गुरुवार, 18 अक्टूबर 2018

حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک نظر! •┄┅═════❁✿✿✿❁═════┅┄• امام الحکمتہ والکلام قائد جنگ آزادی علامہ فضل حق قاروقی خیرآبادی، متولد 1212ھ 1797ء خیرآباد اودھ، متوفی 12صفر 1278ھ 20 اگست 1861ء جزیرۂ انڑمان) بتیس (32) واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منسلک جاتا ہے علامہ فضل حق خیرآبادی اپنے والد ماجد کے علاوہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی و حضرات شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے قابل فخر شاگرد تھے، بعمر تیرہ 13،سال 1225ھ 1810ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی نے علوم وفنون درسیہ کی تکمیل کی سر سید احمد خان(بانی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، و بانی فرقہ نیچریہ، متوفی مارچ 1898ء) نے علامہ فضل حق خیرآبادی کے علم و فضل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے_ زبان قلم نے ان کے کمالات پر نظر کے فخر خاندان لکھا ہے اور فکر دقیق نے جب سرکار کو دریافت کیا فخرجہاں پایا، جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگار ہیں_ اور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکر عالی نے بنا ڈالی ہے علمائے عصر بل فضلاے دہر کو کیا طاقت ہے کہ اس سرگروہ اہل کمال کے حضور میں بساط مناظرہ آراستہ کر سکیں_ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانہ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا دعوے کمال کو فراموش کر کے نسبت شاگردی کو اپنا فخر سمجھے_ (آثار الصنادید ص562، از سر سید احمد مطبوعہ اردو اکاڑمی دہلی 2000ء) حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے "تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی" اور امتناع النظیر " لکھ کر تحریک وہابیت کے خلاف بند باندھا اور پوری علمی توانائی کے ساتھ اس کا رد بلیغ کیا علامہ فضل حق خیرآبادی صرف ایک یگانہ عصر مصنف و مدرس ہی نہیں تھے بلکہ وہ سیاست مدنیہ اور تدبیر مملکت پر بھی اس درجے کا عبور رکھتے تھے جس طرح دوسری انواع حکمت پر ڈاکٹر مہدی حسین نے بھی اپنی کتاب "Bahdaur shah ll and the war Delhi in 1857 of میں ص 182 کے بعد اس آئین کی نقل دی ہے اور اس آئین کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے اور اس کو" جمہوریت اساس آئین " قرار دیا ہے کہ علامہ فضل حق نے یہ آئین بنایا_ جب کہ اس آئین پر آئین ساز کا نام اور تاریخ درج نہیں، مگر شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ آئین اگست 1857ء کے آخری عشرہ کے آغاز میں بن گیا تھا اور اسے فضل حق خیرآبادی نے ہی وضع کیا تھا اس لیے کہ اس مسودہ کا رسم الخط اور علامہ کا رسم الخط ایک ہے اور یہ کہ علامہ فضل حق کی شہرت ایک ماہر قانون کے طور پر رہی ہے_ اور یہ کہ وہ بتیس 32 سال تک مختلف ریاستوں کی عدالتوں میں اعلی مناصب پر فائز رہے_ (فضل حق خیرآبادی اور 1857ء، مؤلفہ حکیم محمود احمد برکاتی ٹونکی) علامہ فضل حق خیرآبادی الور سے نشر و اشاعت کرتے ہوئے اگست 1857ء میں دہلی پہونچے میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوس کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو اور مسلمان دونوں فوجیں بگڑا اٹھی تھی میرٹھ سے دہلی پر باغی فوج نے 11 مئ 1857ء کو حملہ کر دیا قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا بادشاہ دہلوی سرگرمیوں کے مرکز بنے علامہ فضل حق بھی شریک مشورہ رہے منشی جیون لال روزنامچہ 16 اگست 1857ء 2 ستمبر 1857ء آخری میں علامہ فضل حق نے ترکش س آخری تیر نکالا بعد نماز جمعہ جامعہ مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتاء پیش کیا، مفتی صدر الدین خاں، مولوی عبد القادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبرآبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کردیئے اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی دہلوی میں 90000 نوے ہزار سپاہ جمع ہو گئی تھی_ بادشاہ گرفتار کر کے قلعہ میں بند کر دئیے گئے تین شاہزادوں کو قلعہ میں داخل ہوتے ہی گولی کا نشانہ بنا دیا گیا ان کے سروں کو خوان پوش سے ڈھک کر خوان پر لگا کر بادشاہ کے سامنے بطور تحفہ پیش کیا گیا علامہ فضل حق دہلوی سے 26 ستمبر 1857ء کو روانہ ہو گئے تھے 19 ستمبر 1857ء کے بعد ہندوستانیوں پر مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹے اس کی نظیر تاریخ میں مشکل سے ملے گی_ اس دور میں جہاں علماء حق اس ملک کو ظالموں سے آزاد کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے تو دوسری طرف انگریزوں کے وفادار ان سے وفاداری کا پورا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے_ کلکتہ میں جب مولانا اسماعیل نے وعظ فرمانا شروع کیا اور سکھوں کے مظالم کی کیفیت پیش کی تو ایک شخص نے دریافت کیا آپ انگریزوں پر جہاد کا فتوی کیوں نہیں دیتے آپ نے جواب دیا ان پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ زرا بھی دست اندازی نہیں کرتے ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے بلکہ بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں (حیات طیبہ ص296، تواریخ عجیبہ ص 73) اکابر وہابہ کی انگریزی دوستی کے لیے کیا اس بھی زیادہ کوئی کھلی ہوئی شہادت ہو سکتی ہے؟ سیکڑوں میل کی مسافت پر سکھوں سے جہاد کرنا تو واجب ہے مگر وہ ظالم انگریز جس نے شاہ ظفر کے لڑکوں کا سر باپ کے ناشتہ میں بھیجا ہو بڑے بڑے علماء پھانسی کے تختے پر لٹکا دیئے گئے ہوں مساجدو خانقاہوں کی بے حرمتی کی گئی ہو اس سے جہاد واجب نہیں بلکہ ایسے ظالم و سفاک پر اگر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں کو اس سے لڑنا فرض ہے تاکہ انگریز کے دامن پر کوئی آنچ نہ آسکے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ایک طرف سے روپہ کی تھیلی ہے اور دوسری طرف سے حلف وفاداری_ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ جائے تو کوئی غم نہیں مگر انگریز بہادر کے بدن پر سورج کی دھوپ نہ پڑے مجھے دعوی نہیں تنہا نباہی دوستی ہم نے محبت کو سنبھالا ہے کبھی تم نے کبھی ہم نے 1859ء میں جب علامہ فضل حق خیرآبادی کو گرفتار کرکے لکھنؤ میں آپ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اس وقت مختلف الزامات کے ساتھ آپ کے خلاف ایک الزام یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے خلاف آپ نے جہاد کا فتوی دیا (تاریخ ذکاء اللہ ص215،باغی ہندوستان، 1857ء کے مجاہد ص206) 30جنوری 1859ء کو علامہ فضل حق کی گرفتاری کے بعد آپ کے خلاف دائر مقدمہ 22 فروری تا4 مارچ 1859ء چلتا رہا اور جزیرۂ انڑمان (کالا پانی) میں تاحیات جلاوطنی کی سزا ہوئی_ یہی وہ مجاہد جلیل ہے جس نے سرزمین ہند پر آزاد کی داغ بیل ڈالی مولانا فضل امام کا وہ شاہزادہ (علامہ فضل حق) جو کبھی ہاتھی اور پالکی پر بیٹھ کر باپ کی آغوش محبت میں درس پاتا تھا آج وہی جزیرۂ انڑمان میں اپنے سر پر ٹوکرا اٹھا رہا ہے جس کو دیکھ کر بعض بھی آنکھوں میں آنسو بھر لائے ادھر علامہ کے صاحبزادے مولوی شمس الحق اور خواجہ غلام غوث وغیرہ رہائی کی سعی میں جان توٹ کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ مولوی شمس الحق صاحب پروانہ رہائی حاصل کرکے جزیرۂ انڑمان روانہ ہو گئے وہاں جہاز سے اتر کر شہر گئے تو ایک جنازہ پر نظر پڑی جس کے ساتھ بڑا ازدھام تھا_ عاشق کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلنے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کی کل 12 صفرالمظفر 1278ھ مطابق 1861ء کو علامہ فضل حق قاروقی خیرآبادی کا انتقال ہوگیا اور اب سپرد خاک کرنے جا رہے ہیں_ انا للہ و انا الیہ راجیعون مولوی شمس الحق بھی بصد حسرت ویاس شریک جنازہ ہوئے اور بے نیل ومرام واپس لوٹے_ قسمت کی بدنصیبی کہاں ٹوٹی ہے کمند دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا افسوس ہمیشہ کے لیے آفتاب علم و عمل دیار غربت میں غروب ہو گیا_ جزیرۂ انڑمان میں آپ کی قبر ایک بڑے درخت کے سایے کے نیچے آج بھی محفوظ ہے اور علماء و اہل عقیدت وہاں حاضری بھی دیتے رہتے ہیں_ مولانا عبد الشاہد شیروانی نے مولانا عبد الحق خیرآبادی کے بارے میں لکھا ہے_ علامہ فضل حق قاروقی خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ نے آخر وقت یہ وصیت فرمائی کہ_ جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میری قبر پر خبر کر دی جائے - چنانچہ 15 اگست 1947ء کو رفیق محترم مولانا مفتی سید نجم الحسن رضوی خیرآبادی نے مولانا عبد الحق کے مدفن(درگاہ مخدومیہ خیرآباد، موجودہ ضلع سیتاپور اودھ انڈیا) پر ایک جم غفیر کے ساتھ میلاد شریف کے بعد قبر پر فاتحہ خوانی کی_ اور اس طرح پچاس سال بعد 1898ء تا 1947ء انگریزی سلطنت کے خاتمہ کی خبر سنا کر وصیت پوری کی_ جزاہ اللهُ خیر الجزاء (مقدمہ زبدۃالحکمتہ از عبدالشاہد شیروانی، مطبوعہ علی گڑھ 1949ء) مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی

حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک نظر

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...