बुधवार, 29 अगस्त 2018
ہولوکاسٹ کا استعمال حضور ﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے روکنے کا بہترین ہتھیار..! ------------------------------------------------------- انگریزوں کی فری میسن الیومیناٹی تنظیم اور انگریزوں کو جس چیز سے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے وہ ہے ہولوکاسٹ اور ہٹلر۔ ہولوکاسٹ دراصل انگریزوں کی نسل کشی کو کہتے ہیں جو ہٹلر نے کی تھی۔ ہٹلر نے عیسائیوں کو پکڑ پکڑ کر کتے کی موت مارا ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے اس قتل عام کو "ہولوکاسٹ" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یورپ جہاں صیہونیوں کا مکمل کنٹرول ہے، وہاں ہولوکاسٹ کا نام لینا بھی جرم ہے، ہولوکاسٹ پر کوئی ٹی وی چینل بات نہیں کرسکتا، کوئی ٹاک شو نہیں کر سکتا، عوام ہولوکاسٹ کا لفظ زبان پر نہیں لاسکتے کیونکہ یہ جرم ہے۔ اور جرم ثابت ہونے پر کئی یورپی ممالک میں سزا موت کا قانون ہے۔ یہ سزا موت کا قانون کیوں بنایا گیا کیونکہ ہولوکاسٹ صیہونی سانپ کو وہ حصہ ہے جہاں پر مارنے سے صیہونیوں کو سب سے زیادہ درد ہوتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو اگر صیہونیوں سے مقابلا کرنے ہے تو ہمیں ہولوکاسٹ کو ہر جگہ پھیلانا ہوگا۔ گیرٹ ولڈرز نے گستاخانہ خاکوں کا اعلان کیا ہے تو مسلمان مل کر "ہولوکاسٹ انٹرنیشل کارٹون کنٹیسٹ" کی نمائش کا اعلان کریں۔ اس نمائش میں پوری دنیا سے مسلمان کارٹونسٹس کو درخواست کریں کہ وہ ہٹلر کی تعریف اور ہولوکاسٹ پر بہترین کارٹون بنا کے بھیجے اور ان سب کو پوری دنیا میں لائیو فیس بک ٹویٹر پیجز کے زریعے دکھائے۔ پھر دیکھیں صیہونیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن الیومیناٹی کے کیسے ہاتھ پاؤں ہلتے ہیں۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ہولوکاسٹ کے نام پر اپنی یہ بے عزتی کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ وہ خود ہی گیرٹ ولڈرز کو گستاخانہ خاکوں کی نمائش سے روک دیں گے۔
آخر کیوں اہلسنت میں انتشار و افتراق پیدا ہو رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت اہلسنت و جماعت کے درمیان کافی اختلاف و انتشار برپا ہے کہیں ثقلینی رضوی آپس میں متصادم ہیں تو کہیں رضوی اشرفی گتھم گتھا کہیں شیری رضوی آپس میں معرکہ آرائی کرتے دیکھ رہے ہیں کبھی مداری اور رضوی حضرات کے درمیان مکّا بازی ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی سنی دعوت اسلامی سے رضوی حضرات گرما گرمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مشاہدہ یہ بھی ہے کہ رضوی حضرات اشرفی، صابری، وارثی، وغیرہ وغیرہ سبھی سے لڑتے جھگڑتے، مباحثہ و مبالغہ کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اب تو خانوادہُ برکاتیہ کے کچھ ذمّے دار شیوخ اور جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے ذمّے دار علمائے حق بھی حضرات رضویہ سے شکایت کناں ہیں لہٰذا مذکورہ باتوں کو نہ ٹالتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اور آناً فاناً کسی ایسی تدبیر کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعہ کل اہلسُنَّت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی نئی صبح دیکھنے کو مل سکے غور طلب بات ہے کہ کہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم سے کوئی چوک کوئی تغافل تو نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ہی جماعت کے لوگ ہم سے دور ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اہلسنت میں درار پیدا ہو رہی ہے؟ دوستوں! جب تک ان مسائل کا سراغ لگا کر ان کو حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اہلسنت میں اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے جنہوں نے تمام خانقاہوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معمولات اہلسنت کو کفر وشرک بتانے والوں سے لڑائی لڑی سنیت کے تحفظ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اسی حال میں داعئی اجل کو لبّیک کہا لیکن دوستو! آج بعض خانقاہی حضرات اور سنی عوام کو کیا ہو گیا ہے جو خانوادہ اعلیٰ حضرت سے بغض و حسد کا شکار ہو گئے کہیں ان کی شہرت و مقبولیت سے تو حسد نہیں ہو گیا ہے؟ آج رضوی حضرات دیگر سلسلے کے حضرات کی آنکھوں میں چبھ رہے ہیں چشتی، نقشبندی،سہروردی، رفاعی اس چکر میں ہے کہ ہمارے سلسلہ کا نعرہ لگے اشرفی اور صابری کو اس غم نے کمزور کر دیا کہ ہمارا سلسلہ ہندوستان میں قدیم ہے اس لئے ہمارا نعرہ لگے دوستوں!! جس دن ہم نے ان اختلافات کو نظر انداز کر کے یہ ٹھان لیا کہ چشتی قادری بھی ہمارے ہیں صابری اشرفی بھی ہمارے ہیں وارثی، نقشبندی، سہروردی، برکاتی رفاعی بھی ہمارے ہیں خلاصہ یہ کہ تمام سنّی خانقاہوں اور سلسلے کے علماء کرام اور عوام سب ہمارے ہی ہیں،ان شاء اللہ تعالٰی اسی دن سے اہلسنت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضاء ہموار ھونا شروع ہو جائے گی۔
मंगलवार, 28 अगस्त 2018
اہلسنت و جماعت کو بدنام کرنے کی کوششیں! __________________________________________ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور مسلک اہلسنت نے ہمیشہ خلاف شرع کاموں کا رد کیا ھے، مثلاً مزارات پر قبر کو سجدہ کرنا، دھمال ڈالنا، ناچنا ، عورتوں اور مردوں کا اختلاط اور دیگر خلاف خلاف شرع حرکات جو مزارات پر ہوتی ہیں- ان کاموں کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں - لیکن پھر بھی دیو بندی وہابی ان چیزوں کو مسلک اہلسنت اور اعلیٰ حضرت کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ کسی چرسی بھنگی یا جعلی عاملوں کی حرکات اور ان کے کام جو خلاف شرع ہیں وہ دیکھا کر اہلسنت کی جانب منسوب کرتے ہیں- یہ بہتان عظیم ھے اس طرح یہ لوگ نہ تو دین کی خدمت کر رہیں بلکہ عوام میں اہل سنت کو بدنام کرتے ہیں - ان لوگوں کے اس کذب کی وجہ سے جو لوگ ایسے کام کرتے ہیں وہ تو باز نہیں آئیں گے لیکن عوام کے دلوں میں مزارات اور صیحیح پیران عظام کے متعلق بد گمانی پیدا ہو گی- کاش یہ لوگ یہ حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں کہ ان کے اس عمل سے دیں کی خدمت نہیں بلکہ امت میں تفرقہ بازی پیدا ھو گی-
शुक्रवार, 24 अगस्त 2018
فقہی اختلافی مسائل میں شدت کیسے ختم ہو؟ _________________________________ (اہل سنت و جماعت میں پھیلتی اس غلط روش کہ ’’میرے امام،میرے پیر،میرے مفتی،میرے علامہ غلطی نہیں کرتے‘‘ کے سدباب کی ایک کوشش) محترم قارئین کرام "خطائے اِجتہادی"کا لفظ آپ نے بھی پڑھا ہوگا یا پڑھا نہیں تو سنا ہوگا اور اگر اس کو دیکھ ہی پہلی مرتبہ رہے ہیں تو آسان لفظوں میں اس کا مفہوم بیان کر دیتا ہوں کہ " قرآن و حدیث میں واضح طور پر جب کسی مسئلہ سے متعلق حکم شرعی موجود نہ ہو تو مُجتَہِد اسلام یا مفتی اسلام اپنے وسیع علم سے اس شرعی مسئلہ کاحکم پیش فرماتا ہے مثلاً یہ کام جائز ہے یا ناجائز ہے یا مکروہ ہے وغیرہ وغیرہ۔لہذا مفتیِ اسلام کی اس مسئلہ کے حکم کو بیان کرنے میں کی گئی اس کوشش کو "اجتہاد "کہتے ہیں ۔اب اگر مفتی اسلام کی یہ کوشش یعنی جو حکم مفتی اسلام نے بیان کیا عند اللہ (یعنی اللہ کے نزدیک) درست نہ ہو تو ایسے میں کی گئی خطاء کو خطائے اجتہادی کہتے ہیں۔"(یاد رہے اگر مسئلہ بیان کرنے میں مفتی اسلام نے پورے خلوص کے ساتھ کوشش کی تو ایسی صورت میں بھی مفتیِ اسلام کو ایک اجر ملتا ہے جبکہ جس کا اجتہاد درست ہو اسے دو گنا اجر ملتا ہے ۔ایک تو کوشش کرنے کا دوسرا صحیح مسئلہ بیان کرنے کا ) اور یہ بھی یاد رہے کہ اجتہاد صرف غیر اصولی (یعنی غیر یقینی )مسائل و نظریات میں ہوتا ہے ۔لہذا ضروریاتِ دین و ضروریات مذہب اہل سنت کو اس بحث سے خارج سمجھیں ہمارا کلام صرف فروعی مسائل میں ہے نہ کہ اصولی و غیر اختلافی میں۔ محترم حضرات ذرا غور فرمائیں کہ جب خوداجتہاد غیر یقینی مسائل میں ہوتا ہے تو پھر اس سے مفتی اسلام کے اجتہاد میں یقینیت کیسے آگئی؟ جب اجتہاد کرنے والا غیر معصوم ہو تو اس کا اجتہاد بھی تو غیر معصومانہ ہوگا یعنی خطا کا احتمال تو بہر حال ہوگا نا؟ اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں امام صاحب یا فلاں پیر صاحب یا فلاں مفتی صاحب تو خطا کرتے ہی نہیں ان کی ہر ہر بات ٹھیک ہے تو بتائیں ایسے شخص کی بات کیسے درست مان لی جائے ؟ ہم نے تو کتابوں میں یہاں تک پڑھا ہے کہ خطائے اجتہادی کا امکان نہ صرف صحابہ کے لئے ہے بلکہ خطائے اجتہادی کا وقوع صحابہ سے ثابت بھی ہے ۔اب وہ ایسی کیا خاص بات آگئی موجودہ دور کے ان مفتی ،امام ،یا پیر میں کہ یہ خطائے اجتہادی نہ کریں ؟کیا یہ امام ،پیر ،مفتی ،علامہ صاحب ان صحابہ سے بھی اعلیٰ شان رکھتے ہیں کہ معاذ اللہ ان سے خطا نہ ہو؟میرا تو ایمان ہے کہ جب اس امت کے سب سے بڑے اور اعلیٰ گروہ سے خطائے اجتہادی واقع ہوئی ہے تو بعد میں آنے والوں سے بھی ہوئی ہیں ۔ ارے رکیں برا مت منائیں یہ نظریہ میرا اپنا ذاتی تخلیق کردہ نہیں ہے بلکہ یہ سبق تو مجھے میرے امام بلکہ سنیوں کے سرتاج ، امام اہل سنت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے پڑھایا ہے ۔جی ہاں تو چلیئے آپ کو بھی امام کے کلام سے روشناس کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ فرماتے ہیں کہ "اور کامل حجت اللہ کے لئے ہی ہے ،ہر شہسوار کو گرنا اور ہر تلوار کو کند ہونا ہے اور ہر عالم کو لغزش(خطا) کا سامنا ہے ۔۔