मंगलवार, 27 नवंबर 2018

حیات انبیاء کرام علیہم السلام (1) -------------------------------------------------------------------- اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں بحیات حقیقیہ دنیویہ۔ قرآن مجید میں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر ہے وہ موت عادی ہے جس سے مخلوقات میں سے کسی کو چارہ نہیں۔ اسی عادی موت کے بعد اللہ تعالٰی نے پیغمبروں کو حیات بخش دی ہے۔ اَحادیث صحیحہ سے انبیاء وشہداء کے واسطے اس حیات کا دائمی ہوناثابت ہے۔ ابن تَیمِْیَّہ کے وقت سے ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ انبیاء بھی دوسرے مردہ اشخاص کی طرح زمین کے نیچے مد فون اور مردہ ہیں۔ اس لئے مدینہ منورہ میں روضہ شریف پر حاضر ہونا اور حضور علیہ الصلوٰۃ وَالسَّلَام کے وسیلے سے طلبِ حاجات بےکار و بے سود ہے۔ چنانچہ ابن تَیمِْیَّہ کا بڑا شاگرد ابن القیم اپنی کتاب عقائد یعنی قصیدہ نونِیَّہ (مطبوعہ مصر، ص۱۴۱ ) میں یوں لکھتا ہے : من فوقہ اطباق ذاک الترب واللبنت قد عرضت علی الجدران لو کان حیا فی الضریح حیاتہ قبل الممات بغیر فرقان و ما کان تحت الارض بل من فو قھا و اللّٰہ ھذہ سنۃ الرحمان (ترجمہ) حضرت نبی پر ڈھیروں مٹی اور اینٹیں ہیں دیواریں بنی ہوئی ہیں، اگر آپ قبر شریف میں ویسے ہی زندہ ہو تے جیسے موت سے پہلے تھے توزمین کے نیچے نہ ہوتے بلکہ اس کے اوپر ہوتے۔ واللّٰہ عادت اللّٰہ یہی ہے۔(القصیدۃ النونیۃ، فصل فی الکلام فی حیاۃ الانبیائ۔۔۔الخ،ص۱۷۸ ۔علمیہ) قرآنِ کریم میں شُہَداء کرام کی حیات کی نص موجود ہے۔ اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام شُہَداء عِظام سے یقینا افضل ہیں ۔ان میں وصف نبوت کے ساتھ بالعموم وصف شہادت بھی پا یا جاتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وفات شریف کے وقت یوں فرمایا: یاعائشۃ ما ازال اجد الم الطعام الذی اکلت بخیبر فھذا اوان وجدت انقطاع ابھری من ذلک السّم۔ اے عائشہ ! مجھے خیبر کے کھانے کی تکلیف برابر رہی ہے اور اب میری رگ جان اسی زہرسے منقطع ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہو اکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے ساتھ شہادت کا در جہ بھی حاصل ہے۔لہٰذا آپ سید المرسلین ہو نے کے ساتھ سید الشُہَداء بھی ہوئے۔ پس آپ کی حیات شُہَداء کی حیات سے اکمل ہے بایں ہمہ آپ کو مردہ کہنا کیسی گستاخی ہے حالانکہ قرآن کریم میں شُہَداء کی نسبت ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ان کو مر دہ نہ کہو۔ علامہ سَمْہودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وَفاء الوفاء (جزء ثانی، ص ۴۰۵ ) میں لکھتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وفات کے بعدزندہ ہیں۔ اسی طرح دیگر انبیاء بھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ایسی حالت کے ساتھ جو شہداء (جن کی حیات کی اللّٰہ تعالٰی نے اپنی کتاب عزیز میں خبردی ہے) کی حیات سے اَکمل ہے اور ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سید الشہداء ہیں اور شہداء کے اعمال آپ کی میزان میں ہیں۔ انتہیٰ۔(وفاء الوفاء للسمہودی ،ج۲،الجزء الرابع،ص۱۳۵۲۔ علمیہ) احادیث صحیحہ سے بھی حیاتِ اَنبیاء کا ثبوت ملتا ہے جن میں سے چند ذیل میں درج کی جاتی ہیں : {۱}… عَنْ اَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماِنَّ مِنْ اَفْضَلِ اَیَّا مِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ وَفِیْہِ النَّفْخَۃُ وَفِیْہِ الصَّعْقَۃُ فَاَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلٰوۃِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْ ضَۃٌ عَلَیَّ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلٰوتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ اَرِمْتَ قَالَ یَقُوْلُوْنَ بَلِیْتَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَ رْضِ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَآء ۔ رو اہ ابوداوٗد والنسائی وابن ماجہ والدارمی والبیھقی فی الد عوات الکبیر۔ (مشکوٰۃ،باب الجمعۃ) حضرت اَوس رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنْہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہ تمہارے افضل ایام میں سے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے اور اسی میں قبض کیے گئے اس میں نفخۂ ثانیہ اور نفخۂ اُولٰی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر درود زیادہ بھیجوکیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ بو سیدہ ہڈیاں ہوں گے۔ (قول راوی) صحابہ کی مراد اَرِمْتَ سے بَلِیْتَ ( بوسید ہ ہوں گے) ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ پیغمبر وں کے جسموں کو کھا ئے۔ اسے ابو داؤدو نسائی وابن ما جہ ودارمی نے اور بیہقی نے دعوات الکبیر میں روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام جسموں کے ساتھ زند ہ ہیں کیونکہ صحابۂ کرام نے جب حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ ارشاد سنا کہ تمہارا درود مجھ پر عرض کیا جاتا ہے۔ تو ان کو شبہ ہوا کہ آیا یہ عرض بعد وفات شریف صرف روح پر ہو گایا روح مع الجسد پر۔ کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ جسد نبی دوسرے اشخاص کے جسد کی مانند ہے۔ پس اس کے جواب میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرما دیا کہ میرا جسد دوسرے اشخاص کے جسد کی مانند نہیں کیونکہ پیغمبروں کے جسم کو مٹی نہیں کھا تی۔ پس وہ سمجھ گئے کہ یہ عرض روح مع الجسد پر ہو گا لہٰذا حیات انبیاء بعد وفات ثابت ہے۔ {٢}عن ابی الدرداء قال قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَاَکْثِرُوا الصَّلٰوۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ تَشْہَدُہُ الْمَلٰئِکَۃُ واِنَّ اَحَدًا لَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ عَلَیَّ صَلَاتُہٗ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدَ الْمَوْتِ قَالَ وَبَعْدَ الْمَوْتِ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔ (رواہ ابن ماجہ) حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مجھ پر جمعہ کے دن درود زیادہ بھیجا کروکیونکہ وہ دن حاضر کیا گیا ہے۔ حاضر ہوتے ہیں اس میں فرشتے، تحقیق کوئی مجھ پردرود نہیں بھیجتا مگر اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہوجائے۔ کہا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے: میں نے عرض کیا ،کیا موت کے بعد بھی ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا کہ پیغمبروں کے جسموں کو کھائے۔ پس اللّٰہ کے نبی زندہ ہیں رزق دئیے جاتے ہیں۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے انبیاء کی حیات بحیات حقیقیہ دنیویہ بعد الوفات ثابت ہے اس میں حئ کے ساتھ یرزق بطور تاکید ہے کیونکہ رزق کی حاجت جسم کو ہو تی ہے۔ علامہ سیوطی علیہ الرحمہ ‘’ شَرْحُ الصُّدُ ور’‘ میں نقل کرتے ہیں: {۳}… و اخرج ابو یعلی و البیھقی و ابن مندۃ عن انس اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْاَنْبِیَائُ اَحْیَائُ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ ۔ اور ابویعلی اور بیہقی اور ابن مَنْدَ ہ نے حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبر وں میں نماز پڑھتے ہیں۔ علامہ سَمْہودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے وفاء الوفاء میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے کہ روایت ِابو یعلی کے راوی ثقہ ہیں اور بیہقی نے اسے مَعَ التصحیح نقل کیا ہے۔ اس کے شواہد سے صحیح مسلم میں روایت ِحضرت ِاَنس ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں (شب معراج میں) موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر گزرا وہ اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے۔(انتہی ) اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے شب معراج میں بیت المقدس میں انبیاء کرام کی جماعت کرائی اور آسمانوں میں ان کو دیکھا۔(وفاء الوفاء للسمہودی ،ج۲،الجزء الرابع،ص۱۳۵۲۔ علمیہ) مسئلہ حیات انبیاء کی تائید صحیح مسلم کی روایت ابن عباس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وادیِ اَزرَق سے گزرے۔فرمایا یہ کو نسی وادی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: وادیٔ ازرق ہے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں گو یا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھ رہا ہوں کہ گھاٹی سے اتر تے ہو ئے لبیک کہہ رہے ہیں ۔ پھر وادیٔ ہرشا پر پہنچ کر حضور نے فرمایا: یہ کونسی گھاٹی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ وادی ہرشا ہے۔ حضور نے فرمایا: گو یا میں یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو سرخ بالوں والی اونٹنی پر دیکھتا ہوں کہ صوف کا جبہ پہنے ہو ئے ہیں ۔ مُہار کھجور کی چھال کی رسی کی ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الاسراء برسول اللہ۔الخ،الحدیث:۱۶۶،ص۱۰۳۔ علمیہ) اولیاء کرام میں بہت سی مثالیں ایسے بزرگوں کی ملتی ہیں جو رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حالت بیدار ی میں دیکھا کرتے تھے۔ بخوفِ طوالت یہاں ان کا حال درج نہیں کرتے۔ علامہ جلا ل الدین سیو طی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے رسالہ تنو یر الملک میں وہ احادیث و اقوال صلحاء نقل کر تے ہیں جو حالت خواب اور حالت بیداری ہر دو میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رویت کے امکان پر دلالت کرتے ہیں ۔ بعد ازاں یوں فرماتے ہیں کہ ان تمام احادیث واقوال سے ثابت ہو گیاکہ حضور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسم اقدس اور روح شریف کے ساتھ زندہ ہیں اور وہ تصرف فرماتے ہیں جہاں چاہتے ہیں زمین وآسمان میں اور اسی ہیئت سابقہ شریفہ پر ہیں(یعنی حیات ظاہری) کچھ تبد یلی اس میں نہیں ہوئی۔ آنکھوں سے ایسے ہی غائب ہیں جیسے فرشتے نظر نہیں آتے حالانکہ فرشتے زندہ ہیں اور ان کے اجسام بھی ہیں ۔ جب اللّٰہ تعالٰی اراد ہ کرتا ہے کسی امتی پر کرامت اور احسان کا تو حجاب اٹھا دیتا ہے اور وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت اصلی صورت میں کر لیتا ہے۔ اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور صرف مثال ہی کے دیکھنے پر منحصر کر دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ انتہی۔(امام بیہقی نے حیات ِانبیاء پر ایک رسالہ لکھا ہے جو چاہے اسے مطالعہ کرے) خلاصۂ کلام یہ کہ سید نا ومولیٰنا محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وفات شریف کے بعد بھی جسم اَطہر کے ساتھ زندہ ہیں ۔ بحیات حقیقیہ دنیویہ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تصرّفات بدستور جاری ہیں۔ اسی واسطے آپ کی امت میں تا قیامت قطب، غوث، ابدال و اوتاد ہو تے رہیں گے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ نے رسالہ ’’سلوک اقرب السبل بالتوجہ الی سید الرسل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم‘‘ میں جو خانِخاناں کی طرف لکھا ہے یوں فرمایا ہے: ’’وباچندیں (اخبار الاخیار مجتبائی، حاشیہ ص ۱۵۵) اختلافات وکثرت مذاہب کہ درعلماء امت است یک کس را دریں مسئلہ خلافے نیست کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز وتوہم تا ویل دائم وباقی است۔ وبر ا عمال امت حاضر وناظر ومر طالبان حقیقت را ومتوجہان آنحضرت رامفیض ومربی است۔‘‘(مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی علی ھامش اخبار الاخیار،ص۱۵۵۔ علمیہ) علماء امت میں اس قدر اختلافات اور کثرت مذاہب ہے۔ بایں ہمہ کسی ایک کو اس مسئلہ میں ذرا بھی اختلاف نہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بلا شائبہ مجاز و توہم تاویل حیاتِ حقیقیہ کے ساتھ دائم وباقی ہیں اور اُمت کے اَعمال پر حاضر و ناظر ہیں اور طالبان حقیقت کو اور متوسلانِ بارگاہ ِنبوت کو فیض پہنچا نے والے اور ان کی تربیت فرمانے والے ہیں۔ حضرت شیخ نے بالکل درست لکھا ہے کیونکہ فتنہ ابن تَیمِْیَّہ اس تحریر سے سینکڑوں سال پہلے فَرو ہو چکا تھا اور شیطان کا سینگ ابھی نجد سے نہ نکلا تھا جس نے تعلیم تَیمِْی کی سوتی بلا کو جگایا اور بات بات پر مسلمانوں کو مشرک بتایا۔(سیرتِ رسولِ عربی ص٢٨٥ تا ٢٩٠)

حیات انبیاء کرام علیہم السلام

حضور اکرمﷺ کی امّت پر شفقت و رحمت -------------------------------------------------------------------- اللہ تعالٰی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں یوں فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ۱۱،التوبۃ:۱۲۸) البتہ تحقیق تمہارے میں کا ایک پیغمبر تمہارے پاس آیا ہے تمہاری تکلیف اس پر شاق گزرتی ہے اس کو تمہاری ہدایت و صلاح کی حرص ہے وہ ایمان والوں پر شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ میں ذکر کر دیا کہ امت کی تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے۔ ان کو شب وروز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ امت راہ راست پر آجائے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے امت کی ہدایت وبہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بددعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ ایمان والوں پر آپ کی شفقت ورحمت ظاہر ہے اسی واسطے آپ نے کسی مقام پر امت کو فراموش نہیں فرمایا بغرض توضیح چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں غم وفکر کے آثار نمایاں ہو تے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہوتے اور حالت غم جاتی رہتی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا(کہیں ایسا نہ ہو کہ) ( قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ الاستسقائ،باب التعوذ عند رؤیۃ الریح۔۔۔الخ،الحدیث: ۸۹۹،ص۴۴۶) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں دعا ما نگی: اَللّٰھُمَّ مَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ وَمَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُ مَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِھِمْ فَارْفُقْ بِہٖ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الامارۃ والقضائ،الفصل الاول،الحدیث:۳۶۸۹، ج۲،ص۷) خدایا جو شخص میری امت کے کسی کام کا وَالی ومُتَصَرِّف بنایا جائے پس وہ ان کو مشقت میں ڈالے تو اس والی کو مشقت میں ڈال اور جو شخص میری امت کے کسی کام کا والی بنایا جائے پس وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو اس والی کے ساتھ نرمی کر۔ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کو جہاد کا اس قدر شوق تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ میں باربار شہید ہو کر زندہ ہوتا رہوں مگر چونکہ امت میں سے ہر ایک پر واجب تھا کہ جہاد میں آپ کے ساتھ نکلے بفحوائے آیۂ ذیل: ( اسی آیت کے مضمون کی وجہ سے)۔ مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- (توبہ، ع۱۵) نہ چاہیے مدینہ کے رہنے والوں کو اور ان اَعراب کو جوان کے گردہیں کہ پیچھے رہ جائیں رسول خدا سے اور نہ یہ کہ رسول کی جان سے اپنی جان کو زیادہ چاہیں۔ ترجمہ کنزالایمان: مَدینے والوں اور ان کے گرد دیہات والوں کو لائق نہ تھا کہ رسول اللّٰہ سے پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۲۰) اس لئے آپ سرایا میں لشکر اسلام کے ساتھ بدیں خیال تشریف نہ لے جایا کر تے تھے کہ اگر میں ہر فوج کے ہمراہ جاؤں تو مسلمانوں کی ایک جماعت پیچھے رہ جائے گی۔ کیونکہ میرے پاس اس قدر گھوڑے اونٹ نہیں کہ سب کو سوار کر کے ساتھ لے جاؤں اور نہ ان میں استطاعت ہے کہ سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں ۔اس طرح پیچھے رہ جانے والے گنہگار اور ناخوش و شِکَسْتَہ دِل ہوں گے۔(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب فضل الجہاد۔۔الخ، الحدیث:۱۸۷۶،ص۱۰۴۲۔ ۱۰۴۳) حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اللہ عزوجل کا قول حضرت ابراہیم کی نسبت ’’ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-۔۔۔الآیہ‘‘ ترجمۂ کنزالایمان:اے میرے رب بیشک بتوں نے بہت لوگ بہکا دئیے۔(پ۱۳، ابراہیم:۳۶) اور حضرت عیسیٰ کا قول" اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸)" ترجمۂ کنزالایمان:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔ (پ۷،المائدۃ:۱۱۸) تلاوت فرمایا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی : اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ(خدایا میری امت میری امت) اور روپڑے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ محمد کے پاس جاؤ(حالانکہ تیرا پر وردگار خوب جانتا ہے۔) ان سے رونے کا سبب دریافت کرو۔ حضرت جبرئیل نے حاضر خدمت ہو کر رونے کا سبب پوچھا۔ آپ نے بتا دیا (حالانکہ خدا کو خوب معلوم ہے۔) اللہ تعالٰی نے حکم دیا: اے جبرئیل ! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور غمگین نہ کریں گے۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب دعاء النبی لامتہ۔الخ، الحدیث:۲۰۲،ص۱۳۰) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو مومن مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کو خواہ کوئی ہوں ملنا چاہییے اور جو مومن قرض یا (محتاج) عیال چھوڑ جائے تو چاہیے کہ قرض خواہ یا عیال میرے پاس آئے کیونکہ میں اس کا وَلی و مُتَــکَفِّل(کفالت کرنے والا) ہوں۔(صحیح بخاری ج۲،ص۱۰۸-۱۰۹) آنحضرت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کرام کو پڑھائی چوتھی رات صحابہ کرام بکثرت مسجد میں جمع ہوئے اور انتظار کرتے رہے مگر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف نہ لائے۔ صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں تقریر فرمائی: اَ مَّا بَعْدُ فَاِ نَّہٗ لَمْ یَخْفَ عَلیَّ مَکَانَــکُمْ لٰـکِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا۔(صحیح البخاری،کتاب الجمعۃ، ج۱،ص۳۱۸) امابعد! تمہارا مسجد میں جمع ہو نا مجھ پر پو شید ہ نہ تھالیکن میں ڈرگیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا کر نے سے عاجز آجاؤ۔ نماز تراویح کی طرح بعضے اور افعال کو آپ نے صرف اس ڈرسے ترک کردیا کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔ ہر نماز کے لئے مسواک کا ترک کرنا، تا خیر عشاء کا ترک کرنا اور صوم وصال سے منع فرمانا اسی قبیل سے ہے یہ آپ کی شفقت ہی کا باعث تھا کہ دین ودنیا میں امت کے لئے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ کو دو اَمروں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ آسان موجب گناہ نہ ہو تا اور اگرایسا ہوتا تو آپ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہنے والے تھے۔(بخاری ج۴،ص۱۳۳) شب معراج میں پہلے پچاس نمازیں فرض ہو ئیں ۔ بارگاہ رب العزت سے واپس آتے ہوئے جب آپ آسمان ششم میں حضرت موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا حکم ملا ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہر روز پچاس(٥٠) نمازوں کا حکم ملاہے۔ حضرت موسیٰ(عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) نے عرض کیاکہ آپ کی امت ہر روز پچاس نمازیں نہ پڑھ سکے گی۔ آپ اپنی امت سے بوجھ ہلکا کرائیں۔ چنانچہ آپ درگاہ رب العزت میں باربار حاضر ہو کر تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہو گئے۔(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار، باب المعراج،الحدیث:۳۸۸۷،ج۲،ص۵۸۶) جب شب معراج میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم مقام قاب قوسین میں پہنچے تو باری تعالٰی کی طرف سے آپ پر یوں سلام پیش ہوا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ اے نبی ! تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور بر کتیں۔ اس کے جواب میں آپ نے عرض کیا:’’اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْن’‘سلام ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ اس جواب میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عبادِ صالحین کو الگ ذکر کر کے گنہگارانِ اُمت کو غایت کرم سے سلام میں اپنے ساتھ شامل رکھا اور اسی واسطے صیغہ جمع (علینا) استعمال فرمایا۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا کہ میرا حال اور میری امت کا حال اس شخص کی مثل ہے جس نے آگ روشن کی پس ٹڈیاں اور پروانے اس میں گر نے لگے اور وہ ان کو آگ سے ہٹاتا تھا سو میں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا نے والا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹتے ہو۔(صحیح مسلم) (اور آگ میں گرنا چاہتے ہو۔) قیامت کے دن لوگ بغرضِ شفاعت یکے بعد دیگرے اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاس جائیں گے مگر وہ سب عذر پیش کریں گے۔ آخرکار حضور شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم حمد وثناء کے بعد سجدے میں گر پڑیں گے۔ باری تعالٰی کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ سر سجدے سے اٹھائیے، جو کچھ مانگیئے دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس وقت آپ یوں عرض کریں گے: یَا رَبِّ اُ مَّتِیْ اُ مَّتِیْ اے میرے پروردگار ! میری امت میری امت۔(بخاری ج۴،ص۵۷۷) اب عالم برزخ میں ہر روز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم پر اُمت کے اعمال پیش ہو تے ہیں۔ اچھے عملوں کو دیکھ کر آپ خدا کا شکر اور برے عملوں کو دیکھ کر مغفرت کی دعا کر تے ہیں۔(سیرتِ رسولِ عربی)

