रविवार, 31 मार्च 2019

اپریل فول کی حقیقت اور ہمارا معاشرہ

اپریل فول کی حقیقت اور ہمارا معاشرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں میں ایک ناسُور ”اپریل فُول (April fool)“ بھی ہے جسے یکم اپریل کو رسم کے طور پر منایا جاتا ہے، نادان لوگ اس دن پریشان کر دینے والی جھوٹی خبر سُنا کر، مختلف انداز سے دھوکا دے کر اپنے ہی اسلامی بھائیوں کو فُول (Fool یعنی بے وقوف) بنا کر خوش ہوتے ہیں،

 مثلاً کسی کو یہ خبر دی جاتی ہے کہ
◉ آپ کا جَوان بیٹا فلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے شدید زخمی ہے اور اسے فلاں اَسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے
◉ آپ کا فلاں رشتہ دار انتقال کرگیا ہے
◉ آپ کی دکان میں آگ لگ گئی ہے
◉ آپ کی دکان میں چوری ہوگئی ہے
◉ آپ کے پلاٹ پر قبضہ ہوگیا ہے
◉ آپ کی گاڑی چوری ہوگئی ہے
◉ آپ کے بیٹے کو تاوان کے لئے اغوا کرلیا گیا وغیرہ۔

 پھر حقیقت کھلنے پر ”اپریل فُول، اپریل فُول“ کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ جو جتنی صفائی اور چالاکی سے دوسرے کو بے وقوف بنائے وہ خود کو اُتنا ہی عقل مند سمجھتا ہے مگر اس’’ فُول ‘‘کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کتنی بڑی’’ بُھول ‘‘کر چکا ہے ۔ ”اپریل فُول“ منانے والے دانستہ یا نادانستہ طور پرکن لوگوں کی پیروی کر رہے ہیں، ملاحظہ کیجئے:

◉ اپریل فُول کیسے شروع ہوا؟ ◉

اپریل فُول کے آغاز کے بارے میں مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ جب کئی سو سال پہلے عیسائی اَفواج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی زمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فاتِح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں جب قابض اَفواج کو یقین ہوگیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گِرِفْتار مسلمان حُکمران کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اسکے آباؤ اجداد آئے تھے، قابض افواج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئیں۔ جب عیسائی افواج مسلمان حکمرانوں کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کر دیا جائے، جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے اور اپنی شناخت پوشیدہ کرلی، اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا۔ پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ جس ملک میں جانا چاہیں جاسکیں۔ اب چونکہ ملک میں اَمْن قائم ہوچکا تھا اس لئے مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا، مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے، اَلْحَمراء کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کر دیے گئے، جہاز آکر بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے رہے، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا اور انکی بڑی خاطر مدارت کی۔ یہ ’’یکم اپریل‘‘ کا دن تھا جب تمام مسلمانوں کو بَحری جہاز میں بٹھایا گیا مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان تو بچ جائے گی۔ دوسری طرف حکمران اپنے مَحَلَّات میں جشن منانے لگے، جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوَداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دئیے، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان، خواتین، بچے اور کئی ایک مریض بھی تھے ۔جب جہاز گہرے سَمُندر میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان سَمُندر میں ڈوب گئے۔ اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے دشمنوں کو بیوقوف(Fool) بنایا۔تاریخ اندلس،جلد۲،صفحہ۳۱۲)

اللہ کے رسولﷺ نے مذاق میں بھی ڈرانے سے روکا:

حضرتِ سیِّدُنا ابنِ ابی لیلیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضوَان کا بیان ہے کہ وہ حضرات رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سفر میں تھے، اس دوران ان میں سے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سو گئے تو ایک دوسرے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے پاس رکھی اپنی ایک رسی لینے گئے، جس سے وہ گھبرا گئے (یعنی اس سونے والے کے پاس رسی تھی یا اس جانے والے کے پاس تھی اس نے یہ رسی سانپ کی طرح اس پر ڈالی وہ سونے والے اسے سانپ سمجھ کر ڈر گئے اور لوگ ہنس پڑے) تو سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔(ابوداؤد،ج4، ص391، حدیث: 5004)

حَکِیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سُنا تو یہ فرمایا، اس فرمانِ عالی کا مقصد یہ ہے کہ ہَنسی مَذاق میں کسی کو ڈرانا جائز نہیں کہ کبھی اس سے ڈرنے والا مرجاتا ہے یا بیمار پڑ جاتا ہے، خوش طَبْعی وہ چاہیے جس سے سب کا دل خوش ہو جائے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی ہنسی کسی سے کرنی جس سے اس کو تکلیف پہنچے مثلاً کسی کو بے وقوف بنانا، اس کے چَپت لگانا وغیرہ حرام ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج5، ص270)

◉ اپریل فُول اور جُھوٹ ◉

اپریل فُول کو ”جُھوٹ کا عالَمی دن“ بھی کہا جاسکتا ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

اِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَاِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي اِلَى النَّارِ وَاِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتّٰى يُكْتَبَ عِنْدَاللہِ كَذَّابًا
یعنی بے شک جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہاللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا، ذم الکذب،ج5، ص205،رقم:2)

مذاق میں بھی جُھوٹ نہ بولیں: فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:
بندہ کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا حتی کہ مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑنا چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔(مسند احمد،ج3، ص290، حدیث: 8774)

اپریل فُول میں دوسروں کی پریشانی پر خوشی کا اظہار بھی ہوتا ہے،ایسوں کو ڈرنا چاہئے کہ وہ بھی اس کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں،عربی مقولہ ہے : مَنْ ضَحِکَ ضُحِکَ یعنی جو کسی پر ہنسے گا اُس پر بھی ہنسا جائے گا۔

افسوس! اتنی خرابیوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود ہر سال یکم(فرسٹ،First) اپریل کو جھوٹ بول کر، اپنے مسلمان بھائیوں کو پریشان کرکے ان کی ہنسی اُڑانے کو تفریح کا نام دیاجاتا ہے، اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
(آمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم)

بھائیوں کا دل دُکھانا چھوڑ دو
 اور تمسخر بھی اُڑانا چھوڑ دو
                                             (وسائل بخشش، ص 713)







صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے کی ممانعت احادیث کی روشنی میں

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے کی ممانعت احادیث کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے بدعقیدگی یا کسی کی شان میں بد گوئی کرنا انتہائی درجہ کی بدنصیبی اور گمراہی ہے۔ وہ فِرقہ نہایت بد بخت اور بد دین ہے جو صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم پر لَعن طَعن یعنی بُرا بھلا کہنے کو اپنا مذہب بنائے ان کی دشمنی کو ثواب کا ذریعہ سمجھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بڑی شان ہے، ان کی تکلیف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا ہوتی ہے۔
اب ہم چند روایات پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلاکہنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں۔

(1) : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذو ہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی .
ترجمہ: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذاء دی ۔(مشکوٰۃ المصابیح: ج2ص554)

(2) : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
دعولی اصحابی لا تسبو اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا نہ کہو ۔ (مسند البزار: ج2 ص342 )
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)

(3) : حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص94)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علی بن سہل کے علاوہ اس روایت کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں اور علی بن سہل بھی ثقہ ہے ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)

(4) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین .
ترجمہ : جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی:ج12 ص142)

(5) : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظونی فی اصحابی . (سنن ابن ماجہ: ص172)
ترجمہ : لوگو !میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو ۔
بعض روایات میں ”احسنوا الی اصحابی “ کے الفاظ ہیں ۔ کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ ۔ (سنن النسائی: رقم الحدیث9175)

(6) : حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا ذکر اصحابی فامسکو واذا ذکرت النجوم فامسکوا وذا ذکر القدر فامسکوا.
ترجمہ : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص96) ۔ حضرت ابن عباس سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا : یا غلام ایاک وسب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان سبہم مفقرۃ الخ ۔
ترجمہ : اے بر خوردار: صحابہ کرام کو برا کہنے سے اجتناب کرو کیونکہ ان کو برا کہنا فقر و مسکینی کا باعث ہے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج8ص3 )

(7) : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسبوہم . (صحیح مسلم: ج2ص421)
ترجمہ : لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔

(8) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لا تسبوا اصحاب محمد فان اللہ عز وجل امرنا بالا ستغفار لہم وھو یعلم انہم سیقتلون .
ترجمہ : صحابہ کرام کو برا مت کہو ،بےشک اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل و قتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے ۔ (الصارم المسلول فصل نمبر5 المسئلہ الثانیہ فی استتابۃ الذمی بیروت)

(9) : حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو آپ نے فرمایا: کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ انہوں نے کہا :جی نہیں ،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم انصار میں سے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس پر حضرت زین العابدین فرمانے لگے: جب تم ان دونوں میں سے نہیں ہو تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا .
ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنا، ان کی مذمت یا ان کو سب شتم کرنا منع ہے اور اس کے مرتکبین کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔

शनिवार, 30 मार्च 2019

صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کفر، اور حضرت امیر معاویہ صحابی رسول ہیں


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کفر و گمراہی ہے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابیﷺ ہیں
--------------------------------------------------------------------------
جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں، خواہ آل و اولاد ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، لہٰذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ آج کل عام طور پر یہ وبا اور رَوِش چل نکلی ہے کہ جس کے جی میں جو آتا ہے اُگل دیتا ہے، چاہے کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، عالم ہو یا جاہل، بزرگ ہو یا شیخ، استاذ ہو یا پیر، اس کی کوئی ایسی بات، قول، فعل اور عمل جو سمجھ میں نہ آئے، اس پر اعتراض و تنقید کے نشتر چلا دیئے جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اگر کوئی مقرب بارگاہ الٰہی ایسا کر رہا ہے تو یقینا اس کے پاس کوئی دلیل یا جواز ہوگا، جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہا؟ یا وہ ہمارے علم میں نہیں، کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے، مختصر یہ کہ بجائے اس کے کہ نہایت ادب اور سلیقہ سے ہم اس مقبول بارگاہ الٰہی سے اس کے قول، فعل یا عمل کی وجہ، علت اور حکمت پوچھتے، اپنی ہانکنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، بلاشبہ یہ رَوِش بہت ہی خطرناک ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دین دشمنوں نے ہماری نئی نسل کے کان میں یہ افسوں پھونک دیا ہے کہ تم کسی سے کم نہیں ہو، لہٰذا جو بات تمہاری عقل و فہم میں نہ آئے وہ غلط ہے، بلکہ صحیح وہ ہے جو تمہیں صحیح اور سچ نظر آئے، غالباً اسی وجہ سے ہماری نوجوان نسل، ہر بڑے، چھوٹے اور عالم و جاہل پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، بالفرض اگر کوئی بندہ خدا ان کو اس سے باز رہنے کی تلقین کرے تو اس کی دل سوزی پر مبنی اس نصیحت کو بھی اندھی تقلید کی تلقین کے نام سے جھٹک دیا جاتا ہے۔ صرف اسی پر اقتفاء نہیں بلکہ اپنے اس غیر معقول فعل اور عمل کے جواز کے لئے طرح طرح کے دلائل و براہین تراشے جاتے ہیں، بلاشبہ اس مرض میں لکھے، پڑھے اور جاہل، عوام اور خواص سب ہی مبتلا ہیں، غالباً ان کو اس اندھی تنقید و تنقیص کے انجام بد کا علم نہیں، اگر انہیں اس کے خطرناک انجام کا علم ہوجائے تو شاید وہ اس کی جرأت نہ کریں۔

کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام شریک ہیں۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں۔ تاہم عزت و تکریم میں، جنتی ہونے میں، ادب و احترام میں سب برابر ہیں۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں کھاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا.(العاديات:1 تا 4)

ترجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں ۔

جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے متعلق امت کو خیر خواہی، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا : الله الله فی اصحابی، الله الله فی اصحابی، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه . (ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554)

ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا-

فرمانِ مصطفیٰﷺ ہے: اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم . (مشکوٰة، 554)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اللہ راضی ہو چکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہو چکے۔
 قرآن کریم میں ہے: رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ . (التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہو گیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔

بخاری شریف کی ایک حدیث  قدسی میں ارشادِ الٰہی ہے ’’جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے لئے میری طرف سے اعلان ِ جنگ ہے‘‘ اور صحابہ کرام سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟ صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم یوںہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش نظر اہلِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے۔
(فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

درّ مختار میں ہے: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴)

علامہ ابنِ تیمیہ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں نقل کیا ہے’’فقہائے کوفہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے والے کو قتل کرنے اور رافضہ کو کافر قرار دینے کا قطعی فتویٰ دیا ہے‘‘ محمد بن یوسف فریابی سے حضرت ابو بکرصدیق رضٰ اللہ عنہ کوگالی دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’وہ کافر ہے ، اسکا جنازہ نہیں پڑھا جا ئے گا ، نہ ہاتھ لگایا جائے گا بلکہ اسے کسی لکڑی کے ذریعے گڑھے میں ڈال کر بند کردیا جائے گا‘‘ قاضی ابو یعلیٰ نے کہا ہے ’’ فقہاء کے نزدیک جو شخص حلال سمجھ کر صحابہ کو گالی دے وہ کافر ہے اور جو حلال تو نہ سمجھے مگر گالی دے ،وہ فاسق ہے‘‘ اور اپنافیصلہ دیتے ہوئے علامہ ابن ِ تیمیہ لکھتے ہیں ’’جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الٰہ یا نبی سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام غلطی سے وحی ورسالت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دے گئے تھے اور صحابہ کو گالی دے ، وہ کافر ہے اور اسے کافر کہنے میں توقف کرنے والا بھی کافر ہے اور جو شخص قرآن کریم کو ناقص قرار دے یا باطنی تاویلات کا زعم رکھے جیسا کہ قرامطہ ، باطنیہ اور تناسخیہ کا خیال ہے تو وہ بھی کافر ہے ، جو شخص صحابہ پر بخل ، بزدلی ، کم علمی اور عدم ِ زہد کا الزام لگائے وہ کافر تو قرار نہیں دیا جائے گا مگر وہ سزا وار ِ تعزیر ہے ۔ مطلق لعن طعن کرنے والوں میں سے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی وفات کے بعد 10،15 صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوا باقی سب مرتد یا فاسق ہوگئے تھے ، وہ بھی کافر ہے اور ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافرہے ۔ الغرض گالی دینے والوں میں سے کچھ صاف کافر ہیں اور بعض کے کفر میں تردّد کیا گیا ہے اور بعض پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔ (الصارم المسلول)

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا . (مومن:7)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی۔
(1) جنگ صفین۔
(2) جنگ جمل

ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں : باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا ۔ ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ۔ وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے، یکدم رک گئے۔

تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف۔ اس مسئلہ میں ناصبی، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے۔ صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم ائمہ و اولیاء و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے ۔

علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے : من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب“ (مشکوٰة، ص:۱۹۷)

ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے ۔
عاشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم کی تنقیص کرنے والا ملعون ہے . قارئین شفا شریف کا کیا عظیم مقام ہے آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں.
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:
جو شخص صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گمراہی پر مانے اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے گالی دی اسے سخت سزا دیجائے گی. برکات آل رسول ص 283 علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنے رسالہ القام الحجر میں اس بات پر اجماع نقل کیا کہ کسی بھی صحابی کو گالی دینے والا فاسق ہے اگر اسے وہ حلال نہ جانے اور اگر وہ حلال جانے تو کافر ہے اس لیے کہ اس توہین کا ادنی درجہ فسق ہے اور فسق کو حلال جاننا کفر ہے

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں.

الشرف المؤبد ص 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول ص383 )

اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” [مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢] ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ . [الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973]؛

ترجمہ: حضرت عویم بن ساعدہ رسول الله سے مروی ہیں کہ “بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل .
(تخريج الحديث : 1) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279)

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ  کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کے لیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور .( برکات آل رسول 281 )

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ آپ نے فرمایا. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے. الناہیہ ص16 علامہ قاضی عیاض علامہ معافی بن عمران علیہما الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہء رسول ام حبیبہ کے بھائی اور کاتب وحی ہیں. ایضاً ص 17 .. بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں. مشکات ص 112)

بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں .

محترم قارئین اس عنوان پر بہت تحقیق ہوچکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جن سے سیدنا حسن مجتبٰی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کر سکتے کہ حضرت امام حسن مجتبٰی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .
شرح عقائد: خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے .

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے :

اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

امیر معاویہ بھی ہمارے سردار لیکن حق بجانب حیدر کرار (رضی اللہ عنہما)

ضروری گزارش: ہمارا یہ مضمون کا مقصد واللہ صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو بھی مطعون کرنا کتنا جرم ہے اور سخت گمراہی ہے ایسے کتنے لوگ ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بغض سے سفر شروع ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغض تک پہنچ گئے نعوذ باللہ من ذالک الف مرات ۔

لہٰذا جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد گمراہ نہ ہو، وہ قرآن و سنت اور دین و شریعت پر عمل پیرا رہے، یا وہ جادہٴ حق پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے دور کے اکابر علماء، محققین اور خدا ترس صلحاء سے دلائل و براہین کے ساتھ اختلاف ضرور کریں، کیونکہ یہ ان کا حق ہے، مگر خدارا! ان کی توہین و تنقیص سے پرہیز کریں، کیونکہ اس سے ان کی اولادوں اور نسلوں کے بے دین اور ملحد و خارجی ہونے کا شدید اندیشہ ہے، چنانچہ ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن لوگوں نے اکابر علماء اور صلحا کی گستاخی یا بے ادبی کی، نہ صرف یہ کہ ان کی اولاد بے دین و گمراہ ہوگئی بلکہ ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔

ازواج مطہرات، اہل بیت اطہار، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بے ایمان ہے، اس کواسلامی عدالت میں تعزیراً سزادی جائے گی جو حد سے بھی سخت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اولیاء کرام کی بے ادبی وگستاخی کرنے والا گمراہ اور بدعقیدہ ہے اس کو بھی جو مناسب ہو تعزیراً سزا دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کواور ہماری نسلوں کو گستاخی اور بے ادبی سے بچنے، اہل اللہ اور مقربین بارگاہِ الٰہی کی قدردانی کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)

बुधवार, 27 मार्च 2019

مسلمان کو بدمذہب ،صلح کلی اور کافر کہنے میں جلد بازی کرنے والوں کے نام

مسلمان کو بدمذہب ،صلح کلی اور کافر کہنے میں جلد بازی کرنے والوں کے نام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بعض حضرات فروعی اختلافات یا کسی چھوٹی سے چھوٹی بد عملیوں کی وجہ سے کسی بھی مسلمان پر الزام وہابیت و دیوبندیت عائد کرنے میں بڑے بےباک ہوتے ہیں اور وہ اس کا زرا بھی احساس اور لحاظ نہیں کرتے کہ یہ سنگین الزام کتنے خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے، اس الزام کا بھی وہی حکم ہے جو حدیث میں آیا ہے:
أَیُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِیهِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا.
جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے اے کافر کہے تو وہ کفر ان میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹے گا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ جس شخص کے عقائد کا ٹھکانہ نہ ہو دائرہ اسلام سے خارج ہے یانہیں؟
الجواب:  عقائد کا ٹھکانہ نہ ہونا کئی معنیٰ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کبھی یہ کہ اس کی صحت عقیدہ پر اطمینان نہیں، کبھی یہ کہ یہ مذبذب العقیدہ متزلزل العقیدہ ہے۔ کبھی سنیوں کی سی باتیں کرتاہے، کبھی بد مذہبوں کی سی ، ان دونوں پر معنیٰ اسلام سے خارج ہونا لازم نہیں ہوتا، واللہ تعالٰی اعلم۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 216)

دیوبندی کسے کہتے ہیں؟ کیا مطلقاً تمام دیوبندی و وہابی گستاخ و کافر ہیں؟

کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟
جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ایسے حضرات کافر و مرتد ہیں؟ اور (کیا) ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے؟

ان سوالات کے جوابات میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
دیوبندی حقیقت میں وہ ہے جو مولوی اشرف علی تھانوی،
مولوی خلیل احمد انبیٹھوی، مولوی قاسم نانوتوی، مولوی رشید احمد گنگوہوی کی کفری عبارتوں پر مطلع ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنا امام و پیشوا جانے یا کم از کم مسلمان ہی جانے اس لئے کہ ان لوگوں کی کفری عبارتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صریح توہین ہے، اور شانِ الوہیت میں کھلی گستاخی ہے،

