बुधवार, 2 अगस्त 2017
کیا حضور اکرم ﷺ نے کبھی اذان ارشاد فرمائی ____________________________________________ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: درمختار میں فرمایا اور الضیاء میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفرمیں بنفسِ نفیس اذان دی، تکبیر کہی اور ظہر کی نماز پڑھائی اور ہم نے خزائن میں اس بارے میں تحقیق کی ہے اھ ردالمحتار میں کہا وہاں اس گفتگو کے بعد یہ فرمایا کہ ابنِ حجرکی فتح الباری شرح البخاری میں ہے کہ اکثر طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اذان دی ہے؟اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ آپ نے دورانِ سفر خود اذان دی اور صحابہ کو نماز پڑھائی،امام نووی نے اس پر جزم کرتے ہوئے اسے قوی قرار دیا، لیکن اسی طریق سے مسند احمد میں ہے کہ آپ نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے اذان کہی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت ترمذی میں اختصار ہے اور ان کے قول اذّن کا معنٰی یہ ہے کہ آپ نے بلال کو اذان کا حکم دیا،جیسا کہ محاورۃً کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں عالم کو یہ عطیہ دیاحالانکہ وہ خود عطا نہیں کرتا بلکہ عطا کرنے والا کوئی غیر ہوتا ہے، (۱؎ الدرالمختار باب الاذان مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۶۵)(۲؎ ردالمحتار باب الاذان مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۲۹۵) اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کی تحقیق (اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں) مجھے اس بارے میں مزید جو سمجھ آئی اسے میں نے اپنے حاشیہ ردالمحتار میں تحریر کیاہے اور اسکے الفاظ یہ ہیں اقول: عنقریب صفاتِ نماز کے تحت ذکرِ تشہدمیں تحفہ امام ابن حجر مکّی سے آرہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی تھی اور کلماتِ شہادت یوں کہے اشہد انّی رسول اﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں)اور ابنِ حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کے قول کی اور تقویت ملتی ہے(فتاویٰ رضویہ جلد ٥/صفحہ ٨٣)
मंगलवार, 1 अगस्त 2017
عورتوں کا وقار و عزت پردہ(حجاب) میں ہی ہے ____________________________________________ عورتوں کی پناہ گاہ تاریخ مذہب میں اگر کہیں پائیں گے تو وہ صرف دامنِ اسلام میں ہے۔ اسلام ہی اس بھولی بھالی مخلوق کا از ابتدا تا انتہا حامی ہے۔ جو ہمیشہ سے مشق نشانہ، ستمِ مرد بنی رہی ہے۔ آپ ابتدا سے اخیر تک مذاہبِ عالم کی تاریخ پڑھ ڈالیں ہر جگہ آپ کو عورت مردوں کی خواہشِ نفسانی اور تعیش کا آلہ کار ملے گی۔ گویا وہ ایک کھلونا ہے۔ یا مردوں کی تفریح گاہ۔ یا پھر ایک لعنت اور صفحہ ہستی کے لئے ایک بدنما داغ، زندہ توپ دئے جانے کے لائق۔ اسلام میں عورتوں کا وقار: اسلام نے عورتوں کو نہ محض قیادت بخشی بلکہ اُن کو ہر جائز حقْ دِلایا اور ان کی پوزیشن ان کی شخصیت و منزلت کو اتنا بلند کر دیا جس سے زائد ممکن نہ تھا۔ یہ اﷲ ہی کا فضل ہے اور اسلام ہی کے طفیل عورتوں کو اپنے جائز حقوق کی شناخت ہو سکی۔ (کیونکہ اﷲ نے عورتوں کو حقوق دیئے) ورنہ عورتوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس وسع دنیا میں قدرت کی طرف سے عورت بھی کچھ حقوق لے کر آئی ہے۔ عورتوں کا وقار پردہ میں ہے: مولائے رحیم کا حکم ہے سورۃ احزاب سورۃ نمبر 23 آیت نمبر 29پارہ 21 رکوع 19 یٰنِسَاءَ النَّبیِّ مَن یّاْتِ مِنْکُنِ بفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍیُّضٰعَفْ لَھَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ط وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی الّٰلہِ یَسِیْرًا ترجمہ: ( ائے نبی کی بیویوں) جو تم میں صریح حیا کے خلاف کوئی جُرئت کرے اس پر اوروں سے دونا عذاب ہوگا اور یہ اﷲ کو اسان ہے (ترجمہ: کنزالایمان) جب اُمہاتُ المومنین کو حیا اور پردہ کا حکم دیا گیا ہے تو آپ سبھی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پردہ کی اہمیت کیا ہے۔قرآن نے پردے کا بار بار حکم دیا مگر زیادہ تر عورتیں بے پردہ رہنا پسند کرتی ہیں۔ جبکہ وہ شاید اس حقیقت سے ناواقف نہیں کہ اچھا حُسن وہی ہے جو پردے میں رہے۔ تب ہی اس کی اہمیت کا اندازہ اور قدر و منزلت کا انکشاف ہوتا ہے۔ لیکن آج کے اس (Modern) زمانے میں میرے خیال سے وہ عورتیں موجودہ فیشنیبل نقاب اوڑھنی پہنتی ہیں اور وہ جو نہیں پہنتی ہیں شاید دونوں ہی برابر ہیں۔ قدیمی اور مذہبی عورتوں کی بات نہیں ہو رہی ہے کیونکہ نقاب جس ہدف کے تحت پہننے کا حکم ہے آج کے دور میں بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ آج کے دور میں اکثر عورتیں ایسا نقاب پہنتی ہیں جو ناقابلِ بیان ہے۔ انتہائی دیدہ زیب کٹائی چھٹائی سے مرسع عورتوں کے جسم سے بالکل چپکا ہوا۔ اس طرح کے نقاب سے عورتوں کے جسم کے نشیب و فراز کا عیاں ہونا جو مردوں کی انکھوں کے لئے حصول لذّت کا سبب اور زیادہ سے زیادہ بد نظری کی بیمار ی میں مبطلاع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یاد رہے حضور ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کا قول ہے کہ عورت کی بے پردگی عورت و مرد کی بے حیائی کا ثبوت ہے۔ اب جو خود کو جتنا بڑا با حیا سمجھتا ہو وہ اس حد تک اپنے گھر کی عورتوں کے پردے کا خیال رکھے اور اس ذمہ داری کو ہر گز فراموش نہ کرے کہ امر باالمعروف و نہی عن المنکر واجبات میں ہیں۔ اچھے کام کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا اسکی شروعات اپنے ہی گھر سے کرنا ضروری ہے۔ آج کے معاشرے میں یہ بات کافی عام ہے کہ پردہ ترقی میں حائل ہوتا ہے۔ لیکن میرا تو یہ کہنا کہ اس طرح کی سونچ مذہب بیزار مذہب سے دوری اسلامی احکامات سے ناواقفیت اور خدا کے خوف سے عاری ہونا ہے۔ آج جو طبقہ فیشن کے نام پر بے حیائی کا لبادہ اوڑھ کر شرکشی و بغاوت پر اُتر آیا ہے، وہ گناہ کو گناہ سمجھتا ہی نہیں۔ اور یہ سب سے بڑھکر گناہ ہے۔ اسلئے کہ اگر کوئی گناہ کو گناہ سمجھے تو اسکو راہ راست پر واپس آ جانے کی توقع کی جا سکتی ہے، لیکن جس کے نزدیک گناہ بھی گناہ نہ رہ جائے ، اُسے صراطِ مستقیم کی طرف واپسی کی توقع کرنا بہت بعید ہے۔ پردہ نسواں کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد باری ہے وَ قَرْنَ فِےْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُلیٰسورہ احزاب سورۃ نمبر۳۳آیت نمبر ۳۱ رکوع ۱ پارہ ۲۲ (ائے نبی کی بیویوں) اپنے گھروں میں ٹھہری رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی (ترجمہ کنزالایمان) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر پردہ فرض ہے اور بلا عذر گھر سے نکلنا حرام۔ یعنی جیسے اسلام سے پہلے عورتیں آراستہ ہو کر اِتراتی ہوئی باہر نکلتی تھیں، کاش اس آیت سے مسلم عورتیں عبرت پکڑیں۔ یہ عورتیں اُمہات المومنین سے بڑھکر نہیں۔ عزت ماآب علماء اکرام و دانشور گھر کے بزرگوں کو اصلاح معاشرت کے لئے کوشش کرتے ہی رہنا چاہئے۔ ہمارا معاشرہ حرام جیسے گناہ بے پردگی، ریش تراشی (داڑھی مُنڈوانا) جیسے گناہ کوگناہ تو دور معیوب بھی نہیں سمجھتا اور نہ ہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کوشش کرتا ہے، یاد رہے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دینا واجبات و فرائض سے ہے۔ قرانی احکامات کے ساتھ احادیث پاک میں بھی روائتیں آتی ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کتنی تاکید آئی ہے۔ اس تعلق سے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں۔حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تمہیں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہوگا ورنہ قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب ناز ل کرے پھر تم اُسے پُکارتے رہوگے لیکن تمہاری دعاء قبول نہ ہوگی (ترمزی شریف، کشف القلوب، جلد اول صفہ ۳۵) اخلاقی قدروں کا زوال معاشرہ کیلئے ناسور ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں ایک شخص شراب کے نشہ میں دھت حالت میں گرفتار کرکے دربار میں لایا گیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا، تیرا ناس ہو ہمارے یہاں بچے بھی روزہ رکھتے ہیں اور تو عاقل، بالغ ہوتے ہوئے بھی شراب پی رہا ہے۔ اسکے بعد اس پر حد شراب (اسّی کوڑے) لگوا کر ملک شام کی طرف شہر بدر کر دیا۔ عہدِ رسالت اور صحابہ ؓ کے زمانے میں بچے بھی پابند شرع اور امر و نواہی کے پابند تھے اور آچھے کام میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیتے تھے کیونکہ وہ گناہ کو عذابِ الہی کا پیش خیمہ جانتے تھے۔ کیا مروجہ نقاب سے شرعی پردہ کے تقاضے پورے ہوتے ہیں ؟ عورت کے معنیٰ پردہ کے ہیں، اگر عورت ہے تو پردہ اس کے لئے واجب و لازم اور ناگزیر ہے۔ عقلاً (شرعاً) عورتیں بھی اسکا احساس رکھتی ہیں کہ ہم پردہ کیلئے بنائے گئے ہیں۔ پردہ ہمارے لئے بنایا گیا ہے۔یہی فطری نیچرل احساس عورتوں کو پردہ میں رہنے کا احساس دِلاتا ہے۔ لیکن آج مغربی تہذیب و سنیما اور ان گنت ٹی وی سیریلوں کی چکاچوندھ کے اثرات نے عورتوں کو بے حجاب اور بے باک بنا دیا ہے۔ موجودہ زمانے کی مسلم خواتین بھی زمانہ جہالیت کی خواتین سے بھی زیادہ گئی گذری ہیں وہ آج بھی ۱۴ سو سال قبل کی جاہل عورتوں کی طرح دوپٹہ و نقاب پہن رہی ہیں اور اتنی باریک اور پتلی جو کہ سارے جسم کے حصّہ پر بھی نہیں آتی۔ اوڑھنی موٹی اور چوڑی ہونی چاہئے۔ حضرت حفصہ ؓ حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس حالت میں آئیں کہ آپ بالکل باریک اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے وہ باریک اوڑھنی پھاڑ ڈالی اور انہیں ایک موٹی اوڑھنی عطاء کی۔ اوڑھنی مسلم خواتین کے لباس کا جُز ہے جسکو اسلامی طریقہ سے اوڑھنا لازمی اور ضروری ہے۔ عورتیں اپنی ضرورت سے اگر باہرقدم رکھیں تو اس طرح کہ انکی زیب و زینت پردہ میں رہے۔ معاشرہ اسلامی میں عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ گھروں کے اندر رہتے ہوئے بھی سنگار نہ دیکھائیں مگر جتنا ظاہر ہے۔ سورۃ نور، ایت نمبر ۳۱ وَلَا یُبْدِیْنزِیْنَتَھُنَّ اِلَّامَا ظَھَرَمِنْھَا اسلامی تعلیم عصمت و عفت یہ ہے کہ آبرو جان سے زیادہ قیمتی ہے جن اعضائے بدن کا دیکھنا جائز نہیں اُن پر نظر نہ ڈالی جائے۔ زنا کے بڑھتے واقعات، زنا کی روک تھام کیلئے احتیاطی تدابیر اسلام نے پہلے ہی بتا دیا ہے۔ پردہ اسلام کی نایاب دولت ہے اسی دولت کو پکڑ کر عورت آپنی قدر و منزلت، شان و شوکت، عظمت و وقار کی بلندی پر فائز رہ سکتی ہے۔ ارشاد باری ہے وَ قَرْنَ فِےْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُلیٰسورہ احزاب سورۃ نمبر۳۳ایت نمبر ۳۱ رکوع ۱ پارہ ۲۲ (ائے نبی کی بیویوں) اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی (ترجمہ کنزالایمان) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر پردہ فرض ہے اور بلا عذر گھر سے نکلنا حرام۔ یعنی جیسے اسلام سے پہلے عورتیں آراستہ ہو کر اِتراتی ہوئی باہر نکلتی تھیں، کاش اس ایت سے مسلم عورتیں عبرت پکڑیں۔ یہ عورتیں اُمہات المومنین سے بڑھکر نہیں۔ روح ُالبیان نے فرمایا کہ آدم ؑ اور طوفانِ نوح کے درمیان کا زمانہ جاہلیتِ اُولیٰ کہلاتا ہے جو بارہ سو سترسال (۱۲۷۰) ہے اور عیسیٰ ؑ اور حضور ﷺ کے درمیان کا زمانہ جاہلیتِ اُخریٰ کہلاتا ہے جسکا وقفہ قریباً چھ سو سال (۶۰۰) (وﷲ العلیم و رسولہُ) (تفصیر خزائن العرفان جلد اول صفحہ ۶۷۳) اس سے معلوم ہوا کہ عورت پر پردہ فرض ہے۔ اﷲ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو اِس عظمت کی قدر سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور خدائی حکم پر عمل پیرا ہونے کی سعادت عطاء فرمائے آمیں ثمہ آمین
सोमवार, 31 जुलाई 2017
تاریخ اصول حدیث، شیوۂ علم، حقیقت اجماع ____________________________________________ اصول حدیث میں خطیب بغدادی کے بعد قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ (صاحب الشفاء) نے جامع کتاب ’’العلمآء‘‘ لکھی۔ یاد رکھ لیں کہ کوئی قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کو صرف عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کہہ کر اصول حدیث کے بارے میں ان کے نکتۂ نظر کو رد نہ کرے بلکہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ حدیث کے بہت بڑے امام ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج وہ زمانہ ہے کہ لوگ مطالعہ کئے بغیر، کتابوں کو کھنگالے بغیر بات کردیتے ہیں اور سننے والوں نے چونکہ اس حوالے سے بالکل پڑھا ہی نہیں ہوتا لہذا وہ انہی پر اعتماد کرتے ہیں۔ پس جن کو قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے نکتۂ نظر اور ان کے عقیدہ (جو کہ انہوں نے شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے ’’الشفآء شریف‘‘ میں بیان کیا) سے اختلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے صرف ضعیف اور موضوع احادیث جمع کردی ہیں اور ان کو علم حدیث، اصول حدیث میں عبور نہیں ہے۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات غلط ہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے بعد کے جس محدث اور امام کو بھی لے لیں۔ ۔ ۔ امام نووی کی شرح مسلم کو لے لیں۔ ۔ ۔ امام عسقلانی کی فتح الباری کو لے لیں۔ ۔ ۔ امام قسطلانی کی ارشاد الساری کو لے لیں۔ ۔ ۔ امام عینی کی عمدۃ القاری کو لے لیں۔ ۔ ۔ الغرض ائمہ حدیث میں سے کسی محدث اور مفسرین میں سے کسی مفسر کو لے لیں، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر جلالین کو لے لیں، آپ کو ہر ایک، دو صفحات کے بعد حجتاً اور استناداً قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ جات ملیں گے۔ کل ائمہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کو کسی بھی موضوع پر بحث کرتے ہوئے بطور سند اور حجت کوڈ کرتے ہیں۔ اس سے قاضی عیاض کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اصول الحدیث میں ’’العلماء فی ضبط الروایۃ و قوانین سماع‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ آپ کی وفات 540ھ میں ہوئی۔ آپ کا زمانہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی سے 30/25 سال پہلے کا زمانہ ہے۔ قاضی عیاض کے بعد امام ابو عمرو تقی الدین عثمان بن عبدالرحمن الشہرزوری نے ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کے نام سے اصول الحدیث پر کتاب لکھی۔ امام حاکم نے ’’معرفۃ فی علوم الحدیث‘‘ میں حدیث کی بحث کرتے ہوئے اس فن کو 52 انواع میں تقسیم کیا تھا۔ امام شہرزوری، ’’صاحب مقدمہ ابن الصلاح‘‘ نے اپنی کتاب میں اصول الحدیث پر بحث کرتے ہوئے 65، انواع کا ذکر کیا۔ ائمہ کرام اور شیوۂ علم آپ اگر بنظرِ غائر اصول الحدیث کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ علم بھی اپنی حدود و قیود کے اندر ارتقاء پارہا ہے۔ ہر بعد میں آنے والا پہلے سے موجود علم کو آگے پھیلارہا ہے، Expand کررہا ہے اور اس کی کتاب پہلے سے زیادہ Comprehensive (جامع) بنتی جارہی ہے۔ ہر بعد والے نے کتاب لکھی اور پہلوں سے اچھا کام کیا۔ ۔ ۔ زیادہ انواع قائم کر دیں۔ ۔ ۔ زیادہ تقسیمات کردیں۔ ۔ ۔ زیادہ تعریفات کر دیں۔ ۔ ۔ زیادہ اصول وضع کر دیئے۔ ۔ ۔ فروع وضع کر دیں۔ ۔ ۔ زیادہ شروح لکھیں۔ ۔ ۔ کئی چیزوں پر پہلوں سے اختلاف کیا۔ ۔ ۔ اور کئی چیزوں پر اتفاق کیا۔ ۔ ۔ کئی نئے قوانین متعارف کروائے۔ ۔ ۔ لیکن چونکہ اہل علم کا زمانہ تھا، آج کا دور نہیں تھا، لہذا اس زمانہ کے کسی شخص نے ان کو بے ادب و گستاخ نہیں کہا کہ پہلے بزرگوں کے اوپر تم اپنے علم کو بڑھا رہے ہو۔ ۔ ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو وہ لکھ چکے ہیں اس سے نیچے رہو۔ ۔ ۔ کسی نے ’’صاحب مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کو یہ نہیں کہا کہ چونکہ امام حاکم نے 52 انواع بیان کی ہیں اس لئے آپ 52 سے کم رہو، زیادہ انواع متعارف نہ کرواؤ۔ گویا ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق، جو کچھ ملا اس کو لیا، اس دور کے علم کو سمیٹا اور Expand کیا۔ شیوہ علم یہ تھا کہ ہر دور میں ہر ایک کو کام کا ایک حصہ نصیب ہوتا تھا اور کسی کے کام پر گستاخی و بے ادبی کے فتوے نہیں لگتے تھے۔ یہ خرابی خاص طور پر صرف ہمارے ہاں ہے، دوسروں میں اتنی نہیں ہے، اسی وجہ سے علمی و فکری جمود آیا ہے، ارتقاء رک گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ علم ہمیشہ صرف ارتقاء کے ساتھ باقی رہتا ہے، علم کی بقاء، ارتقاء اور توسیع میں ہے، بعد والے زمانے میں علم کی Access پہلے سے بڑھ جاتی ہے، کم نہیں ہوتی۔ بہت کتابیں ایسی تھیں جو پہلے شائع نہیں ہوئی تھیں، مخطوطات تھے۔ ذرائع ابلاغ کم تھے، کسی کو کچھ مخطوطات پہنچ گئے اور کچھ نہ پہنچے پس مخطوطات اور دستیاب علم کی بنیاد پر کوشش کرتے۔ جوں جوں یہ قلمی نسخے چھپتے گئے علم بڑھتا گیا، مزید مخطوطات تک رسائی ہوتی گئی، ذرائع ابلاغ بڑھتے گئے اور معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہی کام محدثین کے زمانہ میں ہوا، کئی کئی ملکوں کا سفر کیا اور علم کو سمیٹا اور اس طرح وسعت آتی چلی گئی، اسی طرح جتنا علم پہلے والے لوگ دے گئے، اس کو سمیٹا، اس میں مزید رسائی ہوئی، تو نئی چیزیں وجود میں آئیں۔ لوگ اس ارتقاء اور توسیع کو مانتے تھے اور یہ علم کا طریقہ تھا، اس پر فتوے نہ لگاتے تھے۔ جب سے یہ شیوۂ علم ختم ہوا، علم کے ارتقاء کی سوچ ہی ختم ہوگئی کیونکہ جب سوچ جامد ہوجاتی ہے تو قوم علم سے کنارہ کش ہوجاتی ہے اور مزید دور ہوجاتی ہے۔ کسی قوم کی تباہی اور ہلاکت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ جب کوئی اور شخص وسیع اور نیا کام کرتا ہے، کام میں ارتقاء لاتا ہے اور اس کام کو آگے بڑھاتا ہے تو اس پر فتوے لگاتے ہیں، اس کو گستاخ کہتے ہیں اور اکابر کے خلاف ٹھہراتے ہیں، معاذاللہ اسے بزرگوں کا گستاخ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ یہ کون ہے؟ کیا یہ ان سے بڑا آگیا ہے۔ ۔ ۔ یاد رکھ لیں کہ اس طرح کا رویہ 12 سو سال کی تاریخ میں کسی اہل علم کا نہیں رہا۔ اگر یہ رکاوٹ پیدا کردی جاتی کہ بعد میں آنے والے پہلوں سے آگے کوئی نئی بات نہیں کرسکتے تو علم ارتقاء ہی نہ پاتا اور آج جو ہزارہا کتب معرض وجود میں آئی ہیں یہ کبھی وجود میں نہ آتیں۔ وہ تو صرف اس پر اکتفا کرتے اور وہیں جم کر بیٹھے رہتے۔ پس یہ جامد سوچ ہمارے ہاں اس وقت سے ہے جب سے علم سے تعلق ٹوٹ گیا ہے اور جب ہم نے علم سے کنارہ کشی کرلی تو جہالت، بے خبری، کم علمی کو تحفظ دینے کے لئے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ہم نے اس سوچ کو اختیار کرلیا کہ ’’کیا یہ پہلے بزرگوں اور اہل علم سے بڑھ کر ہے‘‘؟ علمی اختلاف، گستاخی نہیں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ہزارہا مسائل میں اختلاف کیا۔ خود کبھی امام اعظم نے انہیں طعنہ نہ دیا کہ مجھ سے پڑھتے ہو۔ ۔ ۔ سیکھتے ہو۔ ۔ ۔ اور میرے ہی فتوے اور تحقیق سے اختلاف کرتے ہو۔ ۔ ۔ کیا مجھ سے بڑے آگئے ہو۔ ۔ ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہی گرفت کرلیتے اور یہ فتنہ پیدا نہ ہوتا۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھنے والے شاگرد، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام ذفر رحمۃ اللہ علیہ آپ سے کئی مسائل میں اختلاف کرتے، مگر کبھی گستاخ نہیں بنے۔ اگر آپ فقہ حنفی کی کل کتب کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ ملتا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایا۔ ۔ ۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا۔ ۔ ۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا۔ ۔ ۔ کسی مسئلہ پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک طرف ہوتے ہیں اور دونوں شاگرد ایک طرف ہوتے ہیں اور استاد سے اختلاف کرتے ہیں مگر کبھی گستاخ نہیں بنے۔ ۔ ۔ کسی مسئلہ پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ایک ہے تو کہتے ہیں کہ شیخین ایک طرف ہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی الگ رائے ہے، اس صورت حال میں استاد اور بڑے شاگرد کی رائے ایک طرف ہے اور چھوٹے شاگرد کی الگ رائے ہے مگر ان کو بھی کبھی گستاخ نہیں کہا۔ ۔ ۔ کبھی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ایک ہوجاتی تو کہتے ہیں کہ طرفین کی رائے یہ ہے اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے۔ ۔ ۔ مگر کسی کو گستاخ نہیں کہتے۔ اس سے بڑھ کر اختلاف کیا ہوسکتا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی اور لاڈلے شاگرد ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے مگر اپنی فقہ شافعی الگ بنالی، فقہ مالکی کو اختیار نہ کیا۔ اگر اختلاف کرنا درست اور جائز نہ ہوتا تو فقہ شافعی کیسے وجود میں آتی؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ائمہ کے بعد کے دور میں آنے والا ائمہ کی آراء سے اختلاف کرے اور یہ دعویٰ کرنا شروع کردے کہ وہ ائمہ اربعہ کی طرح ہے، معاذ اللہ، اس طرح اگرکوئی سوچے گا تو یہ ایک دجالی فتنہ ہے، گمراہ ہوگا اور گمراہ کرے گا، ان ائمہ اربعہ کے مقام تک اب کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس گفتگو کے کرنے کا مقصد طرز علم اور شیوۂ علم سمجھانا ہے، اب ان مذاہب کے بانیان کی طرح کوئی نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ و امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا طرز عمل علم کے باب میں اختلاف کرنا سنت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بعد ازاں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھے مگر نہ حنفی رہے اور نہ مالکی رہے بلکہ مذہب شافعیہ بنا دیا۔ اس کے باوجود نہ استاد ناراض ہوئے اور نہ شاگرد گستاخ ٹھہرے۔ ۔ ۔ پھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھے اور اتنا پڑھے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے پر سوار ہوکر سفر کرتے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ رکاب پکڑ کر ان کے گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتے اور جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے اسے لکھتے چلے جاتے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد آتے تو اپنے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے گھر رہتے تو اس موقع پر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ شیخ کی تعظیم و تکریم کے لئے دن رات حاضر خدمت رہتے۔ اس دور کے فن جرح و تعدیل کے امام یحیٰی بن معین اور دیگر اصحاب امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو طعنے دیتے کہ ہمارا حلقہ چھوڑ کر ایک دیہاتی کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہو حالانکہ بغداد، کوفہ وغیرہ مراکز علم تھے اور یہاں امام یحییٰ بن معین اور دیگر احباب کے بڑے بڑے حلقے موجود تھے اور یہ احباب ابھی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے ناواقف تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو جواب دیا کہ اگر تم پہچان لو کہ امام محمد بن ادریس شافعی کیا ہیں؟ تو تم بھی اپنے حلقے چھوڑ کر ادھر آجاؤ، ایک رکاب میں پکڑتا ہوں، دوسری رکاب خالی ہے تم تھام لو، تمہیں کیا خبر کہ میں نے امام محمد بن ادریس شافعی میں کیا پایا ہے۔ یہ ائمہ فقہ تھے جن کے پاس علم قرآن بھی تھا اور علم سنت و حدیث بھی تھا اور پھر درایت تھی گویا علوم کے جامع تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حلقہ محدثین کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ادھر صرف روایت ہے ادھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا جامعیت ہے پس ادھر آگئے۔ پس ادب، تعظیم و تکریم کا یہ عالم تھا کہ گھوڑے کی رکاب پکڑ کر ساتھ دوڑتے ہیں مگر شافعی نہیں ہوئے، اپنا الگ مذہب متعارف کروایا، اصول بنائے اور فقہ حنبلی وجود میں لائے۔ اتنا بڑا اختلاف کہ نیا مذہب ہی وجود میں لے آئے تو کوئی کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ کل ان کی رکاب پکڑ کر دوڑتے تھے، ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے آج نیا مذہب ہی بنا ڈالا۔ ۔ ۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ شیوۂ علم ہی نہ تھا، تحقیق کی بات تھی۔ ادب اپنی جگہ پر مگر تحقیق اپنی جگہ۔ ۔ ۔ افسوس! ہم نے ادب و احترام اور تحقیق و رائے کو خلط ملط کردیا ہے۔ رائے اور تحقیق سو بار، لاکھ بار الگ ہوسکتی ہے، مگر ادب و احترام اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ اختلاف رائے و تحقیق کے بغیر بھی ادب ہوسکتا ہے، ائمہ و اکابر نے کرکے دکھایا ہے۔ میں طریقت میں قادری ہوں۔ مزاج میں تمام طرق میرے اندر ہیں، قادریت تو ہے ہی مگر چشتیت بھی ہے، نقشبندیت بھی ہے، سہروردیت بھی ہے، رفاعیت بھی ہے اور شاذلیت بھی ہے۔ مگر اپنے سلسلہ میں قادری ہوں، حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا سگ ہوں، سب ان کا فیض ہے، ان کی اتنی خیرات عطا ہے کہ آپ کو بتا نہیں سکتا۔ انہی کی خیرات پر پلتا ہوں اور چلتا پھرتا ہوں۔ میں حنفی ہوں مگر میرے شیخ حضور غوث الاعظم حنبلی ہیں، کیا یہ بے ادبی ہوگئی۔ اکابر، ائمہ، اولیاء کی اکثریت اسی طرح تھی، بڑے بڑے اولیاء میں سے اکثریت شافعی ہیں مگر یہ تحقیق، رائے، فقہی مذہب ہے، ترجیح دینے اور اپنانے کی بات ہے، اس کا کوئی ٹکراؤ ادب و احترام اور تعظیم و تکریم سے نہیں ہے۔ جہاں جاکر دونوں چیزیں یکجا ہوجاتی ہیں، رائے بھی سرجھکادیتی ہے اور ادب بھی سجدہ ریز ہوجاتا ہے وہ صرف بارگاہ رسالت مآب و بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ وہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اختلاف کیا تو ایمان سے خارج ہوگئے، وہاں کوئی اپنی تحقیق پیش نہیں کرسکتا۔ جو کرے گا بے ایمان ہوجائے گا۔ اگر بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بات چلی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول، فرمان، حدیث اور سنت ثابت ہوجائے تو سب کا ذاتی اختیار، ترجیح، تحقیق، فہم سلب ہوجاتا ہے، سب چراغ بجھ جاتے ہیں جب چراغ علم نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چمکتا ہے۔ وہاں جو اپنی رائے اور تحقیق کی بات کرے گا وہ مرتد اور بے ایمان ہوجائے گا۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ اخذِ دلائل امام ابن عبدالبر مالکی نے امام اعظم کی عظمت بیان کرتے ہوئے ’’جامع بیان العلم‘‘ میں لکھا ہے اور دیگر کتب میں بھی موجود ہے کہ کسی نے امام اعظم کو طعنہ دیا کہ یہ اہل الرائے میں سے ہیں، فقہ اپنی رائے سے بناتے ہیں، حدیث، آثار صحابہ کو نہیں مانتے، بلکہ اپنی رائے، تحقیق اور عقل و فہم و تدبر سے فقہ کو ترتیب دیتے ہیں؟ امام اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ کو حجت نہیں مانتے؟ آپ نے فرمایا : استغفراللہ العظیم، میں سب سے پہلے قرآن پر اپنی رائے کو قائم کرتا ہوں۔ ۔ ۔ اگر وہاں سے صریحاً رہنمائی نہ ملے تو حدیث پر اپنی رائے کو قائم کرتا ہوں اور جب سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز ثابت ہوجائے تو اس کے مقابلے میں کسی کا قول نہیں دیکھتا۔ (اس سے فقہ حنفی کے اصول کا بھی پتہ چلتا ہے کہ امام اعظم کی روش اور طریقہ کیا ہے)۔ ۔ ۔ اور اگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس مسئلہ کے متعلق واضح نہ ہورہا ہو تو پھر اقوال و آثار صحابہ رضی اللہ عنھم سے رہنمائی لیتا ہوں۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی چیز صحابہ رضی اللہ عنھم سے ثابت ہوجائے تو کبھی اپنی رائے کو اس کے مقابل میں نہیں لاتا۔ ۔ ۔ اور اگر کسی مسئلہ پر کسی صحابی کا قول بھی نہ ملے اور تابعی کا قول ملے تو ’’ هُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ ‘‘ ’’وہ بھی رجال علم ہیں اور ہم بھی رجال علم ہیں‘‘۔ اگر تابعین کی رائے کا وزن ہے تو پھر اتنا وزن تو ہماری رائے کا بھی ہے۔ چنانچہ جب درجہ ایک جیسا آجائے اس موقع پر جس کی رائے کو چاہیں ترجیح دے دیں یا اپنی رائے دے دیں۔ پس امام اعظم کے لئے قرآن، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ کرام حجت ہیں اور وہ ان سے اختلاف نہیں کرتے۔ اگر ان تینوں مراتب سے صریحاً رہنمائی نہ ملے تب وہ اپنے قول اور تحقیق کو بیان کرتے ہیں۔ حقیقتِ اجماع آج ہمارے لئے ان تین مراتب کے بعد چوتھا درجہ اجماع امت ہے۔ کسی مسئلہ پر اجماع امت ہوجائے تو اس کی حجیت ہے۔ اس موقع پر اجماع کی حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے۔ پہلے زمانے میں جب ذرائع ابلاغ وسیع نہ تھے، Comunication مکمل نہ تھی، اس وقت جب کسی ایک شہر کے علماء کسی ایک مسئلہ پر متفق ہوجاتے تو اس کو اجماع قرار دے دیتے۔ آپ کتب فقہ کی ہر دوسری سطر میں علیہ الاجماع (اس پر اجماع ہے) کے الفاظ دیکھیں گے اور دوسرا طبقہ جو اس مسئلہ پر اختلاف کررہا ہے وہ بھی ’’علیہ الاجماع‘‘ کے الفاظ لکھ رہا ہے۔ گویا جس کا اس قول سے اتفاق ہے وہ اپنی بات بیان کرکے لکھتا ہے کہ ’’اس پر اجماع ہے‘‘ اور جو اس بات سے اختلاف رکھتا ہے وہ بھی اپنی بات لکھ کر کہتا ہے کہ ’’اس پر اجماع ہے‘‘۔ یہ تمام اپنے طور سچے تھے جو جس شہر سے تعلق رکھتا وہ اپنے علماء کے اجماع کے مطابق ہی مؤقف لکھتا اور اپناتا۔ جہاں تک معلومات تھیں، اس کی کثرت کو دیکھتے ہوئے لکھتے کہ اس پر ہمارے اہل بلد (شہر والوں) کا اجماع ہے۔ وہ اجماع بلدی (علاقائی) ہوتا تھا۔ یہاں سے ہمارے بہت سے احباب کو مغالطہ لگتا ہے کہ انہوں نے اس قسم کے علاقائی اجماع کو اجماع امت سمجھ لیا۔ اجماع امت اور شے ہے جبکہ پرانے فقہاء کی کتابوں میں موجود لفظ ’’اجماع‘‘ اصل میں بلدی (علاقائی) اجماع ہے۔ مثال کے طور پر بخارا کے علماء کی اپنے اور ثمر قند کے خطے تک معلومات تھیں، انہیں اس دور میں ذرائع ابلاغ نہ ہونے کی بناء پر نیشا پور کے علماء کا کسی مسئلہ پر مؤقف معلوم نہ تھا تآنکہ وہ نیشا پور نہ جائیں۔ نیشا پور والے اگر کسی مسئلہ پر علیہ الاجماع (اس پر اجماع ہے) کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اہل نیشا پور کا اس پر اجماع ہے۔ اسی طرح اہل بغداد کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل کوفہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل بصرہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل مکہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل مدینہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ پس یہ بلدی (علاقائی) اجماع ہوتے تھے۔ اس وقت وہ اس بات کو لکھتے نہ تھے کہ یہ اجماع اہل بخارا، اہل مکہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ یا اہل مدینہ کا ہے کیونکہ ہر ایک کو معلوم تھا کہ اس کا وطن، علاقہ کون سا ہے؟ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ ایک جگہ پر رہنے والے افراد کو دور دوسری جگہ کے افراد کے بارے میں بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ ۔ ۔ نہ کتابیں چھپتی تھیں۔ ۔ ۔ نہ پریس تھا۔ ۔ ۔ نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ کمپیوٹر تھا۔ کسی کو کیا معلوم کہ کوفہ کے کسی عالم اور امام نے اس مسئلہ پر کیا کہا ہے۔ سوائے ذاتی رابطہ (Personal Comunication) کے۔ پس اس طرح کے اجماع کو قطعی طور پر امت کا اجماع نہیں کہا جاسکتا۔ بہت ہی قلیل مسائل میں امت کا اجماع ہے جو حقیقی اجماع قطعی ہے۔ اس لئے اکثر محتاط علماء نے کہا ہے کہ جب اجماع کا لفظ کسی جگہ لکھا ہوا ملتا ہے تو وہ ظنی ہوتا ہے اور وہ علاقائی ہوتا ہے۔ اگر اجماع امت ہوجائے تو اس میں قطعیت پائی جاتی ہے پھر اس سے انحراف کی کسی کو مجال نہیں ہے کیونکہ اس انحراف سے گمراہی پیدا ہوگی۔ پس اس تمام گفتگو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علم کا شیوہ اور طریق یہ رہا ہے کہ کسی کی تحقیق اور رائے پر اس کو اسلاف کا گستاخ و بے ادب نہ کہا جاتا بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی، اسی طرزِ عمل کی وجہ سے علم پھیلتا اور مسلسل ارتقاء میں رہتا تھا۔ ہر ایک کو اللہ کی طرف سے اس کے نصیب کا حصہ ملتا تھا اور وہ اپنے دور میں اس کو بیان کرتا چلا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانے سے ہر دور میں لوگوں کو عطا کرتا ہے اور قیامت تک لوگوں کو عطا فرماتا چلا جائے گا۔ بہت ساری چیزیں ہیں جو آنے والے دور میں منکشف ہوں گی مگر افسوس کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایات اور کرم نوازیوں کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا مگر ہم نے مزید تحقیق اور حقائق کو منکشف کرنے پر پابندیاں لگا دیں۔ کسی نے کوئی علمی بات کردی، یا کوئی نیا علمی کام کردیا جو پہلے نہیں ہوا تو ہم نے فوراً اسے گستاخی سے تعبیر کرلیا۔ اس طرزِ عمل سے علم کا ارتقاء رک گیا ہے اور ایک خوفزدگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس طرح کے فتووں سے عامۃ الناس کے ذہن منتشر ہوجاتے ہیں، اس طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرز فکرو عمل میں وسعت چاہئے اپنے مذہب کی پیروی کریں، اس میں دین کی حفاظت ہے۔ اب اگر کوئی چاہے کہ وہ کوئی نیا مذہب بنالے تو اس سے وہ ایک فتنہ اور دجالیت پیدا کرے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا۔ اس لئے اہل سنت کا ایک زمانہ سے تواتر کے ساتھ ائمہ اربعہ اور مذہب پر اجماع ہے۔ مذہب ظاہری اور مذہب اوزاعی اس اجماع کی وجہ سے از خود ختم ہوگئے۔ تواتر، عمل اور زمانے نے ان کو ختم کردیا اور چار مذاہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) پر امت عملاً مجتمع ہوگئی اور صدیوں سے اس پر عملی اجماع بھی چلا آرہا ہے اور اس تعامل میں تواتر بھی چلا آرہا ہے، پس یہ قطعی اجماع امت ہوگیا۔ اب فتنہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ بجائے کوئی شخص الگ مذہب و فقہ وجود میں لائے بلکہ وہ مذاہب جس پر پوری امت کا صدیوں سے عمل اجماع تواتر کے ساتھ قائم ہے، اس پر کار بند رہے۔ ان مذاہب پر امت کے اہل علم کا 99 فیصد سے بھی زیادہ اجماع ہے۔ ایک یا دو فیصد افراد بمشکل آپ کو امت میں ملیں گے جو شاید اس تعامل، تقلید کے عمل میں شامل نہ ہوں۔ تقلید سے کیا مراد ہے؟ تقلید کے معنی میں بھی فرق ہے، کئی لوگوں کو سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے اور لوگوں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔ مذاہب قائم ہوچکے اب دین کی عافیت اس میں ہے کہ کسی ایک فقہی مذہب کی پیروی کرے تاکہ فتنہ سے بچ جائیں، مذہب حنفی کی پیروی کریں، یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ ۔ ۔ مذہب مالکی کی پیروی کرنے والے مالکیہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کررہے ہیں۔ ۔ ۔ مذہب شافعیہ کی پیروی کرنے والے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و شریعت پر کار بند ہیں۔ ۔ ۔ مذہب حنبلی کی پیروی کرنے والے حنابلہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کررہے ہیں۔ ۔ ۔ اس طرح فقہ جعفریہ کو ماننے والے اپنی فقہ پر اپنی یکسوئی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اہل سنت کا اجماع چار مذاہب پر قائم ہے۔ اب کوئی نیا مذہب نہیں بناسکتا، جتنا بھی صاحب عقل و فہم و تدبر ہوجائے، تحقیق کے سات آسمان بھی عبور کرلے اگر وہ نیا فقہی مذہب بنانے کا سوچے گا تو وہ گمراہ ہوگا اور امت کو بھی گمراہ کرے گا۔ پس عافیت اس میں ہے کہ ان مذاہب کی تقلید کرے اور ان میں سے کسی ایک سے وابستہ ہوجائے اور جب اس کے دائرہ میں آجائیں تو اس دائرہ کے اندر آکر گویا عافیت میں آگئے، اب آپ تحقیق کریں، محنت کریں، زمانے کے حالات کے مطابق ہزارہا مسائل پر کام کریں، ابھی لاکھوں مسائل ہیں جن پر کام ہونا باقی ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ ان مذاہب کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا، تحقیق کرنا تقلید کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ پس یہی قانون و طریقہ اصول حدیث میں بھی ہے۔ اصول حدیث میں ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ کو ایک مستند ٹیکسٹ بک (متن) کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے پہلے اصول حدیث پر انسائیکلو پیڈیا آرہے تھے۔ اس کتاب کے بعد اصول حدیث کے جتنے اہل فن آئے ان کی اکثریت نے ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کے متن پر ہی آگے کام کو بڑھایا۔ میں اس کتاب کا تعارف اس لئے کروا رہا ہوں کہ ہر بعد میں آنے والے امام نے اس کو بنیاد بنا کر کام کو آگے ڈویلپ کیا۔ امام حاکم نے اصول حدیث میں 52، انواع قائم کی تھیں۔ انہوں نے مقدمہ لکھ کر اصول حدیث میں 65 انواع کا ذکر کیا اور اس سائنس کو اس قدر Expand کیا۔ اب یہ ٹیکسٹ بک اتھارٹی بن گئی۔ انکے بعد امام نووی آئے، آپ کا مقام یہ ہے کہ پورے عالم عرب میں جو امام اتھارٹی مانے جاتے ہیں ان میں امام نووی کا منفرد مقام ہے۔ ہمارے ہاں مدارس و مساجد میں مشکوٰۃ المصابیح چلتی ہے، جبکہ عرب دنیا میں امام نووی کی ریاض الصالحین کے درس ہوتے ہیں۔ آپ بہت بڑے محدث اور ولی اللہ تھے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر امام و محدث، ولی بھی تھا اور صوفی بھی تھا۔ تصوف، طریقت، معرفت اور ولایت کے بغیر نہ کوئی امام بنا اور نہ بن سکتا ہے اور نہ بنے گا۔ جب تک مالائے اعلیٰ کے دروازے نہ کھلیں، شرح صدر اور انفتاح صدر نہ ہو، نیچے اور اوپر کے خزانے جب تک نہ ملیں اس وقت تک علم میں امامت کے درجے نہیں ملا کرتے۔ ۔ ۔ حجت کوئی نہیں بنتا۔ ۔ ۔ خالی کتابوں سے امام نہیں بنتے۔ ۔ ۔ ہر ایک امام، صاحب کرامت تھا۔ امام نووی بھی صاحب کرامت تھے۔ امام نبھانی نے جامع کرامات الاولیاء میں روایت کیا ہے کہ کسی نے بادشاہ کو ان سے خائف کردیا کہ ان کاحلقہ وسیع ہورہا ہے، مشہور ہورہے ہیں، یہ نہ ہو کہ کسی وقت آپ کا تختہ الٹ دیں، اس لئے ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی بہانہ بنا کر جیل میں ڈال دیں یا جان سے مروا دیں، بادشاہ نے امام نووی کو اپنے دربار میں طلب کیا اور چند الزامات لگائے، چاہتا تھا کہ کسی الزام میں پھنسا دوں اور سزا دوں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور جان لیا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد وہ سزا کا اعلان کرنے والا ہے، آپ دربار میں جس قالین پر کھڑے تھے اس پر شیروں کی تصاویر بنی تھیں، آپ جلال میں آگئے اور زور سے اپنا قدم قالین پر مارا اور شیروں کی تصاویر اسی وقت زندہ شیر بن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دائیں اور بائیں کھڑے ہوگئے، بادشاہ خوفزدہ ہوکر گر پڑا۔ پس آپ محدث بھی تھے اور صاحب کرامت ولی بھی تھے۔ اس طرح امام جلال الدین سیوطی ہیں کہ جس حدیث کی سند پر تسلی نہیں ہوتی اور کتب و تحقیق سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو عالم بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچہری میں 72مرتبہ حاضر ہوکر خود پوچھ لیا۔ ان چیزوں کو محدثین نے خود بیان کیا ہے۔ امام عبدالوہاب شعرانی سے لے کر ہندوستان کے علامہ انور شاہ کاشمیری تک نے اس واقعہ کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ حضوری اور کچہری والے بھی تھے، حضوری کے بغیر علم میں حضور نہیں آتا۔ تیری نماز بے حضور تیرا امام بے سرور ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر یہ حضوری والے لوگ تھے، اہل کرامت و استقامت تھے اور علم و فن کے امام تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اصول حدیث‘‘ کے باب میں ’’ارشاد طلاب الحقائق الی معرفۃ سنن خیرالخلائق‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ جو ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کی وضاحت میں ہے۔ بعد ازاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کتاب ’’ارشاد طلاب الحقائق‘‘ کا خلاصہ ’’التکریم‘‘ کے نام سے لکھا۔ مقدمہ ابن الصلاح کے بعد اصول حدیث میں ’’التکریم‘‘ کا درجہ بھی Text Book کا بن گیا۔ ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ اپنے سے اوپر 18 بنیادی کتب (جن کو گذشتہ صفحات میں بیان کیا گیا) پر قائم ہوا۔ بعد ازاں ’’التکریم‘‘ کی شرح امام سیوطی نے لکھی جس کا نام ’’التدریب علی التکریم‘‘ رکھا گیا اور یہ بھی ایک عظیم Text Book بن گئی جس میں اوپر امام نووی کی ’’التکریم‘‘ کا متن ہے اور اس کے نیچے امام سیوطی کی ’’التدریب‘‘ کے نام سے شرح موجود ہے۔ اصول حدیث میں ان کتب کو (متن) Text کا درجہ حاصل ہے اور کوئی اہل علم اس سے اختلاف نہیں کرسکتا جو کہے کہ میں ان کتب کو نہیں مانتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ویسے ہی نہیں مانا، نہ ماننے کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے، وہ جاننا ہی نہیں چاہتا تو ماننا کیا ہے، جانے گا تو مانے گا۔ جاننے کا نام علم ہے اور ماننے کا نام ایمان ہے۔ ہر شے جاننے کے بعد مانی جاتی ہے صرف اللہ اور اس کا امر جانے بغیر مانا جاتا ہے۔ اللہ کی بات ذاتی ذرائع سے جانے بغیر مانی جاتی ہے۔ پس اللہ نے جانے بغیر ماننے کا ایک رستہ نبی/ رسول کی صورت میں نکالا ہے فرمایا ذات نبوت وہ ذریعہ ہے اس کو جاننے کی کوشش کرو، جتنا جانو گے اتنا ہی مجھے مانو گے۔ جتنا نبی کو جانو گے اتنا مجھے مانو گے، مراد یہ کہ جتنی مقام نبوت کی معرفت ہوگی اتنا اللہ پر ایمان کامل ہوگا۔ یعنی توحید میں وہ پختہ ہوگا جو معرفت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پختہ ہوگا اور جو معرفت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کمزور ہے اس کی توحید کمزور ہے۔ بعد ازاں امام بدرالدین ابن جمعہ آئے، انہوں نے ’’المنحل الروی فی علوم الحدیث النبوی‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ ان کے بعد امام علاء الدین الترکمانی آئے انہوں نے ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کا خلاصہ ’’مختصر ابن الصلاح‘‘ کے نام سے لکھا۔ بعد ازاں حافظ ابن کثیر آئے انہوں نے ’’اختصار علوم الحدیث‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور پھر اس کو مختصر کرکے ’’الباعث الحصیص‘‘ لکھی۔ ان تمام نے مقدمہ ابن الصلاح پر مدار کیا۔ ہر بعد میں آنے والے امام کا مدار اسی مقدمہ ابن الصلاح پر ہے۔ حافظ ابن کثیر کے بعد ائمہ، محدثین آتے رہے امام بدرالدین زرقشی آئے، انہوں نے ’’النکت علی ابن الصلاح‘‘ لکھی اور ابن الصلاح کے مختلف نکات کی تشریح کی۔ ابو حفص عمر بن ارسلان شافعی آئے، انہوں نے ’’محاسن الاصطلاح علی تضمین کتاب ابن الصلاح‘‘ کے نام سے لکھا۔ الغرض جو امام فن اصول حدیث آئے انہوں نے ابن الصلاح کے مقدمہ کی تلخیص اور تشریح کی۔ امام زین الدین العراقی (806ھ) آئے انہوں نے بھی ’’النکت علی ابن الصلاح‘‘ لکھی۔ اسی طرح امام حجر عسقلانی نے بھی ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ لکھی۔ مراد یہ کہ ہر ایک کے ہاں مقدمہ ابن الصلاح اتھارٹی ہے۔ اس کے بعد ’’النکت‘‘ کی تکمیل پر ’’الافصاح‘‘ لکھی۔ اس کے بعد شرح ’’نخبۃ الفکر‘‘ کے نام سے مختصر رسالہ لکھا، مگر زیادہ جامع کتابیں امام حجر عسقلانی کی اصول حدیث میں ’’النکت‘‘ اور ’’الافصاح‘‘ ہیں۔ بعد ازاں ’’نزہۃ النظر‘‘ کے نام سے ’’نخبۃ الفکر‘‘ کی شرح پر چھوٹا رسالہ لکھا۔ امام زین الدین العراقی نے اصول حدیث پر ’’الفیہ‘‘ لکھا، ہزار اشعار میں اصول حدیث پر منظوم لکھا۔ امام جلال الدین سیوطی نے منظوم الفیہ لکھی مگر مدار امام ابن الصلاح ہیں یا امام نووی ہیں۔ بعد ازاں امام عسقلانی کی کتب پر بھی اصول حدیث کے باب میں مدار کیا جانے لگا۔ امام جلال الدین سیوطی نے ’’نظم الدرر فی علم الاثر‘‘ کے نام سے بھی اصول الحدیث پر لکھا۔ آپ نے ’’التدریب علی التقریب‘‘ بھی لکھی، ’’الفیہ‘‘ بھی لکھی گویا آپ نے اصول حدیث پر بہت کام کیا۔ امام سخاوی نے ’’فتح المغیث‘‘ لکھی۔ یہ 36 ویں امام ہیں جو اصول حدیث کی تاریخ میں اتھارٹی اور مصادر مانے جاتے ہیں۔ ان ائمہ میں سے ہر ایک نے تبویب و تصنیف کا مختلف طریقہ اختیار کیا مگر بنیاد اصلی کتب ہی کو بنایا۔ امام ابوالحسن الجرجانی آئے آپ نے ’’مصطلح الحدیث‘‘ لکھی۔ عمر بن محمد الفتوح البیقونی آئے آپ نے ’’البیقونیہ‘‘ کے نام سے منظوم اصول حدیث مرتب کیا۔ امام ابو عبداللہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی (1122ھ) آئے آپ نے البیقونیہ کی شرح ’’الزرقانی‘‘ لکھی۔ الغرض اسی طرح اکابر، ائمہ ہمارے زمانے تک اصول الحدیث پر لکھتے گئے اور تقریباً 50 معتبر اور بااعتماد کتب ہیں جن پر اصول حدیث میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ شیخ طاہر الجزائری کی ’’توجہیہ النظر الی علوم العصر‘‘ بھی نمایاں کتب میں شامل ہے۔ اسی طرح ایک اور معتبر، جامع و مانع اور نافع کتاب جو متن کے طور پڑھائی جائے تو مفید کتاب ہے اور وہ کتاب علامہ جمال الدین القاسمی کی (1322ھ) ہے اس کا نام ’’قواعد التحدیث‘‘ ہے۔ آپ مفسر بھی ہیں، تفسیرالقاسمی کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ آپ کے بارے میں مشہور یہ ہوچکا ہے کہ آپ سلفی ہیں، میرے اساتذہ نے بھی جب مجھے ان کا تعارف کروایا تو یہی بتایا کہ یہ سلفی ہیں، مگر میں نے جب ان کی تمام کتب کو کھنگالا اور مطالعہ کیا اور صاحبان کتب کے احوال کو جانا تو معلوم ہوا کہ ایک، دو کو چھوڑ کر تمام اکابر، ائمہ مقلد تھے، اہل طریقت تھے، اہل تصوف اور اہل سنت تھے۔ امام جمال الدین قاسمی کے سلفی ہونے کا مغالطہ زیادہ ہے حالانکہ آپ عقائد اہل سنت پر بڑے پختہ تھے، عقائد کے خاص موضوعات، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس، شفاعت، مقام محمود وغیرہ پر مدلل اور مفصل اور مستند بحث جتنی آپ نے کی شاید کسی اور نے کی ہو۔ گویا آپ اعلیٰ عقیدہ کے حامل اہل سنت میں سے تھے۔ اس وقت عالم عرب میں اصول حدیث پر سب سے بہتر لکھنے والے ’’نورالدین العطر‘‘ ہیں آپ حلب کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں، میری کتب میرے دستخطوں کے ساتھ وصول کیں اور اپنی کتب اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے دیں۔ اسی طرح مصر میں شیخ احمد عمر ہاشم ہیں، آپ بھی آج کے زمانے میں اصول الحدیث پر بہتر کام کرنے والوں میں نمایاں ہیں۔ اصول حدیث کی مختصر تاریخ جو کہ تقریباً 50 قابل اعتماد و ثقہ کتب پر مشتمل تھی اس کا تذکرہ میں نے آپ کے سامنے کیا تاکہ معلوم ہو کہ اس فن اصول حدیث کا آغاز کہاں سے ہوا اور آج کہاں تک پہنچ چکا ہے؟ اور اس میں کون کون معتبر و مستند لوگ ہیں؟ اور کن کن کی کتب بطور متن ہیں؟ اور کن کن کی کتابیں انسائیکلوپیڈیا ہیں؟ اور کن کن کی کتب مصادر و مراجع ہیں؟ دورہ صحیح مسلم میں اگلی گفتگو انہی کتب کے حوالے سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حدیث مبارکہ کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
रविवार, 30 जुलाई 2017
شرک کسے کہتے ہیں ؟ ____________________________________________ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے۔ (بہارِ شریعت جلد 1, صفحہ 55 ( وقار الفتویٰ جلد 1 , صفحہ 270 ) شرک کی جامع تعریف اور وضاحت و تفصیل مکمل پڑھیں حضرت علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب شرح عقائدِ نسفی میں شرک کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں کسی کو شریک ٹھرانے سے مراد یہ ہے کہ ” مجوسیوں (آگ کی عبادت کرنے والے) کی طرح کسی کو اِلہٰ (عبادت کے لائق) اور واجب الوجود سمجھا جائے یا بُت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے”۔ شرک کی تعریف سے معلوم ہوا کہ دو خداؤں کو ماننے والے جیسے مجوسی (آگ پرست) مشرک ہیں اسی طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا بھی مشرک ہوگا جیسے بُت پرست جو بتوں کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہیں۔ شرک کی تین اقسام ہیں: ۔(1)شرک فی العبادۃ(2)شرک فی الذات(3)شرک فی الصفّات ۔(1)شرک فی العبادۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے۔ ۔(2)شرک فی الذات سے مراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا،جیساکہ مجوسی دو خداؤں کو مانتے ہیں۔ ۔(3)شرک فی الصفّات سے مراد ہے کہ کسی ذات وشخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں یا کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں، کسی زندہ میں مانی جائیں یا فوت شدہ میں، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں یا دور والے میں، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گا جو ناقابل ِمعافی جرم، سب سے بڑا گناہِ کبیرہ اورظلمِ عظیم ہے۔ شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتا ہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتا ہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں۔ ۔(1)اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے،القراٰن ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤف اور رحیم ہے۔(سورۂ بقرہ،آیت143،پارہ2 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہے۔ ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مؤمنوں پر رؤف اور رحیم ہیں۔(سورۂ توبہ،آیت128،پارہ 11 پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی رؤف اور رحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اور رحیم ہے جبکہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اور رحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اور عطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔ ۔(2)علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ: تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ (سورۂ نمل،آیت65،پارہ20) جبکہ دوسری جگہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ ترجمہ:غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتا ہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا۔ (سورۂ جن،آیت26/27،پارہ29) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اور عطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔ ۔(3) مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتا ہے کہ ترجمہ: یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے۔(سورۂ محمد،آیت11،پارہ26 جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ ترجمہ: بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک مؤمنین مددگار ہیں۔ (سورۂ تحریم،آیت4،پارہ28) پہلی آیت پر غور کریں تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اور اولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا،تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر مددگار ہے اور حضرت جبریل علیہ السلام اور اولیاء کرام،اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں۔ جو ذات باری تعالیٰ عطا فرما رہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جارہا ہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اورجب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟ خوب یاد رکھیں! جہاں باذنِ اللہ اور عطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اور ناممکن ہوجاتا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ شرک پر متفق نہیں ہوگی،جیساکہ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم!میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے۔ (بخاری شریف جلد اول،کتاب الجنائز،رقم الحدیث1258،ص545،مطبوعہ شبیر برادرز لاہور-مسلم شریف،کتاب الفضائل،رقم الحدیث30،مطبوعہ استنبول ترکی) جیسے اللہ کے سوا کوئی صدیق اکبر ھو سکتا ھے کیا ؟؟ سب سے بڑا صدیق تو اللہ پاک ھی ھے نا تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنه صدیق اکبر کیسے ھو گئے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ فاروق اعظم تو اللہ تعالی کی ذات ھی ھے نا تو پھر کیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنه فاروق اعظم بنے ؟؟؟؟؟ قرآن کہتا ھے اللہ غنی ھے پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنه کیونکر غنی ٹھرے ؟؟ اللہ پاک کے 99 اسماء حسنیٰ پڑھیں اللہ کا نام بھی علی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنه بھی علی ؟؟ اللہ بھی حي اور قرآن نے انسان کو بھی حي کہا اللہ بھی سمیع و بصیر اور قرآن نے انسان کو بھی سمیع و بصیر کہا اللہ بھی رؤف و رحیم قرآن نے نبی معظم ﷺ کو رؤف و رحیم کہا اللہ بھی کریم قرآن نے نبی رحمت ﷺ کو بھی کریم کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رب تو اللہ پاک کی ذات ھی ھے نا تو پھر کیوں قرآن نے 2 جگہ غیر اللہ کو رب کہا ایک جگہ والدین کو اور ایک جگہ یوسف علیہ السلام کے عہد کے بادشاہ کو ۔۔۔۔۔ ۔ اور سعودیہ میں ھر ھر فیملی کارڈ پہ لکھا ھے رب الاسراء یعنی خاندان کا رب کون ھے آگے گھر کے سربراہ کا نام لکھا ھے قرآن نے اللہ کو کفیل کہا سعودیہ میں گھر گھر کفیل ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے الملك اللہ کو کہا آپ کے پوری خلیج میں الملك ھیں ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے اللہ پاک کو بھی قوی کہا اور افریت جن جس نے حضرت سیلمان علیہ السلام کو ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا کہا اسے بھی قوی کہا اللہ نے قرآن میں اپنے آپ کو حفیظ و علیم کہا اور یہی قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کو حفیظ و علیم کہا اللہ نے اپنے عرش کو بھی عرش عظیم کہا اور قرآن نے ملکہ سبا بلقیس کے تخت کو بھی عرش عظیم کہا ۔۔۔۔۔ اللہ کے اسماء میں المومن بھی ھے اور ھم بھی مومن سینکڑوں مثالیں قرآن پاک میں بھری پڑھی ھیں اسماء الحسنیٰ اور اسماء الرسول 70 % ایک ھی ھیں اسلوب قرآنی کو سمجھیں جب بھی داتا، مشکل کشا، حاجت روا، رب، غوث اعظم ، کریم، روف و رحیم ،حفیظ و علیم غنی، سمیع و بصیر، حي کا اطلاق یا اشارہ مخلوق کی طرف ھو گا تو وہ معنی مجازی عطائی اور غیر مستقل ھوں گے اور جب اللہ رب العزت کی طرف ھو گا تو معنی مطلق حقیقی ذاتی اور مستقل ھوں گے ورنہ تو کوئی ایک بھی کفر و شرک سے نہیں بچ سکے گا ۔ ایک فرق یاد رکھیں اللہ واجب الوجود ھے اور کائنات کی ھر چیز ممکن الوجود یہاں شرک کی موت ھو گئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طور پر قرآن پاک کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
सोमवार, 24 जुलाई 2017
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے محبت کا دعوٰی کرنے والوں کی خدمت میں! ____________________________________________ مفکر و مجدد امام احمد رضا قدس سرہ العزیز (م : 1340ھ / 1921ء) اپنے عہد میں بر صغیر کے سب سے بڑے دینی پیشوا اور ملی رہ نما تھے، انھوں نے اسلام اور عقیدہ اہل سنت کے تحفظ اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ امتِ مسلمہ کا اتحاد اور اس کی فلاح و نجات ان کی فکر کا خاص محور تھا۔ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقطہ اتحاد پر عالمِ اسلام کو ہم قدم اور ہم فکر کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کے زبردست داعی تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز دینِ مصطفیٰ، علمِ مصطفیٰ اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر سمجھتے تھے۔ اسی فکر کے داعی شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال بھی تھے۔ بمصطفے ٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است عہدِ حاضر میں فکرِ رضا کی معنویت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز بلا شبہ عظیم مجدد، عظیم فقیہ اور عظیم دانش ور تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کے داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات پر حساس نظر رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر آنسو بھی بہاتے تھے اور ان کی فلاح و نجات کے لیے تدبیریں بھی پیش کرتے تھے۔ ان کی فکر و نظر کا محور یہی تھا کہ اسلامی تہذیب دنیا کی ہر تہذیب پر غالب ہو اور مسلم قوم دنیا کی ہر قوم سے بلند تر ہو۔ دین و مذہب، سیاست و صحافت، معیشت و معاشرت، تعلیم و تجارت، وہ ہر میدان میں مسلمانوں کو سرخرو اور کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے مسلسل جد و جہد کی۔ امتِ مسلمہ کو بار بار جھنجھوڑا، علما اور قائدین کو بیدار کیا اور انھیں ان کی منصبی ذمہ داریوں سے باخبر کیا۔ ان کی کوتاہیوں پر زجر و توبیخ فرمائی، تعمیری منصوبے بنائے، خطوطِ عمل طے کیے، باہمی اتحاد کے لیے قرآن و احادیث سے دلائل دیے۔ نفرت و بے زاری کا ماحول ختم کرنے کے لیے شرعی احکام سپردِ قلم کیے۔ امام احمد رضا کے افکار و نظریات پر اب ایک صدی مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دور اندیش مفکر کے افکار کی معنویت آج بھی اسی طرح باقی ہے، جس طرح ان کے عہد میں تھی، بلکہ بعض نظریات کی معنویت تو آج عہدِ رضا سے بھی سِوا نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا کے افکار ونظریات گرد و پیش کے حالات کا نتیجہ نہیں تھے کہ عشرے دو عشرے میں اپنی معنویت کھو دیتے بلکہ ان کے افکار و نظریات قرآن و حدیث سے ماخوذ تھے، جن پر حوادثِ روز گار کی گرد کی پرتیں بے اثر ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت کے حقیقی جلوے جب عمل کے میدان میں درخشاں ہوتے ہیں تو حوادثِ روزگار خود اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ آئیے! اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے افکار کی روشنی میں اپنے کردار و عمل کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ علماء کرام کا منفی عمومی رویہ اس وقت اہلِ سنت و جماعت کے درمیان سخت انتشار ہے، علماء کرام اتحادکی فضا ہم وار کر سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کا ایک طبقہ خود اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ آج اہلِ سنت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی سخت ترین ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منظم اور مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ اہل سنت کے خلاف پیہم شر انگیزی کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے عہد میں امت مسلمہ کی جو حالت تھی، آج بھی اس سے بہتر نظر نہیں آتی جس کا انہیں شدید احساس تھا۔ آپ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ خالص اہل سنت کی ایک قوت اجتماعی کی بہت ضرورت ہے، مگر اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے۔ (1) علما کا اتفاق (2) تحمل شاق قدربالطاق۔ (3) امرا کا انفاق لوجہ الخلاق۔ یہاں یہ سب مفقود ہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 132) علماء کرام کے عدم اتفاق کی بنیادی وجہ امام احمد رضا حسد قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی علماء کے اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ حسد ہی ہے۔۔۔ فلاں شخص عوام وخواص میں مقبول ہے، ہم کیوں نہیں۔۔۔ فلاں تحریک و ادارہ عوام و خواص کا مرکزِ توجہ ہے، ہمارا کیوں نہیں۔۔۔ ظاہر سی بات ہے ان چیزوں کا برسرِ عام اظہار تو کیا نہیں جائے گا لیکن جب سینے کی آگ سے دل کے پھپھولے جلتے ہیں تو نفرتوں کی لپٹیں اٹھتی ہی ہیں اور پھر شروع ہو جاتا ہے ایک دوسرے کی شخصیتوں، تحریکوں اور اداروں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کابدترین سلسلہ۔ امام احمد رضا قدس سرہ علماء کے انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اتفاقِ علما کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم، ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہتیرے سچے اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے کہ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے؟ اب فرمائیں کہ وہ قوم کہ جو اپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے، اپنے ناقصوں کو کامل، قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی؟ حاشا یہ کلیہ نہیں مگر للاکثر حکم الکل (فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133) امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس خصوصی تبصرے میں ہم اپنے عہد کے علما کا اختلافی چہرہ بخوبی پہچان سکتے ہیں۔ فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت اس مقام پر ایک خاص بات یہ ہے کہ جب علماے کرام سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ فلاں تحریک و ادارے یا فلاں شخص کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ تو بلا دلیل کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو خارج از اسلام ہے۔ فلاں تحریک تو بدعقیدہ تحریک ہے، یا فلاں شخص تو صلح کلی کا حامی ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے۔ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو علماء کرام کو بہ اتفاقِ رائے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور معاملہ یک طرفہ ہو اور اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی صحیح العقیدہ عالم کو یا کسی دینی تحریک اور ادارے کو صلح کلی، بدعقیدہ یا خارج از اسلام کہنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق کسی کو مجرم مان کر اس پر سخت حکم شرعی نافذ کر دینا تو ویسے بھی خلاف شریعت عمل ہے اور فتویٰ نویسی کے تقاضوں کے منافی بھی ہے اور ذمہ دار علما کو یہ غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور طفلانہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ ہم اس حوالے سے بھی امام احمد رضا قدس سرہ کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ امام اہلِ سنت فرماتے ہیں : ’’فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہوتو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں تو خیال میں نہ لائیں۔ (فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 317) اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں : ’’حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کفوا من اهل لا الٰه الا الله لا تکفروهم بذنب فمن اکفر اهل لا الٰه الا الله فهو الی الکفر اقرب. ’’لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں سے زبان روکو، انھیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، لاالٰہ الااللہ کہنے والوں کو جو کافر کہے وْہ خود کفر سے نزدیک تر ہے‘‘ (المعجم الکبير، ج : 12، ص : 272) امام احمد رضا قدس سرہ اس کے بعد ایک دوسری حدیث نقل فرماتے ہیں : ’’ تین باتیں اصل ایمان میں داخل ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنے والے سے (کفر منسوب کرنے سے) باز رہنا اور اسے گناہ کے سبب کافر نہ کہا جائے اور کسی عمل پر اسلام سے خارج نہ کہیں‘‘ (فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 318) اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز مزید فرماتے ہیں : ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ائمہ دین فرماتے ہیں، جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اس سے کفر صادر ہو، وہ کفر کرے یا نہ کرے، یہ چاہنے والا بھی کافر ہو گیا کہ اس نے مسلمان کو کافر ہونا چاہا۔ (فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 403) مجدد ملت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کی ان عبارتوں کی روشنی میں اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اس مقام پر ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے جن کلمہ گو لوگوں کی تکفیر کی ہے، اس کی وجہ ان کا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار ہے۔ اس لئے حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت اپنی جگہ مسلم ہے۔ آج بہت سے علماء امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس مشرب کے برعکس تحریر و تقریر کے جوہر دکھاتے پھر رہے ہیں حالانکہ وہ صبح وشام مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو حق و سچ ثابت کرتے نہیں تھکتے۔ آئے دن ان کی طرف سے کفریہ فتاوٰی جاری ہوتے ہیں۔ فریقِ ثانی کی دعوتِ دین اور اس کی مقبولیت عامہ سے خائف ہو کر حاسدانہ مخالفت کے ہاتھوں فتوؤں کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ کردار کشی کی بھی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے۔ ہمیں اس قسم کی حرکتوں سے بہرصورت باز رہنا چاہیے۔ فروغِ فکرِ رضا کی مطلوبہ جہات شاید ہم عہدِ حاضر کے ایک انتہائی حساس مسئلہ کو لے کر دیر تک الجھے رہے، گفتگو ہو رہی تھی، اہل سنت و جماعت کے اتحاد اور ان کی اجتماعی قوت میں انتشار کے اسباب اور وجوہات کی، یہ ایک سچائی ہے کہ پوری دنیا میں اہل سنت کا کوئی مضبوط پلیٹ فارم نہیں۔ دین و دانش اور دعوت و تبلیغ کے مختلف شعبوں میں با صلاحیت افراد کی بھی ضرورت ہے اور کثیر سرمائے کی بھی۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے بھی اپنے عہد میں اسی کا رونا رویا تھا اور عوام و خواص کو ان کی ذمہ داریوں کو بار بار یاد دلایا تھا، امام احمد رضا اپنے سائل سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ جو آپ چاہتے ہیں اسی قوت متفقہ پر موقوف ہے جس کا حال اوپر گزارش ہوا۔ بڑی کمی امرا کی بے توجہی اور روپے کی ناداری ہے۔ حدیث کا ارشاد صادق آیا کہ ’’وہ زمانہ آنے والا ہے کہ دین کا کام بھی بے روپیہ کے نہ چلے گا۔‘‘ کوئی باقاعدہ عالی شان مدرسہ تو آپ کے ہاتھ میں نہیں، کوئی اخبار پرچہ آپ کے یہاں نہیں، مدرسین، واعظین، مناظرین، مصنفین کی کثرت بقدرِ حاجت آپ کے پاس نہیں۔ جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں وہ فارغ البال نہیں۔ جو فارغ البال ہیں وہ اہل نہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133) امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے ہمیں اہلِ سنت کے فروغ کے لیے جن چیزوں کی کمی کا احساس دلایا تھا، مکمل ایک صدی بیتنے کے باوجود بھی ان کی فکر کا عَلم تھامنے کے دعویدار عملی طور پر اس جانب کما حقہ قدم نہ اُٹھا سکے۔ میڈیا کی ضرورت و اہمیت جتنی آج ہے اتنی اعلیٰ حضرت کے عہد میں ہرگز نہیں تھی، مگر واہ رے مردِ دور اندیش۔ امام اہل سنت نے ایک صدی قبل میڈیا کی ضرورت و اہمیت اور مضبوط تعلیمی اداروں کی ضرورت کو محسوس کیا تھا۔ آج ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اہلِ سنت کا کوئی قابلِ ذکر ملکی اور عالمی سطح کا اخبار نہیں۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے ان عقیدت مند حضرات کو چاہیے تھا کہ وہ ان کی ان اعلیٰ خواہشات کے پیش نظر دینی تعلیمی ادارے بناتے۔۔۔ میڈیا کے اس دور میں مضبوط لوگوں کو تربیت دیتے۔۔۔ اخبارات اور رسائل پر توجہ دیتے اور اس کمی کو پورا کرتے، جن کی طرف امام اہل سنت نے توجہ مبذول کروائی تھی۔۔۔ مگر ان تمام فرائض کی بجا آوری کی بجائے جو کام مستعدی اور دلجمعی سے ہو رہا ہے وہ ایک دوسرے کی مخالفت اور مخاصمت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے کے مقابل بیداری ضرور آئی ہے۔ چند رسائل بڑی پابندی سے اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ادارے اور شخصیات ہی ہمارے نادان دوستوں کے فتوؤں کی زد میں رہتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عقائد حقہ کے فروغ اور اصلاحِ احوال کے لئے بڑی جد و جہد کی ضرورت ہے۔ امام اہل سنت نے اپنے عہد میں ایک عظیم دارالعلوم اور مختلف میدانوں کے مردانِ کار کی کمی کا بھی شدت سے احساس کیا تھا۔ تصنیف و تالیف، تدریس و تحقیق، خطابت و مناظرہ، سیاست و صحافت اور دعوت و تبلیغ کے میدانوں میں ملکی اور عالمی سطح پر اس حوالے سے کچھ علماء و مشائخ نے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں مگر کاموں کے پھیلاؤ اور حالات کے دباؤ کا تقاضا ہے کہ مزید معیاری ادارے قائم کئے جائیں۔ اجتماعی قوت کا استحکام کیونکر ممکن ہے؟ امام اہل سنت نے اہل سنت کی اجتماعی قوت کے استحکام اور فروغ اہل سنت کے لیے جو دس نکاتی فارمولہ سپردِ قلم فرمایا تھا۔ اس کی جتنی اہمیت عہدِ رضا میں تھی آج اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس فارمولہ میں آپ کا مرکزی خیال عقائد اہل سنت کے کما حقہ فروغ کے لئے جامعات کے قیام، درس وتدریس، تحقیق، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ اور اخبار و جرائد کے اجراء پر مبنی ہے۔ (تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ، ج 2، ص 133 ملاحظہ فرمائیں) امام احمد رضا قدس سرہ کی یہ دس تدبیریں ِ اہلِ سنت کی فلاح و بہبود اور احیاء کے لئے رہنما خطوطِ ہیں۔ امام احمد رضاقدس سرہ نے 15 جمادی الاخریٰ 1330ھ میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ دس نکاتی فارمولا سپردِ قلم فرمایا تھا۔ اب 1434ھ ہے اس مکمل ایک صدی میں ہم نے ان تدابیرِ رضا پر کتنا عمل کیا، ہمیں انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہم یہاں تفصیل و تجزیہ سے گریز کرتے ہوئے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ امام احمد رضا قدس سرہ نے اس دس نکاتی فارمولے میں پیری مریدی کے مروجہ رحجان سے متعلق کوئی تدبیر نہیں رکھی کہ پیرانِ طریقت تیار کر کے ملک کے گوشے گوشے میں بھیجے جائیں۔ لیکن آج علماء کرام اور مشائخِ عظام کی اولین ترجیح پیری مریدی بن گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اہلِ سنت میں 99فی صد اختلافات حلقہ مریداں کے حوالے سے ہیں۔ میرے اس تبصرے پر کوئی یہ نہ سمجھے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز پیری مریدی کے مخالف تھے، یا ہم معاذ اللہ احسان و تصوف سے گریزاں ہیں۔ مسئلہ در اصل ان پیرانِ عصر کا ہے جو احسان و تصوف کے حقیقی تقاضوں سے بہت دور دولت و عشرت کے گلیاروں میں ہا و ہو کی ضربیں لگا رہے ہیں۔۔۔ جن کا مطمع نظر ارشاد و تبلیغ سے زیادہ حصول زر، آرام طلبی اور شہرت و ناموری ہے۔۔۔ انہیں اپنی ذات، اپنی گدی اور خانقاہ سے ہٹ کر کسی دینی میدان میں جان مارنے، غور و فکر کرنے اور جگر کوشی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کسی معمولی فکر و دانش کی حامل شخصیت کا نام نہیں تھا لیکن افسوس ہم نے اپنی معمولی فکر و دانش کی روشنی میں امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کو پڑھا اور اسی نہج پر قوم کے سامنے ان کا تعارف کرایا بلکہ عام طور پر ہمارے اسٹیجوں پر امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے حوالے سے جو خطابات ہوتے ہیں ان کا عام طور پر لازمی تاثر یہ ہوتا ہے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی پوری زندگی صرف ردِ بد مذہباں سے عبارت تھی، انھوں نے اس کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں اور پھر یہی تاثر مخالفین بھی عوام و خواص میں پہنچاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اہل علم و دانش کے درمیان امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی فکر و شخصیت کا وہ تعارف نہیں ہو سکا جس کے وہ متقاضی تھے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز بلا شبہ عظیم مجدد و مفکر تھے۔ ان کی حساس نظر جماعتی مسائل پر بھی تھی اور مسلمانوں کے عالمی منظر نامے پر بھی۔۔۔ وہ ملی فلاح و بہبو کے بھی زبردست داعی تھے۔۔۔ ایک سچے قائد و پیشوا کی نظر صرف مسجد و مدرسے تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کی نظر میں مسلمانوں کاملی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی منظر اور پس منظر بھی ہوتا ہے۔ ایک عظیم مجدد اور مخلص مفکر کی منصبی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے ہر گوشہ حیات پر نظر رکھے اور ان کے لیے بہتر سے بہتر خطوط فکر و عمل طے کرے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز ایک عبقری مفکر و مجدد تھے۔ امتِ مسلمہ کے سچے ہم درد اور مخلص رہ نما تھے۔ عصرِ حاضر کا تقاضا ہے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی فکر کے ان مذکورہ عملی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھا جائے، اسی سے ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کے لئے رہنمائی لے سکتے ہیں اور یہی امام احمد رضا سے سچی محبت اور ان کی بارگاہ میں سچا خراجِ عقیدت ہے۔(از:مفتی مبارک حسین مصباحی دام ظلہ العالی)
اسلام میں خنزیر(سوّر) کا گوشت حرام کیوں؟ ____________________________________________ ﺍﺱ میں زرا ﺑﮭﯽ ﺷﮏ ﻭ ﺷﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﺍﻭﺭ ﺍس کے ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ کے ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮﺩﮦ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻀﺮ ﮨﮯ تبھی ﺍﺳﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻼﻝ ﮐﺮﺩﮦ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺧﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮨﮯ تبھی ﺍﺳﮯ ﺣﻼﻝ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﭘﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺭﺣﻢ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﺒﺎﺭﮎ رحمت ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ۔ باطل کو بخوبی علم ہے کہ اسلام میں خنزیر کو ناپاک اور حرام قرار دیا گیا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مغرب میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو نہ صرف اس جانور کے گوشت کے نہایت شوقین ہیں بلکہ رات دن اس تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو کسی نہ کسی طرح اس حرام میں مبتلا کر دیں۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺑﮕﺎﮌ ﮐﺎ ﻗﻮﯼ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﺒﺐ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﻏﺬﺍ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ، ﯾﮧ ﺍﻣﺮ ﻣﺴﻠّﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺛﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﺱ ﺟﺎﻧﻮﺭ ( ﺧﻨﺰﯾﺮ ) ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﻣﺴﺦ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺦ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻤﺎﺋﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺦ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺧﺒﯿﺚ ﺗﺮﯾﻦ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺝ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﺳﮯ ﺑﺮﻃﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﺗﻌﺬﯾﺐ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺝ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﺒﯿﺚ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﻘﻠﺐ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺳﻠﯿﻢ ﻃﺒﯿﻌﺘﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﺍﺯﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺧﺒﯿﺚ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﺒﻐﻮﺽ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺨﻔﯽ ﺳﺒﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﯿﻢ ﺍﻟﻔﻄﺮﺕ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﺗﻔﺎﻭﺕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﭘﺲ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍ ﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﺟﺰﺀ ﺑﻨﺎﻧﺎ، ﻧﺠﺎﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﺨﺖ ﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﺭﺳﻮﻝ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻮﺡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺎﺑﻌﺪ ﺗﮏ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﭨﮭﮩﺮﺍﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻠﯽ ﺍﺟﺘﻨﺎﺏ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﺗﺮﯾﮟ ﮔﮯ، ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ( ﻣﺎﺧﻮﺫ ﺍﺯ ﺭﺣﻤﺔ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻮﺍﺳﻌﺔ، ﺷﺮﺡ ﺣﺠﺔ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﺒﺎﻟﻐﺔ ) غنیمت ہے کہ دین اسلام نے امت کو اس جانور سے دور رہنے کا حکم دیا ہے. جدید سائنسی تحقیق میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ٹیپ ورم نامی کیڑے کی ایک خاص قسم سؤر سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے اور یہ کیڑا دماغ میں پہنچ کر اسے کھانا شروع کردیتا ہے۔ ڈیلی پاکستان کے مطابق سائنسدانوں نے اس کیڑے کو سور کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اس کا نام بھی Pork Tapeworm یعنی 'سؤر ٹیپ ورم' رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیپ ورم کی متعدد اقسام میں سے ایک خصوصی طور پر ایسا ہے کہ جو انسانی دماغ پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ڈاکٹر ہیلنا ہیلبی کہتی ہیں کہ پورک ٹیپ ورم خاص طور پر انسانی دماغ کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کیڑے کی قسم Teenia Solium دو طرح سے انسانی جسم میں داخل ہوسکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ سور کا نیم گلا ہوا گوشت کھا لیا جائے۔ گوشت پوری طرح پکا نہ ہونے کی صورت میں کیڑے کے انڈے اس میں موجود رہتے ہیں اور آنتوں میں جاکر ان انڈوں سے کیڑے نکل آتے ہیں جو اعصابی نظام میں شامل ہوکر براہ راست دماغ تک پہنچتے ہیں۔ دوسری صورت اس کیڑے کے لاروا کی صورت میں سؤر کے فضلے میں پائی جاتی ہے۔ سؤروں کے قریب موجود لوگ فضلے سے براہ راست یا اس کے پانی میں شامل ہونے سے کیڑے کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہ کیڑا جب جسم میں داخل ہوجاتا ہے تو Neurocysticercosis نامی بیماری جنم لیتی ہے جو شروع میں مرگی، اعضاءکا فالج اور بالآخر موت کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس خوفناک بیماری کا تاحال کوئی مکمل علاج دستیاب نہیں ہے البتہ کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی چند ادویات کو اس بیماری پر قابو پانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق سؤر سے دور رہنا ہی اس دردناک مرض سے بچنے کا اصل طریقہ ہے۔ کیا ہے ارشاد ربانی؟ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے : إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُھلَّ بِہ لِغَيْرِ اللّہ اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے. دوسری جگہ ارشاد ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُھلَّ لِغَيْرِ اللّہ بِہ وَالْمُنْخَنِقَۃ وَالْمَوْقُوذَۃ وَالْمُتَرَدِّيَۃ وَالنَّطِيحَۃ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْہمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَۃ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّہ غَفُورٌ رَّحِيمٌ تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے : قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ يَطْعَمُہ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَۃ أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَانَّہ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُھلَّ لِغَيْرِ اللّہ بِہ کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو تو سور کھانا اس لیے حرام ہے کیونکہ اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ اس پر کلام کی گنجائش ہی نہیں۔ ہاں ہم اس کی کچھ حکمتوں اور وجوہات کا زکر کر سکتے ہیں۔ سور کے گوشت کی ممانعت نہ صرف قرآن پاک میں بلکہ بائبل میں بھی اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے دیکھئے۔leviticus. chp 11, verse8 اگر ہم سور کا کیمیائی تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا گوشت چاہے کسی بھی شکل میں ہو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ ۔ میڈیکل سائنس کے مطابق سور کے گوشت کے استعمال سے انسانی جسم میں مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ سور کا جسم بہت سے parasites کے لئے host کا کام بھی انجام بھی انجام دیتا ہے۔ ۔ اس کے علاوہ سور کے گوشت میں کولیسٹرول، لپڈ اور یورک ایسڈ کی مقدار خطرناک حد تک موجود ہوتی ہے۔ ۔ سور کے خون کی بائیو کیمسٹری کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سور کے جسم میں یورک ایسڈ کی کل مقدار کا صرف %2 ہی فضلاء بن کر جسم سے خارج ہوتا ہے جب کہ %98 فیصد خون کا ایک اہم حصہ بن کر موجود رہتا ہے۔ ۔ اسلام میں نہ صرف سور کے گوشت بلکہ ایسے تمام جانور جو اپنا یا کسی اور جانور کا فضلاء کھاتے ہیں کے گوشت کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ سائسنی حقیقت: سائنس نے اسلامی شریعت میں ممنوعہ چیزوں کے بعض اسباب جاننے کی کوشش کی جس کو متبعین شریعت نے خورد بینوں کے انکشاف سے پہلے صدیوں تک عمل کیا ھے۔ ترتیب کے ساتھ مردار، اس سے بکتیریا (کٹاڑو) پروان چڑھتے ھیں ، خون اسکے کٹاڑو تیزی اور کثرت کےساتھ بڑھتے ھیں اور اخیر میں خنزیر (سوّر) جسکے بدن میں تمام جہاں کی بیماریاں اور گندگیاں جمع ھیں ، اور کسی بھی طرح کی صفائی ستھرائی ان کو دور نھیں کر سکتی جیسے کہ ایک پودا (حلوف) نامی ھے جس کے اندر کیڑے بیکتیریا اور ایسے وائرس ھوتے ھیں جن کو وہ انسان اور جانوروں میں منتقل کرتا ھے ۔ اور بعض خنزیرکے ساتھ خاص ھے جیسے (TRCHINELLA) اور (Balantidium Dysentery) اور (Taenia Solium) اور (Spiralis) ۔ اور بعض کے اندر ایسے بہت سےامراض ھوتے ھیں جو انسان کے درمیان مشترک ھوتے ھیں ۔ اور (فاشیولا)کیڑے کے اندر انفلونزا کے جراثیم ھوتے ھیں ۔ اور (ASCARIS) اور پیٹ کے سانپ (Fasciolopsis Buski) (Pacific Ocean) کا مرض وبائی شکل میں ظاھر ھوتا ھے۔ جیسا کہ محیط ھادی (Balantidiasis) ۔ چین میں بہت زیادہ ھوتے ھیں ۔ اور خنزیر پالنے والوں اور ان سے میل جول رکھنے والوں کے اندر کےایک جزیرے میں خنزیر کے پائخانے کے پھیلانے کےنتیجہ میں ھوا۔ اور یہ مرض مصنوعی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں جہاں خنزیر پاۓ جاتے ھیں ۔ جبکہ وہ لوگ اس کا دعوی کرتے ھیں کہ اس کی گندگیوں پر جدید ٹکنیک کےذریعہ وہ قابو پانے کی کوشش کرتے ھیں ، اور خاص طور سے جرمنی، فرانس ، فلپائن اور وینژویلامیں بغیر سرٹیفیکیٹ کے اسکے گوشت کو حرام قرار دیتے ھیں اور خنزیر کے پٹھوں کی گوشت کھانے کی صورت میں Trichinellosis) کا مرض لگ جاتا ھے ۔ جس کی وجہ سے عورت کے معدوں سے آواز نکلنے لگتی ھے اور کیڑے پیدا ھو جاتے ھیں جن کی تعداد دس ھزار ھوتی ھے پھر یہ کیڑے خون کے راستہ سےانسان کےپٹھوں مین منتقل ھوجاتے ھیں اور پھر لگنے والے امراض کی شکل اختبار کر لیتے ھیں البتہ (Spiralis) کا مرض بیمارخنزیر کے پٹھے کھانے سے لگتا ھے ۔ اور انسان کی آنتوں کے اندر کيڑا پروان چڑھنے لگتا ھے جس کی لمبائی کبھی کبھی سات میٹر ھوتی ھے۔ جس کا کانٹے وار سر آنٹوں کی دیواروں کےاندر اور خون کے دوران کیلئے بڑی دشواری کا سبب بنتا ھے ۔ اور اسکی چار چو سنے والی چونچیں اور ایک گردن ھوتی، ھے جس سے چونچ دار کیڑے وجود میں آتے ھیں جن کا ایک مستقل وجود ھوتا ھے ، جنکی تعداد ھزار تک ھوتی ھے ، اور ھر بار ھزار انڈے پیدا ھوتے ھیں اور انڈوں سے ملوث کھانا کھانے کی صورت میں (Taenia Solium) کا مرض لگ جاتا بیں جس سے کیڑے پیدا ھو کر خون میں منتقل ھو جاتے ھیں اور خطرے کا باعث بن جاتے ھیں۔ سؤر یا خنزیر کے گوشت میں سائنسی و طبی اعتبار سے بےشمار خرابیاں ہیں ۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ 1۔سؤر دنیا کے چند غلیظ ترین جانوروں میں سے ایک جانور ہے جو کہ پیشاب و پاخانہ سمیت ہر گندی چیز کھاتا ہے۔ سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ خوراک کا براہ راست اثر جسم پر ہوتا ہے ۔ 2۔ خنزیر کے گوشت اور چکنائی میں زہریلے مادے جذب کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسکے گوشت و چکنائی میں زہریلے مادے عام جانوروں کے گوشت کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ گویا یہ گوشت بقیہ عام گوشت سے 30 گنا زیادہ زہریلا Toxinہوتا ہے۔ 3۔ سور اس قدر زہریلا ہوتا ہے کہ اژ دہے کے ڈسنے سے بھی نہیں مرتا۔ چنانچہ بعض اوقات سؤر فارم کے رکھوالے سؤروں کو اژدھوں کے بلوں کے پاس بھی چھوڑدیتے ہیں تاکہ اژدھے اس علاقے سے نکل جائیں۔ 4۔ عام گوشت کے مقابلے میں خنزیر کے گوشت کے گلنے سڑنے کی رفتار 30 گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ یعنی عام گوشت سے بہت جلدی خنزیر سے گوشت میں کیڑے پڑتے ہیں۔ تجربہ کے طور پرچکن یا گائے کے گوشت کا ٹکڑا اور خنزیر کا ٹکڑا کھلی جگہ پر رکھ کر دیکھ لیں کونسے گوشت میں جلد بدبواور کیڑے پڑتے ہیں۔ 5۔ سؤر گندگی و غلاظت میں ساری زندگی گذارتا ہے یعنی اسے غلاظت سے کراہت نہیں ہوتی۔ اسکا گوشت کھانے والے کے اندر بھی یہی خرابی پیدا ہوجاتی ہےسؤر کا گوشت کھانے سے جنسی اشتہا تیزی سے بڑھتی ہے۔ انسان حرام حلال کی تمیز کئے بغیر اس جذبے کی تسکین چاہتا ہے 6۔ سؤر انتہا درجے کا بے غیرت جانور ہے۔ جنسی تسکین کے لیے نر و مادہ کوئی تمیز نہیں رکھتے۔ اسے کھانے والے معاشرے میں یہ خصوصیت باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدید سائنسی سوچ و فکر کے حامل ذہنوں کو مندرجہ بالا حقائق بتا کر پھر قرآن مجید میں خنزیر کی حرمت کے احکامات بتائیں گے تو یقینا اطمینان قلب و ذہن اور شرح صدر سے ان احکامات کی تعمیل پر آمادہ ہوں گے.
