मंगलवार, 29 अक्टूबर 2019






استقبال ماہ ربیع الاول شریف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ماہ مقدس ربیع الاول شریف ہر سال آتا ہے اور اپنے جلو میں جذباتِ محبت کا ایک عالم لاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس ماہ مبارک میں خصوصی طور پر اپنے آقا و مولا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حضور والہانہ طور پر اپنے اپنے انداز سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور فضائل و کمالات موثر انداز میں بتائے جائیں۔ لازم ہے کہ مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات از بر کروائے جائیں تاکہ علم بڑھے، روشنی پھیلے اور دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں ہو یہی ہماری تمام پریشانیوں، بے عملیوں اور بدعملیوں کا علاج بھی ہے۔

محفل میلاد ہو یا مجلس ذکر، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم نے اپنی نادانیوں سے جو رشتہ الفت کمزور کر لیا ہے اسے پھر سے مضبوط کیا جائے۔
قابل صد تکریم ہے ہر وہ فرزندِ اسلام جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہے۔ ذکر سرکار کی محفلیں سجاتا اور عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ جلاتا ہے۔

’’میری اس نعمت کا ذکر کرو جو میں نے تم پر کی‘‘۔البقره   47
ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ نعمت الہٰی
 جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک کیا جائے۔ آپ کے فضائل و کمالات، آپ کی دنیا میں تشریف آوری، آپ کی نورانی صورت اور آپ کی حسین سیرت کا بیان ہو تاکہ ایمان تازہ ہو اور جذبات عشق و محبت پرورش پائیں جو ہماری کامیابی کا ضامن ہیں۔ رب کریم نے بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کے لئے احسان عظیم قرار دیا۔

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾ بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سُناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سِکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھُلی گُمراہی میں تھے۔(آل عمران:١٦٤)

اس جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو اپنا بڑا احسان فرمایا۔ پس لازم ہے کہ اس احسان عظیم کا ہر وقت ذکر و اعتراف کیا جائے، اس پر شکر کیا جائے اور اس کی حقیقی قدر کی جائے اور اس کے ملنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا آپ کے حسن و کمال کا چرچا بہت ہی زیادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے. جس آقائے کائنات کی تعریف و توصیف ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ جن کا ذکر ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے کیا۔ جن کا ذکر اللہ نے ہر ذکر سے بلند تر کر دیا۔ جن کا نام اپنے نام کے ساتھ ساتھ رکھا۔ جن کی اطاعت اپنی اطاعت، جن کی محبت اپنی محبت اور جن سے دشمنی اپنی دشمنی قرار دی۔ جس کی آمد پر خوشیاں منانے کا حکم دیا اور اس خوشی کو ہر چیز سے بہتر قرار دیا۔ کیا منشاء قدرت یہی تھا کہ ان کا ذکر نہ ہو؟ یقیناً ایسا نہیں ان کی آمد پر خوشی کا اظہار اس نے تمام آسمانی کتابوں میں کر دیا ہے۔
 لوگوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد، سیرت طیبہ اور تعلیمات مقدسہ کو بیان کریں تاکہ سچی عقیدت ان کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس زندگی کے رنگ میں ڈھال سکیں۔ دین کا بول بالا ہو، سچے فضائل و کمالات اتنی کثرت سے بیان کریں کہ غلط و موضوع روایات ختم ہو جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر اتنا زور دیں کہ نوجوانوں کے دلوں سے ہر جھوٹی محبت ختم ہو جائے۔ صدقہ و خیرات، قرآن خوانی و نعت خوانی اور سیرت و صورت محبوب کا ہر جگہ اتنا زور و شور سے تذکرہ کریں کہ شیطانی آوازیں پست ہو کر ختم ہو جائیں۔ گھروں کو، دکانوں کو، بازاروں اور کارخانوں کو، اداروں و راستوں کو اتنا سجائیں کہ ہر ایک پر عظمت رسول واضح ہو۔ کھانے کھلائیں، مشروب پلائیں، ناداروں کو کپڑے پہنائیں، نادار طلبہ کو کتب اور فیس دیں اور اس سب کا ثواب صاحب میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نذر کریں۔ یاد رکھیں اگر محبوب کی آمد پر خوشی منانا گوارا نہیں تو کوئی خوشی نہ منائیں اگر یہ جشن منع ہے تو ہر جشن حرام ہے۔ اگر آمد محبوب پر اظہار خوشی نہیں کرتے تو کسی تقریب پر خوشی زیب نہیں دیتی۔
عید میلاد النبی تمہارے لئے سب سے بڑی مذہبی و سیاسی تقریب ہے۔ خوشیاں منانے کا یہ سب سے بڑا موقع ہے۔ چراغاں کرنے، جھنڈیاں لگانے اور تقریبات منعقد کرنے کا اس سے بڑا اور مقدس کوئی دوسرا موقع نہیں فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ خوشیاں منانی ہیں تو بس اسی پر منائو۔ جشن منانے ہیں تو اس پر مناؤ ھُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ { یونس:۵۸} یہ اظہار مسرت ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں۔ خواہ نماز، روزہ، خواہ دنیا کا مال و اسباب ہو، خواہ دیگر نیکیاں ہوں۔ اس نیکی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں کہ ہر نیکی اس کے وسیلہ سے ملی ہے۔ اسی نیکی کی برکت سے کافر تک فیضیاب ہوئے۔ مسلمان تو ان کے اپنے ہیں، وہ کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔


शनिवार, 26 अक्टूबर 2019

حدیث قدسی میں مجدد الف ثانی کی آمد کی بشارت ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اللہ تعالٰی ہردور میں چند ایسے نفوس قدسیہ کو وجود بخشتا ہے جو احکامِ اسلام کے محافظ اور قوانینِ شریعت کے پاسباں ہوتے ہیں، انہیں باعظمت شخصیتوں میں امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حدیث شریف میں‘امام ربانی کی آمد کی بشارت یہ ایک مُسَلَّمہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’مالکان ومایکون‘‘یعنی جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہوگا‘ ان تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا، اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس عطا کردہ علم کی خیرات اپنی امت میں تقسیم فرمائی ہے، اور حضرات اہل بیت کرام و صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کی وساطت سے امت تک یہ علم پہنچا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرامین کے ذریعہ جہاں اور چیزوں کی خبر دی وہیں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی بشارت بھی عطا فرمائی، چنانچہ’’ جمع الجوامع، حلیۃ الاولیاء، اور کنزالعمال‘‘ میں روایت ہے: عن عبد الرحمن بن یزید بن جابر، قال: بلغنا أن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال:’’ یکون فی أمتی رجل۔ یقال لہ صلۃ ۔ یدخل الجنۃ بشفاعتہ کذا وکذا۔ حضرت عبد الرحمن بن یزید بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک ایسا شخص ہوگا جس کو’’صِلَۃْ ‘‘ (مخلوق کو خالق سے جوڑنے والا)کہا جائے گا،اس کی شفاعت سے بے شمار افراد جنت میں داخل ہوں گے۔(جمع الجوامع۔حلیۃ الاولیاء،ج:2،ص:241،کنز العمال،حدیث نمبر:34589) اس حدیث شریف میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے وجودِ مسعود کی طرف اشارہ ہے، امت کے اکابر علماء نے آپ کو اس حدیث شریف کا مصداق قراردیا،اور خود حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: الحمد للہ الذی جعلنی صلۃ۔الخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   ترجمہ:تمام تعریف اس خداکے لئے ہے جس نے مجھے دوسمندروں کو ملانے والا(صلہ)اور دو گروہوں میں صلح کرانے والا بنایا ہے، اور درود وسلام ہو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ساری مخلوق میں سب سے افضل ہیں،اور تمام انبیاء کرام وملائکہ پر بھی درود وسلام ہو۔(مکتوبات امام ربانی،دفتردوم،مکتوب نمبر:6)  حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جن دو سمندورں کا ذکر فرمایا ہے ان سے ’’شریعت اور طریقت ‘‘کے سمندر مراد ہیں، اور دو گروہوں سے’’علماء اور صوفیاء‘‘مراد ہیں۔ (تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،مؤلفہ علامہ نبی بخش توکلی،ص:265) 

शुक्रवार, 25 अक्टूबर 2019

مجدّد کسے کہتے ہیں اور ان کا کام کیا ہوتا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حدیث مجدد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَعَنْهُ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا» (سنن ابوداؤد، جلد دؤم، صفحہ۱۴۱)
روایت ہے انہی سے میری دانست میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی کہ فرمایا یقینًا اللہ تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا (ابوداؤد)

اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

اس امت کی یہ خصوصیت ہے کہ یوں تو اس میں ہمیشہ ہی علماء اور اولیاء ہوتے رہیں گے لیکن ہر صدی کے اول یا آخر میں خصوصی مصلحین پیدا ہوتے رہیں گے جو سنتوں کو پھیلائیں گے، بدعتوں کو مٹائیں گے،
غلط تاویلوں کو دور کریں گے، صحیح تبلیغ کریں گے۔خیال رہے کہ اس حدیث کی بنا پر بہت لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق مجدّد گنائے ہیں۔ کہ پہلی صدی میں فلاں، دوسری میں فلاں، بہت مفسدوں نے بھی اپنے آپ کو مجدّد کہا، مرزا غلام احمد قادیانی پہلے مجدّد ہی بنا تھا پھر نبی۔ حق یہ ہے کہ اس سے نہ کوئی خاص شخص مراد ہے نہ کوئی خاص جماعت، کبھی اسلامی بادشاہ، کبھی محدثین، کبھی فقہاء، کبھی صوفیاء، کبھی اغنیاء، کبھی بعض حکاّم دین کی تجدید کریں گے، کبھی ایک، کبھی ان کی جماعتیں جو دین کی یہ خصوصی خدمت کرے وہی مجدد ہے، جیسے ایک زمانہ میں حضرت سلطان محی الدین اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے اسلام سے اکبری بدعات کو دور فرمایا اور جیسے قطب الوقت حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ یا اس زمانہ میں عالم اعلٰی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کہ انہوں نے اپنی زبان اور قلم سے حق و باطل کو چھانٹ کر رکھ دیا۔(مرآۃ المناجیح ج١، ص٢٠٣)

شیخ الاسلام بدرُ الدین ابدال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ صدی کے ختم ہوتے ہوتے علمائے امّت بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ دینی باتیں مٹنے لگتی ہیں، بدمذہبی اور بدعت ظاہر ہوتی ہے، اس واسطے دین کی تجدید کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے عالم کو ظاہر کرتا ہے جو ان خرابیوں کو دور کر دیتا ہے اور ان برائیوں کو سب کے سامنے علی الاعلان بیان کر کے دین کو از سرِ نو نیا کردیتا ہے۔ وہ سلف صالحین کا بہتر عوض، خیر الخلف، نعم البدل ہوتا ہے۔

قارئین کرام! مذکورہ روایت کو محدثین کرام نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جبکہ امام سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور حدیث بھی نقل فرمائی کہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجھے حدیث پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ہر سو سال پر علماء میں سے ایک ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعے اللہ پاک دین کو قوت عطا فرمائے گا۔
(عین الودود، جلد دؤم شرح ابو داؤد،صفحہ۲۴۱)

مجدّد کسے کہتے ہیں؟
مجدّد ایک عربی لفظ ہے جو تجدید سے بنا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے: ’’تازہ کرنا، نیا کرنا، اور جدّت پیدا کرنا‘‘ جبکہ شارحین نے حدیثِ مجدّد کی شرح کرتے ہوئے اس کے کئی اصطلاحی معانی بیان کیے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
· حدیث مجدّد کی شرح میں امام مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں: مجدّد کا کام یہ ہے کہ شرعی احکام جو مٹ چکے ہیں، سنتوں کے آثار جو ختم ہوگئے ہیں اور دینی علوم ظاہری ہوں یا باطنی جو پردۂ خفا میں چلے گئے ہیں، ان کا اِحیا کرے۔
(فیض القدیر ، صفحہ نمبر9،جلد 1،مکتبہ شاملہ)
 عظیم محدّث ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجدّد کا کام یہ ہے کہ وہ سنت کو بدعت سے ممتاز کرے، علم میں اضافہ کرے اور اہل علم کو عزت و قوت دے اور بدعت و اہل بدعت کی بیخ کنی کرے۔ (مرقاۃ المفاتیح،جلد2،صفحہ169،مکتبہ شاملہ)

 خلیفہ اعلیٰ حضرت، ملک العلما، حضرت علامہ محمد ظفرالدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تجدید کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان میں ایک صفت یا صفتیں ایسی پائی جائیں، جن سے امّت محمدیہ کو دینی فائدہ ہو۔ جیسے تعلیم و تدریس، وعظ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، لوگوں سے مکروہات کا دفع، اہلِ حق کی اِمداد۔ (حیات اعلی حضرت،جلد3،صفحہ124)

مجدّد کیوں آتاہے؟
مذکورہ وضاحت کے مطابق ہر صدی کے آخر میں مجدّد تشریف لاتے رہے ہیں، جب عقیدہ و عمل میں فساد برپا ہوتا ہے اور معاشرہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گمراہ گر مفسدین اپنی ریشہ دانیوں سے اسلامی معاشرہ میں اِرتِداد فی الدین کی تحریک، فرسودہ تحقیق و اجتہاد کے نام سے چلاتے ہیں جس کے نتیجے میں کتاب و سنت پر عمل ترک ہونے اور دین کی شکل مسخ ہونے لگتی ہے تو مجدّد اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق علوم ظاہری (عقلیہ و نقلیہ) شریعت و طریقت اور علم لدنی سے آراستہ اور جرأت و استقامت کے حسنِ عمل سے پیراستہ ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر ہو کر نیابت کا حق ادا کرتا ہے، دین کے چہرے پر پڑی گرد و غبار کو صاف کر کے اس کے چہرے کے حسن کو نکھارتا ہے، اہلِ ضلالت و بدعت کی بیخ کنی کرتا ہے، عقیدہ و عمل کے فساد کو دور کرکے خوش عقیدگی کو فروغ دیتا ہے، مجدّد کو اپنے کارِ منصبی کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے جبکہ ہم عصر علماء، اولیا، اتقیا، نقبا، صلحا، اصفیا اور عرفا کی معاونت و نصرت بھی حاصل ہوتی ہے۔(امام احمد رضاخان کے تجدیدی کارناموں کا نمایاں پہلو، صفحہ نمبر6،از مولانا نسیم صدیقی)

مجدّد کی چند نشانیاں:
· مجدد پچھلی صدی کے آخر اور رواں صدی کا ابتدائی زمانہ پاتا ہے۔
· مجدد مذہبی و معاشرتی تمام فتنوں کا مقابلہ کرتا ہے۔
· مجدد کو اللہ پاک علم لدنّی عطا فرماتا ہے۔
· مجدد اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق کثیر علوم ظاہری (عقلیہ و نقلیہ) کا ماہر ہوتا ہے۔
· مجدد کو اپنے کار منصبی کے لئے اللہ پاک کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
· مجدد کو اس کے ہم عصر علما، اولیا کی معاونت و نصرت حاصل ہوتی ہے۔
· مجدد عقیدہ و عمل کے فساد کو دور کرکے خوش عقیدگی کو فروغ دیتا ہے۔ وغیرہ
(امام احمد رضاخان کے تجدیدی کارناموں کا نمایاں پہلو،از مولانا نسیم صدیقی)




کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...