गुरुवार, 31 दिसंबर 2020


 نیو ائیر نائٹ کی غیر شرعی خرافات سے بچئے:

------------------------------------------------------------------------------

جیسے جیسے مسلمان اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے ان میں اغیار کے رسم و رواج اور تہوار زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ اور یہ غیر شرعی و غیر اخلاقی حرکتیں نہ صرف ان کو دین اسلام سے دور کر رہی ہیں بلکہ دین کا باغی بنا رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ ناعاقبت اندیش غیر محسوس طریقے سے باطل ادیان کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ انہی رسم و رواج میں ایک نیو ائیرنائٹ(New year night) ہے۔ جس کی تقاریب دنیا بھر میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ منائی جاتی ہیں ۔


31 دسمبرکی شب’’ نیو ائیر نائٹ (New Year Night)‘‘منانے کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے، بالخصوص نوجوان تو کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، رقص و سُرُود کی ہوش رُبا محفلیں بڑے اہتمام کے ساتھ سجائی جاتی  ہیں، جہاں مَعَاذَاللہ شراب اور مختلف طرح کے نشوں اور جُوئے کا انتظام ہوتا ہے، رات کے 12 بجتے ہی کروڑوں روپے آتش بازی میں جھونک دئیے جاتے ہیں، ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، منچلے نوجوان موٹر سائیکلوں سے سائلنسر نکال کر، کاروں میں لگے ہوئے ڈیک پر کان پھاڑ آواز میں گانے چلا کر ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پر اُودَھم مچاتے اور لوگوں کا سکون برباد کرتے ہیں، کئی نوجوان وَن ویلنگ(One Wheeling) کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ افسوس! اس اُمّت کے کروڑوں  روپے صِرف ایک رات میں ضائع ہو جاتے ہیں، خوشیاں منانے کے نام پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کر کے اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ مزید بھاری کیا جاتا ہے۔ اس رات میں کئی لوگ زہریلی شراب، ہوائی فائرنگ، ایکسیڈنٹ اور آگ میں جُھلس کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔


مسلمانوں سے گزارش:


آخر میں مسلمانوں سے گزارش ہے کہ خدارا ! ہوش سے کام لو اور اغیار کے رسم و رواج اور تہواروں سے خود کو پاک کرو خواہ نیو ائیر نائٹ ہو یا ویلنٹائن ڈے۔ بسنت میلہ ہو یا کوئی اور تہوار ان سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت جانو ۔ یہ دنیا میں بھی نقصان دہ ہیں اور آخرت کی خرابی کا باعث بھی۔ آخر کب تک تم اغیار کے غلام بن کر زندگی گزارو گے۔ کب تک ان کی پیروی کر کے دین و دنیا کو دائو پر لگائے رہو گے۔ یاد رکھو! ہمارے دشمن (یہودونصاری) بہت عیار و مکار ہیں ان کی تمنا و آرزو تو یہی ہے کہ مسلمان اپنے دین سے دور اور بیزار ہو کر مکمل طور پر ہماری غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں! مگر نہیں۔ ان شاء اللّٰہ عزوجل ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ آئیے آج عہد کرتے ہیں کہ ہم ضرور اپنے دین پر ثابت قدم رہیں گے۔ اور اغیار کے رسم و رواج اور فیشن سے ناطہ توڑ کر حضور رحمت العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں سے رشتہ جوڑیں گے۔ ڈاکٹراقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا

آگ کر  سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا


#New_year_night

#نیو_ائیر_نائٹ

शुक्रवार, 13 नवंबर 2020

ہند میں اہلِ سنت و جماعت کی تاریخ

 ہند میں اہلِ سنت و جماعت کی تاریخ :

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کل تک جو لوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ آج وہ لوگ اہلِ سنت و جماعت ہونے کے دعویدار ہیں، یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟ 

یہ لوگ کون ہیں۔؟ 

کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟ 

اور اِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟ آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔


سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں:

”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک یہاں آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے صرف اور صرف اہلِ سنت و جماعت تھے۔ اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا، سارے علماء و مشائخ سنی حنفی تھے۔پھر مغل سلاطین کی فوج میں کچھ شیعہ یہاں آئے

اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“


(2)حضرت امیر خسرو اپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال کی منظر کشی کرتے ہیں،

جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں:

”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلِ سنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“


(3) یہ صور تحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور ”حضرت مجدد (الف ثانی) کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے، ایک اہلِ سنّت و جماعت، دوسرا شیعہ۔


اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویتہ الایمان لکھی، اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد بنا، کوئی وہابی بنا، کوئی اہلحدیث کہلایا، کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا، آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا، وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اِس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات (یعنی بے ادبی و گستاخی) کا سلسلہ شروع کر دیا، یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“


(4) تقویتہ الایمان کی اِس شرانگیزیری پر اشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیں کہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب " تقویتہ الایمان “ کی وجہ سے مسلمانان پاک و ہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے۔


(5) یوں شیعیت کے بعد نجد کا فتنہ وہابیت

(جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار و نظریات کا مجموعہ ہے)اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا

اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب ” تقویہ الایمان“ اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔


” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزادنہ روش کی خواہش رکھتی تھی، اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔


(6) درحقیقت تقویتہ ایمان انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کے لئے منظر عام پر آئی، جو لڑاؤ

اور حکومت کرو کے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی،

انگریز کی ایماء پر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ اور فتنہ و فساد پھیلانے والی ”اِس کتاب کو 1838ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ (جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد 12 میں شائع کیا تھا) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا۔


(7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ،

دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریزوں نے تقویتہ الایمان مفت تقسیم کی۔“


(8) آغا شورش کشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا کہ مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو، اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا، انہیں پروان چڑھایا، اُن کا ہاتھ بٹایا۔


(9) اِس طرح تقویتہ الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے برصغیر میں ”اہلحدیث، نیچریت، چکڑالویت، انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“


(10) شاعر مشرق علامہ محمد اقبال (اللہ کی آپ پر رحمت ہو) اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“

(11) جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول ” تقویتہ الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت سنی حنفی سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں مختلف فرقوں میں داخل ہونے لگے اور اِس طرح سوادِ اعظم اہلِ سنت و جماعت سنی حنفی کا شیرازہ منتشر ہو گیا، اِس انتشار کی روک تھام

اور اہلِ سنّت کی شیرازہ بندی کے لئے روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا،

یہ فاضل عالم تھے، مولانا احمد رضا خاں، جوامام اہلِ سنّت مجدد دین وملت فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔


(12) ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “ پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں: ”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا، اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔


(13) اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم اہلِ سنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے، خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8 پر تسلیم کرتے ہیں کہ ” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا، اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے۔“


شیخ محمد اکرام کے بقول ”انہوں (مولانا احمدرضا خاں) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“


(14) خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ ”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“


(15) جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے، جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“


(16) نواب صدیق حسن بھوپالی

اہلحدیث نے اقرار کیا کہ ”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے،

اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“ 


(17) قارئین محترم !

درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر وہابی، اہلحدیث، دیوبندی کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں ان کو پڑھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں

السواداعظم اہلِ سنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں، وہ قدیم ترین جماعت ہے

جس کی ابتداء اسلام کی آمد سے منسلک ہے، شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر یعنی دیوبندی اِس براعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق اُس مکتبہ فکر سے ہے

جو شدت کے ساتھ قدیم سنی حنفی عقائد پر گامزن رہا، حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی،

جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ ”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری، سہروردی، نقشبندی، چشتی، رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں جو بریلویوں کے ہیں“


