मंगलवार, 4 जुलाई 2017
بریلوی دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان __________________________________________ آج کے دور فتن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل علیہ الرحمہ رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کا منصب تجدید و ارشاد اتنا واضح ہوچکا ہے کہ اب وہ محتاج بحث و استدلال نہیں رہا۔ غیر جانبداری اور انصاف و دریافت کے ساتھ اسلام کے مذہب و مسلک کا مطالعہ کرنے والا یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بریلوی اسلام کے ماضی اور حال کے درمیان ایک عظیم رابطہ کی حیثیت سے اپنے وقت میں جلوہ گر ہوئے اور اپنی خداداد قوت علم و یقین اور لگاتار قلمی جہاد کے ذریعہ انہوں نے ملحدانہ قوتوں کی، ان ساری کوششوں کو ناکام بنادیا جو ہمارے فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کا رشتہ ہمارے مقدس ماضی سے منقطع کرنا چاہتے تھے۔ دراصل یہی ہے وہ منصب تجدید و ارشاد جس پر وقت کا ایک مجدد فائز ہوتا ہے۔ وہ کسی نئے مذہب و فکر کی بنیاد نہیں ڈالتا بلکہ اسی مذہب اسلام کو نئی توانائیوں اور صحیح تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو نقطہ آغاز سے لے کر ماضی کے بے شمار اشخاص و رجال کا ذریعہ اس تک پہنچا ہے۔ اس کی ساری جدوجہد اس نقطے پر مرکوز رہتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد کے ساتھ فکر و اعتقادکے زاویئے کا وہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے جس نے ماضی کے ہر دور میں کروڑوں افراد کو اسلام کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ مسلم معاشرہ کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کے لئے جس پر اسلام کے مقدس ماضی کی چھاپ لگی ہوئی ہے، وہ لوگوں سے جنگ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم اور مقدس ماضی کے وارث ہیں۔ اس لئے ماضی کے بزرگوں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے ہمیں کل کا کل قبول کرنا ہوگا۔ کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی اگر اجازت دے دی گئی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ کچھ چھوڑنے والے سبھی کچھ چھوڑ دیں اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں۔ یونہی کسی چھوٹی چیز کو اس پیمانے سے مت دیکھو کہ وہ چھوٹی ہے بلکہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھو کہ وہ ماضی کے مقدس بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ جو آج ماضی کی چھوٹی چیز کو ٹھکرا سکتا ہے، وہ کل ماضی کی بڑی چیز کو بھی ٹھکرا دے گا کیونکہ ماضی سے مربوط رہنے کا ذریعہ وہ حسن اعتقاد ہے جو ماضی کے بزرگوں کے ساتھ قائم ہے اور جب وہی مجروح ہوگیا تو آئندہ مسلمان باقی رہنے کی ضمانت کیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اسلام اس صراط مستقیم کا نام ہے جو صدیقین و صالحین کے قدموں کے نشانات سے پہچانا جاتا ہے، اس کے علاوہ سینکڑوں راہوں کے درمیان اسے ممیز کرنے کا اور کوئی محسوس ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ پس جسے اس گزر جانے والے فاصلے کے نقوش قدم کی پیروی سے انکار ہے اس کی حق میں دو ہی بات کہی جاسکتی ہے یا تو وہ اپنے تئیں اس منزل کا مسافر ہی نہیں ہے یا پھر گمشدگی اس کی تقدیر کا نوشتہ ہے۔ آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کوئی بھی تصنیف اٹھا لیجئے ایک روایاتی مجدد کا یہ انداز فکر آپ کو پوری کتاب میں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کسی بھی مسئلے پر اعلیٰ حضرت کا قلم جب اٹھتا ہے تو بالاتزام بحث و استدلال کی ترتیب یہ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے آیات قرآنی پھر احادیث کریمہ پھر آثار صحابہ پھر ارشادات تابعین و تبع تابعین پھر اقوال ائمہ مجتہدین پھر تصریحات، مشاہیر امت، تحریر و بیان کا یہ اسلوب اس نقطہ نظر کو پوری طرح واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مسئلے میں شارع کا منشاء معلوم کرنے کے لئے ماضی کے ہر مسند طبقے کے ساتھ منسلک رہنا نہایت ضروری ہے۔ اعتماد و وابستگی کا یہ سلسلہ الذہب کسی سے بھی ٹوٹ گیا تو ایمان و یقین کی سلامتی کو کبھی بھی خطرہ پیدا پیش آسکتا ہے۔ واقعات و حالات کی روشنی میں اگر آپ مذہبی امور میں آزادی رائے کی تاریخ کا تجزیہ کریں تو آپ کو تسلیم کرناہوگا کہ اپنے وقت کے مجدد کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا کہ چھوٹی چیز کو چھوڑنے والے ایک دن بڑی چیز کو بھی چھوڑ دیں گے اور سواد اعظم کی پیروی سے انکار کرنے والے ایک دن رسول ہی کی پیروی سے انکار کر بیٹھیں گے۔ چنانچہ تجربات شاہد ہیں کہ رسم کہہ کر جن لوگوں نے ماضی کے بزرگوں کی روایات سے لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی، انہیں کچھ مدت کے بعد اپنے ہی درمیان ایک ایسے طبقے کا سامنا کرنا پڑا جس نے یہ کہتے ہوئے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیا کہ وہ بھی ہماری ہی طرح ایک عام امتی ہیں… دین کے مسائل و احکام معلوم کرنے کے لئے ان مجتہدانہ صوابدید پر اعتماد کرنا ہمارے لئے کیا ضروری ہے۔ ہمیں بھی خدا نے فکر کی قوت بخشی ہے ہم براہ راست احادیث سے رابطہ قائم کریں گے۔ ہمارے لئے حدیث رسول کافی ہے۔ اقوال آئمہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ اقوال آئمہ اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ لیکن ابھی چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اسی دعوت انحراف کے بطن سے ایک تیسرے گروہ نے جنم لیا۔ اس نے بڑے طمطراق سے کہنا شروع کیا کہ دین دراصل خدا کا ہے۔ پیغمبر کی حیثیت تو صرف ایک قاصد کی ہے۔ دین کے متعلق خدا کی مکمل ہدایات قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس قرآن کافی ہے۔ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ احادیث اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ مسلمانوں کے فکری زوال اور قومی انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ یہ احادیث ہیں ۔بغاوت و الحاد کا یہ قیامت خیز فتنہ جب جوان ہوگیا اور سر پر چڑھ کر آواز دینے لگا تو اب لوگ بدحواس ہوکر سینہ پیٹ رہے ہیں کہ ہائے اسلام میں کتنا بڑا رخنہ ڈال دیا ان ظالموں نے۔ امت کا شیرازہ جس رشتے سے بندھا ہوا تھا اسی کو توڑ دیا۔ اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث کو چھوڑنے والے ایک دن قرآن کو نہیں چھوڑ دیں گے اور اس کے بعد بھی کہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ پہنچنے والے یہاں تک اچانک نہیں پہنچ گئے، انہیں الحاد و انکار کے متعدد مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس سے پہلے اعتماد و یقین کے کئی رشتے انہوں نے بتدریج توڑے، تب جاکر حدیث کے رشتے تک ان کا ہاتھ پہنچا…اس لئے مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلام میں رخنے کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن دہلی کے ایک ناخدا ترس باغی نے ’’بزرگوں کی رسم‘‘ کہہ کر ماضی کی متوارث روایات کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ اسلامی اقدار کے خلاف ایک نیا فتنہ عین اپنی ولادت کے وقت ہی کچل دیاگیا ہوتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن کیوں دیکھنا پڑتا… اور اس پر مزید ستم یہ کہ جو اسلام میں نئے فتنوں کا بانی تھا، اسے آج بھی ملت کا محسن سمجھا جاتا ہے اور جس نے اپنے خون جگر سے ایمان و یقین کے فیصلوں کی بنیاد مستحکم کی، اس کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں ہے۔ مسلم ہندوستان کی مذہبی تاریخ پر قلم اٹھانے والے جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور حقائق پسند کہتے ہیں، اگر انہوں نے دیدہ وا دانستہ احیائے ملت کی ایک عظیم تاریخ کے ساتھ بے اعتنائی برتی ہے تو یہ حقائق کے خلاف ایک کھلا ہوا تعصب ہے اور اگر انہوں نے ناواقفیت کی بنیاد پر تاریخ کی یہ اہم کڑی چھوڑ دی ہے تو سوا اس کے اور کیا کہا جائے گا کہ کچھ نہ لکھنا ایک گمراہ کن تاریخ لکھنے سے کہیں بہتر تھا۔ واقعات کے ساتھ انصاف کرنے والوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تجدید و ارشاد کو سمجھنے کے لئے جہاں اس دور کے مذہبی اور سیاسی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے وہاں ان کی فکری اور اخلاقی محرکات کا پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے جو اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات اور ان کی تصنیفات کے پیچھے ہیں… کیونکہ فکر و اعتقاد کے جن مقاصد کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اٹھے تھے وہ انفرادی نہیں تھے بلکہ ایک منظم گروہ اور ایک مربوط مکتبہ فکر کی پشت پناہی میںوہ پھیل رہے تھے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے وقت میں ’’دیوبندی جماعت‘‘ کے نام سے ایک ایسے الحاد پرور اور زمانہ ساز گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایک طرف اپنے آپ کو ’’حنفی‘‘ بھی کہتا تھا اور دوسری طرف ابن تیمیہ سے لے کر ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی تک، ان سارے آئمہ الحاد و فتن کے عقائد و افکار کا علمبردار بھی تھا جو سلف صالحین اور آئمہ اسلام کی بارگاہوں سے ٹھکرائے جاچکے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آئمہ اسلام کے اس باغی طبقے کے ساتھ جسے ہم غیر مقلدین کے نام سے جانتے ہیں، اعتقادی اور فکری رابطہ بھی قائم ہوگیا تھا اور دونوں گروہوں کے درمیان شاہ اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان جسے ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید کا اردو ایڈیشن کہنا چاہئے، بزرگان اسلام کے خلاف بغاوت کے لئے قدر مشترک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور دونوں گروہ اس کتاب کے گمراہ کن اور ایمان سوز مضامین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقدس ترین فریضہ سمجھتے تھے اور آج تک سمجھ رہے ہیں۔ غیر مقلدین کے ساتھ ان نام نہاد حنفی مقلدین کے گٹھ جوڑ نے نہ صرف یہ کہ حنفی مذہب کو نقصان پہنچایا اور غیر مقلدیت کے لئے مسلم معاشرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا بلکہ دونوں گروہوں کی مشترک جدوجہد سے زندگی کے بیشتر مسائل میں آئمہ اسلام اور سلف صالحین کے ساتھ عامہ مسلمین کے فکری رابطے کا اعتماد بھی مجروح ہونے لگا۔ اس طرح کے پیچیدہ اور سنگین ماحول میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اصلاح و ارشاد کا کام شروع کیا۔ آندھیوں کی زد پر چراغ جلانے کا محاورہ ہم نے سنا تھا لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی و دینی تاریخ میں یہ محاورہ حقیقت کا ایک پیکر محسوس بن گیا ۔بلاشبہ انہوں نے آندھیوں کی زد پر چراغ جلایا، قلم کی تلوار ہاتھ میں لے کر تنہا اترے اور عرب سے عجم تک مذہب اہلسنت کی حقانیت و صداقت کا سکہ بٹھادیا… مومنین کے قلوب میں سید کائناتﷺ کی عظمت و توقیر، سلف صالحین کی محبت و عقیدت اور شریعت طیبہ طاہرہ کے احترام کا جذبہ کچھ اس طرح جگایا کہ اہل ایمان کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ویسے ہندوستان میں اس وقت اس گروہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقہائے باطلہ تھے جن سے مسلمانوں کی مذہبی سلامتی کو نقصان پہنچا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان کے فتنوں سے بھی ملت کی تطہیر فرمائی لیکن خصوصیت کے ساتھ فتنہ وہابیت کے استحصال میں ان کے مجاہدانہ اقدامات نے امت کو ایک عظیم ابتلا سے بچالیا۔ فتنہ وہابیت کے استیصال کی طرف اعلیٰ حضرت کی خصوصی توجہ کا باعث یہ امر ہوا کہ اس فتنے کے علمبردار اپنے آپ کو حنفی کہہ کر، حنفی مسلمانوں میں بار پانے کی کوشش کررہے تھے اور حنفی مسلمانوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جو خیالات وہ ان کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ عین حنفی مذہب کے مطابق ہیں حالانکہ حنفی مذہب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان حالات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے شدت کے ساتھ یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر واضح اور مدلل بیان کے ساتھ اس فریب کا پردہ چاک نہ کیا گیا تو پاک و ہند کے احناف سخت گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک ایک اختلافی مسئلہ پر قرآن و حدیث اقوال آئمہ اور حنفی مذہب کی کتابوں سے دلائل و شواہد کا انبار لگا کر حنفیت اور وہابیت کے درمیان کھلا ہوا امتیاز قائم کردیا… فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کی مختلف سمتوں میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مجددانہ اصلاحات اور ان کی علمی خدمات کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا شعبہ سنی حنفی مسلمانوں کے وہ عقائد و روایات جنہیں دیوبندی حضرات شرک و حرام کہتے تھے، اعلیٰ حضرت نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور اسلام کی کتابوں سے روشن بیانات اور واضح دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ امور شرک اور حرام نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق اور آئمہ اور سلف صالحین کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہیں اور یہ امور کچھ آج کے ایجاد کردہ نہیں ہیں بلکہ اسلام کے ماضی سے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ لہذا جو ان امور کو شرک یا حرام کہتا ہے اس کا یہ حملہ ہم پر نہیں بلکہ ان اسلاف کرام پر ہے جن کے ساتھ وابستگی ہماری دینی سلامتی کی ضمانت ہے۔ اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل مباحث بطور امثال ملاحظہ فرمائیں۔ (1) تقبیل ابہامین (2) ندائے یارسول اﷲﷺ (3) عقیدہ شفاعت (4) عرس و فاتحہ (5) عقیدہ علم غیب (6) عقیدت حیات النبیﷺ (7) میلاد و قیام (8) توسل (9) نذر (10) تذکرہ شہادت کربلا (11) محافل گیارہویں (12) تثویب (13) استعانت بالانبیاء و الاولیاء (14) بناء قبا برمزارات (15) سفر بائے زیارت قبور انبیاء واولیاء وغیرہ اہلسنت کی یہ وہ مذہبی اور اعتقادی روایات تھیں جن پر دیوبندی گروہ کے علماء حملہ آور تھے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اہلسنت کی طرف سے ان کا دفاع فرمایا تھا۔ یہ روایات صدیوں سے امت مسلمہ کے اندر تمام شرق و غرب اور عرب وعجم میں رائج تھیں… اور آج بھی مسلم معاشرہ کی عظیم اکثریت کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں ان روایات پر عملدرآمد ہے۔ اس لئے کہنے دیجئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ دنیائے اسلام کے عظیم محسن ہیں جنہوں نے ان روحانی اور مذہبی نقوش کو مٹنے سے بچالیا جو عالم اسلام کو اپنے قابل تقلید اسلاف سے ورثے میں ملے تھے۔ دوسرا شعبہ دیوبندی فرقے کے وہ مخصوص عقائد جنہیں وہ تقریر و تحریر کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں پھیلا رہے تھے اور آج بھی ان کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور ازراہ فریب سادہ لوح عوام سے کہتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی عقائد ہیں جو قرآن و حدیث سے اخذ کئے گئے ہیں ایک سچے مسلمان کو انہی عقائد پر چلنا چاہئے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت مسلمہ کو عقیدے کے فساد سے بچانے کے لئے جس پامردی اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا وہ ایک مجدد ہی کی شان ہوسکتی ہے۔ وقت کی ساری باطل قوتوں کو اپنا حریف بنالینے کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کی بوجھل شہادتوں سے ان مصنوعی عقائد کی دھجیاں اڑادیں اور ہر کہہ و مہ پر آفتاب نیمروز کی طرح واضح کردیا کہ یہ عقائد سرتاسر باطل اور ایمان و اسلام کے لئے مہلک ہیں۔ مسلمانوں کو ان فاسد عقائد سے سخت اجتناب کرنا چاہئے اور کھلے بندوں ان کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں انہیں اعتماد کی جگہ نہ مل سکے۔ اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل دیوبندی عقائد بطور مثال ملاحظہ فرمائیں۔ (1) امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں۔ (2) صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں (تصفیۃ العقائد) (3) کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے (تصفیۃ العقائد) (4) انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے (5) نماز میں حضور اکرمﷺ کا خیال کرنا ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے (صراط مستقیم) (6) نماز میں حضورﷺ کا خیال لانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے اور اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے (صراط مستقیم) خدا کے لئے جھوٹ بولنا ممکن ہے (براہین قاطعہ، یکروزی وغیرہ) خدا کو زمان و مکان اور جہت سے پاک و منزہ سمجھنا گمراہی ہے (ایضاح