آخر کیوں مسلمانوں پر ظالم حکمران مسلط ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب تک مسلم قوم اللہ تعلیٰ کے احکامات اور اس کے حبیبﷺ کے فرامین پر چلتی رہی، انہیں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسے حکمران ملے، جب یہی قوم گناہوں سے دور تھی انہیں حضرت عثمان و علی رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسے حکمران ملے،جب قوم خوفِ خدا رکھنے والی تھی انہیں حضرت امام حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسے عادل حکمران ملے ،مگر جب یہی قوم گناہوں کے دلدل میں پھنسی ظالم و جابر حکمران مسلط ہوئے چنانچہ پہلی صدی کے مجدد امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان غور طلب ہے: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حجاج بن یوسف خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو لوگوں پر گناہوں کے موافق آیا (تنبیہ المغترین الباب الاول ص ٤٢)
حضرت عمرو بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان کی روشنی میں ہم زرا اپنی حالتِ زار پر غور کریں کہ ہم کس قدر اللہ عزوجل کی نافرمانی میں مبتلا ہیں فرض نماز ہم نہیں پڑھتے، ماہ رمضان کے روزے ہم نہیں رکھتے، زکوٰۃ پوری طرح ہم نہیں نکالتے، غریبوں کی مدد ہم نہیں کرتے، فلمیں، ڈرامے دیکھے بغیر ہمیں چین نہیں آتا، موسیقی میں سکون ہم تلاش کرتے ہیں
جھوٹ اور گالیاں ہمارے منہ پر رہتی ہیں، اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ ہم دیتے ہیں، اپنی اولاد کو حرام ہم کھلاتے ہیں، حسد، عداوت، غیبت، ہم کرتے ہیں، سود کو سود ہم نہیں سمجھتے، جوا ہم کھیلتے ہیں، وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں ہے؟ یہ تمام کام کرنے کے بعد بھی ہم یہ توقع رکھیں کہ حکمرانوں کے دل ہم پر نرم ہو جائیں گے؟ نہیں! ہرگز نہیں یہ ہمارا قصور ہے ہم سدھر گئے تو حکمران خد بخود سدھر جاہیں گے، یہ جتنی مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو یہ سب ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے یہ سب ہمارے کرتوتوں کا وبال ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میرا رب اپنے کلام مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:۔
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ ﴿ؕ۳۰﴾سورۃ الشوریٰ)
ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا
تفسیر: صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ خطاب مومنین مکلفین سے ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں‘ اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔ ان تکلیفوں کو ﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفع و درجات کے لئے ہوتی ہے۔
حدیث قدسی: حضرت ابو درداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ میں ﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے دست قدرت میں ہیں۔ جب لوگ میری تابعداری کریں، میں بادشاہوں کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب میری مخالفت کریں تو ان کے دلوں کو عذاب اور غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت ایذائیں دیتے ہیں تو لوگوں کو چاہئے کہ بادشاہوں کو برا کہنے میں مشغول نہ ہوں بلکہ ذکر اور عاجزی اختیار کریں پھر بادشاہوں کی طرف سے میں کافی ہوجائوں گا، یعنی وہ رعایا کے ساتھ سلوک و محبت سے پیش آئیں گے (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضائ، الفصل الثالث، حدیث نمبر 3721، جلد 2،ص 12)
میرے محترم بھائیوں! درج ذیل حدیث قدسی آپ نے پڑھی۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ ذرا غور کریں کہ جن حکمرانوں کو ہم ظالم و جابر کہتے ہیں۔ یہ کہاں سے آئے؟ کس قوم میں سے آئے؟
تو جواب یہی آئے گا کہ یہ ہم ہی میں سے آئے۔ یہ ہمارے ہی درمیان پلے بڑے اور آج حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ پھر یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟ اقتدار میں آنے سے قبل تو یہ ہمارے درمیان نظر آتے تھے۔ ہمارے دکھوں کو اپنا دکھ قرار دیتے تھے، مہنگائی، کرپشن اور ظلم کو ختم کرنے کے ہم سے وعدے کرتے تھے مگر اقتدار میں آتے ہی یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟
حدیث قدسی میں اس کا جواب موجود ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے جب لوگ میری اطاعت کریں تو میں بادشاہوں (حکمرانوں) کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب لوگ میری نافرمانی کریں تو حکمرانوں کے دلوں کو غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو (قوم کو) سخت ایذائیں دیتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے سبب حکمران قوم کو تکالیف پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاول، صبرہم علی جور الحکام ص 42)
سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ ہمیں ظالم حکمرانوں کے نقصان سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تجھے ظالم بادشاہ کے ساتھ ابتلاء واقع ہوجائے اور اس کے سبب سے تیرے دین میں نقصان پیدا ہوجائے تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کر اپنے لئے اور اس ظالم بادشاہ کے لئے ۔
(تنبیہ المغترین، الباب اول، صبرہم علی جورالحکام، ص 42)
معلوم ہوا کہ ظالم حکمرانوں کو برا کہنے کے بجائے ہم ﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں۔ اس کی بارگاہ میں سچی اور پکی توبہ کریں۔ اس کے دربار میں سربسجود ہوجائیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوجائیں۔
ذرا سوچئے! ہم جن مصیبتوں میں مبتلا ہیں خصوصاً مہنگائی‘ بے برکتی‘ تنگ دستی‘ ذلت و رسوائی‘ مہلک بیماریاں‘ دشمن کا خوف‘ ظالم حکمران‘ نافرمان اولاد، وغیرہ وغیرہ یہ سب ہمارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہیں اور ان سب سے نجات تبھی مل سکتی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے