शुक्रवार, 30 जून 2017
مجدد الف ثانی اور امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے عقائد و نظریات ________________________ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالٰی بعض شخصیات مقدسہ کو ایسی شان جلالت عطا فرماتا ہے کہ ان کا قول و افعال اہل زمانہ کے لیے معیار حق بن جاتا ہے_ بر صغیر پاک و ہند میں حضرت امام ربانی سیدنا مجدّد الف ثانی قدس سرہ النوری کی ذات ستودہ صفات کو بھی یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا_یہ حضور امام الانبیاء محبوب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نگاہ عنایت تھی کہ آپ کہ علم و فضل، فکر و نظریات کا لوہا جہاں اپنوں نے مانا وہاں بیگانوں نے تسلیم کیا، فیضی و ابو الفیضی سے لے کر وہابی و دیوبندی حضرات تک آپ کی عظمت علمی و رفعت فکری کا اعتراف کرتے ہیں_یہ الگ بات ہے کہ ان سب کے عقائد و نظریات آپ سے نہیں ملتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ سنت و جماعت کے علمبردار ہیں اور یہ سنت و جماعت کے مخالف، فیضی و ابو الفضل کو تو چھوڑ ئیے وہابی دیوبندی حضرات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ حضور مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے ساتھ محبت و عقیدت کا دعوٰی کرتے ہیں، آپ کے علمی و روحانی وراث بھی کہلاتے ہیں۔ آپ کو معیار حق بھی سمجھتے ہیں مگر پھر بھی آپ کے عقائد و نظریات سے ان کے عقائد و نظریات کو کوئی نسبت نہیں، آپ سے ان حضرات کی محبت و عقیدت کا حال دیکھئیے۔ 1_ امام الوہابیہ مولوی اسماعیل دہلوی نے آپ کو امام ربانی، قیوم زمانی جیسے معزز القاب سے یاد کر کے اولیاء عظام میں شمار کیا۔(صراط مستقیم، ص١٣٢) 2_ مولوی داؤد غزنوی نے لکھا "اس نازک زمانہ میں اسلام کی نصرت و حمایت کے لیے اللہ تعالٰی نے امام ربانی مجدّد الف ثانی شیخ احمد بن عبد الاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کو پیدا فرمایا، شیخ سرہندی تمام داعیانہ صلاحیتوں سے آراستہ تھے_(الاعتصام ١٣نومبر ١٩٥٩ء) 3_ ابو الاعلی مودودی نے لکھا_ شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں کی انہوں نے ہندوستان میں حکومت کو بلکل ہی کفر کی گود میں چلے جانے سے روکا اور اس فتنہ اعظمئ کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اب سے تین چار سو سال قبل ہی اسلام کا نام و نشان مٹا دیتا، اس کے علاوہ انہوں نے دو عظیم الشان کام اور بھی سر انجام دیئے ایک یہ کہ تصوف کے چشمہ صافی کو ان آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گمراہیوں سے اس میں سرایت کر گئ تھی پاک کر کے اسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا_ دوسرے یہ کہ ان تمام رسوم جاہلیت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھی_(تجدید و احیائے دین ص88) 3_ مولوی عبد اللہ روپڑی نے لکھا_حضرت مجدّد نے اپنے مکتوبات میں توحید و سنت کی ترغیب اور شرک و بدعت کی تردید اور اعمال شرکیہ اور بدعتیہ کی جس عمدگی سے نشاندہی فرمائ یہ انہیں کا حصہ ہے_ اور ایمان و اعتقاد کی سلامتی کے لیے صحابہ کرام اور علمائے سلف کے تعامل کا جو سنہری اصول پیش فرمایا یہ ہر قسم کے الحاد اور گمراہی کی شناخت کے لیے راہنمائی بھی ہے اور اس سے بجنے کے لیے تریاق بھی_(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث نومبر 1959ء ص3) ملک حسن علی جامعی نے لکھا_اگر اہل اسلام انصاف سے کام لے کر شیخ مجدّد کی تعلیمات کو آویزہ گوش بنائیں تو مسلمانوں کی بہت سی تلخیاں دور ہو سکتی ہیں اور بہت سے خانہ برانداز جھگڑے نمٹائے جا سکتے ہیں_(تعلیمات مجددیہ ص23) اب ان حضرات(وہابیوں) کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی تحریروں کے مطابق حضرت مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات و ارشادات کی روشنی میں خدا اور رسول کے متعلق اپنے عقائد و نظریات پہ نظر ثانی کرتے لیکن حیرت و افسوس سی کہنا پڑتا ہے کہ قول و افعال کی دورنگی جیسی ان کے ہاں ملتی ہے کہیں اور نہیں، دوسری طرف چودہوی صدی کے مجدّدِ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے امام ربانی کے عقائد و نظریات کو فروغ دیا_ اور اپنے وسیع تجدیدی میدان میں ان کے انداز فکر سے راہنمائی حاصل کی، ان حضرات کی دورنگی یہاں بھی قابل دید ہے کہ یہ امام ربانی کے عقائد و نظریات کو تو قرآن و سنت کے مطابق سمجھتے ہیں مگر جب انہیں عقائد و نظریات کو اعلی حضرت فاضل بریلوی بیان کرے تو ان کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیتے ہیں_بقول داغ دہلوی_ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں نامور مفکر و پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب نے لکھا ہے_حقیقت یہ ہے کہ امام ربانی کے افکار نے پاک و ہند کی فکری زندگی اور سیاسیات پر گہرا اثر ڈالا اور معاشرے میں تدریجی انقلاب پیدا کیا، پاکستان و ہند کے مفکرین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور ڈاکٹر محمد اقبال امام ربانی سے بہت متاثر ہیں_(تقدیم مکتوبات امام ربانی بحیثیت ماخذ ایمانیات ص١٨)اب امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اور اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ کے چند عقائد و نظریات پیش خدمت ہیں_🌼🌻شان لولاک🌼🌻1_ امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں_ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عالم دنیا میں ظہور نہ فرمانا ہوتا تو اللہ سبحانہ تعلی مخلوق کو پیدا ہی نہ کرتا اور آپ نبی تھے، دراں حالیکہ آدم علیہ السلام ابھی پانی اور مٹی کی حالت میں تھے_ (مکتوب 1،دفتر دوم). 1۔ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ الله تعلی نے تمام جہان کو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے واسطے پیدا فرمایا، حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا ;لولاک لما خلقت الدنیا آدم علیہ السلام سے ارشاد ہوا یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نہ ہوتے تو میں تمہیں بناتا نہ زمین نہ آسمان کو، (مطالع المسرات ص262، صلوۃ الصفا فی نور المصطفے از اعلی حضرت) 🌼🌻 حضور نور ہیں 🌻🌼 2_ مجدّد الف ثانی قدس سرہ فرماتے ہیں جاننا چاہیے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی پیدائش دیگر انسانوں کی طرح نہیں ہوئی کہ آپ باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالٰی کے نور سے پیدا ہوئے جیسا کہ آپ نے فرمایا ;خلقت من نور اللہ ;کسی دوسرے کو یہ سعادت میسر نہیں ہوئی_(مکتوب ١٠٠ دفتر سوم) 2_ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیدا ہوئے، حدیث میں وارد ہے ; بے شک اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا (صلوۃ الصفا)🌼🌻 حضور کو اپنے جیسا بشر کہنا 🌻🌼. 3_ مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جن محجوبوں نے حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بشر کہا اور دوسرے انسانوں کی طرح تصور کیا بالآخر منکر ہو گئے اور جن سعادت مندوں نے ان کو رسالت و رحمت عالیمان کے طور پر دیکھا اور دیگر لوگوں سے ممتاز اور سرفراز سمجھا وہ ایمان کی سعادت سے مشرف ہو گئے اور نجات پانے والوں میں شامل ہو گئے_(مکتوب 64 دفتر سوم) 3_ اعلی حضرت بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ وہ بشر ہیں لیکن عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف و احسن وہ انسان ہیں مگر ارواح و ملائکہ سے ہزار