रविवार, 23 जुलाई 2017
اہلسنت و جماعت(بریلوی) ہی حق پر ہے، مخالفین کی گواہیاں - ------------------------------------------------------------------- *کل تک جو لوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے،* آج وہ لوگ اہلسنّت والجماعت ہونے کے دعویدار ہیں، یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟ یہ لوگ کون ہیں۔؟ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟ اور اِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔ سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں ”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک یہاں آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے صرف اور صرف اہلسنّت و جماعت تھے، اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا، سارے علماء و مشائخ سنی حنفی تھے……پھر مغل سلاطین کی فوج میں کچھ شیعہ یہاں آئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“ (2)حضرت امیر خسرو اپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال وکوالف کی منظر کشی کرتے ہیں ، جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں۔ ”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلسنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“ (3) یہ صور تحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور ”حضرت مجدد (الف ثانی) کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے، ایک اہلسنّت وجماعت ، دوسرا شیعہ۔ اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویة الایمان لکھی، اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد بنا، کوئی وہابی بنا، کوئی اہلحدیث کہلایا، کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا، آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا، وہ ختم ہوا، معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اِس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات (یعنی بے ادبی وگستاخی) کا سلسلہ شروع کردیا، یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“ (4) تقویة ایمان کی اِس شرانگیزیری پر اشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیںکہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب” "تقویة الایمان “ کی وجہ سے مسلمانان پاک وہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔ (5) یوں شیعیت کے بعد نجد کا فتنہ وہابیت (جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار ونظریات کا مجموعہ ہے) اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب ”تقویة الایمان“ اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔ ” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزاد نہ روش کی خواہش رکھتی تھی ، اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔ (6) درحقیقت تقویة ایمان انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کیلئے منظر عام پر آئی ، جولڑاو ¿ اور حکومت کرو کے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی، انگریز کی ایماء پر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ اور فتنہ وفساد پھیلانے والی ”اِس کتاب کو 1838ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ (جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد 12 میں شائع کیا تھا) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا ۔“ (7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ ، دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریزوں نے تقویة الایمان مفت تقسیم کی۔“ (8) آغا شورش کاشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا کہ مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو، اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا، انہیں پروان چڑھایا، اُن کا ہاتھ بٹایا۔ (9) اِس طرح تقویة الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے برصغیر میں ”اہلحدیث، نیچریت، چکڑالویت، انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“ (10) شاعر مشرق علامہ محمد اقبال (اللہ کی آپ پر رحمت ہو) اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“ (11) جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول ”تقویة الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت سنی حنفی سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں مختلف فرقوں میں داخل ہونے لگے اور اِس طرح سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت سنی حنفی کا شیرازہ منتشر ہوگیا، اِس انتشار کی روک تھام اور اہلسنّت کی شیرازہ بندی کیلئے روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا، یہ فاضل عالم تھے، مولانا احمد رضا خاں، جوامام اہلسنّت مجدد دین وملت فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔ (12) ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “ پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں ”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا، اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔ (13) اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ، خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8 پر تسلیم کرتے ہیں کہ ” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا، اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے۔“ شیخ محمد اکرام کے بقول ”انہوں (مولانا احمدرضا خاں) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“ (14) خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ ”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“ (15) جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے ، جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“ (16) نواب صدیق حسن بھوپالی اہلحدیث نے اقرار کیا کہ ”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے، اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“ (17) قارئین محترم ! درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر وہابی ، اہلحدیث ، دیوبندی کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں، وہ قدیم ترین جماعت ہے جس کی ابتداء اسلام کی آمد سے منسلک ہے ، شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر یعنی دیوبندی اِس براعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں، جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق اُس مکتبہ فکر سے ہے جو شدت کے ساتھ قدیم سنی حنفی عقائد پر گامزن رہا، حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ، جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ ”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری، سہروردی، نقشبندی ، چشتی، رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں جو بریلویوں کے ہیں“ (18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں، سہروردیوں، نقشبندیوں ، چشتییوں اور رفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں تو کیا اِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا، یقینا عقل و شعور سے یہ تصور محال ہے اور کوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کرسکتا کہ مولانا احمد رضا خاں نے برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیا اور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات (جسے عرب و عجم کے علماء و ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا) کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اور اہلسنّت وجماعت کا فخر و امتیاز قرار پائے۔ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں ” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ، از اوّل تا آخر مقلد رہے، اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو واضح طور پر پیش کرتی رہی، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی ”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے، اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ، انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ۔ (19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج ”اہلسنّت و جماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی و دیوبندی نسبت اور حوالوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی دیوبندی کا دکھایا ہوا تقیہ کا راستہ کہ ”اپنی جماعت کی مصلحت کیلئے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کیے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے ، وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اِس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔ “ (20) اختیار کرکے حنفیت واہلسنّت ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں، یہ وہی حکم الامت ہیں جو کہتے ہیں ”اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں ، پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں“ (21) جو اپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”بھائی یہاں تو وہابی رہتے ہیں، یہاں نیاز فاتحہ کیلئے کچھ مت لایا کرو۔“ (22) اَمر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود چاروں فقہ ” حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی“ کے ماننے والے لوگ جو کہ ہر خطے میں پائے جاتے ہیں، اہلسنّت وجماعت ہیں، اِن کے علاوہ باقی تمام مکتبہ فکر وہابی، اہلحدیث، اہل قرآن اور چکڑالوی وغیرہ خارج اہلسنّت شمار ہوتے ہیں، رہی دیوبندیت تو بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرما چکے ہیں کہ وہ (دیوبندیت) وہابیت کی ہی ایک شکل ہے جس نے بڑی چالاکی سے تقلید حنفی کا لبادہ اوڑھ کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا وطیرہ اختیار کرلیا ہے، قارئین محترم ! اِس مقام پر بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہابی و خارجی عقائد کے رکھنے والے لوگ کون ہیں، کب وجود میں آئے اور اِن کے عزائم کیا ہیں، اب دیکھتے ہیں اہلسنّت وجماعت کی تعریف و پہچان کیا ہے، دیوبندی مورخ سید سلیمان ندوی اصل اہلسنّت وجماعت کی تعریف وپہچان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں ” جن کے اعتقادات، اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت ِصحیح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثر ِمبارک ہے۔“ (23) رسول اللہ نے فرمایا یہ ”وہ راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، ”اللہ میری اُمت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا اور آپ نے فرمایا، نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو اُس سے الگ ہوا، شیاطین اُسے اچک لے جائیں گے، چنانچہ جب تم (اُس میں) اختلاف پاؤ تو (اُس کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے) سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو، اِس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا، وہ دوزخ میں پڑا۔ (مستدرک،کتاب العلم)، حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا ”بیشک میری اُمت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی، پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم (بڑی جماعت) کی پیروی کرو، (ابن ماجہ ،کتاب الفتن ، باب السواد الاعظم یعنی اہلسنّت و جماعت وہی ہے جو رسول ﷲکی سنت پر عمل پیرا رہے، بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اور جماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ”ماانا علیہ واصحابی علیہ الیوم“۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر اہلسنّت وجماعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”سنّی وہ ہے جو ماانا علیہ واصحابی کا مصداق ہو، یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین، ائمہ دین، مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ملک العلما حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں“ (24) اِن حوالوں سے ہمارا مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی تحریکوں سے قبل ہندوستانی علماء ومشائخ اور مسلمان اپنے قدیم دینی مذہب اور متوارث روایات پر پوری سختی کے ساتھ کار بندرہے ، مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کا تعلق بھی اِسی طبقے سے ہے۔ اِس وقت برصغیر میں امام احمد رضا خاں اور اُن کے مرید ہزاروں علماء و مشائخ کے عقائد ونظریات ہی اصل اہلسنّت وجماعت کے عقائد و نظریات ہیں، یہی جماعت سواد اعظم بھی ہے اور ارشاد رسول ”ماانا علیہ واصحابی“ کی حقیقی مصداق بھی ہے، یہی وہ جماعت ہے جو ہردور میں راہ حق پر گامزن رہی اورآج بھی مسلمانوں کی عام اکثریت اِسی روش پر قائم ہے، مگر آج اغیار کے جھوٹ وفریب اور مکرو دجل کی وجہ سے اصل اہلسنّت وجماعت کی شناخت و تشخص اور نظریاتی بقاء سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ٭٭٭٭٭ حوالہ جات:۔ (1) برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ،ص 53۔از ڈاکٹر اشیاق حسین قریشی (2) برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 23۔از،مبارک حسین مصباحی (3) ردروافض ،ص9-10 بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 84-85۔از،مبارک حسین مصباحی (4) مولانا اسمعٰیل دہلوی اور تقویة الایمان،ص 9۔از،مولانا ابوالحسن زید احمد فاروقی (5) انوار الباری جلد نمبر11،ص 107۔از ،مولویاحمدرضا بجنوری (6) مولوی ندیم الواجدی ،افکار ملی جون 2001،ص22 (7) مقالات سرسید جلد نہم،ص 187،سر سید احمد خان) (8) العلامہ فضل الحق خیرآبادی،ص187-188،المکتبة القادریہ لاہور۔از،ڈاکٹر قمرالنسائ (9) تحریک ختم نبوت،ص19۔از،آغا شورش کاشمیری (10) سعید الرحمن علوی ،سابق مدیر ہفت روزہ خدام الدین لاہور، بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 55۔از،مبارک حسین مصباحی (11) اقبال کے حضور ،ص 262۔از،نذیر نیازی (12) اہلسنّت کی آواز 1998،ص248-249مطبوعہ مارہرہ شریف (13) مولانا انوار اللہ فاروقی،مقالہ پی ایچ ڈی ص 138،ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر،مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد (14) موج کوثر ،طبع ہفتم 1966،ص 70،از۔شیخ محمد اکرام (15) البریلویة ،ص7،از۔احسان الٰہی ظہیر (16) شمع توحید مطبوعہ سرگودھا،ص 40،از۔ثنااللہ امرتسری (17) ترجمان وہابیہ،ص10،از۔نواب صدیق حسن بھوپالی (18) البریلویة ،ص 7۔از،احسان الٰہی ظہیر (19) تقدیم، دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان،ص 10-11 مکتبہ حبیبیہ لاہور (20) اشرف السوانح ،حصہ اوّل،ص 76۔از،اشرف علی تھانوی (21) الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67۔از ،اشرف علی تھانوی (22) اشرف السوانح،حصہ اوّل،ص 45۔از،اشرف علی تھانوی (23) رسالہ اہلسنّت والجماعت ،ص8،دارالمصنفین اعظم گڑھ (24) الفقیہ امرتسر 21اگست 1945ص 9(تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،ص 43۔از، محمد جلال الدین قادری دعا گو، عمران سیفی رضوی
من گھڑت واقعات کی تحقیقات ___________________________________________ عوام اہلسنت میں چند مشہور واقعات و مسائل کی تحقیق: عوام میں بہت سے مسائل و واقعات انتہائی معروف ہیں جبکہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ذیل میں چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں معراج شریف کے حوالے سے چند بے اصل واقعات 1) مشہور ہے کہ _حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب شب معراج آسمان پر پہونچے تو نعلین شریف اتارنا چاہا آواز آئی آپ نعلین شریف پہن کر تشریف_ لائیں تاکہ آپ کے نعلین کی برکت عرش اعظم کو فضیلت حاصل ہو_ تحقیق *اعلحضرت فرماتے ہیں کہ یہ من گھڑت اور بے اصل ہے* (حوالہ الملفوظ کامل و احکام شریعت حصہ دوم ص 9 فتاوی شارح بخاری اول ص306) 2) مشہور ہے کہ _حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان میں لکنت تھی جسکی وجہ سے آپ شین کو سین پڑھتے تھے بعض یہودیوں نے طعنہ دیا کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم نے مؤذن ایسا رکھا ہے جسے شین اور سین کی تمیز تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع کردیا تو اس روز صبح نہیں ہورہی تھی پھر صحابی بارگاہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوکر رات کے حوالے سے عرض کیا پھر جبریل علیہ السلام حاضر ہوے اور فرمایا جب تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں دیں گے صبح نہیں ہو گی الخ_ تحقیق نائب حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ کسی بھی معتبر کتاب میں نہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ بہت فصیح تھے اور آپ کی آواز بہت پیاری تھی (فتاوی شارح بخاری) 3) مشہور ہے کہ _کچھ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کو اپنے کاندھے پر بٹھاے جارہے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھ کر فرمایا کہ جنتی باپ کے کاندھے پر جہنمی بیٹا ہے_ *تحقیق* یہ من گھڑت اور سفید جھوٹ ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سن 11ھ میں وصال فرما گئے تھے اور یزید 25ھ میں پیدا ہوا یعنی آپ صل اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال شریف کے 14یا 15سال بعد یزید پیدا ہوا پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے 4) مشہور ہے کہ عوام الناس میں مجنوں کا ذکر لیلی کے حوالے سے کثرت سے کیا جاتا ہے بلکہ یہاں تک لوگ کہتے ہیں کہ *مجنوں ہوا بدنام لیلی کو دل دےکر* *میرے آقا کو دل دیا ہوتا تو کیا ہوتا* *تحقیق یہ ہے کہ* امام اہل سنت فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ _حضرت قیس المعروف مجنوں رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک مجنوں بنی عامر اولیاے کرام میں سے تھے آپنے لیلی کے سبب اپنے جنون کے ذریعہ اپنے معاملے کو چھپایا ہوا تھا_ (حوالہ - کیا آپ کو معلوم ہے؟ بحوالہ فتاوی رضویہ 4) *مشہور ہیکہ* جنگ احد میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے چار دندان شریف شہید ہوگئے تھے *تحقیق یہ ہے کہ* حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی دانت شریف مکمل شہید نہ ہوا تھا یعنی جڑسے نہ اکھڑا تھا *بلکہ اس حوالے سے شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کہ دانت ٹوٹنے کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ جڑ سے اکھڑ گیا ہوگا اور وہاں رخنہ پیدا ہوگیا ہوگا بلکہ ایک ٹکڑا شریف جدا ہوا تھا* (اشعتۃ اللمعات شرح مشکوۃ ج4ص515) اس حوالے سے حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے داہنی کے نیچے کی چوکڑی کے ایک دانت شریف کا کنگرہ ٹوٹا تھا یہ دانت شریف شہید نہ ہوا تھا (مراۃ المناجیح ج8 ص107) 5) *مشہور ہے کہ* حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دانت شریف جنگ احد میں شہید ہوگیا تو آپ نے اپنے سارے دانت حضور کی محبت میں شہید کر ڈالے پھر آپ کے لیے اللہ تعالٰی نے کیلا پید کیا *تحقیق یہ ہے کہ* یہ واقعہ سراسر من گھڑت اور وضع جہال ہے بعض تذکرہ کی کتابوں میں اگرچہ موجود ہے لیکن وہ بے دینوں کی ملاوٹ ہے فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ایسی روایت نظر سے نہ گزری اور نہ ہی ایسی روایت ہے (فتاوی بریلی شریف ص301) اسی طرح جب اوپر یہ واضح ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی دانت شریف مکمل شہید نہ تو یہ واقعہ بھی باطل ٹھرا اسی طرح دانت کو شہید کرنا کفار کا کام تھا پھر اسکو خیر التابعین کیوں نقل کریں گے؟ اس واقعہ کو سب سے پہلے شیخ عطار علیہ الرحمہ کی تصنیف '' تذکرۃ الاولیاء '' میں دیکھا جاسکتا ہے اور یہ کتاب رافضیوں کے ظلم کا شکار رہی ہے مزید تفصیل کے لیے دیکھیں (تحقیقی فتوی از علامہ مفتی فضل احمد چشتی) 6) *مشہور ہے کہ* نماز جنازہ میں دائیں جانب سلام پھیر کر داہنا ہاتھ اور بائیں جانب سلام پھیر کر بایاں ہاتھ چھوڑا جاتا ہے *تحقیق یہ ہے کہ* بہتر یہ ہے کہ جب چوتھی تکبیر ہوجاے تو دونوں ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیریں (فتاوی رضویہ و دیگر عام ہ کتب) 7) *مشہور ہے کہ* کہا جاتا ہے وہ کونسا افضل کام ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی نہیں کیا؟؟ پھر جواب دیا جاتا ہے کہ وہ اذان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی نہ دیا *تحقیق یہ ہے کہ* آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو بار سفر میں اذان دی ہے (درمختار و دیگر کتب) 8). *مشہور یہ ہے کہ* عموماً لوگ نماز کے بعد مصلے کا ایک کونہ موڑ دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ کھلا رہنے پر شیطان نماز پڑھتا ہے اس لیے موڑ دینا چاہیے *تحقیق یہ ہے کہ* صرف مصلے کا ایک کونہ موڑنا بے اصل ہے دیکھئے انوار نماز اول اور یہ خیال سرے سے غلط ہے کہ شیطان نماز پڑھتا ہے (بہار شریعت و فتاوی رضویہ و تفہیم المسائل) 9) *مشہور یہ ہے کہ* بعض لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حضور کسی گناہ کو پسند فرما لیں تو وہ نیکی بن جائے *تحقیق یہ ہے کہ* شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ کفر ہے کہ حضور گناہ کو پسند فرمائیں تو نیکی بن جائے (فتاوی شارح بخاری اول 512) 10) *مشہور یہ ہے کہ* بعض لوگ سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے جنازہ کی نماز حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پڑھائی *تحقیق یہ ہے کہ* اس حوالے سے مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آپ کی شریعت میں نماز جنازہ ہی نہ تھی حضرت جبریل علیہ السلام کا پڑھانا ثابت نہیں (فتاوی شارح بخاری اول 545) 12) *مشہور یہ ہے کہ* عوام میں مشہور ہے کہ فلاں شخص پھانسی لگا کر مرا یا جل کر یا کسی حادثہ کے سبب مرا تو اسکی روحیں زندوں پر شیطان بن آتی ہیں اور وہی ستاتی ہیں یا مرنے کے بعد یہی لوگ شیطان خبیث چڑیل بن جاتے ہیں *تحقیق یہ ہے کہ* خبیث روحیں مقید ہوتی ہیں وہ کہیں جا سکتی ہیں نہ آ سکتی ہیں کفار و اشرار کے ہمزاد آزاد ہوتے ہیں اور وہی آسیب زدہ پر آتے ہیں (فتاوی شارح بخاری دوم ص304)
शनिवार, 22 जुलाई 2017
اصلی اہلسنت و جماعت کون؟ وہابی، دیوبندی یا بریلوی؟
اصلی اہلسنت و جماعت کون؟ وہابی، دیوبندی یا بریلوی؟؟
____________________________________________
سر زمین ہند میں فتنہ وہابیت سے متاثر ہو کر ۱۳۴۰ھ میں مولوی اسماعیل دہلوی (م ۱۲۴۶ھ -۱۸۳۱ء) نے ’’ تقویۃ الایمان نامی گستاخانہ کتاب لکھ کر وہابیت کی آگ کو اسلامیانِ ہند کے خرمن میں لگا دیا۔جس کی تپش سے مسلمان جھلس جھلس کر گمراہیت کے تندور میں گرنے لگے،مشہور غیر مقلد عالم مولانا وحید الزماں فاروقی (۱۳۳۸ھ) نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، وہ لکھتے ہیں -’’ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب ’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی کی پیروی کی ہے‘‘-( مولانا یٰسین اختر مصباحی، سواد اعظم ص: ۱۶، بحوالہ ہدیۃ المہدی، از وحید الزماں فاروقی)
جس وقت یہ کتاب شائع ہوئی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، جو مصنف کے چچا تھے، اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، انہوں نے بڑے درد و کرب بھرے لہجے میں کہا:
’’ میں اس وقت بوڑھا ہوں، ورنہ تقویۃ الایمان کے رد میں بھی’’ تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ کی طرح ایک ضخیم کتاب لکھتا‘‘- (مولانا مبارک حسین مصباحی، برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب ،ص: ۱۱۸)
لیکن جو حضرات جوان تھے انہوں نے لکھا اور خوب لکھا-مصنف کے چچا زاد بھائی مولانا مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی، علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی مکہ احمد ابن زینی دحلان ، مولانا مخلص الرحمن اسلام آباد، شیخ محمد عابد، مدینہ منورہ اور دوسرے درجنوں علمانے ’’ تقویۃ الایمان ‘‘ کے خلاف کتابیں لکھیں، تقریریں کیں اور مناظرے کیے- ان میں سب سے زیادہ سرگرم بقول مولانا آزادؔ ان کے پرنانا مولانا منور الدین علیہ الرحمہ تھے - (آزاد کی کہانی آزاد کے زبانی ،ص: ۶)
’’تقویۃ الایمان ‘‘ نے اہالیان ہند کو کیا دیا اور ریال کے زور پر پھیلنے والی اس فکر نے کیا تباہیاں مچائیں، مولانا شاہ زید ابو الحسن فاروقی کی زبانی سنیے-
’’ اس کتاب (تقویۃ الایمان) سے مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد ہوا، کوئی وہابی بنا ، کوئی اہل حدیث کہلایا ، کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا، ائمہ مجتہدین کا جو منزلت اور وقار دل میں تھا ، وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم و احترام میں تقصیرات کا سلسلہ شروع ہوگیا‘‘ -
انقلاب ۱۸۵۷ء سے ایک سال قبل ۱۸۵۶ء /۱۲۷۲ھ میں شہر بریلی میں امام احمد رضا خاں بریلوی (م ۱۳۴۰ھ ۱۹۲۱ء) کی ولادت ہوئی، وہ ایک علمی گھرانے کے فرد تھے، جب انہوں نے ہوش سنبھالا ہر چہار جانب وہابیت کی آگ لگی ہوئی تھی اور ملک کے سبھی علماء اس کے خلاف بر سر پیکار تھے، ان کے معاصر علمامیں زبان وقلم سے ’ ’رد وہابیہ‘‘ کرنے والوں میں یہ حضرات قابل ذکر ہیں-
(۱)مولانا عبد الحئی فرنگی محل (م ۱۳۰۴ھ) (۲) مفتی ارشاد حسین رام پوری (م۱۳۱۱ھ) (۳) مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی (م۱۳۱۳ھ) (۴) مولانا غلام دستگیر قصوری، لاہور (م:۱۳۱۵ھ) (۵) مولاناعبد القادر بدایونی (م: ۱۳۱۹ھ) مولانا ہدایت اللہ رام پور (م:۱۳۲۶ھ) (۷) مولانا خیر الدین دہلوی (م: ۱۳۲۶ھ) (۸) شاہ ابو الخیر دہلوی (م: ۱۳۴۱ھ) (۹) حضرت شاہ علی حسین اشرفی (۱۳۵۵ھ) (۱۰) شاہ مہر علی گولڑوی (۱۳۵۶ھ)
فاضل بریلوی نے بھی اپنے ہم عصر علماے حق کے ساتھ رد وہابیہ کو اپنا مشغلہ بنایا اور اپنے اور بیگانے کا فرق کیے بغیر جس کے فکر و اعتقاد میں بھی ذراسی کجی پائی اس کا بھر پور محاسبہ کیا اور ان کی شدید خبر گیری کی جو سنی حنفی بن کر’’ وہابی فکر‘‘ کی اشاعت میں خفیہ طور سے کوشاں تھے- اس طرح فاضل بریلوی کی کوشش خالص اہل سنت و جماعت کے حق میں تھی-اور امام احمد رضا کے تلامذہ اور خلفاء علم و فن میں یگانۂ روز گار ثابت ہوئے اور علمائے سلف اور اپنے استاد کے مشن کو سب نے بر قرار رکھا، انہوں نے تقریر، مناظرہ اور تصنیف و تالیف ہر طرح سے’’ وہابیت‘‘ کی حقیقت کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی پوری کوشش کی- جس سے جگہ جگہ اسے منہ کی کھانی پڑی-اب وہابیت کے سامنے ایک ہی راستہ تھا ،وہ یہ کہ علمائے اہل سنت سے بحث و تکرار کی بجائے پروپیگنڈ ہ کا سہارا لو اور اہل سنت و جماعت کے علما کو ہی اصل فتنہ و اختلاف کا ذمہ دار ٹھہرا دو، اس کے لیے انہوں ے علماے اہل سنت کو ’’ بریلوی‘‘ سے متعارف کرایا اور خود اہل سنت و جماعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرنے لگے،
اور اس کا ایک غلط تاثر یہ پیدا ہوا کہ ’’ بریلویت‘‘ ایک جد ااسلامی فرقہ ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خاں بریلوی ہیں(معاذاللہ)
آج دیوبندی، وہابی، اہلحدیث، سب ہی اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے کم پڑھا لکھا، یا دینی تعلیم کی کم معلومات رکھنے والے حضرات اکثر الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آخر اصلی اہلسنت و جماعت کون لوگ؟
اس تحریر میں اسی کا جائزہ لیا جائے گا ملاحظہ فرمائیں :
فقیر اپنے انداز فکر اور مستقل نصب العین کے مطابق دیوبندی وہابی مکتب فکر کی وہابیت کا ثبوت اپنی طرف سے کچھ کہنے لکھنے کی بجائے ان کی اپنی مستند معتبر کتابوں سے پیش کرے گا۔ مگر پہلے یہ واضح کردوں کہ بیشتر کتب لغت میں وہابی کا معنی محمد بن عبدالوہاب نجدی کا پیروکار لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو فیروز اللغات، امیر اللغات، حسن اللغات وغیرہ وغیرہ۔
یہی کچھ اہلسنت وجماعت کے مسلمہ ومقتدر وموقر امام و فقیہ زبدۃ المحققین علامہ امین الدین محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی نے ردالمحتار حاشیہ در مختار جلد ثالث کتاب الجہاد باب البغاۃ میں ارقام فرمایا:
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ جیسا ہمارے زمانے میں محمد بن عبدالوہاب کے پیروں (اتباع کرنے والوں) سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کرکے حرمین محترمین پر تغلب کیا (چڑھائی کی) اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے مذہب پر نہیں وہ سب مشرک ہیں۔ اس لئے انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کا قتل مباح (جائز) ٹھہرا لیا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی شوکت توڑدی اور ان کے شہروں کو ویران کردیا اور تشکر مسلمین کو ان پر فتح دی ۱۲۳۳ھ میں۔ احناف کے مسلمہ امام و فقیہ کے غیر مبہم واضح ارشاد سے ثابت ہوا کہ وہابی محمد بن عبدالوہاب نجدی کو ماننے والے متبعین کو کہتے ہیں۔ انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کو قتل کیا اور مسلمانوں کو مشرک قرار دیا اور حرمین طیبین پر چڑھائی کی۔
اب آیئے اور دیکھئے۔ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین کو اچھا اور عامل بالحدیث کہنے والا کون ہے؟ اور اس کی قصیدہ خوانی کرنے والا کون ہے؟ مدرسہ دیوبند کے بانی ثانی اور ان کے اپنے بقول ان کے خود ساختہ قطب عالم و غوث اعظم مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی دیوبندی صاف لکھتے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا اور اس کے مقتدی اچھے ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ جلد اول، ص 111، وجدید ایڈیشن فتاویٰ رشیدیہ)
اب خود وہابی ہوکر اہلسنت والجماعت کہلانے اور اپنا نیا نام اہلسنت والجماعت رکھنے والے خود بتائیں کہ بقول علامہ امام ابن عابدین شامی رحمتہ اﷲ علیہ اہلسنت اور علماء اہلسنت کو قتل کرنے والے مسلمانان اہلسنت کو مشرک قرار دینے والے حرمین شریفین پر چڑھائی کرنے والے کے عقائد کو اچھا کہنے والا اسے عامل بالحدیث کہنے والا۔ شرک و بدعت سے روکنے والا کہنے والا ان کے عقائد کو عمدہ کہنے والا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور گنگوہی کو ماننے والے کس طرح اہلسنت و الجماعت ہوسکتے ہیں؟ اور کون مان سکتا ہے؟
اور سنئے اور دیکھئے یہ ہے منہ بولتا ثبوت
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے حکیم الامت مولوی اشرفعلی صاحب تھانوی ڈنکے کی چوٹ پر اپنے وہابی ہونے کا خندہ پیشانی سے اقرار و اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بھائی یہاں (ہماری مسجد و مدرسہ میں) وہابی رہتے ہیں، یہاں (ہمارے پاس) فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو‘‘ (اشرف السوانح جلد اول، ص 45)
ایک اور جگہ یہی تھانوی صاحب فانی فی الوہابیت سینہ تان کر کہتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں ’’اگر میرے پاس دس ہزا روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں‘‘ (الافاضات الیومیہ ملفوظات تھانویہ جلد 5ص 67، و جلد 2، ص 221)
لوگوں کوپیسے دے کر اپنے ہم عقیدہ وہابی بنانے کی کتنی تڑپ اور کتنی فکرو آرزو ہے تو پھر یہ حضرات اور ان کے عقیدت مند وہم عقیدہ اہلسنت والجماعت کیسے ہوسکتے ہیں؟
تھانوی صاحب کا مزید فراخدلانہ اقرار
کہتے ہیں ’’ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اہل نجد (محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین) اہل نجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا رائے یہ ہے کہ وہ نجدی ہیں، وجدی نہیں، صرف یہی ایک کسر ہے… فرمایا کہ ابن سعود اپنی ذات سے بہت غنیمت ہے… یہ شکایت کرنے والے ہی کون سے پاک صاف ہیں یہ بھی وہاں جاکر گڑبڑ کرتے ہیں۔ وہ ان کی حرکات کو تشدد سے روکتے ہیں‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، جلد اول، ص 279 ملخصاً)
تھانوی صاحب نے جھٹ سے یہ تو کہہ دیا کہ بہت غنیمت ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ، ام المومنین حضرت زینب، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم و دیگر ازواج مطہرات کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں۔ سیدنا امیر المومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین سیدنا امام حسن مجتبیٰ سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابوذر، سیدنا عباس، سیدنا قتادہ سیدنا عثمان ابن مظعون، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا سعد ابن وقاص، شہزادہ رسول اکرم، سیدنا ابراہیم سیدنا طیب مطاہر، سیدنا قاسم رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم ،جیسے صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں؟
بنت رسول حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، بنت رسول سیدہ حضرت ام کلثوم بنت رسول سیدہ حضرت رقیہ بنت رسول حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہن کے مزارات مقدسہ و دیگر صحابہ کرام واہل بیت اطہار کے مزارات مقدسہ کو کس جرم میں توڑا گیا، کیوں شہید کیاگیا، کیا یہ مزارات مقدسہ مشرکین مکہ و مدینہ ابوجہل، ابولہب وغیرہ کفار بناکر گئے تھے۔ تھانوی وہابی صاحب جو بہت غنیمت ہونے کی ڈگری اور سند دے رہے ہیں، کیا یہ کھلی وہابیت نہیں اور پھر وہابی ہوکر اہلسنت و الجماعت کہلانا اور یہ نام رکھنا کہاں تک مناسب اور مبنی برحقیقت ہے۔ جلیل القدر صحابہ کرام عظیم المرتبت اہل بیت اطہار رضوان اﷲ تعالیٰ عنہم کے مزارات کی پامالی و بے حرمتی وانہدام کی مفصل جامع رپورٹ مولانا محمد علی جوہر مولوی سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد، ظفر علی خاں، مولانا محمد عرفان، سید خورشید حسن، مسٹر شعیب قریشی، عینی مشاہدوں پر مشتمل رپورٹ خلافت کمیٹی صفحہ 30-23، صفحات 879,88,85,80 پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مقالات مولانا محمد علی جوہر میں بھی واضح شواہد ملیں گے۔
وہابی کے معنی پر تھانوی صاحب جھوم گئے
تھانوی صاحب نے اپنے ملفوظ 638 کے تحت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی فرمایا کہ بدعتی کے معنی ہیں۔ باادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں۔ بے ادب با ایمان…
(الافاضات الیومیہ جلد 2، ص 326)
یہاں بھی وہابی سے حسن عقیدت و محبت ظاہر ہے مگر تھانوی صاحب نے مولوی فیض الحسن صاحب کے من گھڑت خلاف واقع اور خلاف تحقیق معنی اس لئے ظرافت کے معنی و مفہوم میں قبول کرلیا۔
مولوی منظور سنبھلی بڑے سخت وہابی
بخدا ہم بحلف شرعی کہتے ہیں واﷲ العظیم یہ ہمارا الزام نہیں، جناب نانوتوی صاحب گنگوہی صاحب، انبیٹھوی صاحب، تھانوی صاحب کی تنقیص آمیز قابل اعتراض خلاف شرع عبارات کی نوع بنوع تاویلیں کرکے تقویۃ الایمان، صراط مستقیم، تحذیر الناس، براہین قاطعہ فتویٰ گنگوہی، حفظ الایمان کی عبارات نت نئی تاویلات زلفیں سنوارنے والے اکابرین دیوبند مسلمہ و معتمد ترجمان و مناظر مولوی منظور سنبھلی بھی صمیم قلب سے صاف صاف اقرار کرتے ہیں ’’ہم خود اپنے بارے میں بھی بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں‘‘ (بعینہ و وبلفظ سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 192)
سنبھلی صاحب کے اس فراخدلانہ اقرار و اعتراف کے بعد نہلے پر دھلا مارتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں جواباً دیوبندی شیخ الحدیث مولوی ذکریا صاحب کہتے ہیں ’’مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا بڑا وہابی ہوں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی، ص 193 بالفظہ)
مذکورہ بالا دلائل و حقائق اور روشن شواہد اور ان کے اپنے مسلمہ معتمد اکابر کی شہادتوں کے بعد کہ یہ وہابی ہیں، بڑے مضبوط وہابی ہیں پھر ہم کس طرح تسلیم کرلیں کہ یہ اہل سنت و جماعت ہیں اور کوئی بھی حقیقت پسند ذی فہم و شعور کس طرح ان کو اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟ ہم اپنی قبر و آخرت و میزان کو سامنے رکھ کر دیانتداری سے عرض کرتے ہیں یہ ہمارا الزام برائے الزام نہیں، ان کی کتابوں سے ان کے اکابر کے اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی عدالت اور کورٹ میں طلب کرے۔ ہم وہابی بھی ثابت کرسکتے ہیں پھر زورا زوری اہلسنت کہلانا خلاف واقع اور حقیقت کے برعکس ہے۔
یاد رہے… کہ دیوبندی وہابی مناظر مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان لکھنؤ نے محمد بن عبدالوہاب نجدی بانی وہابیت کے فضائل کمالات پرایک کتاب بنام ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماء حق‘‘ بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے لکھی ہے جس میں وہابیت نجدیت پر جانثاری کا حق ادا کردیا اور اپنے اصلی اندرونی وہابیانہ رنگ روپ میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب بھی ان کی وہابیت میں کوئی شک کرسکتا ہے؟
اور دیکھئے… ہمارا اپنا کوئی الزام نہیں ان کی اپنی کتابوں کے بفلظہ و بعینہ حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب سے ان حضرات کے بلند حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب ان حضرات کے بلند پایہ مصنف وبزعم خود محقق مولوی مسعود عالم ندوی وہابی جوکہ تھانوی وہابی حکیم الامت کے معتمد خلیفہ ونیاز مند مولوی سلیمان ندوی وہابی کے غلام و دریوزہ گر ہیں، نے بنام ’’محمد بن عبدالوہاب، ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ بڑی دھونس داری کے ساتھ ارقام فرمائی ہے جس کی تدوین میں اپنی اور اپنے رفقاء و معاونین کی تمام ترتوانائیاں جھونک دیں اور جان کی بازی لگادی۔ اس کتاب کو وہابی المکتبہ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور نے شائع کیاہے جو ان کے ہم عقیدہ و ہم مسلک ہونے کی دلیل اور سند ہے
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کا انتساب مشہور وہابی دیوبندی مولوی سلیمان ندوی کے نام کیا ہے جس کو مصنف مسعود عالم نجدی ندوی نے اپنا استاد، مربی اور مخدوم تسلیم کیا ہے۔ جو دیوبندی، نجدی، ندوی مسلکی ہم آہنگی اور وہابی اتحاد و یکجہتی کی ناقابل تردید دلیل ہے۔
اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ نجدی وہابی، غیر مقلد وہابی، دیوبندی وہابی ندوی وہابی ایک ہی چیز کے چار نام ہیں۔ بہرحال وہابیت قدر مشرک ہے وہابی ہونا سب کے لئے سعادت ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مولف کتاب ’’محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ نے اس کتاب کی تالیف میں متعدد وغیر مقلدین وہابیہ کو بھی شامل رکھا اور اس باب میں مددومعاونت کی وہ یہ ہیں۔ ڈاکٹر عظیم الدین پٹنہ، پروفیسر حسن عسکری، مولوی عبدالرحمن کاشغری ندوی کلکتہ، مولوی دائود غزنوی غیر مقلد وہابی لاہور، شیخ عنایت اﷲ، ڈاکٹر حمید اﷲ حیدرآباد، شرف الدین بمبئی، مولوی عبدالمجید حریری بنارس، پروفیسر محمد اکبر ندوی کلکتہ، حافظ یوسف حسن بہار شریف، نجدی وہابی عالم شیخ محمد عمران بن محمد بن عمران ساکن نجد ریاض سے خصوصی مدد لی گئی ان مستند و معتبر حوالہ جات نے ثابت کردیا کہ دیوبندی، نجدی، ندوی سب وہابی ہیں تو پھر وہابیوں کو اہلسنت و الجماعت نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کم از کم اپنے مذہب و مسلک سے تو دغا اور بے وفائی نہ کریں۔
ہم اس حقیقت کی نقاب کشائی بھی کردیں کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی اور مولوی اسماعیل دہلوی میں مکمل اعتقادی و مسلکی ہم آہنگی تھی، محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید اور اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان لے کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی شخص منصف مزاج اس حقیقت واقعی کو جان سکتا ہے کہ عربی اور اردو میں دونوں کتب کے مندرجات ایک ہی ہیں۔ دونوں میں وہابیت کی روح کافرما ہے۔ مختلف النوع چکر چلانے لفاظی و مغالطہ آمیزی کے جال بچھانے کے باوجود مولوی مسعود عالم ندوی کو یہ تسلیم کرنا پڑا اور اس کے سوا چارہ ہی نہیں، خود لکھتا ہے ’’ہندوستان کی (اسماعیلی) تحریک وہابیت یعنی حضرت سید صاحب (واسماعیل دہلوی) کی تحریک تجدید و امامت نجد کی وہابی تحریک ہی کی ایک شاخ ہے، اس میں شک نہیں دونوں تحریکوں کا ماخذ ایک بامقصد ایک اور دونوں کو چلانے والے کتاب و سنت کے علمبردار یکساں سرگرم مجاہد تھے (کتاب محمد بن عبدالوہاب ص 8-7)
اسی کتاب کے صفحہ 77 پر محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی کی کتاب التوحید، مولوی اسماعیل دہلوی وہابی کی کتاب تقویۃ الایمان کی وکالت ہے۔ اور نجدی و دہلوی، کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان کی اعتقادی موافقت کا جگہ جگہ تذکرہ کرکے دونوں کی یکسانیت ثابت کی گئی ہے۔
مولوی رشید احمد گنگوہی تقویۃ الایمان کمال درجہ حسن عقیدت و موافقت کے طور پر رقم طراز ہیں۔ کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ اور سچی کتاب ہے موجب قوت و اصلاح ایمان کی ہے… بندہ کے نزدیک سب مسائل اس کے صحیح ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ص 356، و 357)
اندریں حالات ان اہلسنت کا لیبل لگانے والوں کے مسلمہ اکابر جب وہابیت کو اپنا رہے ہیں، وہابیوں کو کون اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟
ابن عبدالوہاب نجدی وہابی کے سوانح نگاروں میں ایک نام شیخ احمد عبدالغفور عطار کا بھی ہے جس نے کمال درجہ جذبہ سرفروشی سے بنام ’’شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب‘‘ ارقام فرمائی جس کا ترجہ کسی مولوی محمد صادق خلیل نے اردو میں کیا ہے۔ اس میں واضح طور پر غیر مبہم انداز میں لکھا ہے جس طرح نجد و حجاز میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا ظہور ہوا۔ بعینیہ اسی طرح ہندوستان میں حضرت الامام شاہ محمد اسماعیل منظر عام پر آئے‘‘ (ص 6)
’’نجد کے شیخ (محمد بن عبدالوہاب) نے چونکہ عبادتِ قبور کے خلاف جہاد کرکے شرکیہ مقامات (مزارات وازواج مطہرات کے مزارات طیبہ گرادیئے اورشہید کردیئے) منہدم کردیئے تھے۔ (اسی طرح) … شاہ (اسماعیل) صاحب نے دہلی میں فرمایا تھا کہ اس مہم (بالاکوٹ) سے فارغ ہوکر جائوں تو خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ بھی گرائوں گا… (ص 9) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ … انہوں نے (سید احمد اور اسماعیل دہلوی) نے قیام حجاز کے دوران شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کا مطالعہ بھی کیا… اور وہابی علماء کارکنوں سے ملاقات کے امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا (کتاب محمد بن عبدالوہاب تالیف احمد عبدالغفور عطار)
الحمدﷲ ہم نے بفضلہ تعالیٰ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی کی وہابیت میں اشتراک و ہم آہنگی کو ان کے اپنے اکابر کی مستند تصانیف سے ثابت کردیا۔ اب لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ وہابی ہوکر اہلسنت کا لیبل کیوں اختیار کررہے ہیں؟ اب چند سال پہلے اہلسنت کا لیبل استعمال کرنے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ پہلے سے ابتداء سے اہلسنت نہیں تھے۔
علاوہ ازیں ریکارڈ کنگھالا جائے تو پتہ چلے گا کہ مشہور دیوبندی وہابی شیخ التفسیر مولوی احمد علی صاحب لاہوری نے اپنی بیٹی کی شادی بھی غیر مقلد وہابی مولوی سے کی تھی اور مولوی عبدالمجید خادم سوہدروی (تلمیذ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی وہابی کا تلمیذ مولوی احمد علی لاہوری دیوبندی کا داماد تھا (کتاب کرامات اہلحدیث ص 2)
اور یہ بھی ثابت ہے کہ مولوی احمد علی صاحب لاہوری دیوبندی وہابی اپنے وہابی بھائی مولوی دائود غزنوی کی اقتداء میں نماز عیدین ادا کرتے تھے (ہفت روزہ خدام الدین لاہور)
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ان کے اپنے اکابر کے اعترافات کہاں تک پیش کئے جائیں لکھتے ہیں۔ ’’میں نے شام سے لے کر ہند تک اس دیوبند (دیوبندی وہابی مولوی انور کاشمیری) کی شان کا کوئی محدث اور عالم نہیں پایا اگر قسم کھائوں کہ یہ (مولوی انور کاشمیری) امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی بڑے عالم ہیں تو میں اپنے دعویٰ میں کاذب نہ ہوں گا‘‘ (خدام الدین لاہور 18 دسمبر 1964ئ)
کیا کوئی حقیقی واقعی اصلی اہلسنت ایسا دعویٰ کرسکتا ہے؟
مخالفین نے جیسا کہ ہمارے تعلق سے پروپیگنڈہ استعمال کیا ہمیں بریلوی لفظ سے متعارف کروا کر خد کو اہلسنت و جماعت کی فہرست سے شمار کروانا چاہا
اب لفظ بریلوی کے تعلق سے بھی حقیقت آپ کے سامنے پیش کر دوں ملاحظہ فرمائیں :
ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اہل حدیث لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے، مگر دیوبندی مقلدین(اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی''کہتے ہیں''۔(ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، مطبوعہ سبحانی اکیڈمی لاہور، ص٣٧٦)
جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، ص٧)
مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور، ص١٠۔١١)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے''(احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، ص٧)
اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو۔
امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، ص٨٥، ٨٦)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔
(سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، ص٢٢)
مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، ص٧٠)
اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔
(ثناء اﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا(پنجاب)، ص٤٠)
یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔
(انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٨)
پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩)
تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اہلسنت والجماعت ہیں۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضورﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، حضورﷺ کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں، حضورﷺ کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضورﷺ کی امت کے اولیااللہ سے عقیدت رکھتے ہیں، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔(ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)
ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ؛ "امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔(آئینہ رضویات، ص 300)
صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا۔ لہذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے۔(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69)
اس بات پر تو سبھی مکتبہ فکر کا اتفاق ہے کہ سواد اعظم اہل سنت و جماعت ہی حق ہے اور یہی "ما انا علیہ واصحابی" کے مصداق ہے تبھی تو آج فاسد عقائد رکھنے والے فرقہ کے لوگ بھی بڑی شد و مد سے اس اصطلاح کا استعمال کر کے سادہ لوح مسلمانوں سے اپنی حقیقت چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں،
لیکن الحمدللہ علمائے اہلسنت و جماعت ان مکاروں، دھوکہ بازیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں،
اہلسنت و جماعت ان تمام افراد کو کہا جاتا ھے جو رسول کریم صلی الله علیہ و سلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے طریقے پر کار بند ھیں ۔ وجہ تسمیہ نام سے ظاہر ہے، سنت پر چلنے والے اور جماعت کہنے کی وجہ یہ کہ وە لوگ حق پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے ۔ مصلحین امت نے ھر دَور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے، اسی کوشش کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کہا گیا، عملی طور پر اصحاب نبوی ، اہل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثين ،ائمہ مجتہدین ، اولیائے کاملین سب اسی پر کار بند رہے۔
جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ،قادِری ، چشتی ، نقش بندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہے، وە اہل سنت وجماعت ( ایک لفظ میں " سنی" ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ھیں ۔)ابتدا ھی سے ھر عہد میں اہل سنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ھیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔
اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاھری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیے استعمال ھوتا آ رہا ہے ۔چناں چہ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ھونے کی علامت ہے۔ ( الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688)۔
: عبد الله بن عمرو سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیک وسلم، وە ملت واحدە کون ھوں گے؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ۔ ( ترمذی : 2461 ، ابن ماجہ: 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171)
امام ملا علی قاری فرماتے ھیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔
اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرمائے گا اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پیروی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقاداً یا قولاً یا فعلاً ) الگ ہوا وە آگ میں الگ ہوا۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ہوا وە آگ میں ڈالا جاے گا۔(ترمذی:2167،کنز العمال:1029،1030،مشکوۃ:173،174)
ابن عباس رضی ا لله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اھل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاہلیت کی موت مرا۔
مخالفينِِ اہلسنت کے علامہ ابن تیمیہ نے " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القرآن ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ھیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) - ( مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)
( تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی " واعتصموا بحبل الله جمیعا " کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا " قال الجماعۃ " اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ھی سے اسی آیت کے تحت لکھا " قال حبل الله الجماعۃ" ابن جریر لکھتے ھیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ھے( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)
اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە " (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ھوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس نے فرمایا اھل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے اور دیلمی نے ابن عمر سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدري سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ھوں گے اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے ۔( الدر المنثور :63/2،
(دیلمی مسند الفردوس:8986، کنز العمال: 2637، تاریخ بغداد:3908، تفسیرمظھری116/1،السنۃ :74)
محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی سیدنا غوث اعظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ہیں ۔ مومن کے لیے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جاری فرمایا ھو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفاے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔( غنیۃ الطالبین 192)
محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، سبھی اہل سنت وجماعت ھوے ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ھی کو دیا جاتاھے۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ھونے کی یہ واضح دلیل ھے
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے؟
اگر یہ عناصر فی الواقع حقیقی اہلسنت بننا چاہتے ہیں تو صمیم قلب اور خلوص نیت سچی پکی دائمی توبہ اور رجوع کرکے خلوص نیت عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنائیں اور عملی و اعتقادی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کریں۔ اہلسنت کہلانا ہے تو حضور اقدس نبی اکرم رسول محترمﷺ کو نور مجسم اور بے مثل بشر، حضور اقدسﷺ کو خداداد علم غیب اور حاضر و ناظر اور مختار کل قاسم ہر نعمت بعطاء الٰہی ماننا پڑے گا۔ عید میلاد وصلوٰۃ و سلام قیام و سلام نعرۂ رسالت ختم فاتحہ ایصال ثواب الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ وغیرہم جملہ عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنانا اور اختیار کرنا پڑے گا اور شرک و بدعت کے جملہ فتاویٰ سے رجوع کرکے عملی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر نیت صاف ہو تو یہ سب کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ عوام وخواص ہر کس ناکس اسی کو اہلسنت مانتے اور جانتے ہیں جو سرکار دوعالمﷺ کو نور مجسم نورانی بشر مانتا ہو علم غیب حاضر و ناظر اختیارات نبوی کا قائل ہو، عید میلاد کا جلسہ و جلوس قیام و سلام کرتا ہو، صلوٰۃ و سلام ختم فاتحہ و غیرہم کا قائل و عامل ہو، ورنہ کوئی ہزار مرتبہ شب و روز شکر قندیوں کو شکر قند پیڑا کہتا رہے۔ امرودوں کو الہ آباد یا لاڑکانہ کا پیڑا کہتا رہے، جو اصلی حقیقی خالص کھوئے کے بادام پستہ، الائچی لگے ہوئے اور چاندی کے ورق لگے پیڑے ہوتے ہیں، وہ حلوائیوں کی دکان پر شیشوں کی الماریوں میں رکھے ہوتے ہیں۔ امرودوںکی طرح ٹوکریوں میں گلی گلی نہیں بکتے پھرتے اور اصلی خالص پیڑوں کی آوازیں نہیں لگانی پڑتیں جس طرح یہ عناصر ہمارے اعتقادی نام اہلسنت کا سرقہ کررہے ہیں۔ ہم اہل حق اہلسنت نے کسی بھی مکتب فکر کے علامتی نام کا سرقہ نہیں کیا۔
نہیں زیبا بتائے کوئی بلبل اپنے اُلّو کو
____________________________________________
سر زمین ہند میں فتنہ وہابیت سے متاثر ہو کر ۱۳۴۰ھ میں مولوی اسماعیل دہلوی (م ۱۲۴۶ھ -۱۸۳۱ء) نے ’’ تقویۃ الایمان نامی گستاخانہ کتاب لکھ کر وہابیت کی آگ کو اسلامیانِ ہند کے خرمن میں لگا دیا۔جس کی تپش سے مسلمان جھلس جھلس کر گمراہیت کے تندور میں گرنے لگے،مشہور غیر مقلد عالم مولانا وحید الزماں فاروقی (۱۳۳۸ھ) نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، وہ لکھتے ہیں -’’ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب ’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی کی پیروی کی ہے‘‘-( مولانا یٰسین اختر مصباحی، سواد اعظم ص: ۱۶، بحوالہ ہدیۃ المہدی، از وحید الزماں فاروقی)
جس وقت یہ کتاب شائع ہوئی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، جو مصنف کے چچا تھے، اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، انہوں نے بڑے درد و کرب بھرے لہجے میں کہا:
’’ میں اس وقت بوڑھا ہوں، ورنہ تقویۃ الایمان کے رد میں بھی’’ تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ کی طرح ایک ضخیم کتاب لکھتا‘‘- (مولانا مبارک حسین مصباحی، برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب ،ص: ۱۱۸)
لیکن جو حضرات جوان تھے انہوں نے لکھا اور خوب لکھا-مصنف کے چچا زاد بھائی مولانا مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی، علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی مکہ احمد ابن زینی دحلان ، مولانا مخلص الرحمن اسلام آباد، شیخ محمد عابد، مدینہ منورہ اور دوسرے درجنوں علمانے ’’ تقویۃ الایمان ‘‘ کے خلاف کتابیں لکھیں، تقریریں کیں اور مناظرے کیے- ان میں سب سے زیادہ سرگرم بقول مولانا آزادؔ ان کے پرنانا مولانا منور الدین علیہ الرحمہ تھے - (آزاد کی کہانی آزاد کے زبانی ،ص: ۶)
’’تقویۃ الایمان ‘‘ نے اہالیان ہند کو کیا دیا اور ریال کے زور پر پھیلنے والی اس فکر نے کیا تباہیاں مچائیں، مولانا شاہ زید ابو الحسن فاروقی کی زبانی سنیے-
’’ اس کتاب (تقویۃ الایمان) سے مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد ہوا، کوئی وہابی بنا ، کوئی اہل حدیث کہلایا ، کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا، ائمہ مجتہدین کا جو منزلت اور وقار دل میں تھا ، وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم و احترام میں تقصیرات کا سلسلہ شروع ہوگیا‘‘ -
انقلاب ۱۸۵۷ء سے ایک سال قبل ۱۸۵۶ء /۱۲۷۲ھ میں شہر بریلی میں امام احمد رضا خاں بریلوی (م ۱۳۴۰ھ ۱۹۲۱ء) کی ولادت ہوئی، وہ ایک علمی گھرانے کے فرد تھے، جب انہوں نے ہوش سنبھالا ہر چہار جانب وہابیت کی آگ لگی ہوئی تھی اور ملک کے سبھی علماء اس کے خلاف بر سر پیکار تھے، ان کے معاصر علمامیں زبان وقلم سے ’ ’رد وہابیہ‘‘ کرنے والوں میں یہ حضرات قابل ذکر ہیں-
(۱)مولانا عبد الحئی فرنگی محل (م ۱۳۰۴ھ) (۲) مفتی ارشاد حسین رام پوری (م۱۳۱۱ھ) (۳) مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی (م۱۳۱۳ھ) (۴) مولانا غلام دستگیر قصوری، لاہور (م:۱۳۱۵ھ) (۵) مولاناعبد القادر بدایونی (م: ۱۳۱۹ھ) مولانا ہدایت اللہ رام پور (م:۱۳۲۶ھ) (۷) مولانا خیر الدین دہلوی (م: ۱۳۲۶ھ) (۸) شاہ ابو الخیر دہلوی (م: ۱۳۴۱ھ) (۹) حضرت شاہ علی حسین اشرفی (۱۳۵۵ھ) (۱۰) شاہ مہر علی گولڑوی (۱۳۵۶ھ)
فاضل بریلوی نے بھی اپنے ہم عصر علماے حق کے ساتھ رد وہابیہ کو اپنا مشغلہ بنایا اور اپنے اور بیگانے کا فرق کیے بغیر جس کے فکر و اعتقاد میں بھی ذراسی کجی پائی اس کا بھر پور محاسبہ کیا اور ان کی شدید خبر گیری کی جو سنی حنفی بن کر’’ وہابی فکر‘‘ کی اشاعت میں خفیہ طور سے کوشاں تھے- اس طرح فاضل بریلوی کی کوشش خالص اہل سنت و جماعت کے حق میں تھی-اور امام احمد رضا کے تلامذہ اور خلفاء علم و فن میں یگانۂ روز گار ثابت ہوئے اور علمائے سلف اور اپنے استاد کے مشن کو سب نے بر قرار رکھا، انہوں نے تقریر، مناظرہ اور تصنیف و تالیف ہر طرح سے’’ وہابیت‘‘ کی حقیقت کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی پوری کوشش کی- جس سے جگہ جگہ اسے منہ کی کھانی پڑی-اب وہابیت کے سامنے ایک ہی راستہ تھا ،وہ یہ کہ علمائے اہل سنت سے بحث و تکرار کی بجائے پروپیگنڈ ہ کا سہارا لو اور اہل سنت و جماعت کے علما کو ہی اصل فتنہ و اختلاف کا ذمہ دار ٹھہرا دو، اس کے لیے انہوں ے علماے اہل سنت کو ’’ بریلوی‘‘ سے متعارف کرایا اور خود اہل سنت و جماعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرنے لگے،
اور اس کا ایک غلط تاثر یہ پیدا ہوا کہ ’’ بریلویت‘‘ ایک جد ااسلامی فرقہ ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خاں بریلوی ہیں(معاذاللہ)
آج دیوبندی، وہابی، اہلحدیث، سب ہی اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے کم پڑھا لکھا، یا دینی تعلیم کی کم معلومات رکھنے والے حضرات اکثر الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آخر اصلی اہلسنت و جماعت کون لوگ؟
اس تحریر میں اسی کا جائزہ لیا جائے گا ملاحظہ فرمائیں :
فقیر اپنے انداز فکر اور مستقل نصب العین کے مطابق دیوبندی وہابی مکتب فکر کی وہابیت کا ثبوت اپنی طرف سے کچھ کہنے لکھنے کی بجائے ان کی اپنی مستند معتبر کتابوں سے پیش کرے گا۔ مگر پہلے یہ واضح کردوں کہ بیشتر کتب لغت میں وہابی کا معنی محمد بن عبدالوہاب نجدی کا پیروکار لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو فیروز اللغات، امیر اللغات، حسن اللغات وغیرہ وغیرہ۔
یہی کچھ اہلسنت وجماعت کے مسلمہ ومقتدر وموقر امام و فقیہ زبدۃ المحققین علامہ امین الدین محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی نے ردالمحتار حاشیہ در مختار جلد ثالث کتاب الجہاد باب البغاۃ میں ارقام فرمایا:
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ جیسا ہمارے زمانے میں محمد بن عبدالوہاب کے پیروں (اتباع کرنے والوں) سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کرکے حرمین محترمین پر تغلب کیا (چڑھائی کی) اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے مذہب پر نہیں وہ سب مشرک ہیں۔ اس لئے انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کا قتل مباح (جائز) ٹھہرا لیا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی شوکت توڑدی اور ان کے شہروں کو ویران کردیا اور تشکر مسلمین کو ان پر فتح دی ۱۲۳۳ھ میں۔ احناف کے مسلمہ امام و فقیہ کے غیر مبہم واضح ارشاد سے ثابت ہوا کہ وہابی محمد بن عبدالوہاب نجدی کو ماننے والے متبعین کو کہتے ہیں۔ انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کو قتل کیا اور مسلمانوں کو مشرک قرار دیا اور حرمین طیبین پر چڑھائی کی۔
اب آیئے اور دیکھئے۔ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین کو اچھا اور عامل بالحدیث کہنے والا کون ہے؟ اور اس کی قصیدہ خوانی کرنے والا کون ہے؟ مدرسہ دیوبند کے بانی ثانی اور ان کے اپنے بقول ان کے خود ساختہ قطب عالم و غوث اعظم مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی دیوبندی صاف لکھتے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا اور اس کے مقتدی اچھے ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ جلد اول، ص 111، وجدید ایڈیشن فتاویٰ رشیدیہ)
اب خود وہابی ہوکر اہلسنت والجماعت کہلانے اور اپنا نیا نام اہلسنت والجماعت رکھنے والے خود بتائیں کہ بقول علامہ امام ابن عابدین شامی رحمتہ اﷲ علیہ اہلسنت اور علماء اہلسنت کو قتل کرنے والے مسلمانان اہلسنت کو مشرک قرار دینے والے حرمین شریفین پر چڑھائی کرنے والے کے عقائد کو اچھا کہنے والا اسے عامل بالحدیث کہنے والا۔ شرک و بدعت سے روکنے والا کہنے والا ان کے عقائد کو عمدہ کہنے والا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور گنگوہی کو ماننے والے کس طرح اہلسنت و الجماعت ہوسکتے ہیں؟ اور کون مان سکتا ہے؟
اور سنئے اور دیکھئے یہ ہے منہ بولتا ثبوت
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے حکیم الامت مولوی اشرفعلی صاحب تھانوی ڈنکے کی چوٹ پر اپنے وہابی ہونے کا خندہ پیشانی سے اقرار و اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بھائی یہاں (ہماری مسجد و مدرسہ میں) وہابی رہتے ہیں، یہاں (ہمارے پاس) فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو‘‘ (اشرف السوانح جلد اول، ص 45)
ایک اور جگہ یہی تھانوی صاحب فانی فی الوہابیت سینہ تان کر کہتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں ’’اگر میرے پاس دس ہزا روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں‘‘ (الافاضات الیومیہ ملفوظات تھانویہ جلد 5ص 67، و جلد 2، ص 221)
لوگوں کوپیسے دے کر اپنے ہم عقیدہ وہابی بنانے کی کتنی تڑپ اور کتنی فکرو آرزو ہے تو پھر یہ حضرات اور ان کے عقیدت مند وہم عقیدہ اہلسنت والجماعت کیسے ہوسکتے ہیں؟
تھانوی صاحب کا مزید فراخدلانہ اقرار
کہتے ہیں ’’ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اہل نجد (محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین) اہل نجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا رائے یہ ہے کہ وہ نجدی ہیں، وجدی نہیں، صرف یہی ایک کسر ہے… فرمایا کہ ابن سعود اپنی ذات سے بہت غنیمت ہے… یہ شکایت کرنے والے ہی کون سے پاک صاف ہیں یہ بھی وہاں جاکر گڑبڑ کرتے ہیں۔ وہ ان کی حرکات کو تشدد سے روکتے ہیں‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، جلد اول، ص 279 ملخصاً)
تھانوی صاحب نے جھٹ سے یہ تو کہہ دیا کہ بہت غنیمت ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ، ام المومنین حضرت زینب، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم و دیگر ازواج مطہرات کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں۔ سیدنا امیر المومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین سیدنا امام حسن مجتبیٰ سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابوذر، سیدنا عباس، سیدنا قتادہ سیدنا عثمان ابن مظعون، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا سعد ابن وقاص، شہزادہ رسول اکرم، سیدنا ابراہیم سیدنا طیب مطاہر، سیدنا قاسم رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم ،جیسے صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں؟
بنت رسول حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، بنت رسول سیدہ حضرت ام کلثوم بنت رسول سیدہ حضرت رقیہ بنت رسول حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہن کے مزارات مقدسہ و دیگر صحابہ کرام واہل بیت اطہار کے مزارات مقدسہ کو کس جرم میں توڑا گیا، کیوں شہید کیاگیا، کیا یہ مزارات مقدسہ مشرکین مکہ و مدینہ ابوجہل، ابولہب وغیرہ کفار بناکر گئے تھے۔ تھانوی وہابی صاحب جو بہت غنیمت ہونے کی ڈگری اور سند دے رہے ہیں، کیا یہ کھلی وہابیت نہیں اور پھر وہابی ہوکر اہلسنت و الجماعت کہلانا اور یہ نام رکھنا کہاں تک مناسب اور مبنی برحقیقت ہے۔ جلیل القدر صحابہ کرام عظیم المرتبت اہل بیت اطہار رضوان اﷲ تعالیٰ عنہم کے مزارات کی پامالی و بے حرمتی وانہدام کی مفصل جامع رپورٹ مولانا محمد علی جوہر مولوی سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد، ظفر علی خاں، مولانا محمد عرفان، سید خورشید حسن، مسٹر شعیب قریشی، عینی مشاہدوں پر مشتمل رپورٹ خلافت کمیٹی صفحہ 30-23، صفحات 879,88,85,80 پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مقالات مولانا محمد علی جوہر میں بھی واضح شواہد ملیں گے۔
وہابی کے معنی پر تھانوی صاحب جھوم گئے
تھانوی صاحب نے اپنے ملفوظ 638 کے تحت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی فرمایا کہ بدعتی کے معنی ہیں۔ باادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں۔ بے ادب با ایمان…
(الافاضات الیومیہ جلد 2، ص 326)
یہاں بھی وہابی سے حسن عقیدت و محبت ظاہر ہے مگر تھانوی صاحب نے مولوی فیض الحسن صاحب کے من گھڑت خلاف واقع اور خلاف تحقیق معنی اس لئے ظرافت کے معنی و مفہوم میں قبول کرلیا۔
مولوی منظور سنبھلی بڑے سخت وہابی
بخدا ہم بحلف شرعی کہتے ہیں واﷲ العظیم یہ ہمارا الزام نہیں، جناب نانوتوی صاحب گنگوہی صاحب، انبیٹھوی صاحب، تھانوی صاحب کی تنقیص آمیز قابل اعتراض خلاف شرع عبارات کی نوع بنوع تاویلیں کرکے تقویۃ الایمان، صراط مستقیم، تحذیر الناس، براہین قاطعہ فتویٰ گنگوہی، حفظ الایمان کی عبارات نت نئی تاویلات زلفیں سنوارنے والے اکابرین دیوبند مسلمہ و معتمد ترجمان و مناظر مولوی منظور سنبھلی بھی صمیم قلب سے صاف صاف اقرار کرتے ہیں ’’ہم خود اپنے بارے میں بھی بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں‘‘ (بعینہ و وبلفظ سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 192)
سنبھلی صاحب کے اس فراخدلانہ اقرار و اعتراف کے بعد نہلے پر دھلا مارتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں جواباً دیوبندی شیخ الحدیث مولوی ذکریا صاحب کہتے ہیں ’’مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا بڑا وہابی ہوں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی، ص 193 بالفظہ)
مذکورہ بالا دلائل و حقائق اور روشن شواہد اور ان کے اپنے مسلمہ معتمد اکابر کی شہادتوں کے بعد کہ یہ وہابی ہیں، بڑے مضبوط وہابی ہیں پھر ہم کس طرح تسلیم کرلیں کہ یہ اہل سنت و جماعت ہیں اور کوئی بھی حقیقت پسند ذی فہم و شعور کس طرح ان کو اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟ ہم اپنی قبر و آخرت و میزان کو سامنے رکھ کر دیانتداری سے عرض کرتے ہیں یہ ہمارا الزام برائے الزام نہیں، ان کی کتابوں سے ان کے اکابر کے اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی عدالت اور کورٹ میں طلب کرے۔ ہم وہابی بھی ثابت کرسکتے ہیں پھر زورا زوری اہلسنت کہلانا خلاف واقع اور حقیقت کے برعکس ہے۔
یاد رہے… کہ دیوبندی وہابی مناظر مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان لکھنؤ نے محمد بن عبدالوہاب نجدی بانی وہابیت کے فضائل کمالات پرایک کتاب بنام ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماء حق‘‘ بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے لکھی ہے جس میں وہابیت نجدیت پر جانثاری کا حق ادا کردیا اور اپنے اصلی اندرونی وہابیانہ رنگ روپ میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب بھی ان کی وہابیت میں کوئی شک کرسکتا ہے؟
اور دیکھئے… ہمارا اپنا کوئی الزام نہیں ان کی اپنی کتابوں کے بفلظہ و بعینہ حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب سے ان حضرات کے بلند حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب ان حضرات کے بلند پایہ مصنف وبزعم خود محقق مولوی مسعود عالم ندوی وہابی جوکہ تھانوی وہابی حکیم الامت کے معتمد خلیفہ ونیاز مند مولوی سلیمان ندوی وہابی کے غلام و دریوزہ گر ہیں، نے بنام ’’محمد بن عبدالوہاب، ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ بڑی دھونس داری کے ساتھ ارقام فرمائی ہے جس کی تدوین میں اپنی اور اپنے رفقاء و معاونین کی تمام ترتوانائیاں جھونک دیں اور جان کی بازی لگادی۔ اس کتاب کو وہابی المکتبہ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور نے شائع کیاہے جو ان کے ہم عقیدہ و ہم مسلک ہونے کی دلیل اور سند ہے
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کا انتساب مشہور وہابی دیوبندی مولوی سلیمان ندوی کے نام کیا ہے جس کو مصنف مسعود عالم نجدی ندوی نے اپنا استاد، مربی اور مخدوم تسلیم کیا ہے۔ جو دیوبندی، نجدی، ندوی مسلکی ہم آہنگی اور وہابی اتحاد و یکجہتی کی ناقابل تردید دلیل ہے۔
اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ نجدی وہابی، غیر مقلد وہابی، دیوبندی وہابی ندوی وہابی ایک ہی چیز کے چار نام ہیں۔ بہرحال وہابیت قدر مشرک ہے وہابی ہونا سب کے لئے سعادت ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مولف کتاب ’’محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ نے اس کتاب کی تالیف میں متعدد وغیر مقلدین وہابیہ کو بھی شامل رکھا اور اس باب میں مددومعاونت کی وہ یہ ہیں۔ ڈاکٹر عظیم الدین پٹنہ، پروفیسر حسن عسکری، مولوی عبدالرحمن کاشغری ندوی کلکتہ، مولوی دائود غزنوی غیر مقلد وہابی لاہور، شیخ عنایت اﷲ، ڈاکٹر حمید اﷲ حیدرآباد، شرف الدین بمبئی، مولوی عبدالمجید حریری بنارس، پروفیسر محمد اکبر ندوی کلکتہ، حافظ یوسف حسن بہار شریف، نجدی وہابی عالم شیخ محمد عمران بن محمد بن عمران ساکن نجد ریاض سے خصوصی مدد لی گئی ان مستند و معتبر حوالہ جات نے ثابت کردیا کہ دیوبندی، نجدی، ندوی سب وہابی ہیں تو پھر وہابیوں کو اہلسنت و الجماعت نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کم از کم اپنے مذہب و مسلک سے تو دغا اور بے وفائی نہ کریں۔
ہم اس حقیقت کی نقاب کشائی بھی کردیں کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی اور مولوی اسماعیل دہلوی میں مکمل اعتقادی و مسلکی ہم آہنگی تھی، محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید اور اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان لے کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی شخص منصف مزاج اس حقیقت واقعی کو جان سکتا ہے کہ عربی اور اردو میں دونوں کتب کے مندرجات ایک ہی ہیں۔ دونوں میں وہابیت کی روح کافرما ہے۔ مختلف النوع چکر چلانے لفاظی و مغالطہ آمیزی کے جال بچھانے کے باوجود مولوی مسعود عالم ندوی کو یہ تسلیم کرنا پڑا اور اس کے سوا چارہ ہی نہیں، خود لکھتا ہے ’’ہندوستان کی (اسماعیلی) تحریک وہابیت یعنی حضرت سید صاحب (واسماعیل دہلوی) کی تحریک تجدید و امامت نجد کی وہابی تحریک ہی کی ایک شاخ ہے، اس میں شک نہیں دونوں تحریکوں کا ماخذ ایک بامقصد ایک اور دونوں کو چلانے والے کتاب و سنت کے علمبردار یکساں سرگرم مجاہد تھے (کتاب محمد بن عبدالوہاب ص 8-7)
اسی کتاب کے صفحہ 77 پر محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی کی کتاب التوحید، مولوی اسماعیل دہلوی وہابی کی کتاب تقویۃ الایمان کی وکالت ہے۔ اور نجدی و دہلوی، کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان کی اعتقادی موافقت کا جگہ جگہ تذکرہ کرکے دونوں کی یکسانیت ثابت کی گئی ہے۔
مولوی رشید احمد گنگوہی تقویۃ الایمان کمال درجہ حسن عقیدت و موافقت کے طور پر رقم طراز ہیں۔ کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ اور سچی کتاب ہے موجب قوت و اصلاح ایمان کی ہے… بندہ کے نزدیک سب مسائل اس کے صحیح ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ص 356، و 357)
اندریں حالات ان اہلسنت کا لیبل لگانے والوں کے مسلمہ اکابر جب وہابیت کو اپنا رہے ہیں، وہابیوں کو کون اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟
ابن عبدالوہاب نجدی وہابی کے سوانح نگاروں میں ایک نام شیخ احمد عبدالغفور عطار کا بھی ہے جس نے کمال درجہ جذبہ سرفروشی سے بنام ’’شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب‘‘ ارقام فرمائی جس کا ترجہ کسی مولوی محمد صادق خلیل نے اردو میں کیا ہے۔ اس میں واضح طور پر غیر مبہم انداز میں لکھا ہے جس طرح نجد و حجاز میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا ظہور ہوا۔ بعینیہ اسی طرح ہندوستان میں حضرت الامام شاہ محمد اسماعیل منظر عام پر آئے‘‘ (ص 6)
’’نجد کے شیخ (محمد بن عبدالوہاب) نے چونکہ عبادتِ قبور کے خلاف جہاد کرکے شرکیہ مقامات (مزارات وازواج مطہرات کے مزارات طیبہ گرادیئے اورشہید کردیئے) منہدم کردیئے تھے۔ (اسی طرح) … شاہ (اسماعیل) صاحب نے دہلی میں فرمایا تھا کہ اس مہم (بالاکوٹ) سے فارغ ہوکر جائوں تو خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ بھی گرائوں گا… (ص 9) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ … انہوں نے (سید احمد اور اسماعیل دہلوی) نے قیام حجاز کے دوران شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کا مطالعہ بھی کیا… اور وہابی علماء کارکنوں سے ملاقات کے امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا (کتاب محمد بن عبدالوہاب تالیف احمد عبدالغفور عطار)
الحمدﷲ ہم نے بفضلہ تعالیٰ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی کی وہابیت میں اشتراک و ہم آہنگی کو ان کے اپنے اکابر کی مستند تصانیف سے ثابت کردیا۔ اب لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ وہابی ہوکر اہلسنت کا لیبل کیوں اختیار کررہے ہیں؟ اب چند سال پہلے اہلسنت کا لیبل استعمال کرنے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ پہلے سے ابتداء سے اہلسنت نہیں تھے۔
علاوہ ازیں ریکارڈ کنگھالا جائے تو پتہ چلے گا کہ مشہور دیوبندی وہابی شیخ التفسیر مولوی احمد علی صاحب لاہوری نے اپنی بیٹی کی شادی بھی غیر مقلد وہابی مولوی سے کی تھی اور مولوی عبدالمجید خادم سوہدروی (تلمیذ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی وہابی کا تلمیذ مولوی احمد علی لاہوری دیوبندی کا داماد تھا (کتاب کرامات اہلحدیث ص 2)
اور یہ بھی ثابت ہے کہ مولوی احمد علی صاحب لاہوری دیوبندی وہابی اپنے وہابی بھائی مولوی دائود غزنوی کی اقتداء میں نماز عیدین ادا کرتے تھے (ہفت روزہ خدام الدین لاہور)
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ان کے اپنے اکابر کے اعترافات کہاں تک پیش کئے جائیں لکھتے ہیں۔ ’’میں نے شام سے لے کر ہند تک اس دیوبند (دیوبندی وہابی مولوی انور کاشمیری) کی شان کا کوئی محدث اور عالم نہیں پایا اگر قسم کھائوں کہ یہ (مولوی انور کاشمیری) امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی بڑے عالم ہیں تو میں اپنے دعویٰ میں کاذب نہ ہوں گا‘‘ (خدام الدین لاہور 18 دسمبر 1964ئ)
کیا کوئی حقیقی واقعی اصلی اہلسنت ایسا دعویٰ کرسکتا ہے؟
مخالفین نے جیسا کہ ہمارے تعلق سے پروپیگنڈہ استعمال کیا ہمیں بریلوی لفظ سے متعارف کروا کر خد کو اہلسنت و جماعت کی فہرست سے شمار کروانا چاہا
اب لفظ بریلوی کے تعلق سے بھی حقیقت آپ کے سامنے پیش کر دوں ملاحظہ فرمائیں :
ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اہل حدیث لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے، مگر دیوبندی مقلدین(اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی''کہتے ہیں''۔(ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، مطبوعہ سبحانی اکیڈمی لاہور، ص٣٧٦)
جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، ص٧)
مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور، ص١٠۔١١)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے''(احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، ص٧)
اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو۔
امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، ص٨٥، ٨٦)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔
(سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، ص٢٢)
مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، ص٧٠)
اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔
(ثناء اﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا(پنجاب)، ص٤٠)
یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔
(انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٨)
پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩)
تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اہلسنت والجماعت ہیں۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضورﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، حضورﷺ کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں، حضورﷺ کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضورﷺ کی امت کے اولیااللہ سے عقیدت رکھتے ہیں، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔(ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)
ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ؛ "امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔(آئینہ رضویات، ص 300)
صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا۔ لہذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے۔(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69)
اس بات پر تو سبھی مکتبہ فکر کا اتفاق ہے کہ سواد اعظم اہل سنت و جماعت ہی حق ہے اور یہی "ما انا علیہ واصحابی" کے مصداق ہے تبھی تو آج فاسد عقائد رکھنے والے فرقہ کے لوگ بھی بڑی شد و مد سے اس اصطلاح کا استعمال کر کے سادہ لوح مسلمانوں سے اپنی حقیقت چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں،
لیکن الحمدللہ علمائے اہلسنت و جماعت ان مکاروں، دھوکہ بازیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں،
اہلسنت و جماعت ان تمام افراد کو کہا جاتا ھے جو رسول کریم صلی الله علیہ و سلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے طریقے پر کار بند ھیں ۔ وجہ تسمیہ نام سے ظاہر ہے، سنت پر چلنے والے اور جماعت کہنے کی وجہ یہ کہ وە لوگ حق پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے ۔ مصلحین امت نے ھر دَور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے، اسی کوشش کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کہا گیا، عملی طور پر اصحاب نبوی ، اہل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثين ،ائمہ مجتہدین ، اولیائے کاملین سب اسی پر کار بند رہے۔
جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ،قادِری ، چشتی ، نقش بندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہے، وە اہل سنت وجماعت ( ایک لفظ میں " سنی" ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ھیں ۔)ابتدا ھی سے ھر عہد میں اہل سنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ھیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔
اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاھری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیے استعمال ھوتا آ رہا ہے ۔چناں چہ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ھونے کی علامت ہے۔ ( الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688)۔
: عبد الله بن عمرو سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیک وسلم، وە ملت واحدە کون ھوں گے؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ۔ ( ترمذی : 2461 ، ابن ماجہ: 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171)
امام ملا علی قاری فرماتے ھیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔
اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرمائے گا اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پیروی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقاداً یا قولاً یا فعلاً ) الگ ہوا وە آگ میں الگ ہوا۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ہوا وە آگ میں ڈالا جاے گا۔(ترمذی:2167،کنز العمال:1029،1030،مشکوۃ:173،174)
ابن عباس رضی ا لله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اھل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاہلیت کی موت مرا۔
مخالفينِِ اہلسنت کے علامہ ابن تیمیہ نے " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القرآن ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ھیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) - ( مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)
( تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی " واعتصموا بحبل الله جمیعا " کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا " قال الجماعۃ " اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ھی سے اسی آیت کے تحت لکھا " قال حبل الله الجماعۃ" ابن جریر لکھتے ھیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ھے( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)
اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە " (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ھوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس نے فرمایا اھل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے اور دیلمی نے ابن عمر سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدري سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ھوں گے اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے ۔( الدر المنثور :63/2،
(دیلمی مسند الفردوس:8986، کنز العمال: 2637، تاریخ بغداد:3908، تفسیرمظھری116/1،السنۃ :74)
محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی سیدنا غوث اعظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ہیں ۔ مومن کے لیے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جاری فرمایا ھو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفاے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔( غنیۃ الطالبین 192)
محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، سبھی اہل سنت وجماعت ھوے ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ھی کو دیا جاتاھے۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ھونے کی یہ واضح دلیل ھے
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے؟
اگر یہ عناصر فی الواقع حقیقی اہلسنت بننا چاہتے ہیں تو صمیم قلب اور خلوص نیت سچی پکی دائمی توبہ اور رجوع کرکے خلوص نیت عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنائیں اور عملی و اعتقادی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کریں۔ اہلسنت کہلانا ہے تو حضور اقدس نبی اکرم رسول محترمﷺ کو نور مجسم اور بے مثل بشر، حضور اقدسﷺ کو خداداد علم غیب اور حاضر و ناظر اور مختار کل قاسم ہر نعمت بعطاء الٰہی ماننا پڑے گا۔ عید میلاد وصلوٰۃ و سلام قیام و سلام نعرۂ رسالت ختم فاتحہ ایصال ثواب الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ وغیرہم جملہ عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنانا اور اختیار کرنا پڑے گا اور شرک و بدعت کے جملہ فتاویٰ سے رجوع کرکے عملی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر نیت صاف ہو تو یہ سب کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ عوام وخواص ہر کس ناکس اسی کو اہلسنت مانتے اور جانتے ہیں جو سرکار دوعالمﷺ کو نور مجسم نورانی بشر مانتا ہو علم غیب حاضر و ناظر اختیارات نبوی کا قائل ہو، عید میلاد کا جلسہ و جلوس قیام و سلام کرتا ہو، صلوٰۃ و سلام ختم فاتحہ و غیرہم کا قائل و عامل ہو، ورنہ کوئی ہزار مرتبہ شب و روز شکر قندیوں کو شکر قند پیڑا کہتا رہے۔ امرودوں کو الہ آباد یا لاڑکانہ کا پیڑا کہتا رہے، جو اصلی حقیقی خالص کھوئے کے بادام پستہ، الائچی لگے ہوئے اور چاندی کے ورق لگے پیڑے ہوتے ہیں، وہ حلوائیوں کی دکان پر شیشوں کی الماریوں میں رکھے ہوتے ہیں۔ امرودوںکی طرح ٹوکریوں میں گلی گلی نہیں بکتے پھرتے اور اصلی خالص پیڑوں کی آوازیں نہیں لگانی پڑتیں جس طرح یہ عناصر ہمارے اعتقادی نام اہلسنت کا سرقہ کررہے ہیں۔ ہم اہل حق اہلسنت نے کسی بھی مکتب فکر کے علامتی نام کا سرقہ نہیں کیا۔
نہیں زیبا بتائے کوئی بلبل اپنے اُلّو کو
शुक्रवार, 21 जुलाई 2017
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے القاب و خطاب پر ایک نظر ___________________________________________ بعض دانشور اور اہل علم حکومت کی خوشنودی حاصل کرکے لقب و خطاب حاصل کرتے ہیں اور بعض حکومتی علمی، ادبی، اور سماجی ادارے ان کے کارناموں کی وجہ سے لقب وخطاب عطا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی طرح لقب و خطاب یا نام و نمود کی پرواہ نہیں کرتے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بے نام و نشان سمجھتےہیں، انہیں مٹانے والے خود مٹ جاتے ہیں اور جن کے عشق میں یہ بے نام و نشان لوگ مٹ جاتے ہیں وہ انہیں ایسا چمکاتے ہیں اور ایسا نام و نشان عطا کرتے ہیں کہ انکی چمک اور ان سے ضیاء حاصل کرنے والے ذرے بھی آفتاب و ماہتاب بن جاتے ہیں اور ان کے نام لیوا شہرت و ناموری کے بام رفعت پر کمندیں ڈالتے ہیں اور آسمان شہرت پر اپنی عظمت کا پھریرہ لہراتے ہیں ۔ ایسی ہی شخصیتوں میں ایک شخصیت اسلامی چودھویں صدی کے عظیم مجدد، بریلی کے فاضل امام احمد رضا نور اللہ مرقدہ کی بھی ہے ان کی حیات ظاہری میں عجم ہی نہیں بلکہ عرب کے مشاہیر نے ایک سے بڑھکر ایک باوقار، پاکیزہ اور حسن القاب وآداب سے یاد کیا اور آج بھی ناموران زمانہ انہیں گراں قدر مطہر اور منور القاب سے یاد کرتے چلے جا رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے خود کو سدا بے نام و نشان ہی سمجھا۔ لیکن یہ بھی یقین تھا کہ بے نشانوں کا نشان مٹتا نہیں مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا یہ تو امام احمد رضا کا انکسار تھا ورنہ امام کا نام تو حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی کسوٹی ہے، اگر امام احمد رضا کا نام سن کر چہرے پر خوشی طاری ہو جائے تو سمجھ لیجئے غلام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور اگر پیشانی پر کوئی شکن آ جائے تو جان جائیے کہ بد مذہب اور گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اور وہ امام ہیں ۔ ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ جو حقیقتاً ان کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ لیکن امام کا علم بن کر رہ گیا۔ اور ان کے نام نامی اسم گرامی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور آج جب بھی لفظ ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ سماعت کے جہان میں داخل ہوتا ہے تو ذہن رام پور یا حیدر آباد کے نوابین یا کسی اور شخصیت کی طرف نہیں جاتا بلکہ بریلی کے فاضل امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ہی کی طرف مبذول ہو جاتا ہے۔ 1:- لقب اعلٰی حضرت کی تحقیق یہ بات کلی طور پر پایہ تحقیق کو نہیں پہنچ سکی کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو پہلی بار کب اور کس نے اعلٰی حضرت کہا - البتہ یہ بات ضرور ثابت ہے کہ انہیں ان کی حیات میں ہی اعلٰی حضرت کہا، اور لکھا جانے لگا تھا، تحفہ حنفیہ پٹنہ کے شماروں سے پتہ چلتا ہے کہ 1323 ء سے آپ کے لئے ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ لکھا جانا شروع ہوا۔ تحفہ حنفیہ جلد 9 پرچہ نمبر 4 بابت ماہ ربیع الآخر 1323 ء میں امام احمد رضا احمد رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ‘‘مجدد مائۃ حاضرہ، موئید ملت طاہرہ، جامع معقول و منقول، حاوی فروغ و اصول، عالم اہلسنت ، اعلٰیحضرت، اعلم علمائے زماں، مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب مد ظلہ رب العالمین وصانہ عن شرور الحاسدین لکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ کی مختلف جلدوں میں بھی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے مریدین نے ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ لکھا ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ جلد ششم، رسالہ حجب العوار عن مخدوم بہار اور ‘‘اعلٰی حضرت ‘‘ کے ساتھ عظیم البرکت بھی لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو 1323 ھ 1905 ء سے پہلے بھی ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ کہا گیا ہو۔ کیونکہ انہیں 1318ھ 1900ء میں پٹنہ کے روندوہ کے اجلاس میں پہلی بار حضرت علامہ مولانا عبد المقتدر بدایونی علیہ الرحمہ نے مشاہیر علماء فضلاء کی موجودگی میں مجدد کہا تھا الفاظ اس طرح ہیں۔ جناب عالم اہلسنت، مجدد مائۃ حاضرہ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی ( دبدبہ سکندری رام پور 11 اکتوبر 1948ء ص 5 ‘‘‘ چودھویں صدی کے مجدد‘‘‘ از ملک العلماء علامہ ظفر الدین قادری ص 11 ) بہر حال اگر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو اعلٰی حضرت کہا گیا تو 1388ھ کے بعد ہی کہا گیا ۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے لئے اعلٰی حضرت کہے جانےپر حاسدین و اعدائے دین کو سخت اعتراض ہے ۔ حالانکہ ظالمان زمانہ نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب کو اعلٰی حضرت کہا اور لکھا ہے۔ اور عاشق الہٰی میرٹھی نے اپنی تالیف تذکرۃ الخلیل میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کو اعلٰی حضرت لکھا ہے۔ یہی دنیا ساز دین کے دشمن رام پور اور حیدر آباد کے نوابین کو تو بڑے فخر سے اعلٰی حضرت کہا کرتے تھے۔ لیکن جب ایک غیرت مند عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ایک غلام مصطفٰٰی، عبد المصطفٰی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ کہا جاتا ہے تو جل اٹھتے ہیں۔ ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ایسا نام اور آپ کی ایسی پہچان بن گیا ہے۔ جو امر ہے۔ زندہ ہے۔ اور رہتی دنیا تک چودھویں صدی ہجری کے اس مجدد عاشق مصطفٰی اور عبد المصطفٰی کو زمانہ ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ کہہ کر یاد کرتا رہے گا۔ 2:-مجدد:- ویسے تو کوئی لقب نہیں۔ بلکہ ایک منصب ہے اور صدی کے علماء اور مشائخ اس کو مجدد تسلیم کرتے ہیں۔ جو کارنامہ تجدید انجام دیتا ہے۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے تو کارنامہ تجدید کی شاہراہ پر چودہ سال کی عمر بارہ سو چھیاسی ہی میں ہی قدم رکھ دیا تھا اور تیرہ سو ایک ہجری لگتے ہی اپنی اپنی منزل پالی تھی، البتہ اس کے اٹھارہ سال بعد تیرہ سو اٹھارہ ہجری میں ان کی مجدیت کا اعلان سب سے پہلے حضرت مولانا عبد المقتدر صاحب علیہ الرحمۃ بے کیا۔ برادر زادہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ مولانا حسنین رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ! ‘‘اعلٰی حضرت قبلہ کے فیضان مجددیت کا ظہور 1301ھ کے آغاز سے ہوا۔ یہ واقعہ ذرا تفصیل طلب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے چچا مولوی محمد شاہ خان صاحب عرف متھن خان صاحب مرحوم سودا گری محلّہ کے قدیمی باشندے تھے۔ اعلٰی حضرت سے ایک سال عمر میں بڑے تھے۔ بچپن ساتھ گزرا۔ ہوش سنبھالا تو ایک ہی جگہ نشست و برخاست رہی۔ ایسی حالت میں آپس میں بے تکلف ہونا ہی تھا۔ میں نے اپنے ہوش سے انہیں اعلٰٰی حضرت قبلہ کی صحبت میں خاموش اور مؤدب ہی بیٹھے دیکھا۔ انہیں اگر کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہوتا تو دوسروں کے ذریعہ دریافت کراتے۔ میں مدتوں سے ہی یہی دیکھ رہا تھا ایک روز میں نے چچا سے عرض کیاکہ اعلٰٰی حضرت تو آپ کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہیں ان سے اس قدر کیوں جھجکتے ہیں کہ مسئلہ نہیں دریافت کر سکتے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اور وہ بچپن سے ساتھ رہے ہوش سنبھالا تو نشست و برخاست ایک ہی جگہ ہوتی۔ نماز مغرب پڑھ کر ہمارا معمول تھا کہ ان کی نشست میں آ بیٹھتے، سّید محمود شاہ صاحب وغیرہ چند ایسے احباب تھے کہ وہ بھی اس صحبت میں روزانہ شرکت کرتے۔ عشاء تک مجلس گرم رہتی ۔ اس مجلس میں ہر قسم کی باتیں ہوتیں تھیں۔ علمی مذاکرے ہوتے تھے۔ دینی مسائل پر گفتگو ہوتی اور تفریحی قصّے بھی ہوتے۔ جس دن محرم 1301ھ کا چاند ہوا اس دن حسب معمول ہم سب بعد مغرب اعلٰی حضرت کی نشست میں آگئے۔ اعلٰی حضرت خلاف معمول کسی قدر دیر سے پہنچے، حسب معمول سلام علیک کے بعد تشریف رکھی اور لوگ بھی تھے۔ مجھے مخاطب کر کے فرمایا! کہ متھن بھائی جان آج 1301 ھ کا چاند ہو گیا، میں نے عرض کیا کہ میں نے بھی دیکھا، بعض ساتھیوں نے چاند دیکھنا بیان کیا۔ پھر فرمایا ! بھائی صاحب یہ تو صدی بدل گئی میں نے بھی عرض کیا کہ صدی تو بیشک بدل گئی۔ خیال کیا تو واقعی اس چاند سے چودھویں صدی شروع ہوئی تھی اس پر فرمایا کہ اب ہم اور آپ کو بھی بدل جانا چاہئے۔ یہ فرمانا تھا کہ ساری مجلس پر ایک سکوت کا عالم طاری ہو گیا اور ہر شخص اپنی جگہ بیٹھا رہ گیا پھر کسی کو بولنے کی ہمت نہ ہوئی، کچھ دیر سب خاموش بیٹھے رہے۔ اور سلام علیک کر کے سب فرداً فرداً چلنے لگے۔ اس وقت تو کوئی بات نہ سمجھ میں نہ آئی ۔ کہ یکایک اس رعب چھا جانے کا سبب کیا ہوا۔ دوسرے روز جب بعد نماز فجر سامنا ہوا اور ان کے مجددانہ رعب و جلال سے واسطہ پڑا تو یاد آیاکہ انہوں نے جو بدلنے کو کہا تھا وہ خدا کی قسم ایسے بدلے کہ کہیں سے کہیں پہنچ گئے اور ہم جہاں تھے وہیں رہے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ ہمیں ان سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی ۔ بلکہ اس اہم تبدیلی ہم نے تنہائی میں بارہا غور بھی کیا تو بجز اس کے کوئی بات سمجھ نہ آئی ۔ کہ ان میں من جانب اللہ اس دن سے کوئی بڑی تبدیلی کر دی گئ ہے ، جس نے انہیں بہت اونچا کر دیا ہے ۔ اور ہم جس سطع پر پہلے تھے وہیں اب بھی ہیں ۔ ہاں ! جب دنیا انہیں مجدد المائۃ الحاضرہ کے نام سے پکارنے لگی تو سمجھ میں آیا کہ وہ تبدیلی یہ تھی جس نے اتنے روز حیران ہی رکھا ۔ یہ تھی وہ تاریخ جس میں موجودہ صدی کا مجدد بنایا گیا اور مجددیت کا منصب جلیل عطا ہوا اور ساتھ ہی ساتھ وہ رعب عطا ہوا جو اسی تاریخ سے محسوس ہونے لگا۔ ( سیرت اعلٰی حضرت ص 61،62 ) پٹنہ کے اجلاس 1418 ھ 1911 ء میں مشاہیر علماء وفضلاء کی موجودگی میں حضرت مولانا عبدالمقتدر بدایونی علیہ الرحمۃ نے امام احمد رضا کو مجدد فرمایا اور سب نے اس لقب کو بہ طیب خاطر قبول کیا ۔ 1324 ھ 1905 ء میں جب امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ دوسرے حج اور زیارت کےلئے تشریف لے گئے تو حرمین شریفین کے متعدد علماء کرام و مشائخ عظام نے انہیں مجدد کہا ۔ چند اسماء حسب ذیل ہیں --! سید اسماعیل بن خلیل رحمۃ اللہ علیہ محافظ کتب حرم اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجدد ہے تو البتہ یہ حق و صحیح ہو ( حسام الحرمین ص 52 ) 2:- ہمارے شیخ علامہ مجدد جو علی العموم تمام استاذوں کے شیخ ہیں ‘‘مولوی احمد رضا‘‘ ( الدولۃ الملکیہ ص 7 اردو ترجمہ ) علاوہ اس کے سید حسین بن علامہ عبد القادر طرابلسی مدرس مسجد نبوی ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، شیخ موسٰی علی شامی، سید احمد علی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو مجدد مائۃ حاضرہ اس زمانے کے مجدد ، اس امت کے دین کے مجدد ، کہا ( تقاریظ بر حسام الحرمین، الدولۃ المکیہ ) 3:-لقب ضیاء الدین احمد امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ جب پہلی مرتبہ 1395 ھ میں والدین کے ہمراہ حج و زیارت کے لئے گئے تو حرمین شریفین کے متعدد علماء اور مشائخ نے آپ کو مختلف قسم کی اسناد عطا فرمائیں ۔ ایک دن آپ نے نماز مغرب مقام ابراھیم میں ادا کی، بعد نماز امام شافعیہ حضرت حسین بن صالح جمال اللیل نے بلا تعارف سابق آپ کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دولت خانہ تشریف لے گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی کو پکڑ کر فرمایا ! انی لاجد نور اللہ فی ھذا الجبین بے شک میں اللہ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں ۔ اور صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت فرمائی اور فرمایا کہ تمہارا نام ‘‘ضیاء الدین احمد‘‘ ہے ( الا اجازات المتینہ، از امام احمد رضا ترجمہ از حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں علیہ الرحمہ ) ‘‘ضیاء الدین احمد‘‘ امام احمد رضا کو دیا جانے والا پہلا لقب ہے جو کسی عربی عالم نے دیا۔ 4:-علمائے حرمین شریفین کے عطا کردہ القاب و آداب امام احمد رضا کی تصانیف ‘‘ المعتقد المثقد، کفل الفقیہ الفاہم، فتاوٰی الحرمین، حسام الحرمین اور الدولۃ المکیہ پر حرمین شریفین کے علماء کرام نے تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ انہیں خصوصیت کے ساتھ حسام الحرمین اور الدولۃ المکیہ میں ان صاحبان علم و فضل نے مجدد اسلام امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو بڑے پاکیزہ باوقار اور خوبصورت القاب و آداب سے نوازا ہے۔ یہاں ہم انھی القاب کو پیش کریں گے ، جو لقب کی حیثیت کے حامل ہیں اور چند الفاظ تک محدود ہیں ۔ (الف):- شیخ ابو الخیر احمد میر داد مسجد الحرام مکہ مکرمہ: باریکیوں کا خزانہ، معرفت کا آفتاب ، علمی مشکلات ظاہری و باطنی کھولنے والا ‘‘ ( حسام الحرمین ص 38 ) (ب):- علامہ شیخ صالح کمال مکہ مکرمہ : عالم علام ، فضائل کا دریا ، مولانا محقق، زمانے کی برکت ، عمائد علماء کی آنکھوں کی ٹھنڈک ‘‘ ( حسام الحرمین ص 42 ) (ج) :- علامہ شیخ ابن صدیق کمال : روشن ستارہ استاذ معظم سردار و پیشوا ، گردن وہابیہ پر تیغ براں ( حسام الحرمین ص 46 ) (د):- علامہ محمد عبد الحق مھاجر الہ آبادی مکہ مکرمہ : علامہ عالم جمیل ، دریائے ذخار ، سردار فضل، کثیر الاحسان ، دریائے بلند ہمت، ذہین و دانشمند بحرنا پیداکنار ، صاحب ذکاء کثیر الفہم ‘‘ (حسام الحرمین ص 48 ) (ہ):- سید اسماعیل خلیل محافظ کتب حرم مکہ مکرمہ : منقبتوں اور فخروں والا، یکتائے زمانہ ، اپنے وقت کا یگانہ (حسام الحرمین ص 32 ، ‘‘علامہ مجدد‘‘ الدولۃ المکیہ ص 7 ) (و):- علامہ پیر مرزوقی ابو حسین مکہ شریف: نور کے اونچے ستون والا، معرفت کا دریا، سیراب ذہن والا، طاقتور زبان والا ، دریائے منطق ( حسام الحرمین ص 56 ) (ز):- علامہ محمد عابد ابن مرحوم شیخ حسین مفتی سرداران مالکیہ: علمائے مشاہیر کا سردار، معزز فاضلوں کا مایہ افتخار ، صاحب عدل عالم باعمل ، اسلام کی سعادت، محمود سیرت، صاحب احسان (حسام الحرمین ص 64 ) (ح):- علامہ محمد علی مالکی بن شیخ حسین مالکی ، مکہ شریف: دائرہ علوم کا مرکز، مسلمانوں کا یاور، راہ پایوں کا نگہبان، سعد الدین، مولٰی المعارف و الھدٰی عضد ہدایت (حسام الحرمین ص 68 ) (ط):- علامہ شیخ السعد بن دھلان مکی : نادر روزگار، خلاصہ لیل و نہار (حسام الحرمین ص 80 ) (ی):- مولانا شیخ عبد الرحمٰن دھلان مکی : علامہ زماں ، یکتائے روزگار (حسام الحرمین ص 84 ) (ک):- علامہ احمد حنفی مکی : فخر اکابر، پرہیزگار فاضل (حسام الحرمین ص 86) (ل):- علامہ محمد صالح بن محمد افضل مکی: عالم فاضل ، ماہر کامل، باریک فہموں والا، بلند معنوں والا ( حسام الحرمین ص94 ) (م):- علامہ محمد احمد حامد مکی : معتمد پیشوا، فاضل متبحر(حسام الحرمین ص 102 ) (ن):- علامہ محمد سعید شیخ الدلائل مدینہ منورہ: کثیر العلم ، دریائے عظیم الفہم (118 ) (س):- علامہ محمد بن احمد عمری: مرشد محقق، کثیر الفہم ، اللہ کی عطاؤں والا ، دین کا نشان و ستون ، عرفان و معرفت والا ( حسام الحرمین ص128 ) (ع):- علامہ عباس رضوان مدینہ منورہ : علامہ امام، تیز ذہن، بالا ہمت، یکتائے دہر(حسام الحرمین ص 122 ) (ف):- علامہ محمد بن سوس خیاری مدینہ شریف: علامہ محقق، فہامہ مدقق انسان کامل، عالم فاضل (حسام الحرمین ص 129 ) (ص):- علامہ سید الشریف احمد برزنجی مدینہ شریف: صاحب تحقیق و تنقیح و تدقیق و تزئین، عالم اہلسنت وجماعت (حسام الحرمین ص 132 ) (ق):- علامہ محمد سعید بن محمد بالفیل مکہ شریف: امام کامل، (الدولۃ المکیہ ص 19 ) (ر):- علامہ شیخ سعید محمد بن واصح حسینی مدینہ شریف: فخر ہندوستان (ایضاً ص 65 ) (ش):- علامہ شیخ احمد الجزائری مدینہ منورہ: علامہ زماں، یکتائے روزگار، سر چشمہ معرفت ( ایضاً ص 74 ) (ت):-علامہ شیخ حسین بن علامہ سید عبد القادر طرابلسی مدینہ منورہ : حامی ملت محمدیہ طاہرہ، مجدد مائۃ حاضرہ، میرے استاذ اور پیشوا ( ایضاً ص 92 ) (ث):- علامہ محمد کریم اللہ مھاجر مدنی: امام بزرگ محقق نکتہ رس، اس زمانے کے مجدد ( ایضاً ص159 ) (خ):-علامہ شیخ محمد مختار بن عطارد الجاوی مکہ مکرمہ: علمائے محققین کا بادشاہ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات سے ایک معجزہ، یگانہ امام (ایضاً ص 72 ) (ذ):- علامہ شیخ مصطفٰی بن تارزی ابن عزوز مدینہ منورہ: استاذ کامل، برستی گھٹا، فائدہ رساں‘‘ (ایضاً ص 146 ) (ض):- علامہ شیخ موسٰی علی شامی ازھری احمدی دردیری مدنی : امام الائمہ ، ملت اسلامیہ کے مجدد، نور یقین ‘‘ (ایضاً ص 262 ) وغیرہ (5):- امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ یوں تو اعلٰی حضرت کے لئے علمائے حرمین شریفین نے ‘‘‘امام‘‘‘ لکھا ہے ، لیکن ان کے نام سے قبل امام لگانا یعنٰی امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ لکھنا ۔۔۔۔ ۔۔ یہ انداز سب سے پہلے علامہ مشتاق احمد نظامی الہ آبادی علیہ الرحمہ نے اختیار کیا۔ اور اپنا رسالہ ‘‘پاسبان‘‘ میں ان کے لئے امام احمد رضا علیہ الرحمہ لکھنا شروع کیا ۔ 1976ء میں ماہنامہ المیزان نے اعلٰی حضرت کی حیات و شخصیت اور کارناموں ہر اپنا منفرد ضخیم امام احمد رضا نمبر شائع کیا۔ تو اس میں ہر جگہ ان کے لئے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ہی لکھا گیا۔ اس کے بعد امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ لکھنے کا یہ ایک رواج سا بن گیا ۔ ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب ، علامہ عبد الحکیم اختر شاہجاں پوری رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ شمس بریلوی قدس سرہ ، سید ریاست علی قادری صاحب علیہ رحمہ اور دوسرے پاکستانی اور ہندوستانی قلم کاروں نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ہی لکھنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ ان کی تصانیف کے شائع کرنے والے ناشرین نے بھی ان کے لئے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ لکھا اور آج بھی یہ انداز جاری ہے ۔ (6) محدث بریلوی : حضرت مسعود ملت ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے محدث بریلوی نام سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و شخصیت پر کتاب لکھی ۔ اس کے بعد چند پاکستانی اہل قلم نے بھی انہیں محدث بریلوی لکھنا شروع کر دیا۔ یہ بھی ایک لقب ہی ہے ۔ (7) ٍفقیہ العصر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے فقیہ العصر نام سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت پر رسالہ لکھا ۔ یہ بھی خوبصورت لقب ہے ۔ (8 ) سرتاج الفقہاء ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کا سرتاج الفقہاء کے نام سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت پر ایک دوسرا رسالہ ہے ۔ سرتاج الفقہاء بھی اچھا لقب ہے ۔ اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے شایان شان ہے ۔ (9) چشم و چراغ خاندان برکاتیہ : مارہرہ مطہرہ ، خانوادہ برکاتیہ کے ایک عظیم و جلیل شہزادے حضرت سید آل رسول حسنین قادری صاحب نے امام احمد رضا کو ‘‘چشم و چراغ خاندان برکاتیہ‘‘ لکھا ۔ ( المیزان امام احمد رضا 1976ء ص 235 ) (10)مجدد اعظم خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے چشم و چراغ محدث اعظم ہند حضرت علامہ مولانا سید محمد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘مجدد اعظم‘‘ کہا (المیزان نمبر ص 241 ) (11) واصف شاہ ہدٰی پروفیسر ڈاکٹر طلحہ رضوی برق نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘واصف شاہ ہدٰی ‘‘ کہا ( المیزان امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نمبر ص 240 ) حضور اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے آپ کو واصف شاہ ہدٰی کہا ہے ! شعر ملاحظہ کیجئے ! یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں نہیں ہند میں واصف شاہ ہدٰی مجھے شوخی طبع رضا کی قسم یہ حقیقتاً رضا سے ہی مستعار ہے لیکن رضا کے لئے حسین لقب ہے ۔ (12) شاہ ملک سخن فروغ دہلوی نور اللہ مرقدہ نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے آقا محمد مصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کرتے دیکھ کر ‘‘ملک سخن کا شاہ‘‘ کہا ہے! فرماتے ہیں ! ملک سخن شاہی تم کو ‘‘رضا‘‘ مسلم جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں (13) شیخ الاسلام و المسلمین امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے اکبر حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان صاحب نور اللہ مرقدہ نے ‘‘شیخ الاسلام و المسلمین ‘‘ سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال(1340ھ) کا تاریخی مادہ استخراج کیا تھا ۔ اب یہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ایک لقب بن گیا ہے ۔اور انہیں ‘‘ شیخ الاسلام و المسلمین‘‘ بھی لکھا جاتا ہے۔ (14) امام نعت گو یاں ًمولانا اختر الحامدی صاحب مرحوم (کراچی) نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘امام نعت گو یاں ‘‘ لکھا ہے ۔ وہ اس عنوان سے امام کی نعت گوئی پر بسیط مقالہ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔( آئینہ رضویات اول ) (15) قبلہ اہل دل ڈاکٹر نسیم قریشی مرحوم شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے امام احمدرضا کو ‘‘قبلہ اہل دل‘‘ لکھا۔ ( المیزان امام احمد رضا نمبر ص 549 ) ( 16) فاضل بریلوی امام احمد رضا کے لئے ابتداء سے ہی فاضل بریلوی کہا اور لکھا جا رہا ہے ۔ آج جب بھی فاضل بریلوی کہا اور لکھا جاتا ہے تو ذہن کسی اور عالم کی طرف نہ جا کر امام احمد رضا ہی کی طرف جاتا ہے ۔ حاصل کلام عرب عجم کے علماء، قلم کاروں اور دانشوروں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل و مناقب ایک سے بڑھ کر ایک حسین انداز میں بیان کئے ہیں اور بڑے ہی باوقار اور خوبصورت القاب وآداب سے یاد کیا ہے ۔ سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے ۔ امام کے ماننے چاہنے والے انہیں برابر بہتر سے بہتر القاب وآداب سے یاد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ شعراء ان کے اوصاف کے بلیغ اظہار میں تراکیب سازی بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن اب تک امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو جن القاب وآداب سے یاد کیا گیا ہے اور جو زیادہ مقبول ہیں ان کا ایک اجمال پیش کیا گیا ہے ۔ ذیل میں ہم حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے مختلف القاب کو مجموعی طور پر پیش کرتے ہیں !!!!!!!!!!!!! اعلٰی حضرت ، حجۃ اللہ فی الارض ، علم و فضل کے دائرہ کا مرکز ، صاحب تحقیق و تدقیق و تنقیح ، فخر السلف ، بقیۃ الخلف، اکابر اور عمائد علماء کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، زمانے کی برکت، آفتاب معرفت محمود سیرت، اسلام کی سعادت، دریائے بلند ہمت ، اپنے زمانے اور اگلے وقتوں کا زر ، نور کے اونچے ستون والا، صاف ستھرا نہایت کرم والا ، اللہ کی عطا کردہ اور سیراب ذہن والا ، بلند معنوں باریک فہموں والا ، فخروں اور منقبتوں والا ، مشکلات علم کا کشادہ کرنے والا ، علموں کی مشکلات ظاہر و باطن کو کھولنے والا، طاقتور قلم اور زبان والا، دین کا نشان و ستون ، جامع علوم و فنون ، عالم جمیل و جلیل ، فاضل نبیل ، عالم باعمل ، صاحب عدل ، مینار فضل ، علامہ فاضل و کامل ، پر ہیز گار فاضل ، محیط کامل، امام کامل، ولی کامل، قبلہ اہل دل قطب ارشاد، فاضلوں کا مایہ افتخار ، علمائے مشاہیر کا سردار ، ذہین اور دانشمند عالم یگانہ استاذ ماہر ، فخر اکابر ، شیوہ بیان شاعر، یکتائے روزگارنادر روزگار ، خلاصہ لیل و نہار، دریائے ذخار، چراغ خاندان برکاتیہ ، امام الائمہ، نور یقین، شیخ الاسلام والمسلمین ، استاذ معظم ، مجدد اعظم ، شاہ ملک سخن ، امام اہلسنت، عظیم العلم ، موئید ملت طاہرہ، مجدد ملت ، حاضرہ ( ماضیہ) محدث بریلوی ، امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ ( وارضاہ عنا) یہ تحریر ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی(بریلی شریف) صاحب کے مقالہ سے نقل کی ہے
गुरुवार, 20 जुलाई 2017
اعلیٰ حضرت کے نعتیہ سلام کے اشعار پر وہابیوں کا جاہلانہ اعتراض ___________________________________________ دیوبندیت و وہابیت یہ ایسی جاہل قومیں ہیں، جن کی اللہ تعالٰی نے گستاخی رسولﷺ اور بغض اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے سبب عقلیں چھین لی ہیں اور علم سے با الکل بے بہرہ ہو گئے ہیں۔۔ اس لئے انہیں سمجھ تو کچھ آتا نہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ حضرات پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور پھر منہ کی کھاتے ہیں، لیجئیے ایک ایسا ہی جاہلانہ اعتراض : مولوی ایوب نے بھی اپنی جہالت سے مجبور ہو کر 3 جلدوں میں دست و گریبان نامی کتاب لکھی ہے جو جھوٹ و بہتان سے بھری ہوئی ہے اور اپنی جہالت کا خوب مظاہرہ کیا ہے مولوی ایوب دیوبندی لکھتا ہے: "مولوی احمد رضا خان بریلوی کا شعر ہے عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام شعر کے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جو عزت اللّہ نے آپ (حضورﷺ )کو ذلت ملنے کے بعد دی اس پر لاکھوں سلام ہوں یعنی نبی پاک (حضورﷺ ) پر ایک وقت وہ بھی گزرا کہ آپ ذلت کے مقام پر فائز تھے بعد ازاں اللّہ نے عزت سے ٙ نوازا۔ (دست و گریبان صفحہ 92۔۔93۔۔130۔۔247۔۔) الجواب۔۔ایک ہی کتاب میں تقریباً 4 جگہ اس بہتان کو دہرایا گیا ہے۔ مکمل شعر یوں ہے کثرت بعد قلت پہ اکثر درود عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش حصہ دوم صفحہ 36 مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور ) دیوبندی مولوی نے اس شعر کو انتہائی باطل معنی پر محمول کیا ہے ۔ دراصل اس شعر میں لفظ "بعد " زبر کے ساتھ نہیں بلکہ پیش کے ساتھ ہےجس کا مطلب دوری ہوتا ہے۔ تو مطلب ہو گا ذلت سے دور۔ بالفرض اگر اس لفظ "بعد "کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو ہرگز خطاب معاذالللہ حضورﷺ سے نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے پچھلے مصرعہ میں "قلت و کثرت " کا ذکر ہے جس سے مراد اہل عرب ہیں۔ تو اس شعر کا مطلب ہے کہ پہلے مسلمانوں کا گروہ کم تھا پھر کثیر ہو گیا۔ اور اسلام سے پہلے اہل عرب ذلت و گمراہی میں تھے۔ اللّہ نے ان کو اسلام کی نعمت سے مالا مال کر کے عزت و بلندی اور کثرت عطا فرمائی۔ یہ شعر بخاری شریف کی اس حدیث پاک کی شرح ہے; "اے گروہ عرب۔۔ تم ذلت اور گمراہی کی جس حالت میں تھے وہ تمہیں معلوم ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے اسلام اور حضورﷺ کے ذریعے نجات دلائی۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الفتن۔ جلد 9۔ صفحہ 57۔ مطبوعہ دار طوق النجات) مولوی ایوب لکھتا ہے "ایک بریلوی کہنے لگا کہ یہ تو لفظ "بعد " (پیش کے ساتھ) ہے۔۔ "بعد " (زبر ) کے ساتھ نہیں میں نے کہا میرے پاس حدائق بخشش کی کئی شرحیں ہیں مفتی غلام حسن قادری لاہوری کی مولوی نعیم الله خان قادری کی مفتی محمد خان قادری کی صوفی امام الدین کی ان سب نے تو "بعد " (زبر کے ساتھ ) مانا ہے ۔۔ (دست و گریبان صفحہ 92) الجواب۔۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اگر لفظ "بعد " زبر کے ساتھ ہی لیا جائے تو بھی اس کا مطلب وہ نہیں جو مولوی صاحب نے اپنی ازلی جہالت کے سبب سمجھا ہے۔۔ بلکہ وہ مطلب ہے جو میں نے اوپر بیان کیا۔۔ اور جن شارحین کا نام مولوی صاحب نے لکھا ہے ان شارحین نے بھی اس شعر میں لفظ بعد زبر کے ساتھ مان کر اس شعر کی وی تشریح بیان نہیں کی جو مولوی صاحب نے بیان کی ہے ۔۔۔۔۔۔مثلاً ۔۔۔۔۔۔ مولانا نعیم الله خان قادری اس شعر کی شرح میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔ "یارسول الله۔۔ الله تعالیٰ نے آپ کی ذات بابرکات کے طفیل مسلمانوں کی قلت کو کثرت میں بدل دیا۔۔ وہ بے سروسامانی کے عالم میں تھے حتیٰ کہ مسلمانوں کو ہجرت کے بعد استقامت اور غلبہ عطا فرمایا ۔۔ مسلمانوں کو فتوحات کے بعد فتوحات حاصل ہوئیں اور چار سو مسلمانوں اور اسلام کو عزت و غلبہ حاصل ہوا۔ اور کفر و شرک کی ذلالت سے اسلام اور توحید کی عزت بلند ہوئی۔" (شرح سلام رضا صفحہ 58 ۔ 59 ۔اویسی بک سٹال 2011 )
غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی شان والی ربائی پر وہابیوں کا الزام ____________________________________________ اعلیٰ حضرت کے کلام کو سمجھنے کے لئے علم و فہم کی ضرورت ہے۔ معترضین(وہابی، دیوبندی) جب اس اعتراض کو کرتے ہیں تو وہ اعلیٰحضرت کی اس رباعی کے صرف آخری دو مصرعے نقل کر کے اوّل کے دونوں مصرعے جن کے بغیر مفہوم مکمل نہیں ہوتا شیرِ مادر کی طرح ہضم کر جاتے ہیں۔معترضین نے الزام لگایا ہے کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا یہ عقیدہ تھا کہ سرکار بغداد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے بعد پھر سے رسالت کی شروعات ہوگی اور پھر سے ایک نیا رسول دنیا میں آئے گا جو اولاً سرکار بغداد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تبارک و تعالی عنہ کا تابع رہے گا(نعوذباللہ من ذلک) جو عظیم ہستی زندگی بھر منکرین ختم نبوت کا رد کرتی رہی خود اسی کو منکر ٹھہرادیا؟؟؟عقل چوپایوں کو دے بیٹھے رضا کے بغض میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر میں زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے فقط اصل اعتراض کا جواب پیش کر رہا ہوںآپ حضرات جواب پڑھ کر حق کی تائید کریںمیرے پاس جو حدائق بخشش موجود ہے وہ قادری کتاب گھر اسلامیہ مارکیٹ بریلی شریف کی ہےجن دو مصرعوں کو مدعی نے بطور دلیل پیش کیا ہے وہ اس حدائق بخشش کے صفحہ نمبر 308 پر ایک رباعی کے تحت آخر صفحہ پر مرقوم ہیںمکمل رباعی اس طرح ہے*بر وحدت او رابع عبدالقادر**یک شاہد و دو سابع عبدالقادر* *انجام وے آغاز رسالت باشد**اینک کہ گو ہم تابع عبدالقادر*کچھ لوگ بھولی بھالی عوام کو فریب دینے کیلئے آدھی ادھوری عبارتیں دکھاتے پھرتے ہیںاگر یہ رباعی مکمل پیش کردی جاتی تو اہل علم پر حق واضح ہوجاتا اور اعتراض کا از خود رفع ہوجاتالیکن ان ظالموں کے من کی نہیں ہوپاتیانہیں ذلیل بھی تو ہونا تھاجواب صرف اس بات پر موقوف ہے کہمجدداعظم سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تبارک وتعالی عنہ نے اپنی اس شاہکار رباعی میں لفظ *عبدالقادر* سے بحث کی ہےذات *عبدالقادر* سے بحث نہیں کی(رضی اللہ تبارک وتعالی عنہ)یعنی شعر میں سرکار بغداد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تبارک وتعالی عنہ کے نام کی طرف اشارہ ہے خود سرکار بغداد کی ذات کی طرف اشارہ نہیںیعنی اسم مراد ہے مسما(مسمیٰ) مراد نہیںاگر آپ اتنا سمجھ گئے تو اب آگے دیکھیںلفظ *عبدالقادر* میں نو حروف ہیںلفظ *عبدالقادر* کا چوتھا اور ساتواں حرف *الف* ہےجبکہ حرف آخر *را* ہےبس اب ساری گفتگو الف (ا)، الف (ا) اور را (ر) کو لیکر ہونی ہےاعلی حضرت (رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں*بر وحدت او رابع عبدالقادر**مصرع کا مطلب*👇*لفظ عبدالقادر کا چوتھا حرف یعنی پہلا الف اللہ تعالی کے ایک ہونے کی گواہی دے رہا ہے**اس کی وحدت پر شاہد ہے**عربی زبان میں ایک کو احد کہتے ہیں**اور احد الف سے شروع ہوتا ہے**گویا کہ لفظ عبدالقادر کا پہلا الف احد احد کہہ رہا ہے**یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے کا ورد کر رہا ہے**یک شاہد و دو سابع عبدالقادر**مصرع کا مطلب**لفظ عبدالقادر میں چوتھے نمبر پر آنے والا پہلا الف اللہ تعالی کی وحدانیت پر پہلا شاہد تھا**اور دوسرا شاہد لفظ عبدالقادر کا ساتواں حرف یعنی دوسرا الف ہے*تو اس طرح یہ دونوں الف احد احد کی صدائیں بلند کر رہے ہیں*انجام وے آغاز رسالت باشد**مصرع کا مطلب**اور لفظ عبدالقادر کے انجام (حرف آخر )سے رسالت کی شروعات ہوتی ہے**یعنی لفظ عبدالقادر کا حرف آخر ''ر" رسالت کی گواہی دے رہا ہے**کیونکہ لفظ عبدالقادر را پہ ختم ہوتا ہے اور لفظ رسالت را سے شروع ہورہا ہے*گویا کہ امام اہلسنت رضی اللہ تبارک وتعالی عنہ اس رباعی کے ذریعہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سرکار بغداد شیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ تبارک وتعالی عنہ) کی ذات پاک تو رب اور محبوب رب عز وجل (وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم )کی مدح و ثنا اور تعریف و توصیف بیان کرتی ہی ہےلیکن آپ کا نام بھی ایسا معتبر اور بابرکت ہے کہ یہ بھی ہمہ وقت اللہ عز وجل کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت پر شاہد رہتا ہےخیربات مکمل ہوئیتین مصرعوں کی تشریح ہوجانے کے بعد چوتھا مصرع از خود واضح ہےحق واضح ہوا فیصلہ قارئین کے ذمہ رہایہ صرف اعتراض کا جواب تھا
MUKHALIF KI BAATEN🌼
🌻 LIKHTA HAI : bahot se raza khaniyun ne ise gustakhana aqeeda karaar diya.
🌹 haq kaha kahne wale ne......bahot se nahi....bal k tamaam olma e ahl e sunnat ne ise aqeede ko mahaz gustakhana nahi bal k kufriya aqeeda kaha.....k jo b khatm e nobuwat ka inkaar kare wo mutlaq kafir hai.....magar bad mazhabon k molana ne تحذير الناس me is aqeede ka inkaar kiya.
🌻 LIKHTA HAI : aur is aqeede se tauba kar li bahot se raza khaniyun ne tauba kar li.
🌹 Sab se pahle lazim k ahl e sunnat wa jamat k kis aalim ne aysa aqeda fasid wa batil rakha aur fir tauba ki.
🌻 LIKHTA HAI : magar suwal yeh hai k kisi aur k tauba karne se ahmad raza khaan ki tauba ho jaygi ?
🌹 yeh to aap ka bichaaya hua jaal awam e ahle sunnat wa al jamat tha k ala hazrat ne khatm e nobuwat ka inkaar kiya.....na aap adhoora sher padhte aur na yeh sab hota.....kisi musalman par be tahqeeq kufriya aqeeda thopna khud ko kafir bana deta hai.....hadith e paak ki raoshni me.......ab aap ki tauba kis andaaz me ho gi....yeh aap batayen.....k elaniya gunah ki tauba elaniya.....mazeed yeh k wo aqeeda jo nasse qatai se sabit ho us k inkaar par nikah b lazim.
اعلی حضرت کی طرف منسوب حدائقِ بخشش حصہ سوم پر اعتراض کا جواب ____________________________________________ کہتے ہیں کہ حسد و بغض انسان کو اندھا بنا دیتا ہے اور پھر میں جھوٹ و سچ سمجھنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ٹھیک اسی طرح وہابیوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا رہا ہے انہوں نے بغض کی وجہ سے بغیر تحقیق کئیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ پر بیہودہ الزامات عائد کیئے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ہے، مندرجہ ذیل اعتراض بھی اسی کی ایک کڑی ہے جواب نمبر 1 : اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امامِ احمد رضا خان بریلوی رحمة الله علیہ پہ دیابنہ اور وہابیہ وغیرہ جاہل نما عالم،اعتراض کرتے ہیں کہ امام احمد رضا نے " اماّں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے حدائق بخشش حصہ سوم میں کچھ اشعار لکھیں ہیں جو گستاخی پہ مبنی ہیں ۔ آیئے پہلے وہ اشعار پڑھتے ہیں پھر اس جاہلانہ اعتراض کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ۔ حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر 37 پہ رقمطراز ہیں تنگ و چست انکا لباس اور وہ جوبن کا ابھار مسکی جاتی ہے قبا سے کمر تک لیکن یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن میرے دل کی صورت کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر محترم قارئین : اس پہ ایک لطیفہ یاد آیا ، ایک شخص پہ شاعری کا بھوت سوار تھا تو اس نے یہ لاجواب شعر کہا ۔ چہ خوش گفت سعدی در زلیخا کہ عشق نمود اول ولے افتاد شکلہا اسے یہ فکر نھیں تھی کہ دونوں مصرعوں کا وزن بھی صحیح ہوا ہے یا نھیں، اور اسے یہ تو خبر ہی نھیں تھی کہ زلیخا مولانا جامی کی تصنیف ہے اور دوسرا مصرعہ حافظ شیرازی کا ہے ۔ اس نے یہ دونوں چیزیں شیخ سعدی کے کھاتے میں ڈال دیں اور اس پر خوش کہ شاندار شعر بن گیا ۔ بس یہی حاصل معترضین کا ہے انھیں یہ علم ہی نھیں کہ حدائق بخشش حصہ سوم امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف و ترتیب نھیں اور نھیں ان کی زندگی میں شائع ہوا ۔ یہ حصہ (حدائق بخشش سوم) مولانا محبوب علیخان نے ترتیب دیا اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے دو سال بعد شائع ہوا ۔ مولانا محبوب علیخاں نے ابتدائیہ کی صفحہ نمبر 10 پر ۲۹ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ کی تاریخ درج کی ہے، جب کہ اعلی حضرت امام احمد رضا کی تاریخ وصال ۱۴۴۰ھ ماہ صفر میں ہو چکا تھا، مولانا محبوب علی خاں سے تیسرے حصہ کی ترتیب و اشاعت میں واضح طور پر چند فروگزاشتیں ہوئیں ۔ انہوں نے اس حصہ کا نام حدائق بخشش حصہ سوم رکھا، صرف یہی نھیں بلکہ ٹائیٹل پر ۱۳۲۵ھ کا سن بھی درج کر دیا حالانکہ حدائق بخشش صرف پہلے اصل دو حصوں کا تاریخی نام تھا جو ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئے اور تیسرا حصہ ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوا یعنی تقریباً ۱۶ یا ۱۷ سال بعد شائع ہوا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) انہوں نے مسودہ نابھ سسٹیم پریس نابھہ کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے خود ہی کتابت کروائی اور خود ہی چھاپ دیا، مولانا نے اس کے پروف بھی نھیں پڑھے کاتب نے دانستہ یا نادانستہ چند اشعار جو بلکل تھے,ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں کہے گئے اشعار کے ساتھ ملا کر لکھ دیئے ، ان غلطیوں کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ علامہ مشتاق احمد نظامی رحمۃ اللہ علیہ نے ممبئ کے ایک ہفتہ روزہ میں ایک مراسلہ شائع کروا دیا اور مولانا محبوب علی کو اس غلطی کی طرف متوجہ کیا ، مولانا محبوب علی نے اپنی اس غلطی سے توبہ کی جو رسالہ سنی لکھنؤ اور روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا اور باربار زبانی توبہ کی ۔ اعلان توبہ : حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر ۳۷،۳۸ میں بےترتیبی سے اشعار شائع ہو گئے تھے اس غلطی سے بارہا یہ فقیر توبہ کر چکا ہے ، اللہ و رسول کریم میری توبہ قبول فرمائے آمین ثم آمین، اور سنی مسلمان خدا و رسول کے لئے معاف فرما دیں ۔ (فیصلہ شرعیہ قرآنیہ صفحہ ۳۱،۳۲) اس تفصیل سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام احمد رضا پہ گستاخی کا الزام درست نھیں ہے بلکہ یہ سراسر بہتان ہے ۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اور اکابر دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : مولانا احمد رضا عاشق رسول ہیں وہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور وہ ہمیں کافت نہ کہتے تو خود کافر ہو جاتے ۔(ملفوظات حکیم الامت) مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں : امام احمد رضا ایک عاشق رسول ہیں میں سوچ بھی نھیں سکتا کے ان سے توہین نبوت ہو ۔ (تحقیقات صفحہ نمبر ۱۲۵) خلاصہ یہ ہے کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کتاب ہی نھیں لکھی بلکہ الگ الگ اشعار لکھے ہوئے تھے، مولانا محبوب علی نے ان اشعار کو جمع کیا اور پریس میں دے دیا، اور جو اشعار مشرکین عورتوں کی مذمت کے بارے میں لکھے تھے، اسے اماں عائشہ کی شان میں لکھے گئے اشعار کے ساتھ ملا دیا اور یہ غلطی پریس والوں کی تھی نہ کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ نہ تو امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کتاب لکھی نہ چھپائی اور نہ ہی دیکھی پھر الزام کیسا.؟ اللہ ہدایت دے ایسے جاہل نما متعصب علماء کہلانے والوں کو جو بہتان لگاتے ہیں اور فضول اعتراض کرتے ہیں آمین ۔ نوٹ: تفصیل کے لئے فیصلہ مقدسہ کا مطالعہ فرمائیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) انتہائی متعصب غیر مقلاد وہابی عالم احسان الٰہی ظہیر لکھتا ہے : بریلوی نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ایسے کلمات کہے کہ انہیں سنی کبھی زبان پر نہیں لا سکتا۔‘‘ (ظہیر: البریلویۃ ص ۲۱) اللھم سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم ۔ جواب نمبر 2 : حدائق بخشش حصہ سوم : امام احمد رضا بریلوی کا نعتیہ دیوان دو حصے پر مشتمل ہے ۔ یہ ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء میں مرتب اور شائع ہوا۔ ماہِ صفر ۱۳۴۰ھ/۹۱۲۱ء کو آپ کا وصال ہوا۔ وصال کے دو سال بعد ذوالحجہ ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء میں مولانا محمد محبوب علی قادری لکھنوی نے آپ کا کلام متفرق مقامات سے حاصل کر کے حدائق بخشش حصہ سوم کے نام سے شائع کر دیا۔ انہوں نے مسو وہ نابھہ سٹیم پریس ، نابھہ (پٹیالہ، مشرقی پنجاب۔ بھارت)کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے کتابت کروائی اور کتاب چھاپ دی۔ کاتب بد مذہب تھا، اس نے دانستہ یا نادانستہ چند ایسے اشعار ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مدح کے قصیدے میں شامل کر دئیے جو ام زرع وغیرہ مشرکہ عورتوں کے بارے میں تھے ، ان عورتوں کا ذکر حدیث کی کتابوں مسلم شریف ، ترمذی شریف اور نسائی شریف وغیر میں موجود ہے ۔ مولانا محمد محبوب علی خاں سے چند ایک تسامح ہوئے : (1) چھپائی سے پہلے انہوں نے اپنی مصروفیات اور پریس والوں پر اعتماد کر کے چھپنے سے پہلے کتابت کو چیک نہ کیا۔ (2) کتاب کا نام ’’حدائق بخشش حصہ سوم رکھ دیا، حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ ‘‘ باقیاتِ رضا یا اسی قسم کا کوئی دوسرا نام رکھتے ۔ (3) ٹائیٹل پیج پر کتاب کے نام کے ساتھ ۱۳۲۵ھ بھی لکھ دیا، حالانکہ یہ سن پہلے دو حصوں کی ترتیب کا تھا جو مصنف کے سامنے ہی چھپ چکے تھے ۔ تیسرا حصہ تو ۱۳۴۲ھ میں مرتب ہو کر شائع ہوا۔ (محمد محبوب علی خاں ، مولانا۔: حدائق بخشش (نابھہ سٹیم پریس ، نابھہ) ص ۱۰) ۔ اسی لیے ٹائیٹل پیج پر امام احمد رضا بریلوی کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ورحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھا ہوا ہے ۔ اگر ان کی زندگی اور ۱۳۲۵ھ میں یہ کتاب چھپتی ، تو ایسے دعائیہ کلمات ہر گز نہ درج ہوتے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) (4) یہ مجموعہ مرتب کر کے امام احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے مولانا مصطفے ٰ رضا خاں یا بھتیجے مولانا حسنین رضا خاں کو دکھائے اور منظوری حاصل کیے بغیر چھاپ دیا۔ (5) کتاب چھپنے کے بعد جیسے ہی صورتِ حال سامنے آئی تھی، اس غلطی کی تصحیح کا اعلان کر دیتے تو صورتِ حال اتنی سنگین نہ ہوتی، لیکن یہ سوچ کر خاموش رہے کہ اہلِ علم خود ہی سمجھ جائیں گے کہ یہ اشعار غلط جگہ چھپ گئے ہیں اور آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کر دی جائیگی۔ محمد ثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھو چھوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں فرماتے ہیں : مجھے محبوب الملت (مولانا محمد محبوب علی خاں ) کے خلوص سے انکار نہیں اور نہ ہی یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ انہوں نے امام احمد رضا کی کسی قدیم رنجش کی بناء پر ایسا کیا ، لیکن میں اس حقیقت کے اظہار سے بھی اپنے کو روک نہیں پا رہا ہوں کہ محبوب الملت نے کسی سے مشورہ کیے بغیر حدائق بخشش میں تیسر ی جلد کا اضافہ کر کے اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا تسامح کیا ہے ۔ ایک ایساتسامح جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسی فاش غلطی جس کی تنہا ذمہ داری محبوب الملت پر عائد ہوتے ہوئے بھی امام احمد رضا کو مخالفین کے اتہام کی زد سے بچا نہ سکی۔ سوچ کر بتائے کہ اس میں امام احمد رضا کی کیا غلطی ؟ غیر شعوری ہی کیوں نہ ہو، آنے والا مؤ رخ اس طرح کی خوش عقیدگی کو ظلم ہی سے معنون کرے گا‘‘۔ (شرکتِ حنفیہ ، لا ہور: انوارِ رضا ص ۲۱) ایک عرصہ بعد دیوبندی مکتبِ فکر کی طرف سے پورے شدومد سے یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ مولانا محمد محبوب علی خاں نے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں گستاخی کی ہے ، لہٰذا انہیں بمبئی کی سنی جامع مسجد سے نکال دیا جائے ۔ مولانا محمد محبوب علی خاں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور وہ کچھ کیا جو ایک سچے مسلمان کا کام ہے ۔ انہوں نے مختلف جرائد اور اخبارات میں اپنا توبہ نامہ شائع کرایا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی (مصنف خون کے آنسو) نے ایک ہفت روزہ کے ذریعے انہیں غلطی کی طرف متوجہ کیا تھا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آج ۹ ذیقعد ہ ۱۳۷۴ ھ کو بمبئی کے ہفتہ وار اخبار میں آپ کی تحریر ’’حدائق بخشش‘‘ حصہ سوم کے متعلق دیکھی ، ’’جواباً پہلے فقیر حقیر اپنی غلطی اور تساہل کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور اس خطا اور غلطی کی معافی چاہتا ہے اور استغفار کرتا ہے ، خدا تعالیٰ معافی بخشے ، آمین ! ‘‘(ماہنامہ سنی دنیا شمارہ ذوالحجہ ۱۳۷۴ھ ص۱۷۔ (محمد مظہر اللہ دہلوی ، مفتی: فتاویٰ مظہری (مدینہ پبلشنگ کمپنی ، کراچی)ج۲، ص ۳۹۳) ۔ اس کے باوجود مخالفین نے اطمینان کا سانس نہ لیا، بلکہ پروپیگنڈا کیا کہ یہ توبہ قابل قبول نہیں ہے ۔ اس پرعلمائے اہل سنت سے فتوے حاصل کے گئے کہ ان کی توبہ یقیناً مقبول ہے ، کیونکہ انہوں نے یہ اشعار نہ تو ام المومنین کے بارے میں کہے اور نہ لکھے ہیں ، ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ کتابت کی دیکھ بھال نہ کر سکے ۔ اس کی انہوں نے علی الاعلان اور بار بار توبہ کی ہے اور درِ توبہ کھلا ہوا ہے ۔ پھر کسی کے یہ کہنے کا کیا جواز ہے کہ توبہ قبول نہیں ۔ یہ فتاویٰ فیصلہ مقدسہ کے نام سے ۱۳۷۵ھ میں چھپ گئے اور تمام شورِ اور شر ختم ہو گیا، اس میں ایک سو انیس علماء کے فتوے اور تصدیقی دستخط ہیں ۔ الحمد للہ! کہ فیصلہ مقدسہ ، مرکزی مجلس رضا لاہور نے دوبار چھاپ دیا ہے ۔ تفصیلات اس میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مقامِ غور ہے کہ جو کتاب امام احمد رضا بریلوی کے وصال کے بعد مرتب ہو کر چھپی ہو، اس میں پائی جانے والی غلطی کی ذمہ دار ی ان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے ؟ ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵ء میں بھی جب یہ ہنگامہ کھڑ ا کیا گیا تو تمام تر ذمہ داری مولانا محمد محبوب علی خاں مرتب کتاب پر ڈال دی گئی تھی۔ کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ امام احمد رضا بریلوی نے حضرت امام المومنین کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ لیکن آج حقائق سے منہ موڑ کر گستاخی کا الزام انہیں دیا جا رہا ہے ۔ آج تک امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم مسلک علماء پر یہی الزام عائد کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی محبت و تعظیم میں غلو سے کام لیتے ہیں ۔ پھر یکا یک یہ کایا پلٹ کیسے ہو گئی کہ انہیں گستاخی کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے ؟ دراصل امام احمد رضا بریلوی نے بارگاہِ خداوندی اور حضرات انبیاء واولیاء کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا سخت علمی و قلمی محاسبہ کیا تھا ، جس کا نہ تو جواب دیا جا سکا اور نہ ہی توبہ کی توفیق ہوئی، الٹا انہیں بے بنیاد الزام دیا جانے لگا کہ یہ گستاخی کے مرتکب ہیں ۔ مولوی محمد اسماعیل دہلوی اپنے پیر و مرشد سید احمد (رائے بریلی) کے بار ے میں کہتے ہیں کہ کمالات طریقِ نبوت اجمالاً تو ان کی فطرت میں موجود تھے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہ کمالات راہِ نبوت تفصیلاً کمال کو پہنچ گئے اور کمالاتِ طریقِ ولایت بطریقِ احسن جلوہ گر ہو گئے ۔ ان کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جناب علی مرتضیٰ نے حضرت کو اپنے دستِ مبارک سے غسل دیا اور ان کے بدن کو خوب دھویا، جیسے باپ اپنے بچوں کو مل مل کر غسل دیتے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرانے بیش قیمت لباس اپنے ہاتھ سے انہیں پہنایا۔ پھر اسی واقعہ کے سبب کمالاتِ طریقِ نبوت انتہائی جلوہ گر ہو گئے ۔(صراط مستقیم ) یہ اگرچہ خواب کا واقعہ بتا یا جا رہا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ایسے واقعات کا کتابوں میں درج کرنا اور پھر فارسی اور اُردو میں انہیں بار بار شائع کرنا حضرت خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں سو ادبی نہیں ہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ علمائے اہل سنت کے توجہ دلانے کے باوجود علماء اہل حدیث نے اس کا تدارک نہ کیا اور نہ ہی توبہ کی۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے ۔
मंगलवार, 18 जुलाई 2017
یہود و نصاریٰ آج اتنے کامیاب کیوں؟ ____________________________________________ وہ بھی ایک وقت تھا جب دنیا کے بیشتر ممالک پر مسلمانوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ مسلمانوں کی طوطی بولا کرتی تھی ۔اہل مغرب ہماری مثالیں دیا کرتے تھے۔ہم ہی تھے جنہوں نے دنیا کو تہذیب سکھائی۔ طب و دیگر شعبوں میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات کا اعتراف پوری دنیا نے کیا۔ ابن خلدون،بو علی سینا، ابن بطوطہ، جابر بن حیان سمیت الرازی کے کارناموں کو کون نہیں جانتا۔ مگر پھر قسمت ایسی روٹھی کہ آج تک روٹھی ہوئی ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ دنیا پر حکمرانی کرنے والے اپنی قدرو منزلت گنوا بیٹھے اور آج دنیا کے بیشتر وسائل اور نظام پر یہود و نصاریٰ قابض ہیں۔ آج کے کالم میں تفصیل سے اس کا جائزہ لیں گے کہ ایسا کیوں ہے کہ یہود و نصارٰی تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں پر سبقت لے گئے ہیں؟ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے قدر و منزلت کے بلند مرتبے مسلمانوں سے روٹھ گئے؟ہم ہمیشہ یہ تو تنقید کرتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ پوری دنیا کا نظام و انصرام چلانے میں مصروف عمل ہیں مگر ہم یہ کبھی غور نہیں کرتے کہ مسلمان ایسا کیوں نہیں کرپارہے؟ اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمان اپنی غفلتوں کے سبب ترقی کی منازل سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ گنوادی ہم نے اصلاف سے جو میراث پائی تھی ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ یہ تعداد امریکہ میں 70 لاکھ ،ایشیائی ممالک میں 50 لاکھ ،افریقہ میں ایک لاکھ اور یورپ میں 20 لاکھ کے قریب ہے۔ جبکہ دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی ایک ارب 50 کروڑ سے زیادہ ہے۔ جن کی امریکہ میں تعداد 60 لاکھ، ایشیاء اور مشرق وسطی کے ملکوں اور ریاستوں میں تقریبا ایک ارب،افریقی ملکوں میں 40 کروڑ اور یورپ میں 4 کروڑ 40 لاکھ ہے۔اس وقت دنیا کی 20 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں اس وقت ایک ہندو کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں۔ جبکہ بدھ مت میں بھی یہی تناسب ہے مگر ایک یہودی شخص کے مقابلے میں ایک سو سات مسلمان ہیں مگر اس کے باوجود صرف ایک کروڑ 40 لاکھ یہودی ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں سے زیادہ طاقتور کیوں ہیں؟حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہ کوئی عجوبہ یا معجزہ نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں ۔اگر دنیا کی تاریخ کے کچھ روشن ناموں پر سے پردہ اٹھایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی اکثریت ان میں شامل ہے ۔ البرٹ آئن اسٹائن، کارل مارکس،ملٹن فریڈمین،پال سموئیلسن اور سیگمنڈ فرائڈ یہودی تھے۔ اگر طب کے شعبے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پولیو کے علاج کا موجد جوناس سالک،خون کے کینسر کے علاج کا موجدجیر ٹرودایلون،ٹیکہ لگانے والی سرنج کا موجدبنجمن روبن،یرقان کے علاج کا موجدباروخ سموئیل،جنسی امراض کے علاج کا موجد پال اہر لیخ ،اس کے علاوہ اینڈریو شالی،ایرون بک،جورج والڈ،اسٹینلی کوہین سمیت متعدد یہودی اس فہرست میں شامل ہیں۔ کچھ ایسی ایجادات جنہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ان میں بھی یہودی سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔کمپیوٹر کے سی پی یو کا موجداسٹینلی میزر،ایٹمی ری ایکٹر کا موجدلیو زیلنڈ،فائبر آپٹیکل شعاؤں کا موجد پیٹر شلز،ٹریفک سگنل لائٹس کا موجد چارلس ایڈلر،اسٹینلیس اسٹیل کا موجد بینوسٹراس، فلموں میں آواز کا موجد ایسادورکیسی سمیت وی سی آر کا موجد چارلس جینسبرگ بھی یہودی تھا۔ اگر دنیا کے مشہور برانڈز کی بات کی جائے تو وہاں پر بھی یہودی چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔پولو جس کا مالک رالف لورین، اسٹاربکس کا مالک ہوارڈ شولتز،گوگل کا مالک سرجی برین،ڈیل کمپنی کا مالک مایکل ڈیل اس کے علاوہ متعدد نام موجود ہیں۔ سیاست میں دیکھیں تو عالمی سیاست پر بھی یہودی چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر،رچارڈلیوین،ایلان جرینزپان، سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرایٹ ، امریکہ کا مشہور سیاستدان جوزف لیبرمین ،آیزک آیزک آسٹریلیا کا صدر، دیویڈ مارشل سنگاپور کا وزیراعظم ،پییفیگنی بریماکوف سابق روسی وزیراعظم،بیری گولڈ واٹرامریکی سیاستدان، جورج سمبایو پرتگال کا صدر ،ہرب گرے کینیڈین نائب صدر، پییر مینڈس فرانس کا وزیراعظم، مائیکل ہوارد برطانوی وزیرمملکت،آسڑیلوی چانسلر برونوکریسکی، امریکہ وزیرخزانہ روبرٹ روبین،میکسم لیٹوینوف سمیت متعدد یہودی سیاستدان عالمی سیاست پر جگمگاتے رہے ہیں۔ عالمی میڈیا پر نظر دوڑائیں تو سی این این میں وولف بلیٹزر، واشنگٹن پوسٹ میں یوجین مئیر،نیویارک ٹائمز میں جوزف لیلیفیڈ،اے بی سی نیوزکے بربارا والٹرز،واشنگٹن پوسٹ کی کیتھرین گراہم ،نیو یارک ٹائمز کی میکس فرینکل سمیت متعدد بڑے نام یہودی ہیں۔ مسئلہ یہاں یہ نہیں کہ یہودی دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان پیچھے کیوں ہیں؟ ایک وقت ہوا کرتا تھا کہ جب اہل مغرب مسلمانوں کی تصنیفات کے ترجمے کراکر ان سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔ طب پر مسلمان سائنسدانوں کی کتابیں اہل مغرب کی لائبریریوں کی زینت ہوا کرتی تھیں لیکن پھر سب کچھ آہستہ آہستہ اٹھتا چلا گیا۔ مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی۔ گزشتہ 105 سالوں میں مٹھی بھر یہودیوں نے180 جبکہ مسلمانوں نے صرف4نوبل انعام حاصل کئے ہیں۔ ہم توجیح تو دے دیتے ہیں کہ نوبل انعام کی جیوری پر یہودیوں کا غلبہ ہے مگر کیا ہم نے ایسا کوئی اقدام کیا ہے جس سے مثبت نتائج کی توقع ہو۔ ان سب ناکامیوں کے اگر اسباب پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ علم سے دوری نے مسلمانوں سے اقتدار کی عظمتیں چھین لی ہیں۔ تعلیمی درسگاہوں سے دوری اس تنزلی کی اصل وجہ۔ قارئین حیران ہوں گے کہ تمام اسلامی ممالک میں 500 جبکہ صرف امریکہ میں 5758 اور بھارت میں 8407 یونیورسٹیاں ہیں۔ جبکہ ایک چھوٹے سے اسرائیل میں جامعات اور کالجوں کی تعداد 1134 ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کی یونیورسٹی کا نام دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔جبکہ صرف اسرائیل کی 6 یونیورسٹیاں دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔اگر پڑھے لکھے لوگوں کی شرح تناسب کو دیکھا جائے تو مغربی ملکوں میں 90 فیصد پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ جبکہ مسلمان ممالک میں یہی تناسب صرف 40 فیصد ہے۔ اسرائیل میں پڑھے لکھے لوگوں کی شرح تناسب 95 فیصد سے زیادہ ہے۔ مغربی ملکوں میں 15ممالک ایسے ہیں جہاں پڑھے لکھے لوگوں کا شرح تناسب 100 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کا کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے۔ مغربی ممالک میں پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کا تناسب 98 فیصد ہے جبکہ مسلمان ممالک میں یہی تناسب 50 فیصد ہے۔ مغرب میں یونیورسٹیوں میں داخلے کا شرح تناسب 40 فیصد ہے جبکہ مسلمان ممالک میں یہی تناسب صرف 2 فیصد ہے۔ جب حالات ایسے ہونگے تو تنائج تو پھر خود سب کے سامنے ہیں۔ مظلومیت اور سینہ کوبی کو اپنا ہرچم بنانے کے بجائے جدوجہد کو شعار بنانا ہوگا۔جو بڑھ کر خود اٹھالے جام اسی کا ہے ساقی۔
सोमवार, 17 जुलाई 2017
آئمہ و فقہاء کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے درمیان اختلاف کی وجوہات ____________________________________________ تمام آئمہ و فق کرام رضی اللہ عنہم ‘ اسلام کے بنیادی عقائد، داعیات، ضروریات اور اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پر متفق ہیں۔ سب کے نزدیک احکامِ شرعیہ کا بنیادی ماخذ قرآن و سنت ہے، اختلاف احکام کی تعبیر و تشریح میں ہے۔ تمام آئمہ فقہ جب کسی جزوی مسئلے کی تحقیق میں اختلاف کرتے ہیں تو دوسرے کو دین سے خارج قرار نہیں دیتا ہے، بلکہ جماعت المسلمین پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ دونوں آراء میں سے جس کو چاہیں قبول کر لیں۔ یہ اختلاف‘ فروعی اختلاف کہلاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، کبھی یہ اختلاف قرآن کریم کی قراتوں کے مختلف ہونے پر ہوتا ہے، کبھی حدیث نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، کبھی دلائل میں تعارض کے وقت ترجیح میں اختلاف کی بنا پر ہوتا ہے، اور کبھی نص کے فہم اور اس کی تفسیر میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ذیل میں آئمہ فقہ کے علمی اختلاف کی چند ایک وجوہات اور مثالیں بیان کی جا رہی ہیں: قرآن کریم کی قراتوں کا اختلاف: فقہائے کرام کے درمیان فروعی مسائل میں اختلاف کی ایک وجہ قرآن کی قراتوں کا مختلف ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال وضو میں پاؤں دھونے اور پاؤں پر مسح کرنے کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ. اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔ الْمَآئِدَة، 5: 6 مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں لفظ أَرْجُلَكُمْ میں لام پر زبر پڑھنے کی قرات مشہور ہے، لام پر زبر پڑھنے سے أَرْجُلَ (پاؤں) كا عطف وُجُوهَ (چہرے) پر ہو گا اور چہرہ دھونے کا حکم ہے تو پاؤں بھى دھوئے جائيں گے۔ لیکن ایک قرات میں اسے أَرْجُلِكُمْ بھی پڑھا گیا ہے یعنی لام پر زير كے ساتھ، لام پر زیر پڑھنے سے أَرْجُلِ (پاؤں) كا عطف ِرُؤُوسِ (سر) پر ہو گا اور چونکہ سر کے مسح کا حکم ہے تو پاؤں پر بھی مسح کیا جائے گا۔ اس طرح قراتوں کے اختلاف کی وجہ سے احکام کی تعبیر میں اختلاف ہوا۔ روایات میں اختلاف: تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہر وقت موجود نہیں ہوتے تھے۔ بعض کی فقط ایک ہی ملاقات ہوئی، بعض کو سفر میں آپ کی قربت نصیب ہوئی بعض نے بہت کم وقت آپ کے ساتھ گزارا بعد میں کسی دوسرے علاقے میں چلے گئے اور ملاقات کا موقع میسر نہ آیا۔ اس طرح تمام صحابہ کرام حالات و واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے یکساں علم کے حامل نہیں تھے۔ جسے جتنا علم ہوا اس نے آگے پہنچا دیا، بعد میں اگر کوئی حکم تبدیل یا منسوخ ہوا تو ذرائع ابلاغ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے خبر نہ ہو سکی۔ یہ کیفیت تابعین کے دور میں بھی پیش آئی جو آئمہ فقہ میں اختلاف کا سبب بنی۔ روایات کے ثبوت میں شبہ: آئمہ فقہ کے سامنے جب کوئی حدیث بیان کی جاتی تو اس کی جرح و تعدیل کرتے اور راوی سے اس کا ثبوت طلب کرتے۔ اگر حدیث کا ثبوت مل جاتا تو اس پر عمل کرتے ورنہ موقف اختیار کرتے یا جو دلیل راجح ہوتی اس کو معمول بنا لیتے۔ ایک حدیث‘ ہوسکتا کسی امام کی تحقیق کے مطابق ثابت ہو اور دوسرے کی تحقیق میں پایہ ثبوت کو نہ پہنچے۔ یوں روایات کے ثبوت میں اختلاف بھی آئمہ کے درمیان اختلاف کا سبب بنا۔ نص کی تفہیم و تعبیر میں اختلاف: بعض اوقات کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود کسی حکم کے مفہوم، مزاج اور روح کو سمجھنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں جو امام جس مفہوم کو مقاصدِ شریعت سے زیادہ قریب پاتا ہے اسی کو اختیار کر لیتا ہے۔ معنیٰ کا اشتراک: معنیٰ پر دلالت کے اعتبار سے عربی میں لفظ کی متعدد اقسام ہیں۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جن میں ایک سے زیادہ معنیٰ پائے جاتے ہیں، جیسے: لفظ ’عین‘ عربی میں آنکھ، ہر موجود چیز، کسی پسندیدہ چیز، سونا اور لڑکی سمیت متعدد معنیٰ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’قرء‘ طہر اور حیض دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے الفاظ میں اشتراکِ معنیٰ بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا سبب ہے۔ دلائل کا تعارض: اختلاف کا ایک سبب دلائل کا ظاہری تعارض بھی ہے۔ کیونکہ نصوص پر بےشمار عوامل اثرا انداز ہوتے ہیں اس لیے ان میں تعارض پیدا ہو جاتا ہے۔ جب مجتہد کو کوئی ایسی دلیل مل جاتی ہے جس سے وہ ایک نص کو دوسری پر ترجیح دے سکتا ہو تو وہ کسی ایک کو ترجیح دے دیتا ہے۔ مسائل میں نص کا نہ ہونا: کتاب و سنت کے منصوص احکام محدود ہیں اور مسائل بےشمار ہیں۔ جب کسی مسئلے کے بارے میں کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی صریح حکم موجود نہ ہو تو یہ بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہر مجتہد اخلاصِ نیت کے ساتھ اجتہاد کرتا ہے جس میں اختلاف ہونا فطری بات ہے۔ قواعد میں اختلاف: قواعدِ فقیہ ایسے اصول ہیں جنہیں مسائل کے استنباط کے وقت ایک مجتہد مدِنظر رکھتا ہے۔ جب امام یا مجتہد کوئی مسئلہ مستنبط کرتا ہے تو اس کا یہ استنباط انہی قواعد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان اصولی قواعد کا اختلاف بھی فروعات میں اختلاف کا سبب بنتا ہے۔ آئمہ فقہ اور مجتہدین کے درمیان اختلاف کی مذکوہ بالا چند وجوہات و اسباب ڈاکٹر مصطفیٰ سعید الخن کی کتاب ’قواعدِ اصولیہ میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر‘ سے لی گئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید وضاحت کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں: الانصاف فی التنبيه علیٰ اسباب الخلاف از شيخ عبدالله بن محمد بطليموسي الانصاف في اسباب الخلاف از شاه ولي الله محدث دهلوي
रविवार, 16 जुलाई 2017
عصمت عائشہ رضی اللہ عنہا میں حکمت خداوندی ____________________________________________ بسم اللہ الرحمن الرحیم دور حاضر کے وہابیہ ، تبلیغیہ اور دیگر فرق باطلہ کے لوگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے واقعہ کے تعلق سے سرکار دو عالم ؐ کے علم غیب پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور عوام الناس کو ورغلانے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے معاملہ میں اتنا سکوت کیوں فرمایا اور وحی کے منتظر کیوں تھے ؟ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا علم غیب قرآن کی متعدد آیات اور احادیث کے بے شمار متون سے ثابت ہے۔ اس پر ایمان رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے ۔ ٥ ھ میں غزوہ بنی المصطلق میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا ۔ اور ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالا ۔ اور اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نام نکلا ۔ غزوہ بنی المصطلق ٥ ھ سے پہلے آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ یعنی عورتوں کیلئے پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید پارہ ٢٢؎ سورہ احزاب میں آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ غزوہ بنی المصطلق کا واقعہ غزوہ خندق اور غزوہ بنی قریظہ سے قبل کا ہے ۔ غزوہ بنی المصطلق میں ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس ؐ کے ساتھ تشریف لے گئیں۔ ان کی سواری کا بندوبست ایک اونٹنی پر محمل یعنی کجاوے میں کیا گیا ۔ اس کجاوے کو پردہ کیلئے اچھی طرح محجوب کیا گیا ۔ تاکہ کسی غیر محرم کی نظر ام المؤمنین پر نہ پڑے۔ آپ کجاوے میں پردے کے کامل انتظام کے ساتھ بیٹھ جاتیں ۔ اور پھر اس کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ پر رسیوں سے باندھ دیا جاتا ۔ پڑاؤ اور منزل پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کجاوے کے اندر بیٹھی رہتی تھیں ۔ اور کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ سے اتار لیا جاتا تھا ۔ اب پورا واقعہ جس کو '' حدیث افک'' کے نام سے شہرت ملی ہے ۔ اس کو خود سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مقدس زبان سے سنئے ۔ اصل واقعہ کیا تھا ؟ شیخین رحمۃ اللہ تعالی علیہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ، آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے فارغ ہو کر روانہ ہوئے ۔ اور مدینہ طیبہ پہنچنے سے پہلے ایک مقام پر پڑاؤ کا حکم فرمایا میں اٹھی اور قضائے حاجت کیلئے لشکریوں کے پڑاؤ اور ٹھہراؤ سے ذرا فاصلے پر باہر چلی گئی، فراغت پاکر اپنی قیام گاہ پر لوٹی تو اتفاق سے میرا ہاتھ سینے پر گیا، تو مجھے پتہ چلا کہ میرا ہار گلے میں نہیں ہے ۔ وہ ہار جزع غفار کا بنا ہوا تھا۔ میں اسی جگہ پر واپس گئی تو ہار کو تلاش کرنے لگی ۔ اور اس تلاش میں دیر لگ گئی ۔ادھر لشکر روانہ ہو رہا تھا جو لوگ میرا کجاوا (محمل ) اونٹ پر رکھتے اور باندھتے تھے وہ آئے اور یہ سمجھا کہ میں اس کجاوے (محمل ) میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ محمل کو اٹھاکر اونٹ کی پیٹھ پر باندھ دیا ۔ میں ایک کم وزن اور سبک جسم عورت تھی ۔ لہذا ان کو یہ پتہ نہ چلا کہ محمل خالی ہے یا بھرا ہوا ہے۔ میں جب ہار تلاش کرکے اقامت گاہ پر لوٹی تو لشکر روانہ ہو چکا تھا ۔ جہاں لشکر کا پڑاؤ تھا، وہاں پر اب کوئی بھی موجود نہ تھا جس جگہ پر میرا ڈیرہ تھا میں اس جگہ آکر بیٹھ گئی ۔ میرا خیال یہ تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھ کو نہ پائیں گے تو کسی کو بھیج کر مجھ کو بلوالیںگے ۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ بیٹھے بیٹھے آنکھیں بوجھل ہوئیں، نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گئی ۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ جو لشکر کے پیچھے ''معقب کارواں'' کی خدمت پر مامور تھے ( معقب کاروں یعنی پہلے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی قافلہ یا لشکر کوچ کرتا تھا تو ایک شخص کارواں یا لشکر کے پیچھے رکھا جاتا تھا تاکہ کارواں سے کسی کی کوئی چیز گر جائے تو وہ شخص اٹھالے اور پھر منزل پر پہنچ کر امیر کارواں کے سپرد کر دے ، اور امیر کارواں تحقیق کرکے جس کی وہ چیز ہو اسے دےدے ) حضرت صفوان بن معطل صبح کے وقت اس مقام پر پہونچے اور مجھ کو سوتا پایا ۔ چونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے جب عورتوں کے شرعی پردے نہ تھے، تب انہوں نے مجھ کو دیکھا تھا، اس لئے انہوں نے مجھ کو پہچان لیا ۔ اور مجھ کو پہچان لینے پر فوراً استرجاع پڑھا ۔ یعنی '' انا للہ و انا الیہ راجعون''. ان کے استرجاع پڑھنے سے میں بیدار ہوئی اور چہرے اور جسم کو میں نے چادر میں اور زیادہ چھپالیا ، حضرت صفوان نے استرجاع کے علاوہ کچھ بھی نہ کہا اور نہ میں نے کچھ سنا ۔ انہوں نے اونٹنی سے اتر کر اونٹنی کو بٹھایا اور میں جا کر سوار ہوگئی ۔ اور حضرت صفوان اونٹنی کو کھینچ کر چل دیئے ۔ ہم نے چل کر لشکر کو سخت دھوپ اور گرمی کے وقت ٹھہراؤ میں پالیا ۔پھر ہلاک ہوا جس کو میرے معاملے میں ہلاک ہونا تھا اور جس شخص نے سب سے بڑھ کر اس کی تشہیر اور اتہام طرازی کی وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا۔ حوالہ: (الخصائص الکبریٰ فی معجزات خیر الوری از :امام علامہ جلال الدین سیوطی اردو ترجمہ ، جلد ١۔ ص ٤٤٩ تا ٤٥٠) بس اتنی سی بات تھی لیکن مدینہ طیبہ کے منافقین اور خصوصاً عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق نے اپنے خبث باطن اور دل میں چھپے ہوئے نفاق کا اظہار کرتے ہوئے ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کے خلاف تہمت اور افترا پردازی کا طوفان کھڑا کر دیا ۔ فتنے کا طوفان برپا ہوگیا ۔ منافقین کے ساتھ کفار اور مشرکین بھی شامل ہوگئے، کچھ ضعیف الاعتقاد، سادہ لوح ، بھولے بھالے مسلمان بھی ان کے بہکاوے میں آگئے۔ جہاں دیکھو وہاں صرف ایک ہی بات ، مبالغہ ، غلو اور جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ منافقین نے اس واقعہ کو اتنی اہمیت اور شہرت دی کہ خدا کی پناہ۔ ایک عظیم فتنہ کھڑا ہو گیا ۔ حالانکہ اجلّہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے منافقین کے بہتان و افک کا دندان شکن جواب دیا اور بارگاہ رسالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کا اظہار کیا ۔ امیر المؤمنین خلفیۃ المسلمین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے جسم اقدس پر جب کہ مکّھی تک نہیں بیٹھتی کیونکہ اس کے پاؤں نجاستوں سے آلودہ ہوتے ہیں تو حق تعالی آپ کے لئے کیسے گوارا کرے گا، اس بات کو جو اس سے کہیں زیادہ بد ترین ہو اور اس سے آپ کی حفاظت نہ فرمائے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا سایہ زمین پر نہیں گرتا، مبادا کہ وہ زمین ناپاک ہو ۔ حق تعالی جب کہ آپ کے سائے کی اتنی حفاظت فرماتا ہے تو آپ کی زوجہ محترمہ کی ناشائستگی سے کیوں نہ حفاظت فرمائے گا ۔ مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! حق تعالی نے اتنا گوارا نہیں فرمایا کہ آپ کے پائے اقدس کے نعلین مبارک میں نجاست کی آلودگی ہو اور وہ آپ کو اس کی خبر دیتا ہے کہ آپ نعلین کو پائے اقدس سے اتار دیں ۔ تو اگر یہ واقعہ نفس الامر میںوقوع پذیر ہوتا تو یقینا رب تبارک و تعالی آپ کو اس کی خبر دیتا ۔ (١)مدارج النبوۃ از شیخ عبد الحق محدث دہلوی اردو ، جلد ١۔ ص ٢٨٠ ۔ (٢) الخصائص الکبری ، امام جلال الدین سیوطی ۔ اردو ترجمہ جلد ١۔ ص۔ ٤٥٣۔ ) حضور اقدس ؐنے اشارۃً الزام کی تردید فرمائی منافقین و مشرکین کی جانب سے حضرت سیدتنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی پر مسلسل الزامات و اتہامات کا سلسلہ جاری رہا ۔ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ اور مبالغہ ہوتا رہا۔ ادھر صحابہ کرام و جانثاران بارگاہ رسالت منافقین کے اقوال و الزامات کی تردید فرماتے رہے۔ یہ معاملہ ایک ماہ سے زیادہ طول پکڑ گیا ۔ حضور اقدس ؐ نے بر بنائے مصلحت سکوت فرمایا اور منافقین کو کچھ جواب نہ دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی سے آپ یقینا با خبر تھے لیکن مصلحت ایزدی کی بنا پر آپ نے اپنی رفیق حیات کی برأت کا صراحۃً اعلان نہ فرمایا ۔ البتہ اشارۃً اپنے جاں نثار صحابہ کے سامنے ان الفاظ میں ذکر فرمایا کہ وَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلیٰ أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے ۔ یہاں تک کہ اس فتنہ کے دوران آپ نے مسجد نبوی میں دوران خطبہ فرمایا کہ '' کون ہے جو میری مدد کرے ، اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی '' ( اس سے مراد عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا ) پھر فرمایا کہ '' قسم ہے خدا کی ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' والله ما علمت على أهلى إلا خيرا "I know my wife to be only chaste. Sahih al-Bukhari,Kitab al-Maghazi,Baab Hadith al-Ifk,Hadith 4141] مذکورہ واقعہ تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اس واقعہ میں کیا کیا اسرار و رموز مخفی تھے؟نیز حضور پاک ؐ نے کس مصلحت کی بنا پر سکوت فرمایا؟ اور اس میں کیا حکمت تھی ؟وہ انشاء اللہ کتاب کے اختتام میں عرض کروں گا ۔ پہلے اس واقعہ کو تفصیل سے ذکر کرتا ہوں ۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لشکر کے قافلے سے بچھڑ گئیں اور قافلہ جب روانہ ہوگیا تب تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ حضرت عائشہ بچھڑ گئی ہیں ۔ محمل اٹھانے والوں نے یہی سمجھ کر محمل (کجاوے) کو اونٹ پر رکھ دیا تھا کہ آپ اس کے اندر تشریف فرما ہیں ۔ لیکن جب یہ لشکر مدینہ شریف کے قریب صلصل نامی مقام پر ٹھہرا اور اونٹ بٹھائے گئے، مگر محمل سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا باہر تشریف نہ لائیں، تب پتہ چلا کہ آپ پیچھے رہ گئیں ہیں، ان کے انتظار میں لشکر بمقام صلصل ٹھہرا رہا لشکر میں پانی اس انداز سے تھا کہ مدینہ شریف پہنچ جائے ۔ لیکن ام المومنین کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے قافلہ کو مجبوراً ان کے انتظار میں رکنا پڑا اور لشکر میں جتنا پانی تھا، وہ صرف ہوگیا۔ نماز کا وقت آیا تو وضو کیلئے پانی نہیں تھا پینے کیلئے بھی پانی کی تنگی تھی ۔ پانی کے بغیر وضو اور وضو کے بغیر نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن چونکہ یہ قافلہ محبوبہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و ازواجہ و بارک وسلم کے انتظار میں ٹھہرنے کی وجہ سے پانی کی قلت کی دقت و مصیبت میں مبتلا تھا ۔ لہذا اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب کی حرم محترمہ کے صدقے اور طفیل ان لشکر والوں پر مہربان ہو کر، ان پر اور ان کے طفیل قیامت تک کے مسلمانون پر کرم فرماکر تیمم کاحکم نازل فرمایا ۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت سید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ صدیقہ میں عرض کیا کہ مَا ھِیَ بِأوَّلِ بَرْکَتِکُمْ یَا آلِ أبِیْ بَکْرٍ اے اولاد ابو بکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں '' مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تمہاری بہت سی برکتیں پہونچی ہیں ۔ ( مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ ، جلد ٢۔ ص ٢٧٥) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ واپس آئے، تو مشیت ایزدی سے ان ہی دنوں میں بیمار ہوگئی ۔ میں گھر ہی میں تھی۔ ایک ماہ سے زیادہ میں بیمار رہی ۔ باہر میرے خلاف فتنہ پردازوں نے جو الزامات اٹھا رکھے تھے، اس کا مجھے کچھ پتہ نہ تھا ۔ ایک دن ام مسطح نام کی عورت نے الزام تراشیوں کی اتہام سازیوں کی ساری باتیں مجھ سے بیان کیں ۔ جنہیں سن کر میں پہلے سے زیادہ بیمار ہوگئی۔ ایک روز حضور اقدس ؐ میرے پاس تشریف لائے اور سلام علیک کے بعد مجھ سے فرمایا '' تم کیسی ہو ؟ '' میں نے اپنی کیفیت بتانے کے بعد عرض کیا کہ اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو میں چند دنوں کیلئے اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ۔ حضور نے اجازت عطا فرمائی اور میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر چلی گئی ۔ میں نے اپنی والدہ سے تمام باتیں دریافت کیں ۔ میں تمام رات روتی رہی اور صبح ہوجانے پر بھی میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، تمام شب جاگتی ہی رہی ، پلک تک نہ جھپکی ۔ میں دن بھر مسلسل روتی رہی، میرے آنسو روکے نہ رکتے تھے اور نیند نام کو بھی نہ تھی، مجھ کو اندیشہ ہوا کہ شدت گریہ کی وجہ سے شاید میرا جگر پھٹ جائے گا ۔ حوالہ: (الخصائص الکبری ، اردو ، جلد ، ١۔ ص ٤٥١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو ملنے میرے گھر تشریف لائے ۔ اور مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ! میرے حضور تمہارے بارے میں ایسی ایسی باتیں پہنچی ہیں، لہذا اگر تم بری اور پاک ہو، تو عنقریب اللہ تمہاری پاکی بیان فرمائے گا اور تمہاری برأت کی خبر نازل فرمائے گا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔ کہ حضور کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں ایک قطرہ تک بھی نظر نہ آتا تھا۔ یہ اس خوشی کی بنا پر تھا جو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک سے بشارت پائی تھی ۔ حوالہ : (١) مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨١ (٢) خصائص کبری، اردوترجمہ ،جلد ١ ۔ ص ٤٥٢) حضرت عائشہ کی برأت میں قرآنی آیات کا نزول -------------------------------------------------- ام المومنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالی میری برأت فرمادے گا ۔ اور میری پاکی اور پاک دامنی کی خبر دے گا ۔ لیکن مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اللہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل فرمائے گا ۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو اور اپنے معاملے کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی۔ البتہ مجھ کو صرف اس بات کی توقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاید خواب دیکھیں گے اور اس ذریعہ سے مجھ بے چاری کی عفت اور عصمت پر گواہی مل جائے گی ۔ اللہ کا کرم دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے کہ یکایک حضور پر نزول و حی کے آثار نمودار ہوئے اور جو شدت ایسے موقع پر ہوتی تھی وہ شروع ہوئی ۔ حتی کہ آپ کی پیشانی مبارک پر موتیوں کے مانند پسینہ چمکنے لگا ۔ آپ پر خوب ٹھنڈی کے موسم میں بھی نزول وحی کی شدت سے پسینہ وغیرہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ اور یہ اس گرانی اور بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا ، جو کلام مجید آپ پراترتا تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کی کیفیت سے فارغ ہوئے، تو آپ کا یہ حال تھا کہ آپ تبسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلی بات جو حضور نے فرمائی وہ یہ تھی کہ '' اے عائشہ صدیقہ ! حق تعالی نے تمہیں بری قرار دے کر تمہیں پاک گردانا ہے ۔ اس تہمت سے تمہاری پاکی بیان کی ہے اور تمہاری شان میں قرآن بھیجا ہے ۔ '' حوالہ : (١) مدارج النبوۃ ،اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨٣ (٢) خصائص کبری ،اردوترجمہ، جلد ١ ۔ ص٤٥٤) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت إنَّ الَّذِیْنَ جَآؤا بِالإفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ (پارہ ١٨ ، سورہ نور، آیت ١١ ) ترجمہ:'' بے شک وہ کہ یہ بہت بڑابہتان لائے ہیں، تمہیں میں کی ایک جماعت '' ( کنز الایمان ) سے لے کر دس ١٠؎ آیتوں تک وحی ہوئی ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں دس آیات مذکورہ اور دیگر آٹھ٨؎ آیات ملا کر کل ٨ ١؎ اٹھارہ آیات نازل فرمائیں ۔ سورہ نور آیت ٤ ۔ پارہ اٹھارہ میں صاف حکم نازل ہوا کہ: وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأتُوا بِأرْبَعَۃِ شُھَدَآءِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَ لاَ تَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَۃً أبَدًا ۔ ترجمہ :'' اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ، پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسی٨٠؎ کوڑے لگاؤ اور ا ن کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو ۔'' ( کنز الایمان ) ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت اور افک کے سلسلہ میں قرآن مجید کا انداز بیان بڑا جامع اور پر زور ہے۔ اس میں اعجاز و ایجاز اور احکامات و تنبیہات اس اسلوب سے بیان کئے گئے ہیں کہ معصیت کے کسی دوسرے وقوع اور موقع پر اس انداز سے بیان نہیں کئے گئے۔ تہمت طرازی اور سخن سازی کا منافقین کی طرف سے جو مظاہرہ ہوا، جس سے اہل بیت رسول اور خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جو انتہائی صدمہ ، دکھ ، اور تکلیف پہونچی تھی، اس کی وجہ سے انداز بیان میں شدت ہوئی ہے ۔ الخصائص الکبری فی معجزات خیر الوری میں امام اجل حضرت علامہ عبد الرحمن جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے زمخشری کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ ''اصنام پرستی اور شرک کے بارے میں جو تنبیہات ہیں، وہ بھی مقابلۃً اس سے کچھ کم ہی ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک پاکباز زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت و برأت کی حامل ہیں ۔ '' وحی کے نزول کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سورئہ نور کی دس١٠؎ آیتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ کے یہاں سے نکل کر خوش و خرم مسجد نبوی میں تشریف لائے اور صحابہ کو جمع فرماکر خطبہ دیا اور اس کے بعد نازل شدہ آیتوں کی صحابہ کرام کے سامنے تلاوت فرمائی ۔ اور تہمت لگانے والوں کو طلب فرمایا ۔ تہمت لگانے والے جب بارگاہ رسالت میں حاضر کئے گئے، تو سرکار نے ان پر ''حد قذ ف '' جاری فرمایا اور ہر ایک کو اسی٨٠؎ اسی ٨٠؎ کوڑے لگوائے ۔ ( حوالہ: مدارج النبوۃ ۔ اردو ، جلد ٢۔ ص ٢٨٣) یہاں تک کے مطالعہ سے واقعہ کی ابتدا سے انتہا تک کی واقفیت حاصل ہو چکی ہوگی ۔ اب دور حاضر کے منافقین کے اعتراضات میں سے اہم اعتراض جو اس واقعہ کے ضمن میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر ہیں اس کا جواب دیں ۔ منافقین زمانہ کے اعتراضات ------------------------------ دور حاضر کے منافقین یعنی وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، اور تبلیغی فرقہ باطلہ کے مبلغین و مقررین اپنے جہالت سے لبریز بیان اور تقریر جو در اصل تقریر نہیں بلکہ تفریق بین المسلمین ہوتی ہے ۔ بڑے تپ و تپاک سے اودھم مچاتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی عصمت و پاک دامنی کے سلسلہ میں حضور نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ تک سکوت کیوں فرمایا ؟ آپ نے فی الفور ان کی برات کا اعلان کیوں نہ کر دیا ؟ بلکہ وحی کے منتظر رہے ۔ اور جب وحی آئی تب آپ نے برأت کا اعلان فرمایا ۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا ۔ اگر علم غیب ہوتا تو آپ فوراً برأت کا اعلان کردیتے۔ ( معاذ اللہ ) بس یہی ہے ان کے دعوی کی دلیل و برہان ۔ مشیت ایزدی اور حکمت الہیہ کے رموز کو سمجھنے سے یک لخت قاصر وعاجز ہونے کی وجہ سے ایسی بے ڈھنگی بات کہہ رہے ہیں ۔ حالانکہ اس واقعہ کے پردے میں اللہ تعالی کی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں اور ان تمام حکمتوں سے اللہ نے اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرما دیا تھا ۔ اسی وجہ سے آپ نے سکوت فرمایا تھا۔ کچھ وجوہات ذیل میں عرض ہیں ۔ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی تھی ، منافق اس کو کہتے ہیں کہ جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو لیکن دل سے وہ مومن نہیں ہوتا ۔ زبان سے تو قسمیں کھا کھا کر حضور اقدس ؐ کو اللہ کا رسول ہونے کا اقرار کرتے تھے لیکن پیٹھ کے پیچھے حضور کی شان میں نا زیبا کلمات کہہ کر آپ کی گستاخی کرتے تھے اور آپ کو جھٹلاتے تھے ۔منافقین کی ان دو غلی باتوں کا اللہ نے پردہ فاش فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ بنام '' منافقون '' نازل فرمائی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : '' إذَا جَا ۤءَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوا نَشْھَدُ إنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ إنَّکَ لَرَسُوْلُہ، وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ إنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ '' ( پارہ ٢٨ ۔ سورہ منافقون ۔ آیت ١) ترجمہ: ''جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں ،کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بیشک یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں '' (کنزاالایمان) ان منافقین کی ایک خصلت کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح ہے کہ : ''إذَا لَقُوا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَالُوْا آمَنَّا وَ إذَا خَلَوْا إلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْا إنَّا مَعَکُمْ إنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِؤُنَ'' ( پارہ ١۔ سورئہ البقرۃ ، آیت ١٤) ترجمہ: '' اور جب ایمان والوں سے ملیں ، تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں، تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو یوں ہی ہنسی کرتے ہیں ۔'' ( کنز الایمان شریف ) رسول کے ماننے میں اور ایمان کے اقرار میں منافقین دو غلی بولی بولتے ہیں اور ان کے اقرار و ایمان کا کچھ بھی اعتبار نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ منافقین ضرور جھوٹے ہیں ۔ منافق کو صرف جھوٹا نہیں بلکہ'' ضرور جھوٹا'' کہا گیا ہے ۔ یعنی ان کا جھوٹ اتنا عام ہے کہ ان سے صدق کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی ۔ منافقوں کی بے حیائی اور بے شرمی کا یہ حال تھا کہ ابھی انکار اور ابھی رجوع ۔ بلکہ دن کے اجالے کو رات کی اندھیری کہہ دینے میں بھی ان کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے، آپ کی تکذیب کرتے تھے ،آپ کے بین معجزات کو معاذ اللہ جادو اور سحر کہتے تھے ۔ لہذا ان جھوٹوں کے سامنے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برأت کا اعلان کرنا بے سود تھا ۔ اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان فرماتے، تو منافقین ایک الزام یہ گڑھتے کہ دیکھو! اپنی بیوی کا دفاع کر رہے ہیں ، زوجیت کی بناء پر طرفداری کر رہے ہیں، اپنی بیوی کے عیب پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ حضور اقدس ؐ کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا حالانکہ حضور اقدس ؐ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقینا با خبر تھے۔ اسی لئے تو اپنے جانثار صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ کے معاملے میں فرمایا وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی :'' خدا کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ حضور نے اس جملے کو'' وَ اللّٰہِ'' یعنی ''خدا کی قسم '' سے مؤکد فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کو حضرت عائشہ کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لئے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرماکر اپنے یقین کامل کا اظہار فرمارہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی خدا کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کے سامنے خدا کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لئے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ :''کون ہے جو میری مدد کرے؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی ''حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، اس سے انتقام لینے کیلئے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے لیکن حضور نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر حضور ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کردیتے، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ حضور نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کیلئے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔ دور حاضر کے منافقین صرف اسی بات کی رٹ لگاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان نہ کرتے ہوئے سکوت کیوں اختیار کیا ۔ اس کا جواب ضمناً تو اوپر بیان ہو چکا کہ اگر آپ برأت کا اعلان فرماتے تو منافقین ماننے والے نہ تھے بلکہ دیگر الزامات تراشتے ۔اس لئے حضور نے سکوت فرمایا ۔ اور ایک اہم مصلحت یہ تھی کہ حضور برأت کا اعلان کریں وہ اتنا مؤثر نہ ہوگا جتنا کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے اعلان برأت کا اثر ہوگا ۔ اس کو ایک آسان مثال سے سمجھیں کہ ایک بادشاہ کی کوئی چیز گم ہوگئی ،کچھ مخالف لوگوں نے چوری کا الزام بادشاہ کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے پر لگایا۔ حالانکہ کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا بے قصور تھا۔ وزیر اعلیٰ کو اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا یقین کے درجہ میں علم ہے ۔ لیکن وقت کا تقاضا اور مصلحت حالات یہ ہے کہ وزیر خاموش ہی رہے ۔ کیونکہ اگر وزیر اٹھ کر اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا اعلان کرے گا تو الزام لگانے والے مخالفین کا گروہ یہی کہے گا کہ اپنے بیٹے کی محبت اور طرفداری میں وزیر اعلیٰ اپنے عہدے اور منصب کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ لہذا وزیر اعلیٰ سکوت اختیار کرے یہی بہتر و مناسب ہے، چاہے تہمت کی آندھی کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوجائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ صبر کرے اور خاموش رہ کر اس وقت کا انتظار کرے کہ حق بات واضح ہو کر سامنے آجائے ۔ا چانک ایک دن بادشاہ سلامت کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کے فرزند ارجمند پر چوری کا جو الزام لگایا گیا ہے اس میں وہ بری اور بے قصور ہے ۔ وزیر زادہ دیانتدار اور نیک بخت ہے ۔ ایسے نیک بخت پر چوری کا الزام لگانا ، ظلم شدید اور گناہ عظیم ہے ۔ ہم وزیر زادہ کو اس چوری کی تہمت سے باعزت بری کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم نافذ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسے نیک بخت اور دیانتدار پر غلط الزام لگاتے ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ اس اعلان کے بعد الزام لگانے والوں کو بادشاہ کوڑے لگوائے اور کوڑے لگانے کا کام اپنے وزیر کے ہاتھ سے انجام دلوائے ۔ اب قارئین کرام ،سوچیں ! وزیر زادہ کی عزت کس میں بڑھی ؟ اگر وزیر اپنے بیٹے کی برأت کا اعلان کرتا ہے تو اس میں وہ عزت و شان حاصل نہ ہوتی جو عزت اور مرتبہ بادشاہ کے اعلان سے حاصل ہوا ۔ ٹھیک اسی مثال کو حضرت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعہ میں ذہن نشیں کرکے سوچیں کہ حضور اقدس ؐ کی طرف سے برأت و عصمت کے اعلان میں منافقین کو طرفداری اور پاسداری کے الزام کی گنجائش تھی ۔ لیکن جب اللہ تبارک و تعالی نے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں فرمادیا، تو اب کسی کو سسکنے کی ، کھسکنے کی ، بدکنے کی، رینگنے کی گنجائش ہی نہ رہی ۔ اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برات کا اعلان فرماتے تو وہ حدیث کہلاتی اور یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں دیگر واقعات کی طرح شمار کیا جاتا ۔ حدیث کے متن (عبارت ) کی نماز میں تلاوت نہیں ہوتی لیکن اللہ نے حضرت عائشہ کی برات کا قرآن مجید میں اعلان فرمایا۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی عظمت قیامت تک نماز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ظاہر ہوتی رہے ۔ عوام مسلمین میں دینی تعلیم و معلومات حاصل کرنے کی رغبت اور شوق دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ بڑی مشکل سے ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم لوگ اپنی اولاد کو دے پاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں حدیث و فقہ کے علم کی طرف بہت کم افراد مائل ہیں۔ اگر برأت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بذریعہ حدیث ہوتی تو اتنی شہرت و عزت نہ ملتی جتنی کہ قرآن مجیدسے برأت ہونے پر حاصل ہوئی ۔ چھوٹا سا دیہات ہوگا ، چاہے اس میں مسلمان کے دور چار ہی مکان ہوں لیکن وہاں کسی نہ کسی گھر میں قرآن مجید ضرور ہوگا ۔ لیکن وہاں کتب احادیث کا ہونا ناممکن ہے ۔بلکہ اکثر شہروں میں جہاں دار العلوم نہیں ہوتے وہاں بخاری شریف ، مسلم شریف و دیگر کتب احادیث کا ہونا نا ممکن ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں کلام مجید کا نسخہ موجود نہ ہو ۔ بر عکس اس کے کتب احادیث بہت کم دستیاب ہیں۔ تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعہ برأت حضرت عائشہ کا جو اعلان فرمایا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کی شان و شوکت کا ڈنکا قیامت تک بجتا رہے ۔ اگر بجائے قرآن مجید احادیث سے حضرت عائشہ کی برأت و عصمت کا اعلان ہوتا، تو منکرین عظمت کو تنقیص کیلئے ایک راہ یہ ملتی کہ وہ اپنی ذہنی اختراع سے یہ کہہ دیتے کہ '' یہ حدیث ضعیف ہے '' جیسا کہ دور حاضر کے منافقین وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، تبلیغی لوگ عظمت و تعظیم مصطفی ؐ کے جواز و ثبوت کی احادیث سے عوام کو بے التفات و بے اعتماد کرنے کیلئے بلا کسی ثبوتِ علم اسماء الرجال کہہ دیتے ہیں کہ ''یہ حدیث ضعیف ہے '' لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت کو ضعیف کہنے کی کسی میں جرأت نہیں ۔ اور اسی حکمت کے تحت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔ عورت کے حقوق کی پاسداری --------------------------------- اسلام ایک ایسا کامل مذہب ہے کہ جس نے نوع انسان کو حیات جاودانی بخشی ہے ۔ حقوق الناس کی صحیح پہچان اور نشاندہی اسلام ہی نے عالم دنیا کو بتائی ہے۔ اسلام نے دنیا کو معاشرت کا صحیح طریقہ و سلیقہ دکھایا ہے ۔ ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی حمایت کرنا اسلام کا طریق عمل ہے ۔ خصوصاً عورتوں پر اسلام کا عظیم احسان ہے ۔ ابتدائے اسلام کے دور میں عورت کو اتنا ذلیل سمجھا جاتا تھا کہ اگر کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی تھی، تو گویا اس کو سانپ سونگھ گیا ہو ایسا اس کا چہرہ ہوجاتا تھا اور سماج کے رواج کے مطابق لڑکی کو زندہ در گور کر دیتے تھے ۔ میراث میں عورت کو کچھ بھی اہمیت نہیں دی جاتی تھی ۔ عورت کو صرف دل بہلانے کا کھلونا سمجھ کر اس سے دل لگی کی جاتی تھی ۔ اور جب اس سے جی بھر جاتا، تو اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکتے تھے ۔ عورت پر زنا اور دیگر عیوب کے الزام لگاکر اس کو رسوا اور ذلیل کردینا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ کسی بھی با عصمت و پاک دامن خاتون کو ایک آن میں فاحشہ اور بدکردار کے القاب سے نوازنے میں کسی بھی قسم کی جھجک محسوس نہیں کی جاتی تھی، جس کے جی میں جو آیا، وہ منہ سے کہہ دیتا تھا لیکن محبوبہ محبوب رب العالمین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ کا روئے زمین کی تمام عورتوں پر احسان ہے کہ آپ کے سبب سے قرآن مجید میں عورتوں کی عصمت کی پاسداری اور پاسبانی کی گئی۔ ان کی پاک دامنی کی عظمت کی حفاظت کی گئی اور بات بات میں عورتوں کی پاک دامنی پر تہمت کا کیچڑ اچھالنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے قرآن مجید پارہ ١٨ سورہ نور ، آیت نمبر ٤ میں صاف اور صریح حکم فرمایا گیا کہ:'' اور جو لوگ پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ،پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں ، تو انہیں اسی ٨٠؎ کوڑے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو۔'' ( کنز الایمان ) اس آیت کے نزول سے عورتوں کی پارسائی پر چھوٹی چھوٹی باتوں میں فعل قبیح کی تہمت لگانے والوں کے منہ پر علی گڑھی تالے لگ گئے ۔ صرف منہ پہ تالا ہی نہ لگایا گیا بلکہ تالا کھولنے والوں کو اسی ٨٠؎ کوڑے لگانے کی سزا متعین کی گئی۔ جس کو شرعی اصطلاح میں '' حد قذ ف '' کہا جاتا ہے۔ صرف قذف پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ تہمت لگانے والے کو دائمی طور پر '' مردود الشہا دۃ '' قرار دیا گیا ۔ یعنی ہمیشہ کیلئے اس کی ہر گواہی متروک و غیر معتبر کر دی گئی ۔ مذکورہ آیات کے علاوہ کئی آیات جھوٹی تہمت لگانے والوں کی مذمت میں سورہ نور میں نازل ہوئی ہیں ۔ جن کا تفصیلی ذکر یہاں نہ کرتے ہوئے صرف اتنا ہی عرض کر دیتا ہوں کہ ایسے تہمت بازوں کو سورہ نور میں فاسق ، جھوٹا ، اس پر اللہ کی لعنت وغیرہ وعیدوں سے ڈرایا اور خبر دار کیا گیا ہے ۔ اور مردوں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ عورت بھی خدا کی ایک معزز مخلوق ہے ۔ اس کو حقیر اور ذلیل مت جانو، اس کو ہیچ سمجھ کر اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنا ترک کر دو ، اس کی عزت و آبرو کی نگہبانی کرو ، اس کے دامن عصمت کو تہمت و الزام سے داغدار کرنے سے باز رہو ۔ ورنہ اسی٨٠؎ کوڑے ، مردود الشہادۃ ، فاسق ، جھوٹے ، اور اللہ کی لعنت کے حقدار جیسی سزائیں بھگتنے کیلئے تیار رہو ۔ یہی اسلامی تہذیب ہے ۔ اس کے دائرے میں رہو اور یہ حکم قیامت تک جاری رہے گا۔ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت حضور اقدس ؐ اپنی طرف سے فوراً فرمادیتے اور وحی کا انتظار نہ فرماتے تو :- = کیاسورہ نور کی دولت سے ہم سرفراز ہوتے ؟ = کیا اس میں معاشرے کے نظام کی درستگی کے جو احکامات ہیں وہ ہمیں نصیب ہوتے ؟ = عورتوں کی عزت و آبرو کی پاسداری اور پاسبانی کی تعلیم ہم کو حاصل ہوتی ؟ = عورتوں کی عصمت اور پاکدامنی کی تا قیامت جو حفاطت کی گئی ہے وہ کیاحاصل ہوتی ؟ = تہمت و الزام تراشی جیسے قبیح و مذموم طور و اطوار کے ترک کرنے کا حوصلہ ملتا؟ = کیا یہ اخلاقی محاسن دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے ؟ ان تمام احکامات و وجوہات کی بنا پر عالم ما کان و ما یکون، علم غیب جاننے والے، ہر بات سے با خبر، پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف فرماکر سکوت فرمایا ۔ اس حکمت عملی کو سمجھنے سے قاصر و عاجز، کور چشم و کور باطن دور حاضر کے منافقین نے سکوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط استدلال حاصل کرکے یہ واویلا مچا رکھا ہے کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا ۔ برأت عائشہ میں تاخیر کی حکمت ------------------------------------- دور حاضر کے منافقین ایک شور یہ بھی مچاتے ہیں کہ برأت حضرت عائشہ صدیقہ کے معاملے میں حضور نے عجلت کیوں نہ فرمائی ۔ اور اتنی تاخیر کیوں کی ؟ اب اسی سوال کو ہم دور حاضر کے منافقین کی جانب لوٹاتے ہیں کہ برأت حضرت عائشہ کے تعلق سے اللہ تعالی نے قرآنی آیات کے نزول میں تاخیر کیوں فرمائی ؟ ہے کوئی آپ کے پاس اس کا جواب ؟ لیکن بحمدہ تعالی اہل سنت و جماعت کے پاس اس کا شافی و وافی و کافی جواب ہے ۔نزول آیات قرآن کی تاخیر میں بھی کئی حکمتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر کوئی معاملہ پیش آئے اور فوراً اس کا تدارک کر دیا جائے تو اس معاملہ کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔ فی الفور رفع دفع ہوجانے والا معاملہ صرف کچھ دنوں تک عوام الناس میں زیر بحث اور موضوع سخن رہتا ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ اسے فراموش کردیتے ہی
اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی آپس میں محبت ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ بعض لوگ اہلبیت اطہار رضی ﷲ عنہ کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ سے ان کی مخاصمت اور لڑائی تھی یونہی اس کے بالعکس بعض لوگ شان صحابہ اسی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ اور اہلبیت اطھار رضی اﷲ عنہ کے درمیان بیحد محبت تھی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی فضلیت پر احادیث بیان کرتے ہیں۔ جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول اﷲ ﷺ کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں‘ فاطمہ رضی اﷲ عنہا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا؟ فرماتی ہیں‘ اْن کے شوہر یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ۔ (ترمذی) اسی طرح جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول اﷲ ﷺ کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا؟ تو آپ فرماتی ہیں‘ عائشہ رضی اﷲ عنہا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا؟ تو آپ فرماتی ہیں‘ ان کے والد حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ۔ (بخاری) اگر خدانخواستہ انکے درمیان کوئی مخاصمت یا رنجش ہوتی تو وہ ایسی احادیث بیان نہ کرتے۔ ایسی کئی احادیث اس کتاب میں پہلے بیان کی جا چکی ہیں‘ مزید چند احادیث سپرد قلم و قرطاس ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ و سیدنا علی رضی اﷲعنہ کی باہم محبت حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ درمیان کس قدر محبت تھی‘ اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے کیجیے۔ قیس بن ابی حازم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پوچھا‘ آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ’’ میں نے آقا ومولیٰ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پل صراط پر سے صرف وہی گزر کر جنت میں جائے گا جس کو علی وہاں سے گزرنے کا پروانہ دیںگے۔‘‘ اس پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ ہنسنے لگے اور فرمایا‘ اے ابوبکر ! آپ کو بشارت ہو۔ میرے آقا ومولیٰ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ (اے علی!) پل صراط پر سے گزرنے کا پروانہ صرف اسی کو دینا جس کے دل میں ابوبکر کی محبت ہو۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج۲:۵۵ امطبوعہ مصر) سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ایک دن مشرکین نے رسول کریم ﷺ کو اپنے نزغہ میں لے لیا۔ وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم رہی ہو جو کہتا ہے کہ ایک خدا ہے۔ خدا کی قسم ! کسی کو ان مشرکین سے مقابلہ کی جرأت نہیں ہوئی سوائے ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے۔ وہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مارمار کر اوردھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے‘ تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخض کو ایذا پہنچا رہے ہو جو کہتا ہے کہ’’ میرا رب صرف اﷲ ہے۔‘‘ یہ فرما کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہو گئی۔ پھر فرمایا ‘ اے لوگو! یہ بتاؤ کہ آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابوبکر رضی اﷲ عنہ اچھے تھے؟ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پھر فرمایا‘ لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے۔ خدا کی قسم ! ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی زندگی کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر اور برتر ہے کیونکہ وہ لوگ اپنا ایمان ڈر کی وجہ سے چھپاتے تھے اور ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا۔ (تاریخ الخلفاء ۱۰۰) حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے پاس سے گزرا اور وہ صرف ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر بے ساختہ میری زبان سے نکلا‘ کوئی صحیفہ والااﷲ تعالٰی کو اتنا محبوب نہیںجتنا یہ کپڑا اوڑھنے والا اﷲ تعالٰی کو محبوب ہے۔ (تاریخ الخلفاء: ابن عساکر) حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علیرضی اﷲ عنہ آئے اور سلام کر کے کھڑے ہوگئے۔ حضور منتظر رہے کہ دیکھیں کون ان کے لئے جگہ بناتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ آپ کی دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ اپنی جگہ سے اْٹھ گئے اور فرمایا‘ اے ابوالحسن ! یہاں تشریف لے آئیے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ‘ حضور ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے درمیان بیٹھ گئے۔ اس پر آقا ومولٰی ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا‘ ’’اہل فضل کی فضلیت کو صاحب فضل ہی جانتا ہے۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کی بھی تعظیم کیا کرتے۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۶۹) ایک روز حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرما تھے کہ اس دوران امام حسن رضی اﷲ عنہ آگئے جو کہ اس وقت بہت کم عمر تھے۔ امام حسن رضی اﷲ عنہ کہنے لگے‘ میرے بابا جان کے منبر سے نیچے اتر آئیے۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ’’ تم سچ کہتے ہو۔ یہ تمہارے باباجان ہی کا منبرہے۔‘‘ یہ فرما کر آپ نے امام حسن رضی اﷲ عنہ کوگود میں اٹھا لیا اور اشکبار ہوگئے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا‘ خدا کی قسم! میں نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : آپ سچ کہتے ہیں‘ میں آپ کے متعلق غلط گمان نہیںکرتا۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۴۷‘ الصواعق: ۲۶۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ابن عبدالبررحمہ اﷲ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اکثر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا‘ میں نے آقا و مولٰی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی اﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔(الصواعق المحرقتہ: ۲۶۹) ایک روز سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ تشریف فرماتھے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ آگئے۔ آپ نے انہیں دیکھ کر لوگوں سے فرمایا‘ جو کوئی رسول کریم ﷺ کے قریبی لوگوں میں سے عظیم مرتبت‘ قرابت کے لحاظ سے قریب تر‘ افضل اور عظیم تر حق کے حامل شخص کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آنے والے کو دیکھ لے۔ (الصواعق المحرقتہ:۲۷۰‘ دار قطنی) سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے سب سے زیادہ بہادر ہونے سے متعلق سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد پہلے تحریر ہو چکا‘ اگر انکے مابین کسی قسم کی رنجش ہوتی تو کیا یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے؟ یہ احادیث مبارکہ ان کی باہم محبت کی واضح مثالیں ہیں۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ و سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی باہم محبت حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا۔ امام حسنرضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے۔پھر امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سودرہم دیے۔ انہوں نے عرض کی‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہد رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے سو درہم دیے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان والد علی المرتضٰی‘ والدہ فاطمۃ الزہرا‘ نانا رسول اﷲ ﷺ‘ نانی خدیجہ الکبریٰ‘ چچا جعفر طیار‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول اﷲﷺ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم ﷺکی بیٹیاں ہیںرضی اﷲ عنہ۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے۔ یہ سن کر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ خاموش ہو گئے۔ جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوہوئی تو انہوں نے فرمایا‘ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا‘ اے علی! کیا تم نے سنا ہے کہ آقاو مولی ﷺ نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ہاں! میں نے خود سنا ہے۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کردیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی : یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے لئے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے‘ اْن سے اﷲ تعالٰی نے کہ:ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ ۔ ترجمہ : عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں ۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی۔ (ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) اگران کے مابین کسی قسم کی مخاصمت ہوتی تو کیا دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے؟ یہ واقعہ ان کی باہم محبت کی بہت عمدہ دلیل ہے۔ دارقطنی رحمہ اﷲ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کوئی بات پوچھی جس کا انہوں نے جواب دیا۔ اس پر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے ابوالحسن! میں اس بات سے اﷲ تعالٰی کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں میں رہوں جن میں آپ نہ ہوں۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۷۲) اس واقعہ سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کس قدر محبت تھی۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ امورِ سلطنت کے وقت کسی سے نہیں ملے تھے۔ آپکے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے ملاقات کی اجازت طلب کی تو نہیں ملی۔ اس دوران امام حسن رضی اﷲ عنہ بھی ملاقات کے لیے آگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی اجازت نہیں ملے گی۔ یہ سوچ کر واپس جانے لگے ۔ کسی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو اطلاع کر دی تو آپ نے فرمایا‘ انہیں میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو فرمایا‘ آپ نے آنے کی خبر کیوں نہ کی؟ امام حسنرضی اﷲ عنہ نے کہا‘ میں نے سوچا‘ بہت بیٹے کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی نہیں ملے گی ۔ آپ نے فرمایا‘ وہ عمر کا بیٹا ہے اور آپ رسول اﷲﷺ کے بیٹے ہیں اس لیے آپ اجازت کے زیادہ حقدار ہیں۔ عمررضی اﷲ عنہ کو جو عزت ملی ہے وہ اﷲ کے بعد اسکے رسول اﷲ رضی اﷲ عنہ اور اہلبیت کے ذریعے ملی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آئندہ جب آپ آئیں تو اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۷۲) ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں جس سے سیدنا عمرو علی رضی اﷲ عنہ میں محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ جب شدید علیل ہو گئے تو آپ نے کھڑکی سے سر مبارک باہر نکال کر صحابہ سے فرمایا‘ اے لوگو! میں نے ایک شخص کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے کیا تم اس کام سے راضی ہو؟ سب لوگوں نے متفق ہو کر کہا‘ اے خلیفئہ رسول ﷺ! ہم بالکل راضی ہیں۔ اس پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا‘وہ شخص اگر عمر رضی اﷲ عنہ نہیں ہیں تو ہم راضی نہیں ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ بیشک وہ عمر ہی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء:۱۵۰‘ عساکر) اسی طرح امام محمد باقر رضی اﷲ عنہ حضرت جابر انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وصال کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو غسل دیکر کفن پہنایا گیاتو حضرت علی رضی اﷲ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے‘ ان پر اﷲ تعالٰی کی رحمت ہو‘ میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے اس (حضرت عمررضی اﷲ عنہ) سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں اس جیسا اعمال نامہ لیکر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں۔(تلخیص الشافی:۲۱۹‘ مطبوعہ ایران)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات میں کس قدر پیار و محبت تھی۔ اور فاروقی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب ایک حاسد شخص نے حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی متعلق سوال کیا تو آپ نے ان کی خوبیاں بیان کیں پھر پوچھا‘ یہ باتیں تجھے بری لگیں؟ اس نے کہا‘ ہاں ۔ آپ نے فرمایا‘ اﷲ تعالٰی تجھے ذلیل و خوار کرے۔ جادفع ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کی جو کوشش کر سکتا ہو کر لے۔ (بخاری باب مناقب علی) حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا‘ ’’قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا’’۔ اسی بنا پر سیدنا عمررضی اﷲ عنہ نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے انکی صاحبزادی سیدہ اْم کلثوم رضی اﷲ عنہا کا رشتہ مانگ لیا۔ اور ان سے آپ کے ایک فرزند زیدرضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد بھی قابلِ غور ہے‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جب تم صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو کبھی فراموش نہ کرو۔‘‘ (تاریخ الخلفاء: ۱۹۵) سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور عظمت شیخین رضی اللہ عنہما سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور حضرات شیخین رضی اﷲ عنہا ایک دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی اور دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے۔ شعیہ عالم ملا باقر مجلسی نے جلا ء العیون صفحہ ۱۶۸ پر لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو نبی کریم ﷺ سے سیدہ فاطمہ کا رشتہ مانگنے کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہ نے قائل کیا۔ اسی کتاب میں مرقوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہ کی شادی کے لیے ضروری سامان خریدنے کے لیے سیدبا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو ذمہ داری سونپی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو رسول ﷺ کے گھریلو معاملات میں بھی خاص قرب حاصل تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی کہنی رکھی اور فرمایا‘ اﷲتعالٰی آپ پر رحم فرمائے! بے شک مجھے امید ہے کہ اﷲتعالٰی آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی حضور اکرم ﷺاور ابوبکر صدیقرضی اﷲ عنہ)کا ساتھ عطا کرے گا کیونکہ میں نے بار ہا رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’میں تھا اور ابوبکر و عمر‘’میںنے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے‘’میں چلا اور ابوبکر و عمر‘’میں داخل ہوا اور ابوبکر و عمر‘’میں نکلا اور ابوبکر و عمر‘۔ (رضی اﷲ عنہا) میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ تھے۔ (بخاری المناقب‘ مسلم کتاب الفضائل الصحابہ) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ رسول کریم ﷺ سے خصوصی قرب ومحبت کے باعث سیدنا ابوبکرو عمر رضی اﷲ عنہ سے دلی محبت رکھتے تھے۔ ایک شخص نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا‘ میں نے خطبہ میں آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’ اے اﷲ! ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما جیسی تو نے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کو عطا فرمائی تھی‘‘۔ ازراہِ کرم آپ مجھے ان ہدایت یاب خلفائے راشدین کے نام بتا دیں۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا : وہ میرے دوست ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک ہدایت کا امام اور شیخ الاسلام تھا۔ رسول کریم ﷺ کے بعد وہ دونوں قریش کے مقتدیٰ تھے‘ جس شخص نے ان کی پیروی کی وہ اﷲ تعالٰی کی جماعت میں داخل ہو گیا۔(تاریخ الخلفاء: ۲۶۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) یہی واقعہ شیعہ حضرات کی کتاب تلخیص الشافی جلد ۳ صفحہ ۳۱۸ پر امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے امام باقر رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں‘ یہ بات صحیح روایات سے ثابت اور تواتر سے نقل ہوتی چلی آئی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اپنے رفقاء کے سامنے حضرت ابوبکرو عمر رضی اﷲ عنہ کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ ان کی افضلیت کو برملا اور علانیہ بیان کرتے رہے ہیں ۔ علامہ ذہبی رحمہ اﷲ نے اسی سے زیادہ حضرات سے صحیح سندوں کے ساتھ ثابت کیا ہے اور صحیح بخاری کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ نبی کریم ﷺ کے بعد سب لوگوں سے افضل ترین ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہیں پھرعمررضی اﷲ عنہ۔ آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رضی اﷲ عنہ نے کہا‘ پھر آپ؟ تو آپ تو فرمایا‘ میں ایک عام مسلمان ہوں۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۶) سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے انہیں سیدنا ابوبکر و عمررضی اﷲ عنہ سے افضل کہنے والوں کے لیے درّوں کی سزا تجویز فرمائی ہے‘ شعیہ حضرات کی اسماء الرجال کی معتبر کتاب رجال کشی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔ سفیان ثوری‘ محمد بن سکندر رحہما اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو کوفہ کے منبر پربیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ فرمارہے تھے‘ اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص آئے جو مجھے ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہ پر فضیلت دیتا ہوتو میں اس کو ضرور دْرّے لگائوں گا جو کہ بہتان لگانے والے کی سزا ہے ۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۶‘ سنن دارقطنی‘ رجال کشی۳۳۸ مطبوعہ کربلا) شیعوں کی اسی کتاب میں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا فتویٰ موجود ہے کہ ’’حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے۔‘‘ (رجال کشی : ۳۳۸) پھر اعلی حضرت رحمہ اﷲ فرماتے ہیں‘ محبت علی مرتضٰی رضی اﷲ عنہ کا یہی تقاضا ہے کہ محبوب کہ اطاعت کیجیے (یعنی سیدنا ابوبکروعمر رضی اﷲ عنہ کو ساری امت سے افضل مانیے) اور اْس کو غضب اوراسی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے ۔ اعتقادالاحباب:۵۶) شیعہ حضرات یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ ’’یہ ساری باتیں تقیہ کے طور پر کہی گئی تھیں۔ یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضرات شیخین کی تعریف محض جان کے خوف اور دشمنوں کے ڈر سے کیا کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ کرتے تو ان کی جان کو خطرہ تھا مگر دلی طور پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضرات شیخین کے خلاف تھے ۔ شعیوں کے اس بیان میں قطعاً کوئی صداقت نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جو شیرخدا تھے اور مرکز دائرہ حق تھے‘ اتنے بزدل‘ مغلوب اور عاجز ہو گئے تھے کہ وہ حق بیان کرنے سے قاصر رہے اور ساری زندگی خوف وعجز میں گزار دی‘ پھر اسدْاﷲ الغالب کا لقب کیا معنی رکھتا ہے ؟ ۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۷) سیدنا علی المرتضٰی حیدر کرار رضی اﷲ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے آپ کے یہ ارشاد بھی دل کے کانوں سے سن لیں ۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں‘ رسول کریم ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہ سب سے بہتر ہیں۔ کسی مومن کے دل میں میری محبت اور ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہ کا بغض کبھی یکجا نہیں ہو سکتے ۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۲۲‘ معجم الاوسط)
مشاجرات(باہمی تنازعات) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں اہلسنت و جماعت(بریلوی) کا مؤقف ____________________________________________ امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور ) اتنا یقین کرلیا کہ سب ( صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اوران ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام ، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر ( منزل) مقصود کو پہنچے ۔ اور ارباب ( غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض ( و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی ( کی گمراہیوں) میں جا پڑے(فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص58) مشاجرات صحابہ کرام حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے۔ ( اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)ہم اہلسنت ان میں حق، جانب جناب مولٰی علی( مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص61) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں: و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته. اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔ نووی، شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں: اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔ مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول مزید فرماتے ہیں: یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے۔ مکتوب: 67 دفتر دوم اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے۔
فضائل و مناقب صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ تعالٰی عنہم _________________________________ قرآنِ حکیم کے بعد ہمارے لیے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ ہے۔ جسے خود اللہ تعالیٰ نے ’’اُسوہِ حسنہ‘‘ قرار دیا۔ اس اُسوہِ حسنہ کا عملی نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نفوسِ قدسیہ ہیں، جنہیں جمالِ حبیبِ خدا کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی اور جنہیں قرآن کے اوّلیں مخاطَب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضانِ صحبت اور تعلیم و تربیت کی بدولت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اِشاعتِ اِسلام کے اَوّلین داعی اور راہِ حق میں استقامت و ثابت قدمی کے پہاڑ بن گئے۔ انہوں نے غلبہِ دین حق اور اِعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ایسی فقید المثال قربانیاں دیں کہ ان کا اِنفرادی و اِجتماعی کردار تا قیامت اُمتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و کردار اور اَخلاق و اَعمال رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت اور اُسوہِ حسنہ کے عکاس ہیں۔ اِسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں کی سی ہے ان میں سے جس کا بھی دامن تھامو گے ہدایت پاجاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے رحمت ہے۔‘ ایک اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت عین محبتِ رسول اور ان کی مخالفت عین مخالفتِ رسول ہے۔ الغرض نگاہِ نبوت اور فیضانِ صحبت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ صرف شرفِ اِنسانی کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے بلکہ وہ اَرفع و اَعلیٰ اَخلاق، حسنِ معاملات، حسنِ معاشرت، زُہد و وَرع، مجسمِ وفا و رضا اور باہمی محبت و مودت کے پیکر اَتم بھی قرار پائے۔ تاریخِ اِنسانی پر ان کی عظمت و کردار کے مرتسم نقوش کو ملّتِ اِسلامیہ دینی، علمی، اَخلاقی، سیاسی، عسکری اور معاشی ہر شعبہِ حیات میں نہایت فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہے۔اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِیَّۃُ 1. قَالَ اللّهُ هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُo (المائدة، 5 : 119) ’’اللہ فرمائے گا : یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا. ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں. وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں. اﷲ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہےo‘‘ 2. وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَـئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌo (الأنفال، 8 : 74) ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہےo‘‘ 3. وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُo (التوبة، 9 : 100) ’’اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہء احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہےO‘‘ 4. إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ o لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ o لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَo (الأنبياء، 21 : 101-103) ’’بے شک جن لوگوں کے لیے پہلے سے ہی ہماری طرف سے بھلائی مقرر ہو چکی ہے وہ اس (جہنم) سے دور رکھے جائیں گےo وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ ان (نعمتوں) میں ہمیشہ رہیں گے جن کی ان کے دل خواہش کریں گےo (روزِ قیامت کی) سب سے بڑی ہولناکی (بھی) انہیں رنجیدہ نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے (اور کہیں گے : ) یہ تمہارا (ہی) دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہاo‘‘ 5. لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًاo (الفتح، 48 : 18) ’’بے شک اﷲ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے، سو جو (جذبۂ صدِق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کرلیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیاo‘‘ 6. مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًاo (الفتح، 48 : 29) ’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں. آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں. اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے). ان کے یہ اوصاف تورات میں (بھی مذکور) ہیں اور ان کے (یہی) اوصاف انجیل میں (بھی مرقوم) ہیں. وہ (صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی) کھیتی کی طرح ہیں جس نے (سب سے پہلے) اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی (اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی (اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے) تاکہ اِن کے ذریعے وہ (محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے) کافروں کے دل جلائے، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہےo‘‘ 7. وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌo (الحديد، 57 : 10) ’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالاں کہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)، تم میں سے جن لوگوں نے فتحِ (مکّہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں اپنا مال) خرچ کیا اور (اپنے دفاع میں) قتال کیا وہ (اور تم) برابر نہیں ہوسکتے، وہ اُن لوگوں سے درجہ میں بہت بلند ہیں جنہوں نے بعد میں مال خرچ کیا ہے، اور قتال کیا ہے، مگر اللہ نے حسنِ آخرت (یعنی جنت) کا وعدہ سب سے فرما دیا ہے، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اُن سے خوب آگاہ ہےo‘‘ 8. لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَo (المجادلة، 58 : 22) ’’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں. یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہےo‘‘ 9. وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo (الحشر، 59 : 9) ’’(یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا. یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں. اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیںo‘‘ 10. جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُo (البينة، 98 : 8) ’’ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اﷲ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں، یہ (مقام) اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے خائف رہاo‘اَلاَحَادِيْثُ النَّبَوِيَۃ 1. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ. ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، قَالَ عِمْرَانُ : فَـلَا أَدْرِي : أَذَکَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَـلَاثاً. ثُمَّ إِنَّ بَعْدَکُمْ قَوْمًا يَشْهَدُوْنَ وَلَا يُسْتَشْهَدُوْنَ، وَيَخُوْنُوْنَ وَلَا يُؤْتَمَنُوْنَ، وَيَنْذُرُوْنَ وَلَا يَفُوْنَ، وَيَظْهَرُ فِيْهِمُ السِّمَنُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1335، الرقم : 3450، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1964، الرقم : 5235. ’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ اور پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ (حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین زمانوں کا)۔ (فرمایا : ) پھر تمہارے بعد ایسی قوم آئے گی کہ وہ گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی. وہ خیانت کریں گے اور ان پر یقین نہیں کیا جائے گا۔ وہ نذریں مانیں گے مگر ان کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 2. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : سُئِلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ : قَرْنِي ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِيْنَهُ وَيَمِيْنُهُ شَهَادَتَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 2 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب إذا قال أشهد باﷲ أو شهدت باﷲ، 6 / 2452، الرقم : 6282، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1963، الرقم : 2533. ’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا : (یا رسول اﷲ!) کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے زمانے کے لوگ، پھر جو ان کے بعد ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں. پھر تو ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم کے آگے اور ان کی قسم گواہی کے آگے آگے بھاگی پھرے گی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِءَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فََيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 3 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1335، الرقم : 3449، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم : 2532. ’’حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (ان صحابہ کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی. پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو پھر انہیں (ان تابعین کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی. پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں (یعنی تابعین) کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (ان تبع تابعین کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُوْنَ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَحِبَ الرَّسُوْلَ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَغْزُوْنَ فَيُقَالُ لَهُمْ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ الرَّسُوْلَ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحُمَيْدِيُّ. 4 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1316، الرقم : 3399، وابن حبان في الصحيح، 11 / 86، الرقم : 4768، والحميدي في المسند، 2 / 328، الرقم : 743 . ’’حضرت ابو سعید (خدری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ جنگ کریں گے تو ان سے کہا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو (ان صحابہ کی برکت سے) انہیں فتح دے دی جائے گی. پھر وہ جہاد کریںگے تو ان سے کہا جائے گا : تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (تابعین کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی.‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابن حبان اور حمیدی نے روایت کیا ہے۔ وفي رواية : عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَخْرُجُ الْجَيْشُ مِنْ جُيُوْشِهِمْ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ أَحَدٌ صَحِبَ مُحَمَّدًا فَتَسْتَنْصِرُوْنَ بِهِ فَتُنْصَرُوْا؟ ثُمَّ يُقَالُ : هَلْ فَيْکُمْ مَنْ صَحِبَ مُحَمَّدًا؟ فَيُقَالُ : لَا. فَمَنْ صَحِبَ أَصْحَابَهُ؟ فَيُقَالُ : لَا. فَيُقَالُ : مَنْ رَاٰی مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَهُ؟ فَلَوُ سَمِعُوْا بِهِ مِنْ وَرَاءِ الْبَحْرِ لأَتَوْهُ. وفي رواية زاد : ثُمَّ يَبْقٰی قَوْمٌ يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يَدْرُوْنَ مَا هُوَ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ حُمَيْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی مِنْ طَرِيْقَيْنِ وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ، وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : وَهٰذَا الإِسْنَادُ صَحِيْحٌ. أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 132، 200، الرقم : 2182، 2306، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 313، الرقم : 1020، والعسقلاني في المطالب العالية، 17 / 79، الرقم : 4165، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 18. ’’ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ضرور بالضرور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کے لشکروں میں سے ایک لشکر جہاد کے لیے نکلے گا تو کہا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے جس کے توسل سے تم (دشمن کے مقابلے میں) نصرت طلب کرو تو فتح یاب ہو جاؤ؟ پھر کہا جائے گا : کیا تم میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے؟ کہا جائے گا : نہیں. پھر کہا جائے گا : کوئی ان کے صحابہ کی صحبت پانے والا (یعنی تابعی) ہے؟ کہا جائے گا : نہیں. پھر کہا جائے گا : کوئی ایسا شخص جس نے ان کے صحابہ کی صحبت پانے والے (یعنی تبع تابعی) کی زیارت کی ہے؟ کہا جائے گا : نہیں. اور اگر وہ اس کے متعلق سمندر کے اس پار سے بھی سنتے تو ضرور اس کے پاس آجاتے.‘‘ اور ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : پھر ایسی قوم باقی رہ جائے گی جو قرآن پڑھے گی (مگر یہ) نہیں جانتی ہو گی کہ وہ کیا ہے۔ (یعنی اس کے اصل مطالب و مفاہیم سے نابلد ہو گی).‘‘ اسے امام ابو یعلی اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : امام ابو یعلی نے اسے دو طریق سے روایت کیا ہے اور دونوں کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں. اور امام عسقلانی نے بھی فرمایا : یہ اسناد صحیح ہے۔ 5. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ. 5 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا.‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔ 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه. 6 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا.‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ 7. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأٰی مَنْ رَآنِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. 7 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رأی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 694، الرقم : 3858، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 347، الرقم : 3082، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 265، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 116، الرقم : 7659. ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس مسلمان کو جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی میرے صحابی) کو دیکھا.‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ رَجُـلًا قَالَ لَهُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، طُوْبٰی لِمَنْ رَآکَ وَآمَنَ بِکَ قَالَ : طُوْبٰی لِمَنْ رَآنِي وَآمَنَ بِي ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِي وَلَمْ يَرَنِي. قَالَ لَهُ رَجُلٌ : وَمَا طُوْبٰی؟ قَالَ : شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ مَسِيْرَةُ مِاءَةِ عَامٍ ثِيَابُ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَخْرُجُ مِنْ أَکْمَامِهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 71، الرقم : 11691، وأبو يعلی في المسند، 2 / 519، وابن حبان في الصحيح، 16 / 213، الرقم : 7230، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 90، الرقم : 1733، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 47، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 67. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! مبارکباد ہے اس کے لیے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہاں یقینا) مبارکباد ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، (مگر) پھر مبارکباد ہے، پھر مبارکباد ہے، پھر مبارکباد ہے اس کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے مجھے دیکھا تک نہیں، ایک شخص نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ! وہ) طوبیٰ (مبارکباد) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (طوبیٰ) جنت کا ایک درخت ہے جو ایک صدی کی مسافت تک پھیلا ہوا ہے۔ اہلِ جنت کے کپڑے اسی کے (پھلوں کے) چھلکے سے تیار ہوں گے.‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ 8. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلصَّحَابَةِ وَلِمَنْ رَأٰی مَنْ رَآنِي قَالَ : قُلْتُ : وَمَا قَوْلُهُ : وَلِمَنْ رَأٰی قَالَ : مَنْ رَأٰی مَنْ رَآهُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ. وَقَالَ الْمُتَّقِي الْهِنْدِيُّ : وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. 8 :أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 166، الرقم : 5874، وابن حبان في الثقات، 7 / 135، الرقم : 9345، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 254، والدولابي في الکنی والأسمائ، 3 / 1194، الرقم : 2098، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 20، والهندي في کنز العمال، 11 / 243، الرقم : 32490. ’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اﷲ! میرے صحابہ کو بخش دے اور اسے بھی بخش دے جس نے ان کو دیکھا جنہوں نے مجھے دیکھا. راوی کہتے ہیں میں نے کہا : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان ’’ولمن رأٰی‘‘ (اور جس نے دیکھا) سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے انہیں (یعنی صحابہ کو) دیکھا.‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی، ابن حبان اور امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں. اور متقی ہندی نے بھی کہا : اس کے رجال ثقات ہیں. 9. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّجُوْمُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَاِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتٰی أَصْحَابِي مَا يُوْعَدُوْنَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتٰی اُمَّتِي مَا يُوْعَدُوْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی. 9 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب بيان أن بقاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم أمان لأصحابه وبقاء أصحابه أمان للأمة، 4 / 1961، الرقم : 2531، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 398، وأبو يعلی في المسند، 13 / 260، الرقم : 7276. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تارے آسمان کے لیے بچائو ہیں اور جب تارے ختم ہو جائیں گے تو جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ (یعنی قیامت) آسمان پر آ جائے گی اور میں اپنے صحابہ کے لیے ڈھال ہوں اور جب میں چلا جائوں گا تو میرے صحابہ پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے بچائو ہیں اور جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آئے گا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : رَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأْسَهُ إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ : اَلنُّجُوْمُ أَمَانٌ لأَهْلِ السَّمَاءِ، وَأَنَا أَمَانٌ لأَصْحَابِي، وَأَصْحَابِي أَمَانٌ لأُمَّتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : قُلْتُ : رِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ لٰـکِنَّهُمْ قَالُوْا : لَمْ يَسْمَعْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَإِنَّمَا أَخَذَ التَّفْسِيْرَ عَنْ مُجَاهِدٍ وَسَعِيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْهُ. قُلْتُ : بَعْدُ أَنْ عَرَفْتُ الْوَاسِطَةَ وَهِي مَعْرُوْفَةٌ بِالثِّقَةِ حَصَلَ الْوُثُوْقُ بِهِ. أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 6، الرقم : 6687، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 17، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 62. ’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اُٹھا کر فرمایا : ستارے اہل آسمان کے لیے امان (کا باعث) ہیں. اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان (کا باعث) ہوں. اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان (کا باعث) ہیں.‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی اسناد جید ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : میں کہتا ہوں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے براہ راست سماع نہیں کیا جب کہ اس نے (حضرت ابن عباس کے شاگرد) حضرت مجاہد سے علم تفسیر اَخذ کیا اور سعید بن جبیر نے ان (مجاہد) سے تفسیر لی ہے۔ میں (ابن حجر عسقلانی) کہتا ہوں : جب ہمیں درمیان کے واسطہ کی بھی پہچان ہو گئی اور وہ واسطہ بھی ثقہ ہے تو اس سے اس راوی کی ثقاہت بھی متحقق ہو جاتی ہے۔ وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَهْمَا أُوْتِيْتُمْ مِنْ کِتَابِ اﷲِ فَالْعَمَلُ بِهِ لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ فِي تَرْکِهِ فَإِن لَمْ يَکُنْ فِيکِتَابِ اﷲِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةً فَإِنْ لَمْ يَکُنْ سُنَّتِي فَمَا قَالَ أَصْحَابِي إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُوْمِ فِي السَّمَاءِ، فَأَيُمَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ وَاخْتِلاَفُ أَصْحَابِي لَکُمْ رَحْمَةٌ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ. أخرجه البيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 162، الرقم : 152، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 275، الرقم : 1346، وابن عبد البر في التمهيد، 4 / 263، والخطيب بغدادي في الکفاية في علم الرواية، 1 / 48، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 160، الرقم : 6497. ’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بھی تمہیں کتاب اللہ کا حکم دیا جائے تو اس پر عمل لازم ہے، اس پر عمل نہ کرنے پر کسی کا عذر قابل قبول نہیں، اگر وہ (مسئلہ) کتاب اللہ میں نہ ہو تو میری سنت میں اسے تلاش کرو جو تم میں موجود ہو اور اگر میری سنت سے بھی نہ پاؤ تو (اس مسئلہ کا حل) میرے صحابہ کے اقوال کے مطابق (تلاش) کرو. بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں کی سی ہے ان میں سے جس کا بھی دامن پکڑ لو گے ہدایت پا جاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے رحمت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی، قضاعی، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔ 10. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي يَمُوْتُ بِأَرْضٍ إِلَّا بُعِثَ قَاءِدًا وَنُوْرًا لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَتَمَّامُ الرَّازِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ. 10 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فيمن سبّ أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3865، ابن تمام الرازي في الفوائد، 1 / 107، الرقم : 251، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1 / 186، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 1 / 128، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 506، الرقم : 5568، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 2 / 416. ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ میں سے جو صحابی کسی زمین پر فوت ہو گا تو قیامت کے دن اس خطّے کے لوگوں کے لیے قائد اور نور بن کر اٹھے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، تمام الرازی، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔ 11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُغَفَّلِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَﷲَ اَﷲَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اﷲَ، وَمَنْ آذَی اﷲَ فَيُوْشِکُ أَنْ يَأْخُذَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالرَّوْيَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. 1أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في من سبّ أصحاب النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 696، الرقم : 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 87، الرقم : 16849، والروياني في المسند، 2 / 92، الرقم : 882، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 / 131، الرقم : 389، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 8 / 287. ’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور میرے بعد ان کو اپنی تنقید کا نشانہ مت بنانا کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی (تو گویا) اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب (اﷲ تعالیٰ) اس کی گرفت فرمائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، رویانی نے اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ 12. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي، فَقُوْلُوْا : لَعْنَةُ اﷲِ عَلٰی شَرِّکُمْ. وفي رواية : فَالْعَنُوْهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ. 12 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے. ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو.‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ وفي رواية : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَإِنَّهُ يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي، فَإِنْ مَرِضُوْا فَـلَا تَعُوْدُوْهُمْ، وَإِنْ مَاتُوْا فَـلَا تَشْهَدُوْهُمْ، وَلَا تُنَاکِحُوْهُمْ، وَلَا تُوَارِثُوْهُمْ، وَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَيْهِمْ، وَلَا تُصَلُّوْا عَلَيْهِمْ. رَوَاهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَالْمِزِّيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ الْخَلَّالِ نَحْوُهُ فِي السُّنَّةِ. أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 143، الرقم : 4240، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 499، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14 / 344، وابن الخلال في السنة، 2 / 483، الرقم : 769. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو یقینا آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم آئے گی جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہے گی. سو (یہ لوگ) اگر بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کی نمازِ جنازہ میں شریک مت ہونا، اور ان سے نکاح (وغیرہ کے معاملات) مت کرو، اور انہیں وارث مت بنانا، اور انہیں سلام مت کرنا، اور ان کے لیے دعا (مغفرت) بھی مت کرنا.‘‘ اس حدیث کو خطیب بغدادی، مزی، ابن عساکر نے اور اسی سے ملتی روایت ابن الخلال نے السنۃ میں بیان کی ہے۔ 13. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه بالْجَابِيَةِ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ فِيْنَا مِثْلَ مُقَامِي فِيْکُمْ، فَقَالَ : احْفَظُوْنِي فِي أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْکَذِبُ، حَتّٰی يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ وَيَحْلِفُ وَمَا يُسْتَحْلَفُ. وفي رواية : الَا أَحْسِنُوْا إِلٰی أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ …الحديث. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. 13 :أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الأحکام، باب کراهية شهادة لمن لم يستشهد، 2 / 791، الرقم : 2363، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 387، الرقم : 9219، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 26، الرقم : 177، وابن حبان في الصحيح، 10 / 436، الرقم : 4576، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 631، الرقم : 1489، وابن منده في الإيمان، 2 / 983، الرقم : 1087، والبزار في المسند، 1 / 269، الرقم : 166، والحاکم في المستدرک، 1 / 197.199، الرقم : 387.390، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 204، الرقم : 2929، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 191، الرقم : 96. ’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر ہم سے خطاب کیا اور فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے تھے جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور فرمایا : میرے صحابہ کا خیال رکھنا اور پھر جو ان کے بعد لوگ (تابعین) ہوں گے. ان کا اور پھر جو ان کے بعد (تبع تابعین) ہوں گے. پھر جھوٹ عام ہوجائے گا حتیٰ کہ ایک شخص خود سے ہی گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی اور وہ قسم کھائے گا حالانکہ اس سے قسم نہیں لی جائے گی. اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خبردار! میرے صحابہ سے اچھا سلوک کرنا اور پھر ان سے جو ان (صحابہ) کے بعد آئیں گے،الحدیث.‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، نسائی، احمد، ابن حبان اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام مقدسی نے بھی اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔ 14. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُلْتَمَسَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي کَمَا تُلْتَمَسُ أَوْتُبْتَغَی الضَّالَّةُ، فَـلَا يُوْجَدُ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حُمَيْدٍ. 14 :أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 89، الرقم : 675، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 52، الرقم : 69، والعسقلاني في المطالب العالية، 17 / 84، الرقم : 4168. ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک میرے صحابہث میں سے کسی آدمی کو اس طرح ڈھونڈا جائے گا جس طرح گمشدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے لیکن وہ نہیں ملتی.‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔ 15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا ذُکِرَ أَصْحَابِي فَأَمْسِکُوْا، وَإِذَا ذُکِرَتِ النُّجُوْمُ فَأَمْسِکُوْا، وَإِِذَا ذُکِرَ الْقَدَرُ فَأَمْسِکُوْا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ مُسْهِرُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَغَيْرُهُ وَفِيْهِ خِـلَافٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ. 15 :أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 198، الرقم : 10448، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 4 / 108، وعبد الرزاق في الأمالي في آثار الصحابة / 50، الرقم : 51، وابن عبد البر في التمهيد، 6 / 68، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 126، الرقم : 210، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 336، الرقم : 1337، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 202. ’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو خاموش ہو جاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش ہوجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو بھی خاموش ہو جاؤ.‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم، عبد الرزاق اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند میں مسہر بن عبد الملک ہے جسے ابن حبان وغیرہ ائمہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اس میں اختلاف ہے جبکہ بقیہ رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں. 16. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ النَّاسَ يَکْثُرُوْنَ، وَإِنَّ أَصْحَابِي يَقِلُّوْنَ، فَـلَا تَسُبُّوْهُمْ لَعَنَ اﷲُ مَنْ سَبَّهُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. 16 :أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 133، الرقم : 2184، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 47، الرقم : 1203، وأيضًا في الدعائ / 581، الرقم : 2109، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 350، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 149. ’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بے شک لوگ کثیر تعداد میں ہیں اور میرے صحابہ قلیل ہیں. سو میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو ان کو برا بھلا کہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو یعلی، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ وفي رواية : عَنْ عَطَائٍ يَعْنِي بْنَ أَبِي رِبَاحٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَفِظَنِي فِي أَصْحَابِي کُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَافِظًا وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. اخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 54، الرقم : 10. ’’ایک روایت میں (تابعی) حضرت عطا بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کے معاملے میں مجھے یاد رکھا (یعنی میرا لحاظ کیا) تو قیامت کے دن میں اسے یاد رکھوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر خدا کی لعنت ہو.‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ 17. عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ بِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَاءِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. 17 :أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، ذکر عويم بن ساعدة رضی الله عنه، 3 / 732، الرقم : 6656، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1000، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 3 / 370، الرقم : 1772، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 144، الرقم : 456، وأيضًا في المعجم الکبير، 17 / 140، الرقم : 349. ’’حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲتعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) چنا اور میرے لیے میرے صحابہ کو چنا. سو اس نے میر ے لیے ان میں سے وزرائ، ازدواجی رشتہ دار (داماد اور سسر) اور انصار (یعنی مدد گار) بنائے. سو جس نے انہیں گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲتعالیٰ ان کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ 18. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَانَ يَقُوْلُ : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمَقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمْرَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. 18 :أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 162، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32415، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 484، الرقم : 1006، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 57، الرقم : 15، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 / 24، الرقم : 59. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو برا بھلا مت کہو، پس ان کے عمل کا ایک لمحہ تم میں سے کسی کے زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، ابن ابی عاصم اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے کہا : یہ اسناد صحیح اور رجال ثقات ہیں. 19. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ اﷲَ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلٰی دِيْنِهِ، فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا، فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ سَيِّء. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. 19 :أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم : 3600، والبزار في المسند، 5 / 212، الرقم : 1816، 1702، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم : 3602، وأيضًا في المعجم الکبير، 9 / 112، 115، الرقم : 8582، 8593، والطيالسي في المسند، 1 / 33، الرقم : 246، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 1 / 375، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 114، الرقم : 49، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 177.178، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 65. ’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر قلب پایا تو اسے اپنے لیے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا. پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو (صرف اپنے لیے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے : انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مددگار بنا دیا) سو جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی اور جسے وہ بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بُری ہے۔‘‘ اسے امام احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال ثقہ ہیں. اور عسقلانی نے بھی کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ 20. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ : سُءِلَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما : هَلْ کَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَضْحَکُوْنَ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَالإِيْمَانُ فِي قُلُوْبِهِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجِبَالِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ رَاشِدٍ. وفي رواية : عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : احْفَظُوْنِي فِي أَصْحَابِي، فَإِنَّهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ. 20 :أخرجه أبو نعيم في حلية الأوليائ، 1 / 311، وابن راشد في الجامع، 11 / 327، 451، الرقم : 20671، 20976، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3 / 1343، الرقم : 4749، والعيني في عمدة القاري، 22 / 150، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 418، الرقم : 720. ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے پوچھا گیا : کیا صحابہ کرام ہنستے بھی تھے؟ تو انہوں نے فرمایا : ہاں! اور ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی بڑا تھا.‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم اور ابن راشد نے روایت کیا ہے۔ ’’ایک روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں میرا لحاظ کرنا کیوں کہ وہ میری امت کے بہترین لوگ ہیں.‘‘ اس حدیث کو امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔ 21. عَنْ عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ رضي اﷲ عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ رَاهْوَيْه. أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل اهل بيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1883، الرقم : 2424، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 36102، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 672، الرقم : 1149، وابن راهويه في المسند، 3 / 678، الرقم : 1271. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے. حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے.‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ، احمد اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے۔ 22. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَی اخْتِـلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَالِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ. 22 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2676، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم : 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم : 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، الرقم : 17184، وابن حبان في الصحيح، 1 / 178، الرقم : 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم : 329، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 246، الرقم : 618. ’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے. ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول اﷲ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور اطاعت کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو. اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کر لے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا).‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت نہیں ہے۔ 23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰی حِرَاءَ هُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْصِدِّيْقٌ أَوْشَهِيْدٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. 23 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير، 4 / 1880، الرقم : 2417، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان رضی الله عنه، 5 / 624، الرقم : 3696، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 59، الرقم : 8207. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم تھے اتنے میں پہاڑ لرزاں ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھہر جا، کیوں کہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔ 24. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَولَا الْهِجْرَةُ لَکُنْتُ امْرَا مِنَ الْأَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 24 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التمنی، باب ما يجوز من اللو، 6 / 2646، الرقم : 6817.6818، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بإعطاء المؤلفة قلوبهم علی الإسلام، 2 / 738، الرقم : 1061. ’’حضرت عبد اﷲ بن زید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنھما، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر ہجرت (کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے . 25. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَةِ فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ. وفي رواية : فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَة. وفي رواية : فَأَکْرِمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة. وفي رواية : اَللّٰهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَة، فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 25 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم اصلح الانصار والمهاجرة، 3 / 1381، الرقم : 3584، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة الاحزاب وهي الخندق، 3 / 1431، الرقم : 1804.1805. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، سو تو انصار، اور مہاجرین کی اصلاح فرما. ’’ایک روایت میں ہے : سو تو انصار، اور مہاجرین کی مغفرت فرما. ’’ایک روایت میں ہے : سو تو انصار اور مہاجرین کو عزت عطا فرما. ’’ایک روایت میں ہے : اے اللہ، بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کے معاملات دُرست فرما.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 26. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانُوْا يَرْتَجِزُوْنَ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُوْلُوْنَ : اللّٰهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَة فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ. 26 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مقدم النبي صلی الله عليه وآله وسلم المدينة، 3 / 1430، الرقم : 3717، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة الاحزاب وهي الخندق، 3 / 431، الرقم : 1805، وابو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في بناء المساجد، 1 / 123، الرقم : 453. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار و مہاجرین (خندق کھودتے وقت) رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ساتھ (رجزیہ اشعار پڑھنے میں شریک) تھے. اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے : اے اللہ، اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، سو تو انصار و مہاجرین کی مدد فرما.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں. 27. عَنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ، أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلٰی أَعْقَابِهِمْ … الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 27 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، 3 / 1431، الرقم : 3721، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب الوصية بالثلث، 3 / 1250، الرقم : 1628. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میرے اصحاب کی ہجرت کو قبول فرما اور انہیں اُلٹے پاؤں نہ لوٹانا، الحدیث.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 28. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ : بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَرَکِبْنَا سَفِيْنَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِيْنَتُنَا إِلَی النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتّٰی قَدِمْنَا فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَکُمْ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ السَّفِيْنَةِ هِجْرَتَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 28 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب هجرة الحبشة، 3 / 1407، الرقم : 3663، الرقم : 3663، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل جعفر بن ابي طالب واسماء بنت عميس واهل سفينتهم ث، 4 / 1946، الرقم : 2502. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجرت فرمانے کی خبر پہنچی تو اس وقت ہم یمن میں تھے، سو ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے، اس کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجاشی تک پہنچا دیا. وہاں ہم نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی سنگت اختیار کی اور ان کے ساتھ رہنے لگے. یہاں تک کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے. پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر فتح کیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں تھے. تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے کشتی والو! تمہارے لیے دو ہجرتوں کا ثواب ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے . 29. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : آيَةُ الإِيْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وفي رواية عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : آيَةُ الْمُنَافِقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ الْمُؤْمِنِ حُبُّ الْأَنْصَارِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. 29 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان حب الأنصار، 1 / 14، الرقم : 17، وأيضًا في کتاب المناقب، باب حب الأنصار، 3 / 1379، الرقم : 3572، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن حب الأنصار وعليث من الإيمان وعلاماته، 1 / 85، الرقم : 74. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار سے محبت، ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بُغض، نفاق کی علامت ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ’’ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : منافق کی علامت انصار سے بغض رکھنا اور مومن کی علامت انصار سے محبت کرنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ 30. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، أَوْ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اﷲُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اﷲُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وفي رواية للنسائي : وَلَايُبْغِضُهُمْ إِلَّا کَافِرٌ. 30 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب حب الانصار، 3 / 1379، الرقم : 3572، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن حب الأنصار وعلي رضی الله عنهم من الإيمان وعلاماته، 1 / 85، الرقم : 75، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل الانصار وقريش، 5 / 712، الرقم : 3900، وقال : هذا حديث صحيح، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الانصار، 1 / 57، الرقم : 163. ’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، یا کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار سے صرف مومن محبت کرتا ہے اور ان سے بغض صرف منافق رکھتا ہے۔ سو جس نے ان سے محبت رکھی اس سے اللہ نے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس سے اللہ نے بغض رکھا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ اور نسائی کی روایت میں ہے : ’’ان سے سوائے کافر کے کوئی بغض نہیں رکھتا.‘‘ 31. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم رَای صِبْيَانًا وَنِسَائً مُقْبِلِيْنَ مِنْ عُرْسٍ فَقَامَ نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مُمْثِلًا فَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ. اَللّٰهُمَّ، أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ يَعْنِي الْأَنْصَارَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ. 3أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم للانصار انتم احب الناس إلي، 3 / 1379، الرقم : 3574، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل الانصار، 4 / 1948، الرقم : 2508. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کے کچھ بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے استقبال کے لیے) کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ تم محبوب ہو، مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ تم محبوب ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد انصار تھے.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 32. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ : مَرَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَالْعَبَّاسُ رضي اﷲ عنهما بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْکُوْنَ، فَقَالَ : مَا يُبْکِيْکُمْ؟ قَالُوْا : ذَکَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَّا فَدَخَلَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرَهُ بِذَالِکَ قَالَ : فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ عَصَبَ عَلٰی رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ قَالَ : فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَالِکَ الْيَوْمِ فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنٰی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ کَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوا الَّذِي لَهُمْ فَاقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوْا عَنْ مُسِيْءِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 32 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم اقبلوا من محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم، 3 / 1383، الرقم : 3588، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل الأنصار، 4 / 1949، الرقم : 2510. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہما انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گزرے تو دیکھا وہ رو رہے تھے تو ان سے پوچھا : کیا چیز تمہیں رلا رہی ہے؟ تو انہوں نے کہا : ہمیں اپنی مجلسوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹھنا یاد آ رہا ہے، تو وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ساری صورتحال عرض کی تو راوی کہتے ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہِ مبارک) سے باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ سر مبارک پر پٹی کی طرح باندھ رکھا تھا. راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور یہ آخری بار تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز نہیں ہوئے. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا : میں تمہیں انصار کے بارے میں نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ وہ میرے مخلص ساتھی اور ہمراز ہیں. ان پر جو فرائض تھے وہ ادا کر چکے اور ان کا حق باقی ہے۔ لہٰذا ان کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرنا اور جو ان میں سے قصوروار ہوں ان سے درگزر کرنا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيْدٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا يُبْغِضُ الْأَنْصَارَ رَجَلٌ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. 33 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن حب الانصار وعلي من الإيمان وعلاماته، 1 / 86، الرقم : 76.77، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل الانصار وقريش، 5 / 715، الرقم : 3906، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 86، 88، الرقم : 8323، 8333، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 34، الرقم : 11318، 11425، وابو يعلی في المسند، 2 / 287، الرقم : 1007، والطيالسي في المسند، 1 / 290، الرقم : 2182. ’’حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا.‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 34. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ الْمِقْدَادُ يَومَ بَدْرٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِيْلَ لِمُوْسٰی : {فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ} [المائدة، 5 : 24]، وَلٰـکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ فَکَأَنَّهُ سُرِّيَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ. 34 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : فاذهب انت وربک فقاتلا إنا هاهنا قاعدون، 4 / 1684، الرقم : 4333، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 333، الرقم : 11140، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 314، الرقم : 18073، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 555، الرقم : 220، وقال : إسناده حسن. ’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے وقت حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! ہم آپ سے وہ بات ہر گز نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ں سے کہی تھی کہ ’’آپ اور آپ کا رب دونوں جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں.‘‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے اس جواب سے بہت خوشی و مسرت ہوئی.‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ 35. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاکُمُ اﷲُ عزوجل بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ مُتَفَرِّقِيْنَ فَجَمَعَکُمُ اﷲُ بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ اﷲُ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ بِي؟ قَالُوا : بَلٰی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : أَفَـلَا تَقُوْلُوْنَ : جِئْتَنَا خَاءِفًا فَآمَنَّاکَ، وَطَرِيْدًا فآوَيْنَاکَ، وَمَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ. فَقَالُوْا : بَلْ ِﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْمَنُّ بِهِ عَلَيْنَا وَلِرَسُوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ زَيْدٍ، وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ. 35 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان، 4 / 1574، الرقم : 4075، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب إعطاء المؤلفة لقلوبهم علی الإسلام، 2 / 738، الرقم : 1061، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 91، الرقم : 8347، وأيضًا في فضائل الصحابة، 1 / 72، الرقم : 242، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، الرقم : 12040، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2 / 800، الرقم : 1435، وابن حبان في الثقات، 2 / 81. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے گروہ انصار کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے سو اللہ تعالیٰ نے میرے سبب تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں (ایک جگہ) جمع فرما دیا؟ کیا میں تمہارے پاس وقت نہیں آیا جب تم باہم دشمن تھے پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرما دی؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! یا رسول اللہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم یہ کیوں نہیں کہتے : آپ ہمارے پاس حالتِ خوف میں تشریف لائے تو ہم نے آپ کو امان دی، اور آپ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ کی قوم نے آپ کو ملک بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی، اور آپ ہمارے پاس شکستہ حالی میں تشریف لائے تو ہم نے آپ کی مدد و نصرت کی. انہوں نے عرض کیا : (یہ آپ پر ہمارا کوئی احسان نہیں) بلکہ (آپ کا ہمارے پاس تشریف لانا) تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم پر احسان ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری و مسلم نے طویل روایت میں حضرت عبد اﷲ بن زید رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اور امام نسائی، احمد اور ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ الفاظ احمد کے ہیں. 36. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ. وَالتِّرْمِذِيُّ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه وزاد : وَلِنِسَاءِ الْأَنْصَارِ. وَقَالَ َالتِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. 36 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : هم الذين يقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اﷲ حتی ينفضوا، 4 / 1862، الرقم : 4623، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل الانصار، 4 / 1948، الرقم : 2506، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فضائل الانصار وقريش، 5 / 715، الرقم : 3909، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 86، الرقم : 10146. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! انصار اور انصار کے بیٹوں، اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں. امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافے سے روایت کیا : اور انصار کی عورتوں (بیویوں) کی بھی مغفرت فرما.‘‘ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ 37. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَهْلِ بَدْرٍ : فَلَعَلَّ اﷲَ اطَّلَعَ إِلٰی أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ : اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّةُ، أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. 37 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب فضل مَن شَهِدَ بدرًا، 4 / 1463، الرقم : 3762، وأيضًا في کتاب الجهاد، باب الجاسوس، 3 / 1095، الرقم : 2845، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أهل بدر ث، وقصة حاطب بن أبي بلتعة رضی الله عنه، 4 / 1941، الرقم : 2494، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الممتحنة، 5 / 409، الرقم : 3305، والدارمي في السنن، 2 / 404، الرقم : 2761. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحابِ بدر کے بارے میں فرمایا : اﷲتعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف (رحمت کی) نظر ڈالی. پھر فرمایا : تم جو عمل کرنا چاہتے ہو کرو بیشک تمہارے لیے جنت لازم ہو گئی ہے یا فرمایا : میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 38. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَومَ الْحُدَيْبِيَةِ : أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَکُنَّا أَلْفاً وَأَرْبَعَ مِاءَة، وَلَوْ کُنْتُ أُبْصِرُ الْيَوْمَ لَأَرَيْتُکُمْ مَکَانَ الشَّجَرَةِ. مُتْفَقٌ عَلَيْهِ. 38 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم : 3923، ومسلم في الصحيح، کتاب الامارة، باب استحباب مبايعة الإمام الجيش، عند إرادة القتال، وبيان بيعة الرضوان تحت الشجرة، 3 / 1484، الرقم : 1856. ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن ہمیں فرمایا : تم زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہتر ہو اور ہم چودہ سو افراد تھے اور اگر آج میں دیکھ سکتا تو تمہیں (حدیبیہ کے) اس درخت کی جگہ دکھا دیتا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ 39. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : عَشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ : أَبُوْ بَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ، وَأَبُوْ عُبَيْدَةَ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ث، قَالَ : فَعَدَّ هٰؤُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَکَتَ عَنِ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَومُ : نَنْشُدُکَ بِاﷲِ يَا أَبَا الْأَعْوَرِ، مَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : نَشَدْتُمُونِي بِاﷲِ أَبُو الأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ : أَصَحُّ. 39 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنه، 5 / 648، الرقم : 3748، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 56، الرقم : 8195، واحمد بن حنبل في المسند، 1 / 188، الرقم : 1631، وابن حبان في الصحيح، 15 / 463، الرقم : 7002، والشاشي في المسند، 1 / 247. ’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دس آدمی جنتی ہیں، (اور وہ یہ ہیں) ابوبکر جنتی ہے، عمر جنتی ہے، عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبد الرحمن، ابو عبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (ث) جنتی ہیں، راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہو گئے. لوگوں نے کہا : ابو اعور! ہم آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں (بتائیے) دسواں آدمی کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دی ہے، (دسواں) ابو اعور (یعنی سعید بن زید خود) جنتی ہیں.‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے السنن میں اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں اس حدیث کو اصح (صحیح ترین) کہا ہے۔ 40. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُوْ بَکْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اﷲِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَائً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَوُهُمْ أُبَيٌّ. وَلِکُلِّ أُمَّة أَمِيْنٌ وَأَمِيْنُ هذِهِ الْأُمَّةِ أَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ. 40 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل وزيد بن ثابت وابي بن کعب وابي عبيدة بن الجراح ث، 5 / 664.665، الرقم : 3790.3791، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضائل خباب رضی الله عنه، 1 / 55، الرقم : 154، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 67، 78، الرقم : 8242، 8287، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 281، الرقم : 14022، وابو يعلی في المسند، 10 / 141، الرقم : 5763، والحاکم في المستدرک، 3 / 477، الرقم : 5784. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے سب سے زیادہ میری امت پر مہربان ابو بکر ہے، احکام الٰہی میں سب سے زیادہ سخت عمر ہے، شرم و حیاء میں سب سے زیادہ سچا عثمان ہے، حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والا معاذ بن جبل ہے، علم الفرائض کا سب سے زیادہ جاننے والا زید بن ثابت ہے اور سب سے اچھا قاری ابی بن کعب ہے اور ہر امت کا کوئی نہ کوئی امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی،نسائی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس کی اِسناد صحیح ہے۔ 41. عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَغْزُوْ بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَة مِنَ الْأَنْصَارِ مَعَهُ إِذَا غَزَا فَيَسْقِيْنَ الْمَاءَ يُدَاوِيْنَ الْجَرْحٰی. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ. 4أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، 3 / 1443، الرقم : 1810، والترمذي في السنن، کتاب السير، باب ما جاء في خروج النساء في الحرب، 4 / 139، الرقم : 1575، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في النساء يغزون، 3 / 18، الرقم : 2531، والمروزي في السنة، 1 / 48، الرقم : 152. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جہاد کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت اُم سلیم اورانصار کی کچھ عورتیں بھی ہوتی تھیں، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں تھیں.‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔ وفي رواية : عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ الْأَنْصَارِيَةِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأُدَاوِی الْجَرْحٰی، وَأَقُوْمُ عَلَی الْمَرْضٰی. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب النساء العازيات يرضخ لَهُنَّ ولا يسهم، 3 / 1447، الرقم : 1812، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب العبيد والنساء يشهدن مع المسلمين، 2 / 952، الرقم : 2856، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 84، الرقم : 20811. ’’حضرت اُم علطیہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، میں مجاہدین کے عقب میں خیموں میں رہتی تھی. مجاہدین کے لیے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی عیادت کرتی.‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
शुक्रवार, 14 जुलाई 2017
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اور ان پر اعتراضات کے جوابات ____________________________________________فاتح عرب و عجم، کاتب وحی، برادر نسبتی پیغمبر، ہم زلف نبی، راز دار نبوت، امام تدبر و سیاست، خال المومنین، امیر المومنین،سیدالرسل امام الانبیاءخاتم المعصومین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت ممتاز و جلیل القدر صحابی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آسمان نبوت کے وہ ستارے اور چمنستان محمدی ﷺ کے وہ پھول ہیں کہ جن کے بارے میں لوگ شک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں اور بعض اوقات ام المومنین حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں گستاخی بھی کر بیٹھتے ہیں(معاذاللہ) (1) ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو کسی کام مشورے کے لئے طلب فرمایا مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا ادعوا معاویہ احضرروہ امرکم فانہ قوی امین۔ یعنی معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلائو اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے۔(2) یبعث اﷲ تعالیٰ معاویۃ یوم القیمۃ و علیہ(3) اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ رضی اﷲ عنہ کو اٹھائے گا تو ان پرنور کی چادر ہوگی۔اہلم من امتی (تطہیر الجنان)ترجمہ: میری امت میں سے معاویہ رضی اﷲ عنہ سب سے زیادہ بردبار ہےاللھم املاہ علماء (ابن حجر الاصابہ ج 3ص 413)اے اﷲ معاویہ رضی اﷲ عنہ کو علم سے بھر دےیامعاویہ ان ولیت الامر فاتق اﷲ (بخاری جلد 1ص 409)اے معاویہ رضی اﷲ عنہ تمہارے سپرد امارت کی جائے تو تم اﷲ سے ڈرتے رہنااول جیش من امتی یغزو البحر فقد اوجیو (بحوالہ بخاری)میری امت کا سب سے بڑا لشکر جو بحری لڑائیوں کا آغاز کرے گا اس پر جنت واجب ہے۔ ابن اثیر اور تمام تاریخوں کے مطابق حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری بیڑے کا آغاز کیا اور مسلمان قوم سب سے پہلی مرتبہ بحری جہاد سے سرفراز ہوئی۔وعن ابی الدرداء قال مرائیت احد لعبد رسول اﷲ اشبہ صلاہ برسول من احدکم ہذا یعنی معاویہ (مجمع الزوائد للعلامہ نورالدین)حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کے بعد حضورﷺ سے زیادہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھانے والا امیر معاویہ کے سوا کوئی نہیں دیکھا۔ون عبداﷲ بن عمران معاویہ کان یکتب بین یدی رسول اﷲ (منبع الفوائد)ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ حضورﷺ کے سامنے بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی قیام گاہ یعنی آپ کے والد حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کا مکان آنحضرتﷺ کے لئے مشرکین مکہ کی ایذا رسانی سے پناہ گاہ ثابت ہوتا تھا چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات ابن سعد کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(الاصابہ ج 2ص 179‘ المتقی ص 253)اور نبی کو جب مشرکین مکہ اذیت و تکلیف پہنچاتے تو آپ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کے گر پناہ لیا کرتے تھے اسی احسان کا بدلہ اور شکریہ حضورﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر یہ اعلان فرمایا ’’من دخل دار ابی فہو امن‘‘ یعنی ابتدائے اسلام کی عسرتوں اور پریشانیوں میں جو مکان پناہ گاہ رسولﷺ بنا‘ آج جو شخص بھی اس میں پناہ حاصل کرے گا اسے امان دے دی جائے گی (مسلم شریف)رسول کریمﷺ نے فرمایا معاویہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو (لسان المیزان) لوگوں کو خبر دی جائے کہ امیر معاویہ جنتی ہیں (بحوالہ طبرانی)حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ بارہ خلفاء میں شامل ہیں جن کی بشارت رسول کریمﷺ نے دی (تطہیر الجنان ص 15)خود امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ وضو کرو جب ہم وضو کرچکے تو آپ نے فرمایا اے معاویہ! اگر تو خلیفہ بنایا جائے تو اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا عدل کرنا (تطہیر الجنان)رسول کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو نصیحت فرمائی‘ اے معاویہ جب تو ملک کا والی ہوجائے تو رعایا سے حسن سلوک کرنا (تطہیر علی العواصم ص208)حضرت شاہ ولی اﷲ رحمتہ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو ہدایت یافتہ اور ذریعہ ہدایت فرمایا اس لئے کہ انہوں نے مسلمانوں کا خلیفہ بننا تھا اور نبی امت پر شفیق ہے (از الۃ الخلفاء ‘ ج 1ص 573)نبی کریمﷺ نے فرمایا ! اے اﷲ معاویہ کو ملکوں کی حکومت عطا فرما۔(کنز العمال‘ ج 1‘ ص 19)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اور رسول خداﷺ کی ملاقات جنت کے دروازہ پر ہوگی (لسان المیزان ص 25)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر جبرئیل امین علیہ السلام نے سلام بھیجا (البدایہ والنہایہ)سیدنا امیر معاویہ کے بارے میں جبرئیل امین نے خیر کی وصیت کی (البدایہ والنہایہ)معاویہ کے لشکر کو بشارت جنت خود رسول خدا نے دی (مجمع الزوائد‘ ج 9 ص 357)حاصل کلامان احادیث سے ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں کبھی ان کے حق میں دعا کررہے ہیں۔مگر پروپیگنڈہ سے متاثر سنی نادان لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومت چھین لی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور امیر معاویہ کے (لشکر کے) مقتول جنتی ہیں مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ تھی۔ حضورﷺ دعا فرما رہے ہیں اے اﷲ معاویہ کو ہدایت پر رکھ‘ ہلاکت سے بچا اور دنیا اور آخرت میں اس کے گناہ بخش دے۔ پھر بھی بدبخت لوگ شبہ کرتے ہیں کہ معاویہ کے حق میں دعا بھلا کیسے قبول ہوتی ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں معاویہ جنتی ہیں اور یار لوگ یہ بات ناپسند کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ نادان لوگ غیر شعوری طور پر حضورﷺ کی مخالفت پر کیوں اتر آئے ہیں۔حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہحضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کی نظرمیںحضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جب امت میں تفرقہ اور فتنہ برپا دیکھو تو سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی اتباع کرو (بحوالہ البدایہ)حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیںکہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر کرو تو خیر سے کرو (ترمذی)حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ یقینا فقیہہ ہیں (البدایہ)حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ملکی حکومت کو زینت دینے والا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا (بحوالہ تاریخ بخاری)فاتح عراق و ایران حضرت سیدنا عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے بعد اس دروازے والے (معاویہ) سے زیادہ حق فیصلہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا (البدایہ والنہایہ‘ ج 7‘ص 123)حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا‘ حضرات خلفائے راشدین معاویہ رضی اﷲ عنہ سے افضل تھے اور معاویہ رضی اﷲ عنہ سرداری کی صفت میں ان حضرات سے بڑھ کر تھے (استعیاب ج 2‘ ص 263)حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا رسول کریمﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ سردار کوئی نہیںد یکھا (استعیاب ج 2‘ ص 262)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہحضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی اﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا۔ امارات معاویہ رضی اﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے (بحوالہ شرح عقیدہ واسطیہ)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے (البدایہ ج 8 ص 130)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا (البدایہ‘ ج 8ص 131)حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے (بحوالہ الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے رجوع کیا (بحوالہ موطا امام مالک)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا (تاج العروس ص 221)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا۔(بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہحضرت امام باقر نے کہا کہ امام حسن رضی اﷲ عنہ نے جو کچھ کیا وہ اس امت کے لئے ہر اس چیز سی بہتر تھا جس پر کبھی سورج طلوع ہوا (بحارا الانوار‘ ج 10ص 1641)حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ مشاہیر اسلام کی نظر میںحضرت امام مالک رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہم کو برا کہنا ہے۔(صواعق محرقہ ص 102)حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنت میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی۔(صواعق محرقہ ص 105)حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں (صواعق محرقہ ص 105)امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں۔(صواعق محرقہ ص 106)حضرت امام اعمش رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ رضی اﷲ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے تو تم کو معلوم ہوتا کہ حکمرانی اور انصاف کیا چیز ہے‘ لوگوں نے پوچھا کیا آپ ان کے حلم کی بات کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں! خدا کی قسم ان کے عدل کی بات کہہ رہاہوں (العواصم ص 333‘ اور المتقی ص 233)حضرت عوف بن مالک مسجد میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ خواب میں ایک شیر کی زبانی آواز آئی جو منجانب اﷲ تھی کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دے دی جائے (بحوالہ طبرانی)حضرت مجاہد نے کہا کہ اگر تم حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہ مہدی ہیں (البدایہ)قاضی عیاض رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ آنحضرتﷺ کے صحابی‘ برادر نسبتی‘ اور کاتب وحی ہیں جو آپ کو برا کہے اس پر لعنت ہو (البدایہ)امام ابن خلدون نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حالات زندگی کو خلفائے اربعہ کی ساتھ ذکر کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ آپ بھی خلیفہ راشد ہیں۔(تاریخ ابن خلدون‘ ج 2‘ص 1141)حضرت ملا علی قاری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ مسلمانوں کے امام برحق ہیں ان کی برائی میں جو روایتیں لکھی گئی ہیں سب کی سب جعلی اور بے بنیاد ہیں (موضوعات کبیر ص 129)امام ربیع بن نافع فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اصحاب رسول کے درمیان پردہ ہیں جو یہ پردہ چاک کرے گا وہ تمام صحابہ رضی اﷲ عنہما پر طعن کی جرات کرسکے گا (البدایہ ج 8‘ ص 139)علامہ خطیب بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ مرتبے میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے افضل ہیں لیکن دونوں رسول اﷲﷺ کے صحابی ہیں بلکہ مملکت اسلامیہ کے دوستوں میں سے ہیں ان کے باہمی اختلافات کے فتنہ کا تمام گناہ سبائی فرقہ پر ہے (البدایہ)ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آپ کی سیرت نہایت عمدہ تھی اور آپ بہترین عفو کرنے والے تھے اور آپ سب سے بہتر درگزر کرنے والے تھے اور آپ بہت زیادہ پردہ پوشی کرنے والے تھے (البدایہ ج 8‘ ص 126)حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خود اس شخص کو کوڑے مارے تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر سبو شتم کیا کرتا تھا (الصارم المسلول)حضرت معانی بن عمران سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ؟ انہوں نے کہا کیا تم ایک تابعی کا صحابی سے مقابلہ کرتے ہو (البدایہ)حضرت ابن عمران نے کہا کہ جو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برا بھلا کہے اس پر اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں کی لعنت ہو اور اس پر تمام مخلوقات کی لعنت ہو (البدایہ)حضرت قیصہ بن جابر اسدی فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر محبوب دوست اور ظاہر اور باطن کو یکساں رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا(تاریخ طبریٰ مترجم ج 5ص 175)حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے پورا کرنے میں خلیفہ عادل ہیں (مکتوبات دفتر اول ص 441)حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ نے لکھا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں کبھی بدظنی نہ کرنا اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بدگوئی کرکے ضلالت کا ورطہ نہ لینا۔جو شخص حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر طعن کرے‘ وہ جہنمی کتا ہے ایسے خنزیر شخص کے پیچھے نماز حرام ہے (ملفوظات اعلیٰ حضرت بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ)سوال: بعض لوگ جھوٹی بات گھڑتے ہیں کہ ایک دفعہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اپنے کندھوں پر یزید کو لے جارہے تھے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ جہنمی پر جہنمی سوار ہے (معاذ اﷲ)معلوم ہوا کہ یزید بھی دوزخی اور امیر معاویہ بھی دوزخی (نعوذ باﷲ)؟جواب: ماشاء اﷲ یہ ہے دشمن صحابہ کی تاریخ پر نظر اور یہ ہے ان کی نادانی کا حال۔دلیل: یزید کی پیدائش حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور حکومت میں ہوئی۔ دیکھو کتاب جامع ابن اثیر اور کتاب الناہیہ وغیرہ۔آپ نے تو حضورﷺ کے زمانہ میں یزید کو پیدا کردیا‘ کیا یزید عالم ارواح سے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے کندھے پر کود کر آگیا (لاحول ولاقوۃ) (کتاب امیر معاویہ صفحہ 88)سوال: بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو حضورﷺ نے بددعا دی‘ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث لاتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار مجھے حضورﷺ نے حکم دیا کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلائو‘ میں بلانے گیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ وہ کھا رہے ہیں تو فرمایا ان کا پیٹ نہ بھرے اور حضورﷺ کی دعا بھی قبول ہے اور خلاف دعا بھی چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو حضورﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے خلاف دعا کی۔ اس کا جواب دیں؟جواب: اعتراض کرنے والے نے اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی‘ کم از کم اتنی ہی بات سمجھ لی ہوتی کہ جو حضورﷺ گالیاں دینے والوں کو معاف کردیتے وہ حضورﷺ اس موقع پر حضرت امیر معاویہ کے خلاف کیوں دعا کرتے۔دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ سے یہ کہا بھی نہیں کہ آپ کو سرکارﷺ بلا رہے ہیں۔ صرف دیکھ کر خاموش واپس آئے اور حضورﷺ سے واقعہ عرض کیا۔تیسری بات یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا نہ کوئی قصور تھا نہ کوئی خطا اور حضورﷺ ان کے خلاف دعا کریں ‘ یہ ناممکن ہے۔اب اعتراضات کے جوابات سنتے ہیں کہ عرب میں محاورۃ اس قسم کے الفاظ پیارو محبت کے موقع پر بھی بولے جاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔مثلا: تیرا پیٹ نہ بھرے‘ تجھے تیری ماں روئے‘ وغیرہ کلمات غضب کے لئے نہیں بلکہ کرم کے لئے ارشاد ہوئے ہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ سرکار علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے خلاف بددعا کی تو بھی یہ بددعا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں رحمت بنی‘ اﷲ تعالیٰ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو اتنا بھرا اور اتنا مال دیا کہ انہوں نے سینکڑوں کا پیٹ بھر دیا۔ ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھوں لاکھوں … انعام دیتے کیونکہ حضورﷺ نے اپنے رب عزوجل سے عہد لیا تھا کہ اے اﷲ تعالیٰ اگر میں کسی مسلمان کو بلاوجہ لعنت یا اس کے خلاف دعا کروں تو اسے رحمت اجر اور پاکی کا ذریعہ بنا دینا۔حدیث: حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا‘ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ فرمایا‘ حضورﷺ نے کہ اے اﷲ تعالیٰ جس کسی کو برا کہہ دوں تو قیامت میں اس کے لئے اس بد دعا کو قرب کاذریعہ بنا (بحوالہ مسلم شریف)اب سمجھ میں آگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کاتب وحی‘ عاشق رسو ل ﷺ اور جید صحابی ہیں۔سوال: شہدائے کربلا کے سلسلے میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ پر اہل بیت کی دشمنی کا الزام لگایا جاتا ہے حالانکہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ محب اہل بیت تھے؟جواب: اس سوال کا جواب مسلک اہل سنت کی سینکڑوں کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اہل بیت سے سچی محبت کرتے تھے لیکن اس کا جواب ہم شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں سے دیتے ہیں۔شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے:’’حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضورﷺ سے ہے۔ تجھے معلوم ہے کہ حضورﷺ کے بدن کے ٹکڑے ہیں۔ حضورﷺ کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا‘ ان کا مرتبہ جو حضورﷺ سے ہے اس کو یاد رکھنا‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا‘‘ (جلاء العیون جلد دوم ص 421,422)صاحب ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے مزید کو یہ وصیت فرمائی۔’’کہ اے بیٹا! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب اﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا خون نہ ہو۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا‘‘غور کیجئے! حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ‘ یزید کو یہ وصیت کررہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کا کیا قصور؟حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید‘ شرابی‘ ظالم اور امام حسین رضی اﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے؟الحمدﷲ! ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ شان حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کتنی بلند ہے۔ ان دلائل سے ان لوگوں کو عقل کے ناخن لینے چاہئے جو علم نہ ہونے کی وجہ سے بکواس کرتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکھیں‘ خصوصا واعظین اور خطباء جو جوشِ خطابت میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو باغی کہہ دیتے ہیں اور ذرا بھی ادب و لحاظ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ احتیاط کریں۔ اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مابین جنگ سے متعلق سوال بھی کرے تو حکمت عملی سے یہ کہہ کر عوام اہلسنت کو مطمئن کردیں کہ ہمارے لئے دونوں ہستیاں لائق احترام و تعظیم ہیں لہذا ہمیں اپنی زبانوں کو بند رکھنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارا ایک جاہلانہ بول بروز قیامت ہمیں مہنگا نہ پڑ جائے۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا فرمان ہمارے لئے کافی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر کرو تو خیر سے کروسادات کرام بھی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق اپنی زبان کو لگام دیں اور اپنی نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی شان میں گستاخی سے بچیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے پیاروں کی شان میں گستاخی سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین
गुरुवार, 13 जुलाई 2017
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم کی فہرست
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم کی فہرست
امام اہل سنت مجدد دین و ملت کشتہء عشق رسالت شیخ الاسلام و المسلمین امام عاشقان حضرت امام محمد احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ علم و دانش کے سمندر تھے۔ ان کے علم کی ایک جھلک دیکھ کر علمائے عرب و عجم بھی حیران رہ گئے
امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں :
چند حقائق و شواہد ملاحظہ فرمائیں
مولوی فخر الدین مراد آبادی دیوبندی نے کہا، کہ :۔ مولانا احمد رضا خان سے ہماری مخالفت اپنی جگہ تھی مگر ہمیں ان کی خدمت پر بڑا ناز ہے۔ غیر مسلموں سے ہم آج تک بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے تھے کہ دنیا بھر کے علوم اگر کسی ایک ذات میں جمع ہو سکتے ہیں۔ تو وہ مسلمان ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ دیکھ لو مسلمانوں ہی میں مولوی احمد رضا خان کی ایسی شخصیت آج بھی موجود ہے جو دنیا بھر کے علوم میں یکساں مہارت رکھتی ہے ہائے افسوس کہ آج ان کے دم کے ساتھ ہمارا فخر بھی رخصت ہو گیا۔ (بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116)
سعید احمد اکبر آبادی
دیوبندی مشہور عالم سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں:۔ مولانا احمد رضا صاحب بریلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زبردست صلاحیت کے مالک تھے ان کی عبقریب کا لوہا پورے ملک نے مانا۔ (ماہنامہ برہان دہلی اپریل 1974ء بحوالہ امام احمد رضا اور رَد بدعات و منکرات صفحہ 34)
اب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و فنون کی فہرست ملاحظہ فرمائیں
1_قرأت(Recitation of the Holy Quran)
2_تجوید(Phonography Spelling)
3_تفسیر(Explanation of Quran)
4_اصولِ تفسیر(Principal of Explanation)
5_رسم الخط القرآن(Calligraphy of Quranic) letters
6_علم حدیث(Tradition of the Holy Prophet)
7_اصول حدیث(Principal of Allah's Messenger's Tradition)
8_اسانید حدیث(Documentry Proof of Traditions Citation of Authorities)
9_اسماء الرجال(Cyclpedia of Narrator Tradition Branch of knowledge Judging Merits)
10_جرح و تعدیل(Critical Examination)
11_تخریج احادیث(References to Traditions)
12_لغت حدیث(Colloquial Language of Traditions)
13_فقہ(Islamic Law)
14_اصول فقہ(Islamic Jurisprudence)
15_رسم المفتی(Legal Opinion Judicial Verdict)
16_علم الفرائض(Law of Inheritance and Distribution
17_علم الکلام(Scholastic Philosophy)
18_علم العقائد(Article of Faith)
19_علم البیان(Metaphor)
20_علم المعانی(Rhetoric)
21_علم البلاغت(Figure of Speech)
22_علم المباحث(Dialectics)
23_مناظرہ(Polemic)
24_علم الصرف(Etymology Morphology)
25_علم النحو(Syntax - Arabic Grammer)
26علم الادب(Literature)
27_علم العروض(Science of Prosody)
28_علم البرو البحر(Ilm-ul-Barr-Wal-Baher)
29_علم الحساب(Airthmetic)
30_ریاضی(Mathemetic)
31_زیجات(Astronomical Tables)
32_تکسیر(Fractional Numeral Maths)
33_علم الہندسہ(Geometry)
34_جبر ومقابلہ (الجبرائ)(Algebra)
35_مثلثات (مسطح وکروی)(Trigonometry)
36_ارثما طیقی(Greek Airthmetic)
37_علم تقویم(Almanac)
38_لوگارتھم(Logarithm)
39_علم جفر(Numerology)
40_رمل(Geomancy)
41_توقیت(Reckoning of Time)
42_اوفاق (علم الوفق)
43_نجوم (Astrology)
44_فلکیات(Study in form of Heavens)
45_ارضیات(Geology)
46_علم مساحت الارض(Geodesy Survey - Menstruation)
47_جغرافیہ(Geography)
48_طبیعات(Physics)
49_مابعد الطبیعات(Metaphysics)
50_کیمیا(Chemistry)
51_معدنیات(Mineralogy)
52_طب و حکمت(Indigenous System of Medicine)
53_ادویات(Pharmacology)
54_نباتات(Botany)
55_شماریات(Statistics)
56_اقتصادیات(Political Economy)
57_معاشیات(Economics)
58_مالیات(Finances)
59تجارت(Trade - Commerce)
60_بنکاری(Banking)
61_زراعت(Agricultureal Study)
62_صوتیات(Phonoetics - Phonology)
63_ماحولیات(Ecology - Environment)
64_سیاسیات(Politics - Strategy)
65_موسمیات(Meterorology)
66_علم الاوزان(Weighing)
67_شہریات(Civics)
68_علم عملیات(Practicalism)
69_سیرت نگاری(Bio Graphy of Holy Prophet)
70_حاشیہ نگاری(Citation)
71_نثر نگاری(Composition)
72_تعلیقات(Scholia)
73_تشریحات(Detailed Comments)
74_تحقیقات(Research Study)
75_تنقیداتCritiqe Philosophy)
76_ردّات(Rejection)
77_شاعری(Poetry)
78_حمدو نعت(Hamd - wa - Naat)
79_فلسفہ (قدیم و جدید(Philosophy)
80_منطق(Logic)
81_تاریخ گوئی(Compose Achronogram)
82_علم الایام
83_تعبیر الرویاء(Interpretation of Dreams)
84_(رسم الخط نستعلیق، شکستہ و مستقیم)
85_استعارات(Figuration)
86_خطبات(Oratory)
87_مکتوبات(Letters)
88_ملفوظات(Articulates)
89_پندو نصائح(Homily)
90_اذکار (اوراد و وظائف)Prayers and Supplications)
91_نقوش و تعویزات و مربعات
92_علم الادیان(Comparative Religions)
93_ردّ موسیقی(Refutation of the Music)
94_عمرانیات(Socialogy)
95_حیاتیات(Biology)
96_مناقب(Manaqib)
97_علم الانساب(Genealogy)
98_فضائل(Preference Study)
99_زائرچہ و زائچہ(Horoscopes)
100سلوک(Sulook)
101_تصوف(Mystagology)
102_مکاشفات(Spiritual Study)
103_علم الاخلاق(Ethics)
104_تاریخ و سیر(History & Biography)
105_صحافت(Journalism)
106_حیوانیات(Zoology)
107_فعلیات(Physiology)
108_علم تخلیق کائنات(Cosmology)
109_نفسیات(Psychology)
110_علم البدیع(Science Dealing with Rhetorical - Divices)
111_لسانیات(Linguistics - Languages, Philology)
112_نظم عربی و فارسی و ہندی(Arabic, Persian & Hindi Peotry)
113_نثرعربی و فارسی و ہندی(Arabic, Persian & Hindi Composition)
114_ھئیت (قدیم و جدیدہ)Old & Modern Astronomy)
115_ارضی طبیعات(Geo Physics)
116_علم خلیات(Cytology)
117_قانون(Law)
118_علم الاحکام(References of Ordinances)
119علم قیافہ(Physiognomy)
120_سالماتی حیاتیات(Molecular Biology)
امام اہل سنت مجدد دین و ملت کشتہء عشق رسالت شیخ الاسلام و المسلمین امام عاشقان حضرت امام محمد احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ علم و دانش کے سمندر تھے۔ ان کے علم کی ایک جھلک دیکھ کر علمائے عرب و عجم بھی حیران رہ گئے
امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں :
چند حقائق و شواہد ملاحظہ فرمائیں
مولوی فخر الدین مراد آبادی دیوبندی نے کہا، کہ :۔ مولانا احمد رضا خان سے ہماری مخالفت اپنی جگہ تھی مگر ہمیں ان کی خدمت پر بڑا ناز ہے۔ غیر مسلموں سے ہم آج تک بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے تھے کہ دنیا بھر کے علوم اگر کسی ایک ذات میں جمع ہو سکتے ہیں۔ تو وہ مسلمان ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ دیکھ لو مسلمانوں ہی میں مولوی احمد رضا خان کی ایسی شخصیت آج بھی موجود ہے جو دنیا بھر کے علوم میں یکساں مہارت رکھتی ہے ہائے افسوس کہ آج ان کے دم کے ساتھ ہمارا فخر بھی رخصت ہو گیا۔ (بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116)
سعید احمد اکبر آبادی
دیوبندی مشہور عالم سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں:۔ مولانا احمد رضا صاحب بریلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زبردست صلاحیت کے مالک تھے ان کی عبقریب کا لوہا پورے ملک نے مانا۔ (ماہنامہ برہان دہلی اپریل 1974ء بحوالہ امام احمد رضا اور رَد بدعات و منکرات صفحہ 34)
اب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و فنون کی فہرست ملاحظہ فرمائیں
1_قرأت(Recitation of the Holy Quran)
2_تجوید(Phonography Spelling)
3_تفسیر(Explanation of Quran)
4_اصولِ تفسیر(Principal of Explanation)
5_رسم الخط القرآن(Calligraphy of Quranic) letters
6_علم حدیث(Tradition of the Holy Prophet)
7_اصول حدیث(Principal of Allah's Messenger's Tradition)
8_اسانید حدیث(Documentry Proof of Traditions Citation of Authorities)
9_اسماء الرجال(Cyclpedia of Narrator Tradition Branch of knowledge Judging Merits)
10_جرح و تعدیل(Critical Examination)
11_تخریج احادیث(References to Traditions)
12_لغت حدیث(Colloquial Language of Traditions)
13_فقہ(Islamic Law)
14_اصول فقہ(Islamic Jurisprudence)
15_رسم المفتی(Legal Opinion Judicial Verdict)
16_علم الفرائض(Law of Inheritance and Distribution
17_علم الکلام(Scholastic Philosophy)
18_علم العقائد(Article of Faith)
19_علم البیان(Metaphor)
20_علم المعانی(Rhetoric)
21_علم البلاغت(Figure of Speech)
22_علم المباحث(Dialectics)
23_مناظرہ(Polemic)
24_علم الصرف(Etymology Morphology)
25_علم النحو(Syntax - Arabic Grammer)
26علم الادب(Literature)
27_علم العروض(Science of Prosody)
28_علم البرو البحر(Ilm-ul-Barr-Wal-Baher)
29_علم الحساب(Airthmetic)
30_ریاضی(Mathemetic)
31_زیجات(Astronomical Tables)
32_تکسیر(Fractional Numeral Maths)
33_علم الہندسہ(Geometry)
34_جبر ومقابلہ (الجبرائ)(Algebra)
35_مثلثات (مسطح وکروی)(Trigonometry)
36_ارثما طیقی(Greek Airthmetic)
37_علم تقویم(Almanac)
38_لوگارتھم(Logarithm)
39_علم جفر(Numerology)
40_رمل(Geomancy)
41_توقیت(Reckoning of Time)
42_اوفاق (علم الوفق)
43_نجوم (Astrology)
44_فلکیات(Study in form of Heavens)
45_ارضیات(Geology)
46_علم مساحت الارض(Geodesy Survey - Menstruation)
47_جغرافیہ(Geography)
48_طبیعات(Physics)
49_مابعد الطبیعات(Metaphysics)
50_کیمیا(Chemistry)
51_معدنیات(Mineralogy)
52_طب و حکمت(Indigenous System of Medicine)
53_ادویات(Pharmacology)
54_نباتات(Botany)
55_شماریات(Statistics)
56_اقتصادیات(Political Economy)
57_معاشیات(Economics)
58_مالیات(Finances)
59تجارت(Trade - Commerce)
60_بنکاری(Banking)
61_زراعت(Agricultureal Study)
62_صوتیات(Phonoetics - Phonology)
63_ماحولیات(Ecology - Environment)
64_سیاسیات(Politics - Strategy)
65_موسمیات(Meterorology)
66_علم الاوزان(Weighing)
67_شہریات(Civics)
68_علم عملیات(Practicalism)
69_سیرت نگاری(Bio Graphy of Holy Prophet)
70_حاشیہ نگاری(Citation)
71_نثر نگاری(Composition)
72_تعلیقات(Scholia)
73_تشریحات(Detailed Comments)
74_تحقیقات(Research Study)
75_تنقیداتCritiqe Philosophy)
76_ردّات(Rejection)
77_شاعری(Poetry)
78_حمدو نعت(Hamd - wa - Naat)
79_فلسفہ (قدیم و جدید(Philosophy)
80_منطق(Logic)
81_تاریخ گوئی(Compose Achronogram)
82_علم الایام
83_تعبیر الرویاء(Interpretation of Dreams)
84_(رسم الخط نستعلیق، شکستہ و مستقیم)
85_استعارات(Figuration)
86_خطبات(Oratory)
87_مکتوبات(Letters)
88_ملفوظات(Articulates)
89_پندو نصائح(Homily)
90_اذکار (اوراد و وظائف)Prayers and Supplications)
91_نقوش و تعویزات و مربعات
92_علم الادیان(Comparative Religions)
93_ردّ موسیقی(Refutation of the Music)
94_عمرانیات(Socialogy)
95_حیاتیات(Biology)
96_مناقب(Manaqib)
97_علم الانساب(Genealogy)
98_فضائل(Preference Study)
99_زائرچہ و زائچہ(Horoscopes)
100سلوک(Sulook)
101_تصوف(Mystagology)
102_مکاشفات(Spiritual Study)
103_علم الاخلاق(Ethics)
104_تاریخ و سیر(History & Biography)
105_صحافت(Journalism)
106_حیوانیات(Zoology)
107_فعلیات(Physiology)
108_علم تخلیق کائنات(Cosmology)
109_نفسیات(Psychology)
110_علم البدیع(Science Dealing with Rhetorical - Divices)
111_لسانیات(Linguistics - Languages, Philology)
112_نظم عربی و فارسی و ہندی(Arabic, Persian & Hindi Peotry)
113_نثرعربی و فارسی و ہندی(Arabic, Persian & Hindi Composition)
114_ھئیت (قدیم و جدیدہ)Old & Modern Astronomy)
115_ارضی طبیعات(Geo Physics)
116_علم خلیات(Cytology)
117_قانون(Law)
118_علم الاحکام(References of Ordinances)
119علم قیافہ(Physiognomy)
120_سالماتی حیاتیات(Molecular Biology)
बुधवार, 12 जुलाई 2017
اللہ تعالٰی کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا جائز نہیں ___________________________________________ بعض لوگ توحید کے نشہ میں اللہ تعالٰی سے محبت کے اظہار پر ایسی فاحش غلطیاں کر جاتے ہیں جو لنائر سے آگے بڑھ کو شائبہ کفر کی حد میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کا انہیں شعور تک نہیں ہوتا بلکہ اپنے تئیں وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالٰی سے محبت کا حق ادا کر دیا مثلاً مزے لے لے کر اللہ میاں فرماتے ہیں وغیرہ کہتے ہیں ایک اللہ تعالٰی کو میاں کہہ کر گناہ کے مرتب ہوئے دوسرا اللہ تعالٰی پر صیغہء جمع اطلاق کر کے توحید کے منافی و بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس تحریر میں صرف اسی پر بحث ہو گی ( انشا ء اللہ تعالٰی) صیغہ جمع اللہ تعالٰی پر اطلاق اسلاف صالحین نے نہیں کیا۔ اعلٰیحضرت امام اہلسنت شاہ احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ اسے توحید کے منافی سمجھ کر ہمیشہ اپنی تصانیف میں واحد کا صیغہ استعمال فرماتے ہیں بعض لوگ بدعت کی خرابی کی پرواہ کئے بغیر محض امام اہلسنت رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے خلاف صیغہ جمع کے اطلاق کو اللہ تعالٰی کی تعظیم کا خیال تصور کرتے ہیں آئندہ اوراق میں اس کی علمی تحقیق پیش کر کے اہل اسلام سے اپیل کرتا ہوں کہ توحید کو ہر شائبہ شرکت سے منزہ رکھنا ضروری ہے اسی لئے اللہ تعالٰی پر جمع کے صیغہ کے اطلاق سے پرہیز کریں۔ حقیقتہ تعظیم اللہ تعالٰی کے لیے لا حق ہے اسی لئے ہر تعظیم اللہ تعالٰی کوسجتی ہے جانوروں کی تعظیم اس کی عطا کردہ ہے اسی لے صیغہ جمع اللہ تعالٰی کے لے بھی تعظیم کی ایک صورت ہے اور اللہ تعالٰی کی تعظیم ہی کانام عبادت ہے اور عبادت تعظیم کی آخری سطح ہے- مفسرین قرآن کے نزدیک عبادت تعظیم ہی کی ایک صورت ہے۔ 1) امام فخرالدین رازی کا قول ھے العبادۃ عبادۃ عن الذی یو تی بہ بغرض تعظیم الغیر وھی لا تلیق بمن صدر عنہ غایۃ الانعام (تفسیر کبیر،ج اول) عبادت ایک ایسا فعل ہے، جودوسرے کی تعظیم کے لئے کیا جائے اور صرف اسی کے لئے سزاوارہے، جس سے انتہائی انعام ظاہر ہو- 2) شیخ علی المھائمی کہتے ہیں العبادۃ تذالل للغیر عن اختیار لغایۃ تعظیمہ (تفسیر مہائمی ج اول) عبادت کا مطلب ہے،دوسرےکی تعظیم کے لئے اپنےارادے سے اُس کےآگے پست ہونا یا جھکنا۔ 3) نیشا پوری کے نزدیک بھی عبادت کا یہی مطلب ہے ان العبا ر۔ۃ عبا۔ۃ عن نھایۃ التعظیم خلا تلیق الامن صدر من غایۃ الانعام وھواللہ تعالٰی ( غرایب القرآن بر حاشیہ ابن جریر، ج اول ) عبادت انتہائی تعظیم سے عبارت ہے، یہ اسی کے لئے سزا وار ہو سکتی ہے، جس سے انتہائی انعام ظاہر ہوا ہو اور ایسی ہستی اللہ تعالٰی ہے عبادت کا تقریبًا یہی مفہوم بعض دوسرے مفسرین کے ہاں بھی آیا ہے۔ اس اعتبار سے سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کی تعظیم نہ ہو لیکن اللہ تعالٰی نے ازراہ کرام اپنی مخلوق کو بھی عبادت کے سوا باقی ہمہ قسم کی تعظیم کی نہ صرف اجازت بخشی ہے بلکہ حکم فرمایا ہے چنانچہ اپنے لئے فرمایا اور اپنے بندوں کے لئے عزت کی خبر دی کہ۔ اللہ العزۃ والرسولہ اللمؤمنین ولکن المنافقین حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے خصوصیت سے اور نہایت سخت تاکید فرمائی ہے۔ انا ارسلناک شاھد و مبشرو نذیر التو منو اباللہ وتعزروہ وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ واصیلا ( 126 الفتح ) اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی ان کی تعریف فرمائی چناچہ فرمایا۔ فالذین آمنو ابہ و عزروہ ونصروہ واتبعو النور الذی انزل معہ اولیک ھم المفلحون (پ 9 الاعراف نمبر 157) بلکہ وہ اشیاء تک معظم و مکرم بنا دیں جو اس کے پیارے بندوں سے منسوب ہیں ۔ مثلا فرمایا ان الصفا و المروۃ من شعار اللہ ( 117 الحج) پھر ان شعائر کی تعظیم و تکریم کرنے والوں کو خصوصی انعامات سے نوازا اور ان کی تعریف فرمائی چناچہ فرمایا ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب اسی لئے اہل اسلام کعبہ معظمہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اس کا طواف کرنا اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا یہاں تک ہزاروں میل دوری کے باوجود اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی طرف منہ کر کے پیشاب وغیرہ کرتے ہیں بلکہ دور سے قبلہ کی طرف تھوکنے والے کے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے سے روک دیا۔ بہر حال اللہ تعالٰی کی تعظیم فرض ہے اور وہ عبادت اس کے سوا اللہ کے مخلوق کی تعظیم بھی ضروری ہے جسے اللہ نے معظم و مکرم بنایا ہے افسوس نام نہاد توحید پرستوں پر کہ انہوں نے محبوبان خدا کی تعظیم و تکریم کو شرک کے فتوے جڑ دئیے اور اس غلط توحید میں ایسے غرق ہو گئے جو امور اہل اسلام کو ضروری تھے انہیں بھی صاحبان نے شرک کر کے فتویٰ سے نوازا۔ اس کے آگے بڑھے توحید کے نشہ میں بعض موہم شرک باتوں کو توحید بنا دیا مثلاً اللہ وحدہ لاشریک ہے اس کے لئے لا شعوری میں تعظیم کی نیت پر اس کے کئی شریک ملا دئے میری مراد یہ ہے کہ اپنی روزمرہ کی استعمالات میں اللہ تعالٰی پر صیغہ جمع استعمال کرنا شروع کر دیا مثلاً اللہ تعالٰی فرماتے ہیں وغیرہ یہ اگر چہ حقیقی شرک نہیں لیکن شرک کی بو ضرور آتی ہے اسی لیے اللہ کے لیے اپنی استعمالات میں صیغہ واحد لانا چاہئے اور صیغہ جمع سے بچنا لازمی ہے چند دلائل حاضر ہیں۔ دلائل : اپنی روز مرہ کی زندگی میں جب ہم کسی شخص کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں تو ہر طریقہ سے اس کی تعظیم کرنا ضروری سمجھتے ہیں ایک طریقہ علمی تعظیم کا ہے اس کے احکام کی تعمیل کرنے کے علاوہ ہر ایسی حرکت سے اجتناب کرتے ہیں جسے نافرمانی پر محمول کیا جا سکے- دوسرا طریقہ تعظیم باللسان کا ہے کہ جب اسے مخاطب کیا جائے یا اس کا غائبانہ ذکر کیا جائے تو ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جائے اس صورت میں ہم جمع تعظیمی کے صیغہ استعمال کرتے ہیں، جیسے آپ کب تشریف لائیں گے، انہوں نے جھوٹ بولنے سے منع کیا، مولانا فرماتے ہیں وغیرہ- 1- اللہ تعالٰی کی عملی تعظیم کی صورت تو یہی ہو گی کہ اس کے احکام بجا لائے جائیں لیکن باللسان کی وہ صورت نہیں ہو گی جو انسانوں کے لئے روارکھی جاتی ہے یہاں جمع تعظیمی کا استعمال جائز نہیں کیوں کہ جمع تعظیمی کہ معنی بھی پہنائے جا سکتے ہیں، اور عقیدہ توحید کا بھی وا ضح طور پر اعلان نہیں ہو سکتا- حالانکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ ہمارے عمل ہی سے نہیں زبان سے بھی اس کی وحدانیت کا برابر علاج ہوتا ہے- 2- فقہائے کرام نے ہمیشہ یہ احتیاط کی ہے کہ اللہ تعالٰی کے ذکر میں زبان سے کوئی ایسا کلمہ ادا نہ ہو نے پائے جو اس کی عظمت و جلال کے منافی ہو یا جس سے کوئی ایسا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہو جسے اس کی حقیقی صفات کے سوا کسی دوسری صفت پر بھی محمول کیا جا سکے- مثال کے طور پر قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کے لئے ہر جگہ مذکورہ کا صیغہ ہی آیا ہے اس کے وضعی ناموں میں بھی تذکیر ہی پائی جاتی ہے- اس سے یہ اصول مستنبط کیا گیا ہے کہ اس کی ذات پاک کے لیے کوئی ایسا وصفی نام استعمال نہ کیا جائے جو اگرچہ عام طور پر مذکر کے معنی دیتا ہو، لیکن اس میں تانیث کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو، خدا تعالٰی کا ایک وضعی نام علاٌم ہے اب باوجود یہ کہ علامہ بھی عربی زبان میں بالکل علام ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ علام اور علامہ دونوں صفت مبالغہ کے صیغہ میں اور دونوں مذکر ہی کے لئے مستعمل بھی ہیں، لیکن علامہ اللہ تعالٰی کے لئے استعمال نہیں ہوتا- کیونکہ اس کے آخر میں تائے فوقانی ہے، جو اگر چہ مبالغہ کے لئے آئی ہے لیکن اس میں تانیظ کا شائبہ پایا جاتا ہے- فائدہ۔1 اسی قاعدہ کے مطابق اللہ تعالٰی کے لیے جمع تعظیمی کا استعمال بھی ناجائز ہو گا کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے 3۔ منشائے الٰہی بھی یہی ہے کہ اللہ تعالٰی کے لئے صیغہءواحد ہی استعمال ہونا چاہیے دوسرا کوئی صیغہ جائز نہ ہو کیونکہ وہ کلمات جو اللہ تعالٰی نے آدم اور اس کی زوج کو ان کی لغزش کے بعد سکھائے یہ حوالہ اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ آدم اور اس کی زوج کو پہلے انسانی جوڑے کی حیثیت بھی حاصل ہے اور عالم انسانی کی علامت بھی۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین (البقرۃ) “ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہماری بخشش نہ کی اور ہم پر رحم نہ کیا تو البتہ ہم نے گھاٹا کھانے والوں میں ہو جائیں گے“۔ فائدہ 2 یہ دعا آدم اور اس کی زوج کو خود اللہ تعالٰی نے سکھائی تھی کیونکہ انہیں دعا مانگنے کا طریقہ معلوم نہ تھا انہیں سمجھایا گیا کہ دعا مانگتے وقت پہلے ان کو اپنے قصور کا اعتراف اور اس کے بعد بخشش و رحمت کے لیے التجاء کرنی چاہیے کیونکہ بخشش و رحمت سے محرومی خسارے کا باعث ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا گیا کہ انہیں اپنے پروردگار کو ہمیشہ صیغہ واحد سے مخاطب کرنا ہوگا ، اس کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا جائز نہیں ، چاہے اس کا مقصد تعظیم ہی کیوں نہ ہو ، دیکھئے اللہ تعالٰی نے اپنے لئے صیغہ واحد کی تعلیم دی ہے ورنہ وہ خود جمع کا صیغہ سکھاتا۔ 4۔ انبیاءعلیہم السلام نے بھی یہی تعلیم دی ہے کیونکہ اس حقیقت میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ خدا کے یہ بر گزیدہ بندے عام انسانوں کے مقابلے میں اللہ تعالٰٰی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور قربت ہی کی وجہ سے ان میں اس کی عظمت و جلال کا گہرا احساس پایا جاتا ہے اس کا ثبوت ان کی اس عبارت سے بھی ملتا ہے جسے بندگی کہا جاتا ہے اور اس سے بھی جسے پرستش کہتے ہیں اور جو ذکر و صلوۃ کی صورت میں معلوم ہے لیکن اس مقام پر پہنچنے کے باوجود کوئی بھی پیغمبر اللہ تعالٰی کے لیے جمع تعظیمی کا استعمال روا نہیں رکھتا۔ بلکہ بلا استشناء تمام نبی اور رسول اس سے خطاب کرتے وقت یا اس کا ذکر کرتے قت صیغہ واحد ہی استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید سے اس دعوے کی ثبوت کے طور ہر ساری عبارتیں نقل کی جائیں تو یہ تحریر بہت طویل ہو جائے گی ان چند خاص الخاص حوالوں پر اکتفا کرنا مناسب ہو گا۔ 1۔ حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالٰی سے کفار کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا انک ان تذرھم یضلو عبادک ولا یلدو الا فاجرا کفار ( نوح29 ص 66۔27) ترجمہ: اے پروردگار ! کفار میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ چھوڑا اگر تونے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کے ہاں فاجر اور کفار ہی پیدا ہوں گے۔ 2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہل و عیال کو بیت اللہ کے جوار میں بساتے وقت دعا کرتے ہیں۔ ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیمو الصلوٰۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارقھم من الثمٰرٰات لعم یشکرون (113 ابراہیم نمبر 26) اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو اس غیر زرعی زمین میں تیرے حرم والے گھر کے پاس بسایا ہے اے پروردگار تاکہ وہ نماز قائم کریں پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اور ان کو پھلوں میں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر گزار ہوں 3: حضرت موسٰی علیہ السلام کو براہ راست اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہو نے کا شرف حاصل ہوا۔ وکلم اللہ موسٰی تاکلیما وہ طور سینا کی طرف آگ کرتے پھر رہے تھے کہ آواز آئی - “ اے موسٰی میں تمھارا پروردگار ہوں، تم اس وقت وادی مقدس میں ہو اپنی جوتیاں اتار ڈالو“ اب اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ انتہائی ادب و تعظیم کا محل تھا اور اسی وجوہ سے پیشتر اس کے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کوئی بات کرتے انہیں ماحول کے تقدس اور موقع کی اہمیت سے آگاہ کر دیا گیا یہ بھی حکم ہوا کہ جو تیاں اتار ڈالو، لیکن یہ بالکل نہیں کہا گیا کہ اپنے رب کے لئے ازراہ تعظیم جمع کا صیغہ اس موقع پر خدا تعالٰی نے پوچھا موسٰی تمھارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ اس کے جواب میں صرف “عصا “ کہنا کافی تھا لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس مختصر جواب پر اکتفا نہ کیا اور کہا “ یہ میرا عصا ہے، چلنے میں اس کا سہارا لیتا ہوں، اس سے اپنی بھیڑ بکریوں کے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں، اور اس سے اور بھی طرح طرح کے فائدے اٹھاتا ہوں۔“ موسٰی علیہ السلام اس عالم حضوری میں بھی ، جب ان کو منصب رسالت سے سر فراز کیا جا رہا ہے حضرت موسٰی علیہ السلام خداتعالٰی کو صیغہ واحد ہی سے مخاطب کرتے ہیں جمع کا صیغہ کہیں استعمال نہیں کرتے۔ قال رب اشرح لی صدری و یسرلی امری وحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی واجعل لی وزیرا من اھلی ھارون اخی اشدد بہ ازری واشرکہ فی امری (طہ آیت 25-33) “ میرے رب! میرے واسطے میرا سینہ کھول دے اور آساں کر دے، میری زبان کی گرہ بھی کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور ہارون کو جو میرے اہل میں سے ہے اور میرا بھائی ہے ، میرا نائب مقرر کر ( اور اس کے ذریعے ) میری قوت کو مضبوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر!“ 3۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ تعالٰی کے انعامات کا ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں: قال انی عبداللہ ط اتنی الکتب و جعلنی نبیا و جعلنی مبار کا این ماکنت واو صنی بالصلوۃ الزکو ۃ مادمت حیا و برا بو الدتی ولم یجعلنی جبار شقیا ( مریم ) کہا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی اور اس نے مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں، مجھے برکت والا بنایا اور اس نے مجھے جب تک میں زندہ ہوں، نماز قائم کرنے، زکٰوۃ دینے، اپنی ماں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے ستم گر اور بد بخت نہیں بنایا۔ 4۔ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی اپنے پیشتر انبیاء کی اس سنت کو برقرار رکھا اور اللہ تعالٰی کے لیے ہر حال میں صیغہ واحد ہی استعمال کیا یہ حقیقت اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک موقع پر اللہ تعالٰی کے لیے صیغہء واحد استعمال فرمایا ہے۔ عبادت میں بھی دعاؤں میں بھی استغفار اور دیگر جملہ امور و احادیث مبارکہ میں مفصل مذکور ہیں بہر حال حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے لئے ہمیشہ صیغہ واحد استعمال فرمایا ہے یہاں پر ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔ رب ادخلنی مدخل صدق واخر جنی مخرج صدق من الذک سلطانا نصیرا اے پروردگار مجھے سچائی کے ساتھ داخل کر، نکال اور مجھے اپنے پاس سے عطا کر، ایک یہ کہ درگزر اور انعام کا خواست گار ہو، جیسا کہ آدم اور اس کی زوج کی دعا سے ظاہر ہے اور وہ اللہ تعالٰی سے بلا واسطہ ہم کلام ہو، جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو اس قسم کا عطا کیا گیا اور تیسرے وہ کسی ایسی مشکل اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو کہ اللہ تعالٰی کی نصرت اور توفیق کے بغیر عہدہ بر آ ہونا محال نظر آئے جیسا کہ حضور علیہ اسلام کی ہجرت کو جو آپ کو نہایت مجبوری کے عالم میں کرنی پڑی۔ لیکن تینوں حالتوں میں ایک بھی ایسا تعظیمی کلمہ نہیں کیا جاتا جس سے واحدانیت عظمت کے پس پردہ چلی جائے۔ قصہ مختصر، انبیاء کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالٰٰی کے لیے صیغہ واحد ہی استعمال کیا جائے، جمع کا صیغہ چاہے وہ تعظیم ہی کے لیے کیوں نہ ہو، جائز ثابت نہیں ہو تا کہا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں جمع تعظیمی نہیں آتی لیکن یہ درست نہیں کیوں کہ قرآن مجید ہی میں اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کے لیے بار جمع تعظیمی استعمال کی ہے جس سے کلام کی تاکید پیدا کرنے کے علاوہ عظمت ایزو تعالٰی کا اظہار مقصود ہے اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو خود جمع کا صیغہ استعمال فرماتا یا کسی بندے کی زبان سے کسی نہ کسی موقع پر ایسے کلمات کہلوائے ہوتے جو اس کے لیے جمع تعظیمی کے استعمال کا جواز ثابت ہوتے۔ آخر میں اتنی بات کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جمع تعظیمی پر صرف اردو، کا اجارہ نہیں، یہ درست ہے کہ قدیم عربی روزمرہ میں جمع نہیں تھی لیکن اب اس زبان میں بھی جمع تعظیمی داخل ہو چکی ہے۔ عربی تحریر و تقریر میں واحد مخاطب کے علامت کے بجائے کم اور انت کے بجائے قنتم شائستگی اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن صرف انسانوں کے لیے خدا تعالٰی کے لیے جمع تعظیمی ہر گز نہیں سمجھی جاتی کیونکہ اس میں شرف کا شائبہ پایا جاتا ہے ان حقائق کے پیش نظر ہمیں بھی خدائے وحدہ لاشریک کے لیے صیغہ واحد ہی استعمال کرنا چاہئے اور اللہ تعالٰی فرماتے ہیں اور اللہ ہمارے حال پر مہربانی فرمائیں۔ جیسے جملے تحریر و تقریر میں استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے یہی توحید حق تعالٰی کے لیے لائق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء اور دوسرے نیک لوگوں کو دعائیں بکثرت موجود ہیں اور وہ سب کی سب بلا استشناء اللہ تعالٰی کے لیے صیغہ واحد کی تائید کرتی ہیں لٰہذا صیغہ واحد ہی جائز ہے اور جمع اگرچہ تعظیمی ہی ہو توحید کے منافی ہے سوال سارے قرآن مجید میں اس سے کہیں اشارۃ بھی ر وکا نہیں گیا اسکے علاوہ اللہ تعالٰی نے خود اپنے لیے ِمن کہا۔ جمع کی ضمیریں استعمال کی ہیں کہ ان کا شمار کرنا آسان نہیں۔ قرآن مجید میں کم از کم ایک جگہ غیر اللہ کی زبان سے خود اللہ تعالٰی نے اپنے متعلق صیغہ جمع کا استعمال نقل کیا فرمایا ہے اور اس پر اپنی کسی قسم کی کراہیت کا اظہار نہیں فرمایا منکرین کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا ( مومنون 6) جب ان میں سے کسی کو موت آ پہنچے گی تو کہنے لگا اے میرے رب مجھے واپس بھیج دو تا کہ میں نیک عمل کروں، یہاں “ ارجعون “ اصل میں ارجعنی تھا اور جمع کا لفظ فائدہ سے مفسرین نے جمع تعظیمی کی گنجائش نکالی ہے چنانچہ حقانی کے ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر مرقوم ہے ارجعون کے لیے آیا گویا یوں کہا “ ارجعنی ارجعنی “ اور بعض کہتے ہیں رب کی تعظیم کے لیے صیغہ جمع لایا اور کہتے ہیں ملائکہ سے کہہ رہا ہے ارجعونی کہ تم مجھے دنیا میں پھر جانے دو۔“ تین احتمالات ہیں ان میں سے ایک جمع تعظیمی بھی ہے۔ جواب احتمالات دلائل نہیں بنتے بلکہ احتمال الٹا دلیل بے دلیل بنا ڈالتا ہے جیسا کہ مشہور کلیہ ہے اذا جاء الاحتمال بطل الا ستدلال جہاں رب ارجعونی میں ایک احتمال ہے وہاں دو اور احتمال مضبوط موجود ہیں اور جواز کے تو ہم بھی قائل ہیں لیکن توحید جیسے عقیدہ کے لیے ایسے احتمالات لانے کا کیا فائدہ جو آیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے لیے صیغہء جمع استعمال فرمائے ہیں وہ بھی متعدد احتمالات کے حامل ہیں مثلاً ان امور میں ملائکہ کے عمل دخل کو ظاہر کر کے صیغہ جمع استعمال فرمایا ہے یہ تو آیت کو سا منے رکھ کر خود فیصلہ فرمائیں چنانچہ مفسرین نے تصریح فرمائی کہ یہاں صیغہ جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ امور ملائکہ سر انجام دیتے ہیں مجازًا وہ اس کام کے فاعل ہیں اور اللہ تعالٰی حقیقی فاعل اکثر آیات کا محمل یہی ہے مثلاً انا انزلناہ فی لیلۃ القدر، انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ وغیرہ وغیرہ۔ تحقیقی صاحب روح البیان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حضرت امام اسمعیل حقی حنفی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ نے سوال مذکور کہہ کر اس کا بہترین اور نفیس جواب لکھتے ہیں کہ وصیغہ الجمع فی رز فنامع انہ تعالٰی واحد لا شریک لہ لانہ خطاب الملوک واللہ لامک الملک المکوک، المعھود من کلام الملوک اربعۃ روجہ الاخبار علی لفظ الواحد نحو فعلت کذا وعلی لفظ الجمع فعلنا کذا وعلی مالم یسم فاعلہ رسم لکم کذا واضافتہ الفعل الی اسمہ علی وجہ المغا یتہ امر کم سلطانکم ھکذاوا القرآن نزل بلغۃ العب مجمع اللہ فیہ ھذہ الوجوہ کلھا فیما اخبربہ عن نفہ فقال ذرنی ومن خلقت وحیدا علی صیغۃ الواحد قال اللہ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر علی صیغۃ الجمع وقال فیما لم یسم فاعلہ کتب علیکم الصیام وامثالہ وقال فی المغا یتہ اللہ الذی خلقکم وامثالہ روح البیان ص238 ترجمہ از فقیر اویسی آیت و مما رزقنا ھم ینفقون کی تفسیر میں ہے۔ سوال: رزقنا جمع کا صیغہ ہے ان کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف ناجائز ہے کیونکہ وہ تو وحدہ لاشریک ہے۔ جواب: جمع کے صیغے بادشاہوں کے لیے بولے جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی مالک الملک ہے اور شاہوں کا شاہ ہے۔ بادشاہوں کی اپنی گفتگو چار طریقوں سے ہوتی ہے۔ 1) صیغہء واحد کے ساتھ، جیسے کوئی بادشاہ کہے فعلت کذا ( میں نے اسے کہا ) 2) جمع کے ساتھ، جیسے فعلنا کذا ( ہم نے ایسے کہا ) 3) صیغہ محمول کے ساتھ جیسے رسم لکم ( تمھارے لیے لکھا گیا ) 4) اپنے آپ کو غائب قرار کر کے فعل کی نسبت اپنے اسم کی طرف کر دینا، جیسے خود کہے امرکم سلطانکم، اور قرآن پاک چونکہ عرب کی لغت میں نازل ہوا، بنا بریں اللہ تعالٰی نے انہی چاروں طریقوں کو اپنے لیے استعمال فرمایا چنانچہ اپنی ذات سے خبر دیتے ہوئے فرمایا۔ ذرنی ومن خلقت وحیدا یعنی صیغہ واحد کے ساتھ (مجھے اور اسے چھوڑ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا-) انا انزلناہ فی لیلۃ القدر صیغہ جمع کے ساتھ ( بے شک ہم نے اسے لیلۃ القدر میں اتارا اور فرمایا۔ کتب علیکم الصیام وغیرہ ( تم پر روزے فرض ہوئے ) اور طریقہ غیب بھی کئی بار فرمایا کما قال الذی خلقکم وغیرہ ( وہ جس نے تمہیں پیدا کیا ) جواب : صاحب روح البیان کے پیرو مرشد قدس سرہ نے فرمایا کہ واحد صیغہ باعتبار ذات کے ہے جمع کا با اعتبار اسماء و صفات کے اور اکثرت اسماء و ڈفات وحدۃ ذات کے منافع نہیں کیونکہ مال ہر ایک کا ایک ہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے صیغہ جمع سے تعظیم مراد لی ہے ان کا استدلال غلط ہے اگرچہ اللہ تعالٰی ہی تعظیم کے لائق ہے لیکن آیات صیغہ ء جمع سے استد لال تحریف قرآنی کے مترداف ہے کیونکہ ان آیات کے صیغہء جمع سے نہ اللہ تعالٰی نے اپنی تعظیم کا اظہار فرمایا ہے اور نہ ہی مفسرین نے ایسی مراد لی ہے۔ خاتمہ بعض لوگ محض جماعتی تعصب میں مبتلا ہو کر مسئلہ کی نزاکت کی طرف توجہ نہیں کرتے خواہ اس سے آخرت کی سزا کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ بالخصوص اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں بہت زیادہ نزاکت ہے کہ معمولی کوتاہی کفر تک پہنچا دیتی ہے ورنہ کم از کم سخت گناہ میں مبتلا ہونا تو یقینی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہو۔ 1) اللہ تعالٰی کو اللہ میاں کہنا 2) اللہ تعالٰی کو عاشق کہنا 3) اللہ تعالٰی کی قسم کھانا 4) اللہ نے فلاں خیال فرمایا 5) اللہ تعالٰی پر علامہ کا اطلاق وغیرہ وغیرہ یونہی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نزاکت مبارکہ کا حال ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کی معمولی سی کوتاہی آپ کے بارے میں گوارا نہیں فرماتا اس موضوع پر گستاخ رسول کے نام سے کئی تصانیف معرض وجود میں آئی ہیں فقہاءکرام نے اس نزاکت کو خوب واضح فرمایا ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد مفعول مطلق صلوۃ کے تصلیۃ کہنا مکروہ ہے حالانکہ بقاعدہ نحویہ تصلیۃ مصدر ہے اور جلانا بھی آتا ہے اسی لیے نبوت کے تقدس کے خلاف ہے کہ ایسا لفظ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی تقدس کے پیش نظر صیغہ جمع اللہ تعالٰی کے لیے بھی ناموزوں ہے کہ اس میں توحید کے منافی ایک وہم اٹھتا ہے اسی لیے صیغہ جمع کا اللہ کے لیے اطلاق نا مناسب ہے۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم (اللہ آپ یا تو) از قلم: مفسر قرآن حضرت علامہ محمد فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ
सोमवार, 10 जुलाई 2017
مسلک اعلیٰ حضرت کہنے والوں پر آخر اعتراض کیوں؟
MASLAK E ALAHAZRAT KEHNE WALO PAR AITRAAZ AAKHIR KYUN?
__________________________________________
Maslak Ka Lughvi M'ana Rasta Ka Hai, Maslak Qaida Aur Dastoor Ke Ma'ne Mein Bhi Aata Hai,Toh Maslak-e-A'alahazrat Ke Ma'ne huye, A'alahazrat ka Raasta Yaa Raah-e-A'alahazrat Yaa Quaaida-e-A'alahazrat Yaa Tareeqa-e-A'alahazrat
Lihaaza Mazkoorah Ma'no mein se Kisi Bhi Ma'ne Mein Se Kisi Bhi Ma'ne Ke A'itabar se MASLAK-E-A'ALAHAZART Kehne Mein Koi Shar'ee Mumani'at Yaa Qabahat Nahi, Aur Uske Mana'a Par Qat'an Koi Shar'ee Daleel Mowjood Nahi,Mahez itna keh dena ke MASLAK-E-A'ALAHAZRAT Naye Istilaah hai Balke Maslak-e-Imam-e-A'zam Abu-Haneefah Aur Maslak-e-Imam-e-Shafa'ee Wa Maslak-e-Imam-e-Hambal Wa Maslak-e-Imam-e-Malik Kaha Jata Hai Iss Liye Maslak-e-A'alahazrat Kehna Saheeh Nahi Yeh Koi Mumani'at Ki Shar'ee Daleel Nahi,
Jis Daleel se Maslak-e-Imam-e-A'zam Abu-Haneefah Kehna Jayez Hai, Ussi Daleel Se Maslak-e-A'alahazrat Kehna Bhi Jayez Hai,
Agar Koi Kahe Ke Maslak-e-A'alahazrat Maslak-e-Imam-e-A'azam se Badh Kar Hai?? Maslak-e-A'alahazrat Ke Bajaye Maslak-e-Imam-e-A'zam hi Kiyon Na Kaha Jaye???
To Iska Jawab Yeh hai Ke Iss Qisim Ke Aitaraz Pehle Deobandi Ya Wahabi Ghair-Muqallid Yaa Dusare Firqaha-e-Baatila Kiya KarteThe, Unka Dekha Dekhi Ab Baaz Nadaan Sunni Bhi Karne Lage Hain,To Fir Yeh Aitaraaz Bhi Qayem Hoga Ke Maslak-e-Imam-e-Azam Yaa Maslak-e-Imam-e-Shafa'ee Kiyon Kehte ho?? Kiya Maslak-e-Siddiq-e-Akbar Yaa Maslak-e-Farooq-e-Aazam Kaafi Nahi?'? Kia Maslak-e-Imam-e-Azam Yaa Maslak-e-Hanfi Maslak-e-Siddique-e-Akbar Ya Maslak-e-Farooq-e-Aazam Se Badh Kar Hai?'?
Behrhaal Iss Wahmi Wa Khiyaali Daleel Mein Kuch wazan Nahi, Na Maslak-e-Imam-e-Aazam Maslak-e-Siddique-e-Akbar Se Juda Wa Alaahida Hai, Naa Maslak-e-Aalahazrat Maslak-e-Imam-e-Azam se Juda Hai To Phir Woh Mo'atariz hote Hain Ke Phir Maslak-e-Imam-e-Aazam Abu Haneefah hi Kiyon Na Kaha Jaye? To Hum Arz Kareinge Ke Iss Dour Mein Deobandi Bhi Hanfi Kehlate hain,Tableeghi Wahabi etc Bhi Hanfi Kehlate Hain, Aksar Moududvi bhi Hanfi Kehlate Hain, Hatta Ke Qadyani bhi Hanfi Kehlate hain, Nadwi Nechari bhi Hanfi Kehlate hain, Khuda Jane Kitni Naslon ke Bad-Mazhab bhi Hanafi Kehlate Hain, Sayudna Aalahazrat Mujaddid-e-Deen-O-Millat Radi Allahu Anhu Ne Farmaya "Sunni Hanfi Aur Chishti Ban ban ke Behkate yeh Hain"
Saabit Hua Be-Shumar Bad-MazhabWa Batil Friqon Ne Hanfiyat Ko Bator-e-Jaal Aur Daam-e-Tazvir Ke Istemal Kiya Hai, Lihaza Haqeeqi Sunniyat Aur Asli Hanfiyat Ka Khusoos -O- Imtiyaz Barqarar Rakhne Ke Liye Musallam-O-Motamad Akabir Ahlesunnat Wa A'aazim Mashaaikh-e-Tareeqat Ne Maslak-e-Aalahazrat Ka Istemal Shuru Kiya, Aur Ab Yeh Khalis Sunniyat Asli Hanfiyat Ka Alamati Nishan Ban Gaya , Aur Iss Istilaah-e-Maslak-e-Aalahazrat Ki Ifaadiyat Wa Ahmiyat Apni Jagah Musallam hai, werna Har Bad-Mazhab Wa Har Bad-Aqeeda Wa Masnoo'ee (Naqli) Banaspati Hanfi Khud Ko Hanfi Banakar Imam-O-Khateeb Aur Hamare Madarson Mein Musarris Wa Shaikh-Ul-Hadees Ban Jayega, Aise Nazuk Dour Mein Jab ke "Aankh se Kajal Saaf Chura Lein Yaa'n Wo Chor Bala ke hain" Ka Taqaza hua ke Mehez Kisi Ke Sunni Aur Hanfi Kehlane Ka Aitabarna Karein, Ab Maslak-e-Aalahazrat Ki Sanad Chalegi Uska
Sunni Hanfi Hone Ke Sath Bareilvi Maslak Ke Hamil Hone Ke Baare Mein Poochha Jyayega, Agar Koi Makkari Ayyari Se Khud Ko Hanfi Sunni Kehlata hai to Uski Masnoo'ee (naqli) Sunniyat HanfiyatKo Nanga Wa Be-Naqab Karne Ke Liye Maslake-Aalahazrat Yaa Bareilvi Maslak Ki Sanad Kaam Degi.....
اصطلاح، مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی شرعاً جائز و درست ہیں
___________________________________________
سواد اعظم اہل سنت و جماعت(پاک و ہند) کے بیشتر علماء و عوام اپنی تحریر و تقریر اور گفتگو کے وقت کبھی اہلسنت و جماعت اور کبھی مسلک اعلیٰ حضرت اور کبھی بریلوی کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں، بلاشبہ یہ اصطلاحیں شرعاً جائز و درست ہیں، مذہب اہلسنت و جماعت سارے عالم اسلام کی اصطلاح عام ہے جب کہ مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش،نیپال، کے لوگوں کی اصلاح خاص ہے اور کوئی لفظ کسی اصطلاحی حیثیت سے جہاں بھی رائج ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس اصطلاح کا موجد کون ہے اور کب کس طرح اس کا آغاز ہوا؟
اس اصطلاح کا وہی معنیٰ ان سارے مقامات و موقع پر مراد لیا جائے گا جہاں تک اس کا دائرہ اور اس کا رواج ہے، اصطلاح مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کا اس زمانے میں ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے وہابیہ، و دیابنہ سے اہلسنت و جماعت کا امتیاز ہو جاتا ہے، اگر جلسہ و جلوس میں اصطلاحات مذہب اہل سنت و جماعت، مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کا استعمال کیا جائے اور حسبِ ضرورت و افادیت ان کا نعرہ لگایا جائے، اسی طرح ایسا کوئی بورڈ اور بینر آویزاں کیا جائے تو بلاشبہ یہ عمل شرعاً جائز و درست ہیں
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
مذہب اہلسنت و جماعت کا دوسرا نام مسلک اعلیٰ حضرت ہے اس زمانے میں اہلسنت کو تمام فرقہائے باطلہ سے ممتاز کرنے کے لئے سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ موزوں ہوتا ہی نہیں، کچھ معاندین اس کے بالمقابل مسلک امام اعظم بولتے ہیں لیکن یہ لفظ امتیاز کے لئے کافی نہیں، غیر مقلدین کو چھوڑ کر سارے وہابی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، مثلاً دیوبندی، مودودی، نیچری، حتی کہ قادیانی اپنے کو مسلک امام اعظم پر گامزن بتاتے ہیں، اور یہی حال اہلسنت و جماعت کے لفظ کا بھی ہے کہ ان میں کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو سنی بتاتے ہیں،
اس تفصیل کی روشنی میں مینے (شریف الحق امجدی) نے بہت غور کیا، سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ ایسا نہیں جو صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو تمام بدمذہبوں سے ممتاز کر دے اب تک میں اس موڈ(ارادہ) میں نہیں کہ یہ کہنے کی جرآت کروں کہ مضمون نگار صاحب زید مجدہم کو اس سے چڑھ(جلن حسد) ہے کہ اہلسنت و جماعت کو بدمذہبوں سے ممتاز کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے(ماہنامہ اشرفیہ، اپریل 1999ء)
__________________________________________
Maslak Ka Lughvi M'ana Rasta Ka Hai, Maslak Qaida Aur Dastoor Ke Ma'ne Mein Bhi Aata Hai,Toh Maslak-e-A'alahazrat Ke Ma'ne huye, A'alahazrat ka Raasta Yaa Raah-e-A'alahazrat Yaa Quaaida-e-A'alahazrat Yaa Tareeqa-e-A'alahazrat
Lihaaza Mazkoorah Ma'no mein se Kisi Bhi Ma'ne Mein Se Kisi Bhi Ma'ne Ke A'itabar se MASLAK-E-A'ALAHAZART Kehne Mein Koi Shar'ee Mumani'at Yaa Qabahat Nahi, Aur Uske Mana'a Par Qat'an Koi Shar'ee Daleel Mowjood Nahi,Mahez itna keh dena ke MASLAK-E-A'ALAHAZRAT Naye Istilaah hai Balke Maslak-e-Imam-e-A'zam Abu-Haneefah Aur Maslak-e-Imam-e-Shafa'ee Wa Maslak-e-Imam-e-Hambal Wa Maslak-e-Imam-e-Malik Kaha Jata Hai Iss Liye Maslak-e-A'alahazrat Kehna Saheeh Nahi Yeh Koi Mumani'at Ki Shar'ee Daleel Nahi,
Jis Daleel se Maslak-e-Imam-e-A'zam Abu-Haneefah Kehna Jayez Hai, Ussi Daleel Se Maslak-e-A'alahazrat Kehna Bhi Jayez Hai,
Agar Koi Kahe Ke Maslak-e-A'alahazrat Maslak-e-Imam-e-A'azam se Badh Kar Hai?? Maslak-e-A'alahazrat Ke Bajaye Maslak-e-Imam-e-A'zam hi Kiyon Na Kaha Jaye???
To Iska Jawab Yeh hai Ke Iss Qisim Ke Aitaraz Pehle Deobandi Ya Wahabi Ghair-Muqallid Yaa Dusare Firqaha-e-Baatila Kiya KarteThe, Unka Dekha Dekhi Ab Baaz Nadaan Sunni Bhi Karne Lage Hain,To Fir Yeh Aitaraaz Bhi Qayem Hoga Ke Maslak-e-Imam-e-Azam Yaa Maslak-e-Imam-e-Shafa'ee Kiyon Kehte ho?? Kiya Maslak-e-Siddiq-e-Akbar Yaa Maslak-e-Farooq-e-Aazam Kaafi Nahi?'? Kia Maslak-e-Imam-e-Azam Yaa Maslak-e-Hanfi Maslak-e-Siddique-e-Akbar Ya Maslak-e-Farooq-e-Aazam Se Badh Kar Hai?'?
Behrhaal Iss Wahmi Wa Khiyaali Daleel Mein Kuch wazan Nahi, Na Maslak-e-Imam-e-Aazam Maslak-e-Siddique-e-Akbar Se Juda Wa Alaahida Hai, Naa Maslak-e-Aalahazrat Maslak-e-Imam-e-Azam se Juda Hai To Phir Woh Mo'atariz hote Hain Ke Phir Maslak-e-Imam-e-Aazam Abu Haneefah hi Kiyon Na Kaha Jaye? To Hum Arz Kareinge Ke Iss Dour Mein Deobandi Bhi Hanfi Kehlate hain,Tableeghi Wahabi etc Bhi Hanfi Kehlate Hain, Aksar Moududvi bhi Hanfi Kehlate Hain, Hatta Ke Qadyani bhi Hanfi Kehlate hain, Nadwi Nechari bhi Hanfi Kehlate hain, Khuda Jane Kitni Naslon ke Bad-Mazhab bhi Hanafi Kehlate Hain, Sayudna Aalahazrat Mujaddid-e-Deen-O-Millat Radi Allahu Anhu Ne Farmaya "Sunni Hanfi Aur Chishti Ban ban ke Behkate yeh Hain"
Saabit Hua Be-Shumar Bad-MazhabWa Batil Friqon Ne Hanfiyat Ko Bator-e-Jaal Aur Daam-e-Tazvir Ke Istemal Kiya Hai, Lihaza Haqeeqi Sunniyat Aur Asli Hanfiyat Ka Khusoos -O- Imtiyaz Barqarar Rakhne Ke Liye Musallam-O-Motamad Akabir Ahlesunnat Wa A'aazim Mashaaikh-e-Tareeqat Ne Maslak-e-Aalahazrat Ka Istemal Shuru Kiya, Aur Ab Yeh Khalis Sunniyat Asli Hanfiyat Ka Alamati Nishan Ban Gaya , Aur Iss Istilaah-e-Maslak-e-Aalahazrat Ki Ifaadiyat Wa Ahmiyat Apni Jagah Musallam hai, werna Har Bad-Mazhab Wa Har Bad-Aqeeda Wa Masnoo'ee (Naqli) Banaspati Hanfi Khud Ko Hanfi Banakar Imam-O-Khateeb Aur Hamare Madarson Mein Musarris Wa Shaikh-Ul-Hadees Ban Jayega, Aise Nazuk Dour Mein Jab ke "Aankh se Kajal Saaf Chura Lein Yaa'n Wo Chor Bala ke hain" Ka Taqaza hua ke Mehez Kisi Ke Sunni Aur Hanfi Kehlane Ka Aitabarna Karein, Ab Maslak-e-Aalahazrat Ki Sanad Chalegi Uska
Sunni Hanfi Hone Ke Sath Bareilvi Maslak Ke Hamil Hone Ke Baare Mein Poochha Jyayega, Agar Koi Makkari Ayyari Se Khud Ko Hanfi Sunni Kehlata hai to Uski Masnoo'ee (naqli) Sunniyat HanfiyatKo Nanga Wa Be-Naqab Karne Ke Liye Maslake-Aalahazrat Yaa Bareilvi Maslak Ki Sanad Kaam Degi.....
