف فرار ہونا پڑا ،وہاں پہونچ کر وہ وہاں کے حاکم سے اتنا قریب ہوئے کہ اس کی بہن سے شادی کرلی. اور وہاں بھی اپنے جھوٹے مذہب کی تبلیغ جاری رکھی مگر وہاں بھی لوگوں نے ان کا جینا دوبھر کردیا اور بالآخر شہر بدر بھی کردئے گئے وہ وہاں سے نجد کے مشرقی علاقہ ''درعیہ'' (نامی جگہ) کی طرف بھاگے جہاں اس سے پہلے جھوٹے مدعی نبوت مسیلمۂ کذّاب اور اس جیسے دوسرے باطل فرقوں اورمذاہب نے سر ابھارا تھا۔ شائد یہ اسی سر زمین کا اثر تھا کہ محمد بن عبد الوہاب کے نظریات یہاںپروان چڑھنے لگے اور وہاں کے حاکم محمد بن سعود اور اس کی رعایا نے ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔ اس شخص کواگرچہ اجتہاد سے کہیں دور کا واسطہ بھی نہیں تھا پھر بھی یہ ہرمسئلہ میں ایک مسلم الثبوت مجتہد کی طرح دخل اندازی کرتا رہتا تھا اور اسے گذشتہ یا اپنے ہم عصر مجتہد ین کے اقوال اور نظریات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود موصوف کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب جو اپنے بھائی کو دوسروں سے بہتر جانتے اور پہچانتے تھے یہ الفاظ ان کے ہیں، انہوں نے اپنے بھائی کی گمراہی ،انحراف اور اس کی باطل پر مبنی جھوٹی تبلیغ کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں بہت ہی مختصر اور جامع انداز میں وہابیت اور اس کے موجد کے بارے میں وہ یوں رقمطراز ہیں: ''آج لوگ ایسے آدمی کے ہاتھوں امتحان میں مبتلا ہوگئے ہیں جو کتاب و سنت کی طرف اپنی نسبت دیتا ہے اور انہیں دونوں سے استنباط کا دعویٰ کرتا ہے اور چاہے جو شخص بھی اس کی مخالفت کرلے اسے کوئی پرواہ نہیں ہے وہ اپنے مخالفوں کو کافر سمجھتا ہے جب کہ اس کے اندر اجتہاد کی کوئی ایک علامت بھی موجود نہیں ہے بلکہ خدا کی قسم اس کے اندر اجتہاد کی علامت کا دسواں حصہ بھی موجود نہیں ہے اس کے باوجود اس کی باتیں بعض نا دانوں اور (سادہ لوح عوام) پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس کے بعد ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' ہی کہا جاسکتاہے۔ مزید تفصیل کے لئے محمود شکری آلوسی کی تالیف تاریخ نجد، شیخ سلیمان بن عبد الوہاب کی کتاب الصواعق الالہٰیہ فی الرد علی الوہابیہ، ص٧،یا فتنۂ وہابیت،ص٥ملاحظہ فرمائیں۔
सदस्यता लें
टिप्पणियाँ भेजें (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें