मंगलवार, 21 मई 2019

آخر کیوں مسلمانوں پر ظالم حکمران مسلط ہیں؟






آخر کیوں مسلمانوں پر ظالم حکمران مسلط ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 جب تک مسلم قوم اللہ تعلیٰ کے احکامات اور اس کے حبیبﷺ کے فرامین پر چلتی رہی، انہیں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسے حکمران ملے، جب یہی قوم گناہوں سے دور تھی انہیں حضرت عثمان و علی رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسے حکمران ملے،جب قوم خوفِ خدا رکھنے والی تھی انہیں حضرت امام حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسے عادل حکمران ملے ،مگر جب یہی قوم گناہوں کے دلدل میں پھنسی ظالم و جابر حکمران مسلط ہوئے چنانچہ پہلی صدی کے مجدد امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان غور طلب ہے: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حجاج بن یوسف خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو لوگوں پر گناہوں کے موافق آیا (تنبیہ المغترین الباب الاول ص ٤٢)
حضرت عمرو بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان کی روشنی میں ہم زرا اپنی حالتِ زار پر غور کریں کہ ہم کس قدر اللہ عزوجل کی نافرمانی میں مبتلا ہیں فرض نماز ہم نہیں پڑھتے، ماہ رمضان کے روزے ہم نہیں رکھتے، زکوٰۃ پوری طرح ہم نہیں نکالتے، غریبوں کی مدد ہم نہیں کرتے، فلمیں، ڈرامے دیکھے بغیر ہمیں چین نہیں آتا، موسیقی میں سکون ہم تلاش کرتے ہیں
جھوٹ اور گالیاں ہمارے منہ پر رہتی ہیں، اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ ہم دیتے ہیں، اپنی اولاد کو حرام ہم کھلاتے ہیں، حسد، عداوت، غیبت، ہم کرتے ہیں، سود کو سود ہم نہیں سمجھتے، جوا ہم کھیلتے ہیں، وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں ہے؟ یہ تمام کام کرنے کے بعد بھی ہم یہ توقع رکھیں کہ حکمرانوں کے دل ہم پر نرم ہو جائیں گے؟ نہیں! ہرگز نہیں یہ ہمارا قصور ہے ہم سدھر گئے تو حکمران خد بخود سدھر جاہیں گے، یہ جتنی مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو یہ سب ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے یہ سب ہمارے کرتوتوں کا وبال ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میرا رب اپنے کلام مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:۔
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ ﴿ؕ۳۰﴾سورۃ الشوریٰ)
ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا
تفسیر: صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ خطاب مومنین مکلفین سے ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں‘ اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔ ان تکلیفوں کو ﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفع و درجات کے لئے ہوتی ہے۔
حدیث قدسی: حضرت ابو درداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ میں ﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے دست قدرت میں ہیں۔ جب لوگ میری تابعداری کریں، میں بادشاہوں کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب میری مخالفت کریں تو ان کے دلوں کو عذاب اور غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت ایذائیں دیتے ہیں تو لوگوں کو چاہئے کہ بادشاہوں کو برا کہنے میں مشغول نہ ہوں بلکہ ذکر اور عاجزی اختیار کریں پھر بادشاہوں کی طرف سے میں کافی ہوجائوں گا، یعنی وہ رعایا کے ساتھ سلوک و محبت سے پیش آئیں گے (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضائ، الفصل الثالث، حدیث نمبر 3721، جلد 2،ص 12)
میرے محترم بھائیوں! درج ذیل حدیث قدسی آپ نے پڑھی۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ ذرا غور کریں کہ جن حکمرانوں کو ہم ظالم و جابر کہتے ہیں۔ یہ کہاں سے آئے؟ کس قوم میں سے آئے؟
تو جواب یہی آئے گا کہ یہ ہم ہی میں سے آئے۔ یہ ہمارے ہی درمیان پلے بڑے اور آج حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ پھر یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟ اقتدار میں آنے سے قبل تو یہ ہمارے درمیان نظر آتے تھے۔ ہمارے دکھوں کو اپنا دکھ قرار دیتے تھے، مہنگائی، کرپشن اور ظلم کو ختم کرنے کے ہم سے وعدے کرتے تھے مگر اقتدار میں آتے ہی یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟
حدیث قدسی میں اس کا جواب موجود ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے جب لوگ میری اطاعت کریں تو میں بادشاہوں (حکمرانوں) کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب لوگ میری نافرمانی کریں تو حکمرانوں کے دلوں کو غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو (قوم کو) سخت ایذائیں دیتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے سبب حکمران قوم کو تکالیف پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاول، صبرہم علی جور الحکام ص 42)
سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ ہمیں ظالم حکمرانوں کے نقصان سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تجھے ظالم بادشاہ کے ساتھ ابتلاء واقع ہوجائے اور اس کے سبب سے تیرے دین میں نقصان پیدا ہوجائے تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کر اپنے لئے اور اس ظالم بادشاہ کے لئے ۔
(تنبیہ المغترین، الباب اول، صبرہم علی جورالحکام، ص 42)
معلوم ہوا کہ ظالم حکمرانوں کو برا کہنے کے بجائے ہم ﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں۔ اس کی بارگاہ میں سچی اور پکی توبہ کریں۔ اس کے دربار میں سربسجود ہوجائیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوجائیں۔
ذرا سوچئے! ہم جن مصیبتوں میں مبتلا ہیں خصوصاً مہنگائی‘ بے برکتی‘ تنگ دستی‘ ذلت و رسوائی‘ مہلک بیماریاں‘ دشمن کا خوف‘ ظالم حکمران‘ نافرمان اولاد، وغیرہ وغیرہ یہ سب ہمارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہیں اور ان سب سے نجات تبھی مل سکتی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے

सोमवार, 13 मई 2019

کھجور کے فوائد

کھجور کے فوائد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو کھجور ایک ایسا پھل عطا فرمایا ہے جو اپنے اندر بے شمار افادی پہلو رکھتا ہے، جس کے ہر تین اجزاء کارآمد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے غذائی اجزاء اس میں شامل کر دیئے ہیں۔ جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ساری دنیا کے مسلمان افطار کے وقت کھجور سے روزہ کھولنا سنت سمجھتے ہیں، جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے کہ کھجور سے ہمارے جسم اور صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق افطار کے موقع پر کھجور استعمال کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ رمضان میں روزہ دار کے معدے کو کھجور ہضم کرنے میں بہت زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی ہے جو دن بھر کے روزے کی وجہ سے نڈھال ہو چکا ہوتا ہے۔

کھجور کھاتے ہی وہ معدہ جو دن بھر کے روزے کی وجہ سے سست پڑجاتا ہے وہ ایک بار پھر فعال ہوتا ہے اور وہاں غذا ہضم کرنے والے خامروں اور انزائم کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے جو افطار کے بعد کھانے کو ہضم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

رمضان میں کھانے کے اوقات میں تبدیلی کے باعث اور کھانے میں اگر ریشےدار غذائیں شامل نہ ہوں تو روزہ دار قبض میں مبتلا ہوسکتا ہے لیکن چونکہ کھجور میں حل پذیر ریشے یا فائبرکی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ قبض سے محفوظ رہتا ہے۔

یوں تو کھجور ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں پیدا ہوتی ہے تاہم مقامات مقدسہ کی قربت کی وجہ سے سعودی عرب میں پیدا ہونے والی کھجوروں کو دنیا بھر کے مسلمان عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جو لوگ حج یا عمرہ کی نیت سے حجاز مقدسہ جاتے ہیں وہ اپنے ساتھ کھجور کا تحفہ ساتھ لانا نہیں بھولتے
سعودی عرب میں کھجور کی تقریباً سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک دور میں پوری مملکت میں سب سے زیادہ کھجور کی پیداوار کا شرف مدینہ منور کو حاصل تھا، لیکن اب دیگر علاقوں میں بھی کھجور وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔

کھجوروں میں چند مقبول نام عجوہ، برہی، خلص، خضری، مجدولہ، نبوت، سیف، سقی اور سکری ہیں۔

کھجور بہترین غذا کیوں ہے؟
                                   -------------------------------------
آئیے جانتے ہیں کہ کھجور میں کون سے اجزاء شامل ہیں جو انسانی جسم کو تندرست رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

کھجور میں شامل میگنیشیئم بلڈ پریشر کم کرتا ہے، پٹھوں،اعصاب اور شریانوں کو پرسکون رکھتا ہے، ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے، پھیپھڑے کے سرطان سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس میں موجود تانبے کے ساتھ مل کر ہائپرٹینشن اور دل کی دھڑکن کو قابو میں رکھتا ہے۔
کیلشیئم جو کھجور کا ایک اہم جزو ہے، یہ عضلات ، شریان اور اعصاب کو پھیلاتا ہے ہڈیوں کی تعمیر کرتا ہے اور ہڈیوں کے بھر بھرے پن کی بیماری اوسٹیوپورویس سے بچاتا ہے۔

کھجور میں موجود پوٹاشیم دل کے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے، پٹھوں کی اکڑن سے بچاتا ہے،ہڈیوں کے ڈھانچے کو بہتر کرتا ہے اور کینسر کا خطرہ گھٹاتا ہے، اس پھل میں شامل فاسفورس دانتوں اور ہڈیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

کھجور میں شامل  آئرن اس کا اہم حصہ ہے جو وٹامن بی ٹو اور کاپر کے ساتھ مل کر خون کے سرخ خلیات کی تعمیر میں مدد کرتا ہے، بذریعہ خون پٹھوں اور خلیات تک آکسیجن کی فراہمی ممکن بناتا ہے، بصارت کو بہتر کرتا ہے۔

وٹامن اے کی کھجور میں دستیابی سے رات کو نظر بہتر ہوتی ہے اور جلد خشک نہیں ہوتی، سیب اور ناشپاتی کی طرح کھجور کولیسٹرول کم کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں امراض قلب سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں افطار میں کھجور کے استعمال کی ترغیب موجود ہے،
زمین پر سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السَّلام کی بچی ہوئی مٹی سے کھجور کا درخت پیدا کیا گیا (تفسیر روح البیان،ج7ص393ملخصاً )
 ٭ کھجور  کی خاصِّیَّت گرم اور تَر ہے لہٰذا اسے مُعتَدِل کہا جا سکتا ہے،
٭ جسامت میں چھوٹے سے اس پھل کی تقریباً چار ہزار اقسام بتائی جاتی ہیں مگر مدینہ منوّرہ کی عجوہ اور بَرنی کھجور سب سے عمدہ ہیں۔(رسائلِ طب، ص 322، 328 ملخصاً)

 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
نَہار منہ کھجور کھانے سے پیٹ کے کیڑے مَر جاتے ہیں۔ (جامع صغیر،ص398 حدیث:6394)

٭عجوہ کھجور جنّت سے ہے، اس میں زہر سے شِفا ہے۔ (ترمذی،ج4ص17، حدیث:2073)

 ٭ کھجور کھانے سے قولنج (یعنی بڑی انتڑی کا درد Colic Pain) نہیں ہوتا۔ (کنزالعمال،ج10ص12، حدیث:28191 )
کھجور کے بیش بہا فوائد اور بھی ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ وہ پھل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے آخری  کلام میں بیس سے زائد مقامات پر جبکہ احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر ہوا ہے جس نے کھجور کی اہمیت اور فضیلت پر مہرِ یقین لگا دی ہے۔

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...