مولوی اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان ص8 پر لکھا ہے:
پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہے تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کلی غیب؟ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو ان میں حضور کی ہی کیا تخصیص ہے،
ایسا علم غیب تو زید و عمر بلکہ ہر صبی مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بائم کے لئے بھی حاصل ہے،

پھر چند سطر بعد لکھا ہے:
اگر تمام علوم غیبیہ مراد ہیں اس طرح کہ اس کی ایک فرد بھی خارج نہ رہے تو اس کا بطلان دلیل نقلی و عقلی سے ثابت ہے،
اس عبارت سے مولوی اشرف علی تھانوی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم پاک کو ہر کس و ناکس حتیٰ کہ بچوں، پاگلوں، اور انتہائی حقیر و ذلیل چیزوں تمام حیوانات و بائم کے علم سے تشبیہ دی یا اس کے برابر کہا، "ایسا" تشبیہ کے لئے تشبیہ ہوئی جیسا کہ مولوی حسین احمد نے لکھا کہ ایسا کلمہ تشبیہ ہے، اور اگر "اتنا" اس قدر کے معنیٰ میں مانیں، جیسا کہ مولوی مرتضیٰ حسن دربھنگی نے توضیح البیان میں لکھا تو برابری ہوئی

 مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ ص51 پر لکھا:
الحاصل غور کرنا چاہیے شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محظ قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے، شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے،

اس عبارت میں انبیٹھوی نے نے شیطان اور ملک الموت کے لئے زمین کا علم محیط مانا، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے شرک کہا، اور اخیر میں بلکل جڑ صاف کر دی، صاف لکھ دیا کہ شیطان و ملک الموت کے علم کی وسعت نص یعنی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسعت علم کا مطلقاً انکار کرتے ہوئے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وسعت علم کا ثبوت کس نص قطعی سے ہے؟ جس کا حاصل یہ نکلا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسعت علم کے لئے کوئی نص قطعی نہیں، بعد میں فیصلہ کر دیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وسعت علم ماننا شرک ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ انبیٹھوی کا عقیدہ یہ ہے کہ "شیطان کا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زائد ہے،
مولوی رشید احمد گنگوہوی نے براہین قاطعہ کی تصدیق کی
ہے، اس لئے ان بزرگ کا بھی یہی عقیدہ ہے،
مولوی قاسم نانوتوی نے تحزیر الناس ص3 پر/ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء بمعنیٰ آخر الانبیاء ہونے کو چودہ طریقوں سے باطل کیا اور ص28 پر لکھا:

بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے، بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا،
اس کا حاصل یہ نکلا کہ نانوتوی صاحب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء بمعنیٰ آخر الانبیاء نہیں مانتے، مولوی رشید احمد گنگوہوی نے اپنے ایک دستخطی مہری فتوے میں لکھ دیا:
"وقوع کزب کے معنیٰ درست ہو گئے ایسے کو تضلیل و تفسیق سے مامون کرنا چاہیے،
یعنی جو یہ کہے کہ خدا جھوٹ بول چکا، وہ گمراہ بھی نہیں، فاسق بھی نہیں، اور مسلمان کا اجماعی عقیدہ ہے کہ جو بھی شانِ الوہیت و رسالت میں ادنیٰ سی گستاخی کرے وہ کافر ہے، امام قاضی عیاض(رحمۃ اللہ علیہ) شفا شریف میں، علامہ ابن عابدین شامی نے رد المحتار میں نقل فرمایا:

اجمع المسلمون علی ان شائمہ کافر من شک فی کفرہ و عذابہ کفر"
مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرے وہ کافر ہے ایسا کہ جو اس کے عذاب و کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے

اسی بنا پر یہ چاروں تو کافر ہیں ہی ان کے علاوہ جو بھی ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات میں سے کسی ایک پر قطعی، یقینی، حتمی طور پر مطلع ہو اور انہیں مسلمان جانے، کافر نہ کہے تو وہ بھی کافر ہے، اور یہی علماء عرب و عجم حل و حرم، ہند و سندھ کا متفقہ فتاویٰ ہے، جو "حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ" میں بار بار چھپ چکا ہے، اب دیوبندی وہ ہے جو ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر قطعی، یقینی طور پر مطلع ہو پھر بھی ان چاروں کو یا ان چاروں میں سے کسی ایک کو اپنا پیشوا مانے یا کم از کم مسلمان جانے، کافر نہ کہے ایسے ہی لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنی یا دعائے مغفرت کرنی بر بنائے مذہب صحیح کفر ہے،
اور دیوبندیوں سے میری مراد فتاویٰ نمبر: 1353 ایسا ہی شخص ہے
بلکہ علماء اہلِ سنت جب دیوبندی ( دیوبندی، وہابی) بولتے ہیں تو ان کی مراد دیوبندیوں(وہابیوں) سے ایسا ہی شخص ہوتا ہے

رہ گئے وہ لوگ(جو) ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں انہیں قطعی، یقینی اطلاع نہیں وہ صرف دیوبندی(وہابی) مولیوں کی ظاہری، اسلامی صورت، ان کی نماز، روزوں، کو دیکھ کر انہیں عالم، مولانا جانتے ہیں ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں، معمولات اہلِ سنت کو بدعت و حرام جانتے ہیں، وہ حقیقت میں دیوبندی(وہابی) نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں، اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہوں، جیسے قادیانی ہیں کہ حقیقت میں ختم نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہیں، مگر عرف عام میں بے پڑھے لکھے لوگ گورمنٹ کے کاغذات میں ان کو مسلمان کہتے اور لکھتے ہیں، عوام کا عرف مدار حکم نہیں،
حکم کا دارومدار حقیقی معنیٰ پر ہے، اس لئے ایسا شخص جو اپنے آپ دیوبندی(وہابی) کہتا ہو لوگ بھی اس کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہوں، وہ ان چاروں علماء دیوبند کو اپنا مقتدا و پیشوا بھی مانتا ہو حتیٰ کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے_ واللہ تعالٰی اعلم
 ( فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص ٣٨٦ تا ٣٨٩)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ جس شخص کے عقائد کا ٹھکانہ نہ ہو دائرہ اسلام سے خارج ہے یانہیں؟
الجواب: عقائد کا ٹھکانہ نہ ہونا کئی معنیٰ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کبھی یہ کہ اس کی صحت عقیدہ پر اطمینان نہیں، کبھی یہ کہ یہ مذبذب العقیدہ متزلزل العقیدہ ہے۔ کبھی سنیوں کی سی باتیں کرتاہے، کبھی بد مذہبوں کی سی ، ان دونوں پر معنیٰ اسلام سے خارج ہونا لازم نہیں ہوتا، واللہ تعالٰی اعلم۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 216)

کیا تمام دیوبندی و وہابی گستاخ و کافر نہیں
--------------------------------------------------------------------------
آج کل کے بہت سے دیوبندی صرف نام کے دیوبندی ہیں، انہیں عقائد علمائے دیوبند کی خبر بھی نہیں ہوتی ایسے لوگ صرف نماز و روزہ دیکھ کر پھنس جاتے ہیں ہمیں اُن کی اصلاح کرنی چاہیے انہیں اپنے قریب لانا چاہے اُن کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ جب تک کسی عام دیوبندی سے کسی قسم کی گستاخی بذاتِ خد نہ دیکھ لیں اُسے ہر گز کافر و مرتد نہ سمجھے اگر چہ وہ خود کو دیوبندی ہی کہے کیوں کہ اپنے آپ کو دیوبندی کہنے سے کوئی دیوبندی عقائد والا نہیں ہو جاتا لہذا اُس پر وہ حکم نہیں جو دیوبندی عقیدہ رکھنے والے پر ہے۔

اہلِ سنت و جماعت (بریلوی) حنفی علماء کے نزدیک تمام دیوبندی کافر نہیں ۔ بلکہ صرف وہی دیوبندی کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ و محبوبانِ ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کی اور انتہائی تنبیہ کے باوجود انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی۔ اور وہ دیوبندی کافر ہیں جو اپنے اکابرین کی گستاخیوں کو جانتے ہیں اور ان گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن، اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی دیوبندی کافر نہیں ہیں۔

 غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ مولانا پیر سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں۔
 مسئلہ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو شخص بھی کلمۂ کفر بول کر اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کر لے گا تو ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی، لیگی ہو یا کانگریسی، نیچری ہو یا ندوی۔ اس بارے میں اپنے پرائے کا امتیاز کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک لیگی نے کلمۂ کفر بولا تو ساری لیگ کافر ہو گئی یا ایک ندوی نے ایک التزام کفر کیا تو معاذ اللہ سارے ندوی مرتد ہوگئے۔ ہم تو بعض دیوبندیوں کی عباراتِ کفریہ کی بناء پر ہر ساکن دیوبند کو بھی کافر نہیں کہتے۔ چہ جائے کہ تمام لیگی اور سارے ندوی کافر ہوں۔ ہم اور ہمارے اکابر نے بارہا اعلان کیا کہ ہم کسی دیوبند یا لکھنؤ والے کو کافر نہیں کہتے۔ ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ و محبوبانِ ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی۔ نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن، اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس۔ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی۔ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور محدود افراد ہیں۔ ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ بریلی کا، نہ لیگی نہ ندوی ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔(مقالات کاظمی :حصہ دوم ،ص۲۰)

دعا گو : عمران سیفی رضوی

सोमवार, 25 मार्च 2019

تمام دیوبندی و وہابی گستاخ و کافر نہیں

تمام دیوبندی و وہابی گستاخ و کافر نہیں
--------------------------------------------------------------------------
آج کل کے بہت سے دیوبندی صرف نام کے دیوبندی ہیں، انہیں عقائد علمائے دیوبند کی خبر بھی نہیں ہوتی ایسے لوگ صرف نماز و روزہ دیکھ کر پھنس جاتے ہیں ہمیں اُن کی اصلاح کرنی چاہیے انہیں اپنے قریب لانا چاہے اُن کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ جب تک کسی عام دیوبندی سے کسی قسم کی گستاخی بذاتِ خد نہ دیکھ لیں اُسے ہر گز کافر و مرتد نہ سمجھے اگر چہ وہ خود کو دیوبندی ہی کہے کیوں کہ اپنے آپ کو دیوبندی کہنے سے کوئی دیوبندی عقائد والا نہیں ہو جاتا لہذا اُس پر وہ حکم نہیں جو دیوبندی عقیدہ رکھنے والے پر ہے۔

اہلِ سنت و جماعت (بریلوی) حنفی علماء  کے نزدیک  تمام دیوبندی کافر نہیں ۔ بلکہ صرف وہی دیوبندی کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ و محبوبانِ ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کی اور انتہائی تنبیہ کے باوجود انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی۔ اور وہ دیوبندی کافر ہیں جو اپنے اکابرین کی گستاخیوں کو جانتے ہیں اور ان  گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن، اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی دیوبندی کافر نہیں ہیں۔

 غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ مولانا  پیر سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں۔
 مسئلہ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو شخص بھی کلمۂ کفر بول کر اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کر لے گا تو ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی، لیگی ہو یا کانگریسی، نیچری ہو یا ندوی۔ اس بارے میں اپنے پرائے کا امتیاز کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک لیگی نے کلمۂ کفر بولا تو ساری لیگ کافر ہو گئی یا ایک ندوی نے ایک التزام کفر کیا تو معاذ اللہ سارے ندوی مرتد ہوگئے۔ ہم تو بعض دیوبندیوں کی عباراتِ کفریہ کی بناء پر ہر ساکن دیوبند کو بھی کافر نہیں کہتے۔ چہ جائے کہ تمام لیگی اور سارے ندوی کافر ہوں۔ ہم اور ہمارے اکابر نے بارہا اعلان کیا کہ ہم کسی دیوبند یا لکھنؤ والے کو کافر نہیں کہتے۔ ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ و محبوبانِ ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی۔ نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن، اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس۔ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی۔ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور محدود افراد ہیں۔ ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ بریلی کا، نہ لیگی نہ ندوی ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔(مقالات کاظمی :حصہ دوم ،ص۲۰)

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...