اصطلاح، مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی شرعاً جائز و درست ہیں
___________________________________________
سواد اعظم اہل سنت و جماعت(پاک و ہند) کے بیشتر علماء و عوام اپنی تحریر و تقریر اور گفتگو کے وقت کبھی اہلسنت و جماعت اور کبھی مسلک اعلیٰ حضرت اور کبھی بریلوی کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں، بلاشبہ یہ اصطلاحیں شرعاً جائز و درست ہیں، مذہب اہلسنت و جماعت سارے عالم اسلام کی اصطلاح عام ہے جب کہ مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش،نیپال، کے لوگوں کی اصلاح خاص ہے اور کوئی لفظ کسی اصطلاحی حیثیت سے جہاں بھی رائج ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس اصطلاح کا موجد کون ہے اور کب کس طرح اس کا آغاز ہوا؟
اس اصطلاح کا وہی معنیٰ ان سارے مقامات و موقع پر مراد لیا جائے گا جہاں تک اس کا دائرہ اور اس کا رواج ہے، اصطلاح مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کا اس زمانے میں ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے وہابیہ، و دیابنہ سے اہلسنت و جماعت کا امتیاز ہو جاتا ہے، اگر جلسہ و جلوس میں اصطلاحات مذہب اہل سنت و جماعت، مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کا استعمال کیا جائے اور حسبِ ضرورت و افادیت ان کا نعرہ لگایا جائے، اسی طرح ایسا کوئی بورڈ اور بینر آویزاں کیا جائے تو بلاشبہ یہ عمل شرعاً جائز و درست ہیں
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
مذہب اہلسنت و جماعت کا دوسرا نام مسلک اعلیٰ حضرت ہے اس زمانے میں اہلسنت کو تمام فرقہائے باطلہ سے ممتاز کرنے کے لئے سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ موزوں ہوتا ہی نہیں، کچھ معاندین اس کے بالمقابل مسلک امام اعظم بولتے ہیں لیکن یہ لفظ امتیاز کے لئے کافی نہیں، غیر مقلدین کو چھوڑ کر سارے وہابی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، مثلاً دیوبندی، مودودی، نیچری، حتی کہ قادیانی اپنے کو مسلک امام اعظم پر گامزن بتاتے ہیں، اور یہی حال اہلسنت و جماعت کے لفظ کا بھی ہے کہ ان میں کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو سنی بتاتے ہیں،
اس تفصیل کی روشنی میں مینے (شریف الحق امجدی) نے بہت غور کیا، سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ ایسا نہیں جو صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو تمام بدمذہبوں سے ممتاز کر دے اب تک میں اس موڈ(ارادہ) میں نہیں کہ یہ کہنے کی جرآت کروں کہ مضمون نگار صاحب زید مجدہم کو اس سے چڑھ(جلن حسد) ہے کہ اہلسنت و جماعت کو بدمذہبوں سے ممتاز کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے(ماہنامہ اشرفیہ، اپریل 1999ء)
शुक्रवार, 7 जुलाई 2017
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے حاسدین اپنے بھی اور غیر بھی! __________________________________________ بزرگوں کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ کوئی بھی بزرگ شخصیت حاسدوں کے حسد سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ جو جتنی ہی بلندی پر فائز ہوا، اتنی ہی اس کی مخالفت کرنے والے بھی دنیا میں نظر آئے۔ اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹوں نے ہی بڑوں سے حسد کیا۔ کبھی کسی بڑی شخصیت نے کسی چھوٹے سے نہ حسد کیا، نہ ہی ان سے نفرت کی بلکہ ان کا شیوہ چھوٹوں کو نوازتا تھا۔ ان ہی عظیم شخصیت میں سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اﷲ عنہ کی ذات برکات بھی ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی احیائے قرآن و سنت، تجدید دین، ترویج حنفیت اور عظمت مصطفیﷺ کا علم بلند فرمایا۔ اولیائے اسلام کی قدرومنزلت، وقار حرمت کا چراغ لوگوں کے دلوں میں روشن کیا۔ تحقیق مسائل کی راہیں روشن فرمائیں، لیکن سابقہ اشخاص کی طرح آپ کی ذات بھی حاسدوں کے حسد سے محفوظ نہ رہ سکی۔ آپ سے عناد رکھنے والے اور حسد کی آگ میں جلنے والے دو قسم کے افراد ہیں۔ ایک قسم حاسدین کی وہ ہے جو اہل سنت و جماعت کے خلاف عقائد رکھنے والے ہیں۔ مثلاً وہابی، دیوبندی، قادیانی، جماعت اسلامی غیر مقلد وغیرہ۔ یہ تمام فرقے آپس میں اگرچہ مختلف نظریات اور متضاد اعتقاد کے پیروکار ہیں تاہم جب مخالفت رضا کی بات آتی ہے تو ’’الکفر ملتہ واحد‘‘ کے تحت متحد و متفق نظر آتے ہیں۔ چونکہ اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ نے تمام گمراہ باطل فرقوں کی تردید فرمائی ہے لہذا ان کی مخالفت ہونا لازمی امر ہے۔ باطل فرقے کا کوئی بھی علمبردار تحقیقات رضا، تحریرات رضا اور تصنیفات رضا کے سامنے آنے کی جرات اور مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا اور حضرت امام کی بے داغ شخصیت و عبقری ہستی میں کہیں کوئی نقص و عیب نہیں پاتا تو لامحالہ الزام تراشی کی راہ اپناتا ہے تاکہ حضرت امام کے فتاویٰ و تصانیف کی وقعت کو کم کیا جاسکے اور انہوں نے جو بدمذہبوں کے خلاف فتاویٰ جاری فرمائے ہیں، انہیں بے اعتبار ثابت کیا جاسکے۔ حاسدین کی دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو خیر سے مسلمان ہیں مگر خدمت دین، ترویج سنت، اشاعت مذہب، تحفظ عقائد حقہ اور فروغ علم و عمل پر اپنی ذاتی منفعت اور مصنوعی تقویٰ و طہارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ حضرت امام نے تجدید دین کا جو زبردست کام کیا، اس کے سبب ہر طرف ان کی عظمت کے چراغ جل اٹھے۔ چہار سو ان ہی کا بول بالا ہونے لگا اور دنیائے علم و حکمت میں ان ہی کا سکہ رائج ہوگیا۔ پھر تو جو لوگ کوئی دینی کام کئے بغیر ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نعرہ لگا کر جھوٹی شہرت اور دولت و ثروت کما رہے تھے۔ انہوں نے اپنے قدموں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس کی۔ مریدوں پر گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تو ایسے حالات میں عوام کے دلوں میں اعلیٰ حضرت کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرنے اور فکروتحقیق، علم و حکمت کے دھارے سے قوم مسلم کو الگ کرنے کے لئے حضرت امام پر الزام تراشی کرنے لگے اور ان کی اتباع میں ان کے ان پڑھ مریدین بھی وہی راگ الاپنے لگے۔ چنانچہ جس طرح حاسدین کی جماعت دو حصوں میںبٹی ہے، ٹھیک اسی طرح الزامات بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کی تشہیر کے لئے کتب و رسائل، اخبار و جرائد اور قرطاس و قلم کا سہارا لیا جاتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جن کو پھیلانے کے لئے خفیہ نشستیں، خصوصی مجالس، مخصوص ملاقاتیں اور سرگوشی کے لئے ہلکی اور دبی زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کے الزامات تراشنے والے باطل فرقے کے لوگ ہیں جبکہ دوسری قسم کی الزام تراشی والے اہلسنت ہی کے لوگ ہیں۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی سے بچے کی ولادت کا سرعی حکم ____________________________________________ جیسے صحت مند انسان کھانا منہ سے کھاتا ہے جو کھانے کا فطری طریقہ ہے لیکن اگر وہ ایسا بیمار ہوجائے کہ منہ کے ذریعے کھانے پر قادر نہ ہو تو اسے ناک کے ذریعے نلکی سے غذا دی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی عملِ تزویج کا ایک فطری طریقہ ہے جسے جماع کہتے ہیں اگر میاں بیوی صحت مند ہیں تو پابند ہیں کہ حصولِ اولاد کے لیے فطری طریقے کو اختیار کریں لیکن اگر مرد یا عورت یا دونوں کسی خرابی کی بناء پر فطری طریقے سے اولاد حاصل نہ کرسکیں تو اسکے لیے آج کے دور میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ ان مختصر سطور میں اولاً ان صورتوں کا ذکر کیا جائے گا جن میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا استعمال جائز ہے ۔ اور آخر میں اس پر متفرع شرعی احکام کو بیان کیا جائے گا۔ جواز کی صورتیں: (١)مرد جماع پر قادر نہیں ۔ (٢)جماع پر قادر ہے مگر اسکے مادئہ تولید میں جرثوموںکی مقدر اتنی کم ہے کہ اولاد کا حصول اس حالت میں بہت دشوار ہے ۔ (٣)مردہر لحاظ سے صحت مند ہے مگر بیوی ایسی بیمار ہے کہ جماع کے ذریعے اولاد کا حصول ناممکن یا مشکل ہے۔ ان سب صورتوں میں اس اطمینان کے بعد کہ شوہر ہی کا نطفہ اسکی بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائیگاٹیسٹ ٹیوب بے بی کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ دورِ حاضر میں اللہ تعالی کی عطا فرمودہ بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ابوداؤد شریف میں ہے: لایحل لامراء یؤمن باللہ والیوم الاخر ان یسقی ماء ہ زرع غیرہ اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو حلال نہیں کہ اپنے پانی سے غیر کی کھیتی کو سیراب کرے۔ (ابوداؤد شریف ج١،ص٢٩٣،مطبوعہ :مجتبائی لاہور) چنانچہ الفقہ الاسلامی وادلتہ کے باب سابع الحظر والاباحۃ میں ہے: التلقیح الصناعی:ہو استدخال المنی لرحم المرأۃ بدون جماع. فإن کان بماء الرجل لزوجتہ، جاز شرعاً، إذ لا محذور فیہ، بل قد یندب إذا کان ہناک ما نع شرعی من الاتصال الجنسی.وأما إن کان بماء رجل أجنبی عن المرأۃ، لا زواج بینہما، فہو حرام؛ لأنہ بمعنی الزنا الذی ہو إلقاء ماء رجل فی رحم امرأۃ، لیس بینہما زوجیۃ. ویعد ہذا العمل أیضا منافیاً للمستوی الإنسانی، ومضارعاً للتلقیح فی دائرۃ النبات والحیوان. (جلد چہارم ص٢٦٤٩ مطبوعہ: شام) مرد کانطفہ مصنوعی طریقہ سے عورت 'کی اندام نہانی' میں ڈالنا: وہ منی کا عورت کی اندام نہانی میں بغیر جماع کے داخل کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر 'یہ عمل' شوہر کے نطفہ کیساتھ ہو اسکی زوجہ کے لیے تو شرعاً جائز ہے جس میں کوئی پرہیز نہیں بلکہ کبھی مستحب بھی ہوتا ہے جبکہ وہاں جنسی میلاپ سے مانع شرعی موجود ہو۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر 'یہ عمل 'اجنبی مرد کے نطفہ کیساتھ ہو عورت سے،جن کے مابین نکاح نہیں تو حرام ہے کیونکہ یہ معنیً زنا ہے۔کہ زنا: مرد کا نطفہ اس عورت کی اندام نہانی میںڈالنا ہے جن کے درمیان نکاح نہ ہو اور اس عمل کو بھی انسانی منافع وصول کرنے کے منافی شمار کیا جاتا ہے۔ البتہ اس عمل میں بظاہر دو خرابیاں لازم آتی ہیں ایک مرد کا ارتکابِ جلق جو حرام ہے ۔ دوسرا عورت کا لیڈی ڈاکٹر اور اسکے عملے کے روبرو عورت کا کشف۔ جلق کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں ضروری نہیں کہ مرد کو جلق کا ارتکاب کرنا پڑے کیونکہ عزل اور استمتاء ببدن المرأۃ سے بھی یہ حاجت پوری ہوسکتی ہے۔ اور کشفِ عورت کا جواب یہ ہے کہ اسکی ممانعت عام حالات میں ہے، ضرورت کے اوقات میں کشف جائز ہے۔ جیسے : مردِ بالغ جسکا ختنہ نہ ہوا ہو دوسرے مرد سے ختنہ کراسکتا ہے بلکہ عورت بھی عورت سے ختنہ کراسکتی ہے حالانکہ یہ عمل بغیر کشفِ عورت کے ممکن نہیں ۔ اور اولاد کا حصو ل بھی ایک ضرورت ہے جسکی خواہش سے حضرات انبیاء علیھم السلام بھی مستثنیٰ نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ عمل از قبیل علاج ہے اور علاج معالجہ میں عورت عورت کے سامنے چھپے اعضاء کو کھول سکتی ہے حتی کہ شدید ضرورت میں مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی کھول سکتی ہے۔ ایسے ہی شریعت میں اسکی اجازت ہے کہ مرد اپنی مخطوبہ کو دیکھ سکے ۔ حالانکہ عام حالات میں دیکھنے کی اجازت نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: ومن أراد أن یتزوج امرأۃ فلا بأس بأن ینظر إلیہا وإن علم أنہ یشتہیہا" لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام فیہ: "أبصرہا فإنہ أحری أن یؤدم بینکما" ولأن مقصودہ إقامۃ السنۃ لا قضاء الشہوۃ جس نے کسی عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو اسکی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اس کو اس بات کا یقین ہو کہ اسکو اسکی شہوت ہوگی بوجہ آپ ؐ کے فرمان کے اس کے بارے میں کہ اسکو دیکھ لو یہ زیادہ لائق ہے کہ تم دونوں کے درمیان موافقت پیدا کرادی جائے اور اس لیے کہ اسکا مقصود سنت کو قائم کرنا ہے نہ کہ قضاء شہوت۔ اسی میں ہے: ویجوز للطبیب أن ینظر إلی موضع المرض منہا" للضرورۃ "وینبغی أن یعلم امرأۃ مداواتہا" لأن نظر الجنس إلی الجنس أسہل "فإن لم یقدروا یستر کل عضو منہا سوی موضع المرض ''ثم ینظر ویغض بصرہ ما استطاع؛ لأن ما ثبت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا وصار کنظر الخافضۃ والختان. "وکذا یجوز للرجل النظر إلی موضع الاحتقان من الرجل" لأنہ مداواۃ طبیب کے لیے ضرورت کی وجہ سے عورت کے موضع مرض کو دیکھنا جائز ہے اور مناسب یہ ہے کہ کسی عورت کو اسکا علاج سکھلادے کہ جنس کا جنس کی طرف دیکھنا زیادہ آسان ہے اگر وہ قادر نہ ہو تو عورت کا ہر عضو مرض کی جگہ کے علاوہ چھپادیا جائے پھر طبیب دیکھے اور جہاں تک ہوسکے اپنی نظر کو نیچی رکھے کہ جو چیز ضرورت کیوجہ سے ثابت ہوتی ہے وہ بقدرِ ضرورت ثابت ہوتی ہے اور یہ ایسے ہے جیسے خافضہ اور ختان کا دیکھنااور یونہی مرد کے لیے مرد کے حقنہ کی جگہ کو دیکھنا 'بھی' جائز ہے کیونکہ احتقان علاج ہے۔ (ہدایہ ،کتاب الکراہیۃ ،فصل فی الوطء والنظر واللمس ٤٠٩ ، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کراچی) ٹیسٹ ٹیوب بے بی پر متفرع احکام : (١)ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہوگا یعنی عورت اسکی ماں اور مرد اسکا باپ کہلائے گا ۔ سینکڑوں برس پہلے فقہاء نے ایک جزئیہ تحریر فرمایا اس دور میں وہ محض فرض جزئیہ تھا مگر اس دور میں وہ حقیقتِ واقعیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ فتح القدیر میں اسکا خاص جزئیہ ملاحظہ ہو: وما قیل: لا یلزم من ثبوت النسب منہ وطؤہ لأن الحبل قد یکون بإدخال الماء الفرج دون جماع فنادر اور وہ جو کہا گیا کہ اس سے ثبوتِ نسب سے اس مرد کا وطی کرنا لازم نہیں آتا اسلیئے کہ حمل کبھی جماع کے علاوہ اندام نہانی میں منی داخل کرنے سے بھی ہوتا ہے 'یہ 'نادر ہے۔ (ج:٤،ص:١٧١،مطبوعہ: مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر) اور ''المغنی''لابن قدامہ میں ہے: وقد قیل: إن المرأۃ تحمل من غیر وطء بأن یدخل ماء الرجل فی فرجہا، إما بفعلہا أو فعل غیرہا. بے شک عورت وطی کے علاوہ 'بھی'حاملہ ہوتی ہے بایں طرح کہ مرد کا نطفہ اسکی اندام نہانی میں داخل ہوجائے یا توخود اس عورت کے فعل سے یا اسکے علاہ کے فعل سے۔ (ج:١،ص:١٨٧،مطبوعہ: بیروت) (٣)وارث و مورث ہوگا یعنی یہ ان میاں بیوی کا وارث ہوگا اور وہ دونوں اس کے وارث ہوں گے ۔ ایسے ہی رشتوں کی حلت و حرمت اور رضاعت کے احکام ویسے ہی مرتب ہوں گے جیسے نارمل طریقہ پر پیدا ہونے والے بچوں کے ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب ثبوت نسب کی فرع ہیں جب نسب ثابت ہوگیا تو اسپر متفرع مسائل بھی ثابت ہونگے۔ وھو تعالیٰ اعلم بالصواب از:قلم مفتی محمد ابراہیم قادری (رکن اسلامی نظریاتی کونسل) سوال، ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کرنا:۔ سائنس کی ترقی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ''ٹیسٹ ٹیوب'' کے ذریعہ بچہ پیدا کرنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ یہ ایک خاص قسم کی ٹیوب ہے ، جس میں عورت کے رحم سے بیضئہ تولید کو نکال کر رکھا جاتا ہے ۔ پھر مرد کی منی نکال کر اس بیضہ میں ڈالی جاتی ہے ۔ اس طرح دونوں کے ملاپ سے بیضہ میں سلیس (Cells) جس کی افزائش ہوتی رہتی ہے، جب یہی سیل رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے مخصوص مطلوبہ قوت کے حامل ہوجاتے ہیں تو ان دونوں مادوں (مادئے تولید و بیضئہ تولید) کو کسی عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے ، عورت کے رحم میں نوماہ نشوونما پانے کے بعد بچہ کی ولادت ہوتی ہے۔ بیضئ تولید نکالنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جن ایام میں عورت کے رحم کی نلی میں قدرۃً بیضئہ تولید تیار ہوتا ہے انہیں ایام میں عورت کے ناف کے نیچے تھوڑا سا شگاف کر کے ایک مخصوص آلہ (دوربین) کے ذریعہ بیضہ کا پتہ لگایا جاتا ہے ، پھر نالی میںموجود بیضہ کو باہر نکال لیا جاتا ہے۔ مرد کا مادئی تولید ہاتھ کے ذریعہ نکالا جاتا ہے ۔ پھر دونوں کو ایک مخصوص قسم کی ٹیوب میں جمع کیا جاتا ہے ۔ جب دونوں کے باہمی ملاپ سے اس بات کا اطمینان ہوجاتا ہے کہ اب اس سے استقرار ہوجائے گا ، تو اسے مخصوص ٹیوب کے ذریعہ عورت کی شرمگاہ کے راستے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب'' کے استعمال کی حاجت اس وقت پیش آتی ہے ، جب قدرتی طور پر یامرض وغیرہ کی وجہ سے رحم کی نالیوں کے راستے عورت کے رحم میںبیضئ تولید پہونچ نہیں پاتا۔ ایسی صورت میںعورت و مرد کی فطری مباشرت سے بچہ پیدا ہونے کا امکان نہیں رہ جاتا ، اس لئے ''ٹیسٹ ٹیوب'' کے ذریعہ دونوں مادوں کو مخصوص طریقے سے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ جانوروں کے بچہ پیدا کرنے میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہزاروں انسان اس سے پیدا ہوچکے ہیں اور مختلف ممالک میں یہ عمل جاری ہے۔ ان حالات میں ہم پر شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طریقہ و عمل کے جواز و عد م جواز کا حکم واضح کرکے صحیح اسلامی نقطئہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:۔ ۱۔ کیاٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کرنا شرعاً جائز ہے؟ ۲۔ اگر جواب نفی میں ہوتو کیا اولاد حاصل کرنے کی ضرورت کے پیش نظر یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ ۳۔ اگر کسی عورت نے اپنے رحم میں غیر شوہر کی منی داخل کرلی ، تو کیا وہ زانیہ کہلائے گی ؟ اگر اس سے اولاد پیدا ہوئی تو وہ ثابت النسب ہوگی یا نہیں؟ ۴۔ حلال یا حرام جانور کے رحم میں کسی حلال یا حرام جانور کا مادہئ تولید بذریعہ ٹیسٹ ٹیوب داخل کر کے بچہ پیدا کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ امید ہے کہ ان سوالات کے تشفی بخش جواب سے شاد کام فرمائیں گے ۔ فقط و السلام مفتی آل مصطفی مصباحی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف وخاد م جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی جواب ٹیسٹ ٹیوب کے متعلق طے شدہ امور:۔ ۱۔ حصول اولاد کے لئے ٹیسٹ ٹیوب کے استعمال کے جواز و عدم جواز پر بھرپور بحث و تمحیص کے بعد یہ طے ہوا کہ ٹیسٹ ٹیوب کے استعمال کی ایک صورت کے سوا تمام صورتیں باتفاق رائے ناجائز ہیں۔ جس ایک صورت کے جواز میں اجلاس میں اختلاف کیا گیا وہ صورت یہ ہے کہ مرد کا نطفہ عزل کے ذریعہ ٹیوب میں محفوظ کیا جائے اور اسے رحم زوجہ میں براہ فرج یا بواسطئ انجکشن خود زوجہ کا شوہر داخل کرے اس کے عدم جواز پر بھی کثرت رائے ہے صرف مولانا معراج القادری و مولانا آل مصطفی و مولانا رحمت اﷲ و مولانا اختر حسین علیمی و مولانا احتشام الدین صاحبان جواز کے قائل ہیں ، لیکن یہ صورت بہت ہی نادرہے اور اس کی وجہ سے ناجائز صورتوں کا فتح باب مظنون بہ ظن غالب ہے نیز ٹیسٹ ٹیوب کا عمل غیر ماہر کے ذریعہ سے ہونے میں ہلاک زوجہ کا احتمال قوی ہے اس لئے باقی تمام مندوبین نے اس صورت کو بھی ناجائز قرار دیا اور جو حضرات جواز کے قائل تھے انہوں نے بھی بوقت تحریر فیصلہ اس صورت کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم ۲۔ بالفرض اگر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا ہوا تو وہ شوہر سے ثابت النسب ہے ۔ فان النسب أمر مہتم بہ حتی لا ینتفی بنفی الزوج إلا بعد اللعان بینھما۔ واﷲ تعالیٰ اعلم ۳۔ اگر کسی عورت نے غیر شوہر کی منی رحم میں داخل کرلی تو وہ زانیہ نہ کہلائے گی۔ فان الزنا موقوف علی ادخال الحشفۃ فی الفرج وہو ھھنا معدوم، پیدا شدہ بچہ ثابت النسب ہوگا اور بے لعان زوجین نسب منتفی نہ ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم چوتھافقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف بمقام: مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعة الرضا بریلی شریف یوپی انڈیا مورخہ ١٢/١٣/رجب المرجب ١٤٢٨ھ مطابق ٢٨/٢٩/جولائی ٢٠٠٧ء
मंगलवार, 4 जुलाई 2017
ایک جاہل مداری(مکن پوری) صوفی پیر اور اس کا مرید ___________________________________________ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ "تقدیس الوکیل عن توہین الرشید و الخلیل" پر تقریظ لکھتے ہوئے ایک جاہل مداری پیر و مرید کا واقعہ لکھتے ہیں: مداری(مکن پوری) فقیروں میں ہوتے ہیں اکثر گو شاذ و نادر اچھے بھی ہو ایک اپنے مرید کو کہتا تھا بعد کچھ خدمت کے تجھے ایک نکتہ فقیری کا بتاؤں گا بعد چند مدّت کے اس نے خدمت کر کے جو وہ نسخہ پوچھا تو کہا کہ، مولیٰ، محمد، مدار، تینوں کے اول میں میم ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ تینوں کا درجہ ایک ہی رہا دوسرا نکتہ تجھے بعد اور خدمت کے بتاؤں گا، بعد گزرنے مدت اور کرنے خدمت کے جو وہ دوسرا نکتہ پوچھا تو کہا کہ مکّہ، مدینہ، مکن پور، تینوں کے اول میں میم ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ تینوں آپس میں برابر ہیں(معاذاللہ) لا حول ولاقوۃ الا باللہ (تقدیس الوکیل عن توہین الرشید و الخلیل ص، ٤٥٣) اسی لئے اولیائے کرام فرماتے ہیں صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔ اسی لئے حدیث میں آیا حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد، رواہ الترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔ ایک فقیہ شیطان پرہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے (اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے منہ میں لگام، ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتاہے اور وہ اپنے جی میں سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ جلد ٢١ ص ١٠٦)
بریلوی دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان __________________________________________ آج کے دور فتن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل علیہ الرحمہ رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کا منصب تجدید و ارشاد اتنا واضح ہوچکا ہے کہ اب وہ محتاج بحث و استدلال نہیں رہا۔ غیر جانبداری اور انصاف و دریافت کے ساتھ اسلام کے مذہب و مسلک کا مطالعہ کرنے والا یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بریلوی اسلام کے ماضی اور حال کے درمیان ایک عظیم رابطہ کی حیثیت سے اپنے وقت میں جلوہ گر ہوئے اور اپنی خداداد قوت علم و یقین اور لگاتار قلمی جہاد کے ذریعہ انہوں نے ملحدانہ قوتوں کی، ان ساری کوششوں کو ناکام بنادیا جو ہمارے فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کا رشتہ ہمارے مقدس ماضی سے منقطع کرنا چاہتے تھے۔ دراصل یہی ہے وہ منصب تجدید و ارشاد جس پر وقت کا ایک مجدد فائز ہوتا ہے۔ وہ کسی نئے مذہب و فکر کی بنیاد نہیں ڈالتا بلکہ اسی مذہب اسلام کو نئی توانائیوں اور صحیح تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو نقطہ آغاز سے لے کر ماضی کے بے شمار اشخاص و رجال کا ذریعہ اس تک پہنچا ہے۔ اس کی ساری جدوجہد اس نقطے پر مرکوز رہتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد کے ساتھ فکر و اعتقادکے زاویئے کا وہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے جس نے ماضی کے ہر دور میں کروڑوں افراد کو اسلام کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ مسلم معاشرہ کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کے لئے جس پر اسلام کے مقدس ماضی کی چھاپ لگی ہوئی ہے، وہ لوگوں سے جنگ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم اور مقدس ماضی کے وارث ہیں۔ اس لئے ماضی کے بزرگوں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے ہمیں کل کا کل قبول کرنا ہوگا۔ کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی اگر اجازت دے دی گئی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ کچھ چھوڑنے والے سبھی کچھ چھوڑ دیں اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں۔ یونہی کسی چھوٹی چیز کو اس پیمانے سے مت دیکھو کہ وہ چھوٹی ہے بلکہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھو کہ وہ ماضی کے مقدس بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ جو آج ماضی کی چھوٹی چیز کو ٹھکرا سکتا ہے، وہ کل ماضی کی بڑی چیز کو بھی ٹھکرا دے گا کیونکہ ماضی سے مربوط رہنے کا ذریعہ وہ حسن اعتقاد ہے جو ماضی کے بزرگوں کے ساتھ قائم ہے اور جب وہی مجروح ہوگیا تو آئندہ مسلمان باقی رہنے کی ضمانت کیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اسلام اس صراط مستقیم کا نام ہے جو صدیقین و صالحین کے قدموں کے نشانات سے پہچانا جاتا ہے، اس کے علاوہ سینکڑوں راہوں کے درمیان اسے ممیز کرنے کا اور کوئی محسوس ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ پس جسے اس گزر جانے والے فاصلے کے نقوش قدم کی پیروی سے انکار ہے اس کی حق میں دو ہی بات کہی جاسکتی ہے یا تو وہ اپنے تئیں اس منزل کا مسافر ہی نہیں ہے یا پھر گمشدگی اس کی تقدیر کا نوشتہ ہے۔ آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کوئی بھی تصنیف اٹھا لیجئے ایک روایاتی مجدد کا یہ انداز فکر آپ کو پوری کتاب میں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کسی بھی مسئلے پر اعلیٰ حضرت کا قلم جب اٹھتا ہے تو بالاتزام بحث و استدلال کی ترتیب یہ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے آیات قرآنی پھر احادیث کریمہ پھر آثار صحابہ پھر ارشادات تابعین و تبع تابعین پھر اقوال ائمہ مجتہدین پھر تصریحات، مشاہیر امت، تحریر و بیان کا یہ اسلوب اس نقطہ نظر کو پوری طرح واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مسئلے میں شارع کا منشاء معلوم کرنے کے لئے ماضی کے ہر مسند طبقے کے ساتھ منسلک رہنا نہایت ضروری ہے۔ اعتماد و وابستگی کا یہ سلسلہ الذہب کسی سے بھی ٹوٹ گیا تو ایمان و یقین کی سلامتی کو کبھی بھی خطرہ پیدا پیش آسکتا ہے۔ واقعات و حالات کی روشنی میں اگر آپ مذہبی امور میں آزادی رائے کی تاریخ کا تجزیہ کریں تو آپ کو تسلیم کرناہوگا کہ اپنے وقت کے مجدد کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا کہ چھوٹی چیز کو چھوڑنے والے ایک دن بڑی چیز کو بھی چھوڑ دیں گے اور سواد اعظم کی پیروی سے انکار کرنے والے ایک دن رسول ہی کی پیروی سے انکار کر بیٹھیں گے۔ چنانچہ تجربات شاہد ہیں کہ رسم کہہ کر جن لوگوں نے ماضی کے بزرگوں کی روایات سے لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی، انہیں کچھ مدت کے بعد اپنے ہی درمیان ایک ایسے طبقے کا سامنا کرنا پڑا جس نے یہ کہتے ہوئے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیا کہ وہ بھی ہماری ہی طرح ایک عام امتی ہیں… دین کے مسائل و احکام معلوم کرنے کے لئے ان مجتہدانہ صوابدید پر اعتماد کرنا ہمارے لئے کیا ضروری ہے۔ ہمیں بھی خدا نے فکر کی قوت بخشی ہے ہم براہ راست احادیث سے رابطہ قائم کریں گے۔ ہمارے لئے حدیث رسول کافی ہے۔ اقوال آئمہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ اقوال آئمہ اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ لیکن ابھی چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اسی دعوت انحراف کے بطن سے ایک تیسرے گروہ نے جنم لیا۔ اس نے بڑے طمطراق سے کہنا شروع کیا کہ دین دراصل خدا کا ہے۔ پیغمبر کی حیثیت تو صرف ایک قاصد کی ہے۔ دین کے متعلق خدا کی مکمل ہدایات قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس قرآن کافی ہے۔ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ احادیث اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ مسلمانوں کے فکری زوال اور قومی انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ یہ احادیث ہیں ۔بغاوت و الحاد کا یہ قیامت خیز فتنہ جب جوان ہوگیا اور سر پر چڑھ کر آواز دینے لگا تو اب لوگ بدحواس ہوکر سینہ پیٹ رہے ہیں کہ ہائے اسلام میں کتنا بڑا رخنہ ڈال دیا ان ظالموں نے۔ امت کا شیرازہ جس رشتے سے بندھا ہوا تھا اسی کو توڑ دیا۔ اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث کو چھوڑنے والے ایک دن قرآن کو نہیں چھوڑ دیں گے اور اس کے بعد بھی کہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ پہنچنے والے یہاں تک اچانک نہیں پہنچ گئے، انہیں الحاد و انکار کے متعدد مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس سے پہلے اعتماد و یقین کے کئی رشتے انہوں نے بتدریج توڑے، تب جاکر حدیث کے رشتے تک ان کا ہاتھ پہنچا…اس لئے مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلام میں رخنے کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن دہلی کے ایک ناخدا ترس باغی نے ’’بزرگوں کی رسم‘‘ کہہ کر ماضی کی متوارث روایات کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ اسلامی اقدار کے خلاف ایک نیا فتنہ عین اپنی ولادت کے وقت ہی کچل دیاگیا ہوتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن کیوں دیکھنا پڑتا… اور اس پر مزید ستم یہ کہ جو اسلام میں نئے فتنوں کا بانی تھا، اسے آج بھی ملت کا محسن سمجھا جاتا ہے اور جس نے اپنے خون جگر سے ایمان و یقین کے فیصلوں کی بنیاد مستحکم کی، اس کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں ہے۔ مسلم ہندوستان کی مذہبی تاریخ پر قلم اٹھانے والے جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور حقائق پسند کہتے ہیں، اگر انہوں نے دیدہ وا دانستہ احیائے ملت کی ایک عظیم تاریخ کے ساتھ بے اعتنائی برتی ہے تو یہ حقائق کے خلاف ایک کھلا ہوا تعصب ہے اور اگر انہوں نے ناواقفیت کی بنیاد پر تاریخ کی یہ اہم کڑی چھوڑ دی ہے تو سوا اس کے اور کیا کہا جائے گا کہ کچھ نہ لکھنا ایک گمراہ کن تاریخ لکھنے سے کہیں بہتر تھا۔ واقعات کے ساتھ انصاف کرنے والوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تجدید و ارشاد کو سمجھنے کے لئے جہاں اس دور کے مذہبی اور سیاسی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے وہاں ان کی فکری اور اخلاقی محرکات کا پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے جو اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات اور ان کی تصنیفات کے پیچھے ہیں… کیونکہ فکر و اعتقاد کے جن مقاصد کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اٹھے تھے وہ انفرادی نہیں تھے بلکہ ایک منظم گروہ اور ایک مربوط مکتبہ فکر کی پشت پناہی میںوہ پھیل رہے تھے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے وقت میں ’’دیوبندی جماعت‘‘ کے نام سے ایک ایسے الحاد پرور اور زمانہ ساز گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایک طرف اپنے آپ کو ’’حنفی‘‘ بھی کہتا تھا اور دوسری طرف ابن تیمیہ سے لے کر ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی تک، ان سارے آئمہ الحاد و فتن کے عقائد و افکار کا علمبردار بھی تھا جو سلف صالحین اور آئمہ اسلام کی بارگاہوں سے ٹھکرائے جاچکے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آئمہ اسلام کے اس باغی طبقے کے ساتھ جسے ہم غیر مقلدین کے نام سے جانتے ہیں، اعتقادی اور فکری رابطہ بھی قائم ہوگیا تھا اور دونوں گروہوں کے درمیان شاہ اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان جسے ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید کا اردو ایڈیشن کہنا چاہئے، بزرگان اسلام کے خلاف بغاوت کے لئے قدر مشترک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور دونوں گروہ اس کتاب کے گمراہ کن اور ایمان سوز مضامین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقدس ترین فریضہ سمجھتے تھے اور آج تک سمجھ رہے ہیں۔ غیر مقلدین کے ساتھ ان نام نہاد حنفی مقلدین کے گٹھ جوڑ نے نہ صرف یہ کہ حنفی مذہب کو نقصان پہنچایا اور غیر مقلدیت کے لئے مسلم معاشرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا بلکہ دونوں گروہوں کی مشترک جدوجہد سے زندگی کے بیشتر مسائل میں آئمہ اسلام اور سلف صالحین کے ساتھ عامہ مسلمین کے فکری رابطے کا اعتماد بھی مجروح ہونے لگا۔ اس طرح کے پیچیدہ اور سنگین ماحول میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اصلاح و ارشاد کا کام شروع کیا۔ آندھیوں کی زد پر چراغ جلانے کا محاورہ ہم نے سنا تھا لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی و دینی تاریخ میں یہ محاورہ حقیقت کا ایک پیکر محسوس بن گیا ۔بلاشبہ انہوں نے آندھیوں کی زد پر چراغ جلایا، قلم کی تلوار ہاتھ میں لے کر تنہا اترے اور عرب سے عجم تک مذہب اہلسنت کی حقانیت و صداقت کا سکہ بٹھادیا… مومنین کے قلوب میں سید کائناتﷺ کی عظمت و توقیر، سلف صالحین کی محبت و عقیدت اور شریعت طیبہ طاہرہ کے احترام کا جذبہ کچھ اس طرح جگایا کہ اہل ایمان کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ویسے ہندوستان میں اس وقت اس گروہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقہائے باطلہ تھے جن سے مسلمانوں کی مذہبی سلامتی کو نقصان پہنچا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان کے فتنوں سے بھی ملت کی تطہیر فرمائی لیکن خصوصیت کے ساتھ فتنہ وہابیت کے استحصال میں ان کے مجاہدانہ اقدامات نے امت کو ایک عظیم ابتلا سے بچالیا۔ فتنہ وہابیت کے استیصال کی طرف اعلیٰ حضرت کی خصوصی توجہ کا باعث یہ امر ہوا کہ اس فتنے کے علمبردار اپنے آپ کو حنفی کہہ کر، حنفی مسلمانوں میں بار پانے کی کوشش کررہے تھے اور حنفی مسلمانوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جو خیالات وہ ان کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ عین حنفی مذہب کے مطابق ہیں حالانکہ حنفی مذہب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان حالات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے شدت کے ساتھ یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر واضح اور مدلل بیان کے ساتھ اس فریب کا پردہ چاک نہ کیا گیا تو پاک و ہند کے احناف سخت گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک ایک اختلافی مسئلہ پر قرآن و حدیث اقوال آئمہ اور حنفی مذہب کی کتابوں سے دلائل و شواہد کا انبار لگا کر حنفیت اور وہابیت کے درمیان کھلا ہوا امتیاز قائم کردیا… فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کی مختلف سمتوں میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مجددانہ اصلاحات اور ان کی علمی خدمات کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا شعبہ سنی حنفی مسلمانوں کے وہ عقائد و روایات جنہیں دیوبندی حضرات شرک و حرام کہتے تھے، اعلیٰ حضرت نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور اسلام کی کتابوں سے روشن بیانات اور واضح دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ امور شرک اور حرام نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق اور آئمہ اور سلف صالحین کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہیں اور یہ امور کچھ آج کے ایجاد کردہ نہیں ہیں بلکہ اسلام کے ماضی سے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ لہذا جو ان امور کو شرک یا حرام کہتا ہے اس کا یہ حملہ ہم پر نہیں بلکہ ان اسلاف کرام پر ہے جن کے ساتھ وابستگی ہماری دینی سلامتی کی ضمانت ہے۔ اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل مباحث بطور امثال ملاحظہ فرمائیں۔ (1) تقبیل ابہامین (2) ندائے یارسول اﷲﷺ (3) عقیدہ شفاعت (4) عرس و فاتحہ (5) عقیدہ علم غیب (6) عقیدت حیات النبیﷺ (7) میلاد و قیام (8) توسل (9) نذر (10) تذکرہ شہادت کربلا (11) محافل گیارہویں (12) تثویب (13) استعانت بالانبیاء و الاولیاء (14) بناء قبا برمزارات (15) سفر بائے زیارت قبور انبیاء واولیاء وغیرہ اہلسنت کی یہ وہ مذہبی اور اعتقادی روایات تھیں جن پر دیوبندی گروہ کے علماء حملہ آور تھے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اہلسنت کی طرف سے ان کا دفاع فرمایا تھا۔ یہ روایات صدیوں سے امت مسلمہ کے اندر تمام شرق و غرب اور عرب وعجم میں رائج تھیں… اور آج بھی مسلم معاشرہ کی عظیم اکثریت کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں ان روایات پر عملدرآمد ہے۔ اس لئے کہنے دیجئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ دنیائے اسلام کے عظیم محسن ہیں جنہوں نے ان روحانی اور مذہبی نقوش کو مٹنے سے بچالیا جو عالم اسلام کو اپنے قابل تقلید اسلاف سے ورثے میں ملے تھے۔ دوسرا شعبہ دیوبندی فرقے کے وہ مخصوص عقائد جنہیں وہ تقریر و تحریر کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں پھیلا رہے تھے اور آج بھی ان کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور ازراہ فریب سادہ لوح عوام سے کہتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی عقائد ہیں جو قرآن و حدیث سے اخذ کئے گئے ہیں ایک سچے مسلمان کو انہی عقائد پر چلنا چاہئے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت مسلمہ کو عقیدے کے فساد سے بچانے کے لئے جس پامردی اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا وہ ایک مجدد ہی کی شان ہوسکتی ہے۔ وقت کی ساری باطل قوتوں کو اپنا حریف بنالینے کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کی بوجھل شہادتوں سے ان مصنوعی عقائد کی دھجیاں اڑادیں اور ہر کہہ و مہ پر آفتاب نیمروز کی طرح واضح کردیا کہ یہ عقائد سرتاسر باطل اور ایمان و اسلام کے لئے مہلک ہیں۔ مسلمانوں کو ان فاسد عقائد سے سخت اجتناب کرنا چاہئے اور کھلے بندوں ان کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں انہیں اعتماد کی جگہ نہ مل سکے۔ اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل دیوبندی عقائد بطور مثال ملاحظہ فرمائیں۔ (1) امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں۔ (2) صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں (تصفیۃ العقائد) (3) کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے (تصفیۃ العقائد) (4) انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے (5) نماز میں حضور اکرمﷺ کا خیال کرنا ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے (صراط مستقیم) (6) نماز میں حضورﷺ کا خیال لانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے اور اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے (صراط مستقیم) خدا کے لئے جھوٹ بولنا ممکن ہے (براہین قاطعہ، یکروزی وغیرہ) خدا کو زمان و مکان اور جہت سے پاک و منزہ سمجھنا گمراہی ہے (ایضاح الحق) (7) جادوگروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں (منصب امامت) (8) صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے (فتاویٰ رشیدیہ) (9) محمد یا علی جس کا نام ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں (تقویۃ الایمان) (10) ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے (تقویۃ الایمان) (11) رسول بخش، نبی بخش، پیر بخش، عبدالنبی، عبدالمصطفی، غلام معین الدین، غلام محی الدین نام رکھنا یا اسے پسند کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان) (12) یہ کہنا کہ خدا اور رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے (13) رحمتہ للعالمین ہونا حضورﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمتہ للعالمین ہوسکتے ہیں (فتاویٰ رشیدیہ) (14) بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے(فتاویٰ رشیدیہ) (15) حضورﷺ ہمارے بڑے بھائی ہیں اور ہم ان کے چھوٹے بھائی ہیں (تقویۃ الایمان) (16) جو حضورﷺ کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے (تقویۃ الایمان) (17) کسی نبی یا ولی کے مزار پر روشنی کرنا، فرش بچھانا، جھاڑو دینا، پانی پلانا اور لوگوں کے لئے غسل اور وضو کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان) وغیرہ انصاف اور دیانت کے ساتھ دیوبندی مکتبہ فکر کے ان عقائد پر غور فرمایئے… ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے وہ عقیدہ توحید و تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا عقائد و اعمال کی توثیق فرمائی ہے۔ اب ایک طرف ہمارے معتقدات و روایات پر جارحانہ حملہ نظر میں رکھئے اور دوسری طرف اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا یہ دفاعی کردار ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے ایک پرجوش وکیل اور ایک پرخلوص محافظ کی طرح امت کے سر سے کفر و شرک کے الزامات کا دفاع کیا ہے اور نہایت اخلاص و دیانت کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ امت کے جن عقائد و اعمال کو اہل دیوبند کفر و شرک کہتے ہیں وہ ایمان و اسلام کے بہترین مظاہر ہیں۔ اب جمہور اسلام کے افراد ہی اس کا فیصلہ کریں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے۔ اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچالیا ہے… عین شورش اور طوفان کی زد میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اور جن روحانی احساسات کو مٹنے سے بچایا ہے اگر آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے تو یہ فیصلہ جمہور ہی کو کرنا ہوگا کہ اپنے ایک جاں نثار وکیل اور ایک بے غرض محسن کو جذبہ محبت کے ساتھ یاد کیا جائے یا دشمن کے ناپاک پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر احسان فراموشوں کا رویہ اختیار کرلیا جائے۔ ان سوالوں کے جواب کے لئے آپ سے آپ ہی کے ضمیر کا انصاف چاہتا ہوں۔ تیسراشعبہ اکابر دیوبند کی بعض وہ عبادتیں جن میں انہوں نے رسول پاکﷺ کی شان مبارک میں صریح گستاخیاں کی تھیں اور ضروریات دین کا انکار کرکے دین سے خود اپنا رشتہ منقطع کرلیاتھا، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان توہین انگیز عبارتوں پر ان کا مواخذہ فرمایا اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا، آگے چل کر اس مطالبہ میں سادات حرمین طیبین اور بلاد عرب کے مشاہیر علماء و مشائخ بھی شریک ہوگئے اور اس طرح یہ کل عالم اسلام کا مطالبہ بن گیا… لیکن حق کے آگے جھکنے میں ان حضرات نے عار محسوس کیا اور نمائش دنیا کو فلاح آخرت پر ترجیح دی، نہ ان اہانت آمیز عبارتوں کو اپنی کتابوں سے حذف کیا اور نہ ہی ان سے رجوع فرمایا۔ بلکہ آج تک وہ ان اہانت آمیز عبارتوں کی اشاعت کرکے اہل اسلام کے جذبات کو مجروح کررہے ہیں۔ اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل عبارتیں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ (1) دیوبندی مذہب کے پیشوا… مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور نبی پاکﷺ کے علم شریف کو زوائل اور حیوانات وبہائم سے تشبیہ دے کر شان رسالت میں صریح توہین کا ارتکاب کیا۔ (2) براہین قاطعہ مصنفہ مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی و مصدقہ مولانا عبدالرشید صاحب گنگوہی میں ایک توہین آمیز عبارت لکھی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ روئے زمین کی بابت حضورﷺ کا علم شریف شیطان و ملک الموت کے علم سے کم ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ شیطان و ملک الموت کے علم کی وسعت نص (قرآن و حدیث) سے ثابت ہے۔ حضور پاکﷺ کی وسعت علمی پر کوئی دلیل نہیں۔ پس شیطان کے مقابلے میں جو حضورﷺ کی وسعت علمی کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے۔ (3) بانی دارالعلوم دیوبند… مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں اس امر کی صراحت فرمائی کہ آیت قرآنی میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ سے حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا یہ عوام کالتعام کا، شیوہ ہے امت کے قابل اعتماد طبقے کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ دوسری جگہ لکھا کہ حضورﷺ کے بعد بالفرض کوئی نیا نبی پیدا ہو جب بھی حضورﷺ کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ (4) دیوبندی مذہب کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی کے ایک مرید نے عین حالت بیداری میں بہ سلامتی ہوش و حواس انہیں نبی کہہ کر انہیں بایں الفاظ میں درود بھیجا اللھم صلی علی سیدنا ونبینا اشرف علی اور ایسا کئی بار کیا اور عذر لنگ یہ تراشا کہ مجبور ہوں، بے اختیار ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں اور واقعہ کی یہ تفصیل اپنے پیر تھانوی صاحب کو لکھ بھیجی۔ بجائے اس کے کہ پیر صاحب اسے تنبیہ کرتے اسے توبہ کراتے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور اسے تسلی دی (رسالہ الامداد بابت ماہ صفر 1336ھ) ان عبارتوں پر شرعی مواخذات کی تفصیل ان حفظ الایمان کی عبارت پر اعلیٰ حضرت نے یہ مواخذہ فرمایا کہ اس میں لفظ ایسا کے ذریعے حضور ﷺ کے علم پاک کو زوائل اور حیوانات وبہائم کے علم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور یہ امر مابین عقلا و اہل لسان مسلم ہے کہ زوائل کے ساتھ تشبیہ میں توہین کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا اس عبارت میں علم نبوت کی صریح توہین ہے اور توہین شان نبوت چونکہ کفر ہے اس لئے قائل کو توبہ صحیحہ شرعیہ تجدید اسلام کرنا چاہئے۔ (2) براہین قاطعہ کی عبارت پر اعلیٰ حضرت نے تین الزامات قائم فرمائے۔ پہلا الزام تو یہ ہے کہ اس میں شیطان و ملک الموت کے مقابلے میں حضورﷺ کے علم پاک کی تنقیص کی گئی ہے اور نبی کے علم کی تنقیص ازروئے کتاب و سنت و باتفاق مشاہیر اسلام کفر ہے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ اس عبارت میں شیطان و ملک الموت کی وسعت علمی کو نص سے (قرآن و حدیث) سے ثابت مانا گیا اور حضورﷺ کی وسعت علمی کے لئے دلیل کا کلیۃ انکار کردیا گیا جو خلاف واقعہ ہونے کے علاوہ شیطان اور ملک الموت کے مقابلے میں نبیﷺ کی تنقیص کا موجب بھی ہے۔ تیسرا الزام یہ قائم فرمایا کہ اس عبارت میں نبی کی وسعت علم کے اعتقاد کو شرک قرار دیا گیا لیکن شیطان و ملک الموت کے حق میں یہی وسعت علم کا اعتقاد عین اسلام بن گیا۔ اب حقیقت کا فیصلہ دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہا جائے کہ کتاب کے مصنفین نے شرک کا حکم غلط لگایا ہے اور اگر صحیح لگایا ہے تو یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ لوگ شیطان و ملک الموت کو خدا کا شریک سمجھتے ہیں۔ (3) تحذیر الناس کی عبارت پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا الزام یہ ہے کہ اس میں لفظ خاتم النبیین سے حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا عوام کا خیال بتایا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقت امر اور قرآن و حدیث کے مفاد کے اعتباد سے حضور آخری نبی نہیں ہیں کیونکہ مصنف کے نزدیک حقیقت امر اور قرآن و حدیث کی رو سے بھی اگر حضورﷺ آخری نبی ہوتے تو یہ ہرگز نہ کہا جاتا کہ حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا عوام کاخیال ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضور کے آخری نبی ہونے کا انکار اسلام میں صریح کفر ہے۔ اور دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی بالفرض کوئی نبی پیدا ہو تو حضورﷺ کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ اس بات کو ہم پہلی بات کا لازمی نتیجہ کہہ سکتے ہیں یعنی جب ان کے نزدیک حضورﷺ آخری نبی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ بغیر کسی قباحت شرعی کے حضورﷺ کے بعد دوسرا نبی آسکتا ہے کیونکہ مانع حضورﷺ کا ’’آخر‘‘ ہونا تھا اور جب اسی کا انکار کردیا گیا تو مانع کہاں رہا… لہذا جس نئے نبی کو بالفرض کی صورت میں تسلیم کیا گیا تھا جب وہ مفروضہ نبی، غلام احمد کی صورت میں واقع ہوگیا تو اب عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد پر اہل دیوبند اس کا کیونکر انکار کرسکتے ہیں؟ (4) الامداد کی عبارت پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا الزام یہ ہے کہ غیر نبی کو نبی کہنا کفر ہے اور کفر کی حوصلہ افزائی اور اپنی خوشنودی کا اظہار بھی کفر ہے لہذا قائل بالکفر اور راضی بالکفر دونوں ایک ہی الزام کی زد میں ہیں۔ باقی رہے گا زبان کے بے قابو ہونے کا عذر تو کفر اور ناروا کلمات منہ سے نکالنے کے لئے شریعت اس طرح کا عذر لنگ ہرگز تسلیم نہیں کرتی۔ اختصار کے ساتھ مذکورہ بالا عبارتوں پر اعلیٰ حضرت کے شرعی الزامات کی جو میں نے تشریح کی ہے اس کی روشنی میں اہل علم حضرات غور فرمائیں کہ اعلیٰ حضرت نے ان لوگوں سے توبہ ورجوع کرنے کا جو فیصلہ فرمایا تھا وہ معقول بنیاد پرمبنی تھا یا بے بنیاد تھا۔ چوتھا شعبہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی خدمات کا چوتھا شعبہ وہ مذہبی اور اخلاقی اصلاحات ہیں جو مسلم معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط رسموں اور برائیوں کے خلاف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے انجام دیئے اور ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر نئے مسائل پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی وہ بلند پایہ تحقیقات اور فکری نوادرات ہیں جنہیں دیکھ کر علمائے عرب نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی فقہی بصیرتوں اور علمی عظمتوں کا لوہا مان لیا۔ معاملات و عبادات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن اغلاط و مفاسد کی اصلاح فرمائی، وہ ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے اعلیٰ حضرت کے فتاوے میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ اگر انہیں منتخب کرکے ایک جگہ جمع کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے خاص طور پر فتاویٰ رضویہ کے وہ مباحث جو محافل میلاد، اعراس، زیارت قبور، مراسم محرم اور خوشی و غمی میں غلط رسم و رواج اور غیر اسلامی امور کی اصلاحات پر مشتمل ہیں وہ ان لوگوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہیں جو اعلیٰ حضرت کو بدعت نواز کہتے ہیں۔ اس مقالے کی آخری سطریں لکھتے ہوئے اپنے عنوان کے متعلق وہ لفظ کہنا چاہتا ہوں، یہ بات اب محتاج بحث نہیں کہ پاک وہند میں اپنے آپ کو حنفی کہنے والے دو بڑے مکاتب فکر میں منقسم ہوگئے ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکراور دیوبند مکتبہ فکر۔ میرا یہ مقالہ دونوں مکتبہ فکر کے تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ ہی کے ذمے ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اہل دیوبند کے مقابلے میں جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اگر وہی اہلسنت کا مذہب ہے تو لازما یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بریلوی مکتبہ فکر ہی مذہب اہلسنت کا صحیح ترجمان ہے۔ پس دعا کیجئے کہ مولائے کریم اس امام اہلسنت کے مرقد پر صبح و شام اپنی رحمتوں کے پھول برسائے جس کا نام احمد رضا علیہ الرحمہ ہے اور جس نے اپنے ناموس کو خطرے میں ڈال کر اپنے آقا کے ناموس کا تحفظ کیا اور پھر جس نے اپنے محبوب کی خوشنودی کے آگے کسی کی خوشنودی کی پرواہ نہیں کی۔ اپنے سلطان کا ایک مستغنی گدا جس نے ارباب سیر وکلاہ کی طرف کبھی نگاہ نہیں اٹھائی، حق کا ایک بے لوث علمبردار جسے زمانہ کسی قیمت پربھی خرید نہیں سکا۔
کیا وہابی نجدی امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو جن لوگوں نے ہند و پاک میں ایسے لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور جو لوگ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں حج کے موقع پر حرمین طیبین میں ایسے لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ___________________________________________ تمام اہلِ اسلام کے نزدیک یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ کسی امام کے پیچھے صحتِ اقتداء کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی۔ جس کے لئے مقتدی و امام کے مابین ایک مخصوص رابطہ قائم ہوجانا ضروری ہے۔ اس مخصوص رابطہ کے بغیر صحتِ اقتداء متصور نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ رابطہ ظاہری، مادی ا ور جسمانی نہیں بلکہ یہ رابطہ صرف باطنی، روحانی اور اعتقادی ہے جسکا وجود امام اور مقتدی کے درمیان اصولی اعتقاد میں موافقت کے بغیر ناممکن ہے۔ شرک توحید کے منافی ہے اور کفر و جاہلیت اسلام اور ایمان سے قطعاً متضاد ہے۔ اگر مقتدی جانتا ہے کہ میرا کوئی عقیدہ امام کے نزدیک شرک جلی یا کفر و جاہلیت ہے تو دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ رہی اور اس عدم موافقت کے باعث صحت اقتداء کی بنیاد منہدم ہوگئی۔ ایسی صورت میں اس امام کے پیچھے اس کی نماز کا صحیح ہونا کیوں کر متصور ہوسکتا ہے؟ اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ مثلاً کسی منکر ختم نبوت کے پیچھے کسی مسلمان کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ مقتدی ختم نبوت کا اعتقاد رکھتا ہے اور امام ختم نبوت کا منکر ہے۔ دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ ہونے کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد باقی نہ رہی۔ لہٰذا نماز نہ ہوئی توضیح مدعا کے لئے ہدایہ سے ایک جزئیہ کا خلاصہ پیش کرتا ہوں کہ اگر امام کی جہت تحری مقتدی کی جہت تحری سے مختلف ہو اور تاریکی یا کسی اور وجہ سے مقتدی کو اس اختلاف کا علم نہ ہوسکے تو اس کی نماز درست ہے اگر مقتدی امام کی جہتِ تحری کا علم رکھتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔ صاحبِ ہدایہ نے اس فساد کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا لِاَنَّہٗ اِعْتَقَدَ اِمَامَہٗ عَلَی الْخَطَائِ یعنی فسادِ صلوٰۃ کی دلیل یہ ہے کہ مقتدی نے اپنے امام کے خطاء پر ہونے کا اعتقاد کیا۔ اس سے واضح ہوا کہ نماز درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مقتدی امام کے خطاء پر ہونے کا معتقد نہ ہو یعنی مطابقتِ اعتقادی ضروری ہے بشرطیکہ مقتدی امام کی خطاء سے باخبر ہو اگر وہ امام کی خطاء سے لا علم ہے تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجاتی ہے۔ اس مختصر تمہید پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ مقتدی جب یہ جانتا ہو کہ امام کے اعتقاد میں رسول اللہ ﷺ کے لئے علم غیب ماننا کفر و شرک ہے اور امام کے عقیدے میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے استمداد بلکہ توسّل تک شرک ہے اور امام مزاراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام و مزاراتِ اولیائے عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کے لئے سفر کرنے بلکہ مزارات کی تعظیم تکریم کو بھی شرک قرار دیتا ہے اور مقتدی ان تمام امور کو توحید اور اسلام کے عین مطابق سمجھتا ہے تو ایسی صورت میں عدم موافقت کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد مفقود ہے پھر نماز کیوں کر درست ہوسکتی ہے۔ مقتدی کی تین قسمیں: رہا یہ امر کہ ایامِ حج وغیرہ میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی نمازوں کا کیا حکم ہوگا تو میں عرض کروں گا کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن کے اصولی عقائد امام سے مختلف ہیں۔ ان کی تین قسمیں ہیں۔ اول وہ جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان اصولی عقائد میں امام کا عقیدہ ہم سے مختلف ہے۔ ان کا حکم تمہید کے ضمن میں واضح ہوگیا ایسے لوگ اپنے علم کے متقضاء کے مطابق یقینا مجتنب رہیں گے۔ دوم وہ مسلمان جو یہ جانتے ہیں کہ امام کے بعض عقائد ہمارے عقائد سے مختلف ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ اختلاف اصولی عقائد میں ہے اور ہمارے عقائد امام کے نزدیک کفر و شرک، معصیت و جاہلیت کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ مسلمان محض حرمِ مکہ و حرم مدینہ اور مسجد حرام و مسجد نبوی کی عظمتوں اور عشق و محبت الٰہی و رسالت پناہی کے جذبات سے متاثر ہو کر اپنی غلط فہمی کی بناء پر اس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کی اس خطا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ورأفت کے پیشِ نظر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ رب کریم ان کی نمازوں کو رائیگاں نہیں فرمائے گا۔ سوم وہ مسلمان جنہیں سرے سے امام کے ساتھ اختلاف عقائد ہی نہیں وہ محض سادہ لوح ہیں۔ عشق و محبت سے سرشار ہوکر حرم مکہ اور حرم مدینہ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بحالتِ لا علمی اس امام کے پیچھے نمازیں پڑھیں ان کے متعلق بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عفو و کرم سے ان کی نمازوں کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ دوم اور سوم قسم کے مسلمانوں کی خطاء قابل عفو ہے۔ طبرانی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے صحیح مرفوع حدیث مروی ہے ’’رُفِعَ عَنْ اُمَّتِیْ الخَطَائُ وَ النِّسْیَانُِ وَمَا اسْتُکْرِ ہُوْا عَلَیْہِ‘‘ اٹھالیا گیا میری امت سے خطاء اور نسیان کو اور اس چیز کو جس پر وہ مجبور کئے گئے یعنی ان تینوں حالتوں میں ان کا مواخذہ نہ ہوگا۔ مثنوی شریف میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بکریاں چرانے والے ایک گڈریے کا واقعہ بطور تمثیل لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بکریاں چرانے والا گڈریا اللہ تعالیٰ سے محبت میں کہہ رہا تھا کہ ’’اے اللہ اگر تو میرے پاس آئے تو تجھے نہلاؤں۔ تیرے بالوں میں کنگھی کروں۔ تجھے دودھ پلاؤں، تیرے پاؤں دباؤں۔‘‘ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے سختی سے ڈانٹا اور ایسی باتوں سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے موسیٰ! میرا بندہ میری محبت میں مجھ سے مخاطب تھا۔ آپ نے اسے کیوں روکا؟ مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔ وحی آمد سوئے موسیٰ از خدا بندۂ مارا چرا کردی جُدا؟ تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن آمدی میرا مقصد اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے صرف یہ ہے کہ سچی محبت اور سچا عشق اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اس لئے اگر سچی محبت اور عشق والے مسلمان نے غلط فہمی یا بے خبری میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی تو رحمتِ خداوندی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بے نمازی قرار نہیں پائے گا اور اللہ اس کا مواخذہ نہ فرمائے گا۔ مزید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن کا ذِکر سطور بالا میں ہوچکا ہے اور ان کی تین قسمیں بھی بیان کی جاچکی ہیں اور ان تینوں قسموں کا حکم بھی مذکور ہوچکا ہے۔ ان تین نمازیوں کی طرح ہیں جن کے پاس نجاست لگا ہوا کپڑا ہے اور اس پر جو نجاست لگی ہوئی ہے وہ مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اس کپڑے سے نماز جائز نہیں۔ ایک نمازی وہ ہے جس نے جان لیا کہ کپڑے پر نجاست ہے اور یہ بھی جان لیا کہ اتنی نجاست کے ہوتے ہوئے نماز نہیں ہوسکتی ظاہر ہے کہ وہ اپنے اس علم کی بناء پر ایسے کپڑے کے ساتھ نماز پڑھنے سے اجتناب کرے گا۔ دوسرا نمازی وہ ہے جو اس کپڑے کی نجاست کو جانتا ہے مگر غلط فہمی کی بناء پر یہ نہیں جانتا کہ اس نجاست سے نماز نہیں ہوسکتی اب اگر وہ شخص نماز کی محبت اور کمالِ شوق الی الصلوٰۃ کی بناء پر اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لے تو رحمتِ الٰہیہ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہ فرمائے گا اور اس کے شوق و محبت کی بناء پر اس کی نماز کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ تیسرا نمازی وہ ہے جو سرے سے کپڑے کی نجاست کا علم ہی نہیں رکھتا اور کمال شوقِ عبادت اور نماز کی محبت میں اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہے فضل ایزدی اور کرمِ خداوندی سے اس کے بارے میں بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دامنِ عفوو کرم میں چھپا لے گا اور اس کی نماز مردود نہ ہوگی۔ یہ صحیح ہے کہ جاننے والے ایسے لوگوں کو صحیح بات ضرور بتائیں گے لیکن اس کے باوجود بھی اگر کسی کو صحیح بات نہ پہنچ سکے تو حکم مذکور مجروح نہ ہوگا۔(مقالات کاظمی ج3)
सोमवार, 3 जुलाई 2017
دہشت گردی کی شروعات کس نے کی؟-____________________________________________ تاریخ کے ورق پلٹیں تو 25 جون 1916ء کو انگریزوں کے ہیرو لارنس آف عربیہ نے حجاز ریلوے کو بم دھماکوں سے اڑا کر مسلم امہ کا اتحاد پارہ پارہ کردیا تھا۔ حجاز ریلوے مسلمان حاجیوں کو ترکی‘ شام‘ اردن سے ہوتے ہوئے مدینہ اور مکہ لے جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عثمانیہ سلطنت کے وسیع علاقوں کو ملانے کے لئے کام آتی تھی۔ جس کی تباہی سے اسلامی خلافت کا سورج ڈوب گیا۔ اس کے بعد سے مغرب نے حجاز ریلوے کو بننے نہیں دیا اور ہمیشہ سے سازشوںکا شکار رہی۔ خودکش حملوں کی ابتداء دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے ’’پرل ہاربر‘‘ پر حملہ کے وقت کی جب انہوں نے جسم سے بم باندھ کر امریکی بحری جہاز کی چمنیوں میں چھلانگیں لگائیں ’’دہشت‘‘ اصل میں سفید فام انسانوں کی دین ہے پچھلی صدیوں میں براعظم افریقہ کے ساحلوں پر جب کوئی گورا نظر آجاتا تو وہاں کے باشندے چھپ جاتے تھے کہ پکڑ کر غلام بنا لے گا۔ برصغیر کے دیہات میں ایک گورا سپاہی نظر آجاتاتھا تو گائوں والے بھاگ کھڑے ہوتے تھے‘ اسی کا نام دہشت ہے۔ داخلی محرکات خودکش دھماکوں کے داخلی محرکات اور خارجی سازشیں کس طرح بے نقاب کروں گزشتہ دنوں مجھے منظور راجپوت ایڈوکیٹ کی ایک میل موصول ہوئی‘ داخلی محرکات سے قبل اس خارجی سازش کو انہی کی زبانی سنئے۔ یہ ستمبر 1998ء کی ایک دوپہر تھی۔ میں سینئر سول جج کی عدالت کے سامنے کوریڈور سے گزر رہا تھا۔ وہاں نے دیکھا کہ ایک انگریز عورت چھوٹے سے پنگھوڑے میں انگوٹھا چوستے ہوئے بچے کے قریب کھڑی سگریٹ کے کش لگاتی اور دھواں اس معصوم بچے کے منہ پر چھوڑ دیت۔ دھویں کی وجہ سے بچے کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ مجھے اس کی حرکت پر تعجب ہوا۔ میں نے رک کر اس سے تعارف چاہا تو اس نے اپنا نام کینا چارلس (Canata Charless) بتایا اور بچے کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس کو گود لے رہی ہے اور اس کی درخواست سول کورٹ میںمنظوری کے لئے پیش ہے۔ میں مڑ کر عدالت میں داخل ہوا تو وہاں اس طرح کے چھ پنگھوڑوں میں نومولود بچے اور ان کے پیچھے قطار میں چھ گوری عورتیں اور دو مرد کھڑے تھے۔ جج صاحب اپنی کرسی پر براجمان دو معروف وکیلوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میرے اندر آنے پر سب نے چونک کر مجھے دیکھا اور جج صاحب نے بے تکفلی سے پوچھا ’’کہئے! منظور صاحب کیسے آنا ہوا؟ میں نے پنگھوڑوں میں لیٹے بچوںاور قطار میں کھڑے گورے مرد و عورتوں کی طرف اشارہ کرکے استفسار کیا ’’یہ کیا چکر ہے؟‘‘ جج صاحب نے ہلا جھجھک بتایا کہ یہ لاوارث بچے ہیں اوران لوگوں نے بچوں کو گود لینے کے لئے درخواست دی ہے۔ میں نے پوچھا ’’یہ بچے کہاں سے آئے ہیں اور کس کے ہیں؟‘‘ ساتھ کھڑے ایک وکیل نے بتایا کہ یہ بچے ایک چرچ نے دیئے ہیں۔ یہ چرچ ناصر کالنی نیو کراچی سیکٹر5-E میں واقع ہے۔ میں نے جج صاحب سے کہا ’’یہ بچے پاکستانی ہیں اور مسلمانوں کے بچے ہیں۔ اس لئے کوئی غیرملکی خصوصا جبکہ وہ غیر مسلم بھی ہو‘ ان بچوں کو گود نہیں لے سکتا۔ ان بچوںکو پالنے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت کی ہے یا پھر کوئی پاکستانی مسلمان ان کو قبول کرے۔ آئین اور قانون یہی کہتا ہے‘‘ ساتھ ہی میں نے متعلقہ قانون کا حوالہ دیا۔ جج نے کہا کہ ’’ان کا تو کوئی وارث بننے کے لئے تیار نہیں‘‘ میں نے کہا ’’میں ان بچوں کو گود لینے کے لئے تیار ہوں اور ابھی باقاعدہ درخواست بھی آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں‘‘ ساتھ کھڑے وکیلوں نے مجھے سو پچاس پونڈ دے کر اس معاملے سے باز رکھنے کی کوشش کی تو میں نے حقارت سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور تھوڑی دیر میں درخواست لکھ کر عدالت میں پیش کردی۔ اس درخواست میں‘ میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ’’میں پاکستانی ہوں‘ دوسرا مسلمان ہوں اور تیسرا یہ کہ میں لاولد ہوں‘ اس لئے سب سے پہلے ان بچوں پر میرا حق بنتا ہے۔ اور پھر عدالت اس بات کی مجاز نہیں ہے کہ ان بچوں کو ایسی لوگوں کے سپرد کردے جو انہیں دوسرے ممالک لے جائیں اور عدالت ان سے کبھی باز پرس نہ کرسکے‘‘ عدالت میں کھڑے گورے مرد عورتوں اوران کے وکیلوں کے چہروں پر مردنی چھا گئی۔ میں درخواست دے کر بار روم میں آ بیٹھا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں وکیل بھی بار روم میں آگئے اور بے تکفلی سے کہنے لگے ’’یار تم نے خواہ مخواہ پھڈا ڈال دیا۔ ہماری روزی پر بھی لات مار رہے ہو اور خود بھی فضول پنگا لے رہے ہو۔ تمہیں سات بچے لے کر کیا کرنے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’میری دینی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ مسلمانوں کے یہ بچے باقی عمر عیسائی بن کر جئیں‘‘ دونوں نے مجھے اپنے موقف سے دستبردار کرنے کے لئے مالی پیش کش میں اضافہ کردیا۔ وہ اچانک ہزاروں سے لاکھوں میں آگئے۔ میں نے کہا ’’یہ مال کا مسئلہ نہیں ایمان کا مسئلہ ہے‘‘ میری درخواست کی سماعت اور مقدمے کی کارروائی بڑھی تو تحقیق حال سے پتہ چلا کہ اس سے پہلے بھی 9 بچے اسی عدالت کے ذریعے یہی لوگ لے کر جاچکے ہیں۔ یہ لوگ الٹا کی ایک عیسائی این جی اوز کے نمائندے ہیں اور یہی کام کرتے ہیں جس چرچ کے متعلق یہ کہاگیاتھا کہ بچے اس کے باہر پڑے پائے گئے۔ تفتیش میں اس چرچ کا وجود ہی سرے سے نہیں تھا۔ عدالت میں دو پیشیوں کے بعد یہ گورے مدعی غائب ہوگئے۔ ان کے درج شدہ پتے پر چھاپہ مارا گیا تو وہ بھی ایک خالی پلاٹ نکلا۔ یہ خالی پلاٹ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع تھا۔ گویا پورا سلسلہ ہی فراڈ پر مبنی تھا۔لیکن ان گوروں کی پیروی کرنے والے وکیلوں نے حق خدمت ادا کرنے کے لئے مجھ پر ہر طرح کا دبائو ڈالنا شروع کردیا۔ جس میں لالچ بھی تھا اور دھونس بھی۔ میرے ایک قریبی بے تکلف دوست نے ایک دن مجھے گھر بلایا اور کہا ’’یار! زندگی میں یہ مواقع بار بار نہیں آیا کرتے‘ کہاں ساری عمرتھانے کچہری میں جوتیاں چٹخاتے پھروگے۔ تین کروڑ روپے اور امریکی ویزا لو اور موجاں مارو۔ لوگ تو ان دونوں میں سے ایک کے لئے جان لٹانے کو تیار رہتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے مولویوں کے ساتھ رہ رہ کرتمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے تمہاری کھوپڑی میں سوراخ بھی ہوسکتا ہے‘‘ دوست کی ان باتوں میں تفکر بھی تھا۔ تشویش بھی اور تحریص بھی تھی اور معاملے کی سنگینی کا اظہار بھی۔ میرے سامنے سرخ رنگ کا سوالیہ نشان سامنے آکھڑا ہوا… میں نے کہا ’’تم درست کہتے ہو۔ یہ میرے دماغ کی خرابی ہے کہ میں تین کروڑ روپے اور امریکی ویزے کو ٹھکرا رہا ہوں۔ مجھے یہ بات معلوم ہے کہ ساری عمر کی محنت کے بعد بھی تین کروڑ روپے جمع نہیں کرسکتا لیکن مجھے یہ بات کھائے جارہی ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے مسلمان بچوں کو عیسائیوں کے حوالے کررہے ہیں۔ اور یہ بھی یقینی ہے کہ بڑے ہوکر یہ بچے عیسائی ہی ہوں گے۔ یہ سوچ کر میرا دماغ پھٹتا ہے اور پھر ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ اس لئے اب لالچ یا خوف مجھے اس بات سے نہیں روک سکتا‘‘ میرے دوست نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا ’’کیا تم اس بات میں سنجیدہ ہو کہ تم ان سات بچوں کو گود لے لو گے۔ ایک یا دو بچوں کو سنبھالنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ سات بچے ایک عمر کے۔ کیا تم نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا ہے‘‘ میں نے کہا ’’ہاں! میری اہلیہ نے ہی میری حوصلہ افزائی کی ہے‘‘ مقدمہ کی کارروائی تین سال چلتی رہی۔ اصل مدعی فرار ہوگئے۔ کیونکہ یہ بات سامنے آچکی تھی کہ ڈینس چارلس اور کینٹا چارلس یہ دونوں میاں بیوی (بظاہر) جو مالٹا میں ایک نام نہاد این جی اوز چلا رہے ہیں‘ حقیقت میں بردہ فروش ہیں اور اس کی آڑ میں غریب ملکوں کے مسلمان بچوں کی تجارت کرتے ہیں۔ یہ محض الزام نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات بھی سول جج نے مجھے خود ہی بتا دی تھی کہ یہی لوگ اس سے پہلے 9 بچے اسی عدالت کے توسط سے لے کر جاچکے ہیں اور اس حقیقت کے کھل جانے کاخوف سے انہیں راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ یہ 9 بچے بھی انہیں اس چرچ نے فراہم کئے تھے جس کا وجود دنیا میں نہیں تھا۔ ان میاں بیوی کا دیا ہوا ایڈریس بھی بوگس ثابت ہوا۔ اس تین سالہ عدالتی کارروائی کے دوران اور بھی حیران کن انکشافات ہوئے۔ میں نے جب مزید عدالتوں سے ایسے لاوارث بچوں کا ریکارڈجمع کرنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹ گئیں کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں تیس ہزار (23,000) لاوارث بچے غیر ملکی این جی اوز یا ان کے ایجنٹوں کے حوالے کئے گئے ہیں۔ یہ 23 ہزار بچے ایک سماجی تنظیم نے مہیا کئے تھے‘ بچے اکھٹے کرنے کے لئے یہ سماجی تنظیم بڑے شہروں میں پبلک مقامات پر پنگوڑے اور جھولے رکھتی ہے۔ ان جھولوں پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ قتل نہ کریں‘ اپنا بچہ یہاں ڈال دیں‘‘ (کیا یہ زنا‘ فحاشی اور حرام کاری کی سرپرستی اور پشت پناہی نہیں ہے؟) اس انکشاف پر ان کو بھی عدالت میں طلب کیا گیا۔ ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ انہوں نے عدالت میں کھڑے ہوکر مجھے دھمکانا شروع کردیا۔ جس پر جج نے انہیں ڈانٹا‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی‘ ان سے یہ نہ پوچھا جاسکا کہ انہوں نے 23 ہزار بچے کتنے میں فروخت کئے؟ یقینا ان کی پشت پر ایسے لوگ یا تنظیمیں موجود ہیں جو سات بچوں کی سودا بازی میں تین کروڑ کی پیشکش کرسکتی ہیں۔ اس سے آپ ان کی طاقت اور اس کالے دھن کا اندازہ لگایئے جس پر انکم ٹیکس کی شرح لاگو نہیں ہوتی۔ آیئے! اب غور کیجئے ان ہوشربا نتائج پر جو ان بچوں کی خریدوفروخت پر مرتب ہوتے ہیں۔ آپ سوچئے! یہ بچے کہاں سے آئے! یہ کسی طبی تحقیق کی بھینٹ تو نہیں چڑھ گئے؟ کیا ان کے اعضاء فروخت کئے جاتے ہیں؟ کیا ان سے حرام کاری کا پیشہ کرایا جاتا ہے؟ کیا ان کو گندی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے؟ کیا ان سے عیسائیت کی تبلیغ یا فحاشی کی ترویج کروائی جاتی ہے؟ کیا وہ یہی دہشت گرد تو نہیں ہیں جن کو ضرورت پڑنے پر خودکش حملوں میں استعمال کرکے نامعلوم حملہ آور قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر حسب منشاء ان کھرا پاکستان بھی پہنچ جاتا ہے۔ پھر حسب منشاء ان کھرا پاکستان بھی پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ ڈی این اے ٹیسٹ میں وہ پاکستانی ثابت ہوجاتے ہیں۔ کیا کبھی عدالتوں نے ان کا کھوج لگایا؟ اور وہ کھوج لگا بھی کیسے سکتی ہیں کہ اب وہ بچے ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ حالانکہ پاکستان کی کسی عدالت کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ پاکستانی بچے کسی ایسے فرد یا تنظیم کے حوالے کرے جس کو چیک نہ کیا جاسکے۔ چلو یہ نہی سہی تو انہی بچوں کا حال احوال معلوم کرلیا جائے جو ایس او ایس ولیج میں پرورش پا رہے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعدان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ حکومت کو اپنے ذرائع سے ان کا سراغ لگانا چاہئے کہ یہ مسلمانوں خصوصا پاکستان کے خلاف دھماکوں اور ہنگاموں کی بنیادوں کی بنیاد پر جو الزامات لگا کر عالمی سطح پر اس کو اچھالا جاتا ہے‘ یہ جو نامعلوم حملہ آوروں کی ناقابل شناخت لاشیں ملتی ہیں‘ کہیں ان معصوم لاوارث بچوں کی نہ ہوں جن کو بے حس اور بے غیرت لوگوں نے ڈالروں کے لالچ میں فروخت کردیا۔ دینی مدرسوں اور مسجدوں میں دہشت گردی کے عوامل کو تلاش کرنے کے بجائے ان این جی اوز کو کنھگالا جائے جنہوں نے 23 ہزار بچوں کو فروخت کیا ہے‘ جرات اور ہمت سے کام لیا جائے تو بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔ پردے کے پیچھے اور بہت کچھ ہے لیکن اس تک جھانکنے کے لئے ایمانی طاقت اور بے لوث حب الوطنی کی ضرورت ہے۔ منظور راجپوت ایڈووکیٹ کی اس طویل میل کے بعد ایک عام آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ کہ خودکش دھماکے اسلامی ممالک میں ہی کیوں ہورہے ہیں؟ اگر یہ خودکش حملہ آور مسلمان ہیں تو ان کا نشانہ مسلمان ہی کیوں ہیں؟ ان خودکش دھماکوں سے امریکہ اور برطانیہ کے شہری کیوں نہیں ہلاک ہوتے اصولا (اگر یہ مسلمان اتنے ہی جنگجو اور دہشت گرد ہیں) تو ان خودکش حملہ آوروں کے دشمن یہودونصاریٰ ہونے چاہئے مسلمان نہیں۔ لیکن ان دھماکوں کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑ رہاہے۔ عزیزان من! اسلام تو کسی بھی ذریعے سے مسلمان تو مسلمان امن پسند غیر مسلموں کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ اسلام کی تو تعلیمات ہی یہ ہیں کہ ایک جان مسلم کا اتلاف کعبہ ڈھانے سے بدتر ہے۔ اس طویل بحث سے تو یہ بات آشکار ہوگئی کہ ان خودکش دھماکوں کے پیچھے کسی مسلمان کا نہیں بلکہ عالم صلیب ہی کا ہاتھ ہے جن کی تاریخ ہی دہشت گردی اور فتنہ و فساد سے بھری ہوئی ہے۔ ہماری غفلت دوسری جانب ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہئے کہ ہم نے لاوارث بچوں کو جو N.G.O`s اور خیراتی اداروں کے سپرد کیا ہم نے کبھی ان سے اس بارے میں استفاربھی نہ کیا کہ بچوں کا کیاہوا؟ ایک مصیبت تھی جو سرسے ٹل گئی جان چھوٹ گئی سو لاکھوں پائو… ایک اور پہلو:۔ لیکن اس پہلو کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کہ یہ لاوارث بچے کہاں سے آئے۔ 1۔غربت سے 2۔ قحبہ خانوں کے ذریعے ان ذرائع کے علاوہ میری نظر میںکوئی اور تیسری وجہ نہیں۔ اگر ان دو وجوہات میں سے پہلی وجہ کو لیا جائے تواسکی مکمل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ساتھ ہی ان لوگوں پر جنہیں اﷲتعالٰی نے دولت سے نوازا مگر وہ اس دولت پر سانپ بن کر بیٹھ گئے حالانکہ اس دولت میں ان فقیروں‘ مسکینوں اور ناداروں کا بھی حق ہے۔ دوسری وجہ فحاشی و عریانیت کا بڑھتا ہوا سیلاب اور اس کی پشت پناہی پر یہود و نصاریٰ کا ہاتھ اوراس کی وجہ سے شادی سے قبل اولاد اور اس سے گلوخلاصی کے لئے خیراتی ادارے اور ان خیراتی اداروں کی بردہ فروشی اور ان عالمی بردہ فروشوں کی عالمی دہشت گردی میں استعمال ہونے والے خودکش حملہ آور۔ عزیزانِ من! اگر ہم نے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا ہوتا… ہم نے حقوق نسواں نامی بل پر فحاشی وعریانیت کے پرمٹ تقسیم نہ کئے ہوتے…ہم نے میڈیا کو مادر پدر آزادنہ چھوڑا ہوتا… ہم نے مخلوط نظام تعلیم رائج نہ کیا ہوتا تو یقین جانیے ہماری گلیوں میں آج وحشت و خونخواری کا‘ یہ وحشیانہ رقص نہ ہوتا۔ خودکش دھماکوں کے اثرات:۔ ان خودکش دھماکوں کا اثر سب سے زیادہ کس قوم پر پڑا ہر انصاف پسند شخص یہ کہہ اٹھے گا کہ مسلمان قوم پر… ان خودکش دھماکوں کے مسلمانوں پر انتہائی ہولناک معاشرتی‘ معاشی اثرات مرتب ہوئے۔ سرخ شعلوں کی تپش:۔ یہ پھٹتے ہوئے جسم‘ جسم نہ تھے وہ سرخ شعلے تھے جنہوں نے گھروں کو نہیں بلکہ خاندانوں کو اجاڑ دیا… جنہوں نے معاشرے میں کانٹوں کی کاشت کی اس کے معاشرے میں کیسے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے اس کا تصور ایک ذی شعور انسان کو خوفزدہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اے ملت اسلامیہ کی ذی شعور لوگو! ذرا سوچو! یہ خودکش دھماکہ صرف امت مسلمہ کے درمیان ہی کیوں ہو رہے ہیں؟ اس کا خمیارہ صرف ملت اسلامیہ ہی کیوں بھگت رہی ہے؟ اگر خودکش دھماکہ کرنیوالا مسلمان ہے تو وہ مسلمانوںہی کیوں نشانہ بنا رہا ہے؟ جنگ تو امریکہ سے ہورہی ہے مقابل تو یہود نصاریٰ ہیں۔ مگر خودکش حملے مسلمانوں پر کیوں ہورہے ہیں؟ کون ہے ان حملوں کے پیچھے؟ کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے ان حملوں کا؟ ذرا سوچو! تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ اس کا خمیارہ ملت اسلامیہ بھگت رہی ہے… اسکا نقصان امت مسلمہ کو ہورہا ہے… اس کا فائدہ اہل صلیب کو پہنچ رہاہے… ذرا سوچو! اس خودکش حملے میں جو ہلاک ہو گا‘ اگروہ اپنے گھرانے کا واحد کفیل ہوتو وہ گھرانہ کیا کرے گا… اس کے بچوں کا کیا بنے گا… اس کے گھر کا چولھا کیسے جلے گا…جس ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہو‘ لامحالہ اس کے بچے ڈاکو بن جائیںگے… معاشرے میں انتشار کا سبب ہوں گے۔ یا پھر بہنوں کی شادی کے لئے ایسے ہی کسی صلیبی ایجنٹ کے ہاتھ لگ کر ایک اور خود کش حملہ آور بن جائیں گے۔ ا سکی جوان بیٹی جہیز نہ ہونے کے سبب گھر میں بیٹھی رہ جائے یا پھر جسم فروشی پر مجبور ہو جائے گی۔ اس کے بچے ا س مہنگی تعلیم کو حاصل نہ کر سیکیں گے اور تن پیٹ کاٹ کر اگر تعلیم حاصل کر بھی لی تو نوکری کے لئے جوتیاں چٹخاتے پھریں گے۔ ایسی صورتحال میں نقصان کس کا ہوا؟ امت مسلمہ کا پیر کرم شاہ الازہری سورہ نساء کی آیت ولاتقتلو اانفسکم ( اور نہ ہلاک کرو اپنے آپ کو) کی تفسیر میں لکھتے ہیں اس آیت میں خودکشی کیا ممانعت بھی آگئی اور کسی مسلمان بھائی کو بلاوجہ قتل کرنے سے بھی دیا گیا۔ انفسکم کہہ کر بتا دیا کہ اگر تم کسی مسلمان بھائی کو قتل کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا۔ تمہاری ایک مومن بہن بیوہ ہو جائے گی تمہاری ہی ملت کے معصوم بچے یتیم ہوں گے تمہارے مسلم معاشرہ کا ہی ایک گھر غم و اندوہ کے اندھیروں میںڈوب جائے گا۔ (تفسیر ضیاء القرآن جلد اول صفحہ 338 ) بات ابھی ختم نہیںہوتی بلکہ جو معاشی نقصانات سامنے آئیں گے… جو سرمایہ دار اپنا سرمایہ آپ کے ملک میں نہیں لگائیںگے وہ سارا سرمایہ باہر ملک جائے گا۔ مغربی ممالک اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اور ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے سبب بے روزگاری کی شرح میں جو ہوشر بااضافہ ہوگا اور اس کا حل نہ نکلنے کی صورت میں اسٹریٹ کرائمز میں جو اضافہ ہوگا۔ مزاحمت میں جو لوگون کا قتل ہوگا۔ اور اس سے جونتائج برآمد ہوںگے۔ اس کا تو اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا اور اگر ان خودکش حملوں میں دانشور‘ علمائ‘ انجینئر‘ ڈاکٹر ہلاک ہو جائیں تو یہ ملک و قوم کو کن حادثات سے دوچار کرے گا اس کا ہم اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ خدارا ! غیروں کی اس آگ میں اپنوں کو نہ جھونکو۔ خدارا ! دینی غیرت وحمیت اپنے اندر پیدا کرو۔ خدارا ! اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرو۔ خدارا ! اپنے رب کی اطاعت اور اپنے رسول کی اتباع کو اپنا سرمایہ زندگی بنا لو۔ خدارا !!! خدارا !! اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کرو ان کو اس آگ میں جلنے سے بچا لو۔ اے امت مسلمہ کے دانشورو! اے ملت اسلامیہ کے صحافیو! اے زوال پذیر قوم کے نوجوانو! اے قوم ہاشمی کے نگہبان خطیبو! آئو آج امت مسلمہ کو اس طوفان سے نکالنے کے لئے دوسرے کے ہاتھ کو تھامے ایک دوسرے کو آواز دیں… ایک دوسرے کی مدد کریں۔ خودکش حملوں کا تدارک:۔ ہاں آج سوچنا ہے اقوام عالم کو اگر وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں امن ہوتو انہیں اپنے اس ظلم و ستم کو روکنا ہوگا۔ اقوام عالم کے نمائندو! آئو اور اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرو یہ تو امن پسند دین ہے اور یہ وہ دین ہے جو صرف اپنوں ہی کو راحت و سکون عطا نہیں کرتا بلکہ غیروں کو بھی چھائوں مہیا کرتی ہے۔ یقین جانو! اگر آج تم اسلام دشمنی کا قلاوہ گردن سے اتار کر پھینک دو تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ اور اے امت اسلامیہ کے حکمرانو! اگر تم اپنی صفوں میں اتحاد کرلو… تمہاری عدالتوں میں انصاف عام ہوجائے تو یقین جانو کہ بہت جلد تمہارے گلشن میں دوبارہ بہار آجائے… تمہارے شہروں کی رونقیں بحال ہوجائیں… اور تمہارے مسلمان بھائیوں کے گھروں کی خوشیاں لوٹ آئیں۔
کیا عید کے دن معانقہ و مصاحفہ کرنا بدعت و حرام ہے؟
کیا عید کے دن معانقہ و مصافحہ کرنا بدعت و حرام ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عید کے دن اپنے مسلمان بھائی سے ہاتھ ملانا یعنی مصافحہ کرنا اور گلے ملنا یعنی کہ معانقہ کرنا ہمیشہ سے ملت اسلامیہ میں رائج تھا، اور ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں بلکہ بھلائی ہی بھلائی ہے، لیکن علمائے دیوبند کو بھلائی کے اس کام میں بھی بدعت کی برائی نظر آئ اور عید کے دن مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنے کو بدعت اور مکروہ تحریمی یعنی کہ حرام کے قریب کا فتوٰی دے دیا،
مولوی رشید احمد گنگوہی کے دو فتوے پیش خدمت میں
سوال :- عید میں معانقہ کرنا اور بغل گیر ہونا کیسا ہے؟
جواب_ عیدین میں معانقہ کرنا بدعت ہے، فقط، واللہ تعلیٰ اعلم "
فتاوٰی رشیدیہ، از:مولوی رشید احمد گنگوہی، ناشر :مکتبہ تھانوی، دیوبند، صفحہ 148)
نہ کسی کتاب کا حوالہ نہ کوئی دلیل بس جو بھی دل میں آئے لکھ دو، علمائے دیوبند کے اکثر فتاوٰی آپ کو دلائل سے بلکل خالی ہی ملیں گے، عید کے دن معانقہ بدعت کہہ دیا لیکن اس کے بدعت ہونے کی وجہ کیا ہے؟ یہ جان کر تو آپ حیرت کریں گے،
گنگوہی صاحب کا فتوٰی کہ معانقہ کیوں بدعت ہے،
سوال_معانقہ کرنا بالخصوص عیدین کے روز کس درجہ گناہ ہے، مکروہ ہے یا حرام؟
جواب :معانقہ و مصافحہ بوجہ تخصیص کے اس روز میں اس کو موجب سرور اور باعث مودت اور ایام سے ذیادہ مثل ضروری کے جانتے ہیں بدعت ہے اور مکروہ تحریمی، "فتاوٰی رشیدیہ، از:مولوی رشید احمد گنگوہی، ناشر مکتبہ، تھانوی، دیوبند، صفحہ 148)
مذکور فتوے میں گنگوہی صاحب کہہ رہے ہیں کہ عید کے دن کو مصافحہ اور معانقہ کرنا دیگر ایام کے مقابلے میں موجب سرور یعنی کہ خوشی کا سبب اور باعث مودت یعنی کہ بھائی چارگی کی وجہ سے سمجھ کر کرتے ہیں اس لئے بدعت اور مکروہ تحریمی یعنی کہ حرام کے قریب ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عید کے دن خوشی اور بھائی چارگی کی وجہ سے مصافحہ اور معانقہ منع ہے، تو کیا عید کے دن خوشی اور بھائی چارگی کے بجائے غم و غصہ کا اظہار کرنا چاہیے، تب ہی مصافحہ اور معانقہ جائز ہوگا؟ ایک اہم بات کی طرف ہم قارئین کی توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ سائل نے تو صرف معانقہ کے متعلق گنگوہی صاحب سے سوال کیا تھا لیکن گنگوہی صاحب نے معانقہ کے ساتھ ساتھ مصافحہ کو بھی اپنے غم و غصہ کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہاں تک کہ گنگوہی صاحب نے "تذکرۃ الرشید" جلد اول صفحہ 181،پر عید کا مصافحہ اور معانقہ کو صاف حرام لکھ دیا ہے، جو کام قوم مسلم کے مابین اتحاد کا باعث تھا اس کو علمائے دیوبند تفریق بین المسلمین کا اپنا مقصد حل کرنے کے لئے ناجائز میں شمار کر رہے ہیں،
امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان سے مصافحہ و معانقہ کے جائز ہونے کے تعلق سے تحریر فرماتے ہیں:
معانقہ بطور برّوکرامت و اظہار محبت۔ بے فساد نیت وموادِّ شہوت، بالاجماع جائز جس کے جواز پر احادیث کثیرہ وروایات شہیرہ ناطق، اور تخصیص سفر کا دعوٰی محض بے دلیل ، احادیثِ نبویہ و تصریحاتِ فقہیہ اس بارے میں بروجہ اطلاق وارد، اور قاعدہ شرعیہ ہے کہ مطلق کو اپنے اطلاق پر رکھنا واجب اور بے مدرک شرعی تقیید وتخصیص مردود باطل ، ورنہ نصوصِ شرعیہ سے امان اُٹھ جائے ،
جوازِ معانقہ کی مندرجہ ذیل شرطیں ہیں:معانقہ کپڑوں کے اوپر سے ہو ۔) نیکی، اعزاز اور اظہار محبت کے طور پر ہو۔(۳) خرابی نیت اور شہوت کا کوئی دخل نہ ہو۔مذکورہ بالاشرطوں کے ساتھ معانقہ سفر، غیر سفر ہر حال میں جائز ہے۔دلیل: اس کا ماخذوہ روایات واحادیث ہیں جن میں قیدِ سفر کے بغیر معانقہ کا ثبوت ہے، جو لوگ صرف آمدِ سفر کے بعد معانقہ جائز بتاتے ہیں ان کا جواب یہ ہے :تمام احادیث وروایات میں مطلق طور پر جواز معانقہ کا ثبوت ہے، یہ کسی حدیث میں نہیں کہ بس سفر سے آنے کے بعد معانقہ جائز ہے، باقی حالات میں ناجائز بلکہ بعض احادیث سے صراحۃً آمدِ سفر کے علاوہ حالات میں بھی معانقہ کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔(۴) شریعت کا قاعدہ ہے کہ جو حکم، مطلق او رکسی قید کے بغیر ہو، اسے مطلق ہی رکھنا واجب وضروی ہے،معانقہ کے بارے میں جب یہ حکم مطلق او رقید سفر کے بغیر ہے، تو اسے مطلق رکھتے ہوئے سفر ، غیر سفر ہر حال میں معانقہ جائز ہوگا۔(۶) ہاں اگر کسی حکم میں خود شریعت کی جانب سے تخصیص اور تقیید کا ثبوت ہو تو اس حکم کو مخصوص او رمقید ضرور مانا جائے گا مگر معانقہ
کے بارے میں سوا اُن شرائط کے جو ابتدا میں ذکر کی گئیں آمد وسفر وغیرہ کی کوئی قید نہیں۔لہذا جواز
معانقہ کے بارے میں بے دلیل شرعی آمدِ سفر کی قید لگانا محض باطل اور نا مقبول ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد ٨ صفحہ ١٣٦)
خانیہ میں ہے:ان کانت المعانقۃ من فوقِ قمیصٍ او جُبّۃٍ جاز عند الکل اھ۲؎ ملخصا۔اگر معانقہ کُرتے یا جُبّے کے اوپر سے ہو تو سب کے نزدیک جائز ہے اھ ملخصاً
(۲؎ فتاوٰی خانیہ کتاب الحظروالاباحۃ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۴/۷۸۳)
مجمع الانہر میں ہے:اذا کان علیھما قمیص اوجبۃ جاز بالاجماع ۳؎ اھ ملخصا۔
اگر معانقہ کرنے والے دونوں مردوں پر کُرتا یا جُبّہ ہو تو یہ معانقہ بالاجماع جائز ہے اھ ملخصاً،
(۳؎ مجمع الانہر کتاب الکراھیۃ مطبوعہ بیروت ۲ /۵۴۱)
ہدایہ میں ہے:قالوا الخلاف فی المعانقۃ فی ازار واحدٍ واما اذا کان علیہ قمیص اوجُبۃ فلا باس بھا بالاجماع وھو الصحیح ۴؎ ۔
طرفین ( امام اعظم وا مام محمد) اور ابو یوسف میں اختلاف ایک تہمد کے اندر معانقہ کے بارے میں ہے لیکن جب معانقہ کرنے والا کُرتا یا جبہّ پہنے ہو تو بالاجماع اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی صحیح ہے۔
(۴؎ ہدایہ کتاب الکراہیۃ مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/۴۶۶)
در مختار میں ہے : لوکان علیہ قمیص او جبۃ جاز بلاکراھۃ بالاجماع وصححہ فی الھدایہ وعلیہ المتون ۵؎ ۔
اگر اس کے جسم پر کرتا یا جبہ ہو تو بلا کراہت بالاجماع جائز ہے، ہدایہ میں اسی کو صحیح قراردیا ، متون فقہ میں یہی ہے ۔
(۵؎ درمختار کتاب الحظر والاباحۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۴)
شرح نقایہ میں ہے: عِناقُہ اذاکان معہ قمیص او جبۃ او غیرہ لم یُکرہ بالاجماع وھو الصحیح ۱؎ اھ ملخصا۔
اس کا معانقہ جب اسی طرح ہو کہ کُرتا یا جبّہ یا کچھ حائل ہو تو بالاجماع مکروہ نہیں، اور یہی صحیح ہے اھ ملخصاً،
(۱ شرح نقایہ (ملا علی قاری) کتاب الکراھیۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی ۲/ ۲۲۹)
اسی طرح امام نسفی نے کافی پھر علامہ اسمٰعیل نابلسی نے حاشیہ درر مولٰی خسرو وغیرہا میں جزم کیا، اور یہ وقایہ و نقایہ و اصلاح وغیرہا متون کا مفاد، اور شروح ہدایہ وحواشی درمختار وغیرہا میں مقرر ان سب میں کلام مُطلق ہے کہیں تخصیص سفر کی بُو نہیں۔اَ شِعَّۃُ اللّمعات میں فرماتے ہیں :
اما معانقہ اگر خوف فتنہ نباشد مشروع ست خصوصاً نزد قدوم از سفر ۲؎۔
معانقہ میں اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو جائز و مشروع ہے خصوصاً جب سفر سے آرہا ہو۔
(۲؎ اشعۃ اللمعات باب المصافحۃ والمعانقہ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/۲۰)
یہ'' خصوصاً '' بطلانِ تخصیص پر نصِّ صریح __ رہیں احادیث نہی، ان میں زید کے لئے حجت نہیں کہ ان سے اگر ثابت ہے تو نہی مطلق۔ پھر اطلاق پر رکھے تو حالتِ سفر بھی گئی، حالانکہ اس میں زید بھی ہم سے موافق ۔ اور توفیق پر چلئے تو علماء كرام فرماتے ہیں وہاں معانقہ بروجہ شہوت مراد۔ اور او پر ظاہر کہ ایسی صورت میں تو بحالتِ سفربھی مصافحہ بھی ممنوع ، تابمعا نقہ چہ رسد ف۱ ۔
ف۱: یہ اُن احادیث سے استدلال کا جواب ہے جن میں معانقہ سے ممانعت آئی ہے۔ تو ضیح جواب یہ ہے کہ احادیث میں ممانعت مذکور ہے۔ اب اگر ان سے مطلقاً ہر حال میں ممانعت مراد لیں تو سفر، غیر سفر ہر جگہ معانقہ ناجائز ہوگا جب کہ سفر سےآنے کے وقت مانعین بھی معانقہ جائز مانتے ہیں۔ اس لئے وہ اگر احادیث نہی ہمارے خلاف پیش کریں تو خود ان کے بھی خلاف ہوں گی _ لامحالہ جوازِ معانقہ اور ممانعتِ جواز دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق کرنا ہوگی، اور دونوں کے ایسے معنی لینے ہوں گے جن سے تمام احادیث پر عمل ہوسکے _ اور تطبیق یوں ہے کہ جہاں معانقہ سے ممانعت ہے وہاں معانقہ بطور شہوت مراد ہے __ اور جہاں جواز معانقہ کا ثبوت ہے وہاں معانقہ بے شہوت وفساد نیت مراد ہے جیسا کہ ہم نے ابتداءً ذکر کیا __ او رظاہر ہے کہ معانقہ بطور شہوت تو سفر سے آنے کے بعد بھی ناجائز ہے بلکہ اس طرح تو معانقہ کیا مصافحہ بھی ناجائزہے۔ احادیث جواز منع کے درمیان تطبیق مختلف فقہاء کرام نے فرمائی ہے اعلٰیحضرت رحمہ اﷲ تعالٰی نے ان کا حوالہ کتاب میں پیش کردیا ہے ۔ (مترجم)امام فخرالدین زیلعی تبیین الحقائق اور اکمل الدین بابرتی عنایہ اور شمس الدین قہستانی جامع الرموز اور آفندی شیخی زادہ شرح ملتقی الابحر اور شیخ محقق دہلوی شرح مشکوٰۃ او رامام حافظ الدین شرح وافی اور سیدی امین الدین آفندی حاشیہ شرح تنویر اور مولٰی عبدالغنی نابلسی شرح طریقہ محمدیہ میں، اور ان کے سوا اور علماء ارشاد فرماتے ہیں:
وھذا لفظ الاکمل، قال وَفّق الشیخ ابو منصور ( یعنی الماتریدی امام اھل السنۃ وسید الحنفیۃ ) بین الاحادیث فقال المکروہ من المعانقہ ماکان علی وجہ الشھوۃ وعبر عنہ المصنف ( یعنی الامام برھان الدین الفرغانی) بقولہ ازارواحدٍ فانہ سبب یفضی الیھا فاما علٰی وجہ البِر والکرامۃ اذاکان علیہ قمیص او جبۃ فلا باس بہ ۱؎ ۔
( یہ اکمل الدین بابرتی کے الفاظ ہیں) انھوں نے فرمایا شیخ ابو منصور ( ماتریدی، اہل سنت کے امام اور حنفیہ کے سردار) نے( معانقہ کے جواز و منع دونوں طرح کی) حدیثوں میں تطبیق دی ہے، انہوں نے فر مایا مکروہ وہ معانقہ ہے جو بطور شہوت ہو ۔اور مصنف ( یعنی امام برہان الدین فرغانی صاحب ہدایہ) نے اسی کو ایک تمہید میں معانقہ کرنے سے تعبیرکیا ہے، اس لئے کہ یہ سبب شہوت ہو سکتا ہے، لیکن نیکی او راعزاز کے طور پر کُرتا یا جُبہ پہنے ہوئے معانقہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (ت)
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر شرح ہدایہ کتاب الکراھیۃ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۸ /۴۵۸)
اور کیونکر روا ہوگا کہ بے حالتِ سفرمعانقہ کو مطلقاً ممنوع ٹھہرائے حالانکہ احادیث کثیر میں سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بارہا بے صورت مذکورہ بھی معانقہ فرمایاف۱ ۔
ف۱: یہاں سے استدلال نے ایک دوسرا رنگ اختیار کیا، اعلٰیحضرت رحمہ اﷲ تعالٰی نے سولہ احادیث ان کے حوالوں کے ساتھ پیش فرمائی ہیں جن میں اُسی معانقہ کا ذکر ہے جو نیکی، اعزاز اور اظہار کے طور پر ہے___ خرابی نیت اور مواد شہوت سے ہر طرح دور ہے _ مگر بے حالت سفر ہے _ لہذا احادیث سے صراحۃً یہ ثبوت فراہم ہوجاتا ہے کہ صرف قدومِ سفر کے بعد ہی نہیں بلکہ دیگر حالات میں بھی معانقہ بلاشبہ جائز درست ہے ۔ اور جب خود سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ان تمام احوال میں معانقہ کا ثبوت حاصل ہوجاتاہے تو کوئی دوسرا اسے '' بدعت و ناروا'' کہنے کا کیا حق رکھتا ہے !
