बुधवार, 27 जुलाई 2022

تاریخ نویسوں کی مسلم مجاہدین آزاد کے ساتھ ناانصافی

 اتاریخ نویسوں کی مسلم مجاہدین آزادی کے ساتھ ناانصافی 

ملک ہندوستان آزادی کا 75 واں امرت مہوتسو منانے جا رہا ہے، 15 اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے جغرافیے میں ہندوستان کو اک آزاد ملک کے طور پر جگہ ملی، لیکن اسے آزاد کرانے کے لئے ہمارے مسلم اسلاف کو بھاری قیمت چکانی پڑی، بہت سے بزرگوں نے اسے آزاد کرانے کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں، سینکڑوں بزرگ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، ہزاروں کو جیل کی کال کوٹھری میں محبوس کر دیا گیا اور تب جا کر یہ ملک آزاد ہوا۔ 

آزادی کی اس لڑائی میں مسلمان ہر طرح سے پیش پیش تھے لیکن ہماری عدم توجہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ تاریخ نویسوں کی تنگ نظری نے ہمارے مجاہدین آزادی کو حاشیے پر دھکیل دیا، جو لوگ معتبر تاریخ داں سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اکّا دکّا کہیں کہیں کسی فردِ واحد کا ذکر کیا ہے، لیکِن ان دو چند ناموں کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے نام ہیں جنہوں نے آزادی کے جدّ و جہد میں کارہائے نمایاں انجام دیے، اور بہتوں نے اپنی جان کی قربانی بھی دے دیں، ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ نہ تو ہم تاریخ جاننا چاہتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہتے ہیں،جن لوگوں کا آزادی میں رتّی برابر بھی رول نہیں تھا بلکہ ٹھیک اُس کے اُلٹ انہوں نے انگریزوں سے معافی مانگی ان کی غلامی قبول کی آج وہ تاریخ کے صفحات میں مجاہد گردانے جا رہے ہیں، اور جنہوں نے اس وطن کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی، اپنی پوری زندگی دشمنوں سے لڑتے ہوئے گزار دی، قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا آج تاریخ کے صفحات کے حاشیے میں بھی اُن کا نام نہیں ہے۔


زندہ قومیں اپنی تاریخ فراموش نہیں کرتی، اپنے اجداد کے کارنامے انہیں یاد ہوتے ہیں، وہ ان کا مرثیہ نہیں پڑھتے، باضمیر لوگ ان سے سبق حاصل کرتے ہیں، اپنے اجداد کے کارناموں کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرتے ہیں، ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے، آج ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بزرگوں کی قربانی سے واقفیت رکھتے ہیں، یا ان کے کارناموں کو جاننے میں دلچسپی ہے؟ بہت مشکل سے دو چار بزرگوں کے نام ہم جانتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تاریخ پڑھیں، پڑھائیں، یاد رکھیں اور محفوظ کریں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ نویسی اور تاریخ دانی کے لیے آسمان سے اب کوئی فرشتہ نہیں آئے گا، یہ کام مجھے کرنا ہوگا، آپ کو کرنا ہو گا، ہم سب کو کرنا ہوگا، اور یہی ان اکابرین کے لیے سچّا خراج عقیدت ہوگا۔

ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ نہ تو ہم تاریخ جاننا چاہتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہتے ہیں، جن لوگوں کا آزادی میں رتّی برابر بھی رول نہیں تھا بلکہ ٹھیک اُس کے اُلٹ انہوں نے انگریزوں سے معافی مانگی ان کی غلامی قبول کی آج وہ تاریخ کے صفحات میں مجاہد گردانے جا رہے ہیں، اور جنہوں نے اس وطن کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی،اپنی پوری زندگی دشمنوں سے لڑتے ہوئے گزار دی،قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا آج تاریخ کے صفحات کے حاشیے میں بھی اُنکا نام نہیں ہے۔

عمران سیفی قادری 


बुधवार, 18 मई 2022


دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر حملہ آور

قیامت کی وہ نشانیاں جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کی اقوامِ عالم ملتِ اسلامیہ پر ٹوٹ پڑیں گی۔


 *ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:* 


"يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ،‏‏‏‏ فَقَالَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ".


”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوں گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں *وہن* ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! *وہن* کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے“ (سنن ابو داؤد:4297، سلسلۃ الصحیحۃ:958) 


یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے دلائل اور علامات قیامت میں سے ہے۔ آج اقوامِ عالم امت اسلامیہ پر اس طرح حملہ آور ہو چکی ہیں جس طرح بھوکے کھانے کے برتن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس ذلت و رسوائی کا سبب مسلمانوں کی قلت نہیں۔ وہ کثرت میں ہیں مگر اس کے باوجود گھاس پھونس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ اس جھاگ کی طرح ہیں جو سیلاب کے پانی کے اوپر آجاتی ہے اور اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ آج امتِ مسلمہ کا یہی حال ہے۔ ان کی تعداد آج ایک ہزار ملین (ایک ارب) سے زیادہ ہے مگر ان کی یہ کثرت کمیت کے اعتبار سے ضرور ہے مگر کیفیت کے اعتبار سے ہرگز نہیں۔

آج دشمنوں کے دلوں سے مسلمانوں کا رعب نکل چکا ہے اور وہ اہل اسلام کو بے وقعت سمجھ کر ان کے خلاف جنگیں برپا کرتے اور ان پر حملے کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب مسلمانوں کے دلوں میں *وہن* ڈال دیا گیا ہے، یعنی وہ دنیا سے محبت اور موت کے خوف میں مبتلا ہیں۔

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...