الحق) (7) جادوگروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں (منصب امامت) (8) صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے (فتاویٰ رشیدیہ) (9) محمد یا علی جس کا نام ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں (تقویۃ الایمان) (10) ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے (تقویۃ الایمان) (11) رسول بخش، نبی بخش، پیر بخش، عبدالنبی، عبدالمصطفی، غلام معین الدین، غلام محی الدین نام رکھنا یا اسے پسند کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان) (12) یہ کہنا کہ خدا اور رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے (13) رحمتہ للعالمین ہونا حضورﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمتہ للعالمین ہوسکتے ہیں (فتاویٰ رشیدیہ) (14) بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے(فتاویٰ رشیدیہ) (15) حضورﷺ ہمارے بڑے بھائی ہیں اور ہم ان کے چھوٹے بھائی ہیں (تقویۃ الایمان) (16) جو حضورﷺ کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے (تقویۃ الایمان) (17) کسی نبی یا ولی کے مزار پر روشنی کرنا، فرش بچھانا، جھاڑو دینا، پانی پلانا اور لوگوں کے لئے غسل اور وضو کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان) وغیرہ انصاف اور دیانت کے ساتھ دیوبندی مکتبہ فکر کے ان عقائد پر غور فرمایئے… ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے وہ عقیدہ توحید و تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا عقائد و اعمال کی توثیق فرمائی ہے۔ اب ایک طرف ہمارے معتقدات و روایات پر جارحانہ حملہ نظر میں رکھئے اور دوسری طرف اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا یہ دفاعی کردار ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے ایک پرجوش وکیل اور ایک پرخلوص محافظ کی طرح امت کے سر سے کفر و شرک کے الزامات کا دفاع کیا ہے اور نہایت اخلاص و دیانت کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ امت کے جن عقائد و اعمال کو اہل دیوبند کفر و شرک کہتے ہیں وہ ایمان و اسلام کے بہترین مظاہر ہیں۔ اب جمہور اسلام کے افراد ہی اس کا فیصلہ کریں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے۔ اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچالیا ہے… عین شورش اور طوفان کی زد میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اور جن روحانی احساسات کو مٹنے سے بچایا ہے اگر آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے تو یہ فیصلہ جمہور ہی کو کرنا ہوگا کہ اپنے ایک جاں نثار وکیل اور ایک بے غرض محسن کو جذبہ محبت کے ساتھ یاد کیا جائے یا دشمن کے ناپاک پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر احسان فراموشوں کا رویہ اختیار کرلیا جائے۔ ان سوالوں کے جواب کے لئے آپ سے آپ ہی کے ضمیر کا انصاف چاہتا ہوں۔ تیسراشعبہ اکابر دیوبند کی بعض وہ عبادتیں جن میں انہوں نے رسول پاکﷺ کی شان مبارک میں صریح گستاخیاں کی تھیں اور ضروریات دین کا انکار کرکے دین سے خود اپنا رشتہ منقطع کرلیاتھا، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان توہین انگیز عبارتوں پر ان کا مواخذہ فرمایا اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا، آگے چل کر اس مطالبہ میں سادات حرمین طیبین اور بلاد عرب کے مشاہیر علماء و مشائخ بھی شریک ہوگئے اور اس طرح یہ کل عالم اسلام کا مطالبہ بن گیا… لیکن حق کے آگے جھکنے میں ان حضرات نے عار محسوس کیا اور نمائش دنیا کو فلاح آخرت پر ترجیح دی، نہ ان اہانت آمیز عبارتوں کو اپنی کتابوں سے حذف کیا اور نہ ہی ان سے رجوع فرمایا۔ بلکہ آج تک وہ ان اہانت آمیز عبارتوں کی اشاعت کرکے اہل اسلام کے جذبات کو مجروح کررہے ہیں۔ اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل عبارتیں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ (1) دیوبندی مذہب کے پیشوا… مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور نبی پاکﷺ کے علم شریف کو زوائل اور حیوانات وبہائم سے تشبیہ دے کر شان رسالت میں صریح توہین کا ارتکاب کیا۔ (2) براہین قاطعہ مصنفہ مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی و مصدقہ مولانا عبدالرشید صاحب گنگوہی میں ایک توہین آمیز عبارت لکھی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ روئے زمین کی بابت حضورﷺ کا علم شریف شیطان و ملک الموت کے علم سے کم ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ شیطان و ملک الموت کے علم کی وسعت نص (قرآن و حدیث) سے ثابت ہے۔ حضور پاکﷺ کی وسعت علمی پر کوئی دلیل نہیں۔ پس شیطان کے مقابلے میں جو حضورﷺ کی وسعت علمی کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے۔ (3) بانی دارالعلوم دیوبند… مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں اس امر کی صراحت فرمائی کہ آیت قرآنی میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ سے حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا یہ عوام کالتعام کا، شیوہ ہے امت کے قابل اعتماد طبقے کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ دوسری جگہ لکھا کہ حضورﷺ کے بعد بالفرض کوئی نیا نبی پیدا ہو جب بھی حضورﷺ کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ (4) دیوبندی مذہب کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی کے ایک مرید نے عین حالت بیداری میں بہ سلامتی ہوش و حواس انہیں نبی کہہ کر انہیں بایں الفاظ میں درود بھیجا اللھم صلی علی سیدنا ونبینا اشرف علی اور ایسا کئی بار کیا اور عذر لنگ یہ تراشا کہ مجبور ہوں، بے اختیار ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں اور واقعہ کی یہ تفصیل اپنے پیر تھانوی صاحب کو لکھ بھیجی۔ بجائے اس کے کہ پیر صاحب اسے تنبیہ کرتے اسے توبہ کراتے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور اسے تسلی دی (رسالہ الامداد بابت ماہ صفر 1336ھ) ان عبارتوں پر شرعی مواخذات کی تفصیل ان حفظ الایمان کی عبارت پر اعلیٰ حضرت نے یہ مواخذہ فرمایا کہ اس میں لفظ ایسا کے ذریعے حضور ﷺ کے علم پاک کو زوائل اور حیوانات وبہائم کے علم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور یہ امر مابین عقلا و اہل لسان مسلم ہے کہ زوائل کے ساتھ تشبیہ میں توہین کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا اس عبارت میں علم نبوت کی صریح توہین ہے اور توہین شان نبوت چونکہ کفر ہے اس لئے قائل کو توبہ صحیحہ شرعیہ تجدید اسلام کرنا چاہئے۔ (2) براہین قاطعہ کی عبارت پر اعلیٰ حضرت نے تین الزامات قائم فرمائے۔ پہلا الزام تو یہ ہے کہ اس میں شیطان و ملک الموت کے مقابلے میں حضورﷺ کے علم پاک کی تنقیص کی گئی ہے اور نبی کے علم کی تنقیص ازروئے کتاب و سنت و باتفاق مشاہیر اسلام کفر ہے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ اس عبارت میں شیطان و ملک الموت کی وسعت علمی کو نص سے (قرآن و حدیث) سے ثابت مانا گیا اور حضورﷺ کی وسعت علمی کے لئے دلیل کا کلیۃ انکار کردیا گیا جو خلاف واقعہ ہونے کے علاوہ شیطان اور ملک الموت کے مقابلے میں نبیﷺ کی تنقیص کا موجب بھی ہے۔ تیسرا الزام یہ قائم فرمایا کہ اس عبارت میں نبی کی وسعت علم کے اعتقاد کو شرک قرار دیا گیا لیکن شیطان و ملک الموت کے حق میں یہی وسعت علم کا اعتقاد عین اسلام بن گیا۔ اب حقیقت کا فیصلہ دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہا جائے کہ کتاب کے مصنفین نے شرک کا حکم غلط لگایا ہے اور اگر صحیح لگایا ہے تو یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ لوگ شیطان و ملک الموت کو خدا کا شریک سمجھتے ہیں۔ (3) تحذیر الناس کی عبارت پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا الزام یہ ہے کہ اس میں لفظ خاتم النبیین سے حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا عوام کا خیال بتایا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقت امر اور قرآن و حدیث کے مفاد کے اعتباد سے حضور آخری نبی نہیں ہیں کیونکہ مصنف کے نزدیک حقیقت امر اور قرآن و حدیث کی رو سے بھی اگر حضورﷺ آخری نبی ہوتے تو یہ ہرگز نہ کہا جاتا کہ حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا عوام کاخیال ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضور کے آخری نبی ہونے کا انکار اسلام میں صریح کفر ہے۔ اور دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی بالفرض کوئی نبی پیدا ہو تو حضورﷺ کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ اس بات کو ہم پہلی بات کا لازمی نتیجہ کہہ سکتے ہیں یعنی جب ان کے نزدیک حضورﷺ آخری نبی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ بغیر کسی قباحت شرعی کے حضورﷺ کے بعد دوسرا نبی آسکتا ہے کیونکہ مانع حضورﷺ کا ’’آخر‘‘ ہونا تھا اور جب اسی کا انکار کردیا گیا تو مانع کہاں رہا… لہذا جس نئے نبی کو بالفرض کی صورت میں تسلیم کیا گیا تھا جب وہ مفروضہ نبی، غلام احمد کی صورت میں واقع ہوگیا تو اب عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد پر اہل دیوبند اس کا کیونکر انکار کرسکتے ہیں؟ (4) الامداد کی عبارت پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا الزام یہ ہے کہ غیر نبی کو نبی کہنا کفر ہے اور کفر کی حوصلہ افزائی اور اپنی خوشنودی کا اظہار بھی کفر ہے لہذا قائل بالکفر اور راضی بالکفر دونوں ایک ہی الزام کی زد میں ہیں۔ باقی رہے گا زبان کے بے قابو ہونے کا عذر تو کفر اور ناروا کلمات منہ سے نکالنے کے لئے شریعت اس طرح کا عذر لنگ ہرگز تسلیم نہیں کرتی۔ اختصار کے ساتھ مذکورہ بالا عبارتوں پر اعلیٰ حضرت کے شرعی الزامات کی جو میں نے تشریح کی ہے اس کی روشنی میں اہل علم حضرات غور فرمائیں کہ اعلیٰ حضرت نے ان لوگوں سے توبہ ورجوع کرنے کا جو فیصلہ فرمایا تھا وہ معقول بنیاد پرمبنی تھا یا بے بنیاد تھا۔ چوتھا شعبہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی خدمات کا چوتھا شعبہ وہ مذہبی اور اخلاقی اصلاحات ہیں جو مسلم معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط رسموں اور برائیوں کے خلاف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے انجام دیئے اور ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر نئے مسائل پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی وہ بلند پایہ تحقیقات اور فکری نوادرات ہیں جنہیں دیکھ کر علمائے عرب نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی فقہی بصیرتوں اور علمی عظمتوں کا لوہا مان لیا۔ معاملات و عبادات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن اغلاط و مفاسد کی اصلاح فرمائی، وہ ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے اعلیٰ حضرت کے فتاوے میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ اگر انہیں منتخب کرکے ایک جگہ جمع کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے خاص طور پر فتاویٰ رضویہ کے وہ مباحث جو محافل میلاد، اعراس، زیارت قبور، مراسم محرم اور خوشی و غمی میں غلط رسم و رواج اور غیر اسلامی امور کی اصلاحات پر مشتمل ہیں وہ ان لوگوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہیں جو اعلیٰ حضرت کو بدعت نواز کہتے ہیں۔ اس مقالے کی آخری سطریں لکھتے ہوئے اپنے عنوان کے متعلق وہ لفظ کہنا چاہتا ہوں، یہ بات اب محتاج بحث نہیں کہ پاک وہند میں اپنے آپ کو حنفی کہنے والے دو بڑے مکاتب فکر میں منقسم ہوگئے ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکراور دیوبند مکتبہ فکر۔ میرا یہ مقالہ دونوں مکتبہ فکر کے تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ ہی کے ذمے ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اہل دیوبند کے مقابلے میں جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اگر وہی اہلسنت کا مذہب ہے تو لازما یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بریلوی مکتبہ فکر ہی مذہب اہلسنت کا صحیح ترجمان ہے۔ پس دعا کیجئے کہ مولائے کریم اس امام اہلسنت کے مرقد پر صبح و شام اپنی رحمتوں کے پھول برسائے جس کا نام احمد رضا علیہ الرحمہ ہے اور جس نے اپنے ناموس کو خطرے میں ڈال کر اپنے آقا کے ناموس کا تحفظ کیا اور پھر جس نے اپنے محبوب کی خوشنودی کے آگے کسی کی خوشنودی کی پرواہ نہیں کی۔ اپنے سلطان کا ایک مستغنی گدا جس نے ارباب سیر وکلاہ کی طرف کبھی نگاہ نہیں اٹھائی، حق کا ایک بے لوث علمبردار جسے زمانہ کسی قیمت پربھی خرید نہیں سکا۔
सदस्यता लें
टिप्पणियाँ भेजें (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें