मंगलवार, 27 नवंबर 2018

حیات انبیاء کرام علیہم السلام (1) -------------------------------------------------------------------- اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں بحیات حقیقیہ دنیویہ۔ قرآن مجید میں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر ہے وہ موت عادی ہے جس سے مخلوقات میں سے کسی کو چارہ نہیں۔ اسی عادی موت کے بعد اللہ تعالٰی نے پیغمبروں کو حیات بخش دی ہے۔ اَحادیث صحیحہ سے انبیاء وشہداء کے واسطے اس حیات کا دائمی ہوناثابت ہے۔ ابن تَیمِْیَّہ کے وقت سے ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ انبیاء بھی دوسرے مردہ اشخاص کی طرح زمین کے نیچے مد فون اور مردہ ہیں۔ اس لئے مدینہ منورہ میں روضہ شریف پر حاضر ہونا اور حضور علیہ الصلوٰۃ وَالسَّلَام کے وسیلے سے طلبِ حاجات بےکار و بے سود ہے۔ چنانچہ ابن تَیمِْیَّہ کا بڑا شاگرد ابن القیم اپنی کتاب عقائد یعنی قصیدہ نونِیَّہ (مطبوعہ مصر، ص۱۴۱ ) میں یوں لکھتا ہے : من فوقہ اطباق ذاک الترب واللبنت قد عرضت علی الجدران لو کان حیا فی الضریح حیاتہ قبل الممات بغیر فرقان و ما کان تحت الارض بل من فو قھا و اللّٰہ ھذہ سنۃ الرحمان (ترجمہ) حضرت نبی پر ڈھیروں مٹی اور اینٹیں ہیں دیواریں بنی ہوئی ہیں، اگر آپ قبر شریف میں ویسے ہی زندہ ہو تے جیسے موت سے پہلے تھے توزمین کے نیچے نہ ہوتے بلکہ اس کے اوپر ہوتے۔ واللّٰہ عادت اللّٰہ یہی ہے۔(القصیدۃ النونیۃ، فصل فی الکلام فی حیاۃ الانبیائ۔۔۔الخ،ص۱۷۸ ۔علمیہ) قرآنِ کریم میں شُہَداء کرام کی حیات کی نص موجود ہے۔ اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام شُہَداء عِظام سے یقینا افضل ہیں ۔ان میں وصف نبوت کے ساتھ بالعموم وصف شہادت بھی پا یا جاتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وفات شریف کے وقت یوں فرمایا: یاعائشۃ ما ازال اجد الم الطعام الذی اکلت بخیبر فھذا اوان وجدت انقطاع ابھری من ذلک السّم۔ اے عائشہ ! مجھے خیبر کے کھانے کی تکلیف برابر رہی ہے اور اب میری رگ جان اسی زہرسے منقطع ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہو اکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے ساتھ شہادت کا در جہ بھی حاصل ہے۔لہٰذا آپ سید المرسلین ہو نے کے ساتھ سید الشُہَداء بھی ہوئے۔ پس آپ کی حیات شُہَداء کی حیات سے اکمل ہے بایں ہمہ آپ کو مردہ کہنا کیسی گستاخی ہے حالانکہ قرآن کریم میں شُہَداء کی نسبت ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ان کو مر دہ نہ کہو۔ علامہ سَمْہودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وَفاء الوفاء (جزء ثانی، ص ۴۰۵ ) میں لکھتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وفات کے بعدزندہ ہیں۔ اسی طرح دیگر انبیاء بھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ایسی حالت کے ساتھ جو شہداء (جن کی حیات کی اللّٰہ تعالٰی نے اپنی کتاب عزیز میں خبردی ہے) کی حیات سے اَکمل ہے اور ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سید الشہداء ہیں اور شہداء کے اعمال آپ کی میزان میں ہیں۔ انتہیٰ۔(وفاء الوفاء للسمہودی ،ج۲،الجزء الرابع،ص۱۳۵۲۔ علمیہ) احادیث صحیحہ سے بھی حیاتِ اَنبیاء کا ثبوت ملتا ہے جن میں سے چند ذیل میں درج کی جاتی ہیں : {۱}… عَنْ اَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماِنَّ مِنْ اَفْضَلِ اَیَّا مِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ وَفِیْہِ النَّفْخَۃُ وَفِیْہِ الصَّعْقَۃُ فَاَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلٰوۃِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْ ضَۃٌ عَلَیَّ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلٰوتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ اَرِمْتَ قَالَ یَقُوْلُوْنَ بَلِیْتَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَ رْضِ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَآء ۔ رو اہ ابوداوٗد والنسائی وابن ماجہ والدارمی والبیھقی فی الد عوات الکبیر۔ (مشکوٰۃ،باب الجمعۃ) حضرت اَوس رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنْہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہ تمہارے افضل ایام میں سے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے اور اسی میں قبض کیے گئے اس میں نفخۂ ثانیہ اور نفخۂ اُولٰی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر درود زیادہ بھیجوکیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ بو سیدہ ہڈیاں ہوں گے۔ (قول راوی) صحابہ کی مراد اَرِمْتَ سے بَلِیْتَ ( بوسید ہ ہوں گے) ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ پیغمبر وں کے جسموں کو کھا ئے۔ اسے ابو داؤدو نسائی وابن ما جہ ودارمی نے اور بیہقی نے دعوات الکبیر میں روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام جسموں کے ساتھ زند ہ ہیں کیونکہ صحابۂ کرام نے جب حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ ارشاد سنا کہ تمہارا درود مجھ پر عرض کیا جاتا ہے۔ تو ان کو شبہ ہوا کہ آیا یہ عرض بعد وفات شریف صرف روح پر ہو گایا روح مع الجسد پر۔ کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ جسد نبی دوسرے اشخاص کے جسد کی مانند ہے۔ پس اس کے جواب میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرما دیا کہ میرا جسد دوسرے اشخاص کے جسد کی مانند نہیں کیونکہ پیغمبروں کے جسم کو مٹی نہیں کھا تی۔ پس وہ سمجھ گئے کہ یہ عرض روح مع الجسد پر ہو گا لہٰذا حیات انبیاء بعد وفات ثابت ہے۔ {٢}عن ابی الدرداء قال قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَاَکْثِرُوا الصَّلٰوۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ تَشْہَدُہُ الْمَلٰئِکَۃُ واِنَّ اَحَدًا لَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ عَلَیَّ صَلَاتُہٗ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدَ الْمَوْتِ قَالَ وَبَعْدَ الْمَوْتِ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔ (رواہ ابن ماجہ) حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مجھ پر جمعہ کے دن درود زیادہ بھیجا کروکیونکہ وہ دن حاضر کیا گیا ہے۔ حاضر ہوتے ہیں اس میں فرشتے، تحقیق کوئی مجھ پردرود نہیں بھیجتا مگر اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہوجائے۔ کہا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے: میں نے عرض کیا ،کیا موت کے بعد بھی ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا کہ پیغمبروں کے جسموں کو کھائے۔ پس اللّٰہ کے نبی زندہ ہیں رزق دئیے جاتے ہیں۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے انبیاء کی حیات بحیات حقیقیہ دنیویہ بعد الوفات ثابت ہے اس میں حئ کے ساتھ یرزق بطور تاکید ہے کیونکہ رزق کی حاجت جسم کو ہو تی ہے۔ علامہ سیوطی علیہ الرحمہ ‘’ شَرْحُ الصُّدُ ور’‘ میں نقل کرتے ہیں: {۳}… و اخرج ابو یعلی و البیھقی و ابن مندۃ عن انس اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْاَنْبِیَائُ اَحْیَائُ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ ۔ اور ابویعلی اور بیہقی اور ابن مَنْدَ ہ نے حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبر وں میں نماز پڑھتے ہیں۔ علامہ سَمْہودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے وفاء الوفاء میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے کہ روایت ِابو یعلی کے راوی ثقہ ہیں اور بیہقی نے اسے مَعَ التصحیح نقل کیا ہے۔ اس کے شواہد سے صحیح مسلم میں روایت ِحضرت ِاَنس ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں (شب معراج میں) موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر گزرا وہ اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے۔(انتہی ) اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے شب معراج میں بیت المقدس میں انبیاء کرام کی جماعت کرائی اور آسمانوں میں ان کو دیکھا۔(وفاء الوفاء للسمہودی ،ج۲،الجزء الرابع،ص۱۳۵۲۔ علمیہ) مسئلہ حیات انبیاء کی تائید صحیح مسلم کی روایت ابن عباس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وادیِ اَزرَق سے گزرے۔