حضور اکرمﷺ کی امّت پر شفقت و رحمت

मंगलवार, 13 नवंबर 2018

١٢ ربیع الاول میلادالنبیﷺ یا وفات النبیﷺ ؟ ------------------------------------------------------- وہابی دیوبندی حضرات کا اعتراض: ١٢ ربیع الاول نبی کریم علیہ السلام کا یومِ وفات ہے، اس روز خوشیاں منانے والے اپنے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں، ان کا ضمیر و ایمان مردہ ہے، ان کو نہ اپنے نبی کا پاس ہے، نہ ان سے حیاء، یہ لوگ روزِ قیامت خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے؟ وغیرہ وغیرہ اس کتاب میں حضرت علامہ مفتی اشرف قادری صاحب نے اس وہابیوں کے اس اعتراض کا دندان شکن جواب عطا فرما کر وہابیوں کی بولتی بند فرما دی آپ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جب تاریخ وفات ہی ١٢ ربیع الاول نہیں تو پھر ١٢ ربیع الاول کو یومِ وفات کہنا ہی درست نہیں اور جو لوگ اس دن کو جشنِ ولادت کے طور پر مناتے ہیں ان کو روکنا ہی بہت بڑا ظلم ہے

सोमवार, 12 नवंबर 2018


جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر خرچ اسراف نہیں
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ صرف ربیعُ الاوّل کے مہینے میں چَراغاں کرنے اور جھنڈیوں کے لگانے پر یہ لوگ اعتراض کیوں کرتے ہیں ؟ شادیوں اور دیگر تقریبات کے مواقِع پر جو چَراغاں ہوتاہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے اور اگر اِسراف کے یہی معنیٰ ہیں کہ مطلقاً ضَرورت سے زیادہ خرچ کرنا اِسراف ہے تو یہ مکان بنانا سب اِسراف ہو گا اس لیے کہ جُھگّی (جھونپڑی)میں بھی رہا جاسکتا ہے ، اچھّے اور قیمتی کپڑے بنوانا بھی اِسراف ہوتا اِس لیے کہ ٹاٹ، کھدَّر وغیرہ سے بھی سِتْر پوشی ہوسکتی ہے،اچھّے کھانوں پر خرچ کرنا بھی اِسراف ہو گا موٹے آٹے کی روٹی کو چٹنی یاسِرکہ کے ساتھ کھانے سے بھی پیٹ بھر سکتا ہے، ان سب باتوں میں جب روپیہ صَرف کرنا اس لیے اسِراف نہیں کہ مقصد صحیح کے لیے صَرف کیا جارہا ہے اگر چِہ ضَرورت سے زیادہ ہے ۔ اِسی طرح مِیلاد کے موقع پر صَرف کرنا اِسراف نہیں ہے کہ عظمتِ مصطفی صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِظہار 
(کرنا مقصود ہے ۔ (وَقارُالفتاویٰ ،ج ۱،ص۱۵۵،بزمِ وقارالدین ،بابُ المدینہ کراچی 

حسن بن سہل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے سے روایت ہے کہ حسن بن سہل نے کسی پانی پلانے والے کو اپنے گھرمیں دیکھا تو اُس کا حال پوچھا۔ سقہ نے اپنے زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی کا اِرادہ ظاہر کیا۔ حسن بن سہل نے اُس کی حالتِ زار پر رحم کرتے ہوئے اُسے ایک ہزار درہم دینے کا عندیہ دیا لیکن غلطی سے اُسے دس لاکھ درہم دے دیے۔ حسن بن سہل کے اہلِ خانہ نے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور حسن بن سہل کے پاس جانے سے خوف زدہ ہوئے۔ پھر وہ رقم کی واپسی کے لیے غسان بن عباد کے پاس گئے جو خود بھی سخی ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ اُس نے کہا :أيها الأمير! إن اﷲ لا يحب المسرفين.’’اے امیر! بے شک اللہ تعالیٰ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘اِس پر حسن نے کہا :ليس في الخير إسراف.’’خیرمیں کوئی اِسراف نہیں۔‘‘پھر حسن نے سقہ کے حال کا ذکر کیا اور کہا :واﷲ! لا رجعت عن شيء خطّته يدي.’’اللہ رب العزت کی قسم! میں اپنے ہاتھوں سے ادا کردہ جملہ دراہم میں سے کچھ بھی واپس نہیں لوں گا۔‘‘پس سقہ کو اُن تمام دراہم کا حق دار ٹھہرا دیا گیا۔1. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 11 : 240، 241، رقم : 13922. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 3223. ابن جرادة، بغية الطلب في تاريخ حلب، 5 : 23862۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں :ليس في الحلال اسراف، وإنما السرف في إرتکاب المعاصي.1. شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 3932. دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157’’حلال میں کوئی اِسراف نہیں، اِسراف صرف نافرمانی کے اِرتکاب میں ہے۔