امام دارالحجرت عالم مدینہ سیدنا امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا ہے کہ ہر عالم کا قول ماخوذ بھی ہو سکتاہے(یعنی ان کے قول کو لیا بھی جا سکتاہے ) اور مردود(رد بھی کیا جاسکتا ہے) بھی ماسوائے اس قبر کے مکین صلی اللہ علیہ وسلم کے" (فتاوی رضویہ جلد ۱۰ صفحہ ۱۹۴) مزید اس سلسلہ میں رہنمائی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : "البتہ سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا ارشاد کل ماخوذ من قولہ الخ سوائے قرآن عظیم کے سب کتب کو شامل ہے نہ اس سے ہدایہ درمختار مستثنی،نہ فتوحات و مکتوبات و ملفوظات"۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۶ صفحہ ۵۷۷) جی تو قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہوگا کہ سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام عشق و محبت علیہ رحمۃ کی تعلیم ہم سنیوں کو کیا ہے ؟جی ہاں آپ صحیح سمجھے یہ سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات گرامی ہے کہ جن کی ہر بات کو لیا ہی جاتا ہے رد نہیں کیا جاتا۔باقی کوئی عالم کیسا ہی ذی مرتبہ کیوں نہ ہوچونکہ وہ غیر معصوم ہے لہذا اس کی بات کو لیا بھی جاتا ہے اور رد بھی کیا جاتاہے ۔کیونکہ دوسرے ارشاد میں اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ نے غیر معصوم لوگوں کی لکھی گئی ہر کتاب کو امام مالک کے اس فرمان کا مصداق ٹھرایا ہے کہ قرآن کے علاوہ باقی جتنی بھی کتب ہیں ان سب کی کچھ باتوں کو لیا بھی جاتا ہے اور کچھ کا رد بھی کیا جاتا ہے لیکن قرآن ایک واحد کتاب ایسی ہے جس کی ہر بات کو لیا ہی جاتاہے رد نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ان علماء و مفتیان کی بات کو اسی لئے تو مانا جاتاہے کہ وہ شرعی حکم بیان کر رہے ہیں لہذا جب یہ حضرات شرعی حکم بیان کرنے میں ہی خود لغزش کا شکار ہو جائیں تو ہمیں تو شریعت کی اتباع کا حکم ہے لہذا ہم ان عالم یا مفتی کے قول کو چھوڑ کر راجح(زیادہ درست) موقف کو اپنا لیں گے ۔لیکن خیال رہے یہ رہنمائی ہمیں کوئی دوسرا عالم ،مفتی ،فقیہ یا مجتہد کرائے گا اپنے طور پر عوام کا کسی بھی فقیہ کو غلط کہہ دینا سخت ناجائز کام ہے کیونکہ یہ علمی اختلاف علمی دلائل پیش کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے ،اور علمی دلائل سے واقف وہی شخص ہوگا جو دینی علوم سیکھا ہو نہ کے وہ شخص جسے نماز کے مسائل بھی صحیح طرح نہیں آتے ۔لہذا ہو نہ ہو عامی شخص کا ایک فقیہ سے اختلاف محض نفسانی خواہش کی بنا پر ہوگا۔جو کہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے برے فعل سے بچائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم گزارش: اے میرے بھولے بھالے سنیو!کیا آپ اب بھی ہوش میں نہیں آئیں گے ؟ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے پیر ،اپنے امام اپنے مفتی اپنے علامہ ،اپنے استاذ کو غلط کہیں لیکن کم از کم ان کے غلطی پر ہونے کے احتمال کو تو مانیں اور یہ نظریہ بنا لیں کہ میں جن کے فتوے پر عمل کر رہا ہوں میرے نزدیک اگرچہ یہ درست ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ موقف درست نہ ہو اور میرے مخالف موقف والے عالم و مفتی اسلام کا موقف درست ہو ۔(کیونکہ ہم گفتگو ہی اجتہادی مسئلہ کے بارے میں کر رہے ہیں اور جیسا کہ بیان ہوا کہ اجتہادی مسئلہ کا حکم مفتی کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے یہ قرآن و حدیث کے واضح احکام کی طرح نہیں ہو سکتاکہ اس میں اختلاف نہ ہو سکے کیونکہ وہاں غلطی کا احتمال نہیں جبکہ یہاں احتمال ہے ) جب یہ چیزآپ کے ذہن میں آگئی تو مخالف موقف والے عالم و مفتی و امام کی عزت و حرمت وعظمت خود باخودآپ کے دل میں آجائے گی ۔لیکن اگر اس سوچ کی بجائے یہ نظریہ بنا لیا کہ میرے مخالف موقف والے صحیح ہو ہی نہیں سکتے تو لامحا لہ آپ کو اپنے مخالف موقف والے کی عزت و حرمت کا لحاظ نہ ہوگا اور آپ ان کی اہانت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے ۔(الامان و الحفیظ )جس سے اہل سنت و جماعت میں انتشار و افتراق کی کیفیت زور پکڑ لے گی جب آپ اپنے مخالف موقف والے پیر و مفتی و علامہ صاحب کی عزت کی بجائے ان کی بے ادبی کریں گے تو یقیناًمخالف موقف والے سنی عالم دین کے محبین ،متعلقین ،مریدین ، متوسلین بھی آپ کے پیر،استاذ ،مفتی و علامہ وغیرہا کی خوب عزت افزائی کریں گے ۔اور یوں اہل سنت و جماعت کی جمعیت کا ٹوٹنا آپ کی اس غلط روش کا ہی نتیجہ ہوگا۔لہذا فروعی اختلافی مسائل میں شدت سے باز آجائیں ۔اس وقت ہم سنیوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بد مذہب حضرات اپنے مشن کو بہت تیزی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ طرح طرح کے ٹیکنالوجی ذرائع اپنا کر عام عوام کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں اور ہم لوگوں کو آپسی فروعی مسائل کے جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں۔ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی اگر ہم اپنے تحقیقات کے کا دائرہ کار کو صحیح سمت کی طرف کر لیں تو بہت جلد اس بگڑتی ہوئی حالت پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ نوٹ: خیال رہے ہم راسخ العقیدہ سنی مسلم ہیں۔اس مضمون کو لکھنے کا مقصد سنیوں کے آپسی فروعی اختلافی مسائل میں شدت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کرنا ہے ۔جو شخص ضروریات دین یا ضروریات مذہب اہل سنت سے کسی بھی مسئلہ کا منکر ہو وہ کسی قسم کی عزت کا حقدار نہیں ہے اور نہ ہی ایسی شخص زیر بحث ہے لہذا میری اس تحریر کو ہر گز ہرگز صلح کلیت پر محمول نہ کیا جائے ۔دوسرا یہ کہ آئمہ کرام و فقہاء عظام کے اختلافات میں عوام کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ جس بھی مفتی ،فقیہ، عالم،کے قول پر عمل کرنا چاہے کریں ۔لیکن عام شخص اگر خود سے تحقیق کے جنون میں علماء سے اختلاف کرے گا تو جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا جیسا اگر تیرنا سیکھے بغیر اگر کوئی سمندر میں کود پڑے تو بتائیں ایسے شخص کو کوئی عقل مند کہہ سکتاہے ؟ بلکہ ہو سکتا ہے اس کی جان بھی چلی جائے اسی طرح اگر کوئی بغیر دینی علوم پڑھے علماء و مفتیان کرام سے اختلاف کرے اور اپنے نفس کے پیچھے چلتے ہوئے خود سے مسئلے بتائے تو یہ بندہ گمراہی کا شکار بھی ہو سکتاہے ۔اس لئے اگر ہر کوئی اپنی حد میں رہے تو اس سے گلشن اہل سنت میں کوئی خرابی نہیں ہوگی ان شاء اللہ عزوجل( از؛ مولانا شان رضا قادری صاحب)
गुरुवार, 23 अगस्त 2018
اہل سنت و جماعت کے آپسی فروعی اختلافات میں شدت کیوں؟ _________________________________ کسی نے مجھ سے پوچھا اہل سنت و جماعت کے آپسی فروعی اختلافات میں بعض لوگ اتنی شدت کیوں کرتے ہیں؟ تو میں نے عرض کیا کہ کم علمی اوربلاوجہ کی اندھی عقیدت۔ محترم قارئین کرام ! مسئلہ یہ ہے کہ کم علمی کے باعث جو شخص جس کا معتقد(ماننے والا) ہوتا ہے اس کی ہر بات کو حرف آخرسمجھتا ہے اور اس کے علاوہ کو جہالت پر محمول کرتا ہے اور مخالف موقف والے عالم کو خوب سبّ و شتم (گالی گلوچ)کرتا ہے کہ میرے شیخ یا میرے استاذکا کوئی ہم پلہ نہیں اس لئے انہوں نے جو کہا حق اور باقی سب باطل ہے اوران صاحبوں کا یہ رویہ اہل سنت و جماعت کی جمعیت کے منافی ہے۔ حالانکہ مسائل تین طرح کے ہوتے ہیں: ۱۔ضروریات ِدین ۲۔ضروریات مذہب اہل سنت ۳۔فروعی اجتہادی مسائل پہلی دونوں قسموں میں مسلمان کو اپنے حق پر ہونے کایقین ہوتا ہے لیکن آخری قسم میں یقین نہیں بلکہ حق پر ہونے کا صرف ظن و گمان ہوتا ہے اور مدمقابل کے حق پر ہونے کا احتمال بھی۔ لیکن کم علمی کے باعث لوگ ان مسائل میں بھی یقین کو لے آئے جس کی وجہ سے مد مقابل کے حق پر ہونے کا احتمال بھی جاتا رہااور جب سامنے والے کے حق پر ہونے کا احتمال ہی نہ ہوتو سامنے والے کے موقف کا کیونکر احترام ہو؟اور جب احترام ہی نہ ہو تو شدت کیونکر نہ ہو؟ میری اس گفتگو سے کوئی بھی اصول پڑھا ہوا شخص اختلاف نہیں کرے گا کیونکہ اصول کی ابتدائی کتب میں ہی یہ سب کچھ لکھا ہے ۔ بہرحال ان شدت پسند صاحبوں کی خدمت میں دردمندانہ التجاء ہے کہ حضرات آپ کا یہ طریقہ بالکل بھی درست نہیں اور نہ ہی ہمارے آئمہ کی تعلیمات کے مطابق ہے ۔کیونکہ ہمارے جید علماء و اکابر نے تو فرمایا ہے کہ کتابوں میں عصمت(غلطی کا نہ ہونا)صرف قرآن کے ساتھ خاص ہے۔سوائے گنبد خضراء کے مکین(یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہر شخص کی بات کو لیا بھی جاتا ہے اور رد بھی کیا جاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ اگر کسی عالم کی کوئی تحریرراجح ہو تو اس کو مان لیا جاتا ہے اور اگر خلاف تحقیق و جمہور ہوتو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر اہل سنت و جماعت کے اکابرو مستند شخصیات کی گواہی پیش خدمت ہے : علامہ علائو الدین حصکفی لکھتے ہیں: ’’و یابی اللہ العصمۃ لکتاب غیرکتابہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی کتاب( قرآن مجید)کے سوا ہر کتاب کی عصمت کا انکار فرماتا ہے۔علامہ شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز کے سوا کسی کتاب کے لئے عصمت کو مقرر نہیں کیا یا کسی اور کتاب کی عصمت پر راضی نہیں ہے،یہ صرف اسی کتاب کی شان ہے جس کے حق میں فرمایا: لایاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ(حم السجدۃ ۴۲) اس کتاب میں باطل سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے ۔سو قرآن کے علاوہ دوسری کتابوں میں خطائیں اور لغزشیںواقع ہوئی ہیں،کیونکہ وہ انسان کی تصنیفات ہیں اور خطا اور لغزش انسان کی سَرِشت (فطرت )ہے ۔ علامہ عبد العزیز بخاری نے اصول بزدوی کی شرح میں لکھا ہے کہ بویطی نے امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ امام شافعی نے کہا میں نے اس کتاب کو تصنیف کیا ہے ،میں نے اس میں صحت اور صواب(یعنی دُرستَگی) کو ترک نہیں کیا،لیکن اس میں ضرور کوئی نہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت کے خلاف ہوگی ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا(النساء ۸۲) اور اگر قرآن اللہ کے غیر کی جانب سے ہوتا تو لوگ اس میں ضرور بہت اختلاف پاتے۔ لہٰذا تم کو اس کتاب میں جو بات کتا ب اللہ ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ملے اس کو چھوڑدو،کیونکہ میں کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طر ف رجوع کرنے والا ہوں مزنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کی کتاب ’’الرسالہ‘‘اَسی (۸۰)مرتبہ پڑھی اور ہر مرتبہ امام شافعی اس میں کسی خطاء پر مطلع ہوئے‘بالآخر امام شافعی نے فرمایا اب چھوڑ دو‘اللہ تعالیٰ اس بات سے انکار فرماتا ہے کہ اس کی کتاب کے سوا اور کوئی کتاب صحیح ہو۔ (ردالمحتار جلد ا صفحہ ۲۶ مطبوعہ استنبول) سیدی اعلیٰ حضرت مجدد ِ دین و ملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ،امام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : ــ’’شاہ صاحب(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ)سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی،اور وہ نہ فقط فتاوٰی بلکہ تفسیر عزیزی میں بھی ہے اور نہ ایک ان کا فتاوٰی بلکہ کہ کسی بشر غیر معصوم (غیر نبی)کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں سے کچھ متروک نہ ہو ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۰ صفحہ ۲۹۶) ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور کامل حجت اللہ کے لئے ہی ہے،ہر شہسوار کو گرنا اور ہر تلوار کند ہونا ہے اور ہر عالم کو لغزش کا سامنا ہے۔۔امام دارالہجرت عالم مدینہ سیدنا امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا ہے کہ ہر عالم کا قول ماخوذ (لیا)بھی ہوسکتا ہے اور مردود(رد) بھی ما سوائے اس قبر کے مکین ﷺ کے‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد ۱۰ صفحہ ۱۹۴) مزید اس سلسلہ میں رہنمائی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’البتہ سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ وغیرہ کا ارشاد ــ’’کل ماخوذمن قولہ الخ‘‘سوائے قرآن عظیم کے سب کتب کو شامل ہے نہ اس سے ہدایہ درمختاد مستثنی،نہ فتوحات و مکتوبات وملفوظات۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۶ صفحہ ۵۷۷) علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ رحمۃ ،علامہ شامی علیہ رحمۃ اور اعلیٰ حضرت مجد د اعظم امام احمد رضا خان علیہ رحمہ کے ان فرامین سے اظہر من الشمس ہوگیا کہ قرآن کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جس میں غلطی کا احتمال نہ ہو اور غیر نبی کے قول کو لیا بھی جاتا ہے اور رد بھی کیا جاتا ہے، کیا ان اقتباسات کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی اپنے شیخ یا پیر یا پسندیدہ عالم کو عصمت کے مقام پر فائز کرنے کی جسارت کر سکتا ہے ؟ کہ میرے پیر ،شیخ ،استاذ کی ہر بات کو لیا جاتا ہے ؟ کیا امام مالک جیسے عظیم مجتہد مطلق کے مقابلے میں ان صاحبوں کے اس بے بنیاد دعوی کی کوئی وقعت ہوگی؟ بہرحال قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ ہمارے اکابر کا اس حوالے سے موقف کیا ہے اور آج کہ ان کم علم صاحبوں کا طرز عمل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیشان میں التجاء ہے کہ اے میرے مالک و مولا ہم اہل سنت و جماعت میں اتحاد نصیب فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ۔ از: مولانا شان رضا قادری صاحب
یوں تو محبت کی کئی قسمیں ہیں لیکن آج کل کی مشہور محبت فیس بکی محبت ہے. لڑکی کی خوبصورت DP (چاہے کسی ایکٹریس ہی کی کیوں نہ ہو) فیس بکی محبت ہونے کی بنیادی وجہ ہے. فیس بکی محبت جسے عرف عام میں ڈیجیٹل محبت بهی کہا جاتا ہے، عموما لڑکی کا کمنٹ لائک کرنے سے سٹارٹ ہوتی ہے. سب سے پہلے لڑکی کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کے کمنٹس بهی پسند کرتا ہے کمنٹ لائک کرنے کا کوئی خاص فائدہ تو نہیں ہوتا لیکن اس سے یہ ہوتا ہے کہ لڑکی سے تهوڑی بہت جان پہچان ضرور ہوجاتی ہے کمنٹ لائک کرنے کے بعد اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ بعض کمنٹس کا ریپلائی دیا جاتا ہے لیکن یہ خیال رکها جاتا ہے کہ لڑکی سے اختلاف نہ ہو بلکہ اکثر وہ کمنٹ لڑکی کے کمنٹ صحیح ہونے کی سند ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر لڑکی نے کسی پیج کی پوسٹ پر کمنٹ کیا کہ " میں آپ کی بات سے اختلاف رکهتی ہوں" تو کمنٹ کے ریپلائی میں کچه یوں کمنٹ کیا جاتا ہے "میں آپ کی بات سے متفق ہوں" یوں لڑکی کو ہلکی "پهلکی خوشی" کا احساس ہوتا ہے اور وہ ریپلائی میں فرماتی ہے "شکریہ" بس یہ شکریہ ہی سارے فساد کی جڑ بنتا ہے لڑکا شکریہ دیکه کر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں فرینڈ ریکویسٹ بهیج دیتا ہے لڑکی بهی "متفق کمنٹ" کے خمار میں ہوتی ہے اور تهوڑی سوچ بچار کے بعد ایڈ کر لیتی ہے ایڈ کرنے کے بعد وہی ہوتا ہے جس کی لڑکی کو سو فیصد امید ہوتی ہے یعنی اسے انبوکس میسج آتا ہے جہاں محترم اس کمنٹ والے "شکریہ" کا جواب "شکریہ" سے دیتا ہے اس سے آگے تاریخ دانوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اکثر کا کہنا ہے کہ لڑکا اس سے تعلیم، شہر، شوق اور اسی طرح کی دوسری چولیں پوچهتا ہے لیکن کچه لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکا اس کے بعد ہائے، ہیلو، جناب جیسے القابات کا بهرپور مظاہرہ کرتا ہے چند لوگ یہ بهی کہتے ہیں کہ لڑکا اگر سیانا ہو تو وہ لڑکی کی بلاوجہ کی تعریفیں شروع کردیتا ہے لیکن تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ لڑکا صبح، دوپہر، شام ہائے ہیلو کے میسجز سے سواگت ضرور کرنے لگتا ہے. ویسے تو لڑکے کو کمنٹ لائک کرنے سے پہلے ہی لڑکی سے پیار ہوچکا ہوتا ہے لیکن عموما لڑکا، لڑکی کو تهوڑا سا ٹائم ضرور دیتا ہے تاکہ یکدم محبت کی بات پر کہانی بگڑ نہ جائے. اکثر لڑکے تهوڑے ذہین ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے لڑکی کو اپنی کسی پرانی محبت کے بارے میں بتاتے ہیں جس میں لڑکی کو بے وفا ثابت کیا جاتا ہے اور موصوفہ کی ہمدردی سمیٹنے کے لیئے کچه ایسے واقعات بهی شامل کیے جاتے ہیں جس پر موصوفہ کا دل بهی بهر آتا ہے یوں تهوڑی سے ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اور یہی تهوڑی سی ہمدردی تقریبا سات دن بعد محبت کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور موصوف اظہار محبت کردیتا ہے دیکهنے والوں نے بهی یہ بهی دیکها ہے کہ کچه لڑکیوں کا چہرہ اظہار پر محبت سے سرخ ہوجاتا ہے یوں لڈو قسم کی کئی چیزیں پهوٹ پڑتی ہیں لیکن اکثر دیکها گیا ہے کہ لڑکی چند دن لڑکے کو جواب نہیں دیتی لیکن یہاں بهی تاریخ دانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے کچه کا کہنا ہے لڑکی یہ جواب دیتی ہے "بهائی میں لڑکا ہوں" لیکن اگر وہ واقعی لڑکی ہو تو سوچنے کا ٹائم ضرور مانگتی ہے لیکن دراصل وہ جال میں آچکی ہوتی ہے کچه لوگ یہ بهی کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لڑکا اس کی کمزوریوں پر بهرپور چوٹ کرتا ہے یوں لڑکی بهی ہاں کرکے اپنا بیڑا غرق کرنے میں بهرپور کردار ادا کرتی ہے. یہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے سب سے پہلے تو دونوں ایک دوسرے کو اپنی خوبصورت سے خوبصورت تصویریں سینڈ کرتے ہیں. "دیکه کر ڈلیٹ کردینا" والا جملہ بهی یہیں کہیں بولا جاتا ہے لیکن اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ لڑکے واقعی تصویر دیکه کر ڈلیٹ کردیتے ہیں لیکن چار پانچ مختلف جگہوں پر محفوظ کرنے کے بعد. یہ بات بهی قابل ذکر ہے کہ لڑکی کی خوبصورتی نہیں دیکهی جاتی. خیر تهوڑے سے اختلاف اور قسموں کے بعد نمبر بهی شئیر کر دیئے جاتے ہیں. یوں محبت فیس بک سے ہٹ کر موبائل میں گهس جاتی ہے شروع میں دو چار لمبی لمبی کالز کی جاتی ہیں جو جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے یہاں ایک عجیب اتفاق کا سامنا بهی کرنا پڑتا ہے کہ جیسی بهی ہو لڑکی کی آواز دل میں گهر کر جاتی ہے. کال تو چلتی ہی رہتی ہے لیکن ساته ساته فیس بک پر "انهے وا" لائکس کا تبادلہ ہونے لگتا ہے مثال کے طور پر لڑکی کو چهینک آئی تو پہلا لائک اور پہلی الحمداللہ لڑکے کی طرف سے پیش ہوگی اسی طرح اگر لڑکے نے نئی جوتی خریدی ہے تو پہلا لائک اور پہلی مبارک موصوفہ کی طرف سے پیش ہوگی. ادهر کال میں "آپ" سے بات "تم" پر آجاتی ہے. تهوڑا عرصہ اور