शनिवार, 27 मई 2017
کیا اہلسنت و جماعت(بریلوی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان و عظمت میں غلو کر کے حضور کو اللہ تعالٰی سے ملا دیتے ہیں؟ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح و ستائش کرنا ناجائز ہے؟ حدیث۔لاترونی کما اطرت النصاریٰ عیسٰی بن مریم،، کی تشریح و توضیح _______________________________________________ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے_ لاترونی کما اطرت النصاریٰ عیسٰی بن مریم،، نصرانیوں نے عیسٰی بن مریم کی جس طرح بےجا تعریف کی ویسی میری تعریف نی کرنا اس حدیث سے کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مدح وستائس کرنا ہی بیجا اور غلو مذموم ہے جس سے شرک تک بات جاپہنچتی ہے_( وہابی دیوبندی حضرات کے مذہب میں حضور ﷺ کی تعریف بشر کی سی کی جائے بلکہ اس میں بھی اختصار کیا جائے۔ تقویۃ الایمان کے ص ۶۳ پر لکھا ہے ’’یعنی کسی بزرگ کی تعریف میں زبان سنبھال کر بولو اور جو بشر کی سی تعریف ہو وہی کرو۔ سو اس میں اختصار ہی کرو۔) اور ایسے لوگ یہ بھی سمجھ بیٹھے کہ عامئہ بشر ہے آپ کو ممتاز کرنے والی تعریف اور آپ کی مدح وستائس و نعت و وصف بیان کرنے والا شخص سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سنت کا مخالف اور دین میں بدعت رائج کرنے کا مرتکب ہے_ اس سوء فہم سے ان لوگوں کی قوتِ نظر کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے جس چیز کی ممانعت فرمائ ہے وہ یہاں ہے کہ جس طرح نصارٰی نے عیسٰی بن مریم کو اللہ کا بیٹا کہا، ایسی کوئی بیجا وبے بنیاد میری تعریف نہ کہی جائے_ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ بھی نصرانیوں جیسا ہی ہوجائے گا_ اور آپ کو افضل نوع بشر اللہ کا مقرب ترین بندہ اور معظم ترین رسول قرار دیتے ہوئے وصف و مدح کرنا حق ہے کیونکہ آپ سارے انسانوں میں سب سے کامل توحید والے ہیں اور اس تعریف میں نہ کہیں سے عقیدہ نصارٰی جھلکتا ہے نہ ہی آپ کی ذات حقیقت بشریت سے خارج ہوتی ہے_ 📒 مفاہیم یجب ان تصصح، صفحہ ٢٧٠) پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ ناممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہو کر معرفت کے گوہر حاصل کرتا ہے، پیغمبر اسلام کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن ان کی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔ رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا قرآن پاک نے جس خوبصورت اسلوب میں اور بار بار مقام رسالت کو بیان کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسالت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور قرآن اس حسین اسلوب بیان سے صادق و عاشق اور وفا شعار امت کے دل میں ’’عشق رسول‘‘ پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے کسی سچے اور پکے امتی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد فارغ بیٹھ جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ اب اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اسے نجات کا پروانہ مل گیا ہے اور اب وہ آزاد ہے جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ یہ خیال غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہ معتبر ہے جو امتی کو اپنے نبی کا عاشق و طالب بنا دے اور وہ اپنے نبی کے لئے پروانے کا روپ دھار لے کہ اس کی دید اور یاد کے بغیر اسے قرار ہی نہ آئے، اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے اور ہر کام کے دوران تصورِ جاناں ہی میں مستغرق رہے۔ اس لئے نبی پر ایمان لانے کے کچھ تقاضے ہیں، امتی کے لئے جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ آداب و تقاضے یہ ہیں۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل و جان سے تعظیم کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثل جاننا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کمالات و مراتب عطا فرمائے ہیں، انہیں تسلیم کرے اور ان کے تذکرے سے خوش ہو، جہاں فضائل و معجزات کی تفصیل سنے اس کا دل کنول کی طرح کھل اٹھے۔ دل کی گہرائیوں سے نبی کی تعظیم کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان کی تعظیم و تکریم کو اپنا شعار بنائے۔ تعظیم رسالت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے قرآن پاک نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسے ایسے ایمان افروز اسلوب میں بیان کیا ہے جس سے حسین تر اور معنی خیز اسلوب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی فطرت بھی عجیب ہے، وہ طبعی طور پر علم و حکمت کا رسیا اور فضل و کمال کا قدر دان ہے۔ اسے کسی شخصیت کی خصوصیات اور اس کی ذات میں پائے جانے والے غیر معمولی اور انمول کمالات کا پتہ چل جائے تو وہ بن دیکھے ہی اس پر دل و جاں سے فدا ہو جاتا ہے اور اسی کے تصور میں گم رہنے لگ جاتا ہے اور ہر حال و مجلس میں اس کے ذکر کے سوا اسے کچھ نہیں سوجھتا۔ اسی اصول کے مطابق، قرآن پاک نے اہل ایمان کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عقیدت پیدا کرنے کے لئے سورۃ الفتح کی آیت میں پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچھ اعلیٰ ترین اور یگانہ و یکتا شانیں بیان کی ہیں کہ وہ گواہ اور شاہد ہیں اور بشیر و نذیر بھی، تاکہ امتی اس حقیقت سے آگاہ ہوکر کہ اس کے رسول بڑے ہی مہربان اور شفیق ہیں جو قیامت کے دن اپنی گناہگار امت کے حق میں گواہی دیں گے اور کسی بھی مرحلہ پر اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ اس حوالے سے ان کی ذات نہایت ہی قابل قدر، عظیم و جلیل اور محبت کے لائق ہے اس لئے مومنوں کا حق ہے کہ وہ بھی ان سے ٹوٹ کر پیار کریں اور ان کی عقیدت کو دل میں جگہ دیں چنانچہ ارشاد فرمایا: إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ. (الفتح، 48 : 8، 9) ’’اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت و بشارت اور انذار کے منصب پر فائز کرکے بھیجا ہے، (اے لوگو! یہ اس لئے ہے) تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم و توقیر کرو‘‘۔ قرآن پاک نے دوسری جگہ ٹوٹ کر پیار کرنے اور تعظیم و توقیر کا یہی عمل اختیارکرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo (الْأَعْرَاف ، 7 : 157) ’’پس جو لوگ ایمان لائے اور ان کی خوب تعظیم اور مدد کی اور جو نور ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، اس کی پیروی کی تو یہی لوگ مسرت و کامیابی حاصل کرنے والے ہونگے‘‘۔ دونوں آیات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کا حکم دینے کے لئے لفظ ’’تعزیر‘‘ لایا گیا ہے جو اپنی جگہ بڑا معنی خیز ہے۔ یہ لفظ عام قسم کی تعظیم و تکریم کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ تعظیم کی اس حالت پر بولا جاتا ہے جو تعظیم کی انتہائی حدوں کو چھولے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک وہ بے مثل ذات ہے کہ عام انسانوں کے لئے تو تعظیم میں مبالغہ آ سکتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک وہ بے مثل ذات ہے جہاں مبالغہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے قرآن پاک نے یہ لفظ ذکر کیا ہے تاکہ اہل ایمان تعظیم کے لئے جو بھی عمل اور انداز اختیار کرنا چاہیں وہ بلا تکلف اختیار کرلیں اور اپنے پاک نبی کی صفت وثناء بیان کریں، چاہے ان کا بیان کتنا ہی پر شکوہ اور حسنِ عقیدت سے لبریز ہو اور ان کا نیاز مندانہ انداز، خواہ کتنی ہی عاجزی لئے ہوئے ہو پھر بھی اس میں مبالغہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اتنی ارفع و اعلیٰ ہے اور رب کریم نے ان کو اتنی عظمتیں عطا فرمائی ہیں کہ امتی جو خوبی اور شان بھی بیان کرے گا وہ ان کی ذات اقدس میں موجود ہوگی۔ حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضاء داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری محمد سر بسر حمدِ خدا ہیں محمد جانِ ہر حمد و ثناء ہیں محمد ہیں، محمد ہی محمد ) محمدِ مصطفیٰ ہی مصطفیٰ ) ہیں اس حقیقت ثابتہ اور نورانی ضابطہ کے مطابق امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے قصیدہ بردہ شریف میں ارشاد فرمایا: دَعْ مَا اَدَّعَتْهُ النَّصَارٰی فِی نَبِيِّهِم وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِيْهِ وَاحْتَکِم ’’نصاری نے اپنے نبی کو خدا کا بیٹا کہا تھا تم یہ مت کہو اس کے علاوہ جس طرح چاہو، ان کی شان بیان کرو (سب کچھ بیان واقعہ ہوگا، مبالغہ نہیں ہوگا)‘‘۔ نبی کو خدا کا بیٹا کہنا بے شک مبالغہ اور خلاف واقعہ بات ہے، کفر ہے، اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی. جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مبالغہ کیا تھا، تم اس سے باز رہو اور میری اس قسم کی تعریف نہ کرو کیونکہ یہ تعریف نہیں، کذب بیانی ہے، خلاف واقعہ، غلط اور جھوٹی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے، کوئی نبی اس کا بیٹا نہیں ہوسکتا، اس لئے جو بھی کسی کو اس کا بیٹا کہے گا وہ جھوٹ بولے گا اور مبالغہ کی حدوں سے بھی آگے بڑھ جائے گا، اس لئے یہ غلط بات کہنے اور اس انداز سے تعریف کرنے کی اجازت نہیں، باقی ہر قسم کی تعریف و ستائش، مدح ونعت اور صفت و ثناء کی اجازت ہے۔ اس حدیث کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعریف سے منع فرمایا ہے، اس لئے کسی قسم کی مدح و ستائش جائز نہیں اور وہ مبالغہ کی تعریف میں آ جاتی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ اس حدیث پاک میں خدا کا بیٹا کہہ کر مدح کرنے کی ممانعت ہے، باقی رہے وہ اوصاف جو آپ کی ذات اقدس میں حقیقتاً پائے جاتے ہیں ان کے بیان کی ممانعت نہیں بلکہ ان کا ذکر ضروری اور موجب خیرو برکت ہے, حضرت حسان رضی اللہ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دعا دیا کرتے تھے۔ اَللّٰهمَّ اَيّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُس. ’’اے اللہ! جبریل امین کو حسان کی تائید و تقویت کے لئے مامور فرما‘‘۔ اس لئے ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ حکم قرآن کے مطابق دل کھول کر آپ کی تعظیم کی جائے اور مدح و نعت اور درود و سلام کے مہکتے پھول بطور نذرانہ عقیدت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے حضور بصد ادب و احترام پیش کئے جائیں۔ اپنے نبی مقرب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مدح و تعریف میں خود خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے_ وَاِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیم اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے_ آپ کے ساتھ آدابِ گفتگو کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد باری تعالٰی ہے_ یایھا الذین امنو الاتر فعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولاتجھرو الہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون_(الحجرات) اے ایمان والو! نبی کی آواز پر اپنی آواز اونچی نہ کرو، اور ان کے حضور اس طرح بلند آواز سے بات نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں تمہارے عمل ضائع نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو_ اور ارشاد باری تعالٰی ہے_ لاتجعلوا ادعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً،(نور) رسول کو تم اس طرح نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو_ پکانے اور گفتگو کرنے میں ادب نہ ملحوظ رکھنے کی مذمت میں ارشاد باری تعالٰی ہے_ انَّ الذین ینادؤ نکَ من وَّراء الحجرات الکثرھم لایعقلون،(حجرات) بے شک تمہیں حجروں کے باہر سے پکارنے والوں میں اکثر لوگ بےعقل ہیں_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے سامنے آپ کی موجودگی میں آپ کی نعتیں پیش کیا کرتے تھے، آپ کی تعریف و توصیف کیا کرتے تھے_ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسول میں عرض کرتے ہیں_ اللہ کی طرف سے مشہود اور منور مہر نبوت آپ پر تابندہ اور آپ کی شاہد ہے_ اللہ تعالٰی نے نام نبی کو اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے کہ پنجوقتہ اذان میں مؤذن شہادت توحید کے ساتھ شہادت رسالت بھی دیتا ہے_ وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد، اللہ نے آپ کے اجلال و اکرام کے لئے اپنے نام کو مشتق کیا ہے_ تو مالک عرش بریں کا نام محمود اور زینت فرش زمین کا نام محمد ہے (اور دونوں کا مادہ اشتقاق حمد ہے) قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت انتہائی خوبصورت انداز میں واضح فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے۔لیکن وہابی دیوبندی وغیرہ باطل فرقہ ان لوگوں پر جو تعلیماتِ صحابہ کرام، اہلبیت اطہار و آئمہ اسلام سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو محبت و ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، محبت و عقیدت اولیائے کرام کے سچے عقیدےپر کفر وشرک کے فتوے ان آیات سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو آیات اللہ پاک نے کفار و مشرکین کو توحید و شرک کا فرق سمجھانے کی کوشش میں نازل فرمائیں۔ لیکن قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے کم و بیش 89 مقامات پر یا ایھا الذین آمنو ۔۔ اے ایمان والو! فرما کر براہ راست مومنین سے خطاب فرما کر جتنا بھی قرآن اتار ا ان میں کثرت سے مقام، شان، ادب و تعظیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سکھائی ہیں۔ تو گویا قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے ایک فلسفہ تبلیغ اور اصول دین اپنی سنت بنا کر سمجھا دیا کہ دین کے مبلغین جب کفار و مشرکین سے بات کریں تو انہیں توحید و شرک کا فرق سمجھائیں۔ لیکن جب انکے مخاطب کلمہ گو مسلمان ہوںتو انہیں توحید تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے سے سمجھ آچکی ۔ اب انہیں فضیلت ، محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آگہی دو۔ وہابی دیوبندی، سلفی، اہلحدیث، غیر مقلد وغیرہ باطل فرقہ کے لوگ عام طور پر اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کو جدا جدا سمجھتے پھرتے ہیں۔ بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نعت خوانی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و ثنا پر ُ ُ غلو اور حد سے بڑھ جانے بلکہ شرک‘‘ تک کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ اور الزام لگایا جاتا ہے کہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تعریف و ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرنے والے ، اور رفعت و علوِ مقامِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے والے ، معاذاللہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب تعالی سے ملا دیتے ہیں۔ ایسے متوسوس و متذبذب ذہنوں کے لیے اللہ رب العزت نے یہاں مقام ِ فکر دیا ہے کہ ۔۔ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کوئی تعلق باللہ تعالی کے خلاف یا جدا چیز نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ، کوئی اللہ کا غیر یا معاذاللہ مخالف نہیں ہے۔ بلکہ قرآن حکیم کے اس مقام سمیت متعدد مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی بھی معاملے کو اللہ رب العزت نے خود اپنے ساتھ معاملہ قرار دے کر یہ واضح کیا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ محبوبیت یہ ہے کہ اے لوگو ! جو معاملہ تم میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہو۔ میں اسے اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہوں۔ اے میرے محبوب نبی کے صحابہ ! تم نے بیعت میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی ۔ لیکن میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنا دراصل خود اللہ سے بیعت کرنا ہے۔ میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان کرنا خود اللہ رب العزت سے عہد و پیمان کرنا ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ بندگی پر عاجزی کا اظہار ..ایک غلط فہمی کا ازالہ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف محبوبِ خدا ہی نہ تھے۔ بلکہ امت کے لیے اسوہء کامل بھی تھے ۔ اور اسوہ کامل اس وقت تک نہیں بن سکتے تھے جب تک اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بندگی کی انتہا تک نہ پہنچتے ۔ اور بندگی کی انتہا بارگاہ الہیہ میں عاجزی کی انتہا سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے مقام بندگی پر فائز ہوتے ہیں تو عجز و انکساری کی انتہا ظاہر فرماتے ہیں۔ کہ مولا ! میں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ میرا علم، نہ میری دانش، نہ میرا ادراک، اے اللہ کریم سب کچھ تیری عطا ہے۔ مولا ! میں تو تیرا عاجز عبادت گذار بندہ ہوں۔ مجھے تو کوئی طاقت و اختیار نہیں ، جو کچھ ہے تو ہی قادرِ مطلق ہے (او کما قال ) ۔ ہمیں بطور امتی ، عبادات، مناجات، بارگاہ الہی میں خود کو پیش کرنے کے طریقے سکھانے کے لیے یہ ساری تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں اور ہمیں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو بھی اسی عاجزی کا مظہر بننا چاہیے۔ بلاشبہ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کے لیے ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پہلو اہمیت کا حامل ہے۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عاجزی کو " مقام و عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم " ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ جب ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کو سمجھنے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلقِ غلامی قائم کرنا پیش نظر ہو اور ایمان کی اصل حلاوت حاصل کرنا مقصود ہو ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ یہ بندگی کی انتہا ہے۔ ہمیں بطور امتی جب بارگاہ الہی میں آداب بندگی بجا لانا ہو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کامل کی پیروی کرنا ہے۔ لیکن جب مقام اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعین کرنا ہو اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلب و روح میں جانگزیں کرنے کا مرحلہ ہو تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین متورم ہونے پر بارگاہ الہیہ سے کیا جواب اور رد عمل آتا ہے ۔ آئینہء قرآن میں مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور مقام شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ اس پر بارگاہ الہیہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو اتارا جاتا ہے۔ قرآن بنایا جاتا ہے کہ ۔۔ مَا اَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىO (القرآن ۔ ۲۰:۲) (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیںo قربان جائیں ۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان محبوبیت کو کتنے خوبصورت اور محبت بھرے انداز میں واضح فرمایا ہے ۔ اللہ رب العزت کو اپنے حبیب کا مقام بندگی بھی پسند ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا مشقت میں پڑنا اور طبیعت مقدسہ پر بوجھ پڑنا بھی گوارا نہیں فرماتا اور فوراً قرآن نازل فرما دیا کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم رات کی عبادت اتنی ہی فرمایا کریں کہ جتنا طبعیت مبارکہ پر بوجھ نہ بنے ۔ایسا ہی اظہار محبت کا مضمون قرآن مجید کی سورہ مزمل میں بھی ہمیں ملتا ہے ۔ یہ تخصص بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے۔ سورۃ الفتح کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی نے فرمایا ۔۔ . إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo اللہ حکیم و خبیر نے اپنے حبیب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ قرب و وصل اپنی بارگاہ میں یوں واضح فرما دیا کہ تمہارے ہاتھوں کے اوپر جو ہاتھ بظاہر تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ دیکھ رہے تھے ۔ مگر سنو ! وہ اللہ کا ہاتھ تھا۔ اب عقل پرست ۔ علم پرست ۔۔ اپنے علم و عقل کے گھوڑے دوڑاتے پھریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ ، اللہ کا ہاتھ کیسے ہوگیا ؟ اگر علم و عقل کی وادی میں رہے تو گمراہی مقدر ہوجائے گی ۔ اور معرفت حق کبھی نصیب نہ ہوگی ۔ اگر قرب و عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنا ہے تو محبت و معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بارگاہ الہی میں التجا کرنا ہوگی۔ دل میں محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ جلانا ہوگا۔ اور ذکر و ثنائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا ۔ اور یہ معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔ کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ (مکہ) کی قسم کھا کر، (لا اقسم بھذالبلد۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کی عمر مبارک کی قسم کھا کر (لعمرک۔۔ القرآن) بلکہ اللہ رب العزت تو اپنی قسم بھی خود کو ربِ مصطفیٰ کہہ کر کھاتا ہے (فلاوربک لا یومنون حتیٰ یحکموک ۔۔۔ القرآن) کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر (ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ۔۔ القرآن) تو کبھی ذکرِ محبوب کو انتہائی بلندی دے کر (ورفعنالک ذکرک۔۔ القرآن) کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے (انا اعطینٰک الکوثر۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر (یداللہ فوق ایدیھم ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم پر سبقت لےجانے کو خود پر سبقت لےجانا قرار دے کر ( لا تقدمو بین یدی اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کی اطاعت کو اپنی (اللہ کی) اطاعت قرار دے کر ، (ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کی رضا کو اپنی (اللہ کی) رضا قرار دے کر ، (واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کو دھوکہ دینے کو خود (اللہ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر (یخدعون اللہ والذین امنو۔۔القرآن) کبھی حضور اکرم کو اذیت دینے کو خود اللہ کو اذیت دینا قرار دے کر (ومن یشاقق اللہ ورسولہ ۔۔۔۔ وفی المقام الآخر ۔۔۔ والذین یوذون اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن) کہیں حضور اکرم کو عطاکردہ دائمی علم الہی کے فیض کا ذکر فرمایا (سنقرئک فلا تنسیٰ ۔۔ القرآن) کہیں حضور اکرم کو عطائے الہی کے فیض سے علم غیب کی وسعتوں کا ذکر فرمایا (وما ھو علی الغیب بضنین ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کو روز قیامت ، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب " مقام محمود " کا وعدہ دینا (عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا ۔۔ القرآن) بلکہ اللہ رب العزت تو حضور اکرم کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی قرآن میں فرماتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ۔۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔۔ (الطُّوْر ، 52 : 4 اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں گویا اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ محبوب اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ جس پر اور کوئی نبی ، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا ، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ مقام ہے ۔ رضائے مصطفیٰ بذریعہ عطائے الہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کریم سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا ولسوف یعطیک ربک فترضی ٰ (القرآن ۔۔ سورۃ الضحا ) اے محبوب ! عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی نہ ہو جائے گے، اللہ اکبر۔ دوستانِ محترم ! ذرا سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام مسلمان ہی کیا۔ ساری دنیا، ساری کائنات، سارے اولیا، سارے صالحین، سارے اتقیا و اصفیا ، سارے انبیاء و رسولانِ مکرم (علیھم السلام) ، رضائے الہی کے متلاشی ہیں۔ اور خود اللہ رب العزت اپنے محبوب کی رضا کے لیے اپنی عطائیں نچھاور فرمانے کے وعدے فرما رہا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں_ خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد اور پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے میں سمیٹا تھا کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں شان و فضیلت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذکرِ شرک و اصنام کی وجہ آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ لوگ ہر بات میں عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عظمتِ اہلبیت اطہار، تعظیم و اکرامِ صحابہ کبار رضوان اللہ عنھم اور مقامات و شانِ اولیاءاللہ کا ذکر کرتے نظر آئیں گے۔ ان کی گفتگو، انکی تحریر سے ہمہ وقت یہی خوشبو پھوٹتی نظر آئےگی ۔ جبکہ اسکے برعکس کچھ طبقات، کچھ افراد ایسے ہوں گے جو ہمیشہ اپنی بات کا موضوع کفار کے بت، شرک کے مقامات، گمراہی کے فتوی، شیطان وغیرہ ہی کو موضوع بنا کر ہمہ وقت ہر کلمہ گو مسلمان کو یہی کچھ بتانے کی فکر میں سرگرداں نظر آئیں گے۔ اسکی ایک وجہ بہت سادہ ہے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سمجھ آجاتی ہے۔ محبت کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ کہ جس کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے۔ (زرقانی علی المواہب ص314 ج6) پس جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی زیادہ محبت ہوگئی وہ اتنا ہی کثرت سے آپ کا ذکر کرے گا۔ جس کو اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام سے دلی لگن ہوگی وہ انکا ذکر کرتا نظر آئے گا۔ جس کو اللہ اور اسکے ولیوں سے محبت ہوگی وہ انہی کی شان میں رطب اللسان نظر آئے گا۔ اب یہی قاعدہ شرک، اصنام، بت، فتوی، گمراہی، شیطنت وغیرہ کا شور مچانے والوں پر بھی اپنا لیجئے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں اپنے حبیب کریم کی سچی و پختہ محبت کا ایسا بیج بوئے جس سے ایمان کامل کا پودا اگے، پھر ہمیں اتباعِ مصطفیٰ کی دولت عطا کرے جس سے ایمان کا پودا تناور شجر بن جائے ۔ جس کے سایہ پربہار سے نہ صرف ہم خود بلکہ اور لوگ بھی فیضیاب ہوں۔ پھر اس پر معرفتِ مقام ِ مصطفیٰ کا ایسا پھل لگے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی رضا نصیب ہوجائے۔ قبر میں پہچانِ چہرہء مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو اور روز قیامت شفاعتِ مصطفیٰ کا سایہ نصیب ہو جائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین
सदस्यता लें
टिप्पणियाँ भेजें (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें