मंगलवार, 13 जून 2017

پیشہ ور نعت خواں و خطیب ________________________________________________ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لئے بغیر تقریر کرنے کو تیار نہیں، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ)۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ دین کے ان علمبرداروں نے باقاعدہ سیکرٹری رکھے ہوئے ہیں جو ایڈوانس روپے لینے کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘ کا وقت دیتے ہیں۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں، گلے میں پٹکے ہیں، عربی جبے پہنتے ہیں، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کا نام لیتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، مگر ٹکے ٹکے کے ساتھ خطبہ جمعہ اور دین کی تقریریں بیچتے ان لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ اگر دین کا نام لینے والوں کا عمل یہ ہو گا تو پھر لوگ انہیں بلائیں گے یا گلوکاروں کو بلائیں گے۔ گانے والوں اور ان کے درمیان کیا فرق رہ گیا۔ اس نے گانا سنانے سے پہلے پیسے طے کئے اور تم نے قرآن و سنت سنانا تھا، مگر پہلے ریٹ طے کر رہے ہو۔ افسوس! یہ وبا ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہے۔ دوسرے لوگ بھی لیتے ہوں گے لیکن شاید اتنا نیچے نہیں گرے ہوں گے۔ پردہ داری میں لیتے ہوں گے۔ افسوس ہم لوگ تو منگتے بن گئے ہیں۔ ریٹ طے کرتے ہیں۔ جتنا بڑا نعت خواں ہے پہلے ریٹ طے کرتا ہے، پھر نعتیں سنا کر عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ یہ کون سا عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کے لیے تم ایک رات کے ہزاروں، لاکھوں روپے لیتے ہو۔ مرنے کے بعد ان سطحی اعمال کی حیثیت معلوم ہوگی جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سامنے ہو گا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے کہ بدبخت میری نعت سنانے اور میرے دین کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے پیسے مانگتا تھا۔ افسوس! ہمارے مسلک میں اس عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلقین ہو رہی ہے۔ حتی کہ قرآن کی قرات کے ریٹ بھی لگتے ہیں۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہی تلقین کی تھی۔۔۔؟ کیا صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا۔۔۔؟ تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین کا یہ طریق تھا۔۔۔؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔ اس وجہ سے ہمارے اندر سے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔ ہم نے لباس کے ڈھونگ رچا رکھے ہیں۔ پٹکے دوہرے کر کے گلے میں ڈال لیے ہیں۔ داڑھیاں لمبی رکھ لیتے ہیں۔ ان بڑی سائز کی داڑھیوں سے کیا ملے گا کہ داڑھی کا دکھلاوا بھی پیسے کا ریٹ بنانے کے لیے ہے۔ اس گلے سے کیا لو گے جو فری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نہیں پڑھتا۔ اس تقریر سے کیا لو گے جو پیسے لیے بغیر نہیں ہوتی۔ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا حتی کہ تقریریں کرنے والوں، نعت پڑھنے والوں نے سیکرٹری اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے پردے میں یہ اپنے مالی معاملات طے کرتے ہیں۔ سیکرٹری کے کنفرم کرنے کے بعد ’’صاحب بہادر‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے نام کی اشاعت کے لئے چلتے ہیں۔ کیا یہ اولیاء و صوفیاء کی پیروکاری ہے۔۔۔؟ کیا یہ اللہ والوں کا طرز عمل ہے۔۔۔؟ اس چیز نے مسلک کو برباد کر دیا ہے اور نوجوان نسلوں کو بیزار کر دیا ہے۔ وہ عقیدے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جس کا نام لو وہی دین کا سوداگر ہے۔ ان حالات میں قوم اور نوجوان نسل کو دین کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...