گزرنے کے بعد فیس بک پر آہستہ آہستہ یہ تبدیلی آتی ہے کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی پوسٹس کو لائک کرنا کم کردیتے ہیں یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ لڑکی فیس بک پر لڑکے کی پوسٹ پر کمنٹس پڑهنے ہی جاتی ہے. انبوکس میں تصویریں دینے کا سلسلہ بهی جاری رہتا ہے لیکن اس میں تبدیلی یہ آتی ہے کہ اب جیسی بهی تصویر پڑی ہو بهیج دی جاتی ہے یوں اصلی چہرے بهی سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں. کال بهی کوئی ایک دو ماہ بعد پیریڈز کے متعلق پوچهتے پوچهتے بریزر اور پینٹی کے کلرز پوچهنے تک پہنچ جاتی ہے. لڑکا اب کهلنے لگتا ہے اور بات عام تصویروں سے ہٹ کر "کلیوج" تک پہنچ جاتی ہے. لڑکی بهی بہت سی باتیں سمجه چکی ہوتی ہے یوں کال انڈر گارمنٹس کے رنگوں سے سیکس چیٹ تک پہنچ جاتی ہے اور محبت کا پہلا خون نکالا جاتا ہے لڑکی جو کہ جال میں گوڈوں گٹوں تک دهنس چکی ہوتی ہے سب کچه مانے جاتی ہے اب وہ وقت آتا ہے جہاں پهر تاریخ دانوں کا اختلاف ہے کچه کہتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی ڈیٹ فکس کرتے ہیں اور ملتے بهی ہیں سب کچه کرتے بهی ہیں اور پهر ایک دن رابطہ ختم ہوجاتا ہے اور کچه کا کہنا ہے کہ یہاں لڑکی کنفیوز ہوجاتی ہے اور کچه لڑکیاں اس مقام سے پیچهے ہٹ جاتی ہیں اور رابطہ ختم ہوجاتا ہے. لیکن روای اس بات پہ متفق ہیں کہ رابطہ دونوں صورتوں میں ختم ہوجاتا ہے اور بلاک بهی لڑکی ہی کرتی ہے جس پر لڑکا ایک ماہ تو سکون سے گزارتا ہے کہ چلو جان چهوٹی، لیکن دوسرے ماہ لڑکے پر بهوت سوار ہوتا ہے اور دوبارہ منتوں پر اتر آتا ہے لیکن اس وقت لڑکی محبت وغیرہ سے بہت دور چلی جاتی ہے یوں لڑکے کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچتا تو لڑکا ایک فیک آئی ڈی بنا کر دوبارہ لڑکی کے کمنٹس لائک کرنا شروع کردیتا ہے. یوں کمنٹس لائک کرنے سے سٹارٹ ہونے والی کہانی کمنٹس لائک کرنے تک ہی رہ جاتی ہے
مسلمانوں پر ظالم حکمرانوں کے مسلط ہونے کے اسباب! ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ فرمان باری تعالیٰ ہے : ومااصابکم مصیبۃ فیما کسبت ایدکم (سورہ شوری پارہ ۲۵ آیت ۳۰) ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔ تفسیر: صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ خطاب مومنین مکلفین سے ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں‘ اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔ ان تکلیفوں کو اﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفع ودرجات کے لئے ہوتی ہے ۔ حدیث قدسی : حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مِقْدَامٌ ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ الرَّقِّيُّ ، ثَنَا وَهْبُ بْنُ رَاشِدٍ ، ثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ خِلاسِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ : " أَنَا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا ، مَالِكُ الْمُلُوكِ وَمَلِكُ الْمُلُوكِ ، قُلُوبُ الْمُلُوكِ فِي يَدِي ، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا أَطَاعُونِي حَوَّلْتُ قُلُوبَ مُلُوكِهِمْ عَلَيْهِمْ بِالرَّأْفَةِ وَالرَّحْمَةِ ، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا عَصَوْنِي حَوَّلْتُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْطَةِ وَالنِّقْمَةِ فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ، فَلا تَشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَى الْمُلُوكِ ، وَلَكِنِ اشْتَغِلُوا بِالذِّكْرِ وَالتَّضَرُّعِ إِلَيَّ أَكْفِكُمْ مُلُوكَكُمْ " . مشکوٰۃ شریف کے ص 315 میں حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ میں اﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے دست قدرت میں ہیں ۔جب لوگ میری تابعداری کریں، میں بادشاہوں کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب میری مخالفت کریں تو ان کے دلوں کو عذاب اور غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت ایذائیں دیتے ہیں تو لوگوں کو چاہئے کہ بادشاہوں کو برا کہنے میں مشغول نہ ہوں بلکہ ذکر اور عاجزی اختیار کریں پھر بادشاہوں کی طرف سے میں کافی ہوجائوں گا، یعنی وہ رعایا کے ساتھ سلوک و محبت سے پیش آئیں گے (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضائ، الفصل الثالث، حدیث نمبر 3721، جلد 2،ص 12) محترم قارئین : درج بالا حدیث قدسی آپ نے پڑھی ۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ ذرا غور کریں کہ جن حکمرانوں کو ہم ظالم و جابر کہتے ہیں۔ یہ کہاں سے آئے؟ کس قوم میں سے آئے ؟ تو جواب یہی آئے گا کہ یہ ہم ہی میں سے آئے۔ یہ ہمارے ہی درمیان پلے بڑے اور آج حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ پھر یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟ اقتدار میں آنے سے قبل تو یہ ہمارے درمیان نظر آتے تھے۔ ہمارے دکھوں کو اپنا دکھ قرار دیتے تھے، مہنگائی، کرپشن اور ظلم کو ختم کرنے کے ہم سے وعدے کرتے تھے مگر اقتدار میں آتے ہی یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے ؟ حدیث قدسی میں اس کا جواب موجود ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے جب لوگ میری اطاعت کریں تو میں بادشاہوں (حکمرانوں) کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب لوگ میری نافرمانی کریں تو حکمرانوں کے دلوں کو غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو (قوم کو) سخت ایذائیں دیتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے سبب حکمران قوم کو تکالیف پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاول، صبرہم علی جور الحکام ص 42) سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ ہمیں ظالم حکمرانوں کے نقصان سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہیں ۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تجھے ظالم بادشاہ کے ساتھ ابتلاء واقع ہوجائے اور اس کے سبب سے تیرے دین میں نقصان پیدا ہوجائے تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کر اپنے لئے اور اس ظالم بادشاہ کے لئے ۔ (تنبیہ المغترین، الباب اول، صبرہم علی جورالحکام، ص 42) معلوم ہوا کہ ظالم حکمرانوں کو برا کہنے کے بجائے ہم اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں۔ اس کی بارگاہ میں سچی اور پکی توبہ کریں۔ اس کے دربار میں سربسجود ہوجائیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوجائیں ۔ ذرا سوچئے : ہم جن مصیبتوں میں مبتلا ہیں خصوصاً مہنگائی‘ بے برکتی‘ تنگ دستی‘ ذلت و رسوائی‘ مہلک بیماریاں‘ دشمن کا خوف‘ ظالم حکمران‘ لوڈشیڈنگ‘ نافرمان اولاد ، کہیں یہ مصیبتیں درج ذیل گناہوں کی وجہ سے تو نہی ؟ ۱۔ ہم نے نمازوں کو بوجھ جان کر اسے وقت پر باجماعت ادا کرنا چھوڑ دیا۔ ۲۔ روزے ہم اس لئے ترک کردیتے ہیں کہ ہمیں بھوک اور پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ ۳۔ ہم زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھتے ہیں اور اسے پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ ۴۔ ہم نے رمضان کے عمرے کو فیشن بنالیا اور فرض حج کو مشقت کا باعث سمجھ کر اسے ترک کردیا۔ ۵۔ والدین نے اپنی اولاد کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت نہیں کی۔ ۶۔ اولاد ماں باپ کو بوجھ سمجھتی ہے اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ ۷۔ بھائی اپنے سگے بھائی سے فقط مال کی وجہ سے محبت اور غریب بھائی سے تعلقات بھی نہیں رکھتا۔ ۸۔ سگی بہن اگر غریب ہے تو بھائی اس کے گھر جانا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ۹۔ والدین اپنی مالدار اولاد کو غریب اولاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ ۱۰۔ بیوی شوہر کا قبلہ بن چکی ہے۔ ۱۱۔ بیوی اپنے شوہر کی ناشکری بن چکی ہے۔ ۱۲۔ نوجوان لڑکا باپ کو دور اور دوست کو قریب کرتا ہے۔ ۱۳۔ والدین اپنی نوجوان اولاد اور بہو کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں‘ ڈرامے دیکھتے ہیں۔ ۱۴۔ موسیقی عام ہوچکی ہے‘ کوئی بھی مسلمان اپنے کانوں کو موسیقی سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ ۱۵۔ دعوتوں میں بے دریغ کھانا پھینکا جاتا ہے۔ ۱۶۔ خود پسندی بڑھ رہی ہے‘ ہر چیز میں دکھاوا پیدا ہوچکا ہے۔ ۱۷۔ مال کمانے کی لالچ بڑھتی جارہی ہے‘ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ حلال ہے یا حرام ۱۸۔ لسانیت کی بنیاد پر بھائی بھائی کے اوپر اسلحہ تانے کھڑاہے۔ ۱۹۔ جس مومن کی عزت کو بیت اﷲ سے بھی بڑھ کر فرمایا اس کو سرعام گولیاں ماری جاتی ہیں۔ ۲۰۔ مسلمان بھائی کا مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘ مگر اس کے باوجود اسلحہ کے زور پر دوسرے مسلمان کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ ۲۱۔ اخبارات پر مقدس نام اور کلمات لکھے ہوتے ہیں مگر ہم چند روپے کے عوض اسے ردی میں فروخت کردیتے ہیں۔ ۲۲۔ نقص والے مال کو اچھا ظاہر کرکے اپنے بھائی کو دھوکہ دیکر فروخت کرتے ہیں۔ ۲۳۔ حسد اور عداوت کی بناء پر اپنے ہی مسلمان بھائی پر‘ اس کے گھر پر اور کاروبار پر کالا علم کرواتے ہیں۔ ۲۴۔ سیٹھ صاحب اپنے ملازمین کو ان کا اصل حق نہیں دیتے۔ ۲۵۔ ملازمین اپنے سیٹھ سے تنخواہ لینے کے باوجود سیٹھ کی جانب سے منگوائی جانے والی اشیاء پر کمیشن رکھتے ہیں۔ ۲۶۔ رعایا کی نیت خراب ہوچکی ہے جبکہ حکمران عیاش اور مکار ہوچکے ہیں۔ ۲۷۔ میڈیا پر بے دریغ اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ۲۸۔ مسلمان اپنے علماء کی غیبت کرتے ہیں اور ان کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ ۲۹۔ قرآن مجید کو غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا‘ کبھی اس کی تلاوت پابندی سے نہیں کی اور نہ ہی اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۳۰۔ ہم نے اپنے مولیٰﷺ کی سنتوں کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کے طریقوں کو اپنالیا ہے۔ ۳۱۔ سٹے بازی‘ جوا‘ ویڈیو گیم‘ شطرنج‘ اسنوکر اور دیگر بے ہودہ کھیل گلی گلی کھیلے جارہے ہیں۔ ۳۲۔ سود کا نام منافع‘ شیئرز کا نام کاروبار‘ شراب کا نام وسکی‘ جھوٹ کا نام ٹکنیک‘ اور خنزیر کا نام دنبہ رکھ کر ان چیزوں کو خوب استعمال کیا جارہا ہے۔ لمحہ فکریہ! ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ان میں سے کسی گناہ میں ہم ملوث تو نہیں؟ فوراً توبہ کریں اس سے پہلے کہ موت ہمیں آگھیرے ۔
اہلسنت و جماعت کو بدنام کرنے کی کوششیں! _________________________________ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور مسلک اہلسنت نے ہمیشہ خلاف شرع کاموں کا رد کیا ھے، مثلاً مزارات پر قبر کو سجدہ کرنا، دھمال ڈالنا، ناچنا ، عورتوں اور مردوں کا اختلاط اور دیگر خلاف خلاف شرع حرکات جو مزارات پر ہوتی ہیں- ان کاموں کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں - لیکن پھر بھی دیو بندی وہابی ان چیزوں کو مسلک اہلسنت اور اعلیٰ حضرت کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ کسی چرسی بھنگی یا جعلی عاملوں کی حرکات اور ان کے کام جو خلاف شرع ہیں وہ دیکھا کر اہلسنت کی جانب منسوب کرتے ہیں- یہ بہتان عظیم ھے اس طرح یہ لوگ نہ تو دین کی خدمت کر رہیں بلکہ عوام میں اہل سنت کو بدنام کرتے ہیں - ان لوگوں کے اس کذب کی وجہ سے جو لوگ ایسے کام کرتے ہیں وہ تو باز نہیں آئیں گے لیکن عوام کے دلوں میں مزارات اور سہی پیران عظام کے متعلق بد گمانی پیدا ہو گی- کاش یہ لوگ یہ حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں کہ ان کے اس عمل سے دیں کی خدمت نہیں بلکہ امت میں تفرقہ بازی پیدا ھو گی-
مسلمانوں کی تکفیر کرنے میں احتیاط! _________________________________ وہ اسباب جن کی بنیاد پر کوئی شخص خارج از اسلام ہو اور اس پر حکم کفر عائد کیا جائے ان کی حقیقت سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں_ اللہ تعالٰی ان کی ہدایت و اصلاح فرمائے_ محض اختلاف رائے کی وجہ سے ایسے لوگ کسی مسلمان پر کفر کا حکم لگانے میں جلد بازی کر ڈالتے ہیں_ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق روئے زمین پر بس تھوڑے ہی مسلمان باقی رہ جاتے ہیں_ کوئی مسلمان جو نمازی ہو فرائض اسلام ادا کرتا ہو، مساجد کی تعمیر میں حصہ لیتا ہو، مراکز دین کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہو، اسے اگر آپ کسی ایسے امر کی دعوت دیں جسے آپ حق اور وہ باطل سمجھتا ہو ساتھ ہی اس کے حق و ناحق ہونے پر پہلے ہی علماء کے درمیان اختلافات رہا ہو جس کی وجہ سے وہ شخص آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرے تو محض اس اختلاف رائے کی وجہ سے اس کے اوپر آپ کا حکم کفر نہایت غلط بات، ناپسندیدہ جرم، اور بہت ہی سنگین معاملہ ہے جس سے اللہ تعالٰی منع فرماتا ہے اور ایسی شکل میں حکمت و موعظت حسنہ کی دعوت دیتا ہے_ کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے پر علماء امت کا اجماع ہے، صرف اس شکل میں تکفیر کی جائے گی کہ وہ وجود باری تعالٰی کا منکر ہو یا ایسے شرک جلی کا مرتکب ہو جس میں تاویل ممکن نہ ہو یا انکار نبوت کریں یا ضرورت دین کا منکر ہو یا اہل ایمان کے تواتر کا انکار کرے یا کسی بھی متفق علیہ دینی حکم و عمل کا انکا کرے_ ضرورت دین_ مثلاً_ توحید باری تعالٰی، نبوت انبیاء کرام، حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر ختم نبوت، حشر و نشر، حساب و جزاء، جنت و دوزخ کا منکر کافر ہے، کسی مسلمان کا یہ ازر قابل قبول نہیں ہوگا کہ وہ ان چیزوں سے ناواقف ہے، صرف نو مسلم کا عزر اس وقت تک مانا جائے گا جب تک وہ ان باتوں سیکھ نہ لے، اس کے بعد اس کا عزر نہیں مانا جائے گا_ متواتر وہ خبر ہے جس کے راوی اتنے کثیر ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃً محال ہو، خواہ بحیثیت اسناد ہو جیسے حدیث رسول ہے_ کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹا انتساب کرے وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بناے_ خواہ بحیثیت طبقہ ہو جیسے تواتر قرآن جس پر شرق و غرب میں درس و تلاوت و حفظ کے زریعہ تواتر ہے، عہد بہ عہد طبقہ بہ طبقہ لوگوں تک قرآن پہنچتا رہا اس لئے وہ محتاج اسناد نہیں_ کبھی تواتر عمل ہو جیسے تواتر معجزات رسول جن میں بعض اگرچہ آحاد ہو لیکن ان کی قدر مشترک ہر مسلمان کے علم میں قطعی طور پر متواتر ہے_ مذکورہ امور کے علاوہ کسی مسلمان پر حکم کفر لگانا بڑی سنگین بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا_ جب آدمی اپنے بھائی کو اے کافر کہے تو ان دونوں میں سے کسی پر وہ لوٹ آتا ہے، بخاری شریف، .: یہ حکم لگانا صرف اسی عالم کے لئے صحیح ہوگا جو نور شریعت کی برکت سے خوب اچھی طرح جانتا ہو کہ شریعت مطہرہ کے نزدیک ایمان و کفر کے درمیان حدِ فاصل کیا ہے اور کفر کی ابتداء و انتہا کیا ہے، قطعی علم اور یقین و اذعان کے بغیر محض ظن و تخمین سے کسی کی تکفیر کرنا اور اس میدان میں گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ورنہ وہ گم کردہ راہ ہو جائے گا اور اس کے خیال کے مطابق روئے زمین پر کچھ ہی مسلمان باقی رہ جائیں گے_ شہادت و توحید کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہے تو اس کی تکفیر بھی جائز نہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :_ تین چیزیں ایمان کی اصل ہے، لا الہ الا اللہ، پر ایمان رکھنے والے شخص سے کف لسان اور محض اس کے گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرنا، اور ایسے عمل کے سبب اسے اسلام سے خارج نہ کرنا، جب سے اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس وقت سے دجال کے ساتھ جہاد کرنے والے میرے آخری امتی تک جہاد کا جاری رہنا جسے کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کر سکتا اور تقدیر پر ایمان رکھنا(اخرجہ ابوداؤد) امام الحرمین فرمایا کرتے تھے_ اگر ہم سے پوچھا جائے کہ کن اقوال و عبارت سے تکفیر ہوتی ہے اور کن سے نہیں،تو ہم کہیں گے کہ تمہاری یہ بے محل خواہش ہے کیوں کہ اس کی تہہ تک پہنچنا اور اس کی راہ طے کرلینا بڑا ہی سخت و دشوار ہے، اسے اصول توحید و ایمان کی مدد سے ہی حل کیا جاسکتا ہے_اور جسے اس کی گہرائی و گیرائی تک رسائی حاصل نہیں وہ یقین و اعتماد کی بنیاد کے ساتھ دلائل تکفیر تک نہیں پہنچ سکے گا_ (مفاہیم یجب ان تصحح صفحہ ١٠٨ تا ١١١، از:سید محمد علوی مالکی مکی حسنی علیہ الرحمہ ناشر مکتبہ، رضوی کتاب گھر دہلی، .: اسلام دین فطرت ہے ۔ یہ واحد ایسا مذہب ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے مکمل اور رو بہ عمل ہے ۔ دنیا میں جو شخص بھی اللہ و رسول پر ایمان لاتا ہے اور شریعت محمدی کی تصدیق کرتا ہے اسے مسلمان جانا جائے گا ، وہ اہل قبلہ میں سے ہے اور فروعی مسائل میں اختلاف کی بنا پر کسی کی بھی تکفیر غیر اسلامی قرار دی جائے گی ۔ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے بھی کعبہ کی طرف رخ کر کے ہماری طرح نماز ادا کی اور ہمارا ذبیحہ کھایا، وہ مسلمان ہے اور اللہ و رسول کے ذمہ پر ہے ، اس کی جان و مال کی حفاظت واجب ہے ، اس کے وہی حقوق ہیں جو تمام مسلمانوں کےحقوق ہیں۔ لہذا اس کی توہین و تضلیل اور ناروا سلوک کسی بھی طرح اسلامی نہیں۔ آپ نے کہا کہ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا کہ کسی کی بات اگر کفریہ ہوتی تو اپنے علم کے مطابق اس بات کو ضرور کفر قرار دیتے تھے لیکن ایسی بات کہنے والے کو کافر کہیں گے یا نہیں، اس میں حد درجہ احتیاط برتتے تھے ۔مزید بتایا کہ تکفیر اجتہادی مسئلہ ہے تقلیدی نہیں، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی عالم یا مفتی کسی کی تکفیر کرے تواس کی تقلید میں دوسرے بھی اس کی تکفیر کریں۔یا یہ کہ اگر کوئی اپنی تحقیق پرکسی کی تکفیرکرتا ہے تو اللہ و رسول کے نزدیک بھی وہ شخص کافر ہی ہو، یہ ضروری نہیں۔ : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ سے معلوم کیا گیا کی ایک شخص نیاز و فاتحہ، مزارات پر حاضری اور میلاد شریف کو جائز کہتا ہے لیکن اولیاء اللہ سے مرادیں مانگنے کو منع کرتا ہے وہابیوں کو کافر جانتا ہے، تو صرف اس بات سے کہ وہ اولیاء اللہ سے مرادیں مانگنے سے منع کرتا ہے وہ وہابی ہوا یا نہیں، اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ اگر وہ کوئی اور بات وہابیوں کی نہیں رکھتا(یعنی عقائد باطلہ) اور وہابیوں کو کافر(جو ان کی کتابوں میں کفری عبارات ہیں جن کی وجہ سے وہابی کافر ہیں) جانتا ہے تو صرف اتنا کہنے سے وہابی نہیں ہو سکتا_ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٩، صفحہ ٥٤٣، مطبوعہ برکات رضا پوربندر، گجرات، انڈیا) اس سے معلوم ہوا کہ فروعی عقائد و مسائل میں اختلاف سے آدمی کافر اور بدمذہب نہیں ہوتا بلکہ کافر وہی ہے جو مذکورہ بالا امور کا انکار کرے واللہ الھادی الی سواء السبیل والیہ المصیر
