शुक्रवार, 7 जुलाई 2017

اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے حاسدین اپنے بھی اور غیر بھی! __________________________________________ بزرگوں کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ کوئی بھی بزرگ شخصیت حاسدوں کے حسد سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ جو جتنی ہی بلندی پر فائز ہوا، اتنی ہی اس کی مخالفت کرنے والے بھی دنیا میں نظر آئے۔ اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹوں نے ہی بڑوں سے حسد کیا۔ کبھی کسی بڑی شخصیت نے کسی چھوٹے سے نہ حسد کیا، نہ ہی ان سے نفرت کی بلکہ ان کا شیوہ چھوٹوں کو نوازتا تھا۔ ان ہی عظیم شخصیت میں سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اﷲ عنہ کی ذات برکات بھی ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی احیائے قرآن و سنت، تجدید دین، ترویج حنفیت اور عظمت مصطفیﷺ کا علم بلند فرمایا۔ اولیائے اسلام کی قدرومنزلت، وقار حرمت کا چراغ لوگوں کے دلوں میں روشن کیا۔ تحقیق مسائل کی راہیں روشن فرمائیں، لیکن سابقہ اشخاص کی طرح آپ کی ذات بھی حاسدوں کے حسد سے محفوظ نہ رہ سکی۔ آپ سے عناد رکھنے والے اور حسد کی آگ میں جلنے والے دو قسم کے افراد ہیں۔ ایک قسم حاسدین کی وہ ہے جو اہل سنت و جماعت کے خلاف عقائد رکھنے والے ہیں۔ مثلاً وہابی، دیوبندی، قادیانی، جماعت اسلامی غیر مقلد وغیرہ۔ یہ تمام فرقے آپس میں اگرچہ مختلف نظریات اور متضاد اعتقاد کے پیروکار ہیں تاہم جب مخالفت رضا کی بات آتی ہے تو ’’الکفر ملتہ واحد‘‘ کے تحت متحد و متفق نظر آتے ہیں۔ چونکہ اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ نے تمام گمراہ باطل فرقوں کی تردید فرمائی ہے لہذا ان کی مخالفت ہونا لازمی امر ہے۔ باطل فرقے کا کوئی بھی علمبردار تحقیقات رضا، تحریرات رضا اور تصنیفات رضا کے سامنے آنے کی جرات اور مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا اور حضرت امام کی بے داغ شخصیت و عبقری ہستی میں کہیں کوئی نقص و عیب نہیں پاتا تو لامحالہ الزام تراشی کی راہ اپناتا ہے تاکہ حضرت امام کے فتاویٰ و تصانیف کی وقعت کو کم کیا جاسکے اور انہوں نے جو بدمذہبوں کے خلاف فتاویٰ جاری فرمائے ہیں، انہیں بے اعتبار ثابت کیا جاسکے۔ حاسدین کی دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو خیر سے مسلمان ہیں مگر خدمت دین، ترویج سنت، اشاعت مذہب، تحفظ عقائد حقہ اور فروغ علم و عمل پر اپنی ذاتی منفعت اور مصنوعی تقویٰ و طہارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ حضرت امام نے تجدید دین کا جو زبردست کام کیا، اس کے سبب ہر طرف ان کی عظمت کے چراغ جل اٹھے۔ چہار سو ان ہی کا بول بالا ہونے لگا اور دنیائے علم و حکمت میں ان ہی کا سکہ رائج ہوگیا۔ پھر تو جو لوگ کوئی دینی کام کئے بغیر ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نعرہ لگا کر جھوٹی شہرت اور دولت و ثروت کما رہے تھے۔ انہوں نے اپنے قدموں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس کی۔ مریدوں پر گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تو ایسے حالات میں عوام کے دلوں میں اعلیٰ حضرت کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرنے اور فکروتحقیق، علم و حکمت کے دھارے سے قوم مسلم کو الگ کرنے کے لئے حضرت امام پر الزام تراشی کرنے لگے اور ان کی اتباع میں ان کے ان پڑھ مریدین بھی وہی راگ الاپنے لگے۔ چنانچہ جس طرح حاسدین کی جماعت دو حصوں میںبٹی ہے، ٹھیک اسی طرح الزامات بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کی تشہیر کے لئے کتب و رسائل، اخبار و جرائد اور قرطاس و قلم کا سہارا لیا جاتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جن کو پھیلانے کے لئے خفیہ نشستیں، خصوصی مجالس، مخصوص ملاقاتیں اور سرگوشی کے لئے ہلکی اور دبی زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کے الزامات تراشنے والے باطل فرقے کے لوگ ہیں جبکہ دوسری قسم کی الزام تراشی والے اہلسنت ہی کے لوگ ہیں۔

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟

 کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...