فرمایا یہ کو نسی وادی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: وادیٔ ازرق ہے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں گو یا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھ رہا ہوں کہ گھاٹی سے اتر تے ہو ئے لبیک کہہ رہے ہیں ۔ پھر وادیٔ ہرشا پر پہنچ کر حضور نے فرمایا: یہ کونسی گھاٹی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ وادی ہرشا ہے۔ حضور نے فرمایا: گو یا میں یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو سرخ بالوں والی اونٹنی پر دیکھتا ہوں کہ صوف کا جبہ پہنے ہو ئے ہیں ۔ مُہار کھجور کی چھال کی رسی کی ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الاسراء برسول اللہ۔الخ،الحدیث:۱۶۶،ص۱۰۳۔ علمیہ) اولیاء کرام میں بہت سی مثالیں ایسے بزرگوں کی ملتی ہیں جو رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حالت بیدار ی میں دیکھا کرتے تھے۔ بخوفِ طوالت یہاں ان کا حال درج نہیں کرتے۔ علامہ جلا ل الدین سیو طی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے رسالہ تنو یر الملک میں وہ احادیث و اقوال صلحاء نقل کر تے ہیں جو حالت خواب اور حالت بیداری ہر دو میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رویت کے امکان پر دلالت کرتے ہیں ۔ بعد ازاں یوں فرماتے ہیں کہ ان تمام احادیث واقوال سے ثابت ہو گیاکہ حضور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسم اقدس اور روح شریف کے ساتھ زندہ ہیں اور وہ تصرف فرماتے ہیں جہاں چاہتے ہیں زمین وآسمان میں اور اسی ہیئت سابقہ شریفہ پر ہیں(یعنی حیات ظاہری) کچھ تبد یلی اس میں نہیں ہوئی۔ آنکھوں سے ایسے ہی غائب ہیں جیسے فرشتے نظر نہیں آتے حالانکہ فرشتے زندہ ہیں اور ان کے اجسام بھی ہیں ۔ جب اللّٰہ تعالٰی اراد ہ کرتا ہے کسی امتی پر کرامت اور احسان کا تو حجاب اٹھا دیتا ہے اور وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت اصلی صورت میں کر لیتا ہے۔ اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور صرف مثال ہی کے دیکھنے پر منحصر کر دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ انتہی۔(امام بیہقی نے حیات ِانبیاء پر ایک رسالہ لکھا ہے جو چاہے اسے مطالعہ کرے) خلاصۂ کلام یہ کہ سید نا ومولیٰنا محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وفات شریف کے بعد بھی جسم اَطہر کے ساتھ زندہ ہیں ۔ بحیات حقیقیہ دنیویہ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تصرّفات بدستور جاری ہیں۔ اسی واسطے آپ کی امت میں تا قیامت قطب، غوث، ابدال و اوتاد ہو تے رہیں گے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ نے رسالہ ’’سلوک اقرب السبل بالتوجہ الی سید الرسل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم‘‘ میں جو خانِخاناں کی طرف لکھا ہے یوں فرمایا ہے: ’’وباچندیں (اخبار الاخیار مجتبائی، حاشیہ ص ۱۵۵) اختلافات وکثرت مذاہب کہ درعلماء امت است یک کس را دریں مسئلہ خلافے نیست کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز وتوہم تا ویل دائم وباقی است۔ وبر ا عمال امت حاضر وناظر ومر طالبان حقیقت را ومتوجہان آنحضرت رامفیض ومربی است۔‘‘(مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی علی ھامش اخبار الاخیار،ص۱۵۵۔ علمیہ) علماء امت میں اس قدر اختلافات اور کثرت مذاہب ہے۔ بایں ہمہ کسی ایک کو اس مسئلہ میں ذرا بھی اختلاف نہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بلا شائبہ مجاز و توہم تاویل حیاتِ حقیقیہ کے ساتھ دائم وباقی ہیں اور اُمت کے اَعمال پر حاضر و ناظر ہیں اور طالبان حقیقت کو اور متوسلانِ بارگاہ ِنبوت کو فیض پہنچا نے والے اور ان کی تربیت فرمانے والے ہیں۔ حضرت شیخ نے بالکل درست لکھا ہے کیونکہ فتنہ ابن تَیمِْیَّہ اس تحریر سے سینکڑوں سال پہلے فَرو ہو چکا تھا اور شیطان کا سینگ ابھی نجد سے نہ نکلا تھا جس نے تعلیم تَیمِْی کی سوتی بلا کو جگایا اور بات بات پر مسلمانوں کو مشرک بتایا۔(سیرتِ رسولِ عربی ص٢٨٥ تا ٢٩٠)

حیات انبیاء کرام علیہم السلام

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...