مسلمانوں کے ساتھ سب و ستم فسق اور قتال کفر ہے! _________________________________ مذکورہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں سے عداوت اور ان کا مقاطعہ حرام ہے، مسلمانوں سب و شتم فسق اور اور ان سے قتال کفر ہے جب کہ وہ اسے جائز سمجھے، سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بنی جزیمہ سے جنگ کے وقت انہیں دعوت اسلام دیتے ہوئے جو کچھ کہا اور کیا اس کا واقعہ اس عنوان میں عبرت و نصیحت کے لئے کافی ہے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنی حزیمہ کے قریب پہنچے تو اس سے کہا کہ اسلام قبول کر لو لوگوں نے کہا ہم تو مسلمان ہیں، آپ نے فرمایا کہ اپنے ہتھیار پھینک دو اور اتر آؤ، انہوں نے کہا واللہ! ایسا نہیں ہوسکتا، ہتھیار پھینکنے کے بعد تو ہم قتل کر دئیے جائیں گے، ہمیں آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اطمینان نہیں ہے، حضرت خالد نے کہا تمہیں تو بس اسی وقت امان ہے جب تم اتر آؤ یہ سن کر ایک جماعت اپنی سواری سے اتر آئی اور باقی لوگ منتشر ہو گئے، ایک روایت میں ہے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کے پاس پہنچے تو وہ آپ کے پاس آئے، آپ نے ان سے پوچھا تم کیا ہو؟ مسلمان ہو یا کافر؟ انہوں نے کہا ہم مسلمان ہیں، نماز پڑھتے ہیں، حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تصدیق کرتے ہیں، ہم نے اپنے یہاں مسجدیں بنا رکھیں ہیں جن میں اذان دیتے ہیں_ مگر یہ لوگ اپنی مراد صحیح طور پر ظاہر نہ کر سکے اور اسلمنا کی بجائے صبآنا صبآنا کہہ دیا، یعنی یہ نہیں کہہ سکے کہ ہم اسلام قبول کر چکے ہیں بلکہ اس کی جگہ پر یہ کہا کہ ہم دین بدل چکے ہیں، ہم دین بدل چکے ہیں، حضرت خالد نے پوچھا کہ ہتھیار بند کیوں ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے اور کچھ عربوں کے درمیان عداوت ہے ہمیں خطرہ گزرا کہ یہ وہی لوگ ہیں اس لئے ہتھیار اپنے ساتھ لے لیا، آپ نے فرمایا ہتھیار رکھ دو، تو انہوں نے اپنے ہتھیار اتار دئیے_ اس کے بعد حضرت خالد نے حکم دیا کہ ان سب کو قید کر لیا جائے، تو آپ کے حکم پر انہیں قیدی بنا لیا گیا اور مشکیں کس دی گئی اور لوگوں کے درمیان انہیں الگ الگ جگہوں پر بھیج دیا گیا، جب صبح ہوئی تو حضرت خالد کے ایک منادی نے علان کیا کہ جس کے پاس جو قیدی ہوا اسے وہ قتل کر دے، چنانچہ بنی سلیم کے پاس جو قیدی تھے انہیں بنو سلیم نے قتل کر دیا اور انصار و مہاجرین نے قتل سے انکار کر دیا اور اپنے قیدیوں کو چھوڑ دیا، یہ خبر جب حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تک پہونچی کہ خالد بن ولید نے ایسا ایسا کیا ہے تو آپ نے دو بار یہ ارشاد فرمایا، اے اللہ خالد نے جو کچھ کیا میں تیری بارگاہ میں اظہار برآت کرتا ہوں_ کہا جاتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے سمجھا کہ وہ لوگ اسلام کے مطیع و متقاد نہیں ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان کے معاملے میں عجلت پسندی اور سرسری انداز کو ناپسند کیا، انہیں پہلے صبآنا کا صحیح مفہوم و مراد سمجھ لینی چاہئے تھی، حالانکہ یہی وہ خالد بن ولید ہیں جن کے بارے میں حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ کی شمشیر ہیں جنہیں اللہ نے کفار و منافقین پر بے نیام کر رکھا ہے، اسی طرح اسامہ بن زید کا واقعہ ہے، امام بخاری نے ابوظبیان کی روایت نقل کی ہے، انہوں نے کہا میں نے اسامہ بن زید کو یہ کہتے ہوئے سنا_ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ہمیں مقام حرقہ کی طرف بھیجا ہم صبح کے وقت وہاں پہنچے اور اس کے سبھی آدمیوں کو ہم نے شکست دی، میں نے اور ایک انصاری نے مل کر ایک آدمی کا پیچھا کیا، جب ہم اس کے قریب پہنچ کر اس پر چھا گئے تو اس نے کہا، لا الہ الا اللہ،، انصاری یہ سن کر رک گئے لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر ڈالا، جب ہم واپس آئے اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا، اے اسامہ " لا الہ الا اللہ" کہنے کے بعد بھی تم نے اسے مار ڈالا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! وہ اپنی جان کی امان کے لئے ایسا کہہ رہا تھا_ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اپنی مذکورہ بات بار بار دہرانے لگے، یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ کاش اس دن تک میں نے اسلام نہ قبول کیا ہوتا_ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا، تم نے اس کا دل کیوں نہ شق کر ڈالا جس سے تم یہ جان لیتے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا_ اسامہ بن زید نے کہا میں ایسے شخص سے قتال نہیں کروں گا جو لا الہ الا اللہ کی شہادت دے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے آپ کی مخالف جماعتوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ کافر ہیں؟ آپ نے فرمایا ! وہ کفر سے دور ہیں، پھر پوچھا گیا کیا وہ منافق ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں، منافق اللہ تعالٰی کو بہت کم یاد کرتے ہیں، اور یہ اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں، پھر پوچھا گیا تو یہ لوگ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا، یہ فتنہ میں مبتلا ہیں! اندھے بہرے ہو چکے ہیں_ 📔 مفاھیم یجب ان تصصح، صفحہ ١١٣،
ہمیں بھی تحفظ اسلام کے لئے قربانیاں دینی ہوگی! _________________________________ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اسلامی سال کا اختتام حرمت والے مہینے ذو الحجہ پر ہوتا ہے اور پھر اس کی ابتداء محرم الحرام شریف سے ہوتی ہے۔ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہمیں حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے اور پھر پہلا مہینہ حضرت سیدنا فاروق اعظم اور حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہم اجمعین کی عظیم شہادت کی یاد دلاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اسلامی سال کا اختتام بھی قربانی اور ابتداء بھی قربانی۔ قربانی اور اسلام ان دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہی وہ قربانی ہے جو اسلام کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ سرور کائنات رحمت عالم نور مجسمﷺ جیسی ذات جن کے لئے کائنات بنائی گئی اور سجائی گئی، سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا، شعب ابی طالب کی دشوار گزار گھاٹیوں میں قید کیاگیا، کھانا بند کیا گیا، طائف میں پتھر برسائے گئے، حتی کہ مکۃ المکرمہ جیسا بابرکت شہر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ صحابہ کرام علیہم السلام نے بھی اس دین کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں، تپتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا، کھولتے ہوئے تیل کے کڑائو میں ڈالا گیا، جسموں پر تشدد کیا گیا، پورے جسم کو زخموں سے چھلنی کیا گیا، آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا، قید کیا گیا، حتی کہ خاک و خون میں تڑپایا گیا۔ غزوۂ بدر و احد و خندق و حنین میں اپنی جانوں کو قربان کیا۔ نواسۂ رسول اور ان کے رفقاء نے معرکہ کربلا میں بھوکے پیاسے رہ کر اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ ہر دور میں خاصانِ خدا نے اپنے رب کے حضور طرح طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج شجر اسلام ہرا بھرا نظر آرہا ہے، مگر موجودہ دور میں قربانیوں کا جذبہ سرد پڑگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ موجودہ نازک دور ہم سے بھی قربانیوں کا تقاضا کررہا ہے 1۔ وقت کی قربانی، 2۔ مال کی قربانی، 3۔ نفس کی قربانی، 4۔ اولاد کی قربانی، 5۔ جان کی قربانی 1۔ وقت کی قربانی: موجودہ نازک دور میں وقت کی قربانی نہایت ضروری ہے۔ دین ہم سے اپنے وقت کی قربانی مانگتا ہے۔ اگر کسی سے دین کی خدمت کے لئے وقت مانگا جائے تو فورا گھر کے کام، کاروباری مصروفیات اور ضروری کام آڑے آجاتے ہیں۔ اسی طرح دینی خدمت کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی، گھریلو اور کاروباری معاملات کو فوقیت دی جاتی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ دین کے کام کو اپنے تمام کاموں پر فوقیت دیں تاکہ دین کی خدمت کی برکت سے اس قربانی کی برکت سے ہمارے تمام کام باآسانی ہوجائیں۔ 2۔ مال کی قربانی: سید عالمﷺ کا ارشاد ہے کہ آخری وقت میں دین کو بھی دام و درہم کی ضرورت ہوگی۔ مطلب یہ کہ دین کے فروغ اور اس کی ترویج کے لئے بھی مال و دولت کا ہونا لازم ہوگا۔ مال و دولت کہاں سے آئے گا۔ ظاہر ہے ہمیں ہی دینا ہوگا۔ ہمیں جو مال اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، اس میں سے جہاں ہم اپنے اوپر، اپنے گھر والوں کے اوپر خرچ کرتے ہیں، وہیں اس کا کچھ حصہ دین کی ترویج و اشاعت میں قربان کریں۔ اگر آپ نوکری پیشہ ہیں تو اپنی تنخواہ میں سے کم از کم صرف ایک فیصد ہر ماہ دین کی ترویج و اشاعت کے لئے قربان کریں اور اگر آپ کاروباری ہیں تو اپنی آمدنی کا کم از کم دو یا تین فیصد ہر ماہ دین کی ترویج و اشاعت کے لئے قربان کریں اور یہ کام پابندی سے کریں۔ اس قربانی کی برکت سے آپ کی بقیہ آمدنی میں بھی برکت ہوگی۔ آپ کے رزق میں اضافہ ہوگا۔ یہ سستا سودا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ایک روپیہ دینے پر ستر سے سات سو تک کا وعدہ ہے۔ 3۔ نفس کی قربانی: دین کے فروغ کے لئے نفس کی قربانی دیں۔ اپنی انا کو فنا کردیں۔ یہ سوچ بنالیں کہ میں سب سے کم تر ہوں اور سب مجھ سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ نفس کی قربانی دیتے ہوئے اپنی تھکاوٹ اور پریشانیوں کو ٹھکرا کر اپنے حصے کا کام کریں۔ دین کی خدمت کی برکت سے اﷲ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو دور فرمادے گا۔ لوگ چاہے آپ کی بھرپور مخالفت کریں، حوصلہ افزائی نہ کریں مگر آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے حصے کا کام ضرور کریں۔ 4۔ اولاد کی قربانی: اپنی اولاد میں سے کم از کم ایک ذہین بیٹے کو عالم دین بنائیں۔ اسے دین کے لئے وقف کردیں تاکہ آپ کا یہ بیٹا آپ کے لئے سرمایہ آخرت بنے۔ یہ کام بہت مشکل ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی قربانی کو مدنظر رکھ کر آپ بھی یہ قربانی دیں۔ اگر عوام اہلسنت میں یہ سوچ پیدا ہوگئی تو پھر دیکھئے کہ ہر سمت سے یارسول اﷲﷺ کی صدائیں آئیں گی۔ 5۔ جان کی قربانی: نڈر، بہادر اور موت سے محبت کرنے والے مجاہد کی طرح زندگی گزاریں اور ہمہ وقت اپنی جان کو اپنے پیارے دین کی سربلندی کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار رہیں اور یہ سوچ بنالیں کہ یہ زندگی بے وفا ہے، اس کا کوئی بھروسہ نہیں، کیوں نہ میں اس زندگی کو اپنے رب جل جلالہ کے حضور قربان کردوں۔ یاد رہے گھر میں چھپ کر بیٹھیں گے اور موت مقدر ہوئی تو گھر میں بھی قتل کردیاجائے گا۔ کتنی ہی تدبیریں اختیار کرلیں، موت تو آئے گی مگر ہمیں حق بات کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ بدمذہبوں کے گستاخانہ عقائد سے عوام کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے اور اگر اسی خدمت کے عوض قتل بھی کردیا گیا تو ہمیشہ کی حیات نصیب ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا قرب نصیب ہوگا۔ یہ موت بھی اک دن آنی ہے یہ جان بھی اک دن جانی ہے پھر کرلے جو بھی تھانی ہے پھر پتھر دل بھی پانی ہے اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے آیئے! اس قربانی کے مبارک موقع پر عہد کریں کہ ہم دین کی سربلندی کے لئے اس کی ترویج و اشاعت کے لئے اپنا وقت، اپنا مال،اپنی اولاد، اپنا نفس حتی کہ ضرورت پڑی تو اپنی جان بھی قربان کردیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مخلص مسلمان بنائے اور اپنے دین کی خدمت کا جذبہ عطا فرمائے اور اس خدمت کو ہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے۔ آمین ثم آمین _________________________________
शुक्रवार, 17 अगस्त 2018
اٹھو اٹھو مسلمانوں اٹھو حرمت رسولﷺ کی باسبانی کے لئے اٹھو! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتلادو گستاخ نبیﷺ کو غیرت مسلم زندہ ہے آقاﷺ پہ مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے ہر دور میں یہود ونصاریٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے مٹانے کی ناپاک سازشیں کی ہیں اور حضور نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں کیا کیا گستاخی کر رہے ہیں۔ اسے تحریر میں لاتے ہوئے قلم کانپتا ہے‘ قلب و جگر زخمی ہوتے ہیں اور روح تڑپتی ہے لیکن حالات کا تقاضا ہے اور وقت کی پکار یہ ہے کہ اس دور کے نوجوانوں کو بتادو کہ سرور کونینﷺ کی عزت و ناموس پر یہودی و نصاریٰ کتّے کس طرح حملہ آور ہو رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کبھی ڈراموں کے ذریعے‘ کبھی فلمیں بنا کر‘ کبھی کارٹون اور کبھی تعصب خیز لٹریچر کے ذریعے مدینے والے مصطفیﷺ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ہالینڈ کے اندر نبی اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کی گئیں اور حضور نبی اکرمﷺ کی ذات مقدسہ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کئے گئے۔ لیکن آج کا مسلم نوجوان لبوں پر مہر سکوت لگا کر خاموش بیٹھا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اے نوجوانو! اس کے اسباب صرف یہ ہیں کہ آج حضور نبی کریمﷺ سے تمہارا الفت و محبت کا رشتہ کمزور پڑچکا ہے۔ تمہارے دلوں میں عشق مصطفیﷺ کا نور مدہم پڑچکا ہے۔ تم میں غیرت فاروقیت موجود نہیں‘ جذبہ اویسی تمہارے دلوں سے اٹھ چکا ہے۔ نبی کریمﷺ کی عزت و ناموس پر مرمٹنے کے جذبہ عظیم سے تم محروم ہوچکے ہو۔ تمہیں کانوں میں بالیاں‘ سر پر چوٹی باندھنے اور اغیار کے فیشن سے فرصت نہیں (اے یہودونصاریٰ کی تقلید کرنے والو! یقینا تمہیں اس حلیے میں دیکھ کر میرے مصطفیﷺ کا دل دکھتا ہوگا) یہود وہنود کی گستاخیاں تمہارے سامنے ہیں پھر بھی تمہیں غصہ نہیں آتا‘ تمہارے جذبات نہیں بھڑکتے۔ لیکن نہیں! تم بھی غصے میں آتے ہو‘ تمہارے بھی جذبات بھڑکتے ہیں۔ لیکن کب! جب کوئی تمہاری ماں کو گالی دیتا ہے‘ جب کوئی تمہارے باپ کی توہین کرتا ہے۔ جب کوئی تمہارے جگری یار کے بارے میں نازیبا کلمات کہتا ہے۔پیارے مصطفیٰ ﷺ کے امتیوں! فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے کہ تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے والدین اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ محبت رسولﷺ کا دم بھرنے والو! آئو دل و دماغ کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں جب میدان قیامت میں جمع ہوں گے‘ نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ ماں باپ‘ دوست یار کوئی کام نہیں آئے گا۔ اس وقت ایک ہی تو ذات پاکﷺ ہوگی جو عاصیوں کی امیدگاہ ہوگی۔ اسی سرکارﷺ کی خدمت اقدس میں سب کو حاضری دینی ہوگی۔ اگر پیارے سرکارﷺ نے استفسار فرمالیا کہ تمہارے سامنے کبھی ڈراموں کے ذریعے اور کبھی فلمیں بنا کر میری شان اقدس میں گستاخیاں کی گئیں‘ تم نے کیا کیا؟ کیا توہین آمیز خاکے اور تعصب خیز لٹریچر شائع کئے گئے‘ تم نے کیا کیا؟ کیا ہمارے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟ یاد رکھو! اگر خدانخواستہ شافع محشرﷺ روٹھ گئے تو کیا کریں گے؟ سوچو! غور کرو! پھر کس کے دروازے پر شفاعت کی بھیک لینے جائوگے؟ کون اﷲ عزوجل کے قہروغضب سے بچانے والا ہوگا؟ اے مسلم نوجوانو! آج محبت رسولﷺ ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ اپنی لہکتی ہوئیں جوانیاں تحفظ ناموس رسالتﷺ کے لئے وقف کردیں۔ حضورﷺ کی عزت و ناموس پر جان قربان کرنا یہ بہت بڑی کامیابی اور سعادت ہے اور ایسے شہید کا درجہ و مقام بہت بلند ہوگا۔ جو لوگ اﷲ عزوجل کے نام پر مرتے ہیں وہ سدا زندہ رہتے ہیں اور جو اس کے حبیب کی شان و شوکت اور ناموس کے لئے جان کی قربانی دیتے ہیں انہیں تو رب بھی سلام کہتا ہے۔ "سلام قولا من رب الرحیم" اے مسلم نوجوانو! خالد بن ولید‘ صلاح الدین ایوبی اور غازی علم الدین شہید کے جذبات لے کر اٹھو اور ان گستاخوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائو تاکہ حشر کے میدان میں شافع محشرﷺ کے سامنے سرخرو ہوسکو! بتلادو گستاخ نبیﷺ کو غیرت مسلم زندہ ہے آقاﷺ پہ مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
बुधवार, 15 अगस्त 2018
نعت گوئی میں احتیاط کے تقاضے! ____________________________________ اس میں شک و شبہ نہیں کہ حمد باری تعالیٰ لکھنا آسان ہے مگر نعت رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم لکھنا لکھنا آسان نہیں بلکہ ایک دشوار ترین منزل ہے، قلم اور جولانی طبع کے تحت اس فن میں قدم قدم پر خطرات کا سامنا ہے وہ ذات کریم جس کی سرکار میں دانستہ و نادانستہ ذرا بھی شعر و ادب کی غلطی ضبط اعمال کا سبب ہو اور احتزام شرع ان کی مدح رفع، اس لئے نعت بڑے ہوش و حواس کا کام ہے،
یہ رشتے بھی کیا چیز ہیں؟
یہ رشتے بھی کیا چیز ہیں؟
_______________________________________
ساری عمر رشتے نبھاتے رہو، پھر بس ایک بار چوک جاو تو،
سارے رشتے روٹھ جائیں گے،
ساری محبتیں امتحان لینے لگیں گی،
سارے تعلق حساب مانگے لگیں گے،
بےشک ساری عمر زمےداریاں نبهاتے گزر جائے،
پھر بس ایک بار اپنی خوشی کے لیے بغاوت کر گزرو تو،
ساری محنتیں، سارے احسانات، اور ساری کاوشوں پر سوالیہ نشان لگ جائے،
بڑی تلخ ہے یہ زندگی!!
شاید ہی کسی کے کام آئی ہو، شاید ہی کسی کو راس آئی ہو، اور شاید ہی کسی کے لیے آسان ہو،
ساری عمر کسی کے لیے اچھا کرتے رہو، لیکن بس ایک بار کسی مجبوری کے تحت ساتھ نہ دے سکو تو،
ساری ریاضتیں ضائع ہو جاتی ہیں..!!
زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی، بلکہ اسے آسان بنانا پڑتا ہے،
کسی کو نظرانداز کر کے اور کسے کو برداشت کر کے..!!
بعض دفعہ ہم کسی کے لیے امتحان ہوتے ہیں اور بعض دفعہ کوئی ہمارے لیے امتحان بن جاتا ہیں..!!
اس زندگی میں ہم ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے، ہر کسی کا مان نہیں رکھ سکتے، کسی کا مان رکھنے کے لیے کسی کا مان توڑنا پڑتا ہے..!!
