गुरुवार, 24 जनवरी 2019

مسلک اعلیٰ کہنا دور حاضر میں اہلِ سنت و جماعت کی پہچان

"مسلک اعلیٰ حضرت" کہنا دور حاضر میں اہلِ سنت و جماعت کی پہچان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جو لوگ سنی ہونے کے باوجود مسلک اعلیٰ حضرت کہنے پر اعتراض کرتے ہیں وہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمتہ الرضوان کے حسد میں مبتلا ہیں، اور حسد حرام و کبیرہ گناہ ہے، جو حسد کرنے والوں کی نیکیوں کو اس طرح جلاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو جلاتی ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب؛(ابوداؤد شریف/ج٢ ص٣١٦)
اور یہی کہنا سراسر غلط ہے کہ مسلک اہلِ سنت اور مسلک حنفی کہنا کافی ہے، اس لئے کہ دیوبندی اور مودودی بھی مسلک اہلِ سنت کے دعویدار ہیں، تو دیوبندی مسلک اور مودودی مسلک سے امتیاز کے لئے موجودہ زمانے میں مسلک اعلیٰ حضرت بولنا ضروری ہے، یعنی مسلک اعلیٰ حضرت دیوبندی اور مودودی مسلک سے امتیاز کے لئے بولا جاتا ہے،
اگر کوئی اپنے کو مسلک اہلِ سنت اور مسلک حنفی کا ماننے والا بتائے اور یہ نہ کہے کہ میں مسلک اعلیٰ حضرت کا پابند ہوں تو ظاہر نہیں ہوگا کہ وہ سنی ہے یا بدمذہب، لہٰذا مذہب حق اہلِ سنت و جماعت سے ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے اس زمانے میں مسلک اعلیٰ حضرت سے ہونے کو بتانا ضروری ہو گیا ہے، خدائے تعالیٰ اس پر اعتراض کرنے والے کو صحیح سمجھ عطا فرمائے،(آمین)

اور مسلک اعلیٰ حضرت کا مطلب کوئی نیا دین یا مسلک نہیں ہے، بلکہ اس سے وہی مسلک مراد ہے جو صحابہ و تابعین اور اولیائے کرام و اسلاف عظام (رحمۃ اللہ علیہم) کا تھا، مسلک کی نسبت اعلیٰ حضرت کی طرف اس مناسبت سے ہے کہ انہوں نے بزرگانِ دین کے مسلک کی ترجمانی کی ہے، اور اس کی ترویج و اشاعت میں پوری زندگی گزاری ہے
(فتاویٰ برکاتیہ صفحہ ٤١٤)

रविवार, 20 जनवरी 2019

قصداً کسی مسئلے کو چھپانے(نہ بتانے) کا عذاب

قصداً کسی مسئلے کو چھپانے کا عذاب
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی مسئلہ کا جواب دیتے وقت ذِہن یہ نہ بنائیے کہ مجھے اپنی علمیّت کا سکّہ جمانا ہے، جواب جاننے کی صورت میں نیّت یہ ہو کہ کِتْمانِ علم(یعنی علم چُھپانے )کے گناہ سے خود کو بچانا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:۔ جس سے علم کی بات پوچھی گئ(اور وہ اس بات کو جانتا ہو) اور اس نے نہیں بتائی اس کے منہ میں قِیامت کے دن آگ کی لگام لگادی جائیگی۔(سنن الترمذی ج۱ ص۲۹۵حدیث۲۶۵۸)

 مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت  مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اگر کسی عالم سے دینی ضروری مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بلاوجہ نہ بتائے تو قیامت میں وہ جانوروں سے بدتر ہوگا کہ جانور کے منہ میں چمڑے کی لگام ہوتی ہے اور اُس کے منہ میں آگ کی لگام ہوگی ، خیال رہے کہ یہاں علم سے مُراد حرام حلال، فرائض واجبات وغیرہ تبلیغی مسائل ہیں جن کا چھپانا جُرم ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۱ص۲۰۴)

مُحَقِّق عَلَی الْاِطلاق، خاتِمُ المُحَدِّثین، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جس علم کا جاننا ضروری ہو اور علماء میں سے کوئی اور اسے بیان کرنے والا بھی نہ ہو اور بیان کرنے سے کوئی صحیح عذر بھی مانع نہ ہو بلکہ بخل اور علمِ دین سے لاپرواہی کی بنا پر چھپائے تو مذکورہ سزا کا مُستَوجِب( یعنی حقدار) ہوگا ۔ (اشعۃ اللمعات فارسی ج۱ص۱۷۵)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : ’’اشاعتِ علم فرض اور کِتمانِ عِلم حرام ہے ۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج۱۲ ص۳۱۲)
نیز یہ بھی نیّت ہو کہ ایک مسلمان کے دینی مسئلے کو حل کرکے ثواب کمانا ہے۔ منقول ہے :سیِّدُنا امام مالِک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بوقتِ رِحلت یہ روایت بیان فرمائی :’’ کسی شخص کی دینی الجھن دُور کر دینا سو حج کرنے سے افضل ہے۔‘‘ (بستان المحدثین ص۳۹ )
   

रविवार, 6 जनवरी 2019

نکاح کو آسان بناؤ تاکہ فحاشی دور ہو

نکاح کو آسان بناؤ تاکہ فحاشی دور ہو 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نکاح کو آسان کرو فحاشی کو ختم کرو بہترین شادی وہ ہے جو سادگی سے انجام پائے مگر ہمارے معاشرے میں آج کل لڑکیوں کی شادی کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں غلط راستوں پر چل نکلے ہیں آج ہم نے نکاح کو بہت مشکل بنا دیا ہے لڑکے عشق و محبت کسی بھی لڑکی سے کرنے کو تیار رہتے ہیں مگر شادی انہیں ایک مکمل خوبصورت اور عزّت دار لڑکی سے کرنی ہوتی ہے جب ایک لڑکی جو اچھی صورت و سیرت کی مالک بھی ہو مگر اس کے ماں باپ اچھا جہیز نہ دے سکتے ہوں تو ٹھکرا دی جاتی ہے کم پڑھی لکھی ہو تب بھی ٹھکرا دی جاتی ہے کہیں کہیں جاب کرنے والی لڑکیوں کو بھی ٹھکرا دیا جاتا ہے تو کہیں جاب کرنے والی لڑکیاں چاہئیے، اور جو لڑکی والے اچھا جہیز دینے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ حق مہر بھی لاکھوں روپے کا لکھواتے ہیں،
جب کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت سے کم نہیں ہے اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور لکھا گیا ہے مگر اس پر لکھنے کا بھی ہم پر اثر نہیں ہوگا ہمیں کرنا پھر بھی وہی ہے جو ہم کرتے ہیں
الغرض! ہم سب اس معاشرے میں ریتے ہیں اور ہم سب کے گھروں میں یہ مسئلہ درپیش ہے مگر ہم ان مسائل کو تب ہی جانتے ہیں جب ہم خد اس مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں اس سے پہلے ہمیں ان مسائل کا احساس تک نہیں ہوتا 
رشتوں میں بہت بڑی مشکل بات ذات برادری کی بھی ہے ہم لوگ غیر برادر میں نکاح کرنا بھی اچھا نہیں سمجھتے جبکہ نکاح کرنے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ اصول بتائیں ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی وہ دیندار ہو اور نیک ہو، لڑکا ہو یا لڑکی والدین کو ان کا نکاح کرنے میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ یہ زنا جیسے گناہ میں گرفتار نہ ہو!
ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں نکاح کو مشکل بنا دینے کی وجہ سے بھی پھیل رہی ہیں، یاد رکھیں، اگر والدین صرف اپنی بےجا فرمائشوں یا ذات برادری کی ضد کی وجہ سے بچوں کی شادیوں میں تاخیر کریں گے اور اس دوران ان کی اولاد سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا تو اس کے گناہ گار اولاد تو ہوگی ہی ساتھ میں والدین بھی ہوں گے اللہ تعلیٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نکاح کو مشکل بنانے والے نہیں بنے گے، 
(آمین ثم آمین) 
         
                     

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...