درجہ الطف وہ خود فرماتے ہیں_ میں تم جیسا نہیں میں تمہاری ہیئت پر نہیں (قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام) 🌼🌻 عقیدہ حیات النبی 🌼🌻 4_ امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں_آپ نے سنا ہوگا کہ الانبیاء یصلون فی القبور ; نبی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہمارے پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام معراج کی رات جب حضرت کلیم اللہ علیہ السلام کی قبر پر گزرے تو دیکھا کہ قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں اور جب اسی وقت آسمان پر پہنچے تو ان کو وہاں پایا اس مقام کے معاملات نہایت عجیب و غریب ہیں_(دفتر دوم مکتوب 16) 4_ اعلی حضرت بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ دردو و سلام ہی نہیں بلکہ امت کے تمام اعمال و افعال روزانہ دو وقت سرکار عرش وقار حضور سید الابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم میں عرض کیے جاتے ہیں_ احادیث کثیرہ میں تصریح ہے_ معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اور اپنی امت کے احوال و واقعات سے آگاہ ہیں (حیات الموات فی بیان سماع الاموات اور فرماتے ہیں_ انبیاء کو بھی اجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے پھر اسی آن کے بعد ان کی حیات مثل سابق وہی جسمانی ہے یہ ہیں حسی ابدی ان کو رضا صدق وعدہ کی قضا مانی ہے اور فرماتے ہیں_ تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے 🌼🌻 حضور علم غیب جانتے ہیں 🌼🌻 5_ حضرت امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں_ علم غیب جو اس کے ساتھ مخصوص ہے اپنے خاص رسولوں کو اطلاع بخشتا ہے (مکتوب 310 دفتر اول) ایک جگہ اور فرماتے ہیں_ حروف مقطعات قرآنی سب کے سب حالات کی حقیقتوں اور اسرار کی باریکیوں کے متعلق رموز اور اشارے ہیں جو محب اور محبوب کے درمیان وارد ہیں اور کون ہے جو ان کو پاسکے (مکتوب ١٠٠ دفتر سوم) 5_ اعلی حضرت مولانا احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ علم الہی ذاتی ہے اور علم خلق عطائی وہ واجب ہے یہ ممکن، وہ قدیم یہ حادث، وہ نامخلوق یہ مخلوق، وہ نامقدور یہ مقدور، وہ ضروری البقا یہ جائز الفنا، وہ ممتنع التغیر یہ ممکن التبدل (انباء المصطفے) اور فرماتے ہیں_ فضل خدا سے غیب شہادت ہوا انہیں اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع مولا کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے ان پر کتاب اتری بیان لکل شئ تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے۔ __________________________ دعا گو ناچیز عمران سیفی رضوی
गुरुवार, 29 जून 2017
حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری بریلوی مد ظلہ العالی پر محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گستاخی کرنے کا الزام اور اس کا جواب! ________________________________________________ ابھی کچھ دنوں سے سنابلی اینڈ ادریسی کمپنی کا فتنہ نمودار ہوا ہے، جو *حضور شیخ الاسلام و المسلمین حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان؛عرف ازہری میاں (اطال اللہ عمرہ و علمه و فضله : و دام ظله علینا)* کو ہوائی فائرینگ چیلنج کرتا ہے اور اپنے بیان بازی میں گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر قوم مسلم کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ازہری میاں نے "شیخِ طریقت، امیرِ راہِ تصوف،حضور نظام الدین اولیاء دہلی رحمة اللہ علیه کی شان میں گستاخی کی، جیسا کہ اُن کے فتاویٰ میں موجود ہے *" ازہری میاں نے گستاخی کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ حضرت نظام الدین اولیاء سے خطأ ایسا ہوا ہے، نہ کہ انھوں نے دانستہ حق کو چھوڑا اور باطل کو اپنایا"* *جاء الحق وزھق الباطل* اس عبارت کا پہلے ہم سیاق و سباق دیکھیں پھر اہل علم فیصلہ کریں کہ مسلکِ رضا کا باغی و گستاخ کون ہے، اور حق کس کے ساتھ پایا جاتا ہے، عدل و انصاف کا ترازو ہم آپ پر چھوڑتے ہیں! آپ چاہیں تو حق بجانب تولیں یا پھر باطل کا ساتھ دیں یہ عنداللہ آپ کو جواب دینا ہے، *مسئلہ* حضور تاج الشریعہ سے سائل نے سوال کیا؛ سجدۂ تعظیمی کے جواز و عدم جواز پر اور سائل نے جواز کا قول رکھتے ہوئے حضور نطام الدین اولیاء کا قول نقل فرمایا کہ حضرت نظام الدین اولیاء نے سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دیا ہے وغیرہ اقوال کو پیش کرنے کے بعد سائل نے پوچھا کیا سجدہ تعظیمی جائز ہے! اگر نہیں تو پھرحضرت نظام الدین اولیاء نے جائز کیوں لکھا؟ (یہ تھا سائل کا سوال) *حضور تاج الشریعہ نے جواباً ارشاد فرمایا* سجدہ تعظیمی ہماری شریعتِ محمّدی میں جائز نہیں. اور آپ نے بےشمار دلائل سے ثابت کیا کی سجدۂ تعظیمی جائز نہیں اور آگے فرمایا کہ *"حضرت نظام الدین اولیاء سے اس مسئلہ میں خطأ ایسا ہوگیا، نہ کہ انہوں نے دانستہ حق کو چھوڑا اور باطل کو اپنا"* یعنی حضرت سے لکھنے میں خطا، لغزش واقع ہوگئی....آپ نے جان بوجھ کرکر ایسا نہیں لکھا کہ سجدہ تعظیم جائز ہے بلکہ غلطی سے ایسا ہو گیا..اور ہو جاتا ہے کیوں کہ انسان خطا کا پوتلہ ہے اور غلطیاں صادر ہونا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہیں یہ الگ بات ہے کہ اللہ کی نصرت کے قریب ہو جائیں.مگر معصوم نہیں، منزہ عن الخطا صرف انبیاء کی ذات ہے....! اب سنا بلیّ اینڈ ادریسی کمپنی نے حضور تاج الشریعہ کی ذات با برکت پہ گستاخی کا الزام لگاتے ہوئے یہ کہا کہ آپ نے لفظ *'خطا*' لکھ کر حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں گستاخی کی (معاذاللہ ثم معاذ اللہ) کیا لفظ "خطا" لکھ دینے کی وجہ سے حضور تاج الشریعہ گستاخ ہیں (معاذ اللہ) ــــــــــ اگر ہاں تو لفظ خطا پر حضور تاج الشریعہ ہی کی ذات کیوں.؟؟ بلکہ جن جن اکابرین نے اپنے اسلاف کی لکھی ہوئی عبارتوں پر لفظ خطا اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ان کو بھی آپ گستاخ کہیئے...اور *فرید الحسن* جیسے جاہل ملاؤں سے فتویٰ لکھوائیے... *ملاحظہ فرمائیے* علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں: *المجتھد قد یخطی وقد یصیب* یعنی مجتھد کبھی خطا کرتا ہے اور کبھی درستگی کو پہونچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کی زبان و قلم میں لغزش آتی ہے تو علمائے کرام لفظ ' خطا، سہو، تطفل، اور بھول چوک جیسے الفاظ سے اس کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور اس توجہ کو دلانے کو کسی بھی دور میں گستاخی نہیں کہا گیا... فارسی مقولہ ہم نے پڑھ لیا مگر سمجھ نہ سکے… ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ … یعنی بزرگوں کی غلطی کو پکڑنا بھی خود ایک خطا ہے۔ مقولہ درست ہے کہ بزرگوں سے اگر کوئی خطا ہوجائے تو اسے نظر انداز کردینا چاہیے۔ لیکن *فقیر قادری* کا خیال ہے کہ ادب اور زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات بزرگوں کے قلم سے نکلی ہوئی غلطیاں جو یقیناً جان بوجھ کر نہیں کی جاتیں لیکن اگر انھیں مندرجہ بالا فارسی کے مقولے پہ عمل کرتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے تو لوگ اسی غلطی کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح غلطی در غلطی ہوتی چلی جاتی ہے... اس لئے لفظ خطا ،سہو لکھ کر بتا دیا جاتا ہے کہ ان سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی، اس غلطی و خطا پر معتقدین و مریدین کا چلنا جائز نہیں... اگر لفظ خطا سے کسی بزرگ کی شان میں گستاخی ہو جاتی ہے تو پھر آپ صحابہ کرام پر بھی فتوی لگائیں معاذ اللہ! فتاوی رضویہ کو عام کرنے والے اشخاص فتاوی رضویہ سے ہی کچھ عبارتیں پڑھ لیں کہ اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں حضرات صحابہ کرام کے درمیان بہت سے اختلافات پائے گئ اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات کو آنے والے علمائے کرام نے حق جن کی طرف تھا ان کی نشاندہی کی اور مدمقابل کی خطا کو خطائے اجتہادی قرار دیا..! کیاحضرت علی بمقابلہ حضرت امیر معاویہ باغی یا خطاکار تھے یا بطور اجتھاد ان کی رائی مختلف تھی؟ بلاشبہ ان کی خطا خطائے اجتھادی تھی، مذکورہ عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا کوئی عقل و خرد سے تعلق رکھنے والا یہ کہ سکتا ہے کہ اعلیٰ حضرت سرکار نے (معاذاللہ) حضرت امیر معاویہ کے ساتھ ساتھ دیگر صحابہ کرام کو بھی خاطی کہ کر ان کی گستاخی اور ان کی توہین کی ہے ⚔ *ہے کوئی ایسا نام نہاد مفتی* اعلیٰ حضرت آگے فرماتے ہیں: ردالمحتار میں اس مقام پر قلمی *خطا* واقع ہوئی ہے... صاحب تذکرہ کا اسے تائے تانیث کے ساتھ بتانا *خطا* ہے اگر امام اسحاق سے ایک دو حدیثوں میں *خطا* واقع ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں اور اس قدر کثیر روایات میں اتنی تھوڑی سی *خطا* سے کون *معصوم* ہے کیا اب بھی حضور تاج الشریعہ کے لکھے ہوئے جملوں کو گستاخی ثابت کروگے؟: اگر ہاں تو پہلے حضور تاج الشریعہ کے جدّ کریم پر فتوی لگایئے کیوں آپ نے تو اولیاء کو ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اختلافات کو بھی لفظ *خطا* سے بیان فرمایا ہے.. دراصل بات یہ ہے کہ فقہائے کرام کی سنت جاریہ ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے ہونے والی بھول چوک کو لفظ *خطا* سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ علامہ *علاءالدین کاسانی* اپنی کتاب مستطاب بدائع صنائع میں نقل فرماتے ہیں: *فقال سعید بن المسیب اخطا شریح* یعنی سعید بن مسیب نے فرمایا کہ شریح نے خطا کی ـ امام محمد کے تعلق سے شمس الائمہ علامہ سرخسی فرماتے ہیں: *یجوز ان محمدا اخطا فی ھذا التخریج* کہ کہ ممکن ہے کہ امام محمد سے اس تخریج میں *خطا* ہوئی... اور امام یوسف آپ کے تعلق سے فرماتے ہیں: *اخطا محمد فی ثلاث مسائل* اور امام بخاری کو کون نہیں جانتا ہے؟ مگر اس کے باوجود *ابن ابی حاتم* نے امام بخاری کی *خطاؤں کو بیان کرنے کے لئے مکمل ایک باب ہی اپنی کتاب میں باندھا ہے: باب کا نام ہے فی بیان ما اخطا فیه البخاری* حضرت نظام الدین اولیاء کے لئے اگر حضور تاج الشریعہ *خطا،سہوا، بھول چوک* کا لفظ استعمال کریں تو گستاخ تو پھر آپ ان حضرات کو بھی گستاخی کی صف میں کھڑا کردیجئے....اولاً اعلیٰ حضرت پر گستاخی کا الزام لگاؤ کیوں کہ آپ نے صحابہ و دیگر اشخاص کو *مخطی* لکھا ہے، حضرت سعید ابن مسیب پر بھی اپنا فتویٰ جاری کیجئے علامہ سرخسی پر بھی فتویٰ لگاؤ امام یوسف پر بھی فتویٰ لگاؤ ابن ابی حاتم پر بھی فتویٰ لگاؤ حضور تاج الشریعہ کے علم و فضل، زہد و تقویٰ سے حسد کرنے والوں کے لئے یہ تو ہم نے نمونہ پیش کیا، اگر لفظ *خطا* پر لکھا جائے تو مفصل ایک کتاب تیار کی جاسکتی ہے حضور تاج الشریعہ نے جو کچھ بھی لکھا سب صحیح لکھا ہےاور شریعت کے دائرہ میں رہ کر لکھا ہے، یہ محبت کی انتہا کی علامت ہے کہ آپ نے لفظ خطا لکھا، اگر غلط لکھا ہے تو سجدہ تعظیمی کا جواز قرآن و حدیث سے پیش کرو، اور اگر جائز ہے تو آپ لوگ حضرت کی بات پہ عمل کیوں نہیں کرتے! سنا بلیّ اینڈ ایدریسی نے کتنے لوگوں سے اپنی ذات کو سجدہ کروایا؟ اگر لفظ خطا لکھ دینا گستاخی ہے تو پھر تم کوئی ایسا لفظ تلاش کرو جو تمہارے نزدیک گستاخی والا نہ ہو، *ھاتوأ برھانکم ان کنتم صادقین* *سنیوں سے اپیل* سنیوں تم اپنی قسمت پر ناز کرو کہ تم کو تاج الشریعہ جیسا امیر و رہنما ملا، آپ نے حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں لفظ *خطا* لکھ آنے والے فتنوں کا سر ابھی سے قلم کر دیا، اور اس کا منہ ابھی سے میرے مرشد حق نے دبوچ لیا...سبحان اللہ یہ ہے اللہ والے! *قارئین کرام:* غور فرمائیں کہ اگر حضور تاج الشریعہ حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں لفظ خطا نہ لکھتے تو باطل عقائد والے حضرت نظام الدین اولیاء کے سجدہ تعظیمی کے جواز کی عبارت کو اہل سنت کے درمیان پیش کرتے اور کہتے دیکھو قرآن و حدیث میں تو سجدہ تعظیم جائز نہیں مگر ان کا ولی جائز کہ رہا ہے، یہ دیکھو فوائد الفوائد ہے خود انہوں نے حدیث کا انکار کرتے ہوئے خود کو سجدہ کروانے کے لئے سجدہ تعظیم کو جائز قرار دیا..جب ان کے ولی ایسے ہوتے ہیں تو ان کے علما کیسے جہلا ہونگے، اس وقت اہل سنت پر کیا بتےگی؟ کیا وہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیه کی اس عبارت کو مانینگے؟ ہرگز نہیں بلکہ آپ سے لوگ بیزار ہوجائے گے....اور سنیت کو چھوڑ دینگے! سنیوں ناز کرو اپنے امیر پر!، اور ان کا دامن کرم تھام کر ان کے پیچھے پیچھے لگ جاؤ تاکہ اہل سنت کے غدار تمہیں راہ حق سے بہکا نہ سکیں..حضور تاج الشریعہ نے لفظ *خطا* لکھ تاریخ کا ایک باب کھڑا کر دیا، اگر فتنہ اٹھا کبھی اِس تعلق سے تو باطل کا منہ بند کرنے کے لئے سنی کی زبان سے اتنا کہ دینے سے باطل کا منہ کالا ہوجائے گا کہ ہمارے امیر نے اپنے فتاویٰ میں کہ دیا کہ آپ سے خطأ ایسا ہو گیا ہے، دانستہ آپ نے ایسا نہیں کہا، اور لفظ خطا کہ دینے سے حضرت کی بارگاہ سے الزام رفع ہو جائےگا اور کیوں کہ خطا پر پکڑ نہیں ہے..یہ علم لدنی ہے جو مستقبل کو بھی آپ نے دیکھ لیا… ہمارے سامنے بہت سی مثالین ہیں جو علمائے دیوبند نے اعلی حضرت کی ذات پر ایسے اعتراضات کیجئے جن کا جواب علمائے اہل سنت کے پاس موجود نہیں تھا، مگر اس غلط اعتراض کا جواب *"بزرگوں کے عقیدے"* کتاب میں موجود تھے! علمائے اہل سنت نے اس کتاب سے دلیل پیش کردی کے اس مسئلہ کا جواب یہ ہے… مگر یہاں پر تو یہ سنا بلیّ ایک فتنہ کا دروازہ کھولنا چاہتا ہے، اور معاذاللہ اہل سنت کو حضرت نظام الدین اولیاء کی بارگاہ سے نفرت اور دلوں میں بغض پیدا کرنا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ آپ سے خطأ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے دانستہ حق کو چھوڑا اور باطل کو اپنا! حضور تاج الشریعہ نے حضرت کی بارگاہ لفظ خطا لکھ بہت بڑی گستاخی کردی کیوں کہ حضرت سے خطا نہیں ہوئی وہ معصوم ہیں ان سے غلطی ہونا محال اس لئے جو بھی آپ نے لکھا سجدہ تعظیم کے تعلق سے وہ حق ہے، خطا نہیں.... معاذ اللہ کیا یہ بہت بڑا گستاخ نہیں ہے...؟ ادریسی اینڈ سنا بلیّ کمپنی اور اس کے جاہل چمچے فرید الحسن جیسے بہت بڑے گستاخ ہیں حضرت نظام الدین اولیاء اور دیگر اولیاء کے بھی اس لئے.......... سنیوں! ہوشیار ہو جاؤ! خبردار ہو جاؤ یہ ایک ادریسی اینڈ سنا بلیّ فتنہ ہے جو اہل سنت کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کو اپنے علاقے میں مت بلاؤ، جو لوگ بلاتے ہیں ان کا بائیکاٹ کیجئے، ورنہ یہ لوگ غیرمقلدین کا روپ اختیار کرلیںگے اس لئے ان سے بچو اور عوام اہل سنت کو بچاؤ.....جزاک اللہ دعا گو فقیر عمران رضوی سیفی
रविवार, 25 जून 2017
کیا عید کے دن معانقہ و مصافحہ کرنا بدعت و حرام ہے؟
https://plus.google.com/117923860772922980153/posts/KKTnfEFjFrX?_utm_source=1-2-2
मंगलवार, 13 जून 2017
