शुक्रवार, 25 अक्टूबर 2019

مجدّد کسے کہتے ہیں اور ان کا کام کیا ہوتا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حدیث مجدد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَعَنْهُ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا» (سنن ابوداؤد، جلد دؤم، صفحہ۱۴۱)
روایت ہے انہی سے میری دانست میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی کہ فرمایا یقینًا اللہ تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا (ابوداؤد)

اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

اس امت کی یہ خصوصیت ہے کہ یوں تو اس میں ہمیشہ ہی علماء اور اولیاء ہوتے رہیں گے لیکن ہر صدی کے اول یا آخر میں خصوصی مصلحین پیدا ہوتے رہیں گے جو سنتوں کو پھیلائیں گے، بدعتوں کو مٹائیں گے،
غلط تاویلوں کو دور کریں گے، صحیح تبلیغ کریں گے۔خیال رہے کہ اس حدیث کی بنا پر بہت لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق مجدّد گنائے ہیں۔ کہ پہلی صدی میں فلاں، دوسری میں فلاں، بہت مفسدوں نے بھی اپنے آپ کو مجدّد کہا، مرزا غلام احمد قادیانی پہلے مجدّد ہی بنا تھا پھر نبی۔ حق یہ ہے کہ اس سے نہ کوئی خاص شخص مراد ہے نہ کوئی خاص جماعت، کبھی اسلامی بادشاہ، کبھی محدثین، کبھی فقہاء، کبھی صوفیاء، کبھی اغنیاء، کبھی بعض حکاّم دین کی تجدید کریں گے، کبھی ایک، کبھی ان کی جماعتیں جو دین کی یہ خصوصی خدمت کرے وہی مجدد ہے، جیسے ایک زمانہ میں حضرت سلطان محی الدین اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے اسلام سے اکبری بدعات کو دور فرمایا اور جیسے قطب الوقت حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ یا اس زمانہ میں عالم اعلٰی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کہ انہوں نے اپنی زبان اور قلم سے حق و باطل کو چھانٹ کر رکھ دیا۔(مرآۃ المناجیح ج١، ص٢٠٣)

شیخ الاسلام بدرُ الدین ابدال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ صدی کے ختم ہوتے ہوتے علمائے امّت بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ دینی باتیں مٹنے لگتی ہیں، بدمذہبی اور بدعت ظاہر ہوتی ہے، اس واسطے دین کی تجدید کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے عالم کو ظاہر کرتا ہے جو ان خرابیوں کو دور کر دیتا ہے اور ان برائیوں کو سب کے سامنے علی الاعلان بیان کر کے دین کو از سرِ نو نیا کردیتا ہے۔ وہ سلف صالحین کا بہتر عوض، خیر الخلف، نعم البدل ہوتا ہے۔

قارئین کرام! مذکورہ روایت کو محدثین کرام نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جبکہ امام سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور حدیث بھی نقل فرمائی کہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجھے حدیث پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ہر سو سال پر علماء میں سے ایک ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعے اللہ پاک دین کو قوت عطا فرمائے گا۔
(عین الودود، جلد دؤم شرح ابو داؤد،صفحہ۲۴۱)

مجدّد کسے کہتے ہیں؟
مجدّد ایک عربی لفظ ہے جو تجدید سے بنا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے: ’’تازہ کرنا، نیا کرنا، اور جدّت پیدا کرنا‘‘ جبکہ شارحین نے حدیثِ مجدّد کی شرح کرتے ہوئے اس کے کئی اصطلاحی معانی بیان کیے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
· حدیث مجدّد کی شرح میں امام مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں: مجدّد کا کام یہ ہے کہ شرعی احکام جو مٹ چکے ہیں، سنتوں کے آثار جو ختم ہوگئے ہیں اور دینی علوم ظاہری ہوں یا باطنی جو پردۂ خفا میں چلے گئے ہیں، ان کا اِحیا کرے۔
(فیض القدیر ، صفحہ نمبر9،جلد 1،مکتبہ شاملہ)
 عظیم محدّث ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجدّد کا کام یہ ہے کہ وہ سنت کو بدعت سے ممتاز کرے، علم میں اضافہ کرے اور اہل علم کو عزت و قوت دے اور بدعت و اہل بدعت کی بیخ کنی کرے۔ (مرقاۃ المفاتیح،جلد2،صفحہ169،مکتبہ شاملہ)

 خلیفہ اعلیٰ حضرت، ملک العلما، حضرت علامہ محمد ظفرالدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تجدید کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان میں ایک صفت یا صفتیں ایسی پائی جائیں، جن سے امّت محمدیہ کو دینی فائدہ ہو۔ جیسے تعلیم و تدریس، وعظ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، لوگوں سے مکروہات کا دفع، اہلِ حق کی اِمداد۔ (حیات اعلی حضرت،جلد3،صفحہ124)

مجدّد کیوں آتاہے؟
مذکورہ وضاحت کے مطابق ہر صدی کے آخر میں مجدّد تشریف لاتے رہے ہیں، جب عقیدہ و عمل میں فساد برپا ہوتا ہے اور معاشرہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گمراہ گر مفسدین اپنی ریشہ دانیوں سے اسلامی معاشرہ میں اِرتِداد فی الدین کی تحریک، فرسودہ تحقیق و اجتہاد کے نام سے چلاتے ہیں جس کے نتیجے میں کتاب و سنت پر عمل ترک ہونے اور دین کی شکل مسخ ہونے لگتی ہے تو مجدّد اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق علوم ظاہری (عقلیہ و نقلیہ) شریعت و طریقت اور علم لدنی سے آراستہ اور جرأت و استقامت کے حسنِ عمل سے پیراستہ ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر ہو کر نیابت کا حق ادا کرتا ہے، دین کے چہرے پر پڑی گرد و غبار کو صاف کر کے اس کے چہرے کے حسن کو نکھارتا ہے، اہلِ ضلالت و بدعت کی بیخ کنی کرتا ہے، عقیدہ و عمل کے فساد کو دور کرکے خوش عقیدگی کو فروغ دیتا ہے، مجدّد کو اپنے کارِ منصبی کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے جبکہ ہم عصر علماء، اولیا، اتقیا، نقبا، صلحا، اصفیا اور عرفا کی معاونت و نصرت بھی حاصل ہوتی ہے۔(امام احمد رضاخان کے تجدیدی کارناموں کا نمایاں پہلو، صفحہ نمبر6،از مولانا نسیم صدیقی)

مجدّد کی چند نشانیاں:
· مجدد پچھلی صدی کے آخر اور رواں صدی کا ابتدائی زمانہ پاتا ہے۔
· مجدد مذہبی و معاشرتی تمام فتنوں کا مقابلہ کرتا ہے۔
· مجدد کو اللہ پاک علم لدنّی عطا فرماتا ہے۔
· مجدد اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق کثیر علوم ظاہری (عقلیہ و نقلیہ) کا ماہر ہوتا ہے۔
· مجدد کو اپنے کار منصبی کے لئے اللہ پاک کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
· مجدد کو اس کے ہم عصر علما، اولیا کی معاونت و نصرت حاصل ہوتی ہے۔
· مجدد عقیدہ و عمل کے فساد کو دور کرکے خوش عقیدگی کو فروغ دیتا ہے۔ وغیرہ
(امام احمد رضاخان کے تجدیدی کارناموں کا نمایاں پہلو،از مولانا نسیم صدیقی)




कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...