शुक्रवार, 9 अक्टूबर 2020
جاہل، ڈھونگی صوفی و پیر کو پہچانئے اور ان کے فتنے سے بچیئے۔ ¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯ جہاں حقیقی اولیاء کرام، قرآن وسنت اور اپنے روحانی فیوض وبرکات سے اپنے مریدین ومعتقدین کی مذہبی واخلاقی اور ظاہری و باطنی تربیت فرماتے ہیں وہاں آج کل بعض نام نہاد جعلی پیر فقیر ولایت کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہوئے ان کے ایمانوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور انہیں گمراہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں اور خود ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی شرعی معاملہ جیسے نماز وغیرہ سے متعلق پوچھا جاتا ہے تو(اَلعِیَاذُ باللہ تعالٰی) کہہ دیتے ہیں:’’ہم شریعت کے پابند نہیں بلکہ شریعت ہماری پابند ہے۔ کوئی یہ بکتا ہے: ’’ تم شریعت پر چلو، ہمارا طریقت کا راستہ اس سے الگ ہے۔ تم ظاہری احکام پرعمل کرتے ہو جبکہ ہم باطنی علوم پر عمل پیرا ہیں۔ اور بعض یہ حیلہ سازی کرتے ہیں: ’’میاں! ہم تو مدینے میں نماز پڑھتے ہیں۔ میاں! نماز تو روحانیت کا نام ہے، جو دِل میں ہوتی ہے، ہمارے دل نمازی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے خبیث صفت لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایسوں سے اپنا ایمان و عقیدہ محفوظ رکھنا فرض ہے کہ کہیں یہ لٹیرے ہمارا ایمان بھی نہ برباد کر دیں۔ کیونکہ عام طور پران کے شنیع اقوال وعقائد، کفر و گمراہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور ان سے دور رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اہلسنّت و جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’شریعت سے طریقت جُدا نہیں۔ چنانچہ، مجدد اعظم، امام اہلسنّت، سیِّدُنا اعلیٰ حضرت، امام احمد رضاؔ خان رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۱۳۴۰ھ) ارشاد فرماتے ہیں: ’’شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں، اور طریقت حضور کے افعال، اور حقیقت حضور کے احوال، اور معرفت حضور کے علوم بے مثال۔(فتاوی رضویہ، ج۲۱، ص۴۶۰) حضرت سیدی علامہ عبدالغنی بن اسماعیل نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان جاہلوں(ڈھونگی صوفی و پیر) کی حد سے گزری ہوئی باتیں اور دین کو نقصان پہنچانے والے کام تجھے دھوکے میں نہ ڈالیں کہ بغیر علم و معرفت سالک و عابد بنے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ عقائد اہلسنّت سے ناواقفیت، خلافِ شرع اقوال، جہل مرکب کے سبب باطل اعمال اور خود کو ہدایت پر سمجھنے کے اعتبار سے خود بگڑے اور دوسروں کو بھی بگاڑتے ہیں، آپ گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، سیدھی شریعت سے ہٹ کر بدمذہبی اور بے دینی کی طرف مائل ہیں، صراط مستقیم کو چھوڑ کر جہنم کی راہ چلتے ہیں، علمائے شریعت کی راہ سے الگ ہیں کیونکہ یہ اپنی کمزور عقلوں اور بیہودہ رائے پر عمل کرتے ہیں جبکہ علمائے شریعت قرآن وسنت، اجماعِ امت اور پختہ قیاس کے احکام پر چلتے ہیں۔ نیز یہ جاہل لوگ، مشائخِ طریقت کے مسلک سے بھی خارج ہیں کیونکہ یہ آدابِ شریعت سے روگردانی کئے ہوئے ہیں اور اس کے مستحکم قلعوں میں پناہ لینے کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔ پس وہ انکارِ شریعت کے سبب کافر ہیں اور دعوے یہ کرتے ہیں کہ ہم اس کے انوار سے روشن ہیں۔ مشائخِ طریقت آدابِ شریعت پر قائم ہیں اور تمام مخلوق پر لازم احکامِ الٰہی کی تعظیم کا عقیدہ رکھتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقاماتِ محبت میں قدسی کمالات کا تحفہ عطا فرمایا ہے جبکہ خرافات کے دھوکے میں پڑے ہوئے اور عار کے لباس میں ملبوس یہ جاہل لوگ ظاہر میں مسلمان اور حقیقت میں کافر ہیں۔ یہ ہمیشہ اپنے فاسد خیالات کے بتوں کے سامنے جم کر بیٹھے رہتے ہیں اور شیطان جو وسوسے ان کے خیالات و افکار میں ڈالتا ہے انہی پر فریفتہ ہیں۔ پس ان کے لئے پوری خرابی ہے اس لحاظ سے کہ یہ اس مقام پر اپنی حالت پر ڈٹے ہوئے ہیں، اس کو برا نہیں سمجھتے کہ اس سے رجوع کر لیں اور نہ ہی انہیں اپنے جاہل ہونے کا خیال آتا ہے کہ دوسروں سے ایسا علم حاصل کریں جو انہیں اس بری حالت سے نفرت دلائے۔ اور اُن کے لئے بھی ہر طرح سے خرابی ہے جو دنیا و آخرت میں رسوائی کا سبب بننے والی ان کی قبیح حالت اور سیرت کی پیروی کرتے ہیں یا ان کے کاموں کو اچھا جانتے ہیں۔ پس یہ جاہل لوگ، عابدین کے حق میں راہِ خدا عزوجل کے راہزن(یعنی لٹیرے اور ڈاکو) ہیں اس طرح کہ جو شخص عبادت و طاعت اور اِخلاص و تقویٰ کی راہ پر چلنا چاہتا ہے یہ لوگ اسے اپنی بناوٹی باتوں ، تکبرانہ اَعمال، ناقص احوال، اور غلط آراء کے ذریعے اس راہ سے روکتے ہیں اور احکامِ شرع کا انکار کر کے ہر دینی کام میں حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے جو حق (یعنی دین اسلام) حضور نبی ٔکریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں اسے جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنے لئے دین کے معاملہ کو آسان بنانا ہے اور کمالات کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے۔ اور حال یہ ہے کہ نرے جاہل اور دین کے اصول و فروع کو ضائع کرنے والے ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ ، الباب الاول فی اقسام بیان البدع، الفصل الثانی ، ج۱، ص۱۸۷۔۱۸۹)
सदस्यता लें
टिप्पणियाँ भेजें (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...
जवाब देंहटाएंمستحب کام کو فرض و ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔
✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯
نیاز فاتحہ، بزرگوں کے اعراس، گیارہویں، میلاد شریف مزارات اولیاء پر حاضری، پیری مریدی وغیرہ کام مستحب ہیں۔ لیکن ان کاموں کو آج کل عوام جو ضروروی و فرض کی طرح سمجھتے ہوئے کرنے لگی ہے یہ بہت غلط ہے۔ اسلام میں ان کاموں کی حیثیت صرف مستحب کی ہے جنہیں کرنا فرض و واجب نہیں ہے، اگر کوئی کرے تو اچھا نہ کرے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔ علمائے اہل سنت نے جہاں مستحب کام کو کرنے کی اجازت دی ہے وہی ان کاموں کو ضروری اور فرض سمجھتے ہوئے کرنے سے منع بھی فرمایا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت والا ہو جب کسی سنت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب ہو تو یہ عمل اب مستحب نہیں کہلائے گا بلکہ اب یہ کام بُرا ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ،۷ / ۴۱۰، مُلخصاً)
اوصوا بترک التزام مستحب اذا خیف ان یظنہ العوام واجبا۔
جب یہ خطرہ ہوکہ عوام اسے(مستحب کام کو) ضروری سمجھ لیں گے تو علماء مستحب پر پابندی ترک کرائیں( فتاویٰ رضویہ جلد٨،ص١٢٦)
علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ان المندوبات قد تنقلب مکروہات اذا رفعت عن رتبتھا۔
مستحب