गुरुवार, 23 अगस्त 2018

مسلمانوں کی تکفیر کرنے میں احتیاط! _________________________________ وہ اسباب جن کی بنیاد پر کوئی شخص خارج از اسلام ہو اور اس پر حکم کفر عائد کیا جائے ان کی حقیقت سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں_ اللہ تعالٰی ان کی ہدایت و اصلاح فرمائے_ محض اختلاف رائے کی وجہ سے ایسے لوگ کسی مسلمان پر کفر کا حکم لگانے میں جلد بازی کر ڈالتے ہیں_ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق روئے زمین پر بس تھوڑے ہی مسلمان باقی رہ جاتے ہیں_ کوئی مسلمان جو نمازی ہو فرائض اسلام ادا کرتا ہو، مساجد کی تعمیر میں حصہ لیتا ہو، مراکز دین کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہو، اسے اگر آپ کسی ایسے امر کی دعوت دیں جسے آپ حق اور وہ باطل سمجھتا ہو ساتھ ہی اس کے حق و ناحق ہونے پر پہلے ہی علماء کے درمیان اختلافات رہا ہو جس کی وجہ سے وہ شخص آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرے تو محض اس اختلاف رائے کی وجہ سے اس کے اوپر آپ کا حکم کفر نہایت غلط بات، ناپسندیدہ جرم، اور بہت ہی سنگین معاملہ ہے جس سے اللہ تعالٰی منع فرماتا ہے اور ایسی شکل میں حکمت و موعظت حسنہ کی دعوت دیتا ہے_ کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے پر علماء امت کا اجماع ہے، صرف اس شکل میں تکفیر کی جائے گی کہ وہ وجود باری تعالٰی کا منکر ہو یا ایسے شرک جلی کا مرتکب ہو جس میں تاویل ممکن نہ ہو یا انکار نبوت کریں یا ضرورت دین کا منکر ہو یا اہل ایمان کے تواتر کا انکار کرے یا کسی بھی متفق علیہ دینی حکم و عمل کا انکا کرے_ ضرورت دین_ مثلاً_ توحید باری تعالٰی، نبوت انبیاء کرام، حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر ختم نبوت، حشر و نشر، حساب و جزاء، جنت و دوزخ کا منکر کافر ہے، کسی مسلمان کا یہ ازر قابل قبول نہیں ہوگا کہ وہ ان چیزوں سے ناواقف ہے، صرف نو مسلم کا عزر اس وقت تک مانا جائے گا جب تک وہ ان باتوں سیکھ نہ لے، اس کے بعد اس کا عزر نہیں مانا جائے گا_ متواتر وہ خبر ہے جس کے راوی اتنے کثیر ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃً محال ہو، خواہ بحیثیت اسناد ہو جیسے حدیث رسول ہے_ کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹا انتساب کرے وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بناے_ خواہ بحیثیت طبقہ ہو جیسے تواتر قرآن جس پر شرق و غرب میں درس و تلاوت و حفظ کے زریعہ تواتر ہے، عہد بہ عہد طبقہ بہ طبقہ لوگوں تک قرآن پہنچتا رہا اس لئے وہ محتاج اسناد نہیں_ کبھی تواتر عمل ہو جیسے تواتر معجزات رسول جن میں بعض اگرچہ آحاد ہو لیکن ان کی قدر مشترک ہر مسلمان کے علم میں قطعی طور پر متواتر ہے_ مذکورہ امور کے علاوہ کسی مسلمان پر حکم کفر لگانا بڑی سنگین بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا_ جب آدمی اپنے بھائی کو اے کافر کہے تو ان دونوں میں سے کسی پر وہ لوٹ آتا ہے، بخاری شریف، .: یہ حکم لگانا صرف اسی عالم کے لئے صحیح ہوگا جو نور شریعت کی برکت سے خوب اچھی طرح جانتا ہو کہ شریعت مطہرہ کے نزدیک ایمان و کفر کے درمیان حدِ فاصل کیا ہے اور کفر کی ابتداء و انتہا کیا ہے، قطعی علم اور یقین و اذعان کے بغیر محض ظن و تخمین سے کسی کی تکفیر کرنا اور اس میدان میں گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ورنہ وہ گم کردہ راہ ہو جائے گا اور اس کے خیال کے مطابق روئے زمین پر کچھ ہی مسلمان باقی رہ جائیں گے_ شہادت و توحید کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہے تو اس کی تکفیر بھی جائز نہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :_ تین چیزیں ایمان کی اصل ہے، لا الہ الا اللہ، پر ایمان رکھنے والے شخص سے کف لسان اور محض اس کے گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرنا، اور ایسے عمل کے سبب اسے اسلام سے خارج نہ کرنا، جب سے اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس وقت سے دجال کے ساتھ جہاد کرنے والے میرے آخری امتی تک جہاد کا جاری رہنا جسے کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کر سکتا اور تقدیر پر ایمان رکھنا(اخرجہ ابوداؤد) امام الحرمین فرمایا کرتے تھے_ اگر ہم سے پوچھا جائے کہ کن اقوال و عبارت سے تکفیر ہوتی ہے اور کن سے نہیں،تو ہم کہیں گے کہ تمہاری یہ بے محل خواہش ہے کیوں کہ اس کی تہہ تک پہنچنا اور اس کی راہ طے کرلینا بڑا ہی سخت و دشوار ہے، اسے اصول توحید و ایمان کی مدد سے ہی حل کیا جاسکتا ہے_اور جسے اس کی گہرائی و گیرائی تک رسائی حاصل نہیں وہ یقین و اعتماد کی بنیاد کے ساتھ دلائل تکفیر تک نہیں پہنچ سکے گا_ (مفاہیم یجب ان تصحح صفحہ ١٠٨ تا ١١١، از:سید محمد علوی مالکی مکی حسنی علیہ الرحمہ ناشر مکتبہ، رضوی کتاب گھر دہلی، .: اسلام دین فطرت ہے ۔ یہ واحد ایسا مذہب ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے مکمل اور رو بہ عمل ہے ۔ دنیا میں جو شخص بھی اللہ و رسول پر ایمان لاتا ہے اور شریعت محمدی کی تصدیق کرتا ہے اسے مسلمان جانا جائے گا ، وہ اہل قبلہ میں سے ہے اور فروعی مسائل میں اختلاف کی بنا پر کسی کی بھی تکفیر غیر اسلامی قرار دی جائے گی ۔ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے بھی کعبہ کی طرف رخ کر کے ہماری طرح نماز ادا کی اور ہمارا ذبیحہ کھایا، وہ مسلمان ہے اور اللہ و رسول کے ذمہ پر ہے ، اس کی جان و مال کی حفاظت واجب ہے ، اس کے وہی حقوق ہیں جو تمام مسلمانوں کےحقوق ہیں۔ لہذا اس کی توہین و تضلیل اور ناروا سلوک کسی بھی طرح اسلامی نہیں۔ آپ نے کہا کہ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا کہ کسی کی بات اگر کفریہ ہوتی تو اپنے علم کے مطابق اس بات کو ضرور کفر قرار دیتے تھے لیکن ایسی بات کہنے والے کو کافر کہیں گے یا نہیں، اس میں حد درجہ احتیاط برتتے تھے ۔مزید بتایا کہ تکفیر اجتہادی مسئلہ ہے تقلیدی نہیں، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی عالم یا مفتی کسی کی تکفیر کرے تواس کی تقلید میں دوسرے بھی اس کی تکفیر کریں۔یا یہ کہ اگر کوئی اپنی تحقیق پرکسی کی تکفیرکرتا ہے تو اللہ و رسول کے نزدیک بھی وہ شخص کافر ہی ہو، یہ ضروری نہیں۔ : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ سے معلوم کیا گیا کی ایک شخص نیاز و فاتحہ، مزارات پر حاضری اور میلاد شریف کو جائز کہتا ہے لیکن اولیاء اللہ سے مرادیں مانگنے کو منع کرتا ہے وہابیوں کو کافر جانتا ہے، تو صرف اس بات سے کہ وہ اولیاء اللہ سے مرادیں مانگنے سے منع کرتا ہے وہ وہابی ہوا یا نہیں، اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ اگر وہ کوئی اور بات وہابیوں کی نہیں رکھتا(یعنی عقائد باطلہ) اور وہابیوں کو کافر(جو ان کی کتابوں میں کفری عبارات ہیں جن کی وجہ سے وہابی کافر ہیں) جانتا ہے تو صرف اتنا کہنے سے وہابی نہیں ہو سکتا_ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٩، صفحہ ٥٤٣، مطبوعہ برکات رضا پوربندر، گجرات، انڈیا) اس سے معلوم ہوا کہ فروعی عقائد و مسائل میں اختلاف سے آدمی کافر اور بدمذہب نہیں ہوتا بلکہ کافر وہی ہے جو مذکورہ بالا امور کا انکار کرے واللہ الھادی الی سواء السبیل والیہ المصیر

مسلمانوں کی تکفیر کرنے میں احتیاط!

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...