रविवार, 30 जुलाई 2017

شرک کسے کہتے ہیں ؟ ____________________________________________ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے۔ (بہارِ شریعت جلد 1, صفحہ 55 ( وقار الفتویٰ جلد 1 , صفحہ 270 ) شرک کی جامع تعریف اور وضاحت و تفصیل مکمل پڑھیں حضرت علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب شرح عقائدِ نسفی میں شرک کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں کسی کو شریک ٹھرانے سے مراد یہ ہے کہ ” مجوسیوں (آگ کی عبادت کرنے والے) کی طرح کسی کو اِلہٰ (عبادت کے لائق) اور واجب الوجود سمجھا جائے یا بُت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے”۔ شرک کی تعریف سے معلوم ہوا کہ دو خداؤں کو ماننے والے جیسے مجوسی (آگ پرست) مشرک ہیں اسی طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا بھی مشرک ہوگا جیسے بُت پرست جو بتوں کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہیں۔ شرک کی تین اقسام ہیں: ۔(1)شرک فی العبادۃ(2)شرک فی الذات(3)شرک فی الصفّات ۔(1)شرک فی العبادۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے۔ ۔(2)شرک فی الذات سے مراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا،جیساکہ مجوسی دو خداؤں کو مانتے ہیں۔ ۔(3)شرک فی الصفّات سے مراد ہے کہ کسی ذات وشخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں یا کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں، کسی زندہ میں مانی جائیں یا فوت شدہ میں، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں یا دور والے میں، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گا جو ناقابل ِمعافی جرم، سب سے بڑا گناہِ کبیرہ اورظلمِ عظیم ہے۔ شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتا ہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتا ہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں۔ ۔(1)اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے،القراٰن ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤف اور رحیم ہے۔(سورۂ بقرہ،آیت143،پارہ2 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہے۔ ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مؤمنوں پر رؤف اور رحیم ہیں۔(سورۂ توبہ،آیت128،پارہ 11 پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی رؤف اور رحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اور رحیم ہے جبکہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اور رحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اور عطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔ ۔(2)علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ: تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ (سورۂ نمل،آیت65،پارہ20) جبکہ دوسری جگہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ ترجمہ:غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتا ہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا۔ (سورۂ جن،آیت26/27،پارہ29) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اور عطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔ ۔(3) مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتا ہے کہ ترجمہ: یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے۔(سورۂ محمد،آیت11،پارہ26 جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ ترجمہ: بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک مؤمنین مددگار ہیں۔ (سورۂ تحریم،آیت4،پارہ28) پہلی آیت پر غور کریں تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اور اولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا،تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر مددگار ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام اور اولیاء کرام،اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں۔ جو ذات باری تعالیٰ عطا فرما رہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جارہا ہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اورجب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟ خوب یاد رکھیں! جہاں باذنِ اللہ اور عطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اور ناممکن ہوجاتا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ شرک پر متفق نہیں ہوگی،جیساکہ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم!میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے۔ (بخاری شریف جلد اول،کتاب الجنائز،رقم الحدیث1258،ص545،مطبوعہ شبیر برادرز لاہور-مسلم شریف،کتاب الفضائل،رقم الحدیث30،مطبوعہ استنبول ترکی) جیسے اللہ کے سوا کوئی صدیق اکبر ھو سکتا ھے کیا ؟؟ سب سے بڑا صدیق تو اللہ پاک ھی ھے نا تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنه صدیق اکبر کیسے ھو گئے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ فاروق اعظم تو اللہ تعالی کی ذات ھی ھے نا تو پھر کیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنه فاروق اعظم بنے ؟؟؟؟؟ قرآن کہتا ھے اللہ غنی ھے پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنه کیونکر غنی ٹھرے ؟؟ اللہ پاک کے 99 اسماء حسنیٰ پڑھیں اللہ کا نام بھی علی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنه بھی علی ؟؟ اللہ بھی حي اور قرآن نے انسان کو بھی حي کہا اللہ بھی سمیع و بصیر اور قرآن نے انسان کو بھی سمیع و بصیر کہا اللہ بھی رؤف و رحیم قرآن نے نبی معظم ﷺ کو رؤف و رحیم کہا اللہ بھی کریم قرآن نے نبی رحمت ﷺ کو بھی کریم کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رب تو اللہ پاک کی ذات ھی ھے نا تو پھر کیوں قرآن نے 2 جگہ غیر اللہ کو رب کہا ایک جگہ والدین کو اور ایک جگہ یوسف علیہ السلام کے عہد کے بادشاہ کو ۔۔۔۔۔ ۔ اور سعودیہ میں ھر ھر فیملی کارڈ پہ لکھا ھے رب الاسراء یعنی خاندان کا رب کون ھے آگے گھر کے سربراہ کا نام لکھا ھے قرآن نے اللہ کو کفیل کہا سعودیہ میں گھر گھر کفیل ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے الملك اللہ کو کہا آپ کے پوری خلیج میں الملك ھیں ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے اللہ پاک کو بھی قوی کہا اور افریت جن جس نے حضرت سیلمان علیہ السلام کو ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا کہا اسے بھی قوی کہا اللہ نے قرآن میں اپنے آپ کو حفیظ و علیم کہا اور یہی قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کو حفیظ و علیم کہا اللہ نے اپنے عرش کو بھی عرش عظیم کہا اور قرآن نے ملکہ سبا بلقیس کے تخت کو بھی عرش عظیم کہا ۔۔۔۔۔ اللہ کے اسماء میں المومن بھی ھے اور ھم بھی مومن سینکڑوں مثالیں قرآن پاک میں بھری پڑھی ھیں اسماء الحسنیٰ اور اسماء الرسول 70 % ایک ھی ھیں اسلوب قرآنی کو سمجھیں جب بھی داتا، مشکل کشا، حاجت روا، رب، غوث اعظم ، کریم، روف و رحیم ،حفیظ و علیم غنی، سمیع و بصیر، حي کا اطلاق یا اشارہ مخلوق کی طرف ھو گا تو وہ معنی مجازی عطائی اور غیر مستقل ھوں گے اور جب اللہ رب العزت کی طرف ھو گا تو معنی مطلق حقیقی ذاتی اور مستقل ھوں گے ورنہ تو کوئی ایک بھی کفر و شرک سے نہیں بچ سکے گا ۔ ایک فرق یاد رکھیں اللہ واجب الوجود ھے اور کائنات کی ھر چیز ممکن الوجود یہاں شرک کی موت ھو گئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طور پر قرآن پاک کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...