रविवार, 20 जनवरी 2019

قصداً کسی مسئلے کو چھپانے(نہ بتانے) کا عذاب

قصداً کسی مسئلے کو چھپانے کا عذاب
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی مسئلہ کا جواب دیتے وقت ذِہن یہ نہ بنائیے کہ مجھے اپنی علمیّت کا سکّہ جمانا ہے، جواب جاننے کی صورت میں نیّت یہ ہو کہ کِتْمانِ علم(یعنی علم چُھپانے )کے گناہ سے خود کو بچانا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:۔ جس سے علم کی بات پوچھی گئ(اور وہ اس بات کو جانتا ہو) اور اس نے نہیں بتائی اس کے منہ میں قِیامت کے دن آگ کی لگام لگادی جائیگی۔(سنن الترمذی ج۱ ص۲۹۵حدیث۲۶۵۸)

 مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت  مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اگر کسی عالم سے دینی ضروری مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بلاوجہ نہ بتائے تو قیامت میں وہ جانوروں سے بدتر ہوگا کہ جانور کے منہ میں چمڑے کی لگام ہوتی ہے اور اُس کے منہ میں آگ کی لگام ہوگی ، خیال رہے کہ یہاں علم سے مُراد حرام حلال، فرائض واجبات وغیرہ تبلیغی مسائل ہیں جن کا چھپانا جُرم ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۱ص۲۰۴)

مُحَقِّق عَلَی الْاِطلاق، خاتِمُ المُحَدِّثین، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جس علم کا جاننا ضروری ہو اور علماء میں سے کوئی اور اسے بیان کرنے والا بھی نہ ہو اور بیان کرنے سے کوئی صحیح عذر بھی مانع نہ ہو بلکہ بخل اور علمِ دین سے لاپرواہی کی بنا پر چھپائے تو مذکورہ سزا کا مُستَوجِب( یعنی حقدار) ہوگا ۔ (اشعۃ اللمعات فارسی ج۱ص۱۷۵)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : ’’اشاعتِ علم فرض اور کِتمانِ عِلم حرام ہے ۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج۱۲ ص۳۱۲)
نیز یہ بھی نیّت ہو کہ ایک مسلمان کے دینی مسئلے کو حل کرکے ثواب کمانا ہے۔ منقول ہے :سیِّدُنا امام مالِک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بوقتِ رِحلت یہ روایت بیان فرمائی :’’ کسی شخص کی دینی الجھن دُور کر دینا سو حج کرنے سے افضل ہے۔‘‘ (بستان المحدثین ص۳۹ )
   

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...