فتنوں کے رد میں لکھی ہوئی کتب اعلیٰ حضرت کی فہرست
सोमवार, 22 अक्टूबर 2018
فتنوں کے رد میں لکھی ہوئی کتب اعلیٰ حضرت کی فہرست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ حق و صداقت اور علم و حکمت کا وہ کوہ گرا تھے جن کی تعریف میں اپنے تو ایک طرف بیگانے بھی رطب اللسان ہیں_ وہابی جماعت کے شیخ الحدیث انور شاہ کشمیری کہتے ہیں_ مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مظبوت ہیں، جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقیہ ہیں_(رسالہ دیوبند ص21 جمادی الاول 1330ھ) سید سلیمان ندوی(وہابی) لکھتے ہیں_ اس احقر نے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ ہو کر رہ گئی، حیران تھا کہ واقعی مولانا بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں مگر آج پتہ چلا کہ نہیں ہرگز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بلکہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شکاہکار نظر آتے ہیں، جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاد مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اور حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی اور حضرت مولانا شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں کے اندر ہے (ماہنامہ ندوہ اگست 1931ء ص17،طمانچہ ص36) اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی کتب کے اسماء مبارکہ مندرجہ ذیل ہے_ علم غیب مصطفٰی و اولیاء کا ثبوت اور منکرین کا رد: 1- انباء المصطفی بحال سرو اخفی، 1318ھ 2- اللؤلؤ المکنون فی علم البشیر ما کان و مایکون، 1318ھ 3- انباء الحی ان کلامہ موصون تبیان لکل شئ، 1318ھ 4_ مالی الجیب بعلوم الغیب، 1318ھ 5_ الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ، 1323ھ 6_ ظفر الدین الجید ملقب بہ بطش غیب، 1323ھ 7_الفیوضات المکیۃ لمحب الدولۃ المکیۃ، 1325ھ 8- خالص الاعتقاد 1328ھ 9- ازاحۃ العیب بسیف الغیب 1330ھ 10_ ابراء المجنون علی انتقائہ علم المکنون 1323ھ 11_ ماحیۃالعیب بایمان الغیب 1326ھ 12_ میل الھدی لبرء عین القضا 1325ھ 13_ اراجع جوانہ الغیب عن ازاحۃ الغیب 1326ھ 14_ الجلاء الکامل کعین فضاۃ الباطل 1326ھ ختم نبوت کا ثبوت 1_جزی الله عدوہ بابائہ ختم نبوت 1317ھ 2_ المبین ختم النبیین 1326ھ 3_ جوابھائے ترکی بہ ترکی 1292ھ الھیبۃ الجباریۃ علی جھالۃ الاخباریۃ 1309ھ قادیانیت کا رد: 1_ السوء والعقاب علی المسیح الکزاب 1320ھ 2_ الصارم الربانی علی اسراف القادیانی 1313ھ 3_ قہر الدیان علی مرتد بقادیان 1323ھ امکان کزب کا رد 1_ سبحان السبوح عن عیب کزب مقبوح 1308ھ 2_ اخباریہ کی خبر گیری 1308ھ 3_ دامان باغ سبحان السبوح 1326ھ نبی سے مساوات کے نظریہ کا رد: 1_ تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین 1305ھ 2_ مبین الھدی فی نفی امکان مثل المصطفی 1323ھ 3_ تلآلؤ الافلاک بجلال حدیث لولاک 1305ھ اختیارات انبیاء کے انکار کا رد: 1_ سلطنت مصطفٰی فی ملکوت کل الوری 1297ھ 2_ الامن والعلی لناعتی المصطفی بدافع البلاء 1311ھ 3_ اجلال جبرائیل بجعلہ خادماً للمحبوب الجلیل 1298ھ انبیاء و اولیاء کو پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا ثبوت: 1_انوار الانتباہ فی حل ندائے یا رسول اللہ 1304ھ 2_ برکات الامداد لاحل الاستمداد 1311ھ 3_ الاھلال بفیض الاولیاء بعد الوصال 1303ھ میلاد و قیام کا ثبوت و منکرین کا رد: 1_ اقامۃ القیامۃ علی طاعن القیام لنبی تھامۃ 1299ھ 2_ الجزاء المھیا لغلمۃ کنھیا 1320ھ 3_ النعیم المقیم فی فرحۃ میلادالنبی الکریم 1299ھ عبد النبی، نبی بخش وغیرہ نام رکھنے کا جواز: 1_ بذل الصفا بعبد المصطفی 1300ھ 2_ النور و الضیاء فی احکام بعض الاسماء 1320ھ 3_ باب غلام مصطفی 1305ھ سماع موتی کا جواز و ثبوت : 1_ حیات الموات فی بیان سماع الاموات 1305ھ 2_ الوفاق المتین بین سماع الدفین وجواب الیمین 1316ھ 3_ مرتجیحی الاجابات لدعاء الاموات 1296ھ جسم اقدس کا سایہ نہ ہونے کا ثبوت : 1_ نفی النفئ عمن بنورہ انار کل شئ 1296ھ 2_ ھدی الحیران فی نفی الظل عن سید الاکوان 1299ھ 3_ قمر التمام فی نفی الظل عن سیدالانام غیر مقلدیت(اہلحدیث) کا رد : 1_ الفضل الموھبی فی معنی اذاصح الحدیث مذھبی 1313ھ 2_ النھی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید 1305ھ 3_ النیر الشھابی علی تدلیس الوھابی 1309ھ کرنسی نوٹ کے احکام : 1_ کفل الفقیہ الفاھم فی احکام قرطاس الداھم 1324ھ 2_ الذیل المنوط لرسالۃ النوط 1329ھ 3_ کاسر السفیہ الواھم فی ابدال قرطاس الدراھم 1329ھ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے والدین کریمین کے ایمان کا ثبوت : 1_ شمول الاسلام فی اصول رسول الکرام 1315ھ تبرکات کی تعظیم : 1_ بدر الانوار فی آداب الآثار 1326ھ 2_ ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال 1308ھ آریہ مزہب کا رد : 1_ کیفر کفر آریہ 1326ھ 2_ قوارع القھار علی المجسمۃ الفجار 1318ھ پردہ در امرتسری 1326ھ ارواح مومنین کا اپنے گھر آنے کا ثبوت : 1_ اتیان الارواح لدیارھم بعد الارواح 1322ھ 2_ بوارق تلوح من حقیقت الارواح 1311ھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب جلیلہ : 1_ البشری العاجلہ من تحف آجلہ 1300ھ 2_ ذب الاھواء الواھیہ فی باب امیر معاویہ 1312ھ 3_ عرش الاعزاز والاکرام لاول ملوک الاسلام 1312ھ نام اقدس سن کر انگوٹھا چومنے کا ثبوت : 1_ منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین 1313ھ 2_ نشاط السکین علی حلق البقر السمین 1303ھ 3_ نھج السلامہ فی تحلیل تقبیل الابھامین فی الاقامہ 1333ھ جمعہ کی ازان ثانی خارج مسجد میں ہونے کا ثبوت : 1_ اوفی اللمعہ فی اذان الجمعہ 1320ھ 2_ شمائم العنبر فی اداب النداء امام المنبر 1321ھ 3_ اذان من الله لقیام سنۃ نبی الله 1322ھ منی آرڈر کے جواز کا ثبوت : 1_ المنی والدرر لمن عمد منی آرڈر 1311ھ رویت ہلال کے اختلافات کا حل : 1_ طرق اثبات ھلال 2_ نور الادلہ للبدور الاجلہ 1304ھ 3_رفع العالہ عن نور الادلہ 1304ھ شفاعت کا بین ثبوت : 1_ اسماء الاربعین فی شفاعت سیدالمحبوبین 1305ھ کوّا کھانے کی حرمت : 1_ رامی زاغیان ملقب دفع زیغ زاغ حرمت سجدہ تعظیمی : 1_ الزبدۃ الزکیہ فی تحریم سجود التحیہ 1337ھ 2_ مفاد الحبر فی الصلاۃ بمقبرۃ اوجنب قبر ہندوستان دارالسلام ہے : 1_ اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالسلام 1306ھ فرقہ روافض کا رد : 1_ رد الرفضہ 1320ھ 2_ الادلۃ الطاعنہ فی اذان الملاعنہ 1306ھ 3_ لمعۃ الشمعہ لھدی شیعۃ الشنعہ 1312ھ بعد دفن قبر پر اذان دینے کا جواز : 1_ ایذان الاجر فی اذان القبر 1307ھ 2_ نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوباء 1302ھ عید کے دن معانقہ و مصافحہ کا ثبوت : 1_ وشائح الجید فی تحلیل معانقۃ العید 1312ھ ایصال ثواب کے لیے فاتحہ کا دن معین کرنا : 1- الحجۃ الفاتحہ بطیب التعین والفاتحہ 1307ھ 2_ البارقۃ الشارقۃ علی المارقۃ المشارقۃ 1326ھ 3_ نشاط السکین علی حلق القبر الثمین 1302ھ اولیاء اللہ کے مزارات پر چراغ روشن کرنے کا جواز : 1_ بریق المنار بشموع المزار 1331ھ 2_ طوالع النور فی حکم السراج علی القبور 1304ھ 3_ الامر با حترام المقابر 1298ھ معراج جسمانی کا ثبوت : 1_ منبہ المنیہ لو صول الحبیب الی العرش والرویہ 1320ھ 2_ جمان التاج فی بیان الصلاۃ قبل المعراج کفن پر لکھنے کا جواز : 1_ الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن 1308ھ بزرگوں کے نام پر پالے ہوئے حلال جانور کے حلال ہونے کا ثبوت : 1_ سبل الاصفیاء فی حکم الذبح للاولیاء 1312ھ خلیفۃ المسلمین ہونے کی تحقیق : 1_دوام العیش فی الائمۃ من قریش 1339ھ کفار و مشرکین کے ساتھ معاملات و موالات کا بیان و خلافت کمیٹی کا رد : 1_ المحجۃ المؤ تمنہ فی آیۃ الممتحنہ 1339ھ دارالندوہ (ندوۃ العلماء) کا رد بلیغ : 1_ فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین 1317ھ 2_ مراسلات سنت و ندوہ 1313ھ 3_ ندوہ کاتیجہ روداد سوم کانتیجہ 1313ھ تحریک ترک قربانی گاؤ کا رد : 1_ انفس الفکر فی قربانی البقر 1298ھ حرکت زمین کے نظریہ کا رد بلیغ : 1_ فوزمبین در رد حرکت زمین 1338ھ 2_ معین مبین بھر دور شمس و سکون زمین 1338ھ 3_ نزول آیات فرقان ببسکون زمین و آسمان 1339ھ نماز عید کے بعد دعا مانگنے کا جواز : 1_ سرور العید السعید فی حل الدعاء بعد صلاۃ العید 1307ھ ذبیحہ سے بائیس 22،اشیاء کھانے کی ممانعت کا ثبوت : 1_ المنح الملیحہ فیما نھی من اجزاء الذبیحہ 1307ھ فلسفہ قدیمہ کا رد اور ایٹم کی تحقیق : 1_ الکلمۃ الملھمہ فی الحکمۃ المحکمۃ لوھاء فلسفۃ المشئمۃ 1338ھ فلسفہ جدیدہ کا رد : 1_ مقامع الحدید علی خدالمنطق الجدید 1304ھ 2_ البارقۃ اللمعا فی سوء من نطق بکفر طوعا 1304ھ ماں کے پیٹ میں کیا ہے : 1_ الصمصام علی مشکک فی آیۃ علوم الارحام 1315ھ تعزیہ داری کا رد : 1_ اعالی الافادۃ فی تعزیت الہند و بیان الشھادۃ 1321ھ قوّالی کا رد : 1_ مسائل سماع 2_ اجل التبحیر فی حکم السماع والمزامیر 1320ھ 3_ السنیۃ الانیقہ فی فتاوی افریقہ 1336ھ عورتوں کو مزارات کی زیارت کے لیے جانے کی ممانعت : 1_جمل النور فی نھی النساء عن زیارت القبور 1339ھ 2_ مروج النجا لخروج النساء 1316ھ شریعت و تریقت کی حقیقت اور تصوّف : 1_ مقال العرفاء باعزز شرع و علماء 1327ھ 2_ کشف حقائق واسرار دقائق 1308ھ 3_ التلطف بجواب مسائل التصوف 1312ھ سادات کرام کو زکوۃ دینے کی حرمت : 1_الزھم الباسم فی حرمۃ الزکوۃ علی بنی ھاشم 1307ھ گانہ، افیون، چرس، وغیرہ کی حرمت : 1_ الفقہ التسجیلی فی عجین النار جیلی 1318ھ 2_منزع المرام فی التداوی بالحرام 1303ھ غائبانہ نماز جنازہ کی ممانعت : 1_ الھادی الحاجب عن جنازۃ الغائب 1327ھ بدمزہب کے ساتھ نکاح کی ممانعت : 1_ ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار 1316ھ نعلین شریفین کے نقش کے استحباب کا بیان : 1_ شفاء الوالہ فی صور الحبیب و مزاراہ و نعالہ 1315ھ تصور شیخ و نماز غوثیہ کا ثبوت : 1_ کشکول فقیر قادری 1305ھ 2_ الزمزمۃ القمریہ فی الزب عن الخمریہ 1306ھ 3_ انھار الانھار من یم صلاۃ الاسرار 1305ھ مولوی اسماعیل کے رد میں : 1_ سل السیوف الھندیہ علی کفریات باباالنجدیہ 1312ھ 2_ الکوکبۃ الشھابیہ فی کفریات ابی الوھابیہ 1312ھ 3_ کشف ضلال دیوبند 1327ھ 4_ صمصام سنیت بگلوی نجدیت 1316ھ بعد نماز جنازہ دعا کے جواز کا ثبوت : 1_ بزل الجوائز علی الدعاء بعد صلاۃ الجنائز 1311ھ عقائد وہابیہ کے رد میں متفرق عنوانات : 1_ باب العقائد والکلام 1335ھ 2_ فیح النسرین بجواب الاسئلۃ العشرین 1311ھ 3_ النفحۃ الفائحہ من مشک سورۃ الفاتحہ 1315ھ 4_ الاستمداد علی اجیال الارتداد 1327ھ 5_ آکد التحقیق بباب التعلیق 1322ھ 6_ المجمل المسدد ان ساب المصطفی مرتد 1301ھ 7_ المقالۃ المسفرہ عن احکام البدعۃ المکفرہ 1301ھ 8_ البارقۃ الشارقۃ علی المارقۃ المشارقۃ 1326ھ 9_ اکمال الطامۃ علی شرک سوری بالامور العامۃ 1312ھ 10_ الراد الاشد البھی فی ھجر الجماعۃ علی الکنکوھی 1313ھ کل مندرجہ ذیل کتب= 140 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنی حیات میں میں تقریباً ایک ہزار 1000 سے جائد کتابیں تحریر فرمائ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی تقریباً نصف کتابیں بھی منظر عام پر نہ آسکی عمران سیفی رضوی
गुरुवार, 18 अक्टूबर 2018
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک نظر! •┄┅═════❁✿✿✿❁═════┅┄• امام الحکمتہ والکلام قائد جنگ آزادی علامہ فضل حق قاروقی خیرآبادی، متولد 1212ھ 1797ء خیرآباد اودھ، متوفی 12صفر 1278ھ 20 اگست 1861ء جزیرۂ انڑمان) بتیس (32) واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منسلک جاتا ہے علامہ فضل حق خیرآبادی اپنے والد ماجد کے علاوہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی و حضرات شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے قابل فخر شاگرد تھے، بعمر تیرہ 13،سال 1225ھ 1810ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی نے علوم وفنون درسیہ کی تکمیل کی سر سید احمد خان(بانی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، و بانی فرقہ نیچریہ، متوفی مارچ 1898ء) نے علامہ فضل حق خیرآبادی کے علم و فضل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے_ زبان قلم نے ان کے کمالات پر نظر کے فخر خاندان لکھا ہے اور فکر دقیق نے جب سرکار کو دریافت کیا فخرجہاں پایا، جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگار ہیں_ اور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکر عالی نے بنا ڈالی ہے علمائے عصر بل فضلاے دہر کو کیا طاقت ہے کہ اس سرگروہ اہل کمال کے حضور میں بساط مناظرہ آراستہ کر سکیں_ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانہ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا دعوے کمال کو فراموش کر کے نسبت شاگردی کو اپنا فخر سمجھے_ (آثار الصنادید ص562، از سر سید احمد مطبوعہ اردو اکاڑمی دہلی 2000ء) حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے "تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی" اور امتناع النظیر " لکھ کر تحریک وہابیت کے خلاف بند باندھا اور پوری علمی توانائی کے ساتھ اس کا رد بلیغ کیا علامہ فضل حق خیرآبادی صرف ایک یگانہ عصر مصنف و مدرس ہی نہیں تھے بلکہ وہ سیاست مدنیہ اور تدبیر مملکت پر بھی اس درجے کا عبور رکھتے تھے جس طرح دوسری انواع حکمت پر ڈاکٹر مہدی حسین نے بھی اپنی کتاب "Bahdaur shah ll and the war Delhi in 1857 of میں ص 182 کے بعد اس آئین کی نقل دی ہے اور اس آئین کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے اور اس کو" جمہوریت اساس آئین " قرار دیا ہے کہ علامہ فضل حق نے یہ آئین بنایا_ جب کہ اس آئین پر آئین ساز کا نام اور تاریخ درج نہیں، مگر شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ آئین اگست 1857ء کے آخری عشرہ کے آغاز میں بن گیا تھا اور اسے فضل حق خیرآبادی نے ہی وضع کیا تھا اس لیے کہ اس مسودہ کا رسم الخط اور علامہ کا رسم الخط ایک ہے اور یہ کہ علامہ فضل حق کی شہرت ایک ماہر قانون کے طور پر رہی ہے_ اور یہ کہ وہ بتیس 32 سال تک مختلف ریاستوں کی عدالتوں میں اعلی مناصب پر فائز رہے_ (فضل حق خیرآبادی اور 1857ء، مؤلفہ حکیم محمود احمد برکاتی ٹونکی) علامہ فضل حق خیرآبادی الور سے نشر و اشاعت کرتے ہوئے اگست 1857ء میں دہلی پہونچے میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوس کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو اور مسلمان دونوں فوجیں بگڑا اٹھی تھی میرٹھ سے دہلی پر باغی فوج نے 11 مئ 1857ء کو حملہ کر دیا قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا بادشاہ دہلوی سرگرمیوں کے مرکز بنے علامہ فضل حق بھی شریک مشورہ رہے منشی جیون لال روزنامچہ 16 اگست 1857ء 2 ستمبر 1857ء آخری میں علامہ فضل حق نے ترکش س آخری تیر نکالا بعد نماز جمعہ جامعہ مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتاء پیش کیا، مفتی صدر الدین خاں، مولوی عبد القادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبرآبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کردیئے اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی دہلوی میں 90000 نوے ہزار سپاہ جمع ہو گئی تھی_ بادشاہ گرفتار کر کے قلعہ میں بند کر دئیے گئے تین شاہزادوں کو قلعہ میں داخل ہوتے ہی گولی کا نشانہ بنا دیا گیا ان کے سروں کو خوان پوش سے ڈھک کر خوان پر لگا کر بادشاہ کے سامنے بطور تحفہ پیش کیا گیا علامہ فضل حق دہلوی سے 26 ستمبر 1857ء کو روانہ ہو گئے تھے 19 ستمبر 1857ء کے بعد ہندوستانیوں پر مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹے اس کی نظیر تاریخ میں مشکل سے ملے گی_ اس دور میں جہاں علماء حق اس ملک کو ظالموں سے آزاد کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے تو دوسری طرف انگریزوں کے وفادار ان سے وفاداری کا پورا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے_ کلکتہ میں جب مولانا اسماعیل نے وعظ فرمانا شروع کیا اور سکھوں کے مظالم کی کیفیت پیش کی تو ایک شخص نے دریافت کیا آپ انگریزوں پر جہاد کا فتوی کیوں نہیں دیتے آپ نے جواب دیا ان پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ زرا بھی دست اندازی نہیں کرتے ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے بلکہ بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں (حیات طیبہ ص296، تواریخ عجیبہ ص 73) اکابر وہابہ کی انگریزی دوستی کے لیے کیا اس بھی زیادہ کوئی کھلی ہوئی شہادت ہو سکتی ہے؟ سیکڑوں میل کی مسافت پر سکھوں سے جہاد کرنا تو واجب ہے مگر وہ ظالم انگریز جس نے شاہ ظفر کے لڑکوں کا سر باپ کے ناشتہ میں بھیجا ہو بڑے بڑے علماء پھانسی کے تختے پر لٹکا دیئے گئے ہوں مساجدو خانقاہوں کی بے حرمتی کی گئی ہو اس سے جہاد واجب نہیں بلکہ ایسے ظالم و سفاک پر اگر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں کو اس سے لڑنا فرض ہے تاکہ انگریز کے دامن پر کوئی آنچ نہ آسکے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ایک طرف سے روپہ کی تھیلی ہے اور دوسری طرف سے حلف وفاداری_ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ جائے تو کوئی غم نہیں مگر انگریز بہادر کے بدن پر سورج کی دھوپ نہ پڑے مجھے دعوی نہیں تنہا نباہی دوستی ہم نے محبت کو سنبھالا ہے کبھی تم نے کبھی ہم نے 1859ء میں جب علامہ فضل حق خیرآبادی کو گرفتار کرکے لکھنؤ میں آپ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اس وقت مختلف الزامات کے ساتھ آپ کے خلاف ایک الزام یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے خلاف آپ نے جہاد کا فتوی دیا (تاریخ ذکاء اللہ ص215،باغی ہندوستان، 1857ء کے مجاہد ص206) 30جنوری 1859ء کو علامہ فضل حق کی گرفتاری کے بعد آپ کے خلاف دائر مقدمہ 22 فروری تا4 مارچ 1859ء چلتا رہا اور جزیرۂ انڑمان (کالا پانی) میں تاحیات جلاوطنی کی سزا ہوئی_ یہی وہ مجاہد جلیل ہے جس نے سرزمین ہند پر آزاد کی داغ بیل ڈالی مولانا فضل امام کا وہ شاہزادہ (علامہ فضل