मंगलवार, 4 जुलाई 2017
کیا وہابی نجدی امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو جن لوگوں نے ہند و پاک میں ایسے لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور جو لوگ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں حج کے موقع پر حرمین طیبین میں ایسے لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ___________________________________________ تمام اہلِ اسلام کے نزدیک یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ کسی امام کے پیچھے صحتِ اقتداء کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی۔ جس کے لئے مقتدی و امام کے مابین ایک مخصوص رابطہ قائم ہوجانا ضروری ہے۔ اس مخصوص رابطہ کے بغیر صحتِ اقتداء متصور نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ رابطہ ظاہری، مادی ا ور جسمانی نہیں بلکہ یہ رابطہ صرف باطنی، روحانی اور اعتقادی ہے جسکا وجود امام اور مقتدی کے درمیان اصولی اعتقاد میں موافقت کے بغیر ناممکن ہے۔ شرک توحید کے منافی ہے اور کفر و جاہلیت اسلام اور ایمان سے قطعاً متضاد ہے۔ اگر مقتدی جانتا ہے کہ میرا کوئی عقیدہ امام کے نزدیک شرک جلی یا کفر و جاہلیت ہے تو دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ رہی اور اس عدم موافقت کے باعث صحت اقتداء کی بنیاد منہدم ہوگئی۔ ایسی صورت میں اس امام کے پیچھے اس کی نماز کا صحیح ہونا کیوں کر متصور ہوسکتا ہے؟ اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ مثلاً کسی منکر ختم نبوت کے پیچھے کسی مسلمان کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ مقتدی ختم نبوت کا اعتقاد رکھتا ہے اور امام ختم نبوت کا منکر ہے۔ دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ ہونے کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد باقی نہ رہی۔ لہٰذا نماز نہ ہوئی توضیح مدعا کے لئے ہدایہ سے ایک جزئیہ کا خلاصہ پیش کرتا ہوں کہ اگر امام کی جہت تحری مقتدی کی جہت تحری سے مختلف ہو اور تاریکی یا کسی اور وجہ سے مقتدی کو اس اختلاف کا علم نہ ہوسکے تو اس کی نماز درست ہے اگر مقتدی امام کی جہتِ تحری کا علم رکھتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔ صاحبِ ہدایہ نے اس فساد کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا لِاَنَّہٗ اِعْتَقَدَ اِمَامَہٗ عَلَی الْخَطَائِ یعنی فسادِ صلوٰۃ کی دلیل یہ ہے کہ مقتدی نے اپنے امام کے خطاء پر ہونے کا اعتقاد کیا۔ اس سے واضح ہوا کہ نماز درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مقتدی امام کے خطاء پر ہونے کا معتقد نہ ہو یعنی مطابقتِ اعتقادی ضروری ہے بشرطیکہ مقتدی امام کی خطاء سے باخبر ہو اگر وہ امام کی خطاء سے لا علم ہے تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجاتی ہے۔ اس مختصر تمہید پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ مقتدی جب یہ جانتا ہو کہ امام کے اعتقاد میں رسول اللہ ﷺ کے لئے علم غیب ماننا کفر و شرک ہے اور امام کے عقیدے میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے استمداد بلکہ توسّل تک شرک ہے اور امام مزاراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام و مزاراتِ اولیائے عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کے لئے سفر کرنے بلکہ مزارات کی تعظیم تکریم کو بھی شرک قرار دیتا ہے اور مقتدی ان تمام امور کو توحید اور اسلام کے عین مطابق سمجھتا ہے تو ایسی صورت میں عدم موافقت کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد مفقود ہے پھر نماز کیوں کر درست ہوسکتی ہے۔ مقتدی کی تین قسمیں: رہا یہ امر کہ ایامِ حج وغیرہ میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی نمازوں کا کیا حکم ہوگا تو میں عرض کروں گا کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن کے اصولی عقائد امام سے مختلف ہیں۔ ان کی تین قسمیں ہیں۔ اول وہ جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان اصولی عقائد میں امام کا عقیدہ ہم سے مختلف ہے۔ ان کا حکم تمہید کے ضمن میں واضح ہوگیا ایسے لوگ اپنے علم کے متقضاء کے مطابق یقینا مجتنب رہیں گے۔ دوم وہ مسلمان جو یہ جانتے ہیں کہ امام کے بعض عقائد ہمارے عقائد سے مختلف ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ اختلاف اصولی عقائد میں ہے اور ہمارے عقائد امام کے نزدیک کفر و شرک، معصیت و جاہلیت کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ مسلمان محض حرمِ مکہ و حرم مدینہ اور مسجد حرام و مسجد نبوی کی عظمتوں اور عشق و محبت الٰہی و رسالت پناہی کے جذبات سے متاثر ہو کر اپنی غلط فہمی کی بناء پر اس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کی اس خطا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ورأفت کے پیشِ نظر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ رب کریم ان کی نمازوں کو رائیگاں نہیں فرمائے گا۔ سوم وہ مسلمان جنہیں سرے سے امام کے ساتھ اختلاف عقائد ہی نہیں وہ محض سادہ لوح ہیں۔ عشق و محبت سے سرشار ہوکر حرم مکہ اور حرم مدینہ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بحالتِ لا علمی اس امام کے پیچھے نمازیں پڑھیں ان کے متعلق بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عفو و کرم سے ان کی نمازوں کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ دوم اور سوم قسم کے مسلمانوں کی خطاء قابل عفو ہے۔ طبرانی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے صحیح مرفوع حدیث مروی ہے ’’رُفِعَ عَنْ اُمَّتِیْ الخَطَائُ وَ النِّسْیَانُِ وَمَا اسْتُکْرِ ہُوْا عَلَیْہِ‘‘ اٹھالیا گیا میری امت سے خطاء اور نسیان کو اور اس چیز کو جس پر وہ مجبور کئے گئے یعنی ان تینوں حالتوں میں ان کا مواخذہ نہ ہوگا۔ مثنوی شریف میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بکریاں چرانے والے ایک گڈریے کا واقعہ بطور تمثیل لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بکریاں چرانے والا گڈریا اللہ تعالیٰ سے محبت میں کہہ رہا تھا کہ ’’اے اللہ اگر تو میرے پاس آئے تو تجھے نہلاؤں۔ تیرے بالوں میں کنگھی کروں۔ تجھے دودھ پلاؤں، تیرے پاؤں دباؤں۔‘‘ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے سختی سے ڈانٹا اور ایسی باتوں سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے موسیٰ! میرا بندہ میری محبت میں مجھ سے مخاطب تھا۔ آپ نے اسے کیوں روکا؟ مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔ وحی آمد سوئے موسیٰ از خدا بندۂ مارا چرا کردی جُدا؟ تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن آمدی میرا مقصد اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے صرف یہ ہے کہ سچی محبت اور سچا عشق اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اس لئے اگر سچی محبت اور عشق والے مسلمان نے غلط فہمی یا بے خبری میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی تو رحمتِ خداوندی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بے نمازی قرار نہیں پائے گا اور اللہ اس کا مواخذہ نہ فرمائے گا۔ مزید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن کا ذِکر سطور بالا میں ہوچکا ہے اور ان کی تین قسمیں بھی بیان کی جاچکی ہیں اور ان تینوں قسموں کا حکم بھی مذکور ہوچکا ہے۔ ان تین نمازیوں کی طرح ہیں جن کے پاس نجاست لگا ہوا کپڑا ہے اور اس پر جو نجاست لگی ہوئی ہے وہ مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اس کپڑے سے نماز جائز نہیں۔ ایک نمازی وہ ہے جس نے جان لیا کہ کپڑے پر نجاست ہے اور یہ بھی جان لیا کہ اتنی نجاست کے ہوتے ہوئے نماز نہیں ہوسکتی ظاہر ہے کہ وہ اپنے اس علم کی بناء پر ایسے کپڑے کے ساتھ نماز پڑھنے سے اجتناب کرے گا۔ دوسرا نمازی وہ ہے جو اس کپڑے کی نجاست کو جانتا ہے مگر غلط فہمی کی بناء پر یہ نہیں جانتا کہ اس نجاست سے نماز نہیں ہوسکتی اب اگر وہ شخص نماز کی محبت اور کمالِ شوق الی الصلوٰۃ کی بناء پر اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لے تو رحمتِ الٰہیہ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہ فرمائے گا اور اس کے شوق و محبت کی بناء پر اس کی نماز کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ تیسرا نمازی وہ ہے جو سرے سے کپڑے کی نجاست کا علم ہی نہیں رکھتا اور کمال شوقِ عبادت اور نماز کی محبت میں اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہے فضل ایزدی اور کرمِ خداوندی سے اس کے بارے میں بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دامنِ عفوو کرم میں چھپا لے گا اور اس کی نماز مردود نہ ہوگی۔ یہ صحیح ہے کہ جاننے والے ایسے لوگوں کو صحیح بات ضرور بتائیں گے لیکن اس کے باوجود بھی اگر کسی کو صحیح بات نہ پہنچ سکے تو حکم مذکور مجروح نہ ہوگا۔(مقالات کاظمی ج3)
सदस्यता लें
टिप्पणियाँ भेजें (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें