صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے کی ممانعت احادیث کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے بدعقیدگی یا کسی کی شان میں بد گوئی کرنا انتہائی درجہ کی بدنصیبی اور گمراہی ہے۔ وہ فِرقہ نہایت بد بخت اور بد دین ہے جو صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم پر لَعن طَعن یعنی بُرا بھلا کہنے کو اپنا مذہب بنائے ان کی دشمنی کو ثواب کا ذریعہ سمجھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بڑی شان ہے، ان کی تکلیف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا ہوتی ہے۔
اب ہم چند روایات پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلاکہنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں۔
(1) : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذو ہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی .
ترجمہ: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذاء دی ۔(مشکوٰۃ المصابیح: ج2ص554)
(2) : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
دعولی اصحابی لا تسبو اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا نہ کہو ۔ (مسند البزار: ج2 ص342 )
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)
(3) : حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص94)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علی بن سہل کے علاوہ اس روایت کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں اور علی بن سہل بھی ثقہ ہے ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)
(4) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین .
ترجمہ : جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی:ج12 ص142)
(5) : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظونی فی اصحابی . (سنن ابن ماجہ: ص172)
ترجمہ : لوگو !میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو ۔
بعض روایات میں ”احسنوا الی اصحابی “ کے الفاظ ہیں ۔ کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ ۔ (سنن النسائی: رقم الحدیث9175)
(6) : حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا ذکر اصحابی فامسکو واذا ذکرت النجوم فامسکوا وذا ذکر القدر فامسکوا.
ترجمہ : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص96) ۔ حضرت ابن عباس سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا : یا غلام ایاک وسب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان سبہم مفقرۃ الخ ۔
ترجمہ : اے بر خوردار: صحابہ کرام کو برا کہنے سے اجتناب کرو کیونکہ ان کو برا کہنا فقر و مسکینی کا باعث ہے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج8ص3 )
(7) : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسبوہم . (صحیح مسلم: ج2ص421)
ترجمہ : لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔
(8) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لا تسبوا اصحاب محمد فان اللہ عز وجل امرنا بالا ستغفار لہم وھو یعلم انہم سیقتلون .
ترجمہ : صحابہ کرام کو برا مت کہو ،بےشک اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل و قتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے ۔ (الصارم المسلول فصل نمبر5 المسئلہ الثانیہ فی استتابۃ الذمی بیروت)
(9) : حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو آپ نے فرمایا: کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ انہوں نے کہا :جی نہیں ،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم انصار میں سے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس پر حضرت زین العابدین فرمانے لگے: جب تم ان دونوں میں سے نہیں ہو تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا .
ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنا، ان کی مذمت یا ان کو سب شتم کرنا منع ہے اور اس کے مرتکبین کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے بدعقیدگی یا کسی کی شان میں بد گوئی کرنا انتہائی درجہ کی بدنصیبی اور گمراہی ہے۔ وہ فِرقہ نہایت بد بخت اور بد دین ہے جو صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم پر لَعن طَعن یعنی بُرا بھلا کہنے کو اپنا مذہب بنائے ان کی دشمنی کو ثواب کا ذریعہ سمجھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بڑی شان ہے، ان کی تکلیف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا ہوتی ہے۔
اب ہم چند روایات پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلاکہنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں۔
(1) : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذو ہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی .
ترجمہ: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذاء دی ۔(مشکوٰۃ المصابیح: ج2ص554)
(2) : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
دعولی اصحابی لا تسبو اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا نہ کہو ۔ (مسند البزار: ج2 ص342 )
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)
(3) : حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص94)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علی بن سہل کے علاوہ اس روایت کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں اور علی بن سہل بھی ثقہ ہے ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)
(4) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین .
ترجمہ : جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی:ج12 ص142)
(5) : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظونی فی اصحابی . (سنن ابن ماجہ: ص172)
ترجمہ : لوگو !میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو ۔
بعض روایات میں ”احسنوا الی اصحابی “ کے الفاظ ہیں ۔ کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ ۔ (سنن النسائی: رقم الحدیث9175)
(6) : حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا ذکر اصحابی فامسکو واذا ذکرت النجوم فامسکوا وذا ذکر القدر فامسکوا.
ترجمہ : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص96) ۔ حضرت ابن عباس سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا : یا غلام ایاک وسب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان سبہم مفقرۃ الخ ۔
ترجمہ : اے بر خوردار: صحابہ کرام کو برا کہنے سے اجتناب کرو کیونکہ ان کو برا کہنا فقر و مسکینی کا باعث ہے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج8ص3 )
(7) : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسبوہم . (صحیح مسلم: ج2ص421)
ترجمہ : لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔
(8) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لا تسبوا اصحاب محمد فان اللہ عز وجل امرنا بالا ستغفار لہم وھو یعلم انہم سیقتلون .
ترجمہ : صحابہ کرام کو برا مت کہو ،بےشک اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل و قتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے ۔ (الصارم المسلول فصل نمبر5 المسئلہ الثانیہ فی استتابۃ الذمی بیروت)
(9) : حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو آپ نے فرمایا: کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ انہوں نے کہا :جی نہیں ،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم انصار میں سے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس پر حضرت زین العابدین فرمانے لگے: جب تم ان دونوں میں سے نہیں ہو تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا .
ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنا، ان کی مذمت یا ان کو سب شتم کرنا منع ہے اور اس کے مرتکبین کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें