मंगलवार, 15 जून 2021

 مستحب کام کو فرض و ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔

✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯

نیاز فاتحہ، بزرگوں کے اعراس، گیارہویں، میلاد شریف مزارات اولیاء پر حاضری، پیری مریدی وغیرہ کام مستحب ہیں۔ لیکن ان کاموں کو آج کل عوام جو ضروروی و فرض کی طرح سمجھتے ہوئے کرنے لگی ہے یہ بہت غلط ہے۔ اسلام میں ان کاموں کی حیثیت صرف مستحب کی ہے جنہیں کرنا فرض و واجب نہیں ہے، اگر کوئی کرے تو اچھا نہ کرے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔ علمائے اہل سنت نے جہاں مستحب کام کو کرنے کی اجازت دی ہے وہی ان کاموں کو ضروری اور فرض سمجھتے ہوئے کرنے سے منع بھی فرمایا ہے۔


 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت والا ہو جب کسی سنت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب ہو تو یہ عمل اب مستحب نہیں کہلائے گا بلکہ اب یہ کام بُرا ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ،۷ / ۴۱۰، مُلخصاً)


اوصوا بترک التزام مستحب اذا خیف ان یظنہ العوام واجبا۔

جب یہ خطرہ ہوکہ عوام اسے(مستحب کام کو) ضروری سمجھ لیں گے تو علماء مستحب پر پابندی ترک کرائیں( فتاویٰ رضویہ جلد٨،ص١٢٦)


علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

ان المندوبات قد تنقلب مکروہات اذا رفعت عن رتبتھا۔

مستحب



کام جب لوگ انہیں ان کے مرتبے سے زیادہ اہمیت دینے لگیں تو وہ مکروہ ہو جاتے ہیں۔

(فتح الباری، جلد٢، ص٢٨١ مطبوعہ مصر)


مولانا علی قاری مکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

من اصر علی امر مندوب و جعلہ عزماً ولم یعمل بالر خصۃ فقد اصاب منہ الشیطان من الا اضلال

جو کسی مستحب کام پر اصرار کرے اور اس کو ضروری قرار دے اور اجازت و رخصت پر عمل نہ کرے تو شیطان اس کو گمراہ کرنے کی راہ پا لیتا ہے۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ جلد٢، ص١٤ مطبوعہ ممبئی)

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...