پیشہ ور نعت خواں و خطیب ________________________________________________ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لئے بغیر تقریر کرنے کو تیار نہیں، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ)۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ دین کے ان علمبرداروں نے باقاعدہ سیکرٹری رکھے ہوئے ہیں جو ایڈوانس روپے لینے کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘ کا وقت دیتے ہیں۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں، گلے میں پٹکے ہیں، عربی جبے پہنتے ہیں، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کا نام لیتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، مگر ٹکے ٹکے کے ساتھ خطبہ جمعہ اور دین کی تقریریں بیچتے ان لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ اگر دین کا نام لینے والوں کا عمل یہ ہو گا تو پھر لوگ انہیں بلائیں گے یا گلوکاروں کو بلائیں گے۔ گانے والوں اور ان کے درمیان کیا فرق رہ گیا۔ اس نے گانا سنانے سے پہلے پیسے طے کئے اور تم نے قرآن و سنت سنانا تھا، مگر پہلے ریٹ طے کر رہے ہو۔ افسوس! یہ وبا ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہے۔ دوسرے لوگ بھی لیتے ہوں گے لیکن شاید اتنا نیچے نہیں گرے ہوں گے۔ پردہ داری میں لیتے ہوں گے۔ افسوس ہم لوگ تو منگتے بن گئے ہیں۔ ریٹ طے کرتے ہیں۔ جتنا بڑا نعت خواں ہے پہلے ریٹ طے کرتا ہے، پھر نعتیں سنا کر عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ یہ کون سا عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کے لیے تم ایک رات کے ہزاروں، لاکھوں روپے لیتے ہو۔ مرنے کے بعد ان سطحی اعمال کی حیثیت معلوم ہوگی جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سامنے ہو گا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے کہ بدبخت میری نعت سنانے اور میرے دین کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے پیسے مانگتا تھا۔ افسوس! ہمارے مسلک میں اس عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلقین ہو رہی ہے۔ حتی کہ قرآن کی قرات کے ریٹ بھی لگتے ہیں۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہی تلقین کی تھی۔۔۔؟ کیا صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا۔۔۔؟ تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین کا یہ طریق تھا۔۔۔؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔ اس وجہ سے ہمارے اندر سے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔ ہم نے لباس کے ڈھونگ رچا رکھے ہیں۔ پٹکے دوہرے کر کے گلے میں ڈال لیے ہیں۔ داڑھیاں لمبی رکھ لیتے ہیں۔ ان بڑی سائز کی داڑھیوں سے کیا ملے گا کہ داڑھی کا دکھلاوا بھی پیسے کا ریٹ بنانے کے لیے ہے۔ اس گلے سے کیا لو گے جو فری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نہیں پڑھتا۔ اس تقریر سے کیا لو گے جو پیسے لیے بغیر نہیں ہوتی۔ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا حتی کہ تقریریں کرنے والوں، نعت پڑھنے والوں نے سیکرٹری اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے پردے میں یہ اپنے مالی معاملات طے کرتے ہیں۔ سیکرٹری کے کنفرم کرنے کے بعد ’’صاحب بہادر‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے نام کی اشاعت کے لئے چلتے ہیں۔ کیا یہ اولیاء و صوفیاء کی پیروکاری ہے۔۔۔؟ کیا یہ اللہ والوں کا طرز عمل ہے۔۔۔؟ اس چیز نے مسلک کو برباد کر دیا ہے اور نوجوان نسلوں کو بیزار کر دیا ہے۔ وہ عقیدے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جس کا نام لو وہی دین کا سوداگر ہے۔ ان حالات میں قوم اور نوجوان نسل کو دین کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔
सदस्यता लें
संदेश (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...