मंगलवार, 27 नवंबर 2018

حضور اکرمﷺ کی امّت پر شفقت و رحمت -------------------------------------------------------------------- اللہ تعالٰی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں یوں فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ۱۱،التوبۃ:۱۲۸) البتہ تحقیق تمہارے میں کا ایک پیغمبر تمہارے پاس آیا ہے تمہاری تکلیف اس پر شاق گزرتی ہے اس کو تمہاری ہدایت و صلاح کی حرص ہے وہ ایمان والوں پر شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ میں ذکر کر دیا کہ امت کی تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے۔ ان کو شب وروز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ امت راہ راست پر آجائے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے امت کی ہدایت وبہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بددعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ ایمان والوں پر آپ کی شفقت ورحمت ظاہر ہے اسی واسطے آپ نے کسی مقام پر امت کو فراموش نہیں فرمایا بغرض توضیح چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں غم وفکر کے آثار نمایاں ہو تے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہوتے اور حالت غم جاتی رہتی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا(کہیں ایسا نہ ہو کہ) ( قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ الاستسقائ،باب التعوذ عند رؤیۃ الریح۔۔۔الخ،الحدیث: ۸۹۹،ص۴۴۶) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں دعا ما نگی: اَللّٰھُمَّ مَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ وَمَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُ مَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِھِمْ فَارْفُقْ بِہٖ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الامارۃ والقضائ،الفصل الاول،الحدیث:۳۶۸۹، ج۲،ص۷) خدایا جو شخص میری امت کے کسی کام کا وَالی ومُتَصَرِّف بنایا جائے پس وہ ان کو مشقت میں ڈالے تو اس والی کو مشقت میں ڈال اور جو شخص میری امت کے کسی کام کا والی بنایا جائے پس وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو اس والی کے ساتھ نرمی کر۔ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کو جہاد کا اس قدر شوق تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ میں باربار شہید ہو کر زندہ ہوتا رہوں مگر چونکہ امت میں سے ہر ایک پر واجب تھا کہ جہاد میں آپ کے ساتھ نکلے بفحوائے آیۂ ذیل: ( اسی آیت کے مضمون کی وجہ سے)۔ مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- (توبہ، ع۱۵) نہ چاہیے مدینہ کے رہنے والوں کو اور ان اَعراب کو جوان کے گردہیں کہ پیچھے رہ جائیں رسول خدا سے اور نہ یہ کہ رسول کی جان سے اپنی جان کو زیادہ چاہیں۔ ترجمہ کنزالایمان: مَدینے والوں اور ان کے گرد دیہات والوں کو لائق نہ تھا کہ رسول اللّٰہ سے پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۲۰) اس لئے آپ سرایا میں لشکر اسلام کے ساتھ بدیں خیال تشریف نہ لے جایا کر تے تھے کہ اگر میں ہر فوج کے ہمراہ جاؤں تو مسلمانوں کی ایک جماعت پیچھے رہ جائے گی۔ کیونکہ میرے پاس اس قدر گھوڑے اونٹ نہیں کہ سب کو سوار کر کے ساتھ لے جاؤں اور نہ ان میں استطاعت ہے کہ سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں ۔اس طرح پیچھے رہ جانے والے گنہگار اور ناخوش و شِکَسْتَہ دِل ہوں گے۔(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب فضل الجہاد۔۔الخ، الحدیث:۱۸۷۶،ص۱۰۴۲۔ ۱۰۴۳) حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اللہ عزوجل کا قول حضرت ابراہیم کی نسبت ’’ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-۔۔۔الآیہ‘‘ ترجمۂ کنزالایمان:اے میرے رب بیشک بتوں نے بہت لوگ بہکا دئیے۔(پ۱۳، ابراہیم:۳۶) اور حضرت عیسیٰ کا قول" اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸)" ترجمۂ کنزالایمان:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔ (پ۷،المائدۃ:۱۱۸) تلاوت فرمایا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی : اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ(خدایا میری امت میری امت) اور روپڑے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ محمد کے پاس جاؤ(حالانکہ تیرا پر وردگار خوب جانتا ہے۔) ان سے رونے کا سبب دریافت کرو۔ حضرت جبرئیل نے حاضر خدمت ہو کر رونے کا سبب پوچھا۔ آپ نے بتا دیا (حالانکہ خدا کو خوب معلوم ہے۔) اللہ تعالٰی نے حکم دیا: اے جبرئیل ! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور غمگین نہ کریں گے۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب دعاء النبی لامتہ۔الخ، الحدیث:۲۰۲،ص۱۳۰) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو مومن مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کو خواہ کوئی ہوں ملنا چاہییے اور جو مومن قرض یا (محتاج) عیال چھوڑ جائے تو چاہیے کہ قرض خواہ یا عیال میرے پاس آئے کیونکہ میں اس کا وَلی و مُتَــکَفِّل(کفالت کرنے والا) ہوں۔(صحیح بخاری ج۲،ص۱۰۸-۱۰۹) آنحضرت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کرام کو پڑھائی چوتھی رات صحابہ کرام بکثرت مسجد میں جمع ہوئے اور انتظار کرتے رہے مگر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف نہ لائے۔ صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں تقریر فرمائی: اَ مَّا بَعْدُ فَاِ نَّہٗ لَمْ یَخْفَ عَلیَّ مَکَانَــکُمْ لٰـکِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا۔(صحیح البخاری،کتاب الجمعۃ، ج۱،ص۳۱۸) امابعد! تمہارا مسجد میں جمع ہو نا مجھ پر پو شید ہ نہ تھالیکن میں ڈرگیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا کر نے سے عاجز آجاؤ۔ نماز تراویح کی طرح بعضے اور افعال کو آپ نے صرف اس ڈرسے ترک کردیا کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔ ہر نماز کے لئے مسواک کا ترک کرنا، تا خیر عشاء کا ترک کرنا اور صوم وصال سے منع فرمانا اسی قبیل سے ہے یہ آپ کی شفقت ہی کا باعث تھا کہ دین ودنیا میں امت کے لئے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ کو دو اَمروں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ آسان موجب گناہ نہ ہو تا اور اگرایسا ہوتا تو آپ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہنے والے تھے۔(بخاری ج۴،ص۱۳۳) شب معراج میں پہلے پچاس نمازیں فرض ہو ئیں ۔ بارگاہ رب العزت سے واپس آتے ہوئے جب آپ آسمان ششم میں حضرت موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا حکم ملا ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہر روز پچاس(٥٠) نمازوں کا حکم ملاہے۔ حضرت موسیٰ(عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) نے عرض کیاکہ آپ کی امت ہر روز پچاس نمازیں نہ پڑھ سکے گی۔ آپ اپنی امت سے بوجھ ہلکا کرائیں۔ چنانچہ آپ درگاہ رب العزت میں باربار حاضر ہو کر تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہو گئے۔(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار، باب المعراج،الحدیث:۳۸۸۷،ج۲،ص۵۸۶) جب شب معراج میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم مقام قاب قوسین میں پہنچے تو باری تعالٰی کی طرف سے آپ پر یوں سلام پیش ہوا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ اے نبی ! تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور بر کتیں۔ اس کے جواب میں آپ نے عرض کیا:’’اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْن’‘سلام ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ اس جواب میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عبادِ صالحین کو الگ ذکر کر کے گنہگارانِ اُمت کو غایت کرم سے سلام میں اپنے ساتھ شامل رکھا اور اسی واسطے صیغہ جمع (علینا) استعمال فرمایا۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا کہ میرا حال اور میری امت کا حال اس شخص کی مثل ہے جس نے آگ روشن کی پس ٹڈیاں اور پروانے اس میں گر نے لگے اور وہ ان کو آگ سے ہٹاتا تھا سو میں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا نے والا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹتے ہو۔(صحیح مسلم) (اور آگ میں گرنا چاہتے ہو۔) قیامت کے دن لوگ بغرضِ شفاعت یکے بعد دیگرے اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاس جائیں گے مگر وہ سب عذر پیش کریں گے۔ آخرکار حضور شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم حمد وثناء کے بعد سجدے میں گر پڑیں گے۔ باری تعالٰی کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ سر سجدے سے اٹھائیے، جو کچھ مانگیئے دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس وقت آپ یوں عرض کریں گے: یَا رَبِّ اُ مَّتِیْ اُ مَّتِیْ اے میرے پروردگار ! میری امت میری امت۔(بخاری ج۴،ص۵۷۷) اب عالم برزخ میں ہر روز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم پر اُمت کے اعمال پیش ہو تے ہیں۔ اچھے عملوں کو دیکھ کر آپ خدا کا شکر اور برے عملوں کو دیکھ کر مغفرت کی دعا کر تے ہیں۔(سیرتِ رسولِ عربی)

حضور اکرمﷺ کی امّت پر شفقت و رحمت

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...