(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں، سہروردیوں، نقشبندیوں، چشتییوں اور رفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں تو کیا اِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کر لیا، یقیناً عقل و شعور سے یہ تصور محال ہے اور کوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کر سکتا کہ مولانا احمد رضا خاں نے

برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی

بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت،

مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیا

اور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات (جسے عرب و عجم کے علماء و ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا)

کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اور اہلِ سنّت وجماعت کا فخر و امتیاز قرار پائے۔


سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں

” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،

از اوّل تا آخر مقلد رہے، اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت

اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو واضح طور پر پیش کرتی رہی، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کے لئے بھی ”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے، اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا تو کیا ”بریلویت و سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنیٰ نہیں قرار دیا گیا۔؟

اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کر لیا گیا ۔


(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیں جو آج ”اہلِ سنّت و جماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی و دیوبندی نسبت اور حوالوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی دیوبندی کا دکھایا ہوا تقیہ کا راستہ کہ

”اپنی جماعت کی مصلحت کے لئے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کیے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے، وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اِس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔ “


(20) اختیار کر کے حنفیت واہلسنّت ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں، یہ وہی حکم الامت ہیں جو کہتے ہیں

”اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں، پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں“


(21) جو اپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”بھائی یہاں تو وہابی رہتے ہیں، یہاں نیاز فاتحہ کے لئے کچھ مت لایا کرو۔“


(22) اَمر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود چاروں فقہ

” حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی“ کے ماننے والے لوگ جو کہ ہر خطے میں پائے جاتے ہیں، اہلِ سنّت وجماعت ہیں،. اِن کے علاوہ باقی تمام مکتبہ فکر وہابی، اہلحدیث، اہل قرآن اور چکڑالوی وغیرہ خارج اہلِ سنّت شمار ہوتے ہیں، رہی دیوبندیت تو بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرما چکے ہیں کہ وہ (دیوبندیت) وہابیت کی ہی ایک شکل ہے جس نے بڑی چالاکی سے تقلید حنفی کا لبادہ اوڑھ کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا وطیرہ اختیار کر لیا ہے۔


قارئین محترم !

اِس مقام پر بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہابی و خارجی عقائد کے رکھنے والے لوگ کون ہیں، کب وجود میں آئے اور اِن کے عزائم کیا ہیں، اب دیکھتے ہیں اہلِ سنّت وجماعت کی تعریف و پہچان کیا ہے، دیوبندی مورخ سید سلیمان ندوی اصل اہلِ سنّت وجماعت کی تعریف وپہچان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں ” جن کے اعتقادات، اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت ِصحیح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہے۔“ 


(23) رسول اللہ نے فرمایا یہ ”وہ راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، ”اللہ میری اُمت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا اور آپ نے فرمایا،

نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو اُس سے الگ ہوا، شیاطین اُسے اچک لے جائیں گے، چنانچہ جب تم (اُس میں) اختلاف پاؤ تو (اُس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے) سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو، اِس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا، وہ دوزخ میں پڑا۔

(مستدرک،کتاب العلم)


حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا ”بےشک میری اُمت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی، پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم(بڑی جماعت) کی پیروی کرو، (ابن ماجہ ،کتاب الفتن ، باب السواد الاعظم یعنی اہلِ سنّت و جماعت وہی ہے جو رسول ﷲکی سنت پر عمل پیرا رہے، 

بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اور جماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں

جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ”ما انا علیہ واصحابی علیہ الیوم“۔


مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر اہلسنّت وجماعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”سنّی وہ ہے جو ماانا علیہ واصحابی کا مصداق ہو، یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین، ائمہ دین، مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ملک العلما حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی،

حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں“


(24) اِن حوالوں سے ہمارا مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی تحریکوں سے قبل ہندوستانی علماء ومشائخ اور مسلمان اپنے قدیم دینی مذہب اور متوارث روایات پر پوری سختی کے ساتھ کار بند رہے، مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کا تعلق بھی اِسی طبقے سے ہے۔

اِس وقت برصغیر میں امام احمد رضا خاں اور اُن کے مرید ہزاروں علماء و مشائخ کے عقائد ونظریات ہی اصل اہل سنّت و جماعت کے عقائد و نظریات ہیں،


یہی جماعت سواد اعظم بھی ہے اور ارشاد رسول 

”ماانا علیہ واصحابی“ کی حقیقی مصداق بھی ہے،

یہی وہ جماعت ہے جو ہردور میں راہ حق پر گامزن رہی اور آج بھی مسلمانوں کی عام اکثریت اِسی روش پر قائم ہے، مگر آج اغیار کے جھوٹ و فریب اور مکر و دجل کی وجہ سے اصل اہلسنّت وجماعت کی شناخت و تشخص اور نظریاتی بقاء سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے


٭٭٭٭٭

حوالہ جات:۔

(1) بر عظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ، ص 53۔از ڈاکٹر اشیاق حسین قریشی


(2) برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 23۔از،مبارک حسین مصباحی


(3) ردروافض ،ص9-10 بحوالہ ،بر صغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 84-85۔از،مبارک حسین مصباحی

(4) مولانا اسمعٰیل دہلوی اور تقویة الایمان،ص 9۔از،مولانا ابوالحسن زید احمد فاروقی


(5) انوار الباری جلد نمبر11،ص 107۔از ،مولویاحمدرضا بجنوری


(6) مولوی ندیم الواجدی ،افکار ملی جون 2001،ص22


(7) مقالات سرسید جلد نہم،ص 187،سر سید احمد خان)


(8) العلامہ فضل الحق خیرآبادی،ص187-188،المکتبة القادریہ لاہور۔از،ڈاکٹر قمرالنسائ


(9) تحریک ختم نبوت،ص19۔از،آغا شورش کاشمیری


(10) سعید الرحمن علوی ،سابق مدیر ہفت روزہ خدام الدین لاہور، بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 55۔از،مبارک حسین مصباحی


(11) اقبال کے حضور ،ص 262۔از،نذیر نیازی


(12) اہلِ سنّت کی آواز 1998،ص248-249مطبوعہ مارہرہ شریف


(13) مولانا انوار اللہ فاروقی،مقالہ پی ایچ ڈی ص 138،ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر،مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد


(14) موج کوثر ،طبع ہفتم 1966،ص 70،از۔شیخ محمد اکرام


(15) البریلویة ،ص7،از۔احسان الٰہی ظہیر


(16) شمع توحید مطبوعہ سرگودھا، ص 40،از۔ ثنا اللہ امرتسری

(17) ترجمان وہابیہ،ص10،از۔نواب صدیق حسن بھوپالی

(18) البریلویة ،ص 7۔از،احسان الٰہی ظہیر


(19) تقدیم، دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان،ص 10-11 مکتبہ حبیبیہ لاہور


(20) اشرف السوانح ،حصہ اوّل،ص 76۔از،اشرف علی تھانوی

(21) الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67۔از ،اشرف علی تھانوی

(22) اشرف السوانح،حصہ اوّل،ص 45۔از،اشرف علی تھانوی

(23) رسالہ اہلِ سنّت و جماعت ،ص8،دارالمصنفین اعظم گڑھ

(24) الفقیہ امرتسر 21اگست 1945ص 9(تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،ص 43۔از، محمد جلال الدین قادری


शुक्रवार, 9 अक्टूबर 2020

جاہل، ڈھونگی صوفی و پیر کو پہچانئے اور ان کے فتنے سے بچیئے۔ ¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯¯ جہاں حقیقی اولیاء کرام، قرآن وسنت اور اپنے روحانی فیوض وبرکات سے اپنے مریدین ومعتقدین کی مذہبی واخلاقی اور ظاہری و باطنی تربیت فرماتے ہیں وہاں آج کل بعض نام نہاد جعلی پیر فقیر ولایت کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہوئے ان کے ایمانوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور انہیں گمراہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں اور خود ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی شرعی معاملہ جیسے نماز وغیرہ سے متعلق پوچھا جاتا ہے تو(اَلعِیَاذُ باللہ تعالٰی) کہہ دیتے ہیں:’’ہم شریعت کے پابند نہیں بلکہ شریعت ہماری پابند ہے۔ کوئی یہ بکتا ہے: ’’ تم شریعت پر چلو، ہمارا طریقت کا راستہ اس سے الگ ہے۔ تم ظاہری احکام پرعمل کرتے ہو جبکہ ہم باطنی علوم پر عمل پیرا ہیں۔ اور بعض یہ حیلہ سازی کرتے ہیں: ’’میاں! ہم تو مدینے میں نماز پڑھتے ہیں۔ میاں! نماز تو روحانیت کا نام ہے، جو دِل میں ہوتی ہے، ہمارے دل نمازی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے خبیث صفت لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایسوں سے اپنا ایمان و عقیدہ محفوظ رکھنا فرض ہے کہ کہیں یہ لٹیرے ہمارا ایمان بھی نہ برباد کر دیں۔ کیونکہ عام طور پران کے شنیع اقوال وعقائد، کفر و گمراہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور ان سے دور رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اہلسنّت و جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’شریعت سے طریقت جُدا نہیں۔ چنانچہ، مجدد اعظم، امام اہلسنّت، سیِّدُنا اعلیٰ حضرت، امام احمد رضاؔ خان رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۱۳۴۰ھ) ارشاد فرماتے ہیں: ’’شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں، اور طریقت حضور کے افعال، اور حقیقت حضور کے احوال، اور معرفت حضور کے علوم بے مثال۔(فتاوی رضویہ، ج۲۱، ص۴۶۰) حضرت سیدی علامہ عبدالغنی بن اسماعیل نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان جاہلوں(ڈھونگی صوفی و پیر) کی حد سے گزری ہوئی باتیں اور دین کو نقصان پہنچانے والے کام تجھے دھوکے میں نہ ڈالیں کہ بغیر علم و معرفت سالک و عابد بنے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ عقائد اہلسنّت سے ناواقفیت، خلافِ شرع اقوال، جہل مرکب کے سبب باطل اعمال اور خود کو ہدایت پر سمجھنے کے اعتبار سے خود بگڑے اور دوسروں کو بھی بگاڑتے ہیں، آپ گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، سیدھی شریعت سے ہٹ کر بدمذہبی اور بے دینی کی طرف مائل ہیں، صراط مستقیم کو چھوڑ کر جہنم کی راہ چلتے ہیں، علمائے شریعت کی راہ سے الگ ہیں کیونکہ یہ اپنی کمزور عقلوں اور بیہودہ رائے پر عمل کرتے ہیں جبکہ علمائے شریعت قرآن وسنت، اجماعِ امت اور پختہ قیاس کے احکام پر چلتے ہیں۔ نیز یہ جاہل لوگ، مشائخِ طریقت کے مسلک سے بھی خارج ہیں کیونکہ یہ آدابِ شریعت سے روگردانی کئے ہوئے ہیں اور اس کے مستحکم قلعوں میں پناہ لینے کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔ پس وہ انکارِ شریعت کے سبب کافر ہیں اور دعوے یہ کرتے ہیں کہ ہم اس کے انوار سے روشن ہیں۔ مشائخِ طریقت آدابِ شریعت پر قائم ہیں اور تمام مخلوق پر لازم احکامِ الٰہی کی تعظیم کا عقیدہ رکھتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقاماتِ محبت میں قدسی کمالات کا تحفہ عطا فرمایا ہے جبکہ خرافات کے دھوکے میں پڑے ہوئے اور عار کے لباس میں ملبوس یہ جاہل لوگ ظاہر میں مسلمان اور حقیقت میں کافر ہیں۔ یہ ہمیشہ اپنے فاسد خیالات کے بتوں کے سامنے جم کر بیٹھے رہتے ہیں اور شیطان جو وسوسے ان کے خیالات و افکار میں ڈالتا ہے انہی پر فریفتہ ہیں۔ پس ان کے لئے پوری خرابی ہے اس لحاظ سے کہ یہ اس مقام پر اپنی حالت پر ڈٹے ہوئے ہیں، اس کو برا نہیں سمجھتے کہ اس سے رجوع کر لیں اور نہ ہی انہیں اپنے جاہل ہونے کا خیال آتا ہے کہ دوسروں سے ایسا علم حاصل کریں جو انہیں اس بری حالت سے نفرت دلائے۔ اور اُن کے لئے بھی ہر طرح سے خرابی ہے جو دنیا و آخرت میں رسوائی کا سبب بننے والی ان کی قبیح حالت اور سیرت کی پیروی کرتے ہیں یا ان کے کاموں کو اچھا جانتے ہیں۔ پس یہ جاہل لوگ، عابدین کے حق میں راہِ خدا عزوجل کے راہزن(یعنی لٹیرے اور ڈاکو) ہیں اس طرح کہ جو شخص عبادت و طاعت اور اِخلاص و تقویٰ کی راہ پر چلنا چاہتا ہے یہ لوگ اسے اپنی بناوٹی باتوں ، تکبرانہ اَعمال، ناقص احوال، اور غلط آراء کے ذریعے اس راہ سے روکتے ہیں اور احکامِ شرع کا انکار کر کے ہر دینی کام میں حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے جو حق (یعنی دین اسلام) حضور نبی ٔکریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں اسے جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنے لئے دین کے معاملہ کو آسان بنانا ہے اور کمالات کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے۔ اور حال یہ ہے کہ نرے جاہل اور دین کے اصول و فروع کو ضائع کرنے والے ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ ، الباب الاول فی اقسام بیان البدع، الفصل الثانی ، ج۱، ص۱۸۷۔۱۸۹)






 

बुधवार, 5 अगस्त 2020

ازدواجی زندگی میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسا برتاؤ برتنا چاہیے





 2۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی پر ظُلم و زِیادَتی نہ کرے ، اس کے حُقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتے بلکہ عدل و انصاف قائم رکھے۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان کے درمیان بھی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے ، کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہونے سے گُریز کرے ، رسولِ کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی طرف اُس کا میلان زیادہ ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ (ترمذی ، کتاب النکاح ، باب ماجاء فی التسویة بین الضرائر ، ۲ / ۳۷۵ ، حدیث : ۱۱۴۴) خود ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تعلیم اُمّت کے لئے اپنی ازواج مطہرات میں عدل و انصاف کا خُوب خیال فرماتے چنانچہ اُمُّ المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : ہمارے ہاں قیام کی تقسیم کے معاملے میں ہم میں سے کسی کو کسی پر فضیلت و ترجیح نہیں دیتے تھے۔ (ابو داؤد کتاب النکاح ، باب فی القسم بين النساء ، ۲ / ۳۵۳ ، حدیث : ۲۱۳۵) 




7۔ شوہر کو چاہئے کہ اپنی بیوی کی خُوشنودی کی خاطر ظاہری باطنی صفائی کا خیال رکھے داڑھی مونچھ اور سر کے بالوں کا مناسب بندوبست رکھے ، تیل کنگھی کا اِہْتِمام کرے، اندرونی بالوں کی مناسب وقت پر صفائی کرے، صاف ستھرا لباس زیبِ تن کیا کرے اور شریعت کی حد میں رہتے ہوئے ہر اعتبار سے زینت اختیار کرے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : بلاشُبہ میں اپنی بیوی کے لئے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں وہ تمام حقوق اچھی طرح حاصل کروں جو میرے اُس پر ہیں اور وہ بھی اپنے حقوق حاصل کرے جو اس کے مجھ پر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَـھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾(اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا اُن پر ہے شرع کے مُوافق) اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ بیویوں کے ساتھ اچھی صحبت اور بہتر سُلوک خاوندوں پر اسی طرح لازم ہے جس طرح بیویوں پر ہر اُس (جائز) کام میں خاوندوں کی اطاعت واجب ہے جس کا وہ اُنہیں حکم دیں۔ (تفسیر قرطبی، پ ۲، البقرة، تحت الاية : ۲۲۸، ۲ / ۹۶) 







गुरुवार, 5 मार्च 2020

مشابہت کی تعریف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ مُشابَہَت کی تعریف پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مشابہت کی تعریف: تَشَبُّہ دو وجہ پر ہے {۱}التزامی {۲} لُزُومی
التزامی: یہ کہ یہ شخص کسی قوم کے طرز و وضع خاص اسی قصد(یعنی ارادے) سے اختیار کرے کہ ان کی سی صورت بنائے، ان سے مُشابَہَت حاصل کرے حقیقتاً تَشَبُّہ اسی کا نام ہے۔
 لُزُومی: یہ کہ اس کا قصد (یعنی ارادہ )تو مُشابَہَت کا نہیں مگر وہ وضع اس قوم کا شعارِ خاص (یعنی پہچان) ہو رہی ہے کہ خواہی نہ خواہی (یعنی خود چاہے یا نہ چاہے) مُشابَہَت پیدا ہوگی‘‘۔ مزید فرماتے ہیں : ’’یہ کہ اس قوم کو محبوب جان کر ان سے (جان بوجھ کر) مُشابَہَت پسند کرے یہ بات اگر مُبْتَدِع (یعنی بُری بدعت پر عمل کرنے) کے ساتھ ہو(تو) بدعت (ہے) اور کفار کے ساتھ (ہو تو) معاذ اللہ ’’کفر‘‘۔
حدیثِ پاک ’ ’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُم‘‘ یعنی ’’جو جس قوم کی مُشابَہَت کرے وہ انہیں میں سے ہے۔‘‘ حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے۔ آگے چل کر مُشابَہَت کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’اُس زمان و مکان میں ان کا شعارِ خاص (پہچان) ہونا قطعاً ضرور جس سے وہ پہچانے جاتے ہوں اور اُن میں اور اُن کے غیر میں مُشْتَرَک نہ ہو (یعنی وہ پہچان ایک ہی وقت میں دو قوموں میں نہ پائی جاتی ہو جیسا کہ مسلمان کا شِعَار خاص داڑھی اور عمامہ شریف ہے اور ایک غیر مسلم فرقے کے لوگ بھی داڑھی اور پگڑی کا اہتمام کرتے ہیں۔ تو اب یہ کہنا ہر گز رَوا نہ ہوگا کہ داڑھی اور عمامہ اس بدمذہب فرقے کی مُشابَہَت ہے۔ جب داڑھی اور مطلقاً عمامہ مُشابَہَت نہیں تو ہمارا سبز عمامہ بھی کسی گمراہ فرقے کی مُشابَہَت نہیں ) ورنہ لُزُوم کا کیا محل؟ (فتاویٰ رضویہ ،۲۴/۵۳۰ ملخصًا)

 خلاصہ :
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی قوم کو مَحبوب جان کر اس کا شِعار اس نیت سے اپنائے کہ میں بھی ان جیسا نظر آؤں تو اس صورت میں اگر وہ کسی گمراہ قوم کا شِعَار اپناتا ہے تو اس کا یہ فعل گمراہی ہے اور اگر کفار کا شِعار اپناتا ہے توا سکا یہ فعْل معاذ اللہ’’ کفر‘‘ ہے اور حدیثِ مبارک’ ’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ‘‘ ان دو قسم کی مُشابَہَتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...