حق) جو کبھی ہاتھی اور پالکی پر بیٹھ کر باپ کی آغوش محبت میں درس پاتا تھا آج وہی جزیرۂ انڑمان میں اپنے سر پر ٹوکرا اٹھا رہا ہے جس کو دیکھ کر بعض بھی آنکھوں میں آنسو بھر لائے ادھر علامہ کے صاحبزادے مولوی شمس الحق اور خواجہ غلام غوث وغیرہ رہائی کی سعی میں جان توٹ کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ مولوی شمس الحق صاحب پروانہ رہائی حاصل کرکے جزیرۂ انڑمان روانہ ہو گئے وہاں جہاز سے اتر کر شہر گئے تو ایک جنازہ پر نظر پڑی جس کے ساتھ بڑا ازدھام تھا_ عاشق کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلنے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کی کل 12 صفرالمظفر 1278ھ مطابق 1861ء کو علامہ فضل حق قاروقی خیرآبادی کا انتقال ہوگیا اور اب سپرد خاک کرنے جا رہے ہیں_ انا للہ و انا الیہ راجیعون مولوی شمس الحق بھی بصد حسرت ویاس شریک جنازہ ہوئے اور بے نیل ومرام واپس لوٹے_ قسمت کی بدنصیبی کہاں ٹوٹی ہے کمند دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا افسوس ہمیشہ کے لیے آفتاب علم و عمل دیار غربت میں غروب ہو گیا_ جزیرۂ انڑمان میں آپ کی قبر ایک بڑے درخت کے سایے کے نیچے آج بھی محفوظ ہے اور علماء و اہل عقیدت وہاں حاضری بھی دیتے رہتے ہیں_ مولانا عبد الشاہد شیروانی نے مولانا عبد الحق خیرآبادی کے بارے میں لکھا ہے_ علامہ فضل حق قاروقی خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ نے آخر وقت یہ وصیت فرمائی کہ_ جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میری قبر پر خبر کر دی جائے - چنانچہ 15 اگست 1947ء کو رفیق محترم مولانا مفتی سید نجم الحسن رضوی خیرآبادی نے مولانا عبد الحق کے مدفن(درگاہ مخدومیہ خیرآباد، موجودہ ضلع سیتاپور اودھ انڈیا) پر ایک جم غفیر کے ساتھ میلاد شریف کے بعد قبر پر فاتحہ خوانی کی_ اور اس طرح پچاس سال بعد 1898ء تا 1947ء انگریزی سلطنت کے خاتمہ کی خبر سنا کر وصیت پوری کی_ جزاہ اللهُ خیر الجزاء (مقدمہ زبدۃالحکمتہ از عبدالشاہد شیروانی، مطبوعہ علی گڑھ 1949ء) مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی
मंगलवार, 9 अक्टूबर 2018
نعت خواں و مقررین حضرات کے نام
نعت خواں و مقررین حضرات کے نام
•┄┅═════❁✿✿✿❁═════┅┄•
نفس بدکار پر دل نے یہ قیامت توڑی
عمل نیک کیا بھی تو چھپانے نہ دیا
موجودہ دور میں اہلِ سنت کی غریب عوام کے لئے
محافلِ ذکر و نعت کا اہتمام کرنا بہ نسبت پہلے ادوار کےاب بہت مشکل ہو چکا ہے کیونکہ محفل کے لئے نعت خواں اور مقررین کو بھاری معاوضہ دے کر ہی بُلایا جا سکتا ہے۔ بعض شعلہ بیاں مقررین کی ڈیمانڈ شدہ رقم تو محفل سے چند روز پہلے حضرت کے اکاؤنٹ میں ڈلوانی پڑتی ہے تاکہ انہیں قلبی سکون میسر ہو اور وہ خوشدلی کے ساتھ غریب سُنیوں کی محفل میں خطاب کرسکیں۔ نعت خوانی کے دوران نعت خواں مقررین پر کرنسی نوٹ لٹانے کا رواج بھی عام ہو گیا ہے
*تصویر کشی اس قدر عام ہو چکی ہے کہ بعض نقیب ، مقرر اور نعت خواں اپنا ذاتی کیمرہ مین ساتھ لے کر چلنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن علماءِ حق جب ان اعمال سے روکنے کوشش کریں تو انہیں جواز کے فتوٰے پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیبی کہ جواز کی آڑ میں نفسی خواہشات کو کتنا عروج بخشا جارہا ہے اس کے نظارے آپ بہ آسانی سوشل میڈیا پر کرسکتے ہیں۔
کوئی دورانِ نعت روتے ہوئے تصویر بنوا ریا ہے، تو کوئی وجدانی کیفیت میں تصویر بنوانے کی بھرپور کرتے ہوئے نظر آتا ہے،
حد تو یہ ہے کہ احترامِ قبلہ بھی اب نہ رہا خانہ کعبہ ، روضہ رسولﷺ کے پاس پیٹھ کر کے تصاویر لینا بھی اب عام ہوتا جا رہا ہے حبکہ یہ سراسر ناجائز ہے۔(نعوذبااللہ)
*حکایت:۔ کسی نے ایک درویش کو خانہ کعبہ کے پاس غلاف پکڑے ہوئے ہچکیوں سے روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا آپ کون ہو؟ زارو قطار رونے والے شخص نے جواب دیا میرا نام عبدالقادر جیلانی(رضی اللہ تعالٰی عنہ) ہے۔(سُبحان الله) اندازہ لگائیے کہ یہ ہیں شیخِ سُبحانی کہ خانہ کعبہ کے پاس زارو قطار روتے ہیں اور آج ان کے عقیدت مندوں کا حال یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ شریف کے پاس مختلف اسٹائل میں 50/100 تصاویر نہ لے لی جائیں شاید ان کے نذدیک حج و عمرہ کی صحیح ادائیگی نہ ہوئی(معاذاللہ) یہاں تک کہ اب تو نماز پڑھتے وقت کی بھی تصاویر کشی اب عام ہوتی جا رہی ہے، یعنی یہ ہے وہ دین کی خدمت جو فی الوقت فیس بُکی مفتی، پیر، صوفی، نعت خواں، مقررین اور محفل آرگنائزر حضرات حکمِ جواز کی بدولت سَر انجام دے رہے ہیں۔ (الله اكبر) اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو فضول و ناجائز کاموں سے بچائے(آمین)
गुरुवार, 4 अक्टूबर 2018
فروعی اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کے موقف کا لحاظ ضروری •┄┅═════❁✿✿✿❁═════┅┄• یہ وہ جملہ ہے جسے ہر سنی فروعی مسئلہ کے بیان میں استعمال کرتا ہے۔۔۔۔۔لیکن اگر اہل سنت کے فروعی اختلافی مسائل میں اس جملہ کے ساتھ ساتھ یہ جملہ بھی عام ہو جائے کہ اگرچہ میں اس فروعی مسئلہ میں بزرگان دین کے فتوٰی پر عامل ہوں لیکن میرے مخالف موقف والے سنی بھائی بھی دیگر بزرگان دین کے فتویٰ و تحقیق پر عامل ہیں تو میرے بھائیو! دیکھنا ایسا فروعی اختلاف اتحاد کے ہرگز منافی نہ ہوگا ۔۔۔بلکہ اتحاد اہل سنت کو فروغ ملے گا ایک دوسرے کی عزت و حرمت کا خیال رکھا جائے گا۔۔۔۔مخالف موقف والے بزگان دین کی تحقیق کی عظمت بھی دل میں ہوگی اور کوئی سخت بات زبان سے نہ نکلے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر اگر ویڈیو کو حرام کہنے والے بھائی یہ کہیں کہ ہم ویڈیو کے حرام کہنے والے اور ویڈیو کو جائز کہنے والے ہمارے سنی بھائی دونوں بزرگان دین کے طریقہ پر ہیں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتاہے کہ اس مسئلہ میں کوئی کسی پر شدت کرے ۔۔۔اور یہ کہنا کچھ غلط بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وضاحت سن لیجئے ویڈیو کے حرام کہنے والوں میں بلا شک حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان الازھری رحمۃ اللہ علیہ کا نام مبارک سب سے نمایاں ہے ۔۔۔۔اور کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے بڑے ہیں بزرگ ہیں۔۔۔۔۔لیکن انصاف کی عینک ہو گی تو دوسری طرف بھی اکابرین و بزرگان دین کی بڑی تعداد نظر آئے گی ۔۔۔۔۔۔جیسا کہ غزالی زماں رازی دوراں احمد سعید شاہ کاظمی علیہ رحمۃ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید مثال بھی پڑھ لیجئے ۔۔۔۔۔۔ قوالی بالمزامیر کو حرام کہنے والے بے شک بزرگان دین کے طریقہ پر ہیں جیسا کہ میرے آقا و مولا سیدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کا موقف بھی یہی ہے کہ قوالی حرام ہے اور بہت بڑی تعداد علماء کی ایسی ہے جو اسی فتویٰ پر عمل کرتی ہے لیکن یہاں بھی اگر انصاف کی عینک لگائے رکھیں گے تو دونوں اطراف اکابرین و بزرگان دین نظر آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر سازوں کے ساتھ قوالی کو جائز کہنے والوں میں بہت بڑا نام عارف باللہ عبد الغنی نابلسی علیہ رحمۃ کا ہے جن کا ذکر خیر بطور تائید اعلیٰ حضرت اپنے فتاویٰ میں 150 سے بھی زائد مرتبہ کرتے ہیں۔۔۔اور ان کا تذکرہ سیدی وغیرہ کہہ کر کرتے ہیں ۔۔اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت کے معاصرین سنی بزرگان دین کی بہت بڑی تعداد جیسے کے علماء کچھوچھہ اور مفتی نعیم الدین مراد آبادی کے پیر و مرشد یہاں تک کے اعلیٰ حضرت نے ایسے بزرگ کو بھی خلافت سے نوازا جو قوالی بالمزامیر کے سننے والے تھے اور موجودہ دور میں بھی یہ اختلاف چلا آرہاہے جیسا کہ سید ہاشمی میاں،پیر سید عرفان شاہ مشہدی ،علامہ احمد سعید شاہ کاظمی علیہ رحمۃ وغیرھم ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا اس مسئلہ میں بھی دونوں طرف سنی علماء اکابرین و بزرگان دین ہیں تو کیوں ایسا رویہ اپنایا جاتاہے کہ جس میں شدت کا تاثر نمایاں نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟ اگر ہم یہ مان لیں کہ قوالی بالمزامیر کے مسئلہ میں بھی دونوں طرف اکابرین علماء ہیں تو ہم کبھی بھی شدت نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ان بزرگان دین پر نہ ان کے مریدین پر اور نہ ان کی تحقیق پر عمل کرنے والے سنی بھائیوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذآ مشورہ ہے کہ فروعی مسائل کا رد کرنا اتنا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ اختلاف جب پیدا ہو چکا تو کبھی ختم نہ ہوگا اس لئے کہ دونوں طرف اکابرین ہیں دونوں طرف کے لوگ عقیدت و تحقیق پر عمل کر رہے ہیں لہذا اپنی توانائی ایسے کام میں خرچ کیجئے جس کا فائدہ بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کو کیا چیلنجز ہیں؟ سیکولر،لبرل،سوشلسٹ یہ کیا نظریات ہیں؟اسلام کو ان سے کس طرح کا خطرہ لاحق ہے ؟ اس کے ساتھ ساتھ مذہب حق اہل سنت و جماعت کو کیا کیا چیلنجز در پیش ہیں؟ کون سے ایسے اصولی نظریات ہیں جن میں عوام کو گمراہ کر کے ان کا منکر بنایا جا رہا؟ اس لئے خدارا فروعی مسائل میں لڑائی سے نکلیں اور ان اصولی اختلاف میں مل کر کام کرنے کے لئے ہر ایسے سنی سے پیار محبت کا تعلق برقرار رکھیں جو اصولیات میں آپ کے ساتھ ہے اگرچہ فروعات میں آپ سے مختلف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ سوچ ہے کہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو کافی حد تک اتحاد اہل سنت و جماعت ہو سکتا ہے اور تمام پیران عظام کے مریدین جو اصولیات میں ایک ہیں اپنے فروعی اختلافات کو نظر انداز کر کے ایک جسم ایک جان بن کر دین متین کی خوب خدمت کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور ان شاء اللہ اگر یہ طریقہ اپنا لیا گیا تو دیکھئے گا کہ فوائد کس قدر تیزی کے ساتھ نظر آتے۔[] اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اتحاد فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
बुधवार, 3 अक्टूबर 2018
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ غیر مسلموں کی نظر میں •┄┅═════❁✿✿✿❁═════┅┄ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شخصیت نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں محبت و عقیدت اور احترام کا مقام رکھتی ہے بلکہ غیر مسلم، مفکرین ، مصنفین، مورخین، اور قلم کاروں کے دلوں میں بھی رکھتی ہے، غیر مسلم بھی آپ کی تعریف و توصیف، کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے انہوں نے بھی آپ کی سیرت، آپ کی حق گوئی پر جب نظر ڈالی تو انہوں نے بھی اپنا اپنا نظریہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا، کچھ غیر مسلموں کے امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں خیالات پیش کیئے جا ریے ہیں انہیں ملاحظہ فرمائیں
सदस्यता लें
संदेश (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...