‘‘3۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :الحلال لا يحتمل السرف.’’حلال کام میں اِسراف کا اِحتمال نہیں ہوتا۔‘‘1. ابو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 3822. شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 3933. دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157مذکورہ اَقوال سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جتنا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور خرچ کیا جائے اُس کا شمار اِسراف میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو لوگ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنے کو فضول خرچی گردانتے ہیں اُنہیں اپنی اِصلاح کرلینی چاہیے اور اِس اَمر خیر کو ہرگز نشانۂ طعن نہیں بنانا چاہیے۔سوال: جو نبیﷺ بہتے دریا سے وضو کرنے والوں کو بھی پانی کے اسراف سے بچنے کی تعلیم دے کر گئے ، آپﷺ کا نام لے کر وسائل کا اسراف (چراغاں) کہ اگر اس خرچ کو جمع کیا جائے تو ہزاروں، بیروزگاروں کوکاروبار کرایا جاسکتاہے، جائز ہے؟جواب: محسن انسانیتﷺ کی ذات اور آپﷺ کا مرتبہ و مقام اس قدر بلند ہے کہ جس قدر ان کی ولادت کی خوشی میں چراغاں کیا جائے، کم ہے جہاں تک اسراف (فضول خرچی) کا تعلق ہے تو یاد رکھئے جو کام کسی نیک مقصد کے لئے کیا جائے وہ اسراف (فضول خرچی) نہیں ہوتا۔سال کے بارہ مہینوں میں صرف ایک ربیع الاول کے مہینے کے بارہ دن غریبوں کا خیال آنے والے مالداروں سے ہمارے سوالات:پوری دنیا کے یتیم، مسکین، بیوہ، نادار، بے روزگار اور غریبوں کا خیال صرف ربیع الاول میں ہی آتا ہے؟* اپنے بیٹے یا بیٹی کی منگنی میں لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کے موقع پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* روزانہ ہوٹلوں پر اور اپنے دفاتر میں ہزاروں روپے لنچ اور ڈنر پر خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* اپنی اولاد کی سالگرہ کے موقع پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* اپنے محلات، بنگلوں، کوٹھیوں اور گھروں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟اپنے گھر کے ہر فرد کے لئے علیحدہ علیحدہ گاڑیاں رکھتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* اپنے گھروں میں پارٹیوں کے انعقاد پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* اپنے جلسوں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟* ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں بیرون ملک پکنک پر جانے کی غرض سے لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟کیسے آئے گا؟ اور کیوں کر آئے گا؟ اس لئے کہ وہاں واہ واہ ہوتی ہے۔نادانو! ذرا سوچو! جس محسن انسانیت کے صدقے تمہیں سب کچھ ملا، اس کی ولادت کی خوشی میں خرچ تمہیں اسراف نظر آتا ہے، یقیناً یہ تمہاری بدبختی ہے۔

शुक्रवार, 2 नवंबर 2018

پہلی صدی سے چودہوی صدی کے مجددین کی اجمالی فہرست ------------------------------------------------------- حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللہ یبعث لہذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر سو سال کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا فرماتا رہے گا جو اس کے لئے دین کی تجدید کرے‘‘۔ (ابوداؤد، السنن، 4:109، الرقم:4291) گویا ہر صدی کے آخر میں کوئی ایک فرد یا گروہ ایسا آتا رہے گا جو دین اسلام کے چہرہ اقدس سے بے علم و بدعمل علماء، نام نہاد مشائخ، سرمایہ داروں اور فاسق حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے آنے والے گردو غبار کو جھاڑ کر اس کے اصل نورانی چہرے کو دنیا کے سامنے رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا کام نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے علماء راسخین کے سپرد فرمایا اور خود اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے یہ اعلان کروایا۔ العلماء ورثة الانبياء. (ترمذی، جامع، 5:48، الرقم:2682) ’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔ اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم بناکر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک قیامت تک ہر دور میں ایک سے ایک بڑھ کر عالم اللہ پاک نے پیدا فرمایا جن کی مخلصانہ مساعی کی وجہ سے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا اور پھیلا۔ ان علماء میں جہاں بڑے بڑے ائمہ و مجتہدین ہوئے وہاں بے شمار دوسرے علماء بھی ہیں جو حسب استطاعت دین کی نشرو اشاعت میں کوشاں ہیں لیکن ان تمام میں مجدد، معاصر علماء و ائمہ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ طوفان جاہلیت کے مقابلہ میں اٹھتا ہے اور اسلام کو اس کی اصل صورت اور روح کے مطابق از سر نو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسلامی تاریخ کی کوئی صدی ایسے اولوالعزم ائمہ دین سے خالی نہ ہوگی۔ ضروری نہیں کہ ایک صدی میں ایک ہی مجدد ہو اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ تمام دنیا میں ایک ہی مجدد ہو۔ ایک بھی ہوسکتا ہے اور متعدد بھی۔ ایک جگہ میں بھی ہوسکتے ہیں اور مختلف مقامات پر بھی۔ آج کل تو غوث، قطب، مجدد، شیخ الکل اور امام الکل جیسے الفاظ کو نااہل لوگوں نے اس کثرت سے استعمال کرنا شروع کردیا ہے کہ مذاق بن گیا ہے۔ ہر مسلک کے اپنے اپنے مجدد ہیں۔ ہر فرقہ کے الگ الگ مجدد اور ہر عالم اور ہر پیر مجددیت کا دعویدار ہے۔ ”ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی“ کسی شخصیت کے کام، خدمات اور ہمہ جہتی اثرات اس کے مجدد ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ محققین، تحقیق کے بعد ان کے تجدیدی کارناموں پر انہیں مجدد قرار دیتے ہیں۔ آج جبکہ مسلکی اختلاف بہت زیادہ پھیل چکا ہے لہذا ہر مسلک والا اپنے بڑوں کے لئے تو اس لفظ کا استعمال برضاء و رغبت کرتا ہے مگر مسلکی تعصب کے باعث کسی دوسرے کی اعلیٰ ترین خدمات پر بھی ان کے لئے اس لفظ کے استعمال پر بغض کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کی لوگوں نے اپنے گمان سے ہر صدی کے مجدد کو گنایا ہے،حالانکہ جو دین کی تجدید اور خصوصی خدمت کرے وہی مجدد ہے۔ بہرحال لوگوں کے درمیان مشہور مجددین کی فہرست ذیل میں دی جا رہی ہے۔(مرآۃ المناجیح،کتاب العلم، باب الثانی، جلد اول، صفہ ۲۳۸) *پہلی صدی* حضرت عمر بن عبدالعزیز (م101ھ مطابق 719ء) امام الاعظم ابوحنیفہ (80ھ، م150ھ) امام محمد (م187ھ)، امام مالک (م 199ھ) دوسری صدی امام محمد بن ادریس الشافعی (م204ھ بمطابق 819ء) امام احمد بن حنبل (164ھ۔ 241ھ) امام حسن بن زیاد حنفی (م204ھ) *تیسری صدی* امام ابو جعفر طحاوی (239ھ) امام ابو جعفر طبری (224ھ۔ 310ھ) امام ابومنصور ماتریدی (م333ھ) امام محمد بن جریر طبری (م311ھ بمطابق 944ء) امام ابوالحسن اشعری (م330ھ بمطابق 941ء) *چوتھی صدی* امام ابوحامد الاسفرائینی (م471ھ بمطابق 1080ء) امام باقلانی احمد بن طیب (م403ھ) *پانچویں صدی* امام محمد بن محمد غزالی (450ھ بمطابق 505ھ) *چھٹی صدی* سیدنا غوث الاعظمؓ (471ھ۔ 561ھ) امام فخرالدین رازی (م544ھ۔ 606ھ) *ساتویں صدی* امام تقی الدین الدقیق العید (م702) حضرت شیخ عمر شہاب الدین سہروردی (536ھ۔ 632ھ) *آٹھویں صدی* حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی (ولادت 636ھ) حافظ زین الدین عراقی (م806ھ بمطابق 1402ء) امام سراج الدین بلقینی (868ھ بمطابق 1462ء)، امام شمس الدین الجزری (م 833ھ بمطابق 1428ء) *نویں صدی* امام جلال الدین سیوطی (911ھ بمطابق 1505ء) امام شمس الدین سخاوی (903ھ بمطابق 1494ء) *دسویں صدی* محدث کبیر علامہ ملا علی القاری حنفی (م 911ھ بمطابق 1494ء) علامہ شمس الدین شہاب الرملی *گیاروھویں صدی* شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی سرہندی (971ھ۔ 1032ھ) شیخ عبدالحق محدث دہلوی (958ھ بمطابق 1551ء) *بارھویں صدی* شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیر (1027ھ بمطابق 1618ء) محمد عبدالباقی الزرقانی (م 1122ھ/ 1701ء) امام عبدالغنی نابلسی (م 1143ھ/ 1731ء) *تیرھویں صدی* شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م 1239ھ/ 1824ء) شاہ غلام علی دہلوی (1240ھ/ 1825ء) علامہ سید محمد امین بن عمر عابدین شامی (م1252ھ/1836ء) *چودھویں صدی* امام احمد رضا خان قادری بریلوی (1340ھ/ 1921ء) شیخ علامہ یوسف بن اسماعیل البنہانی (م1350ھ/ 1941ء)

پہلی صدی سے چودہوی صدی کے مجددین کی اجمالی فہرست

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...