शुक्रवार, 10 अगस्त 2018
اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کی تفسیق کیوں؟ - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - الحمدللہ ہمارے بزرگانِ دین(رحم اللہ علیہم) کا آپس میں جب کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تودلائل سے ایک دوسرے کے سامنے اپنا مؤقف بیان کرتے تھے مگر کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی تفسیق نہیں کرتے تھے اورنہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھتے تھے۔ حضرت علامہ مفتی افضل حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ(صدر سنی دارالافتاء اہل سنت بریلی، اور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی مرید بھی تھے) نماز میں لاؤڈاسپیکرکے جواز کے قائل تھے۔جبکہ مفتی اعظم ہند رحمہ اللہ علیہ اس کے برخلاف فتویٰ دیتے تھے۔ایک مرتبہ کچھ لوگ مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور مفتی افضل حسین شاہ صاحب آپ کے مرید ہیں مگر لاؤڈاسپیکر کے مسئلہ میں آپ سے اختلاف رکھتے ہیں۔آپ انہیں منع کریں تو مفتی اعظم ہند رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ وہ عالم ہیں اور اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ یہی لوگ جب حضرت علامہ مفتی افضل حسین شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا کہ آپ کو یہ فتویٰ نہیں دینا چاہیے اور آپ اپنے پیر صاحب سے اختلاف نہ کریں اور آپ کا یہ طرزِ عمل غلط ہے۔ توجواباً آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا کہ:’’ایں گناہ یست در شہر شمانیزکنند‘‘ یعنی اگرعلمی مسئلہ میں اختلاف رکھنا غلط ہے تواس گناہ میں سارا شہر ہی گرفتار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم لوگ طریقت میں سرکار غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرید ہیں اور وہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حنبلی مذہب پرعمل کرتے تھے۔ جب کہ ہم لوگ حنفی ہیں ۔اس کامطلب یہ ہوا کہ ہم سب لوگ سرکار غوث پاک رضی اللہ تعلیٰ عنہ سے اختلاف رکھتے ہیں۔لوگ آپ کا یہ جواب سن خاموش ہوگئے۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوا کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے نہ تو کسی کو گمراہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو فاسق بلکہ اس قسم کے مسائل میں اپنے رائے کو کسی پر تھوپا بھی نہیں جا سکتا۔اسی وسعت قلبی کی واضح مثال محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی سردار احمد رحمۃ اللہ تعلیٰ علیہ کے فتاویٰ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے لاؤڈاسپیکر پر نماز پڑھانے سے متعلق استفتاء کیا گیا تو باوجود یہ کہ آپ نماز میں لاؤڈاسپیکر استعمال نہ فرماتے تھے مگر نہایت ہی وسعت قلبی کے ساتھ مجوزین کی رائے کو بھی بیان فرمایا اور اپنا مؤقف بھی تحریر فرمایا مگر اس مبارک فتویٰ میں لاؤڈاسپیکر کے مجوزین میں سے نہ تو کسی کو جھوٹا فرمایا اور نہ ہی کسی کو جاہل اور نہ ہی کسی کی تضلیل و تفسیق فرمائی۔ بلکہ اپنا نظریہ بھی بیان فرماتے ہوئے نہایت ہی محتاط الفاظ استعمال فرمائے جن سے کسی طرح بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ اپنی رائے دیگر لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہو۔امام اہل سنت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق تو کجا ایک دوسرے پر انکار کرنا بھی ضروری نہیں۔ آپ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’علماء محتاطین تو ایسے مسائل اجتہادیہ میں انکار بھی ضروری اور واجب نہیں جانتے نہ کہ عیاذاً باللہ نوبت تا بہ تضلیل و اکفار‘‘۔(فتاوی رضویہ ج۳ ص ۷۶۵ مطبوعہ: مکتبہ رضویہ کراچی) معلوم ہوا، جدید مسائل میں اختلاف کی وجہ سے نہ تو کسی کو گمراہ کہنا جائز ہے اورنہ ہی فاسق۔ یہی حکم وڈیو ٹی وی، اور (تصاویر) کے جائز پروگرامز کے سنی مجوزین کے بارے میں ہے۔ انہیں جائز وڈیو اور ٹی وی پروگرامز میں شرکت کی وجہ سے گمراہ یا فاسق کہنا سراسر غلط اور فقہاء کرام کی تصریحات کے خلاف ہے۔(فتاویٰ، مووی اور ویڈیو کا شرعی حکم از:مفتی ابو بکر صدیقی شازلی قادری)
गुरुवार, 9 अगस्त 2018
تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے تاج کی تاریخ ______________________________________________________. ١١ دسمبر٢٠١١ء کو جناب الحاج محمد اویس رضوی ہیرا کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ(متوفیٰ٧ ذی القعدہ ١٤٣٩ھ) کے لقب "تاج الشریعہ" کی مناسب سے کوئی ایسا تاج بنایا جائے جسے دیکھ کر ہی سمجھ میں آجائے کہ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تذکرہ ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے بھائی جناب محمد سہیل رضوی روکاڑیا کے پاس اپنا خیال پیش کیا جس پر انہوں نے کہا کہ صرف تاج نہیں بلکہ اس میں حضرت کے القابات بھی ہو، پھر یہ دونوں حضرات رضا آفسیٹ ممبئی پہنچے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وہاں جناب الحاج سعید احمد نوری صاحب، جناب الحاج محمد صدیق رضوی صاحب، اور مولانا محمد اسلم رضا صاحب مصباحی کے ساتھ میٹنگ ہوئی القابات لکھے گئے اور جناب الحاج محمد عارف رضوی صاحب نے ایک نئے انداز کے تاج کی ڈیزائنگ کروائی جسے جناب محمود شیخ کاتب صاحب نے اپنے حسنِ کتابت اور تزئین کاری سے مزین کیا اور جناب سید شاہ نواز برکاتی نے خوب خوب محنت کرکے تاج کو پیارا سے پیارا بنایا، اور تاج کا پہلا اسٹیکر بارہ ہزار(١٢٠٠٠) کی تعداد میں چھپ کر عرس رضوی ٢٥ سفر المظفر ١٤٣٣ھ مطابق ٢٠ جنوری٢٠١٢ء کو منظر عام پر آیا، پھر اس کے بعد جو یہ تاج کا سلسلہ چلا تو چلتا ہی گیا اور آج نہ جانے کہاں کہاں یہ تاج مقبول و مشتہر ہو گیا
نعت خواں و مقررین حضرات کے نام ------------------------------------------------- نفسِ بدکار پر دل نے یہ قیامت توڑی عملِ نیک کیا بھی تو چھپانے نہ دیا موجودہ دور میں اہلسنت کی غریب عوام کے لئے محافلِ ذکر و نعت کا اہتمام کرنا بہ نسبت پہلے ادوار کے اب بہت مشکل ہو چکا ہے کیونکہ محفل کے لئے نعت خواں اور مقررین کو بھاری معاوضہ دے کر ہی بُلایا جا سکتا ہے۔ بعض شعلہ بیاں مقررین کی ڈیمانڈ شدہ رقم تو محفل سے چند روز پہلے حضرت کے اکاؤنٹ میں ڈلوانی پڑتی ہے تاکہ انہیں قلبی سکون میسر ہو اور وہ خوش دلی کے ساتھ غریب سُنیوں کی محفل میں خطاب کرسکیں۔ نعت خوانی کے دوران نعت خواں مقررین پر کرنسی نوٹ لٹانے کا رواج بھی عام ہو گیا ہے *تصویرکشی: اس قدر عام ہو چکی ہے کہ بعض نقیب، مقرر اور نعت خواں اپنا ذاتی کیمرہ مین ساتھ لے کر چلنا پسند کرتا ہے۔ لیکن علماءِ حق جب ان اعمال سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں جواز کے فتوے پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیبی کہ جواز کی آڑ میں نفسی خواہشات کو کتنا عروج بخشا جارہا ہے اس کے نظارے آپ بہ آسانی سوشل میڈیا پر کرسکتے ہیں۔ کوئی دورانِ نعت روتے ہوئے تصویر بنوا رہا ہے، تو کوئی وجدانی کیفیت میں تصویر بنوانے کی بھرپور کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے،حد تو یہاں تک ہو گئی ہے کہ احترامِ قبلہ بھی اب نہ رہا خانہ کعبہ، روضہ رسول ﷺ کے پاس پیٹھ کر کے تصاویر لینا بھی اب عام ہوتا جا رہا ہے حبکہ یہ سراسر بے ناجائز ہے( نعوذباالله ) حکایت: کسی نے ایک درویش کو خانہ کعبہ کے پاس غلاف پکڑے ہوئے ہچکیوں سے روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا آپ کون ہیں؟ زارو قطار رونے والے شخص نے جواب دیا میرا نام شیخ عبدالقادر جیلانی(رضی اللہ تعالٰی عنہ) ہے ( سُبحان الله) اندازہ لگائیے کہ یہ ہیں شیخِ سبحانی جو خانہ کعبہ کے پاس کیفیت اور زارو قطار روتے ہیں اور آج اُن کے عقیدت مندوں کا حال یہ ہے کہ جب تک کعبہ اور مدینہ منورہ شریف کے پاس مختلف اسٹائل میں 100/ 200 تصاویر نہ بنالی جائیں تو شاید ان کے نذدیک حج و عمرے کی صحیح ادائیگی نہ ہوئی(معاذاللہ) یہاں تک کہ نماز پڑھتے وقت کی بھی تصویر کشی اب عام ھوتی جا رہی ہے یعنی یہ ہے وہ دین کی خدمت جو فی الوقت سوشل میڈیا مفتی، پیر ، صوفی، نعت خواں ، مقررین اور محفل آرگنائزر حضرات حکمِ جواز کی بدولت سَر انجام دے رہے ہیں- {الله اکبر}
बुधवार, 1 अगस्त 2018
وصالِ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ پر رویا ہے زمیں و آسماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دنیائے فانی میں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں آکر ہزاروں، کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جاتے ہیں اور ان کی اچانک جدائی پر ہزاروں، لاکھوں انسانوں کے دلوں کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور آنسو خشک ہو جاتے ہیں۔انہی بزرگ ہستیوں میں ایک نام میرے پیر و مرشد ولی کامل رہبر شریعت، قاضی القضاۃ، فخر ازہر، حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری بریلوی علیہ الرحمہ کا ہے، اس دنیا سے ایسے جامع الصفات بزرگ کے کوچ کر جانے سے عالم اسلام کو جتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا قیاس کرنا بھی مشکل ہے انبیاء کرام علیہم السلام، صلحاء و اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم اور اللہ کے نیک بندوں کے سانحۂ ارتحال پر زمین بھی گریہ زن ہوتی اور آسمان بھی نالہ کناں اور اشک ریز ہوتا ہے ۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کے نیک بندے کے وصال پر آسمان کا وہ دروازہ روتا ہے جس سے اس کی روزی اترتی تھی یا جس دروازے سے اس کا عمل صالح اوپر چڑھتا تھا، اسی طرح جہاں وہ نماز پڑھتا تھا، ذکر و اذکار میں جس جگہ مشغول رہتا، عرض وہ تمام مقامات جہاں جہاں انہوں نے قدم رکھا ہو، نشست و برخاست کی ہو وہ تمام مقامات روتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ ہم ان سعادت سے محروم ہو گئے۔
सदस्यता लें
संदेश (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...