शुक्रवार, 7 जुलाई 2017

ٹیسٹ ٹیوب بے بی سے بچے کی ولادت کا سرعی حکم ____________________________________________ جیسے صحت مند انسان کھانا منہ سے کھاتا ہے جو کھانے کا فطری طریقہ ہے لیکن اگر وہ ایسا بیمار ہوجائے کہ منہ کے ذریعے کھانے پر قادر نہ ہو تو اسے ناک کے ذریعے نلکی سے غذا دی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی عملِ تزویج کا ایک فطری طریقہ ہے جسے جماع کہتے ہیں اگر میاں بیوی صحت مند ہیں تو پابند ہیں کہ حصولِ اولاد کے لیے فطری طریقے کو اختیار کریں لیکن اگر مرد یا عورت یا دونوں کسی خرابی کی بناء پر فطری طریقے سے اولاد حاصل نہ کرسکیں تو اسکے لیے آج کے دور میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ ان مختصر سطور میں اولاً ان صورتوں کا ذکر کیا جائے گا جن میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا استعمال جائز ہے ۔ اور آخر میں اس پر متفرع شرعی احکام کو بیان کیا جائے گا۔ جواز کی صورتیں: (١)مرد جماع پر قادر نہیں ۔ (٢)جماع پر قادر ہے مگر اسکے مادئہ تولید میں جرثوموںکی مقدر اتنی کم ہے کہ اولاد کا حصول اس حالت میں بہت دشوار ہے ۔ (٣)مردہر لحاظ سے صحت مند ہے مگر بیوی ایسی بیمار ہے کہ جماع کے ذریعے اولاد کا حصول ناممکن یا مشکل ہے۔ ان سب صورتوں میں اس اطمینان کے بعد کہ شوہر ہی کا نطفہ اسکی بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائیگاٹیسٹ ٹیوب بے بی کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ دورِ حاضر میں اللہ تعالی کی عطا فرمودہ بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ابوداؤد شریف میں ہے: لایحل لامراء یؤمن باللہ والیوم الاخر ان یسقی ماء ہ زرع غیرہ اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو حلال نہیں کہ اپنے پانی سے غیر کی کھیتی کو سیراب کرے۔ (ابوداؤد شریف ج١،ص٢٩٣،مطبوعہ :مجتبائی لاہور) چنانچہ الفقہ الاسلامی وادلتہ کے باب سابع الحظر والاباحۃ میں ہے: التلقیح الصناعی:ہو استدخال المنی لرحم المرأۃ بدون جماع. فإن کان بماء الرجل لزوجتہ، جاز شرعاً، إذ لا محذور فیہ، بل قد یندب إذا کان ہناک ما نع شرعی من الاتصال الجنسی.وأما إن کان بماء رجل أجنبی عن المرأۃ، لا زواج بینہما، فہو حرام؛ لأنہ بمعنی الزنا الذی ہو إلقاء ماء رجل فی رحم امرأۃ، لیس بینہما زوجیۃ. ویعد ہذا العمل أیضا منافیاً للمستوی الإنسانی، ومضارعاً للتلقیح فی دائرۃ النبات والحیوان. (جلد چہارم ص٢٦٤٩ مطبوعہ: شام) مرد کانطفہ مصنوعی طریقہ سے عورت 'کی اندام نہانی' میں ڈالنا: وہ منی کا عورت کی اندام نہانی میں بغیر جماع کے داخل کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر 'یہ عمل' شوہر کے نطفہ کیساتھ ہو اسکی زوجہ کے لیے تو شرعاً جائز ہے جس میں کوئی پرہیز نہیں بلکہ کبھی مستحب بھی ہوتا ہے جبکہ وہاں جنسی میلاپ سے مانع شرعی موجود ہو۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر 'یہ عمل 'اجنبی مرد کے نطفہ کیساتھ ہو عورت سے،جن کے مابین نکاح نہیں تو حرام ہے کیونکہ یہ معنیً زنا ہے۔کہ زنا: مرد کا نطفہ اس عورت کی اندام نہانی میںڈالنا ہے جن کے درمیان نکاح نہ ہو اور اس عمل کو بھی انسانی منافع وصول کرنے کے منافی شمار کیا جاتا ہے۔ البتہ اس عمل میں بظاہر دو خرابیاں لازم آتی ہیں ایک مرد کا ارتکابِ جلق جو حرام ہے ۔ دوسرا عورت کا لیڈی ڈاکٹر اور اسکے عملے کے روبرو عورت کا کشف۔ جلق کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں ضروری نہیں کہ مرد کو جلق کا ارتکاب کرنا پڑے کیونکہ عزل اور استمتاء ببدن المرأۃ سے بھی یہ حاجت پوری ہوسکتی ہے۔ اور کشفِ عورت کا جواب یہ ہے کہ اسکی ممانعت عام حالات میں ہے، ضرورت کے اوقات میں کشف جائز ہے۔ جیسے : مردِ بالغ جسکا ختنہ نہ ہوا ہو دوسرے مرد سے ختنہ کراسکتا ہے بلکہ عورت بھی عورت سے ختنہ کراسکتی ہے حالانکہ یہ عمل بغیر کشفِ عورت کے ممکن نہیں ۔ اور اولاد کا حصو ل بھی ایک ضرورت ہے جسکی خواہش سے حضرات انبیاء علیھم السلام بھی مستثنیٰ نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ عمل از قبیل علاج ہے اور علاج معالجہ میں عورت عورت کے سامنے چھپے اعضاء کو کھول سکتی ہے حتی کہ شدید ضرورت میں مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی کھول سکتی ہے۔ ایسے ہی شریعت میں اسکی اجازت ہے کہ مرد اپنی مخطوبہ کو دیکھ سکے ۔ حالانکہ عام حالات میں دیکھنے کی اجازت نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: ومن أراد أن یتزوج امرأۃ فلا بأس بأن ینظر إلیہا وإن علم أنہ یشتہیہا" لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام فیہ: "أبصرہا فإنہ أحری أن یؤدم بینکما" ولأن مقصودہ إقامۃ السنۃ لا قضاء الشہوۃ جس نے کسی عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو اسکی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اس کو اس بات کا یقین ہو کہ اسکو اسکی شہوت ہوگی بوجہ آپ ؐ کے فرمان کے اس کے بارے میں کہ اسکو دیکھ لو یہ زیادہ لائق ہے کہ تم دونوں کے درمیان موافقت پیدا کرادی جائے اور اس لیے کہ اسکا مقصود سنت کو قائم کرنا ہے نہ کہ قضاء شہوت۔ اسی میں ہے: ویجوز للطبیب أن ینظر إلی موضع المرض منہا" للضرورۃ "وینبغی أن یعلم امرأۃ مداواتہا" لأن نظر الجنس إلی الجنس أسہل "فإن لم یقدروا یستر کل عضو منہا سوی موضع المرض ''ثم ینظر ویغض بصرہ ما استطاع؛ لأن ما ثبت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا وصار کنظر الخافضۃ والختان. "وکذا یجوز للرجل النظر إلی موضع الاحتقان من الرجل" لأنہ مداواۃ طبیب کے لیے ضرورت کی وجہ سے عورت کے موضع مرض کو دیکھنا جائز ہے اور مناسب یہ ہے کہ کسی عورت کو اسکا علاج سکھلادے کہ جنس کا جنس کی طرف دیکھنا زیادہ آسان ہے اگر وہ قادر نہ ہو تو عورت کا ہر عضو مرض کی جگہ کے علاوہ چھپادیا جائے پھر طبیب دیکھے اور جہاں تک ہوسکے اپنی نظر کو نیچی رکھے کہ جو چیز ضرورت کیوجہ سے ثابت ہوتی ہے وہ بقدرِ ضرورت ثابت ہوتی ہے اور یہ ایسے ہے جیسے خافضہ اور ختان کا دیکھنااور یونہی مرد کے لیے مرد کے حقنہ کی جگہ کو دیکھنا 'بھی' جائز ہے کیونکہ احتقان علاج ہے۔ (ہدایہ ،کتاب الکراہیۃ ،فصل فی الوطء والنظر واللمس ٤٠٩ ، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کراچی) ٹیسٹ ٹیوب بے بی پر متفرع احکام : (١)ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہوگا یعنی عورت اسکی ماں اور مرد اسکا باپ کہلائے گا ۔ سینکڑوں برس پہلے فقہاء نے ایک جزئیہ تحریر فرمایا اس دور میں وہ محض فرض جزئیہ تھا مگر اس دور میں وہ حقیقتِ واقعیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ فتح القدیر میں اسکا خاص جزئیہ ملاحظہ ہو: وما قیل: لا یلزم من ثبوت النسب منہ وطؤہ لأن الحبل قد یکون بإدخال الماء الفرج دون جماع فنادر اور وہ جو کہا گیا کہ اس سے ثبوتِ نسب سے اس مرد کا وطی کرنا لازم نہیں آتا اسلیئے کہ حمل کبھی جماع کے علاوہ اندام نہانی میں منی داخل کرنے سے بھی ہوتا ہے 'یہ 'نادر ہے۔ (ج:٤،ص:١٧١،مطبوعہ: مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر) اور ''المغنی''لابن قدامہ میں ہے: وقد قیل: إن المرأۃ تحمل من غیر وطء بأن یدخل ماء الرجل فی فرجہا، إما بفعلہا أو فعل غیرہا. بے شک عورت وطی کے علاوہ 'بھی'حاملہ ہوتی ہے بایں طرح کہ مرد کا نطفہ اسکی اندام نہانی میں داخل ہوجائے یا توخود اس عورت کے فعل سے یا اسکے علاہ کے فعل سے۔ (ج:١،ص:١٨٧،مطبوعہ: بیروت) (٣)وارث و مورث ہوگا یعنی یہ ان میاں بیوی کا وارث ہوگا اور وہ دونوں اس کے وارث ہوں گے ۔ ایسے ہی رشتوں کی حلت و حرمت اور رضاعت کے احکام ویسے ہی مرتب ہوں گے جیسے نارمل طریقہ پر پیدا ہونے والے بچوں کے ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب ثبوت نسب کی فرع ہیں جب نسب ثابت ہوگیا تو اسپر متفرع مسائل بھی ثابت ہونگے۔ وھو تعالیٰ اعلم بالصواب از:قلم مفتی محمد ابراہیم قادری (رکن اسلامی نظریاتی کونسل) سوال، ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کرنا:۔ سائنس کی ترقی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ''ٹیسٹ ٹیوب'' کے ذریعہ بچہ پیدا کرنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ یہ ایک خاص قسم کی ٹیوب ہے ، جس میں عورت کے رحم سے بیضئہ تولید کو نکال کر رکھا جاتا ہے ۔ پھر مرد کی منی نکال کر اس بیضہ میں ڈالی جاتی ہے ۔ اس طرح دونوں کے ملاپ سے بیضہ میں سلیس (Cells) جس کی افزائش ہوتی رہتی ہے، جب یہی سیل رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے مخصوص مطلوبہ قوت کے حامل ہوجاتے ہیں تو ان دونوں مادوں (مادئے تولید و بیضئہ تولید) کو کسی عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے ، عورت کے رحم میں نوماہ نشوونما پانے کے بعد بچہ کی ولادت ہوتی ہے۔ بیضئ تولید نکالنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جن ایام میں عورت کے رحم کی نلی میں قدرۃً بیضئہ تولید تیار ہوتا ہے انہیں ایام میں عورت کے ناف کے نیچے تھوڑا سا شگاف کر کے ایک مخصوص آلہ (دوربین) کے ذریعہ بیضہ کا پتہ لگایا جاتا ہے ، پھر نالی میںموجود بیضہ کو باہر نکال لیا جاتا ہے۔ مرد کا مادئی تولید ہاتھ کے ذریعہ نکالا جاتا ہے ۔ پھر دونوں کو ایک مخصوص قسم کی ٹیوب میں جمع کیا جاتا ہے ۔ جب دونوں کے باہمی ملاپ سے اس بات کا اطمینان ہوجاتا ہے کہ اب اس سے استقرار ہوجائے گا ، تو اسے مخصوص ٹیوب کے ذریعہ عورت کی شرمگاہ کے راستے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب'' کے استعمال کی حاجت اس وقت پیش آتی ہے ، جب قدرتی طور پر یامرض وغیرہ کی وجہ سے رحم کی نالیوں کے راستے عورت کے رحم میںبیضئ تولید پہونچ نہیں پاتا۔ ایسی صورت میںعورت و مرد کی فطری مباشرت سے بچہ پیدا ہونے کا امکان نہیں رہ جاتا ، اس لئے ''ٹیسٹ ٹیوب'' کے ذریعہ دونوں مادوں کو مخصوص طریقے سے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ جانوروں کے بچہ پیدا کرنے میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہزاروں انسان اس سے پیدا ہوچکے ہیں اور مختلف ممالک میں یہ عمل جاری ہے۔ ان حالات میں ہم پر شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طریقہ و عمل کے جواز و عد م جواز کا حکم واضح کرکے صحیح اسلامی نقطئہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:۔ ۱۔ کیاٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کرنا شرعاً جائز ہے؟ ۲۔ اگر جواب نفی میں ہوتو کیا اولاد حاصل کرنے کی ضرورت کے پیش نظر یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ ۳۔ اگر کسی عورت نے اپنے رحم میں غیر شوہر کی منی داخل کرلی ، تو کیا وہ زانیہ کہلائے گی ؟ اگر اس سے اولاد پیدا ہوئی تو وہ ثابت النسب ہوگی یا نہیں؟ ۴۔ حلال یا حرام جانور کے رحم میں کسی حلال یا حرام جانور کا مادہئ تولید بذریعہ ٹیسٹ ٹیوب داخل کر کے بچہ پیدا کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ امید ہے کہ ان سوالات کے تشفی بخش جواب سے شاد کام فرمائیں گے ۔ فقط و السلام مفتی آل مصطفی مصباحی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف وخاد م جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی جواب ٹیسٹ ٹیوب کے متعلق طے شدہ امور:۔ ۱۔ حصول اولاد کے لئے ٹیسٹ ٹیوب کے استعمال کے جواز و عدم جواز پر بھرپور بحث و تمحیص کے بعد یہ طے ہوا کہ ٹیسٹ ٹیوب کے استعمال کی ایک صورت کے سوا تمام صورتیں باتفاق رائے ناجائز ہیں۔ جس ایک صورت کے جواز میں اجلاس میں اختلاف کیا گیا وہ صورت یہ ہے کہ مرد کا نطفہ عزل کے ذریعہ ٹیوب میں محفوظ کیا جائے اور اسے رحم زوجہ میں براہ فرج یا بواسطئ انجکشن خود زوجہ کا شوہر داخل کرے اس کے عدم جواز پر بھی کثرت رائے ہے صرف مولانا معراج القادری و مولانا آل مصطفی و مولانا رحمت اﷲ و مولانا اختر حسین علیمی و مولانا احتشام الدین صاحبان جواز کے قائل ہیں ، لیکن یہ صورت بہت ہی نادرہے اور اس کی وجہ سے ناجائز صورتوں کا فتح باب مظنون بہ ظن غالب ہے نیز ٹیسٹ ٹیوب کا عمل غیر ماہر کے ذریعہ سے ہونے میں ہلاک زوجہ کا احتمال قوی ہے اس لئے باقی تمام مندوبین نے اس صورت کو بھی ناجائز قرار دیا اور جو حضرات جواز کے قائل تھے انہوں نے بھی بوقت تحریر فیصلہ اس صورت کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم ۲۔ بالفرض اگر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا ہوا تو وہ شوہر سے ثابت النسب ہے ۔ فان النسب أمر مہتم بہ حتی لا ینتفی بنفی الزوج إلا بعد اللعان بینھما۔ واﷲ تعالیٰ اعلم ۳۔ اگر کسی عورت نے غیر شوہر کی منی رحم میں داخل کرلی تو وہ زانیہ نہ کہلائے گی۔ فان الزنا موقوف علی ادخال الحشفۃ فی الفرج وہو ھھنا معدوم، پیدا شدہ بچہ ثابت النسب ہوگا اور بے لعان زوجین نسب منتفی نہ ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم چوتھافقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف بمقام: مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعة الرضا بریلی شریف یوپی انڈیا مورخہ ١٢/١٣/رجب المرجب ١٤٢٨ھ مطابق ٢٨/٢٩/جولائی ٢٠٠٧ء

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...