حدیث، 1_ یعنی ایک بارسید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے، حضور نے '' گلے لگا کر'' دعا کی: الہٰی! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ الصحیح للمسلم باب فضل الحسن والحسین مطبوعہ راولپنڈی ۲/ ۲۸۲)
حدیث(2) نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو، اورہمیں '' لپٹا لیتے'' پھر دعا فرماتے : الہٰی! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما۔
(۲؎ الصحیح البخاری باب وضع الصبی فی الحجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸)
حدیث(3) سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے '' سینے سے لپٹایا'' پھر دُعا فرمائی: الہٰی! اسے حکمت سکھا دے۔
(۱؎ الصیح البخاری مناقب ابن عباس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۳۱)
حدیث(4) ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو '' لپٹالیا''
(۲؎ مسند احمد بن حنبل مناقب ابن عباس مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۷۲)
حدیث (5) سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا: حسن اور حسین۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا سےبلوا کر '' سینے سے لگالیتے '' اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیہم و بارک وسلم۔
(۳ جامع ترمذی مناقب الحسن والحسین مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۴۰ ۔ ۵۳۹)
حدیث (6) اس اثنا میں کہ وہ باتیں کررہے تھے اور ان کے مزاج میں مزاح تھا، لوگوں کو ہنسارہے تھے کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لکڑی ان کے پہلو میں چبھوئی، انھوں نے عرض کی مجھے بدلہ دیجئے، فرمایا: لے۔ عرض کی: حضور تو کرتا پہنے ہیں اور میں ننگا تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کرتا اُٹھایا انھوں نے حضور کو اپنی '' کنار میں لیا'' اور تہیگاہِ اقدس کو چُومناشروع کیا پھر عرض کی : یا رسول اﷲ! میرا یہی مقصود تھا۔
(۱؎ سنن ابوداؤد باب قُبلۃ الجسد ( کتاب الادب) مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۳۹۳)
ع دلِ عشّاق حیلہ گر باشد
( عاشقو ں کے دل بہانہ تلاش کرنے والے ہوتے ہیں)
صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی کل من احبہ وبارک وسلم۔
حدیث(7) میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور ہمیشہ مصافحہ فرماتے۔ ایک دن میرے بلانے کو آدمی بھیجا میں گھرمیں نہ تھا، آیا تو خبر پائی، حاضر ہوا، حضور تخت پر جلوہ فرماتھے '' گلے سے لگالیا'' تو زیادہ جیّد اور نفیس ترتھا۔
(۲؎ سنن ابوداؤد باب فی المعانقۃ (کتاب الادب) مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/۳۵۲)
حدیث(8) میں نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور نے مولٰی علی کو '' گلے لگایا'' اور پیار کیا ، اور فرماتے تھے میرا باپ نثار اس وحید شہید پر۔
(۳؎ مسند ابو یعلٰی مسند عائشہ مطبوعہ موسس علوم القرآن بیروت ۴/ ۳۱۸)
حدیث (9) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضور کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے، حضور نے ارشاد فرمایا: ہر شخص اپنے یار کی طرف پَیرے۔ سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق باقی رہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صدیق کی طرف پَپر کے تشریف لے گئے اور انھیں گلے لگا کر فرمایا: میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی صاحبہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ طبرانی کبیر حدیث ۱۱۶۷۶ و ۱۱۹۳۸ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱/ ۲۶۱ و ۳۳۹)
حدیث(10) ہم خدمت اقدس حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے، ارشاد فرمایا: اس وقت تم پر وہ شخص چمکے گا کہ اﷲ تعالی نے میرے بعد اس سے بہتر وبزرگ تر کسی کو نہ بنایا اور اس کی شفاعت شفاعتِ انبیاء کے مانند ہوگی ، ہم حاضر ہی تھے کہ ابو بکر صدیق نظر آئے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صدیق کو پیار کیا اور '' گلے لگایا''
(۲؎ تاریخ بغداد ترجمہ ۱۱۴۱ محمد بن عباس ابوبکر القاص مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۳/ ۲۴ ۔ ۱۲۳)
حدیث(11) میں نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، کے ساتھ کھڑے دیکھا اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے، حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے مصافحہ فرمایا اور ''گلے لگایا'' او ران کے دہن پر بوسہ دیا ۔ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے عرض کی: کیا حضورابو بکر کا مُنہ چومتے ہیں ؟ فرمایا: اے ابوالحسن ! ابوبکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔
(۱؎ سیرت حافظ عمر بن محمد ملاّ)
حدیث دوازدہم (12) :ابن عبدِ ربہّ کتاب بہجۃ المجالس میں مختصراً اور ریاض نضرہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے مطَوَّلاً، صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ابتدائے اسلام میں اظہار اسلام اورکفار سے حرب وقتال فرمانا،اور ان کے چہرۂ مبارک پر ضربِ شدید آنا،اس سخت صدمے میں بھی حضور اقدس سید المحبوبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا خیا ل رہنا،حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دارالارقم میں تشریف فرما تھے اپنی ماں سے خدمتِ اقدس میں لے چلنے کی درخواست کرنا مفصلاً مروی ، یہ حدیث ہماری کتاب مَطْلَعُ الْقُّمَریْن فی اَباَنَۃِ سَبْقَۃِ الْعُمَرَیْن ( ۱۲۹۷ھ ) میں مذکور، اس کے آخر میں ہے:
یعنی جب پہچل موقوف ہوئی اور لوگ سورہے ان کی والدہ اُم الخیر اور حضرت فاروق اعظم کی بہن ام جمیل رضی اﷲ تعالٰی عنہما انھیں لے کر چلیں،بوجہ ضعف دونوں پر تکیہ لگائے تھے، یہاں تک کہ خدمت اقدس میں حاضر کیا، دیکھتے ہی '' پروانہ وارشمع رسالت پر گر پڑے''( پھر حضور کو بوسہ دیا) اور صحابہ غایت محبت سے ان پر گرے۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لئے نہایت رقت فرمائی۔
(۲؎ الریاض النضرۃ ذکرام الخیر مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آباد ۱/ ۷۶)ۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤ
حدیث (13) حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر فرمایا: عثمان کہاں ہیں؟ عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ بے تابانہ اُٹھے اور عرض کی: حضور ! میں یہ حاضر ہوں۔ رسول اﷲ صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس آؤ۔ پاس حاضر ہوئے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے '' سینہ سے لگایا'' اور آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا۔
(۱؎ شرح المصطفی ( شرف النبی) باب بیست ونہم میدان انقلاب تہران ص ۲۹۰)
حدیث (14) ہم چند مہاجرین کے ساتھ خدمتِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے حاضرین میں خلفائے اربعہ و طلحہ و زبیر و عبدالرحمن بن عوف وسعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم تھے،حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں ہر شخص اپنے جوڑ کی طرف اٹھ کر جائے اور خود حضور والا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف اُٹھ کر تشریف لائے ان سے'' معانقہ'' کیا اور فرمایا: تو میرا دوست ہے دُنیا و آخرت میں ۔
( ۲؎ المستدرک باب فضائل عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ مطبوعہ بیروت ۳/ ۹۷)
حدیث (15) حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے معانقہ کیا اور فرمایا:میں نے اپنے بھائی عثمان سے معانقہ کیا جس کے کوئی بھائی ہو اسے چاہئے اپنے بھائی سے '' معانقہ کرے''
(۳؎ کنز العمال بحوالہ ابن عساکر حدیث ۳۶۲۴۰ مطبوعہ دارالکتب الاسلامی حلب ۱۳/ ۵۷)
ا س حدیث میں علاوہ فعل کے مطلقاً حکم بھی ارشادہوا کہ ہر شخص کو اپنے بھائیوں سے معانقہ کرنا چاہئے۔
حدیث شانزدہم (۱۶) : کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا سے فرمایا کہ عورت کے حق میں سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی کہ نامحرم شخص اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے '' گلے لگالیا اور فرمایا:ذُرِّیَّۃ بَعْضُھَا مِنْ بَعْض ۱ ؎
( یہ ایک نسل ہے ایک دوسرے سے ۔
اوکما ورد عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وبارک وسلم
( یا جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے وارد ہے۔(۱؎ القرآن ۳/ ۳۴)
بالجملہ احادیث اس بارے میں بکثرت وارداور تخصیص سفر محض بے اصل وفاسد۔ بلکہ سفر وبے سفر ہر صورت میں معانقہ سنت، او رسنت جب ادا کی جائے گی سنت ہی ہوگی تاوقتیکہ خاص کسی خصوصیت پر شرع سے تصریحاً نہی ثابت نہ ہو، یہاں تک کہ خود امام الطائفہ مانعین اسمٰعیل دہلوی رسالہ نذور میں کہ مجموعہ زبدۃ النصائح میں مطبوع ہوا صاف مُقِر کہ معانقہ روز عید گو بدعت ہو بدعت حسنہ ہے۔
حیث قال ( یوں کہا ۔ت) ف۱: ہمہ وقت از قرآن خوانی فاتحہ خوانی وخورانیدن طعام سوائے کندن چاہ وامثال دعاواستغفار واُضحیہ بدعت ست بدعت حسنہ بالخصوص است مثل معانقہ روز عید ومصافحہ بعد نماز صبح یا عصر ۱؎ ۔
کُنواں کھود نے ۔اور اسی طرح حدیث میں سے ثابت دوسری چیزوں، اور دعا استغفار، قربانی کے سوا تمام طریقے، قرآن خوانی ، فاتحہ خوانی، کھانا کھلاناسب بدعت ہیں ۔ مگر خاص بدعت حسنہ ہیں، جیسے عید کے دن معانقہ ۔ اور نماز فجر یا عصر کے بعد مصافحہ کرنا (بدعتِ حسنہ ہے )۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم
(۱؎ مجموعہ زبدۃ النصائح)
ف۱: مولوی اسمٰعیل دہلوی پیشو یان علماء دیوبندی کی اس عبارت میں چند باتیں قابل غور ہیں:(۱) ایصال ثواب کے لئے کنواں کھدوانا، دعا ، استغفار، قربانی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں بدعت نہیں بلکہ سنت سے ثابت ہیں۔(۲) قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، کھانا کھلانا اوراس طرح کے دوسرے طریقے بدعت ہیں مگر بدعت حسنہ ہیں ۔ (۳) اس سے بدعت کی دو قسمیں معلوم ہوئیں:( ۱) بدعتِ حسنہ۔(۲) بدعتِ سیئہ۔ لہذا ہر بدعت بُری نہیں۔ او رہر نیا کام صرف بدعت ہونے کے باعث ناجائز و حرام نہیں ہوسکتا بلکہ بعض کام بدعت ہوتے ہوئے بھی حسن اور اچھے ہوتے ہیں(۴) روزِ عید کا معانقہ ،اور ہر روز فجر وعصر کے بعد مصافحہ بدعت حسنہ جائز اور اچھا ہے ع مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری منکرین اعلٰیحضرت کا پورا رسالہ نہ مانیں، تمام احادیث وفقہی نصوص سے آنکھیں بند کرلیں مگر انھیں اپنے'' پیشوائے اعظم'' کے اقرار صریح اور کلام واضح سے ہر گز مفرنہ ہونا چاہئے،)
روایت ہے حضرت قتادہ سے فرماتے ہیں میں نے حضرت انس سے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں مصافحہ مروج تھا فرمایا ہاں ۱؎(بخاری)
روایت ہے حضرت براء ابن عازب سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی دو مسلمان نہیں جو آپس میں ملیں پھر مصافحہ کریں مگر ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں بخش دیئے جاتے ہیں ۱؎(احمد،ترمذی،ابن ماجہ)اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ فرمایا جب دو مسلمان ملیں تو مصافحہ کریں اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس سے معافی چاہیں تو ان کی بخشش کردی جاتی ہے
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ہم میں سے کوئی اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملے تو کیا اس کے آگے جھکے فرمایا نہیں ۱؎ کہا کیا اس سے لپٹ جاوے اور اسے چومے فرمایا نہیں ۲؎ عرض کیا کہ کیا اس کا ہاتھ پکڑ ے اور اس سے مصافحہ کرے فرمایا ہاں۳؎(ترمذی)
روایت ہے ایوب ابن بشیر سے وہ عنزہ کے ایک شخص سے راوی ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوذر سے کہا کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب تم ان سے ملتے تو تم سے مصافحہ کرتے تھے ۲؎ فرمایا کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں آپ سے ملا ہوں اور مجھ سے مصافحہ نہ کیا ۳؎ حضور نے مجھے ایک دن بلایا میں اپنے گھر میں نہ تھا پھر جب میں آیا تو مجھے خبر دی گئی تو میں حضور کے پاس آیا آپ ایک تخت پر تھے مجھے لپٹا لیا تو یہ بہت اچھا بہت اچھا ہوا ۴؎(ابواداؤد)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عید کے دن اپنے مسلمان بھائی سے ہاتھ ملانا یعنی مصافحہ کرنا اور گلے ملنا یعنی کہ معانقہ کرنا ہمیشہ سے ملت اسلامیہ میں رائج تھا، اور ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں بلکہ بھلائی ہی بھلائی ہے، لیکن علمائے دیوبند کو بھلائی کے اس کام میں بھی بدعت کی برائی نظر آئ اور عید کے دن مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنے کو بدعت اور مکروہ تحریمی یعنی کہ حرام کے قریب کا فتوٰی دے دیا،
مولوی رشید احمد گنگوہی کے دو فتوے پیش خدمت میں
سوال :- عید میں معانقہ کرنا اور بغل گیر ہونا کیسا ہے؟
جواب_ عیدین میں معانقہ کرنا بدعت ہے، فقط، واللہ تعلیٰ اعلم "
فتاوٰی رشیدیہ، از:مولوی رشید احمد گنگوہی، ناشر :مکتبہ تھانوی، دیوبند، صفحہ 148)
نہ کسی کتاب کا حوالہ نہ کوئی دلیل بس جو بھی دل میں آئے لکھ دو، علمائے دیوبند کے اکثر فتاوٰی آپ کو دلائل سے بلکل خالی ہی ملیں گے، عید کے دن معانقہ بدعت کہہ دیا لیکن اس کے بدعت ہونے کی وجہ کیا ہے؟ یہ جان کر تو آپ حیرت کریں گے،
گنگوہی صاحب کا فتوٰی کہ معانقہ کیوں بدعت ہے،
سوال_معانقہ کرنا بالخصوص عیدین کے روز کس درجہ گناہ ہے، مکروہ ہے یا حرام؟
جواب :معانقہ و مصافحہ بوجہ تخصیص کے اس روز میں اس کو موجب سرور اور باعث مودت اور ایام سے ذیادہ مثل ضروری کے جانتے ہیں بدعت ہے اور مکروہ تحریمی، "فتاوٰی رشیدیہ، از:مولوی رشید احمد گنگوہی، ناشر مکتبہ، تھانوی، دیوبند، صفحہ 148)
مذکور فتوے میں گنگوہی صاحب کہہ رہے ہیں کہ عید کے دن کو مصافحہ اور معانقہ کرنا دیگر ایام کے مقابلے میں موجب سرور یعنی کہ خوشی کا سبب اور باعث مودت یعنی کہ بھائی چارگی کی وجہ سے سمجھ کر کرتے ہیں اس لئے بدعت اور مکروہ تحریمی یعنی کہ حرام کے قریب ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عید کے دن خوشی اور بھائی چارگی کی وجہ سے مصافحہ اور معانقہ منع ہے، تو کیا عید کے دن خوشی اور بھائی چارگی کے بجائے غم و غصہ کا اظہار کرنا چاہیے، تب ہی مصافحہ اور معانقہ جائز ہوگا؟ ایک اہم بات کی طرف ہم قارئین کی توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ سائل نے تو صرف معانقہ کے متعلق گنگوہی صاحب سے سوال کیا تھا لیکن گنگوہی صاحب نے معانقہ کے ساتھ ساتھ مصافحہ کو بھی اپنے غم و غصہ کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہاں تک کہ گنگوہی صاحب نے "تذکرۃ الرشید" جلد اول صفحہ 181،پر عید کا مصافحہ اور معانقہ کو صاف حرام لکھ دیا ہے، جو کام قوم مسلم کے مابین اتحاد کا باعث تھا اس کو علمائے دیوبند تفریق بین المسلمین کا اپنا مقصد حل کرنے کے لئے ناجائز میں شمار کر رہے ہیں،
امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان سے مصافحہ و معانقہ کے جائز ہونے کے تعلق سے تحریر فرماتے ہیں:
معانقہ بطور برّوکرامت و اظہار محبت۔ بے فساد نیت وموادِّ شہوت، بالاجماع جائز جس کے جواز پر احادیث کثیرہ وروایات شہیرہ ناطق، اور تخصیص سفر کا دعوٰی محض بے دلیل ، احادیثِ نبویہ و تصریحاتِ فقہیہ اس بارے میں بروجہ اطلاق وارد، اور قاعدہ شرعیہ ہے کہ مطلق کو اپنے اطلاق پر رکھنا واجب اور بے مدرک شرعی تقیید وتخصیص مردود باطل ، ورنہ نصوصِ شرعیہ سے امان اُٹھ جائے ،
جوازِ معانقہ کی مندرجہ ذیل شرطیں ہیں:معانقہ کپڑوں کے اوپر سے ہو ۔) نیکی، اعزاز اور اظہار محبت کے طور پر ہو۔(۳) خرابی نیت اور شہوت کا کوئی دخل نہ ہو۔مذکورہ بالاشرطوں کے ساتھ معانقہ سفر، غیر سفر ہر حال میں جائز ہے۔دلیل: اس کا ماخذوہ روایات واحادیث ہیں جن میں قیدِ سفر کے بغیر معانقہ کا ثبوت ہے، جو لوگ صرف آمدِ سفر کے بعد معانقہ جائز بتاتے ہیں ان کا جواب یہ ہے :تمام احادیث وروایات میں مطلق طور پر جواز معانقہ کا ثبوت ہے، یہ کسی حدیث میں نہیں کہ بس سفر سے آنے کے بعد معانقہ جائز ہے، باقی حالات میں ناجائز بلکہ بعض احادیث سے صراحۃً آمدِ سفر کے علاوہ حالات میں بھی معانقہ کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔(۴) شریعت کا قاعدہ ہے کہ جو حکم، مطلق او رکسی قید کے بغیر ہو، اسے مطلق ہی رکھنا واجب وضروی ہے،معانقہ کے بارے میں جب یہ حکم مطلق او رقید سفر کے بغیر ہے، تو اسے مطلق رکھتے ہوئے سفر ، غیر سفر ہر حال میں معانقہ جائز ہوگا۔(۶) ہاں اگر کسی حکم میں خود شریعت کی جانب سے تخصیص اور تقیید کا ثبوت ہو تو اس حکم کو مخصوص او رمقید ضرور مانا جائے گا مگر معانقہ
کے بارے میں سوا اُن شرائط کے جو ابتدا میں ذکر کی گئیں آمد وسفر وغیرہ کی کوئی قید نہیں۔لہذا جواز
معانقہ کے بارے میں بے دلیل شرعی آمدِ سفر کی قید لگانا محض باطل اور نا مقبول ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد ٨ صفحہ ١٣٦)
خانیہ میں ہے:ان کانت المعانقۃ من فوقِ قمیصٍ او جُبّۃٍ جاز عند الکل اھ۲؎ ملخصا۔اگر معانقہ کُرتے یا جُبّے کے اوپر سے ہو تو سب کے نزدیک جائز ہے اھ ملخصاً
(۲؎ فتاوٰی خانیہ کتاب الحظروالاباحۃ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۴/۷۸۳)
مجمع الانہر میں ہے:اذا کان علیھما قمیص اوجبۃ جاز بالاجماع ۳؎ اھ ملخصا۔
اگر معانقہ کرنے والے دونوں مردوں پر کُرتا یا جُبّہ ہو تو یہ معانقہ بالاجماع جائز ہے اھ ملخصاً،
(۳؎ مجمع الانہر کتاب الکراھیۃ مطبوعہ بیروت ۲ /۵۴۱)
ہدایہ میں ہے:قالوا الخلاف فی المعانقۃ فی ازار واحدٍ واما اذا کان علیہ قمیص اوجُبۃ فلا باس بھا بالاجماع وھو الصحیح ۴؎ ۔
طرفین ( امام اعظم وا مام محمد) اور ابو یوسف میں اختلاف ایک تہمد کے اندر معانقہ کے بارے میں ہے لیکن جب معانقہ کرنے والا کُرتا یا جبہّ پہنے ہو تو بالاجماع اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی صحیح ہے۔
(۴؎ ہدایہ کتاب الکراہیۃ مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/۴۶۶)
در مختار میں ہے : لوکان علیہ قمیص او جبۃ جاز بلاکراھۃ بالاجماع وصححہ فی الھدایہ وعلیہ المتون ۵؎ ۔
اگر اس کے جسم پر کرتا یا جبہ ہو تو بلا کراہت بالاجماع جائز ہے، ہدایہ میں اسی کو صحیح قراردیا ، متون فقہ میں یہی ہے ۔
(۵؎ درمختار کتاب الحظر والاباحۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۴)
شرح نقایہ میں ہے: عِناقُہ اذاکان معہ قمیص او جبۃ او غیرہ لم یُکرہ بالاجماع وھو الصحیح ۱؎ اھ ملخصا۔
اس کا معانقہ جب اسی طرح ہو کہ کُرتا یا جبّہ یا کچھ حائل ہو تو بالاجماع مکروہ نہیں، اور یہی صحیح ہے اھ ملخصاً،
(۱ شرح نقایہ (ملا علی قاری) کتاب الکراھیۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی ۲/ ۲۲۹)
اسی طرح امام نسفی نے کافی پھر علامہ اسمٰعیل نابلسی نے حاشیہ درر مولٰی خسرو وغیرہا میں جزم کیا، اور یہ وقایہ و نقایہ و اصلاح وغیرہا متون کا مفاد، اور شروح ہدایہ وحواشی درمختار وغیرہا میں مقرر ان سب میں کلام مُطلق ہے کہیں تخصیص سفر کی بُو نہیں۔اَ شِعَّۃُ اللّمعات میں فرماتے ہیں :
اما معانقہ اگر خوف فتنہ نباشد مشروع ست خصوصاً نزد قدوم از سفر ۲؎۔
معانقہ میں اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو جائز و مشروع ہے خصوصاً جب سفر سے آرہا ہو۔
(۲؎ اشعۃ اللمعات باب المصافحۃ والمعانقہ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/۲۰)
یہ'' خصوصاً '' بطلانِ تخصیص پر نصِّ صریح __ رہیں احادیث نہی، ان میں زید کے لئے حجت نہیں کہ ان سے اگر ثابت ہے تو نہی مطلق۔ پھر اطلاق پر رکھے تو حالتِ سفر بھی گئی، حالانکہ اس میں زید بھی ہم سے موافق ۔ اور توفیق پر چلئے تو علماء كرام فرماتے ہیں وہاں معانقہ بروجہ شہوت مراد۔ اور او پر ظاہر کہ ایسی صورت میں تو بحالتِ سفربھی مصافحہ بھی ممنوع ، تابمعا نقہ چہ رسد ف۱ ۔
ف۱: یہ اُن احادیث سے استدلال کا جواب ہے جن میں معانقہ سے ممانعت آئی ہے۔ تو ضیح جواب یہ ہے کہ احادیث میں ممانعت مذکور ہے۔ اب اگر ان سے مطلقاً ہر حال میں ممانعت مراد لیں تو سفر، غیر سفر ہر جگہ معانقہ ناجائز ہوگا جب کہ سفر سےآنے کے وقت مانعین بھی معانقہ جائز مانتے ہیں۔ اس لئے وہ اگر احادیث نہی ہمارے خلاف پیش کریں تو خود ان کے بھی خلاف ہوں گی _ لامحالہ جوازِ معانقہ اور ممانعتِ جواز دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق کرنا ہوگی، اور دونوں کے ایسے معنی لینے ہوں گے جن سے تمام احادیث پر عمل ہوسکے _ اور تطبیق یوں ہے کہ جہاں معانقہ سے ممانعت ہے وہاں معانقہ بطور شہوت مراد ہے __ اور جہاں جواز معانقہ کا ثبوت ہے وہاں معانقہ بے شہوت وفساد نیت مراد ہے جیسا کہ ہم نے ابتداءً ذکر کیا __ او رظاہر ہے کہ معانقہ بطور شہوت تو سفر سے آنے کے بعد بھی ناجائز ہے بلکہ اس طرح تو معانقہ کیا مصافحہ بھی ناجائزہے۔ احادیث جواز منع کے درمیان تطبیق مختلف فقہاء کرام نے فرمائی ہے اعلٰیحضرت رحمہ اﷲ تعالٰی نے ان کا حوالہ کتاب میں پیش کردیا ہے ۔ (مترجم)امام فخرالدین زیلعی تبیین الحقائق اور اکمل الدین بابرتی عنایہ اور شمس الدین قہستانی جامع الرموز اور آفندی شیخی زادہ شرح ملتقی الابحر اور شیخ محقق دہلوی شرح مشکوٰۃ او رامام حافظ الدین شرح وافی اور سیدی امین الدین آفندی حاشیہ شرح تنویر اور مولٰی عبدالغنی نابلسی شرح طریقہ محمدیہ میں، اور ان کے سوا اور علماء ارشاد فرماتے ہیں:
وھذا لفظ الاکمل، قال وَفّق الشیخ ابو منصور ( یعنی الماتریدی امام اھل السنۃ وسید الحنفیۃ ) بین الاحادیث فقال المکروہ من المعانقہ ماکان علی وجہ الشھوۃ وعبر عنہ المصنف ( یعنی الامام برھان الدین الفرغانی) بقولہ ازارواحدٍ فانہ سبب یفضی الیھا فاما علٰی وجہ البِر والکرامۃ اذاکان علیہ قمیص او جبۃ فلا باس بہ ۱؎ ۔
( یہ اکمل الدین بابرتی کے الفاظ ہیں) انھوں نے فرمایا شیخ ابو منصور ( ماتریدی، اہل سنت کے امام اور حنفیہ کے سردار) نے( معانقہ کے جواز و منع دونوں طرح کی) حدیثوں میں تطبیق دی ہے، انہوں نے فر مایا مکروہ وہ معانقہ ہے جو بطور شہوت ہو ۔اور مصنف ( یعنی امام برہان الدین فرغانی صاحب ہدایہ) نے اسی کو ایک تمہید میں معانقہ کرنے سے تعبیرکیا ہے، اس لئے کہ یہ سبب شہوت ہو سکتا ہے، لیکن نیکی او راعزاز کے طور پر کُرتا یا جُبہ پہنے ہوئے معانقہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (ت)
(۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر شرح ہدایہ کتاب الکراھیۃ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر ۸ /۴۵۸)
اور کیونکر روا ہوگا کہ بے حالتِ سفرمعانقہ کو مطلقاً ممنوع ٹھہرائے حالانکہ احادیث کثیر میں سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بارہا بے صورت مذکورہ بھی معانقہ فرمایاف۱ ۔
ف۱: یہاں سے استدلال نے ایک دوسرا رنگ اختیار کیا، اعلٰیحضرت رحمہ اﷲ تعالٰی نے سولہ احادیث ان کے حوالوں کے ساتھ پیش فرمائی ہیں جن میں اُسی معانقہ کا ذکر ہے جو نیکی، اعزاز اور اظہار کے طور پر ہے___ خرابی نیت اور مواد شہوت سے ہر طرح دور ہے _ مگر بے حالت سفر ہے _ لہذا احادیث سے صراحۃً یہ ثبوت فراہم ہوجاتا ہے کہ صرف قدومِ سفر کے بعد ہی نہیں بلکہ دیگر حالات میں بھی معانقہ بلاشبہ جائز درست ہے ۔ اور جب خود سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ان تمام احوال میں معانقہ کا ثبوت حاصل ہوجاتاہے تو کوئی دوسرا اسے '' بدعت و ناروا'' کہنے کا کیا حق رکھتا ہے !
حدیث، 1_ یعنی ایک بارسید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے، حضور نے '' گلے لگا کر'' دعا کی: الہٰی! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ الصحیح للمسلم باب فضل الحسن والحسین مطبوعہ راولپنڈی ۲/ ۲۸۲)
حدیث(2) نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو، اورہمیں '' لپٹا لیتے'' پھر دعا فرماتے : الہٰی! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما۔
(۲؎ الصحیح البخاری باب وضع الصبی فی الحجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸)
حدیث(3) سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے '' سینے سے لپٹایا'' پھر دُعا فرمائی: الہٰی! اسے حکمت سکھا دے۔
(۱؎ الصیح البخاری مناقب ابن عباس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۳۱)
حدیث(4) ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو '' لپٹالیا''
(۲؎ مسند احمد بن حنبل مناقب ابن عباس مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۷۲)
حدیث (5) سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا: حسن اور حسین۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا سےبلوا کر '' سینے سے لگالیتے '' اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیہم و بارک وسلم۔
(۳ جامع ترمذی مناقب الحسن والحسین مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۴۰ ۔ ۵۳۹)
حدیث (6) اس اثنا میں کہ وہ باتیں کررہے تھے اور ان کے مزاج میں مزاح تھا، لوگوں کو ہنسارہے تھے کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لکڑی ان کے پہلو میں چبھوئی، انھوں نے عرض کی مجھے بدلہ دیجئے، فرمایا: لے۔ عرض کی: حضور تو کرتا پہنے ہیں اور میں ننگا تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کرتا اُٹھایا انھوں نے حضور کو اپنی '' کنار میں لیا'' اور تہیگاہِ اقدس کو چُومناشروع کیا پھر عرض کی : یا رسول اﷲ! میرا یہی مقصود تھا۔
(۱؎ سنن ابوداؤد باب قُبلۃ الجسد ( کتاب الادب) مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۳۹۳)
ع دلِ عشّاق حیلہ گر باشد
( عاشقو ں کے دل بہانہ تلاش کرنے والے ہوتے ہیں)
صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی کل من احبہ وبارک وسلم۔
حدیث(7) میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور ہمیشہ مصافحہ فرماتے۔ ایک دن میرے بلانے کو آدمی بھیجا میں گھرمیں نہ تھا، آیا تو خبر پائی، حاضر ہوا، حضور تخت پر جلوہ فرماتھے '' گلے سے لگالیا'' تو زیادہ جیّد اور نفیس ترتھا۔
(۲؎ سنن ابوداؤد باب فی المعانقۃ (کتاب الادب) مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/۳۵۲)
حدیث(8) میں نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور نے مولٰی علی کو '' گلے لگایا'' اور پیار کیا ، اور فرماتے تھے میرا باپ نثار اس وحید شہید پر۔
(۳؎ مسند ابو یعلٰی مسند عائشہ مطبوعہ موسس علوم القرآن بیروت ۴/ ۳۱۸)
حدیث (9) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضور کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے، حضور نے ارشاد فرمایا: ہر شخص اپنے یار کی طرف پَیرے۔ سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق باقی رہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صدیق کی طرف پَپر کے تشریف لے گئے اور انھیں گلے لگا کر فرمایا: میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی صاحبہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ طبرانی کبیر حدیث ۱۱۶۷۶ و ۱۱۹۳۸ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱/ ۲۶۱ و ۳۳۹)
حدیث(10) ہم خدمت اقدس حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے، ارشاد فرمایا: اس وقت تم پر وہ شخص چمکے گا کہ اﷲ تعالی نے میرے بعد اس سے بہتر وبزرگ تر کسی کو نہ بنایا اور اس کی شفاعت شفاعتِ انبیاء کے مانند ہوگی ، ہم حاضر ہی تھے کہ ابو بکر صدیق نظر آئے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صدیق کو پیار کیا اور '' گلے لگایا''
(۲؎ تاریخ بغداد ترجمہ ۱۱۴۱ محمد بن عباس ابوبکر القاص مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۳/ ۲۴ ۔ ۱۲۳)
حدیث(11) میں نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، کے ساتھ کھڑے دیکھا اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے، حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے مصافحہ فرمایا اور ''گلے لگایا'' او ران کے دہن پر بوسہ دیا ۔ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے عرض کی: کیا حضورابو بکر کا مُنہ چومتے ہیں ؟ فرمایا: اے ابوالحسن ! ابوبکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔
(۱؎ سیرت حافظ عمر بن محمد ملاّ)
حدیث دوازدہم (12) :ابن عبدِ ربہّ کتاب بہجۃ المجالس میں مختصراً اور ریاض نضرہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے مطَوَّلاً، صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ابتدائے اسلام میں اظہار اسلام اورکفار سے حرب وقتال فرمانا،اور ان کے چہرۂ مبارک پر ضربِ شدید آنا،اس سخت صدمے میں بھی حضور اقدس سید المحبوبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا خیا ل رہنا،حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دارالارقم میں تشریف فرما تھے اپنی ماں سے خدمتِ اقدس میں لے چلنے کی درخواست کرنا مفصلاً مروی ، یہ حدیث ہماری کتاب مَطْلَعُ الْقُّمَریْن فی اَباَنَۃِ سَبْقَۃِ الْعُمَرَیْن ( ۱۲۹۷ھ ) میں مذکور، اس کے آخر میں ہے:
یعنی جب پہچل موقوف ہوئی اور لوگ سورہے ان کی والدہ اُم الخیر اور حضرت فاروق اعظم کی بہن ام جمیل رضی اﷲ تعالٰی عنہما انھیں لے کر چلیں،بوجہ ضعف دونوں پر تکیہ لگائے تھے، یہاں تک کہ خدمت اقدس میں حاضر کیا، دیکھتے ہی '' پروانہ وارشمع رسالت پر گر پڑے''( پھر حضور کو بوسہ دیا) اور صحابہ غایت محبت سے ان پر گرے۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لئے نہایت رقت فرمائی۔
(۲؎ الریاض النضرۃ ذکرام الخیر مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آباد ۱/ ۷۶)ۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤ
حدیث (13) حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر فرمایا: عثمان کہاں ہیں؟ عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ بے تابانہ اُٹھے اور عرض کی: حضور ! میں یہ حاضر ہوں۔ رسول اﷲ صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس آؤ۔ پاس حاضر ہوئے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے '' سینہ سے لگایا'' اور آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا۔
(۱؎ شرح المصطفی ( شرف النبی) باب بیست ونہم میدان انقلاب تہران ص ۲۹۰)
حدیث (14) ہم چند مہاجرین کے ساتھ خدمتِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے حاضرین میں خلفائے اربعہ و طلحہ و زبیر و عبدالرحمن بن عوف وسعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم تھے،حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں ہر شخص اپنے جوڑ کی طرف اٹھ کر جائے اور خود حضور والا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف اُٹھ کر تشریف لائے ان سے'' معانقہ'' کیا اور فرمایا: تو میرا دوست ہے دُنیا و آخرت میں ۔
( ۲؎ المستدرک باب فضائل عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ مطبوعہ بیروت ۳/ ۹۷)
حدیث (15) حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے معانقہ کیا اور فرمایا:میں نے اپنے بھائی عثمان سے معانقہ کیا جس کے کوئی بھائی ہو اسے چاہئے اپنے بھائی سے '' معانقہ کرے''
(۳؎ کنز العمال بحوالہ ابن عساکر حدیث ۳۶۲۴۰ مطبوعہ دارالکتب الاسلامی حلب ۱۳/ ۵۷)
ا س حدیث میں علاوہ فعل کے مطلقاً حکم بھی ارشادہوا کہ ہر شخص کو اپنے بھائیوں سے معانقہ کرنا چاہئے۔
حدیث شانزدہم (۱۶) : کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا سے فرمایا کہ عورت کے حق میں سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی کہ نامحرم شخص اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے '' گلے لگالیا اور فرمایا:ذُرِّیَّۃ بَعْضُھَا مِنْ بَعْض ۱ ؎
( یہ ایک نسل ہے ایک دوسرے سے ۔
اوکما ورد عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وبارک وسلم
( یا جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے وارد ہے۔(۱؎ القرآن ۳/ ۳۴)
بالجملہ احادیث اس بارے میں بکثرت وارداور تخصیص سفر محض بے اصل وفاسد۔ بلکہ سفر وبے سفر ہر صورت میں معانقہ سنت، او رسنت جب ادا کی جائے گی سنت ہی ہوگی تاوقتیکہ خاص کسی خصوصیت پر شرع سے تصریحاً نہی ثابت نہ ہو، یہاں تک کہ خود امام الطائفہ مانعین اسمٰعیل دہلوی رسالہ نذور میں کہ مجموعہ زبدۃ النصائح میں مطبوع ہوا صاف مُقِر کہ معانقہ روز عید گو بدعت ہو بدعت حسنہ ہے۔
حیث قال ( یوں کہا ۔ت) ف۱: ہمہ وقت از قرآن خوانی فاتحہ خوانی وخورانیدن طعام سوائے کندن چاہ وامثال دعاواستغفار واُضحیہ بدعت ست بدعت حسنہ بالخصوص است مثل معانقہ روز عید ومصافحہ بعد نماز صبح یا عصر ۱؎ ۔
کُنواں کھود نے ۔اور اسی طرح حدیث میں سے ثابت دوسری چیزوں، اور دعا استغفار، قربانی کے سوا تمام طریقے، قرآن خوانی ، فاتحہ خوانی، کھانا کھلاناسب بدعت ہیں ۔ مگر خاص بدعت حسنہ ہیں، جیسے عید کے دن معانقہ ۔ اور نماز فجر یا عصر کے بعد مصافحہ کرنا (بدعتِ حسنہ ہے )۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم
(۱؎ مجموعہ زبدۃ النصائح)
ف۱: مولوی اسمٰعیل دہلوی پیشو یان علماء دیوبندی کی اس عبارت میں چند باتیں قابل غور ہیں:(۱) ایصال ثواب کے لئے کنواں کھدوانا، دعا ، استغفار، قربانی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں بدعت نہیں بلکہ سنت سے ثابت ہیں۔(۲) قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، کھانا کھلانا اوراس طرح کے دوسرے طریقے بدعت ہیں مگر بدعت حسنہ ہیں ۔ (۳) اس سے بدعت کی دو قسمیں معلوم ہوئیں:( ۱) بدعتِ حسنہ۔(۲) بدعتِ سیئہ۔ لہذا ہر بدعت بُری نہیں۔ او رہر نیا کام صرف بدعت ہونے کے باعث ناجائز و حرام نہیں ہوسکتا بلکہ بعض کام بدعت ہوتے ہوئے بھی حسن اور اچھے ہوتے ہیں(۴) روزِ عید کا معانقہ ،اور ہر روز فجر وعصر کے بعد مصافحہ بدعت حسنہ جائز اور اچھا ہے ع مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری منکرین اعلٰیحضرت کا پورا رسالہ نہ مانیں، تمام احادیث وفقہی نصوص سے آنکھیں بند کرلیں مگر انھیں اپنے'' پیشوائے اعظم'' کے اقرار صریح اور کلام واضح سے ہر گز مفرنہ ہونا چاہئے،)
روایت ہے حضرت قتادہ سے فرماتے ہیں میں نے حضرت انس سے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں مصافحہ مروج تھا فرمایا ہاں ۱؎(بخاری)
روایت ہے حضرت براء ابن عازب سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی دو مسلمان نہیں جو آپس میں ملیں پھر مصافحہ کریں مگر ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں بخش دیئے جاتے ہیں ۱؎(احمد،ترمذی،ابن ماجہ)اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ فرمایا جب دو مسلمان ملیں تو مصافحہ کریں اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس سے معافی چاہیں تو ان کی بخشش کردی جاتی ہے
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ہم میں سے کوئی اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملے تو کیا اس کے آگے جھکے فرمایا نہیں ۱؎ کہا کیا اس سے لپٹ جاوے اور اسے چومے فرمایا نہیں ۲؎ عرض کیا کہ کیا اس کا ہاتھ پکڑ ے اور اس سے مصافحہ کرے فرمایا ہاں۳؎(ترمذی)
روایت ہے ایوب ابن بشیر سے وہ عنزہ کے ایک شخص سے راوی ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوذر سے کہا کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب تم ان سے ملتے تو تم سے مصافحہ کرتے تھے ۲؎ فرمایا کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں آپ سے ملا ہوں اور مجھ سے مصافحہ نہ کیا ۳؎ حضور نے مجھے ایک دن بلایا میں اپنے گھر میں نہ تھا پھر جب میں آیا تو مجھے خبر دی گئی تو میں حضور کے پاس آیا آپ ایک تخت پر تھے مجھے لپٹا لیا تو یہ بہت اچھا بہت اچھا ہوا ۴؎(ابواداؤد)
: توحید و شرک اور حقیقت و مجاز کا قرآنی تصوّر __________________________________________ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شریعت میں کسی لفظ کا استعمال اور اس کا کسی امر پر اطلاق بطریقِ حقیقت بھی جائز ہے اور بطریقِ مجاز بھی۔ مگر اس شرط کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ مجاز کا استعمال وہاں کیا جائے جہاں مجاز کا محل ہو۔ ہم اپنی روزمرہ کی گفتگو میں بہت سے امور میں حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال کرتے رہتے ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلاً اگر کسی کا بچہ جاں بہ لب ہو اور ڈاکٹر کے علاج سے اس کی جان بچ گئی تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر کے اعجازِ مسیحائی نے میرے بچے کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ اس اندازِ گفتگو میں حقیقت اور مجاز دونوں بیان ہوئے ہیں۔ درحقیقت بچانے والا تو اﷲ تعالیٰ ہے مگر ڈاکٹر شفایابی کا وسیلہ اور ذریعہ بن گیا۔ اس طرح ایک اور مثال کسی ڈرائیور کی ہے، جس کی گاڑی کے نیچے آکر حادثاتی طور پر بچہ کچلا گیا اور باپ کہنے لگا کہ اس ڈرائیور نے میرے بچے کو مار دیا حالانکہ ڈرائیور محض بچے کی حادثاتی موت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور حقیقت میں مارنے والی ذات تو اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ ایسے امور میں حقیقت اور مجاز پر مبنی دونوں الفاظ بولے جاتے ہیں۔ پس دینا، لینا، مارنا، جِلانا وغیرہ تمام امور میں حقیقت و مجاز کا استعمال ایک معمول کی بات ہے۔ 1۔ حقیقت و مجاز کے لئے بعض الفاظ کا استعمال اس ضمن میں بعض الفاظ توسُّل کے پیرائے میں بول دیے جاتے ہیں اور اس سے توکُّل مراد نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کی نسبت کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’آپ کی نظرِ کرم، نگاہِ عنایت و توجہ سے میری زندگی کے شب و روز کٹ رہے ہیں‘‘ تو یہ الفاظ مجاز و توسل کے معنی میں ہیں حقیقت کے معنی میں نہیں۔ اس طرح کے بے شمار کلمات، اشعار اور جملے بمعنی توسل بیان ہوتے ہیں بمعنی توکل نہیں۔ حتی کہ اگر کوئی لفظ استعانت اور استغاثہ کے طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوگا تو وہ بھی توسُّل کے معنی میں ہو گا توکُّل کے معنی میں نہیں کیونکہ توکل کا اطلاق مستعانِ حقیقی اور فاعلِ حقیقی پر ہوتا ہے جو اﷲتعالیٰ کی ذاتِ کریمانہ ہے اور اسی کی طرف سب امور لوٹائے جاتے ہیں۔ 2۔ عبادت میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں سورۃ الفاتحہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُo ’’(اے اﷲ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo‘‘ اس آیتِ کریمہ کے حوالے سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس فرمانِ الٰہی کی موجودگی میں ہمارے لئے کسی اور سے مدد لینا جائز نہیں کیونکہ جب ہم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور حقیقی معین و مددگار اﷲ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے اور مانتے ہیں تو کسی غیر سے مدد لینے کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف عبادت ایک ایسا عمل ہے جس میں حقیقی، مجازی اور استعاراتی تقسیم نہیں کی جاتی۔ عبادت میں سرے سے حقیقت اور مجاز کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس میں مجاز کا سوال ہی خارج از بحث ہے کیونکہ عبادت یا تو عبادت ہے یا پھر نہیں ہے۔ جبکہ استغاثہ یعنی مدد میں عبادت سے کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، اس کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ استغاثہِ حقیقی استغاثہِ مجازی نظامِ زندگی باہمی مدد و استعانت کے سہارے چل رہا ہے اس تقسیم کو بہرحال ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس طبعی اور مادی دنیا میں زندگی کا انحصار انسانوں کے ایک دوسرے سے باہمی تعامل و تعاون پر رکھا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی پڑتی ہے اور مدد لینا بھی پڑتی ہے۔ ہمارے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہِ حسنہ بطور معیار موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی مدد کی، انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے باہر نکالا اور انسانی زندگی کو اخلاقِ عالیہ سے سنوارا تاکہ وہ نیکو کار انسان، بھلے اور اچھے مسلمان بن جائیں۔ گویا یہ اس امر کی تعلیم ہے کہ امتِ مسلمہ کے افراد کو ایک دوسرے کی مدد کرنا، نصیحت اور خیر خواہی پر مبنی سلوک کرنا عملی طور پر ان کی مدد و استعانت ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے استاد اپنے شاگردوںکی، والدین اپنے بچوں کی، بزرگ نوجوانوں کی اور بھائی بہنوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ضروری ہے کہ طاقتور کمزور کی مدد کرے، حاکم رعایا کی اور ہمسایہ پڑوسی کی۔ جب تمام دینی اور دنیاوی نظام اس باہمی مدد و استعانت کے سہارے پر چل رہے ہیں تو کس منطق سے اسے شرک تصور کیا جائے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے اور عقیدہِ توحید محض مذاق بن کر رہ جائے۔ ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے گئے ہیں فی الحقیقت یہ تمام کائنات ایک دوسرے کی مدد و استعانت کی زنجیر میں بندھی ہوئی ہے انسان تو انسان، ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے جاتے ہیں جنہیں قرآن نے مُدَبِّراتُ الْاَمْر سے موسوم کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاo ’’پھر ان (فرشتوں) کی قسم جو مختلف امور کی تدبیر کرتے ہیںo‘‘ (1) النازعات، 79 : 5 یہ سب ایک نظام کے تحت ہے جس کے مطابق باہمی مدد و استعانت جائز ہے۔ اس اصول کی روشنی میں انبیاء اور اولیاء سے استعانت کا جواز خودبخود فراہم ہو جاتا ہے۔ 3۔ حقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں عملی زندگی میںحقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں تین ہو سکتی ہیں : 1۔ بعض ایسے امور ہیں جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم قابلِ عمل نہیں۔ ان مبنی برحقیقت امور میں کسی امر کے لئے مجاز ثابت کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال عبادت کی ہم دے چکے ہیں جس میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں۔ 2۔ بعض ایسے امور ہیں جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم ممکن تو ہے مگر تقسیم کی ضرورت اس لئے نہیں پڑتی کہ جو امور اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں وہ اس کی شان کے لائق ہیں اور اسی طرح جو امور مخلوق کے لئے ثابت ہیں وہ ان کے حسبِ حال ہیں۔ 3۔ بعض امور ایسے ہیں جن کا اثبات اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہے اور مخلوق کے لئے بھی مگر جب ان کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہو گی تو وہ حقیقی معنی میں ہوں گے اور جب مخلوق کے لئے ہوں گے تو وہ مجازی معنی میں ہوں گے جیسے انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنا وغیرہ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ توحید سے متعلق چند آیات سیاق و سباق سے جدا کر کے لے لیتے ہیں اور ان کا اطلاق ایسے امور پر بھی کر دیتے ہیں جہاں حقیقت و مجاز کی تقسیم لازم ہے۔ اس سے لامحالہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے پس ضروری ہے کہ ہم حقیقت و مجاز پر مبنی ہر حکم کو اس کی حقیقت اور حیثیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں پر قرآن مجید کی آیات سے حقیقت و مجاز کے استعمال اور اطلاق کے نمونہ کی آیات ملاحظہ کیجئے۔ 4۔ حقیقت و مجاز کا اطلاق قرآن حکیم کی روشنی میں 1۔ لفظِ ’’خَلق‘‘ کا استعمال اللہ تعالیٰ اور مخلوق دونوں کے لئے قرآنِ حکیم میں بعض مقامات پر حقیقت و مجاز کا صراحۃً استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘ الاعراف، 7 : 54 دوسرے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے : أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ’’میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔‘‘ آل عمران، 3 : 49 پہلی آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ اور دوسری آیت میں حضرت عیسٰیں نے بھی اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ لفظِ ’’خَلق‘‘ پہلی جگہ حقیقی معنی میں اور دوسری جگہ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ اسلوبِ قرآنی ہے کہ کبھی فعل کو دن کی طرف، کبھی زمانے کی طرف، کبھی حالات کی طرف اور کبھی کسی برگزیدہ بندے کی طرف منسوب کر دیتا ہے جیسے اللہ عزوجل کا برگزیدہ بندہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر زندگی، بینائی اور شفا کا وسیلہ بنے تو ان صفات کو ان کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شان ہے کہ وہی کسی کو زندگی ، موت اور شفا دیتا ہے۔ وہی کسی کو ہدایت دیتا ہے اور کسی کا مقدر گمراہی ٹھہرا دیتا ہے۔ کلام کے اس اسلوب کو کوئی نادان ہی شرک پر محمول کرے گا۔ 2۔ لفظِ وَھَاب کا حقیقی اور مجازی استعمال حضرت زکریاں نے حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ کا توسلِ مکانی کرتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت یحییٰں کے لئے دعا مانگی، اس دُعا کے الفاظ یہ ہیں : قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِo ’’عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo‘‘ آل عمران، 3 : 38 دُعا کے الفاظ میں رَبِّ ھَبْ لِيْ مذکور ہے جس سے اللہ رب العزت کی شانِ عطا کا بیان ہو رہا ہے۔ اَلْوَھَابُ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی نام سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی : قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُo ’’عرض کیا : اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو، بیشک تو ہی بڑا عطا فرمانے والا ہےo‘‘ ص، 38 : 35 اللہ تعالیٰ کو ’’إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ‘‘ اے رب! ’’بے شک تو ہی وہاب ہے‘‘ کہہ کر پکارا جائے تو وہ اپنے خزانہِ غیب سے بے نوائوں کو جھولیاں بھر بھر کر نعمتیں عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حقیقی معنوں میں وہاب ہے مگر اس کے وہاب ہونے کی اس صفت کی مجازاً مخلوق کی طرف نسبت بھی جائز ہے جب حضرت جبرائیلں حضرت مریم علیہما السلام کے پاس انسانی شکل و صورت میں آئے تو آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ کیوں آئے ہو؟ حضرت جبرائیلں نے جواب میں کہا : قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاo ’’میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo‘‘ مریم، 19 : 19 قرآن حکیم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بصورتِ بشری اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقبول بندی حضرت مریم علیھا السلام کے پاس آنے کو بیان کیا کہ وہ ان کی خلوت گاہ میں حاضر ہو کر گویا ہوئے : ’’میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘ صیغہِ واحد متکلم لِأَهَبَ لَكِ کا مفہوم یہ ہے کہ میں ’’آپ کو عطا کروں۔‘‘ حضرت مریم علیہا السلام کو جبریل امین علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں تمہیں بیٹا دینے آیا ہوں صرف مجازی معنوں میں ہے کیونکہ حقیقت میں بیٹا دینے والا اﷲ رب العزت ہے۔ یہاں جبریلِ امینں بیٹا دینے اور خوشخبری سنانے کا وسیلہ بنے اگرچہ بظاہر انہوں نے یہ عمل اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور کیے جانے پر اپنی طرف منسوب کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو اپنا پیغام رساں بنا کر بھیجتا ہے تو اسے اس کام کی ہمت اور طاقت بھی عطا فرماتا ہے۔ مجازی معنی میں جبرائیلں بھی اس لئے وہاب ہیں کہ وھاب اسے کہتے ہیں جو کسی کو کچھ دیتا ہے۔ گو وہاب، اللہ کی صفت ہے اور حقیقت میں وہی ہر نعمت کا دینے والا ہے لیکن اگر مجازی معنوں میں کسی کو وھاب کہہ دیا جائے تو یہ شرک نہ ہو گا۔ جبرائیل امینں نے جب اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ اللہ کا فرستادہ (رسول) بن کر جو کچھ کہا وہ شرک نہ ہوا اس لیے کہ رب کا نمائندہ بن کر جو کچھ عطا کیا وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن سے اسی کی عطا ہے۔ 3۔ لفظِ رب کا حقیقی اور مجازی استعمال رب اﷲ تعالیٰ کا پہلا صفاتی نام ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی پہلی سورت، سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَo ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo‘‘ الفاتحۃ، 1 : 1 یہ ذہن نشین رہے کہ لفظِ رب ایک واضح قطعی اور حتمی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں جابجا متعارف کرایا ہے۔ لیکن اسی لفظِ رب کو حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر کے لئے بھی استعمال کیا۔ ان کی اس گفتگو کو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا : يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِo وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَo ’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ ) اپنے مربی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا اور رہا دوسرا (جس نے سرپر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہوo اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجتاً یوسف (ں) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہےo‘‘ (2) یوسف، 12 : 41۔42 اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ دو افراد حضرت یوسفں کے ساتھ قید خانے میں اسیر تھے اور انہوں نے خواب دیکھ کر اپنا خواب سیدنا یوسفں کو سنایا اور اس کی تعبیر چاہی۔ حضرت یوسفںنے تعبیرِ خواب بتا دی ان میں سے ایک کو کہا کہ وہ اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلایا کرے گا اور اسی رہائی پانے والے شخص سے یہ بھی کہا کہ مجھے ایک معینہ مدت کے لئے قید میں ڈالا گیا تھا جو گزر گئی ہے تم قید سے رہائی پانے کے بعد اپنے رب یعنی آقا سے جو مجھے بھول گیا ہے میرا ذکر کرنا کہ میں مدتِ قید پوری کرنے کے بعد بھی جیل میں پڑا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر سیدنا یوسفں نے مذکورہ قیدی سے بادشاہِ مصر کا ذکر کرتے ہوئے دو مرتبہ لفظِ رب استعمال کیا حالانکہ یہ علاقائی زبان میں روز مرہ گفتگو کا لفظ تھا اور رہائی پانے والے قیدیوں میں متداول نہ تھا، وہ اسے بادشاہ اور آقا وغیرہ کہتے تھے اور حقیقی معنوں میں یہی کہنا چاہئے تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے استعاراتی اور مجازی معنی میں لفظِ ’’رب‘‘ بادشاہ کے لئے استعمال کیا جو اس امر پر دلالت کرتاہے کہ کسی کو مجازی طور پر رب کہنا بھی شرک نہیں۔ پھر یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس لفظ کی ممانعت میں صراحتاً اور وضاحتاً کچھ نہیں کہا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت سمجھی کیونکہ اس علاقے کی روزمرہ زبان میں بادشاہ کے لئے ’’رب‘‘ کا لفظ استعمال کرنا معمول بن چکا تھا۔ اس قسم کی وضاحت طلب کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کا شعار ہی لفظوں کی کھال اتار کر لوگوں کو خواہ مخواہ شرک سے مطعون کرنا ہے۔ آگے قرآن مجید میں رہائی پانے والے قیدی کے حوالے سے بیان ہے کہ اسے بھی شیطان نے بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلادیا۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے خود بھی بادشاہ کے لئے لفظِ ’’رب‘‘ ارشاد فرمایا ہے جو آیت کے الفاظ ذِکْرَ رَبِّہ سے واضح ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ حقیقی رب اللہ تعالیٰ نے عزیزِ مصر یا بادشاہِ مصر جو ایک عام انسان تھا کے لئے اپنی صفت ’’رب‘‘ کا استعمال مجازاً فرمایا تو کسی مربی کو رب کہنا شرک نہیں ہوتا ورنہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہرگز بادشاہِ مصر کو قرآن میں ’’رب‘‘ کے لفظ سے نہ پکارتا۔ اسی طرح مجازی معنی میں والدین اپنی اولاد کے لئے بمنزلہ رب ہیں کہ وہ ان کی پرورش کے ذمے دار ہیں۔ والدین کے حق میں ایک دعائیہ التجا کی قرآن مجید نے تلقین کی ہے جو اس طرح ہے : وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاo ’’اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں (میرے والد اور والدہ) پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘ (1) بنی اسرائیل، 17 : 24 اس دعا میں کائنات کے خالق و مالک پروردگار سے التجا کی جا رہی ہے کہ اے میرے رب تو میرے والدین کو اپنے رحم اور لطف و کرم سے اس طرح نواز جس طرح وہ صغرِ سنی میں میرے لئے رب (پرورش کرنے والے) بنے، شیر خوارگی اور طفلی کے ان ایام میں انہوں نے مجھے پالا پوسا اور اپنی ربوبیت کے دامن میں لے لیا اور میری ضروریات و حاجات کو پورا کرتے رہے۔ اس آیتِ کریمہ میں رَبَّیٰنِيْ کے الفاظ قابلِ غور ہے جس کی تلقین خود رب العالمین نے فرمائی ہے۔ لفظِ رب اسی طرح اساتذہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی روحانی اور اخلاقی پرورش اور تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ رب ہونے کے یہ معانی مجازی و استعاراتی ہیں۔ مفہوم بدل جانے سے ایسا کہنے میں شرک کا کوئی احتمال اور شائبہ نہیں رہتا۔ ایک سبق آموز علمی نکتہ قرآن کی رو سے جیسے بادشاہ کے لئے رب کا لفظ مجازاً کہہ دینے سے وہ حقیقی رب نہیں بن جاتا۔ اسی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ص کو غوث الاعظم اور حضرت علی ہجویریرحمۃ اللہ علیہ کو داتا گنج بخش کہہ دینے سے شرک نہیں ہوتا کیونکہ غوث اور داتا رب سے بڑے الفاظ نہیں ہیں جو مجازاً بول دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ’’يَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ اور يَارَسُوْلَ اﷲِ اُنْظُرْ حَالَنا ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل اور استغاثہ کے لئے مجازی معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس سے وہ حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کیلئے خاص ہیں۔ 4۔ ایمان میں زیادتی کی نسبت آیاتِ الٰہی کی طرف ایمان میں زیادتی کا حقیقی مسبّب اﷲ رب العزت کی ذات وحدہ لاشریک ہے مگر بعض آیاتِ قرآنی میں ایمان کی زیادتی کو خود آیاتِ قرآنی ہی کی طرفمنسوب کیاگیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا : وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَo ’’اور جب ان پر اس (اللہ) کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلام محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)o‘‘ (1) الانفال، 8 : 2 یہاں ان آیات کی طرف ایمان میں زیادتی کی نسبت مجاز عقلی ہے کیونکہ ایمان میں زیادتی کا سبب درحقیقت خود اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ آیتیں محض ایمان بڑھانے کا ذریعہ اور سبب بنتی ہیں۔ 5۔ حقیقتاً ھادِی اور مُضِل ذاتِ باری تعالیٰ ہے قرآن مجید نے انتہائی بلیغ انداز سے ایک اہم بات سورۃ البقرۃ کی آیت میں صراحت سے بیان کر دی ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَo ’’بے شک اﷲ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشاندہی) ہے، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ (اسے سن کر یہ) کہتے ہیں کہ ایسی تمثیل سے اﷲ کو کیا سروکار؟ (اس طرح) اﷲ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے، اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی) نافرمان ہیںo‘‘ (1) البقرۃ، 2 : 26 اللہ کی ذات ہی ھَادِی اور مُضِل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتاہے گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہ بھی اللہ رب العزت کے صفاتی اسماء ہیں۔ ہدایت سے سرفراز کرنا اور شامتِ اعمال سے گمراہی میں مبتلا کر دینا صفاتِ الہٰیہ ہیں۔ جس طرح یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات ہیں اس طرح ان کا اطلاق انسانوں پر بھی کیا جا سکتا ہے جو بعض کو ہدایت سے ہمکنار اور بعض کو ضلالت وگمراہی سے دوچار کردیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہادی ہیں، اس بارے میں ارشادِ ربانی ہے : وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍo ’’اور بے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیںo‘‘ (1) الشوریٰ، 42 : 52 جبکہ مضلین (گمراہ کرنے والوں) کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًاo ’’اور واقعی انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا، سو (اے میرے رب!) تو (بھی ان) ظالموں کو سوائے گمراہی کے (کسی اور چیز میں) نہ بڑھاo‘‘ (2) نوح، 71 : 24 سورہِ نوح کی اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں نے بہت ساروں کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو گمراہ تو وہ خود ہورہے ہیں دوسروں کو کیا گمراہ کریں گے۔ اس آیت سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ہدایت دینے کی طرح گمراہ کرنا بھی اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے جسے ان گمراہوں سے اس لئے منسوب کیا گیا کہ وہ گمراہی کا وسیلہ اور ذریعہ بن رہے ہیں اس لئے یہ لفظ مجازاً ان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ آگے اسی سورہِ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی اللہ کے حضور التجا کا ذکر ہے : اِنَّکَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَ لَا يَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًاo ’’بیشک اگر تو اُنہیں (زندہ) چھوڑے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے، اور وہ بدکار (اور) سخت کافر اولاد کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گےo‘‘ (3) نوح،1 7 : 27 حضرت نوحں عرض گزار ہیں کہ اے رب کریم! اگر ان کو ڈھیل دی گئی تو یہ راہ راست پر نہیں آئیں گے اور اپنی اولاد کو ورثہ میں گمراہی کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔ یعنی اس آیت کریمہ میں بھی ان گمراہوں کو مضل کہا حالانکہ گمراہ تو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ٹھہراتا ہے مگر چونکہ وہ گمراہی کا سبب بنتے ہیں اس لئے اِضلال کی نسبت ان کی طرف کی گئی۔ 6۔ فعل ’’يَجْعَلُ‘‘ کی نسبت یومِ حساب کی طرف ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَکَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبًاo ’’اگر تم کفر کرتے رہو تو اُس دن (کے عذاب) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گاo‘‘ (1) المزمل، 73 : 17 یومِ حساب کی ہولناکیوں کے حوالے سے قرآن مجید نے بیان کیا کہ وہ دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ یہاں دن کو بوڑھا کر دینے کا سبب قرار دیا گیا ہے حالانکہ قیامت کی ہولناکیاں، حساب و کتاب، غم و اندوہ اور خوف انسان کو بوڑھا کر دینے کا سبب بنیں گے جو مُسبَّب ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس آیت میں مسبِّب کی بجائے سبب کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اسلوبِ بیان سے پتا چلا کہ استعاراتی اور مجازی معنی میں کسی چیز کو بیان کرنا جائز ہے اور مسبب کی بجائے سبب کی طرف کسی چیز کو منسوب کرنا شرک نہیں ہوتا۔ 7۔ عام معاشرتی زندگی میں حقیقت و مجاز کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی کا مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ اپنے اختیارات کسی دوسرے شخص کو سونپ دیتے ہیں جس کو بروئے کار لا کر مختلف لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں مثلاً ٹھیکیدار کسی سڑک اور عمارت کا کام مزدوروں سے کرواتا ہے تو محاورۃً بول دیا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ عمارت بنائی اور فلاں کام سرانجام دیا حالانکہ درحقیقت کرنے والے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں۔ اس روزمرہ کے معمول کے محاورہ کو قرآن نے بھی استعمال کیا ہے جیسے فرعون نے ہامان کو یہ حکم دیا : يٰهَامَانُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا. ’’اے ہامان! تو میرے لئے ایک اونچا محل بنا دے۔‘‘ (1) المؤمن، 40 : 36 اس میں ہامان کی طرف عمارت بنانے کی نسبت مجازِ عقلی ہے کیونکہ وہ سبب اور حکم دینے والا ہے خود بنانے والا نہیں۔ حقیقت میں بنانے والے تو اس کے عُمّال اور مزدور ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، حقیقی و مجازی کے فرق سے آشنا شخص ان کو بہ خوبی جانتا ہے۔ صحیح عقیدہ یہی ہے کہ بندوں کا اور ان کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر فعل اور ہر امر میں نتیجہ خیزی کی باعث اللہ ہی کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی خواہ اس کا شمار زندوں میں ہو یا فوت شدہ لوگوں میں، کسی چیز میں دخیل و کفیل نہیں۔ یہی عقیدہ خالص توحید ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ شرک میں مبتلا ہے۔ 8۔ افعال و اعمال میں نسبتِ مجازی و حقیقی کا لحاظ بہت سے گمراہ فرقے قرآن کے ظاہری لفظ سے دھوکہ کھا گئے اور انہوں نے قرآن میںبیان کردہ مجازی و حقیقی قرائن کے فرق کو مدّنظر نہ رکھا اور آیاتِ قرآنی کے ظاہری تعارض کو تطبیق سے دور کرنے کی کوشش نہ کی مثلاً : 1۔ خلقِ قرآن کا فتنہ پھیلانے والے اللہ تعالیٰ کے قول اِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا (الزخرف، 43 : 3) ’’بے شک ہم نے اسے عربی (زبان کا) قرآن بنایا ہے۔‘‘ کے ظاہری الفاظ سے ٹھوکر کھا گئے اور گمراہ ہو کر خلقِ قرآن کا عقیدہ گھڑ لیا۔ 2۔ فرقہ قدریہ اللہ تعالیٰ کے قول وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ (الشوریٰ، 42 : 30) ’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اس (بداعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے۔‘‘ اور فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (المائدۃ، 5 : 105) ’’پھر وہ تمہیں ان (کاموں) سے خبر فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھے‘‘ کے ظاہری الفاظ سے دھوکہ کھا گئے۔ 3۔ فرقہ جبریہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَاﷲُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ (الصافات، 37 : 96) ’’حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خلق فرمایا‘‘ اور وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اﷲَ رَمٰی (الانفال، 8 : 17) ’’اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اﷲ نے مارے تھے‘‘ کے ظاہری الفاظ سے غلط نتیجہ اخذ کیا اور راہِ راست سے بھٹک گئے۔ ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ تمام امت کا سوائے فرقہ قدریہ کے اس عقیدے پر اجماع ہے کہ بندوں کے افعال و اعمال اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک طرف ارشاد ہے وَاﷲُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ اور دوسری طرف ارشادِ ربانی ہے وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اﷲَ رَمٰی ان اقوالِ ربّانی کے مقاصد کے پیشِ نظر یہ جائز ہے کہ کسی فعل کی نسبتِ اکتساب بندہ کی طرف کر دی جائے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے لَهَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ (البقرۃ، 2 : 286) ’’اس (جان) نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے‘‘ نیز بِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ کے علاوہ اور آیات میں بھی کسب کی اضافت بندہ کی طرف صراحتاً کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا صاحبِ قدرت ہونا اس عالم کے وجود میں آنے سے پہلے سے ثابت ہے۔ کسی کے فعل کے کسب پر قادر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا خالق بھی ہے، صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بالذات قدرت اور بندے کو حاصل شدہ قدرت میں حقیقت و مجاز کا فرق ہے کیونکہ بندے کی قدرت کو وجود میں لانے والا اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔ 9۔ بندوں کی طرف منسوب اکتسابِ افعال کی نسبت مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ کسی کام پر قادر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کام وجود میں بھی آ جائے۔ بندوں کی طرف کسی فعل کی نسبت بطورِ کسب کے ہوتی ہے جس کی بنا پر بندے اس فعل کی قدرت رکھتے ہیں نہ کہ وہ اس فعل کو عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہیں۔ حقیقت میں افعال کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی کے قبضہ میں بندوں اور ان کے افعال کی تقدیر ہے۔ وہی اپنے بندوں کو ان کے کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ اس کے لئے کوئی چیز وجود میں لانا مشکل نہیں۔ جس چیز سے اللہ تعالیٰ منع فرما دے تو اس کی مشیت کے برعکس کون ہے جو اسے وجود میں لاسکے؟ حکم تو ارادے کا مغائیر ہے مثلاً اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایمان لانے کا حکم دیا لیکن اس کی یہ مشیت بھی ہے کہ سب مؤمن نہ ہوں جیسا کہ قرآن میں فرما دیا : وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَo ’’اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریںo‘‘ (1) یوسف،12 : 103 پس بندوں کی طرف ان کے اکتسابِ افعال کی نسبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے مسبب کی نسبت واسطہ یا سبب کی طرف کردی جائے اور اس میں کچھ تضاد نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کرنے والا یعنی مسبب الاسباب ہے، وہی واسطہ کو پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے واسطہ میں وساطت کی صلاحیت رکھی ہے۔ اگر اللہل وساطت کی صلاحیت نہ رکھتا تو وہ واسطہ کیسے بن سکتا تھا؟ اس وساطت کا تعلق چاہے غیر ذوی العقول یعنی غیر ذی شعور اشیاء سے ہو جیسے جمادات، افلاک، باد و باراں اور آگ وغیرہ یا اہلِ عقول سے ہو جیسے فرشتے، انسان و جن لیکن ہوتا وہی ہے جو اس کی مشیت میں ہو۔ 10۔ لفظاً و معناً مفعول کی جدا جدا نسبت اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک ہی فعل کی نسبت دو فاعلوں کی طرف کرنا عقل و منطق کے خلاف ہے کیونکہ اس سے ایک ہی اثر پر دو مؤثر عاملوں کا اجتماع لازم آتا ہے جو محال ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت صحیح ہو گا جبکہ دونوں فاعلوں کی فاعلیت متحد ہو لیکن جب دونوں کی فاعلیت ایک نہ ہو تو اس صورت میں مفعول کی مفعولیت معناً دونوں کے درمیان علیحدہ علیحدہ ہو گی اور اس صورت میں فعل کی نسبت، دونوں کی طرف ممتنع نہ ہو گی جیسا کہ اسماء مشترکۃ المعنی کا فرق حقیقت و مجاز کے استعمال سے ظاہر ہے مثلاً کہا جاتا ہے قتل الامیر فلاناً اور قتل السّیّاف ’’اس کو امیر نے قتل کیا اور اس کو جلاد نے قتل کیا‘‘ اس طرح جلاد کو بھی ایک اعتبار سے قاتل کہا جا سکتا ہے اور دوسرے اعتبار سے امیر کو بھی قاتل کہا جا سکتا ہے کیونکہ قتل کا تعلق دونوں سے ہے اگرچہ ایک ہی فعل کا عمل دو مختلف اعتبار سے ہے لیکن دونوں کو فاعل کہنا صحیح ہے۔ 11۔ اﷲ اور مخلوق سے منسوب امورِ مشترکہ یہی حال کسی ایک مقدور کے دو قدرتوں سے متعلق ہونے کا بھی ہے۔ اس کے جواز و وقوع کی دلیل وہ امور ہیں جن کی نسبت خود اللہ تعالیٰ نے کبھی ملائکہ کی طرف، کبھی بندں کی طرف اور کبھی اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اس کی چند مثالیں بطورِ نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا : اَﷲُ يَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا. ’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے۔‘‘ (1) الزمر، 39 : 42 یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے یہاں اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جبکہ سورۃ السجدۃ میں فرمایا : قُلْ يَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَo ’’آپ فرمادیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گےo‘‘ (1) السجدۃ، 32 : 11 اس آیتِ مبارکہ میں جانیں قبض کرنے کی نسبت ملک الموت حضرت عزرائیلں کی طرف کی گئی جو جانیں قبض کرنے پر مامور ہے۔ ایک ہی بات تھی۔ ایک جگہ فاعل مذکور ہے اور دوسری جگہ وہ حذف ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب جانیں عزرائیل قبض کرتا ہے تو اَﷲُ يَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت یوں ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ یہاں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جانیں قبض کرنا حقیقتاً تو میرے قبضہِ قدرت میں ہے لیکن اس کے لئے میں نے اپنے فرشتے عزرائیل کو مامور کیا ہے لہٰذا ان سب باتوں کو شرک ہونے سے مجاز نے بچا لیا اور شرک کا امکان ہی باقی نہ رہا جو لوگ وسیلہ کو نہیں مانتے انہیں عالم نزع میں عزرائیل کو کہنا چاہیے کہ میں تو وسیلہ اور ذریعہ کو نہیں مانتا تم چلے جاؤ اللہ تعالیٰ خود آئے اور میری جان قبض کرے۔ ایسا نکتہ نظر رکھنا سوائے جہالت اور لا علمی کے کچھ نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ملک الموت کا دلچسپ واقعہ بعض متشدد نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کو مندرجہ ذیل واقعہ پر خود غور و فکر کر کے فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ صحیح البخاری (کتاب الجنائز، باب من أحب الدفن فی الأرض المقدسۃ أو نحوہا، 1 : 449، رقم : 1274) اور صحیح مسلم (کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی، 4 : 1842، رقم : 2372) کی متفق علیہ روایت میں حضرت موسیٰں کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ملک الموت انسانی شکل میں روح قبض کرنے آئے تو آپں نے کسی سبب سے ملک الموت کو ایک طمانچہ مارا اور اس کی آنکھ نکال دی۔ ملک الموت انسانی شکل میں تھے اس لیے ان کی آنکھ نکل گئی کیونکہ قاعدہ ہے کہ جس ہیئت میں کوئی ہوتا ہے اس پر اسی ہیئت کے احوال وارد ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا : اَرْسَلْتَنِيْ اِلَی عَبْدٍ لَا يُرِيْدُ الْمَوتَ ’’باری تعالیٰ آپ نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیج دیا جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے میری آنکھ پھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوبارہ جاؤ لیکن یہ نہ کہنا کہ میں آپ کی جان قبض کرنے آیا ہوں کیونکہ بارگاہِ انبیاء کے آداب ہوتے ہیں۔ میرے برگزیدہ نبی موسیٰ سے پہلے اجازت طلب کرنا اور پھر ان کی روح قبض کرنا۔ حضرت موسیٰں نے ملک الموت حضرت عزرائیل کو یہ ادب کیوں سکھایا وہ موسیٰں کے زمانے تک 70 ہزار انبیاء کی روحیں قبض کر چکے تھے پہلے بھی بڑے جلالی نبی آئے لیکن کسی نے تھپڑ نہیں مارا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ انہیں خبر تھی کہ آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیائں آنے والے ہیں جن کی شان اور عظمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ جب ان کے وصال مبارک کا وقت آ جائے تو عزرائیل (ں) کو بارگاہِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے آداب معلوم ہوں۔ درجِ بالا حدیثِ مبارکہ میں حضرت عزرائیل علیہ السلام کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں ’’لا یرید الموت‘‘ (وہ بندہ مرنا ہی نہیں چاہتا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرنا نہ مرنا اس بندہِ مرتضیٰ کے اختیار میں ہے یعنی زندگی یا موت کا اختیار بندے کو سونپ دیا گیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لَا يَمُوْتُ نَبِيٌّ حَتَّی يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. ’’ہر نبی کو اس کے وصال سے پہلے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی مرضی سے واصلِ بہ حق ہوجائے اور اگر چاہے تو مزید دنیا میں قیام کرے۔‘‘ بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ووفاتہ، 4 : 1612، رقم : 4171 مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل عائشۃ، 4 : 1893، رقم : 2444 ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے بھی یہ اختیار دیا گیا لیکن میں نے اپنے رب سے ملاقات کرنے کو اختیار کیا ہے۔(1) (1) احمد بن حنبل، المسند، 3 : 488،489 امورِ مشترکہ کی چند مزید مثالیں 2۔ سورۃ الانبیاء میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلں کے روح پھونکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کر کے ارشاد فرمایا : فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا. ’’پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘ (2) الانبیائ، 21 : 91 حالانکہ روح پھونکنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام مامور تھے اور وہ اس فعل کے فاعلِ حقیقی نہیں تھے۔ 3۔ سورۃ القیامۃ میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلں کے وحی سنانے کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا : فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُo ’’پھر جب ہم اسے (زبانِ جبرائیل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں۔‘‘ (3) القیٰمۃ، 75 : 18 حالانکہ پڑھنے والے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جن کی قرات کے سامع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ 4۔ جنگِ بدر میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کا آمنا سامنا ہوا۔ کئی کفار مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر واصلِ جہنم ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کے عمل کی نسبت اپنی طرف کی اور ارشاد فرمایا : فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰـکِنَّ اﷲَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اﷲَ رَمٰی ’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘ (1) الانفال، 8 : 17 اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں کفار کے قتل کی نفی کر کے اسے اپنی ذات سے منسوب کیا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سنگریزے مارنے کی نفی کر کے اس عمل کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حسی طور پر نسبتِ قتال کی نفی فرمائی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کی نفی فرمائی ہے۔ مسلمانوں کے کفار کو قتل کرنے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کا معنی اور ہے اور اللہل کے قتل کرنے اور کنکریاں پھینکنے کا مفہوم کچھ اور۔ اس کا مقصد حقیقت و مجاز کا فرق واضح کرنا اور خلق و تقدیر کا اثبات ہے جس کا مفہوم دو مختلف طریقوں میں بیان کیا گیا۔ 12۔ ایک فعل کی بیک وقت خالق اور مخلوق دونوں کی طرف نسبت قرآن میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاںبیک وقت ایک فعل خالق اور مخلوق دونوں کی طرف منسوب ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo ’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے اگریہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔‘‘ (2) التوبۃ، 9 : 59 اس آیت میں عطا کرنے کا عمل اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی طرف منسوب ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں اسی مضمون کی وضاحت اس طرح بیان ہوئی ہے جسے حضرت حذیفہ بن اسید ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يَدْخُلُ الْمَلَکُ عَلَی النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِيْنَ أَوْ خَمْسَةٍ وَ أَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً. فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ أَشَقِیٌّ أَوْ سَعِيْدٌ؟ فَيُکْتَبَانِ. فَيَقُوْلُ : أَيْ رَبِّ أَذَکَرٌ أَوْ اُنْثٰی؟ فَيُکْتَبَانِ. وَيُکْتَبُ عَمَلُهُ وَأَثَرُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ ثُمَّ تُطْوَی الصُّحُفُ فَـلَا يُزَادُ فِيْهَا وَلَا يُنْقَصُ. ’’جب چالیس یا پینتالیس راتوں میں نطفہ رحمِ مادر میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ رحم مادر میں داخل ہوکر کہتا ہے : اے رب! یہ شقی ہو گا یا سعید؟ پھر ان میں سے ایک لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے : اے رب! یہ مذکر ہو گا یا مونث؟ پس اس میں سے ایک کو لکھ دیا جاتا ہے، پھر اس کے اعمال، اثر، مدتِ حیات اور اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے پھر صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں اور ان میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ کمی۔‘‘ مسلم، الصحیح، کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمي فی بطن أمہ، 4 : 2037، رقم : 2644 احمد بن حنبل، المسند، 3 : 116، رقم : 12178 اس حدیثِ مبارکہ میں خیرو شر کی تقدیر کا نکتہ بیان ہوا ہے جس کا صدور بہ یک وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ 13۔ مختلف الوجوہ فعل کے استعمال میں کوئی تناقض نہیں بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی فعل کا استعمال مختلف وجوہ سے ہوتا ہے اور ان میں کوئی تناقض بھی نہیں ہوتا، قرآن مجید میں عالَم نباتات کی طرف کسی فعل کو منسوب کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں ارشادِ ربانی ہے : تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ’’(وہ درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔‘‘ ابراہیم، 14 : 25 اب ذرا غور کریں تو وہ درخت خود کہاں سے پھل لا سکتا ہے اس کے ثمر آور ہونے کا فعل تو اﷲتعالیٰ نے اس درخت میں فطرتاً پیدا کیاہے اس مفہوم میں کوئی تعارض اور تناقض نہیں۔ اسی طرح طبرانی اور ابن حبان کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو کھجور دیتے ہوئے فرمایا : ’’یہ لے لو۔ اگر یہ تمہاری قسمت میں ہے اور تم خود نہ بھی لو تو پھر بھی یہ چل کر تمہارے پاس آ جائے گی۔‘‘ (2) ابن حبان، الصحیح، 8 : 33، رقم : 3240 کھجور کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے اور آدمی کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے۔ دونوں کی طرف نسبت مجازی ہے۔ آدمی کے چل کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے میں قدرت و ارادہ پیدا فرما دے گا اور کھجور کے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا سبب پیدا فرما دے گا کہ کوئی اور بندہ کھجور کو اس تک پہنچا دے گا اس طرح حقیقت میں دونوں صورتوں میں اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور ان میں معنوی طورپر کوئی تناقض نہیں۔ 14۔ واسطہ کو مؤثرِ حقیقی اور خالق جاننا کفر ہے اﷲتعالیٰ نے واسطہ کو پیدا کیا اور اس میں وساطت کی قدرت رکھی ہے لیکن اگر کوئی واسطے کو اصل اور مؤثر حقیقی سمجھنے لگے تو اس سے کفر لازم آتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قارون کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا تو وہ اِترا گیا اورگھمنڈ کرنے لگا کہ شاید یہ میرا کمال ہے۔ اس نے مال و دولتِ کثیرہ کو اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا : قَالَ اِنََّمَآ اُوْتِيْتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِنْدِيْ ’’وہ کہنے لگا : (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔‘‘ (1) القصص، 28 : 78 قارون مال و دولت کی فراوانی سے غرور پر اتر آیا اور یہ سمجھنے لگا کہ یہ مجھے اپنی ذاتی تگ و دو اور ہنرمندی سے ملا ہے حالانکہ اﷲ رب العزت نے اسے خزانوں کا مالک بہ طور آزمائش بنایا تھا لیکن وہ مؤثر حقیقی کو بھول گیا، اﷲ رب العزت کو اس کا غرور وتکبر پسند نہ آیا اور اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور وہ اپنے اس کفر کے باعث دنیوی اور اخروی عذاب کا مستحق ٹھہرا۔ اس مفہوم کی مزید وضاحت اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے، حضرت زید بن خالد جہنی ص بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت رات کی بارش کا اثر باقی تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر حاضرین کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : هَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا : اَﷲُ وَرَسُوْلُهُ اَعْلَمُ. قَالَ : قَالَ : أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُوْمِنٌ بِيْ وَ کَافِرٌ، فَاَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَ رَحْمَتِهِ، فَذَلِکَ مُوْمِنٌ بِيْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ. وَ أَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا فَذَلِکَ کَافِرٌ بِيْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ. ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرام ث نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض کی صبح ایمان پر اور بعض کی صبح کفر پر ہوئی ہے۔ جس شخص نے کہا ہے کہ ہم پر خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث بارش ہوئی تو اس نے مجھ پر ایمان رکھا اور ستاروں کا کفر کیا، اور جس نے کہا کہ فلاں ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی ہے تو اس نے میرا کفر کیا اور ستاروں پرایمان رکھا۔‘‘ (2) مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، بیان کفر من قال مطرنا بالنوئ، 1 : 83، رقم : 71 گویا کفر کا باعث یہ زعمِ باطل ہے کہ واسطہ کو مؤثر حقیقی و خالق مانا جائے۔ 15۔ واسطہ کے جواز پر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم اس حوالے سے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص فعل کو واسطہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور واسطہ کو مؤثر حقیقی نہیں سمجھتا تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ واسطہ اور ذریعہ کو ملحوظ رکھنے کا خود شریعت نے حکم دیا ہے۔ حضرت ابنِ عمرص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنِ اسْتَعَاذَ بِاﷲِ فَأَعِيْذُوْهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاﷲِ فَأَعْطُوْهُ، وَمَنْ دَعَاکُمْ فَأَجِيْبُوْهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوْهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْنَهُ فَادْعُوْا لَهُ حَتَّی تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوْهُ. ’’جو شخص تم سے اﷲ تعالیٰ کے نام پر پناہ مانگے تو تم اسے پناہ دے دو، جو اﷲتعالیٰ کے نام پر سوال کرے تو اسے عطا کر دو، جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جو تمہارے ساتھ احسان کرے تو اس کا بدلہ احسان کے ساتھ دو، اگر تم اس کی نیکی کا بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے دعا کیا کرو یہاں تک کہ تم اطمینانِ قلب حاصل کرلو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘ (1) ابوداؤد، السنن، کتاب الزکاۃ، باب عطیۃ من سأل باﷲ، 2 : 128، رقم : 1672 کسی کے کام آنا اس کی مشکل آسان کرنا اس پر احسان کرنا بلاشبہ نیکی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسان کے انسان پر احسان کا مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس احسان کی نسبت موثر مجازی کی طرف کرکے اس کا بدلہ دینے کی کوشش کرنا مستحسن اسلامی اقدار میں سے ہے۔ حضرت ابوسعید خدری ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَمْ يَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْکُرِ اﷲَ. ’’جوشخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘ ترمذی، السنن، کتاب البر، باب فی الشکر، 4 : 339، رقم : 1955 احمد بن حنبل، المسند، 3 : 32 ابویعلی، المسند، 2 : 365 احسان کا مؤثر مجازی بندہ ہے اور یہی اس احسان کا واسطہ بن رہا ہے، اس واسطہ احسان کا اس قدر خیال رکھنا اس احسان کے مؤثر حقیقی (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہونے کے منافی نہیں۔ اگر منافی ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا انسان کا شکر بجالانے کا حکم نہ فرماتے۔ 16۔ ترکِ مجاز سے معانیء قرآن میں تطبیق ممکن نہیں رہتی قرآن حکیم میں اگر ایک فعل کا استعمال مختلف طریق سے ہوتا ہے تو اس کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم صرف حقیقت کو لیں اور مجاز کو ترک کر دیں تو مختلف و متفرق نصوص میں تطبیق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمں سے یہ قول مجازًا منسوب کیا : رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ’’اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔‘‘ (2) ابراھیم، 14 : 36 کیا اس آیت کے مفہوم پر غور کرنے سے کوئی مؤمن یہ گمان بھی کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پتھر سے تراشے ہوئے بتوں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک بنایا ہو گا۔ العیاذ باﷲ ایسا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی نفی حضرت ابراہیمں ہی کے اس قول سے ہو جاتی ہے جس میں قرآن نے انہیں مشرکین سے مخاطب ہو کر ان (بتوں) معبودانِ باطلہ کے حوالے سے یہ استفسار کرتے ہوئے بیان کیا : قَالَ اَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُوْنَo ’’ابراہیم ( علیہ السلام ) نے (ان سے) کہا : کیا تم ان (ہی بے جان پتھروں) کو پوجتے ہو جنہیں خود تراشتے ہوo‘‘ (1) صآفات، 37 : 95 ان دو قرآنی ارشادات کے مفہوم میں کوئی تعارض اور تضاد نہیں۔ بلاشبہ وہ شخص مشرک قرار پائے گا جو غیر اﷲ کے کسی عمل کی اختراع اور اس میں پائی جانے والی تاثیر کو اﷲ تعالیٰ کا شریک سمجھے۔ اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں جیسے انبیاء و اولیاء یا عام مخلوقاتِ جن و انس، جمادات اور مظاہرِ فطرت میں سے کسی کو اﷲ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص مشرک ہو گا البتہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ مسبب میں سبب کا پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہے اور وہی فاعلِ حقیقی ہے تو اس کا ایمان شرک سے محفوظ رہے گا خواہ وہ سبب سمجھنے میں خطا ہی کر جائے۔ کیونکہ اس صورت میں اس کی خطا سبب میں ہو گی نہ کہ مسبِّب میں؟ مسبب الاسباب اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ 17۔ معانیء قرآن کی تطبیق میں احتیاط معانی قرآن کی تطبیق میں توحید اور شرک کا فرق سمجھنا ضروری ہے صحیح عقیدہ یہ ہے کہ کسی غیر کو رازق ماننا شرک ہے اسے رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ محنت کرنے والا کسان، زمین سے رزق پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے نہ کہ مسبب؟ کسان کو رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ اسی طرح لوگ کسی دفتر، فیکٹری یا کارخانہ میں کام کرتے ہیں اور آجر اور مالک ان سے کام لیتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کی ولادت کا سبب بنتے ہیں۔ درسگاہوں میں استاد اور معلم علم دینے کا سبب بنتے ہیں جبکہ مسبِب حقیقی اﷲ تعالیٰ ہی رہتا ہے۔ سب سے بڑا عالم اور ہر چیز کا مالک اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔ ساری عطائیں، عزت اور شان و شوکت اﷲ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور یہ سب کچھ دینے میں وہ خود سبب نہیں بنتا بلکہ مخلوق میں سے کسی کو رزق، علم اور ولدیت کا سبب بناتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسبِّب ہی ہوتا ہے۔ سبب نہیں۔ سبب ہمیشہ مخلوق میں سے ہوتا ہے۔ اور اسی سبب کو واسطہ و وسیلہ کا نام دیا جاتا ہے نہ کہ مسبِّب کو، لہٰذا سبب یعنی واسطہ سے توسل ہوتا ہے جبکہ مسبِّب پر توکل ہوتا ہے۔ کسی کو نفع و نقصان کا سبب ماننا شرک نہیں کسی اور کو اﷲ تعالیٰ کے سوا نفع و نقصان کا سبب اور ذریعہ ماننا توحید کی نفی نہیں۔ توحید کی نفی اور شرک تو تب ہو گا جب کسی اور کو مسبِّب حقیقی مانا جائے۔ کوئی مسلمان ازروئے عقیدہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو مسبِّب حقیقی نہیں مانتا حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ تک رسائی کے لئے صرف وسیلہ، ذریعہ اور سبب مانا جاتا ہے اس آخری حد سے اوپر کوئی نہیں جاتا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہواکہ اﷲ رب العزت نے زمین میں کسی کے رزق کا مالک ہونے کی نفی کی ہے رزق کا وسیلہ، سبب اور ذریعہ بننے کی نفی نہیں کی۔ اﷲ تعالیٰ جیسے مالکِ رزق ہے ویسے وہ مالکِ نفع و ضرر بھی ہے۔ قرآن حکیم نے نقصان کا سبب، باعث، وسیلہ یا ذریعہ ہونے کی نفی نہیں کی۔ وسیلہ کی نفی اس وقت ہو گی جب اﷲ تعالیٰ کے سوا ان امور کا مالک دوسروں کو مانا جائے اس کی مثال یوں ہے کہ سانپ نے کاٹ لیا تو سانپ نقصان کا سبب یا باعث بنا، ڈاکٹر کی دوا سے کسی مرض سے شفایابی ہوئی تو وہ شفا کا سبب بن گیا مگر نہ ڈاکٹر اور دوائی نفع یا شفا کے مالک ہیں اور نہ سانپ یا زہر نقصان کے مالک ہیں یہاں سببیت کی نہیں بلکہ مالکیت کی نفی ہے۔ .
انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاء کرام رحمتہ اللہ علیہم سے ڈائریکٹ مانگنا _________________________________________ اگر کوئی مسلمان اللہ تعالٰی کو حقیقی ذاتی عطا فرمانے والا مان کر کسی نبی یا ولی سے مجازی طور پر یہ کہے کہ اے خواجہ مجھے روزی دے، یا خواجہ مجھے دولت دے، یا خواجہ مجھے اولاد عطا کر تو اس کا یہ عمل شرک و حرام ہرگز نہ ہوگا کیونکہ اس نے اللہ تعالٰی کو حقیقی عطا فرمانے والا مان کر یہ جملے مجازی طور پر کہے لیکن مناسب یہ ہے کہ اس طرح نہ مانگا جائے کیونکہ اگر کوئی ناسمجھ، کم علم، جاہل سنے گا تو اس کے بارے میں بدگمانی کرے گا لیکن جو لوگ مسلمانوں پر اولیاء اللہ سے مدد مانگنے پر شرک کا فتویٰ جاری کرتے ہیں انہیں مجازی اور حقیقی کا علم ہونا چاہیے؛ اگر مجازی اور عطائی کا فرق نہ کیا تو دنیا میں کوئی مسلمان نہ بچے گا مثال کے طور پر: دوائی نے شفا دی کھانا اور پانی نے، بھوک و پیاس بجھائی حالانکہ شفا دینا بھوک بجھانا اللہ تعالٰی کا کام ہے لیکن یہ کہنا مجازی ہے مسلمان روزانہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں وہاں یہ نہیں کہتے کہ اے فلاں تو اللہ کے حکم سے میری فلاں مدد کر یا فلاں چیز مجھے دے کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حقیقی دینے والا اللہ تعالٰی ہے اور ہمارا ایک دوسرے سے ڈائریکٹ مانگنا یہ مجازی ہے قرآن مجید میں؛ تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے(سجدہ/١٠) اور میں(عیسٰی علیہ السلام) مردہ زندہ کرتا ہوں اللہ کے حکم سے(آل عمران ٤٩) بی بی مریم علیہ السلام کے پاس سیدنا جبرائیل آمین آئے اور فرمایا : قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّا (سورة مريم 19 : 19) (جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں قرآن مجید میں مجازی طور موت دینے کی نسبت فرشتوں کی طرف کی لیکن حقیقی موت اللہ تعالٰی دیتا ہے عیسٰی علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کرنے کی نسب اپنی طرف کی وہ اللہ کے حکم سے مردہ زندہ کرتے تھے تو اولیاء اللہ اللہ کے حکم سے اپنی زائرین کی مدد فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام کا بی بی مریم سے اولاد دینے کو کہنا مجازی ہے حقیقی اولاد دینا اللہ تعالٰی کا کام ہے جو لوگ ولی اللہ سے مجازی طور پر اولاد مانگنا شرک کہتے ہیں ان کا جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں کیا حکم ہے مجھ اس کے جواب کا انتظار رہے گا
रविवार, 2 जुलाई 2017
دعوت انصاف : از قلم رائس القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم علمائے دیوبند کے لئے پہلے سے اگر کوئی نرم گوشہ آپ کے دل میں موجود ہے تو اس کتاب کے مطالعہ کا آپ پر قدرتی ردعمل یہ ہو گا کہ آپ جھنجھلاہٹ میں اسے بند کرکے کہیں ایک طرف رکھ دیں گے ، لیکن اگر آپ بردبار ، معاملہ فہم اور صاحب فکر سلیم ہیں اور واقعات کی تہہ میں اتر کر حقائق کی تلاش کا جذبہ ، اعتدال کے ساتھ آپ کے اندر موجود ہے تو آپ یہ جاننے کی ضرور کوشش کریں گے کہ علمائے دیوبند کیساتھ ایک ملک گیر محاذ جنگ کی بنیاد آخر کیوں کر پڑی ۔ بحث و مناظرہ کے وہ حقیقی اسباب و علل کیا تھے جن کے زیر اثر سالہاسال تک پورے ملک میں یہ معرکے گرم رہے۔ یہ نزع دو چار آدمیوں تک محدود ہوتا تو اسے شخصی یا خاندانی مفادات کی آویزش کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا، لیکن علمائے دیوبند کے خلاف مذہبی پیکار کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ملک ہی نہیں ، بیرون ملک کا بھی بہت بڑا خطہ اس کی لپیٹ میں ہے ۔ مساجد سے لے کر مدارس تک مذہبی زندگی کے سارے شعبے اس اختلاف سے اس درجہ متاثر ہیں کہ دیہات سے آفاق تک پوری قوم دو ملتوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ اس لئے اس ہمہ گیر اختلاف کودیو بند اور بریلی کا شخصی نزع قرار دے کر اس کے حقیقی محرکات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔ نہایت افسوس اور قلق کے ساتھ مجھے ہندو پاک کے مسلم مورخین سے یہ شکوہ ہے کہ انہیں آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ علمائے دیوبند کے خلاف ان مذہبی بے چینیوں کی صحیح بنیاد معلوم کرتے جو ملک و بیرون ملک کے کروڑ ہا کروڑ مسلمانوں کے درمیان نصف صدی سے پھیلی ہوئی ہے ، اور جس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والے روحانی کرب اور ذہنی و فکری انتشار کا شکار ہے ۔ ہماری مظلومی کے ساتھ اس سے بڑھ کر درد ناک مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ عین بے خبری کی حالت میں ہمارے احتجاج کو فتنہ انگیزی سے تعبیر کیا، حالانکہ اپنے غم و غصہ اور اپنے جذبے کی تباہیوں کا اظہار ہر مظلوم کا واجبی حق ہے ۔ اتنی تمہید کے بعد اب ہم اس مذہبی نزاع کی پوری تفصیل اس امید کے ساتھ اہل علم کے سامنے پیش کررہے ہیں کہ وہ اس کی روشنی میں نزاع کے اصل محرکات کا پتہ چلائیں گے ۔ بالفرض نگاہوں پر بوجھ ہو جب بھی یہ سر گزشت صبرو تحمل کے ساتھ پڑھئے کہ حقیقت کا متلاشی کسی گروہ کا طرفدار نہیں ہوتا۔ علمائے دیوبند کے ساتھ علمائے اہلسنّت کے اختلاف کی تین مضبوط بنیادیں کچھ کم ایک صدی سے ساری دنیا میں دیوبند اوربریلی کی مذہبی آویزش کا جو شور برپا ہے اور جس کے ناخوشگوار اثرات پریس سے لے کر اسٹیج تک پوری طرح نمایاں ہیں وہ بلاوجہ نہیں ہے ، اگر اس حقیقت کی تلاش کیلئے آپ نے اپنے ذہن کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو ذیل میں اس مذہبی نزع کی وہ حقیقی بنیادیں پڑھئے جنہوں نے امت کو دو ملتوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ پہلی بنیاد اپنی مذہبی سرشت کے اعتبار سے مسلمان کا جو والہانہ تعلق اپنے رسول کریم ﷺ کی محترم ذات سے ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ اس کا ایمان اپنے رسول کی بارگاہ میں اتنا مودب اور حساس ہے کہ رسول کی حرمت پر ذرا سی خراش بھی اسے برداشت نہیں ، ناموس رسول کے تحفظ کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے ہر دور میں جس والہانہ جذبے کے ساتھ اپنی فدا کاریوں کا مظاہرہ کیا ہے وہ تاریخ کا جانا پہچانا واقعہ ہے ۔ حب رسول کی وارفتگی کا یہ رخ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی گستاخی کے خلاف غم و غصہ اور نفرت و غضب کے اظہار کے سوال پر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ نشانے پر کون ہے ، باہر کا ہو یا اندر کا جس نے بھی رسول کی شان میں گستاخانہ جسارت کا اظہار کیا مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کی تلوار اس کے خلاف بے نیام ہوگئی ۔ آج ملعون رشدی کی زندہ مثال آپ کے سامنے ہے ، رسول کی حرمت پر حملہ کرکے اس نے سارے عالم اسلام کو اپنا دشمن بنا لیا ہے ۔ قابل رشک ہیں وہ شہیدان محبت جو رشدی کے خلاف اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آقا کی عزت پر قربان ہوگئے ۔ علمائے دیوبند کے خلاف بھی ہمارے غم و غصہ کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے اکابر نے اپنی بعض کتابوں میں رسول محترم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات استعمال کئے ہیں جس کی مختصر تفصیل یہ ہے ۔ ۱۔ علمائے دیوبند کے مذہبی پیشوا مولوی اشرفعلی تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور اکرم سید عالم ﷺ کے علم پاک کو رذائل اور حیوانات و بہائم کے علم سے تشبیہہ دی ہے جس کے وہ خود بھی اقراری مجرم ہیں ۔ اہل علم و ادب زبان کے اس محاورے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ محترم چیزوں کے ساتھ کسی چیز کی تشبیہہ سے عظمت و تکریم کے معنی پیدا ہوتے ہیں ۔ اور جب رذائل کے ساتھ کسی چیز کو تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس سے توہین و تنقیص کے معنی نکلتے ہیں ۔ اردو زبان کے محاورات میں تشبیہہ و تمثیل کا یہ ضابطہ اتناشائع اور ذائع ہے کہ کوئی صاحب علم اس کے ان معانی و مطالب کے استلزام سے انکار نہیں کرسکتا ۔ اس بنیاد پر ہمارا دعویٰ شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ تھانوی جی بارگاہ رسالت کے گستاخ ہیں ، انہوں نے رسول پاک ﷺ کے علم شریف کو رذائل کے علم سے تشبیہہ دے کر اہانت رسول کے خوفناک جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ ۲۔ علمائے دیوبند کے دوسرے اور تیسرے مذہبی پیشوا مولوی خلیل احمد انبیٹھوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی نے براہین قاطعہ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ زمین کے علم محیط کے سوال پر شیطان کا علم ، رسول اللہ ﷺ کے علم سے زیادہ ہے۔ شیطان کے مقابلے میں جو شخص رسول کی وسعت علم کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے ، کیونکہ شیطان کے علم کی وسعت پر قرآن و حدیث ناطق ہیں ، رسول کے علم کی وسعت پر نہ قرآن میں کوئی دلیل ہے اور نہ حدیث میں ۔ اس میں قطعاً دو رائے نہیں شیطان کے مقابلے میں رسول پاک کے علم کی تنقیص ایک کھلا ہوا کفر اور ایک کھلی ہوئی گستاخی ہے ۔ اسی طرح یہ کہنا بھی کھلی ہوئی گستاخی اور کھلا ہوا کفر ہے کہ شیطان کے مقابلے میں جو شخص رسول پاک ﷺ کی وسعت علم کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے لیکن یہی عقیدہ شیطان کے بارے میں رکھنا شرک نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ کہنا بھی رسول پاک کی صریح تنقیص ہے کہ رسول پاک ﷺ کے علم کی وسعت پر قرآ ن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے ، لیکن شیطان کے علم کی وسعت پر قرآن میں بھی دلیل اور حدیث میں بھی ۔ ۳۔ علمائے دیوبند کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا مولوی قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں حضور ﷺ کو آخری نبی ماننے سے انکار کیا ہے ، جبکہ حضور ﷺ کو خاتم النبین ہونے کی حیثیت سے آخری نبی ماننا قرآن سے بھی ثابت ہوا ہے اور حدیث سے بھی ۔ بلکہ اپنی کتاب میں انہوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ حضور کے زمانے یا حضور کے بعد بھی اگر کسی نئے نبی کا آنا فرض کیا جائے جب بھی حضور کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ حالانکہ یہ بات آسانی سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کسی نئے نبی کے آنے کی صورت میں حضور کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ باطل ہوجاتا ہے ۔ مولوی نانوتوی کی یہی وہ کتاب ہے جسے قادیانی حضرات مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے جواز کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ختم نبوت کے مسئلے میں علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارا اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے ۔ اور یہ اختلاف حرمت وحلت کا نہیں بلکہ کفرو اسلام کا ہے ۔ دعوت انصاف دیوبندی علماء کے ساتھ ہمارے اختلاف کی یہ پہلی بنیاد ہے جو ان کتابوں کے حوالوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہے ۔ واضح رہے کہ اس بنیاد کا تعلق اہانت رسول اور انکار ضروریات دین سے ہے ، جس کے کفر ہونے میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے ۔ قرآن کی بیشمار آیتیں اس عقیدے پر شاہد عدل ہیں کہ رسول پاک ﷺ کی شان میں ہلکی سی گستاخی بھی اسلام اور ایمان کے رشتے کو منقطع کردیتی ہے ۔ علم اور عبادت کی کوئی فضیلت گستاخی کے انجام بد سے کسی کو ہر گز نہیں بچا سکتی ۔ اس موقع پر اپنے قارئین سے یہ ضرور عرض کروں کہ اکابر دیوبند کی ان اہانت آمیز تحریروں کو آپ اس زاویہ نظر سے ہر گز مت پڑھیئے کہ یہ دیوبند اور بریلی کی ایک مذہبی نزاع ہے ‘ بلکہ مطالعہ کرتے وقت اپنی فکر کو اس نقطے پر مرکوز رکھئے کہ اکابر دیوبند کی ان عبارتوں کی ضرب براہ راست رسول اقدس ﷺ کی عظمت و حرمت پر پڑتی ہے ۔ ان کے گستاخ قلم کا حملہ علمائے بریلی پر نہیں بلکہ خاص رسول اکرم ﷺ کی ذات محترم پر ہے ۔ اگر خدانخواستہ آپ نے ان تحریروں کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا کہ یہ دیوبند اور بریلی کے نام سے دو مکتب فکر کے علماء کا باہمی جھگڑا ہے تو جذبے کا وہ والہانہ تقدس باقی نہیں رہے گا جو اپنے رسول کی حمایت میں کسی کے خلاف دو ٹوک فیصلہ کرنے کیلئے مطلوب ہے ۔ میری اس گزارش کا مدعا صرف اتنا ہے کہ اپنی کسی بھی محبوب شخصیت کے مقابلے میں ’’رسول ‘‘ کو ترجیح دینے کا سوال خود آپ کے اپنے ایمان کا تقاضہ ہونا چایئے ، اس لئے علمائے بریلی کو آپ ایک طرف رکھئے ، اور خود اپنے ’’مومن ضمیر ‘‘ سے دریافت کیجئے کہ اکابر دیوبند کی ان تحریروں سے رسول پاک ﷺ کی حرمت مجروح ہوتی ہے یا نہیں ؟ اور دین کے اصول و ضروریات سے انحراف کا پہلو واضح ہوتا ہے یا نہیں ؟ ان کی یہ تحریریں کسی اجنبی زبان میں نہیں ہیں کہ آپکو کسی مترجم کی ضرورت پیش آئے ، وہ سیدھی سادھی اردو زبان میں ہیں جنہیں آپ بھی سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں ۔ ہماری طرف سے حوالوں کی نشاندہی پر آپکو اعتماد نہ ہوتو اصل کتاب منگواکر دیکھ لیں وہ آج بھی کتب خانوں سے دستیاب ہوجاتی ہیں ۔ اب رہ گیا علمائے بریلی کا سوال تو اس سلسلے میں ان کا کردار اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ اکابر دیوبند کی ان اہانت آمیز عبارتوں کو پڑھنے کے بعد جو انہیں ناقابل برداشت اذیت پہنچی اور جس روحانی کرب کے اضطراب میں وہ اچانک مبتلا ہوگئے اس کے ردعمل کا اظہار انہوں نے برملا کیا۔ تعلقات کی کوئی مصلحت اس راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے دیوبند کے ان اکابرین سے براہ راست رابطہ قائم کیا اور دلائل کی روشنی میں ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ان کفری عبارتوں سے جو تنقیص شان رسالت اور انکار ضروریات دین پر مشتمل ہیں اعلانیہ تو بہ صحیحہ شرعیہ کریں اور اپنی کتابوں سے ان دل آزار عبارتوں کو نکال دیں ، لیکن ان کی جھوٹی عزت و شہرت اس راہ میں حائل ہوگئی اور انہوں نے عار پر نار کو ترجیح دی ۔ گستاخان رسول کے درمیان ایک قدر مشترک سلسلہ کلام سے ہٹ کر ایک بات اپنے قارئین کرام کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں ۔ امید کہ انتظار کا یہ لمحہ آپ کو بار خاطر نہ ہوگا۔ رسول اقدس ﷺ کی شان محترم میں گستاخی کرنے والوں کی تاریخ کا جب آپ مطالعہ کریں گے تو ہر گستاخ کی یہ سرشت قدر مشترک کے طور پر آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی کہ دل کے جذبہ نفاق کے زیر اثر جب نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کا کوئی کلمہ ان کی زبان یا قلم سے نکل جاتا ہے تو باز پرس کرنے پر ایک شرمسار مجرم کی طرح وہ اپنے کلمہ کفر سے توبہ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے غلط سلط تاویل اور سخن پروری کے جذبے کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں ۔ عہدِرسالت میں بھی منافقین مدینہ کا یہی رویہ تھا ، چنانچہ ایک سفر سے واپسی کے موقع پر جب منافقین نے حضور نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کا کوئی کلمہ استعمال کیا ، جب صحابہ کرام کے ذریعہ حضور تک یہ بات پہنچی اور حضور نے منافقین سے اس کے متعلق باز پرس فرمائی تو انہوں نے اعتراف جرم اور توبہ و معافی کے بجائے بات بنانے ، تاویل کرنے اور حیلے بہانے تراشنے کا رویہ اختیار کیا۔ چونکہ اس وقت نزول وحی کا سلسلہ جاری تھا اس لئے فوراً ان کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی کہ! لا تعتذروا قد کفر تم بعد ایمانکم o (حیلے بہانے مت بنائو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے) اگر نزول وحی کا سلسلہ جاری نہ رہتا تو ا ن کے جھوٹ کا پردہ فاش نہ ہوتا اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلم معاشرے میں اپنے کفر کو چھپائے رکھتے ۔ سخن پروری کی تازہ مثال منافقین مدینہ کا یہ کردار عہد حاضر میں آپ دیکھنا چاہتے ہوں تو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے پرووائس چانسلر کا قضیہ پڑھئے ۔ انہوں نے کسی انگلش میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکولر کہلانے کے شوق میں ملعون زمانہ رشدی کی کتاب کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار کیا کہ حکومت ہند نے اس کتاب پر جو پابندی عائد کی ہے اسے اٹھالینا چاہیئے کیونکہ ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا بنیادی طور پر حق حاصل ہے ۔ اس فقرہ کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ رشدی نے اپنی ملعون کتاب میں جو اہانت رسول کی ہے اس پر اس سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے اپنی رائے کے اظہار کا بنیادی طور پر حق حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنے اس فقرے کے ذریعے مشیر الحسن نے اہانت رسول کی کھلی ہوئی حمایت کی ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے غیور اور سرفروش طلبہ قابل تکریم و تحسین ہیں کہ جب انہوں نے یہ انٹرویو پڑھا تو ایک گستاخ رسول کی حمایت کی بنیاد پر وہ تحفظ ناموس رسول کے جذبے میں مشیر الحسن کے خلاف پوری طرح صف آرا ہوگئے اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چونکہ گستاخ کا حامی بھی گستاخ ہی ہوتا ہے اس لئے مشیر الحسن کو اس کے منصب سے فوراً ہٹایا جائے ہم ایسے دل آزار شخص کو کسی قیمت برداشت نہیں کریں گے ۔ چونکہ یہ مسئلہ ناموس رسول کا تھا ا سلئے جامعہ ملیہ کے اساتذہ کی بڑی تعداد نے بھی ہر طرح کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر طلبہ کے مؤقف کی حمایت کا اعلان کردیا ۔ دہلی کے مسلمانوں تک جب اس قضیہ کی تفصیل پہنچی تو ہر طرف مشیر الحسن کے خلاف نفر ت و بے زاری کی لہر دوڑ گئی اور طلبہ کے مطالبے میں شہر کے عوام بھی شریک ہوگئے ۔ ذاکر نگر کی انجمن رضا نے جس جذبہ سرفروشی کے ساتھ مشیر الحسن کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا اور جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں صحیح مشورے دیئے ، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ لیکن دارالعلوم دیوبند کے علماء ؟ صرف دارالعلوم دیوبند کے علماء جن میں مولوی سالم صاحب ابن قاری طیب صاحب اور مولوی احمد علی قاسمی اور ابناء قدیم دارالعلوم دیوبند کے ورکنگ جنرل سیکریٹری مولوی فضیل احمد کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام حضرات کے نزدیک مشیر الحسن کی گستاخی ثابت نہیں ہے ، جیساکہ روزنامہ قومی آواز دہلی کی مورخہ ۱۸ مئی سن ۹۲ ء کی اشاعت میں ان کے مشترک بیان کے الفاظ یہ ہیں ۔ ’’طلبہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ جس کو شاتم رسول (گستاخ رسول ) کہاجارہا ہے وہ واقعتا شاتم رسول ہے کہ نہیں ۔ ‘‘ کس قدر افسوس اور قلق کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ کے طلبہ کو جو عالم دین نہیں ہیں ،جامعہ ملیہ کے اساتذہ کو جو عالم دین نہیں ہیں اور دہلی کے مسلمانوں کو مشیر الحسن کی گستاخی سمجھ میں آگئی ، لیکن دارالعلوم دیوبند کے علماء اس کی گستاخی کو سمجھنے سے قاصر رہے ۔ حالانکہ قومی آواز کی اسی اشاعت میں اخبار کے آخری صفحہ پر مشیر الحسن کی بابت شیخ الجامعہ مسٹر بشیر الدین احمد کی ایک اپیل شائع ہوئی جس کا یہ حصہ مشیر الحسن کے جرم پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے ۔ ’’جامعہ کے پرووائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن نے اس کتاب (رشدی کی کتاب ) پر عائد پابندی اٹھانے سے متعلق جو اظہار خیال کیا ہے وہ چونکہ باعث تکلیف ہے اور اس کی وجہ سے ناراضگی اور احتجاج کی ایک فضا پیدا ہوگئی ہے ۔ ‘‘ وائس چانسلر کی اسی تحریر سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ مشیر الحسن کے خلاف طلبہ کا الزام بے بنیاد نہیں ہے ، کیونکہ پابندی اٹھانے کی بات انہوں نے اسی بنیاد پر کی ہے کہ ہر شخص کو بنیادی طور پر اظہار خیال کی آزادی حاصل ہے ، اس لئے سلمان رشدی نے پیغمبر اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا ہے اپنے حق کا جائز استعمال کیا ہے ، لیکن سخت افسوس ہے کہ اتنی وضاحت کے باوجود دارالعلوم دیوبند کے یہ علماء مشیر الحسن کو بے گناہ سمجھ رہے ہیں ۔ ان کے پاس اس کی بے گناہی کی جو سب سے بڑی دلیل ہے وہ یہ ہے ، پڑھئے اور خون کا گھونٹ پیجئے ۔ ’’جس شخص کو شاتم رسول (گستاخ رسول ) کہا جارہا ہے وہ وضاحت کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ وہ اس گناہ سے بری ہے اور حضور کا مکمل احترام اپنے قلب میں رکھتا ہے ۔ ‘‘ دارالعلوم دیوبند کے ان علماء کی کج فہمی پر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کسی دعوے کے ثبوت کیلئے مجرم کا اقرار ضروری نہیں ہے اسکا بیان اور بیان کے الفاظ دعوے کے ثبوت کے لئے بہت کافی ہیں ، ورنہ بتایا جائے کہ اسلامی تعزیرات کی تاریخ میں کس گستاخ کو اقرار جرم کی بنیاد پر سزا دی گئی ہے ؟ تاریخ میں جسے بھی کوئی سزا ملی ہے اس کے الفاظ و بیان ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔ کیا دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاء یہ ثابت کرسکتا ہے کہ کلمہ کفر کی بنیاد پر جس کی بھی اس نے تکفیر کی ہے اس سے کفر کا اقرار کروایاہے ؟ لیکن مشیر الحسن کے بارے میں سوا اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جذبہ حب رسول پر مشیر الحسن کی حمایت کا جذبہ اگر غالب نہ آگیا ہوتا تو دارالعلوم دیوبند کے یہ علماء ایسی کچی بات ہر گز نہ کہتے ۔ کس مصلحت نے انہیں مشیر الحسن کے حق میں صفائی کا وکیل بنادیا ہے اسے وہی بتاسکتے ہیں ۔ ہم نے تو یہ قصہ صرف اسی لئے چھیڑا ہے تاکہ ہمارے قارئین اس بات کو سمجھ سکیں کہ جذبہ حب رسول کسی گستاخ کے خلاف کس طرح اہل ایمان کو متحد کرتا ہے ، اور جن لوگوں کا سینہ اس مقدس جذبے سے خالی ہے وہ گستاخ کی حمایت کے لئے کتنی بے حیائی کے ساتھ رکیک اور مضحکہ خیز تاویلوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ گستاخان رسول کی سرشت اور ان کے حامیوں کا ذہن و کردار سمجھانے کیلئے میں اپنے اٹھائے ہوئے سلسلہ کلام سے بہت دور نکل آیا ۔ اب پھر آپ پچھلے اوراق میں اکابر دیوبند کے خلاف اہانت رسول کے الزامات کی بحث سے اپنے ذہن کا رشتہ جوڑ لیں ۔ ٹھیک اسی طرح اس وقت بھی دیوبندکے علماء نے اپنے اکابر کی گستاخیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے معاند کا رویہ اختیار کرلیا اور سخن پروری کے جذبے سے مسلح ہو کر وہ میدان میں اتر آئے اور پوری قوت کے ساتھ عوام میں اس بات کی تشہیر کرنے لگے کہ اہانت رسول کے الزام سے ہمارا دامن بالکل پاک ہے ، یہ سارا جھگڑا علمائے بریلی کا کھڑا کیا ہوا ہے ، انہوں نے ہمارے اکابر کے خلاف اہانت رسول کا جوالزام عائد کیا ہے وہ بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے ۔ ان کے پاس ذرائع ابلاغ اور مالی وسائل کی کمی نہیں تھی جب ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ سے عوام متاثر ہونے لگے تو ان کا جھوٹ فاش کرنے کے لئے مجبوراً ہمیں بحث و مناظرہ کا راستہ اختیار کرنا پڑا ، تاکہ عوام کی عدالت میں بالکل آمنے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوجائے کہ ان کے اکابر کے خلاف اہانت رسول کا الزام جھوٹا نہیں بلکہ امر واقع ہے ۔ چنانچہ ہر مناظرے کی مجلس میں انہی کے مناظر علماء کے سامنے ان کی کتابوں سے وہ اہانت آمیز عبارتیں صفحہ اور سطر کی نشاندہی کے ساتھ پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی رہیں اور ان کے علماء نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ کتابیں ہمارے اکابر کی تصنیف کردہ نہیں ہیں اور عبارتیں ان کتابوں میں موجود نہیں ہیں ۔ بحث و مناظرہ کے ان معرکوں سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ملک کے عوام کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح اترگئی کہ اکابر دیوبند کے خلاف اہانت رسول کا الزام بے بنیادنہیں ہے ، اور یہ بھی لوگوں نے واضح طور پر محسوس کرلیا کہ علمائے اہلسنّت کا یہ سارا اضطراب اور تحریر و تقریر کے ذریعہ ان کی بے چینیوں کا یہ سار امظاہرہ صرف تحفظ ناموس رسول ﷺ کے جذبے میں ہے ۔ علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی دوسری بنیاد علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی پہلی بنیاد ان کے اکابر کی وہ عبارتیں ہیں جو اہانت رسول اور انکار ضروریات دین پر مشتمل ہے ، جنہیں آپ گذشتہ اوراق میں پوری تفصیل کے ساتھ پڑھ چکے ۔ اگر آپ کی نگا ہ میں ہمارے احساسات کی کوئی قیمت ہے تو آپ نے اچھی طرح اندازہ لگالیا ہوگا کہ ان اہانت آمیز عبارتوں کے ردعمل میں علمائے دیوبند کے خلاف ہماری نفرت و بے زاری کبھی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے ۔ یہی ایک بنیاد ان سے ہماری علیحدگی کیلئے بہت کافی تھی جبکہ یہ معلوم کرکے آپ حیران رہ جائیں گے کہ اس کے علاوہ علمائے دیوبند کے کچھ مخصوص عقائد بھی ہیں جو فاصلہ بڑھانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ ان عقائد کی تفصیل کتابوں کے حوالوں کے ساتھ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔ ۱۔ امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں ۔ (تحذیر الناس ) ۲۔ صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں ہے ۔ (تصفیۃ العقائد ) ۳۔ کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے۔ (تصفیۃ العقائد ) ۴۔ انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے ۔ (تصفیۃ العقائد ) ۵۔ نماز میں حضور اقدس ﷺ کی طرف خیال لے جانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے ۔ (صراط مستقیم ) ۶۔ نماز میں نبی کا خیال زنا کے خیال اور گدھے اور بیل کے خیال میں ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے ۔ (صراط مستقیم ) ۷۔ خدا کا جھوٹ بولنا ممکن ہے ۔ (یکروزی ) ۸۔ خدا کو زمان و مکان سے منزہ سمجھنا گمراہی ہے ۔ (ایضاح الحق ) ۹۔ جادو گروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ (منصب امامت) ۱۰۔ صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ) ۱۱۔ محمد یا علی جس کانام ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں ۔ (تقویۃ الایمان ) ۱۲۔ ہر مخلوق چھوٹا ہو (جیسے عام بندے ) یا بڑا (جیسے انبیاء و اولیاء ) وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان ) ۱۳۔ جو حضور اقدس ﷺ کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے ۔ ( تقویۃ الایمان ) ۱۴۔ رسول بخش ، نبی بخش ، غلام معین الدین اور غلام محی الدین نام رکھنا شرک ہے ۔ (تقویۃ الایمان ) ۱۵۔ رحمۃ للعالمین ہونا حضور ﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمۃ للعالمین ہوسکتے ہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ) ۱۶۔ بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے ۔( تقویۃ الایمان ) ۱۷۔ حضور ﷺ ہمارے بڑے بھائی ہیں ہم انکے چھوٹے بھائی ہیں ۔(تقویۃ الایمان ) ۱۸۔ یہ کہنا کہ خدا و رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے ۔(بہشتی زیور ) ۱۹۔ کسی نبی یا ولی کے مزارات کی زیارت کیلئے سفر کرنا ان کے مزار پر روشنی کرنا ، فرش بچھانا ، جھاڑو دینا ، لوگوں کو پانی پلانا اور ان کے لئے وضو اور غسل کا انتظام کرنا شرک ہے ۔(تقویۃ الایمان ) اپنے قارئین کرام سے درخواست کروں گا کہ انصاف و دیانت کے ساتھ آپ دیوبندی مکتب فکر کے ان مخصوص عقائد پر غور فرمائیں ۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے عقیدہ توحید کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان منصب رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے نوے کروڑ مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ لاکھوں اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے ان عقائد و اعمال کے مخالف سمت کو اسلامی عقائد و اعمال کی حیثیت سے قبول کیا ہے ۔ تھوڑی دیر کے لئے اہل بریلی کو ایک کنارے رکھئے اور اپنے مذہبی شعور کی بنیاد پر آپ خود بتائیے کہ کیا ان عقائد و اعمال کی صحت سے آپ اتفاق کرتے ہیں اور بغیر کسی تردد کے ہاں یا نہیں میں اس بات کا بھی دو ٹوک فیصلہ کیجئے کہ کیا آج کا مسلم معاشرہ انہی عقائد و اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ۔ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو ان علمائے حق کے بارے میں آپ صاف صاف اپنے خیال کا اظہار کیجئے جنہوں نے علمائے دیوبند کے ان خانہ زاد عقائد و اعمال سے اختلاف کیا ہے اور اسلام کے ایک پر جوش محافظ کی حیثیت سے امت کو ان گندے عقائد سے بچانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے اور عین اس کے مخالف سمت میں اسلام کے صحیح عقائد کے ساتھ انہیں منسلک رکھا ہے ۔ اب جمہور مسلمین ہی کو یہ فیصلہ کرناہے کہ ان علمائے حق کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے اور اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ ان علمائے حق نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچایا ہے ۔ اگر اس حقیقت سے آپ اتفاق کرتے ہیں کہ آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے جس کی حمایت ان علماء نے اپنی زبان و قلم سے کی ہے تو اس حقیقت سے بھی آپ کو اتفاق کرنا پڑے گا کہ جمہور مسلمین کے صحیح پیشوا بھی یہی علماء ہیں ۔ جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان علماء کے خلاف تفرقہ اندازی کا الزام عائد کرتے ہیں وہ مذہبی تاریخ میں سب سے بڑے احسان فراموش کہلانے کے مستحق ہیں ۔ آپ نہ بھی اپنے آپ کو بریلوی کہیں جب بھی آپ کو علمائے بریلی کے اس عظیم الشان کردار کا شکر گذار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے آپکو دیوبند کے غلط مذہب فکر کا شکار ہونے سے بچالیا، اور امت مسلمہ کو صحیح عقائد و اعمال کے ساتھ منسلک رکھا۔ علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی تیسری بنیاد تیسری بنیاد کے ضمن میں علمائے دیوبند کے وہ فتاویٰ اور تحریرات ہیں جن کے ذریعہ انہوں نے جمہور مسلمین کی مذہبی روایات کو حرام اور بدعت ضلالت قراردیا ہے ۔ ذیل میں آپ ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔ ۱۔ انبیاء و اولیاء کے ساتھ توسل کو وہ حرام اور گناہ قرار دیتے ہیں ۔ ۲۔ حضور انور ﷺ کے حق میں بعطائے الٰہی بھی وہ علم غیب کا عقیدہ تسلیم نہیں کرتے ۔ ۳۔ تقویۃ الایمان کی صراحت کے مطابق وہ حضور ﷺ کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذ اللہ وہ مر کر مٹی میں مل گئے ۔ ۴۔ وہ محافل میلاد کے انعقاد اور قیام و سلام کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ ۵۔ بزرگان دین اور اموات مسلمین کیلئے ایصال ثواب اور عرس و فاتحہ کو وہ حرام کہتے ہیں ۔ ۶۔ مجلس ذکر شہادت حسین اور غوث پاک کی فاتحہ گیارہویں اور غریب نواز کی فاتحہ چھٹی کو حرام کہتے ہیں ۔ ۷۔ حضو رﷺ کی ولادت پاک کے موقع پر وہ خوشی منانے اور جلسہ و جلوس کے انعقاد کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ ۸۔ مزارات اولیاء اور مقابر صلحاء پر گنبد کی تعمیران کے نزدیک حرام ہے ۔ ۹۔ نعرہ یا رسول اللہ اور یا نبی سلام علیک کو وہ حرام قرار دیتے ہیں ۔ ۱۰۔ عقیقہ و ختنہ اور بسم اللہ کی تقریبات میں اعزہ و اقارب اور احباب کو جمع کرنا ان کے نزدیک ناجائز ہے ۔ ۱۱۔ تیجہ ، دسواں ، چالیسواں اور شب برأت کا حلوہ ان کے نزدیک ناجائز ہے ۔ ۱۲۔ شادی بیاہ ، منگنی اور چوتھی میں ان کے نزدیک نہ کسی کو بلانا جائز ہے اور نہ کسی کے یہاں جانا جائز ہے ۔ ۱۳۔ شادی کے موقع پر سہرا باندھنے کو وہ مشرکانہ فعل قرار دیتے ہیں ۔ ۱۴۔ جو شخص مزارات اولیاء پر چادر چڑھاتا ہو ، بزرگوں کا عرس کرتا ہو اسکے لڑکے کے ساتھ کسی مسلمان لڑکی کے رشتہ نکاح کو وہ حرام قرار دیتے ہیں ، اسکے جنازے میں شریک ہونے، اس کی بیمار پرسی کرنے اور اسے سلام کرنے سے بھی یہ لوگ منع کرتے ہیں ۔ ۱۵۔ ارواح اولیاء سے فیض حاصل کرنے اور مدد طلب کرنے کو بھی یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں ۱۶۔ حضور اکرم سید عالم ﷺ کا نام پاک سن کر انگوٹھا چومنے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔ ۱۷۔ رجب کے مہینے میں امام جعفر صادق کی فاتحہ کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔ ۱۸۔ رمضان المبارک میں ختم قرآن کے موقع پر مساجد میں چراغاں کرنے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔ ۱۹۔ اموات مسلمین کی قبروں پر تاریخ وفات کا پتھر نصب کرنے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں۔ ۲۰۔ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنے کو بھی یہ لوگ ناجائز کہتے ہیں ۔ ۲۱۔ عید کے دن معانقہ کرنے اور بغلگیر ہونے کو بھی یہ لوگ حرام کہتے ہیں ۔ آپ ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلاف کی یہ تیسری بنیاد بھی آپ کے سامنے ہے ۔ اب آپ ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کیا آپ علمائے دیوبند کے ان فتوئوں سے متفق ہیں ، اور کیا یہ فتوے جمہور مسلمین کی روایات کی مخالفت میں نہیں ہیں ؟ اور کیا ہمارے معاشرے کا مذہبی اور اجتماعی نظام ان فتوئوں سے مجروح نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے اور یقینا ہوتا ہے تو آپ ہی فیصلہ کریں کہ ان فتوئوں کے مطابق عام مسلمان صبح سے شام اگر حرام ہی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں تو ہمارا اسلامی معاشرہ کہا ں ہے ؟ یہی وہ منزل ہے جہاں واضح طور پرآپ کو علمائے دیوبند اور علمائے بریلی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنی ہوگی کہ علمائے دیوبند کی ساری محنت اس بات پر صرف ہوئی کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کو گناہ گار، حرام کار ثابت کیا جائے ، اور علمائے بریلی نے اپنے علم کا سارا زور اس بات پر لگایا کہ جو چیز اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک حرام نہیں ہے اسے کون حرام کہہ سکتا ہے ۔ جن مذہبی اور اخلاقی روایات پر ہمارا معاشرہ کھڑا ہے انہیں بلاوجہ حرام قراردینا علم اور فکر کی گمراہی بھی ہے اور مسلم دشمنی بھی ۔ ہمارے قارئین کرام جذبہ انصاف سے کام لیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ علمائے بریلی کی ساری جدوجہد جمہور مسلمین کی حمایت میں ہے ، جبکہ علمائے دیو بند کی ساری کوششیں جمہور مسلمین کی مخالفت میں ہیں ۔ اب اس سے بڑھ کر ناقدری اور زیادتی کیا ہوگی کہ جو لوگ آپ پر حملہ آور ہیں وہ آپ کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوگئے ، اور جو علماء اپنی جان اور آبرو جوکھم میں ڈال کر آپ کا دفاع کررہے ہیں انہیں آپ دشمن سمجھتے ہیں ۔ حاصل گفتگو اختلاف کی پہلی بنیاد سے لیکر یہاں تک جو کچھ ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اس کا مدعا صرف اتنا ہے کہ آپ اختلافات کی نوعیت کو پوری طرح سمجھ لیں اور ہماری برہمی ، بیزاری اور علیحدگی کو کسی اور جذبے پر محمول نہ کریں ۔ علمائے دیوبند کے گستاخ قلم کا حملہ ہماری اپنی ذات پر ہوتا تو عفوودرگزر اور مصالحت کی بہت سی راہیں نکل سکتی تھیں ، لیکن جب انہوں نے منصب رسالت کی عظمتوں کو نشانہ بنا کر اللہ اور اس کے پیارے رسول کو اذیت پہنچائی ہے تو اب ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا وہیں سے ہوگا۔ کسی بھی عالم کے ساتھ ہمارا رشتہ براہ راست نہیں ہے بلکہ نبی کے توسط سے جب اپنا رشتہ وہیں سے کوئی کاٹ لے تو ہمارے ساتھ رشتہ جوڑنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نبی پاک کے ساتھ وفاداری کے جذبے ہی کا یہ تقاضہ ہے کہ جب تک ہمارے جسم میں جان ہے ، نہ یہ کہ ان گستاخوں سے ہم اپنا رشتہ منقطع رکھیں گے بلکہ ہماری کوشش جاری رہے گی کہ ہر مومن وفادار کا رشتہ ان سے منقطع کرتے رہیں ۔ ہمارے خلاف علمائے دیوبند کے الزامات علمائے دیوبند کے ساتھ ہمارے اختلافات کی تاریخ ادھوری رہ جائے گی اگر ان الزامات کا ذکر نہ کریں جو علمائے دیوبند نے ہمارے خلاف عائد کئے ہیں ۔ ہمارے خلاف ان کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ہم نے صاحب علم و فضل علماء کی تکفیر کی ہے اور ہم کفر کا فتویٰ دینے میں بہت بے باک اور غیر محتاط واقع ہوئے ہیں اور اپنے مسلک میں ہم بہت شدت پسند اور متعصب ہیں ۔ اس الزام کے دفاع میں اس سے زیادہ اور ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ ہماری کتاب حسام الحرمین میں صرف پانچ اشخاص کے خلاف یہ الزام اہانت رسول و انکا ر ضروریات دین کفر کے فتوے صادر کئے گئے ہیں ، جن پر حرمین اور بلا د عرب کے اکابر علماء اور مشائخ نے بھی اپنی مہر توثیق ثبت فرمائی ہے ۔ ان میں چار تو یہی اکابر علمائے دیوبند ہیں جن کا تذکرہ پہلی بنیاد کے ضمن میں گزر چکا ہے اور پانچواں مرزا غلام احمد قادیانی کذاب ہے ۔ اب اگر کوئی اپنی شامت عمل سے ان پانچوں میں سے کسی کے بھی کلمات کفریہ کی حمایت کرتا ہے تو اس کے لازمی نتائج اور واجبی تعزیرات کا ذمہ دار وہ خود ہے ۔ علمائے بریلی کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ بلاوجہ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے ۔ اہانت رسول اور کلمہ کفر کی حمایت کرکے اپنی عاقبت برباد کرنے کا انتظام وہ خود کرتے ہیں ۔ کسی اور کو مطعون کرنے سے کیا فائدہ : ایک ضروری نکتہ : اس مقام پر اس نکتے کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک غیر مسلم کو کلمہ ایمان و اسلام کے اقرار کے بعد مسلم سمجھنا ضروری ہے اسی طرح ایک مسلم کو اگر وہ معاذ اللہ کفر کا مرتکب ہوجائے تو اُسے غیر مسلم سمجھنا بھی دین ہی کا ایک فریضہ ہے ۔ مخصوص حالات میں یہ ناخوشگوار فریضہ جس طرح علمائے بریلی کو انجام دینا پڑا ہے علمائے دیوبند بھی اس فرض کی ادائیگی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ ثبوت کے لئے مولوی عبد الماجد دریا بادی کی مشہور کتاب ’’حکیم الامتہ ‘‘ میں مولوی امین احمد اصلاحی کا یہ خط ملاحظہ فرمائیں ۔ یہ خط اس دور کا ہے جب اصلاحی صاحب مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ضلع اعظم گڑھ کے منتظم تھے ۔ موصوف کے خط کا یہ حصہ خاص طور پر پڑھنے کے قابل ہے ۔ ’’مولانا تھانوی کا فتویٰ شائع ہوگیا ہے کہ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہمی کافر ہیں ، اور چونکہ مدرسہ انہی دونوں کا مشن ہے اس لئے مدرسۃ اصلاح مدرسہ کفر و زندقہ ہے ۔ یہاں تک کہ جو علماء اس مدرسے کے (تبلیغی ) جلسوں میں شرکت کریں وہ بھی ملحدوبے دین ہیں ۔ (حکیم الامتہ ‘ صفحہ ۴۷۵ )‘‘ مولوی عبد الماجد دریا آبادی ، تھانوی صاحب کے مرید و خلیفہ ہیں اس لئے مولوی امین احسن اصلاحی کا خط موصول ہونے کے بعد انہوں نے ایک معتمد کی حیثیت سے تھانوی صاحب کو ایک مفصل خط لکھا جس میں انہوں نے مولوی شبلی نعمانی اور مولوی حمید الدین فراہی کی طرف سے صفائی پیش کرتے ہوئے ان کی عبادت و ریاضت ، ان کی نماز تہجد اور ان کے زہد و تقویٰ کو ان کے اسلام ایمان کے ثبوت میں پیش کیا تھا ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ایسے متدین لوگوں کے خلاف کفر کا فتویٰ حلق کے نیچے نہیں اترتا ۔ تھانوی صاحب نے ان کے خط کا جوجواب دیا ہے وہ یہ ہے ۔ ’’یہ سب اعمال و احوال ہیں ۔ عقائد ان سے جداگانہ چیز ہے ۔ صحت عقائد کے ساتھ فساد اعمال و احوال اور فساد عقائد کے ساتھ صحت اعمال و احوال جمع ہوسکتا ہے ۔ (حکیم الامتہ ، صفحہ ۴۷۶) اس جواب کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہے کہ شہرت علم و کمال اور فضل و تقویٰ کے باوجود شبلی نعمانی اور مولوی حمید الدین فراہی کے خلاف مولوی تھانوی نے کفر کا جو فتویٰ صاد ر کیا ہے وہ درست اور صحیح ہے ۔ تھانوی صاحب کے چاہنے والے معتقدین اس فتویٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہی تاویل کریں گے کہ مولوی تھانوی نے ان دونوں حضرات کی تحریر یا تقریر میں کفر کی کوئی بات ضرور دیکھی ہوگی بغیر کسی شرعی وجہ کے انہوں نے کفرکا فتویٰ ہر گز صادر نہیں کیا ہوگا۔ اب یہی بات اگر ہم تھانوی صاحب اور دیگر اکابر دیوبند پر الٹ دیں کہ ان حضرات کے خلاف بھی کفر کا جو فتویٰ حرمین طیبین سے صادر ہوا وہ بھی بلاوجہ نہیں تھا۔ تکفیر کی کوئی شرعی وجہ ان کی نظر میں ضرور ہوگی جیسا کہ پہلی بنیاد میں اس کی ساری تفصیل آپ کی نظر سے گذر چکی ہے ۔ اگر مولوی شبلی نعمانی اور مولوی حمید الدین فراہی کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی شہرت ، ان کی تکفیر سے مانع نہیں ہوتی تو اکابر دیوبند کے حق میں آسمان سے کونسی وحی نازل ہوتی ہے کہ کفر اور اہانت رسول کے جرم کے ارتکاب کے باوجود انہیں تکفیر سے مستثنیٰ رکھا جائیگا۔ تصلب اور شدت پسندی کے الزام کا جواب ہمارے خلاف علمائے دیوبند کا یہ الزام بھی ہے کہ ہم اپنے مسلک میں نہایت متصلب اور شدت پسند واقع ہوئے ہیں ۔ اس الزام کا اس سے زیادہ موزوں اور موثر جواب کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ ہم انہیں آئینہ دکھائیں کہ آپ خود اپنی تصویر اس آئینہ میں دیکھ لیں پھر کسی پر انگلی اٹھائیں ۔ ابھی مولوی امین احسن اصلاحی کے خط میں تھانوی کا فتویٰ بھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر بھی چونکہ انہی کافروں کا مشن ہے اس لئے وہ مدرسہ کفر و زندقہ ہے ۔ یہاں تک کہ جو علماء اس مدرسہ کے جلسوں میں شرکت کریں وہ بھی ملحد و زندیق ہیں ۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ اس سے زیادہ مسلک کی شدت پسندی اور کیا ہوگی ۔ تھانوی صاحب اپنے مسلک میں اتنے شدت پسند ہیں کہ جن لوگوں کو وہ بد دین سمجھتے ہیں ان کی تحریر بھی وہ اپنے معتقدین کو نہیں پڑھنے دیتے ۔ کمالات اشرفیہ نامی کتاب میں ان ملفوظات کا مرتب ان کا یہ ملفوظ نقل کرتا ہے ۔ ’’بد دین آدمی اگر دین کی بھی باتیں کرتا ہے تو ان میں ظلمت لپٹی ہوتی ہے ان کی تحریر کے نقوش میں بھی ایک گونہ ظلمت لپٹی ہوتی ہے ۔ اس لئے بے دینوں کی صحبت اور بے دینوں کی کتابوں کا مطالعہ ہر گز نہ کرنا چاہیئے ۔ (کمالات اشرفیہ ، صفحہ ۵۵)‘‘ اب ہماری مظلومی کے ساتھ انصاف کیجئے کہ جن لوگوں کو اہانت رسول اور ضروریات دین کے انکار کے الزام میں ہم بے دین سمجھتے ہیں ، اگر ہم بھی ان کی صحبت ان کی تقریروں اور ان کی تحریروں کے بارے میں یہی شدت اختیار کریں تو ہم کیوں لائق گردن زنی ٹھہرائے جائیں ؟ شریعت کی جو مصلحت ان کے سامنے ہے وہ ہمارے سامنے کیوں نہیں ہونی چاہیئے ؟ شدت پسندی کی ایک اور مثال جو لوگ ندوہ کی تاریخ سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیوبند کے اکابر ند وہ کے سخت مخالف تھے ، یہاں تک کہ ندوہ کے ناظم مولوی محمد علی مونگیری صاحب جب ندوہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی دعوت لے کر مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب سے ملنے دیوبند گئے تو انہوں نے نہ صرف دعوت قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ملنے سے بھی انکار کردیا ، یہاں تک کہ جب مولوی مونگیری کی طرف سے اصرار ہوا کہ آپ خود شریک نہیں ہوسکتے تو کم از کم اپنے کسی آدمی کو شرکت کی اجازت دے دیجئے تو اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا۔ ’’مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ انجام اس کا بخیر نہیں ، اس واسطے میں اپنی طرف سے کسی کو اجازت نہیں دے سکتا ۔ (تذکرۃ الرشیدیہ ، ج ۲ ، صفحہ ۲۰۵) ’’انجام اس کا بخیر نہیں ‘‘ اس الہام خداوندی کا اس سے زیادہ واضح ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج ندوہ پر دیوبندی فرقے کا تسلط ہوگیا ہے ۔ انجام کی وحشت ناک تصویر اور نمایاں ہوجائے گی اگر اسکا آغاز بھی آپ نظر میں رکھیں ۔ مولوی شبلی نعمانی کے بارے میں اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ندوہ کے بانیوں میں ایک موثر شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کا ایک مضمون مقالات شبلی کے حصہ ششم میں شائع ہوا ہے ۔ یہ مضمون اسوقت کا ہے جب مولوی شبلی سے ندوہ کے ناظم کی چشمک ہوگئی تھی ۔ بتدریج اختلافات یہاں تک بڑھے کہ شبلی کی حمایت میں ندوہ کے طلبہ نے اسٹرائک کردیا ، اس کے بعد کی سر گزشت خود شبلی کے قلم سے پڑھیئے ، لکھتے ہیں کہ ! ’’عین اسی حالت میں مولود شریف کا زمانہ آیا اور طلبہ نے جیسا ہمیشہ کا معمول تھا مولود شریف کرنا چاہا ، لیکن اس خیال سے کہ مولود شریف میں بیان کروں گا وہ مولود سے روکے گئے اور تین دن تک یہ مرحلہ رہا ۔ آخر لوگوں نے سمجھایا کہ مولود کے روکنے سے شہر میں عام برہمی پھیلے گی ، مجبوراً شرطوں اور قیدوں کے ساتھ مولود شریف کی منظوری دی گئی ۔ (مقالات شبلی ، ج ۲ ، صفحہ ۱۳۱)‘‘ لیکن کیا آج بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے احاطے میں مولود شریف کے انعقاد کی اجازت مل سکتی ہے ؟ کیا آج بھی ہمیشہ کا یہ معمول وہاں کے طلبہ میں زندہ اور باقی ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ، کیونکہ اب ندوہ پر اہل دیوبند کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا ہے ۔ غور فرمائیے ! وہ آغاز تھا اور یہ انجام ہے ، غضب یہ ہے کہ گنگوہی صاحب کا الہام انجام ہی کے بارے میں ہے ۔ آغاز کے بارے میں نہیں ہے ۔ شدت پسندی کا ایک اور مکروہ نمونہ دیوبندی مذہب کے مشہور پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی اپنے مسلک میں کتنے شدت پسند تھے اس کی ایک مثال ندوہ کے سلسلے میں آپ پڑھ چکے ۔ اب ان کی شدت پسندی ، سخت مزاجی کا ایک اور مکروہ نمونہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے ۔ بزرگان دین اور ان کے مزارات طیبات سے انہیں اتنی سخت نفرت تھی کہ وہ ان کے عرسوں سے بھی سخت نفرت کرتے تھے۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے مشہور بزرگ قطب عالم حضرت عبد القدوس گنگوہی کا مزار مبارک اسی گنگوہ میں ہے جو مولوی رشید احمد صاحب کا وطن مالوف ہے ۔ ان کی طرف سے مولوی صاحب کے دل میں کتنی کدورت تھی اور وہ ان کے عرس شریف سے کس قدر نفرت کرتے تھے اس کا اندازہ آپ مولوی زکریا شیخ الحدیث سہارنپوری کی اس تحریر سے لگائیے ……موصوف اپنی کتاب تاریخ مشائخ چشت میں لکھتے ہیں ۔ ’’حضرت شاہ عبد القدوس کا عرس جس کے بند کرنے پر آپ قادر نہ تھے ۔ وہ اس درجہ آپ کو اذیت پہنچاتا تھا کہ آپ کو صبر کرنا دشوار تھا ۔ اول اول آپ ان دنوں گنگوہ چھوڑ دیتے اور رامپور تشریف لے جاتے ، مگر آخر میں اس اذیت قلبی کے برداشت کرنے کی آپ کو تکلیف دی گئی تو یہ زمانہ بھی آپ کو اپنی خانقاہ میں رہ کر گزارنا پڑا۔ موسم عرس میں آپ کو اپنے منتسبین کا آنا بھی اس درجہ ناگوار ہوتا تھا کہ آپ اکثر ناراض ہوجاتے اور اس سے بات چیت کرنا بھی چھوڑ دیتے ایک بار جناب مولوی محمد صالح صاحب جالندھری جو آپ کے خلفاء اور مجازین میں سے تھے ، آپ کی زیارت کے شوق میں بیتاب ہو کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔ اتفاق سے عرس کا زمانہ تھا ، اگرچہ آنے والے خادم کو اس کا وہم بھی نہ گزرا ، مگر حضرت امام ربانی نے بجز سلام کا جواب دینے کے ان سے یہ بھی نہ پوچھاکہ روٹی کھائی یا نہیں اور کب آئے اور کیوں آئے ۔ مولوی محمد صالح صاحب کو دو دن اسی طرح گزر گئے حضرت کا رخ پھر ا ہوا دیکھنا ان کو اس درجہ شاق گزرتا تھا کہ اسکو انہی کے دل سے پوچھنا چاہیئے ۔ آخر اس حالت کی تاب نہ لا کر حاضر خدمت ہوئے اور رو رو کر عرض کیا ! حضرت مجھ سے کیا قصور ہوا جسکی یہ سزا مل رہی ہے ؟ معذرت کے طور پر عرض کیا کہ حضرت ! خدا شاہد ہے مجھے تو عرس وغیرہ کے ساتھ ابتدا ہی سے شوق نہیں ، واللہ نہ میں اس وقت اس خیال سے گنگوہ آیا ، اور نہ آجکل یہاں عرس ہونے کا مجھے علم تھا۔ حضرت امام ربانی نے فرمایا کہ اگر چہ تمہاری نیت عرس میں شرکت کی نہیں تھی ۔ مگر جس راستے میں دو آدمی عرس کے آنے والے آرہے تھے اس میں تیسرے تم تھے ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، صفحہ ۲۹۴) اب قارئین کرام ہی انصاف فرمائیں کہ اس سے بڑھ کر اپنے مسلک میں شدت پسندی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کا مرید عرس شریف میں شرکت کی غرض سے گنگوہ نہیں گیا تھا ، بلکہ اپنے پیر کی ملاقات کے لئے وہاں حاضر ہوا تھا ، لیکن صرف اتنی سی بات پر کہ وہ عرس کے زمانے میں گنگوہ کیوں آیا اسے ایسی ذلت آمیز سزا دی جیسے کہ اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کو قطب عالم کے عرس سے اتنی ہی نفرت تھی تو وہ سلسلہ چشتیہ صابریہ میں مرید ہی کیوں ہوئے ، جبکہ اس سلسلے کے سارے اکابر جن میں خواجہ خواجگان چشت حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے لیکرقطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار، بابا فرید شکر گنج ، محبوب الہی ، حضرت نظام الدین ، حضرت صابر پاک ، حضرت چراغ دہلی ، حضرت بندہ نواز گیسو دراز ، حضرت ترک پانی پتی ، حضرت شیخ عبد الحق ردو لوی ، حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی ، حضرت شیخ جلال الدین تھانیری ، حضرت اخی سراج ، حضرت علاء الحق پنڈوی اور حضرت سلطان اشرف جہانگیر سمنانی تک کون ایسا بزرگ ہے جس نے اپنے پیروں کا عرس شریف نہ کیا ہو۔ تعجب ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی صرف اتنی سی بات پر کہ عرس کے زمانے میں ان کا مرید کیوں آیا ، ا س سے منہ پھیر لیا ، لیکن چشتیہ کے جو مشائخ کبائر ساری زندگی اپنے پیروں کا عرس کرتے رہے انہیں وہ اپنا پیر د ستگیر مانتے ہیں ۔ یہ سوال گنگوہی صاحب کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے کہ جو پیر گنگوہی صاحب کے مسلک کے مطابق خود محرمات و بدعات میں مبتلا ہو وہ کسی کا ہاتھ پکڑ کر خدار سی کی منزل تک کیوں کر پہنچا سکتا ہے ۔ ہمارے خلاف علمائے دیوبند کا دوسرا الزام جن لوگوں کے اعتقادی مفاسد پر امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اپنے قلم کا نشتر چلایا تھا وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زندگی بھر کراہتے رہے ، انتقام ہر زخمی کا فطری تقاضہ ہے اور فطرت ہی کا یہ بھی داعیہ ہے کہ جب آدمی دشمن پر قابو نہیں پاتا تو دشنا طرازیوں پر اتر آتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ علم و استدلال کے ذریعہ جو لوگ اپنے خلاف اہانت رسول کے الزام کا دفاع نہیں کرسکے انہیں اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کی یہی صورت نظر آئی کہ جس طرح بھی ممکن ہو مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی شخصیت کو مجروح کیا جائے ۔ علمی جلالت اور کردار کے تقدس پر انگلی رکھنے کی کوئی جگہ نہ مل سکی تو یہ الزام تراشا گیا کہ انہوں نے سنتوں کی بجائے بدعتوں کو زندہ کیا ہے ، حالانکہ مجدد ہونے کی حیثیت سے احیائے سنت اور امتیاز میان حق و باطل ہی اعلیٰ حضرت کا اصل کارنامہ ہے ۔ جس کی بیشمار مثالیں ان کے فتاویٰ کی ضخیم مجلدات میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں ۔ اس طرح کے الزام تراشنے والوں میں شیخ دیوبند مولوی حسین احمد صاحب صدر جمعیت علمائے ہند کا نام سرورق پر ہے ، انہوں نے اپنی کتاب ’’ الشہاب الثاقب ‘‘میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو پانی پی پی کر تقریباً چھ سو گالیاں دی ہیں ۔ انہی میں ایک گالی ’’ مجدد البدعات‘‘ کی بھی ہے، جس سے ان کی کتاب کا ورق داغدار ہے ۔ لیکن اس مقام پر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے کردار کی ارجمندی کو بار بار سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کے خلاف کذب بیانی اور الزام تراشی کا کاروبار کرنے والے اپنی ہزار دشمنی کے باوجود اب تک یہ الزام ان پر عائد نہ کرسکے کہ وہ بدعتوں کے موجد بھی ہیں ۔ ’’مجدد ‘‘ اور ’’موجد ‘‘ کے درمیان جو معنوی فرق ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے ۔ اب جو لوگ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو ’’مجدد البدعات ‘‘ کہتے ہیں انہیں یہ بتانا ہوگا کہ جن بدعات کو انہوں نے زندہ کیا ہے ان کا موجد کون ہے؟ اور اپنی کار گزاریوں کی یہ رپورٹ بھی پیش کرنی ہوگی کہ علمائے دیوبند نے ان موجدین کو کتنی گالیاں دی ہیں ؟ اس وقت میرا موضوع یہ نہیں ہے ورنہ میرے پاس ان بدعات کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی ایجاد کا سہرا خود علمائے دیوبند کے سربندھتا ہے ۔ وقت اگرچہ نہیں ہے لیکن مقام کی مناسبت سے علمائے دیوبند کی ایجاد کردہ بدعات کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ کرکے گزر جانا چاہتا ہوں تاکہ الزام بغیر سند کے نہ رہے ۔ ذیل میں ان بدعتوں کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔ ۱۔ دفع بلا اور قضائے حاجات کے نام پر مدرسہ کی مالی منفعت کیلئے ختم بخاری شریف کی بدعت کا موجد کوئی اور نہیں بلکہ خود دیوبند کا دارالعلوم ہے ۔ ۲۔ نماز جنازہ کیلئے انتظامی مصلحت کی بنیاد پر نہیں بلکہ غلط اعتقاد کی بنیاد پر احاطہ دارالعلوم میں ایک جگہ مخصوص کرنے کی بدعت کا موجد کوئی اور نہیں بلکہ خود شیخ دیوبند کا دارالعلوم ہے۔ ۳۔ مسلم میت کے کفن کیلئے ’’کھدر ‘‘ کی شرط لگانے اور کھدر کے بغیر نمازہ جنازہ پڑھنے اور پڑھانے سے انکار کردینے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود شیخ دیوبند مولوی حسین احمدہیں۔ ۴۔ وراثت انبیاء کی سندتقسیم کرنے کے لئے اہتمام و تداعی کے ساتھ صدسالہ اجلاس منعقد کرنے اور ایک نا محرم اور مشرک عورت کو اسٹیج پر بلا کر اسے کرسی پر بٹھانے اور اپنے مذہبی اکابر کو اس کے قدموں میں جگہ دینے کی بدعت سیئہ کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود دیوبند کا دارالعلوم ہے ۔ ۵۔ دینی درسگاہ کے احاطے میں مشرکانہ الفاظ پر مشتمل قومی ترانہ کیلئے ’’قیام تعظیمی ‘‘ کی بدعت سیئہ کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود دیوبند کا دارالعلوم ہے ۔ ۶۔ کانگریسی امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے انتہائی جدوجہد کو مذہبی فریضہ سمجھنے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود شیخ دارالعلوم دیوبند ہیں ۔ ۷۔ اپنے اکابر کی موت پر اہتمام و تداعی کے ساتھ جلسہ تعزیت منعقد کرنے اور ضلالات و اباطیل پر مشتمل منظوم مرثیہ پڑھنے اور پڑھانے کا موجدبھی کوئی اور نہیں بلکہ خود دارالعلوم دیوبند ہے ۔ ۸۔ با التزام کسی متعین نماز کے بعد نمازیوں کو روک کر ان کے سامنے تبلیغی نصاب کی تلاوت کرنے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود علمائے دیوبند ہیں ۔ (اب اس کتاب کو فضائل اعمال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔) ۹۔ کلمہ و نماز کی تبلیغ کے نام پر چلہ اور گشت کرنے اور کرانے کی بدعت کا موجد بھی کوئی اور نہیں بلکہ خود علمائے دیوبند ہیں ۔ ۱۰۔ دارالعلوم دیوبند میں صدر جمہوریہ کی آمد کے موقع پر قومی ترانہ کے احترام میں کھڑے ہونے کا حکم صادر کرنے والے بھی اکابر دیوبند ہیں جو اس وقت اسٹیج پر موجود تھے۔ اب وہی بتائیں کہ یہ بدعت کی کونسی قسم ہے ۔ یہ اور اسی طرح کی بے شمار بدعات و منکرات ہیں جن کی ایجاد کا سہرا علمائے دیوبند کے سر ہے ، لیکن اس کے باوجودوہ لوگ امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو بدعتی کہتے نہیں تھکتے ۔ علمائے دیوبند ہر نو ایجاد چیز پر بے دریغ بدعت ضلالت ہونے کا حکم صادر کردیتے ہیں اور اسے حرام قراردے کر مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کے نئے نئے فتنے برپا کردیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر محفل میلاد ہی کو لے لیجئے ، اس کے بدعت ضلالت اور حرام ہونے کی ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ سات سو برس کی نو ایجاد بدعت ہے۔ موجودہ ہئیت کے ساتھ نہ عہد رسالت میں موجود تھی اور نہ عہد صحابہ و تابعین میں ، لیکن جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اگر آپ حضرات کے یہاں صرف نو ایجاد ہونے کی بنیاد پر محفل میلاد بدعت ضلالت ہے تو وہ جن اجزاء پر مشتمل ہے ان میں سے کسی چیز کے بارے میں نشاندہی کیجئے کہ وہ کسی سنت کو مٹاتا ہے یا شریعت کے کسی قاعدہ کلیہ کے تحت ممنوعات کے زمرے میں آتا ہے تو سوائے خاموشی کے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر محفل میلاد کے اجزاء یہ ہیں ۔ ۱۔ اعلان عام ، ۲۔ فرش و تخت اور شامیانہ وغیرہ ، ۳۔ روشنی ، ۴۔ بخور و عطریات و گلاب ، ۵۔ شیرنی ، ۶۔ مجمع مسلمین ، ۷۔ ذاکر و میلاد خواں ، ۸۔ ذکر الٰہی و ذکر رسول ، ۹۔ قیام و سلام ان سارے اجزاء میں سے سوائے قیام و سلام کے کوئی جز ایسا نہیں ہے جس پر ان حضرات کا جلسہ سیرت یا جلسہ وعظ ، یا جلسہ تبلیغ یا جلسہ دستار بندی ، یا جلسہ تنظیم و جماعت پر مشتمل نہ ہو ۔ اعلان عام بھی ہے فرش و تخت اور شامیانہ بھی ہے روشنی بھی مجمع بھی ہے واعظ و مقررین بھی ہیں۔ اس لئے ان میں سے کسی جز کو بدعت ضلالت کہہ کر اسے حرام قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے ہی جلسوں کے خلاف حرام ہونے کا فتویٰ دیں ۔ اب رہ گیا معاملہ قیام و سلام کا تو یہ بھی ان کے یہاں وجہ حرمت نہیں ہے کیونکہ بدون قیام بھی محفل میلاد ان کے یہاں حرام ہے ، جیسا کہ فتاویٰ رشیدیہ میں ان کے مشہور پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی نے تحریر فرمایا ہے ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ محفل میلاد کی وجہ حرمت غلط روایتوں کا پڑھنا یا بیان کرناہے تو میں عرض کروں گا کہ بروایات صحیحہ بھی محفل میلاد ان کے یہاں حرام ہے ۔ جیسا کہ اپنے فتاویٰ میں مولوی رشید احمد گنگوہی اس کی بھی تصریح کرچکے ہیں ۔ میں نے متعدد مناظروں میں دیوبند ی علماء سے سوال کیا کہ جب ہماری محفل میلاد اور آپ حضرات کے جلسہ وعظ کے اجزاء ایک ہی ہیں تو آپ کا جلسہ وعظ جائز اور ہماری محفل میلاد حرام کیوں ہے ؟ صرف اس وجہ سے تو کوئی چیز حرام یا حلال نہیں ہوسکتی کہ آپ کے جلسہ کا نام جلسہ وعظ یا جلسہ سیرت ہے اور ہمارے جلسہ کاجلسہ میلاد ہے ۔ جب ان حضرات سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو میں نے عرض کیا کہ ! ایک ہی وجہ فرق میری سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور سراپا انور ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر جب ساری کائنات میں خوشی کے ڈنکے بج رہے تھے تو شیطان لعین کے گھر میں ماتم بپا تھا وہ شدت غیظ میں اپنے سر پر خاک ڈال رہا تھا ۔ اسے حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کی ولادت باسعادت سے تکلیف پہنچی تھی ۔ بہت ممکن ہے اسکی پیروی میں آپ حضرات کو ذکر ولادت سے تکلیف پہنچتی ہو کیونکہ واقعہ تو گزرچکا اب تو صرف اس کا ذکر باقی رہ گیا ۔ آپ حضرات دیوبند میں اپنے دارالعلوم کا جشن صد سالہ مناتے ہیں تو شریعت آپ کا ہاتھ نہیں پکڑتی ، اور ہمارے جشن عید میلاد النبی ﷺ پر آپ کا دارالعلوم گرجنے اور برسنے لگتا ہے ۔ سچ کہا ہے کہنے والوں نے کہ جب کسی کی ذات سے دل میں کسی طرح کی جلن ہوجاتی ہے تو اس کے ذکر سے بھی دل جلنے لگتاہے۔ ایک چبھتا ہوا سوال اور اس کا جواب میری یہ تحریر پڑھنے کے بعد ہر خالی الذہن شخص کے دماغ کی سطح پر یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ ہندوستان میں دیوبندی فرقے کے علاوہ اور بھی بہت سارے باطل فرقے ہیں ، لیکن کیا وجہ ہے کہ کسی اور فرقے کے خلاف علمائے اہلسنّت اس طرح صف آراء نظر نہیں آتے جیسی صف بندی ان کے یہاں اہل دیوبند کے مقابلے میں نظر آتی ہے ۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بحمدہ تعالیٰ علمائے اہلسنّت نے ہر باطل فرقے کے خلاف تحریر و تقریر اور بحث و مناظرہ کے ذریعہ ردو ابطال کے فرائض جس گرم جوشی اور دیانتداری کے ساتھ انجام دیئے ہیں وہ مہر نیروز کی طرح روشن ہیں ۔ دین حق کے خلاف اٹھنے والے فتنے کی سرکوبی کے سلسلے میں ہم نے کبھی اہل زمانہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔ شیعوں قادیانیوں اور غیر مقلدین وغیرہ کے رد میں امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے بہت سارے رسائل لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئے اور ہورہے ہیں ۔ ان کے بعد ان کے خلفاء تلامذہ اور متوسلین و متبعین نے تحریرات و خطبات کے ذریعہ جو خدمات انجام دی ہیں ان کے اثرات سے زمین کا کوئی خطہ بھی خالی نہیں ہے ۔ ایسی بات ہر گز نہیں ہے کہ دوسرے فرقہائے باطلہ کے لئے کوئی نرم گوشہ ہمارے دلوں میں موجود ہے ۔ دیوبندی فرقہ کے خلاف شدت پسندی کی وجوہات اب رہ گئی یہ بات کہ دیوبندی فرقے کے خلاف علمائے اہلسنّت کا رویہ اتنا سخت کیوں ہے تو اس کی متعدد وجوہات ہیں ، جنہیں ٹھنڈے دل سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جن کفریات و ضلالت کی وجہ سے دیوبندی فرقے کے ساتھ ہمارا بنیادی اختلاف ہے ان کا تعلق عقائد سے ہے اور وہ عقائد یا تو ان کے دلوں میں ہیں یا انکی کتابوں کے اوراق میں چھپے ہوئے ہیں اب جہاں تک عمل کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنے آپکو حنفی کہتے ہیں ، ظاہر میں بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ، بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی اذان دیتے ہیں ، بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی تراویح پڑھتے ہیں ، بالکل ہماری ہی طرح وہ بھی عیدین کی نماز پڑھتے ہیں ۔ ظاہری سطح پر ان کے ظاہر میں کوئی ایسی واضح علامت موجود نہیں ہے جس کے ذریعہ سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی شناخت ہوسکے ، اس لئے ان کے متعلق عوام کا غلط فہمی میں مبتلا ہونا بالکل یقینی امر ہے ، اسی بنیاد پر یہ ضرورت داعی ہوئی کہ عقیدے کی سطح سے عوام میں ان کا اتنا واضح تعارف کرایا جائے کہ انہیں پہچاننے میں کوئی دشواری نہ پیدا ہو ۔ لیکن جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے تو جہاں انہوں نے اذان دی یا نماز کی نیت باندھی تو فوراً پتہ چل گیا کہ یہ اور ہیں اور ہم اور ہیں ۔ یہی حال غیر مقلدین کا بھی ہے۔ ان کی فرض نمازیں ، ان کی وتر ، ان کی تراویح اور ان کی عیدین نمازیں چیخ چیخ کر عوام کو تنبیہہ کردیتی ہیں کہ یہ دوسرے مذہب کے لوگ ہیں ، اس لئے عوام کو ان سے خبردار کرنے کی اتنی سخت ضرورت نہیں ہے ۔ جتنی سخت ضرورت عوام کو دیوبندی فرقے سے بچانے کی ہے ۔ دیوبندی حضرات سنی کو کس طرح بد عقیدہ بناتے ہیں ؟ یہ گھس پٹیئے ہیں جو ہماری صفوں میں گھس کر اور ہمارا بن کر ہمارے عوام کو مختلف تر کیبوں سے قریب کرتے ہیں ، اور جب وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا تیر نشانے پر بیٹھ گیا تو وہ مختلف طریقوں سے انہیں اپنی جماعت کے اکابر کا عقید تمند بناتے ہیں ، اور اس کے بعد انہیں اتنا بدل دیتے ہیں کہ وہ اہلسنّت کے ان سارے عقائد و روایات جنہیں وہ ایمان کی طرح عزیز رکھتے تھے اب شرک و بدعت سمجھنے لگتے ہیں ، اور کچھ دنوں کے بعد ان کے دلوں پر بدبختیوں کی ایسی مہر لگ جاتی ہے کہ نہ وہ قرآن کی کوئی بات سنتے ہیں اور نہ حدیث کی۔ واضح رہے کہ یہ ساری باتیں میں مفروضے کے طور پر نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ یہ ہمارے دن رات کے مشاہدات ہیں ۔ ان حالات میں اہلسنّت کے سادہ لوح عوام کو انبیاء و اولیاء کی جناب میں بد عقیدہ ہونے سے بچانے کیلئے ہمارے پاس سوا اسکے اور کیا راستہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو دیوبندیوں کے عقائد ان کے مکرو فریب کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر رکھیں ۔ دوسری وجہ دیوبند مذہب کا مطالعہ کرنے کے بعد حقیقت پوری طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ قرآن حکیم میں منافقین مدینہ کی جو خصلتیں بیان کی گئی ہیں ، ان ساری خصلتوں کے یہ حقیقی وارث ہیں ۔ مثال کے طور پر منافقین کے پاس دو زبانیں تھیں ۔ ایک زبان تو وہ تھی جو صرف ان کے اپنے لوگوں میں کھلتی تھی اور دوسری زبان وہ تھی جسے حضور اکرم ﷺ کے جانثاروں کے سامنے کھولتے تھے۔ قرآن نے ان کی اس خصلت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا و اذا خلوا الی شیطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزؤن o اور جب وہ نبی کے جانثاروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری ہی طرح جانثار ہیں اور جب تنہائی میں اپنے شیاطین کے ساتھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صحابہ کے ساتھ صر ف مذاق کررہے تھے۔ ٹھیک یہی حال دیو بندی فرقے کا بھی ہے ۔ ان کے پاس بھی دو زبانیں ہیں ۔ ایک زبان تو وہ ہے جو انبیاء اولیاء کے وفاداروں اور عقیدت مندوں کے سامنے کھلتی ہے اور دوسری زبان وہ ہے جس زبان میں وہ اپنے گروہ کے لوگوں سے باتیں کرتے ہیں ۔ عقیدہ و عمل کے تضاد کا ایک دلچسپ واقعہ اسکی زندہ مثال دیکھنی ہے تو آپ دہلی تشریف لائیے ، یہاں جمیل الیاسی نام کے ایک مشہور شخص ہیں جو اپنی پیدائشی سرشت و خمیر کے اعتبار سے کٹر دیوبندی و تبلیغی ہیں ۔ ان کے نام کے ساتھ الیاسی کا پیوند ہی ان کے اندر کا سارا حال بتادیتا ہے ۔ ایک طرف دہلی میں وہ دیوبندیت و تبلیغیت کے اتنے سرگرم مبلغ ہیں کہ شاید ہی دہلی میں کوئی مسجد بچی ہو جسے دہلی وقف بورڈ اور وقف کونسل ممبر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے تبلیغی جماعت کی چھائونی میں تبدیل نہ کردیا ہو۔ لیکن اب ان کی تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے اور سر پیٹئے کہ دہلی کے بائیس خواجگان کی شاید ہی کوئی ایسی درگاہ ہو جہاں عرس کے موقعہ پر وہ پیش پیش نہ رہتے ہوں ۔ شری راجیو گاندھی جب پہلی بار وزیر اعظم ہوئے تو ان کی چادر لیکر یہی حضرت ، اجمیر شریف گئے اور ان کی طرف سے خواجہ کے مزار شریف پرچڑھایا ۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ قصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں شریمتی اندرا گاندھی وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتار دی گئی تھیں اور اپنی ناکامی کے کرب میں زندگی گزار رہی تھیں تو خوش آئندہ مستقبل کی نشاندہی کرنے والے جوتشیوں کی طرح یہ حضرت بھی ایک دن وہاں پہنچ گئے اور اند را گاندھی سے کہاکہ دنیا میں صرف ایک ہی ذات ہے جو آپ کا گیا ہوا تخت و تاج واپس لا سکتی ہے ، او روہ ہے غوث اعظم کی ذات جن کا مزار مبارک بغداد شریف میں ہے ۔ اندرا گاندھی کو اور کیا چاہیئے تھا ، فوراً بغداد شریف کے سفر کا انتظام کرادیا اور یہ بغداد شریف کے لئے روانہ ہوگئے ۔ وہاں مزار شریف پر پندرہ دن تک چلہ کش رہے ، اور واپس آکر اندر اگاندھی کو خوشخبری دی کہ وہاں مجھے مزار شریف سے بشارت ہوئی کہ نو مہینے کے بعد آپ کے دن پلٹ آئیں گے ۔ انصاف کیجئے ، اپنے عقیدے کے ساتھ اتنی زبردست جنگ سوائے دیوبندی فرزندوں کے اور کون لڑسکتا ہے ۔ دیوبندی زبان کے محاورے میں قبروں کی پرستش بھی کرتے رہے اور مشرک بنانے والوں کو اپنا امام بھی مانتے رہے ۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ ایسے لوگوں سے بچنا کتنا مشکل ہے جن کے کئی چہرے ہیں ۔ دیوبند اور سہارنپور میں کچھ ہے اور بغداد و اجمیر چلے گئے تو کچھ اور بن گئے ۔ دیوبندی مذہب کا ایک اور جنازہ جن حضرات نے تقویۃ الایمان اور بہشتی زیور کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ علمائے دیوبند کے نزدیک قبروں سے مدد مانگنا شرک جلی ہے ، لیکن اپنے گھر کے بزرگوں کی قبروں کے بارے میں وہ کیا عقیدہ رکھتے ہیں ، اسے سہارنپور کے شیخ الحدیث مولوی زکریا صاحب کی کتاب ’’تاریخ مشائخ چشت ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے ۔ اپنی اس کتاب میں وہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے پیرو مرشد میاں جی نور محمد جھنجھانوی کے سفر آخرت کا ذکر کرتے ہوئے حاجی صاحب کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ اپنے مرض الموت میں ان کے پیرو مرشد نے ارشاد فرمایا کہ ! ’’ میرا ارادہ تھا کہ تم سے مجاہدہ و مشقت لوں گا لیکن مشیت باری سے کوئی چارہ نہیں ، پیام سفر آخرت آگیا ہے ۔ جب حضرت نے یہ کلمات فرمائے تو میں پالکی کی پٹی پکڑ کر رونے لگا۔ حضرت نے تسلی دی اور فرمایا کہ فقیر مرتا نہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے ۔ فقیر کی قبر سے وہی فائدہ ہوگا جو ظاہری زندگی میں ہوتا تھا ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، صفحہ ۲۰۴ )‘‘ میاں جی نور محمد کی قبر سے متعلق ایک عبارت ان کی سوانح حیات سے بھی ملاحظہ فرمائیے جو ادارہ تالیفات اشرفیہ تھا نہ بھون سے شائع ہوئی ہے ، اور جس پر قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تقریظ ہے ۔ مصنف کتاب لکھتے ہیں کہ ! ’’ حضرت میاں جی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بھی آپ کی روح پر فتوح سے وہی فیضان و عرفان کا چشمہ جاری اور آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کے مزارمقدس سے بھی وہی فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں جو آپکی ذات قدسی صفات سے ہوتے تھے ۔ (سوانح حیات میاں جی ، صفحہ ۷۸) اب اس دعوے کے ثبوت میں کہ ، ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر سے بھی وہی فائدہ ہوتا ہے جو ان کی ظاہری زندگی میں ہوتا تھا ، ان کی سوانح حیات کے مصنف نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ! ایک بار حاجی امداد اللہ صاحب نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا ، بعد انتقال حضرت کے مزار پر حاضر ہوا ، اور فاتحہ کے بعد اس نے عرض کی کہ حضرت میں بہت پریشان اور تنگی معاش میں مبتلا ہوں میری کچھ دستگیری فرمائیے ۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے روز ملا کریں گے ۔ ’’ ایک مرتبہ میں زیارت کرنے گیا وہ شخص بھی حاضر تھا اس نے کل کیفیت بیان کرکے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقررہ قبر کی پائینتی سے ملا کرتا ہے ۔ (سوانح میاں جی ، صفحہ ۷۹) انصاف کیجئے دیوبندی فرقے کی مشہور کتابوں تقویۃ الایمان ، بہشتی زیور اور فتاویٰ رشیدیہ میں نہایت صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کسی قبر پر حاضر ہو کر مدد مانگنا اور مصیبتوں میں ان سے دستگیری کی درخواست کرنا صریح شرک ہے ، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس واقعہ میں شرک کا سارا فتویٰ ، ایمان کے لباس میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ جس فرقے کے چہرے پر نفاق کے اتنے دبیز پردے ہوں کہ اپنے ہی مذہب کے عقیدے چھپا لیں ، اس کی پہچان کتنی مشکل ہے ۔ دیوبندی فرقے کے اسی دو رنگی مذہب کے مفاسد سے بچا نے کے لئے علمائے اہلسنّت کو ضرورت پیش آئی کہ عوام کو ان کے حقیقی چہرے کے خدوخال سے بار بار واقف کرائیں تاکہ وہ ان کے فریب میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں ۔ بدعت کی بحث دیوبندی فرقے کے یہاں بدعت کا لفظ بھی بہت کثیر الاستعمال ہے ۔ بات بات پر اہلسنّت کو بدعتی کہنا ان کی عام بول چال ہے ، یہاں تک کہ انہوں نے اہلسنّت کا نام ہی بدعتی رکھ دیا ہے ، جیسا کہ اپنی کتاب تاریخ مشائخ چشت میں مولوی زکریا نے حاجی امداد اللہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ! میں کسی کو بیعت کرنے سے اسلئے انکار نہیں کرتا کہ وہ شخص کسی بدعتی کے پنجے میں نہ گرفتار ہوجائے ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ سے مواخذہ فرماویں کہ وہ تمہارے پاس گیا تھا تم نے کیوں رد کردیا جس کی وجہ سے وہ ایسی جگہ پھنسا ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، صفحہ ۲۶۶) اس عبارت کا مطلب سوا اس کے اور کیا نکلتا ہے کہ حاجی صاحب چونکہ دیوبندیوں کے پیرومرشد ہیں اس لئے تنہا وہی سنت کے طریقے پر ہیں باقی دوسرے مشائخ طریقت تو سر تا سر بدعتی ہیں ۔ اب اسی مقام پر تصویر کا دوسرا رخ بھی آپ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔اسی کتاب میں مولوی زکریا نے لکھا ہے کہ حاجی صاحب نے اپنے پیر ومرشد میاں جی نور محمدجھنجھانوی کے مزار پر پتھر کا ایک کتبہ نصب کیا ہے جس پر یہ اشعار کندہ ہیں۔ شہر جھنجھانہ ہے اک جائے ہدی مسکن و ماویٰ ہے جس جا آپ کا مولیٰ پاک آپ کا ہے اور مزار اس جگہ تو جان لے اے ہوشیار اس جگہ ہے مرقد پاک جناب سر جھکاتے ہیں سب شیخ و شاب جس کو ہو شوق دیدار خدا ان کے مرقد کی زیارت کو وہ جا دیکھتے ہی اس کے مجھ کو ہے یقیں اس کو ہو دیدار رب العالمیں غور فرمائیے ! مرقد پاک کی زیارت کرنے کے لئے جانا مرقد پاک کے دیدار سے رب العالمین کا دیدارکرنا ، کیا یہ ساری باتیں دیوبندی مذہب میں جائز ہیں ؟ مولوی زکریا سے لیکر دیوبندی فرقے کے سارے اصا غروا کابر کو میں چیلنج کرتا ہوں کہ تقویت الایمان ، بہشتی زیور اور فتاویٰ رشیدیہ میں بیان کردہ عقائد کی روشنی میں وہ ثابت کریں کہ یہ اشعار دیوبندی مذہب کے مطابق ہیں ، لیکن بات پھر وہیں پلٹ کر آتی ہے کہ یہ عمل چونکہ اپنے گھر کے بزرگ کا ہے اس لئے آنکھ بند کرکے اسے جائز ماننا ہی پڑیگا۔ اپنے بزرگوں کی خاطر اصولوں کا خون کرنا دیوبندی فرقے کا یہی وہ دورنگی مذہب ہے جس کا پردہ چاک کرنے کے لئے علمائے اہلسنّت کو کتابیں بھی لکھنا پڑیں ، مناظرہ بھی کرنا پڑا اور اسی کلمہ حق کو اپنی زندگی کا مشن بھی بنانا پڑا۔ ارشد القادری غفرلہ ٗ بانی و مہتمم جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء نئی دہلی ۱۷ محرم الحرام سن ۱۴۱۳ھ …جولائی سن ۱۹۹۲ء دعوت انصاف اس مضمون کی اشاعت ان کرم فرمائوں کے لئے ہے ! جو حوصلہ و ہمت اور خلوص و للہیت کے جذبہ کے ساتھ علماء اہلسنّت اور علمائے دیوبند کے مابین اختلاف کو جاننا چاہتے ہیں اور اتفاق و اتحاد کی اصل رکاوٹوں کو دور کرنے کا عزم رکھتے ہیں ٭ جو اپنی نجی مجلسوں اور پرائیوٹ میٹنگوں میں اس سنجیدہ اور اصولی اختلاف کو مولویوں کے چکر ، پیٹ کے دھندے ، کھانے پینے کے حیلے ، شکم پرستی اور اس قسم کے ملے جلے القابات سے یاد کرکے داد تحسین وصول کرکے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ ٭ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اختلاف کو سمجھنے اور دور کرنے کیلئے کسی قسم کی فکر و مفاہمتی کوشش کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ٭ جو علماء اہلسنّت و علماء دیوبند کے اختلاف کو محض جزوی یا فروعی یا لفظی خیال کرتے ہیں ۔ ٭ جو رات دن اپنی تمام تر علمی و تحقیقی صلاحیتیں گستاخانہ و کفریہ الفاظ و عبارات کی توضیح و تشریح و تاویل کرنے میں صرف کررہے ہیں گویا ان وضاحتوں کے رہ جانے سے دین شاید ادھورا رہ جائے ۔ ٭ جو علماء اہلسنّت و علماء دیوبند کے اختلاف راہ اتفاق و اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ کو زیر تحقیق لانے کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کے داعی بھی ہیں ۔ ٭ جو تیجہ ، ساتہ ، چالیسواں ، مزارات مقدسہ کی حاضری کو علماء اہلسنّت و علماء دیوبند کے مابین اصل وجہ اختلاف سمجھتے ہیں ۔ ٭ جو گستاخی و بے ادبی اور اہانت و تحقیر والی عبارات پر مشتمل کتابیں اور لٹریچر چھاپ کر تقسیم کرنے اور فروخت کرنے کو دین کی بہت بڑی خدمت سمجھے بیٹھے ہیں ۔ ٭ جو مذہبی اختلاف کا نام سن کر تلملا اٹھتے ہیں لیکن اپنے دفتری و کاروباری مسائل و معاملات میں اختلاف کو برداشت کرنے اور انہیں خوش اسلوبی سے حل کرنے میں اپنے تمام تر جانی و مالی وسائل کو صرف کردیتے ہیں ۔ ٭ جو یہ مشورہ تو دیتے ہیں کہ اب حالات اس قسم کے ہیں کہ متنازعہ عبارات و مسائل پر بحث و تمحیص نہیں کرنی چاہیئے لیکن اپنا یہ مفید مشورہ ان اداروں کو نہیں پہنچاتے جو رات دن اس قسم کا متنازعی اور اختلافی لٹریچر چھاپتے رہتے ہیں ۔ ٭ جو مسئلہ تعظیم نبی ﷺ ، مسئلہ مقام و مرتبہ رسول ، مسئلہ خصائص رسول ، مسئلہ عظمت صحابہ ﷺ و اہل بیت ، مسئلہ ولایت اور دیگر مسلمہ مسائلِ اسلام و اہلسنّت کو فرقہ واریت کا نام دے کر دانستہ و غیر دانستہ کفر و الحادوزند یقیت کی حمایت کررہے ہیں ۔ ٭ جو اصل وجوہ اختلاف سمجھتے ہوئے ملک گیر سطح پر کوئی ایسا لائحہ عمل پیش کرنے کا جذبہ صادقہ رکھتے ہوں جس سے اختلاف کی خلیج کو کم سے کم کرنے اور اتفاق و اتحاد کی طرف پیش رفت کی جاسکے۔
کیا جماعت، مسلک، یعنی سواد اعظم اور فرقہ ایک ہی چیز ہے ___________________________________________ چاروں ائمہ فقہ کے عقائد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تھا۔ ہمیشہ سے امت میں ایک بہت بڑی جماعت کا عقیدہ ایک رہا ہے اور یہی عقیدہ درست ہے۔ اسی کو جماعت یا سواد اعظم کا نام دیا گیا ہے۔ جو جماعت سے نکل جاتا ہے اس کو فرقہ کہتے ہیں۔ جماعت ہمیشہ سے حق پر ہے اور حق پر رہے گی۔ جتنے بھی فرقے ہوں گے حق پر نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بنتے رہے ہیں اور ختم ہوتے رہے ہیں اسی طرح قیامت تک ہوتا رہے گا۔ احادیث مبارکہ میں ہے: 1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار. "اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا۔" ترمذی، السنن، 4 : 466، رقم : 2167، بيروت لبنان حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان 2۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار. "اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے" حاکم، المستدرک، 1 : 199، رقم : 391 ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب 3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم. "بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو"۔ ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره 4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة. یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے"۔ ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991 أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501 لہذا چاروں ائمہ کو Follow کرنے والے یا پھر کوئی علاقائی طور پر کسی نام سے پکارے جانے والے مسلمان اگر عقیدہ سواد اعظم والا رکھتے ہوں تو وہ فرقہ نہیں ہیں بلکہ جماعت ہی ہیں کیونکہ سب کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا عقیدہ ہے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ ہاں جس کا عقیدہ جماعت سے مختلف ہوا وہ جہنم کے راستے پر ہے اور وہی فرقہ ہے۔
शुक्रवार, 30 जून 2017
مجدد الف ثانی اور امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے عقائد و نظریات ________________________ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالٰی بعض شخصیات مقدسہ کو ایسی شان جلالت عطا فرماتا ہے کہ ان کا قول و افعال اہل زمانہ کے لیے معیار حق بن جاتا ہے_ بر صغیر پاک و ہند میں حضرت امام ربانی سیدنا مجدّد الف ثانی قدس سرہ النوری کی ذات ستودہ صفات کو بھی یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا_یہ حضور امام الانبیاء محبوب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نگاہ عنایت تھی کہ آپ کہ علم و فضل، فکر و نظریات کا لوہا جہاں اپنوں نے مانا وہاں بیگانوں نے تسلیم کیا، فیضی و ابو الفیضی سے لے کر وہابی و دیوبندی حضرات تک آپ کی عظمت علمی و رفعت فکری کا اعتراف کرتے ہیں_یہ الگ بات ہے کہ ان سب کے عقائد و نظریات آپ سے نہیں ملتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ سنت و جماعت کے علمبردار ہیں اور یہ سنت و جماعت کے مخالف، فیضی و ابو الفضل کو تو چھوڑ ئیے وہابی دیوبندی حضرات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ حضور مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے ساتھ محبت و عقیدت کا دعوٰی کرتے ہیں، آپ کے علمی و روحانی وراث بھی کہلاتے ہیں۔ آپ کو معیار حق بھی سمجھتے ہیں مگر پھر بھی آپ کے عقائد و نظریات سے ان کے عقائد و نظریات کو کوئی نسبت نہیں، آپ سے ان حضرات کی محبت و عقیدت کا حال دیکھئیے۔ 1_ امام الوہابیہ مولوی اسماعیل دہلوی نے آپ کو امام ربانی، قیوم زمانی جیسے معزز القاب سے یاد کر کے اولیاء عظام میں شمار کیا۔(صراط مستقیم، ص١٣٢) 2_ مولوی داؤد غزنوی نے لکھا "اس نازک زمانہ میں اسلام کی نصرت و حمایت کے لیے اللہ تعالٰی نے امام ربانی مجدّد الف ثانی شیخ احمد بن عبد الاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کو پیدا فرمایا، شیخ سرہندی تمام داعیانہ صلاحیتوں سے آراستہ تھے_(الاعتصام ١٣نومبر ١٩٥٩ء) 3_ ابو الاعلی مودودی نے لکھا_ شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں کی انہوں نے ہندوستان میں حکومت کو بلکل ہی کفر کی گود میں چلے جانے سے روکا اور اس فتنہ اعظمئ کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اب سے تین چار سو سال قبل ہی اسلام کا نام و نشان مٹا دیتا، اس کے علاوہ انہوں نے دو عظیم الشان کام اور بھی سر انجام دیئے ایک یہ کہ تصوف کے چشمہ صافی کو ان آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گمراہیوں سے اس میں سرایت کر گئ تھی پاک کر کے اسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا_ دوسرے یہ کہ ان تمام رسوم جاہلیت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھی_(تجدید و احیائے دین ص88) 3_ مولوی عبد اللہ روپڑی نے لکھا_حضرت مجدّد نے اپنے مکتوبات میں توحید و سنت کی ترغیب اور شرک و بدعت کی تردید اور اعمال شرکیہ اور بدعتیہ کی جس عمدگی سے نشاندہی فرمائ یہ انہیں کا حصہ ہے_ اور ایمان و اعتقاد کی سلامتی کے لیے صحابہ کرام اور علمائے سلف کے تعامل کا جو سنہری اصول پیش فرمایا یہ ہر قسم کے الحاد اور گمراہی کی شناخت کے لیے راہنمائی بھی ہے اور اس سے بجنے کے لیے تریاق بھی_(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث نومبر 1959ء ص3) ملک حسن علی جامعی نے لکھا_اگر اہل اسلام انصاف سے کام لے کر شیخ مجدّد کی تعلیمات کو آویزہ گوش بنائیں تو مسلمانوں کی بہت سی تلخیاں دور ہو سکتی ہیں اور بہت سے خانہ برانداز جھگڑے نمٹائے جا سکتے ہیں_(تعلیمات مجددیہ ص23) اب ان حضرات(وہابیوں) کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی تحریروں کے مطابق حضرت مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات و ارشادات کی روشنی میں خدا اور رسول کے متعلق اپنے عقائد و نظریات پہ نظر ثانی کرتے لیکن حیرت و افسوس سی کہنا پڑتا ہے کہ قول و افعال کی دورنگی جیسی ان کے ہاں ملتی ہے کہیں اور نہیں، دوسری طرف چودہوی صدی کے مجدّدِ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے امام ربانی کے عقائد و نظریات کو فروغ دیا_ اور اپنے وسیع تجدیدی میدان میں ان کے انداز فکر سے راہنمائی حاصل کی، ان حضرات کی دورنگی یہاں بھی قابل دید ہے کہ یہ امام ربانی کے عقائد و نظریات کو تو قرآن و سنت کے مطابق سمجھتے ہیں مگر جب انہیں عقائد و نظریات کو اعلی حضرت فاضل بریلوی بیان کرے تو ان کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیتے ہیں_بقول داغ دہلوی_ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں نامور مفکر و پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب نے لکھا ہے_حقیقت یہ ہے کہ امام ربانی کے افکار نے پاک و ہند کی فکری زندگی اور سیاسیات پر گہرا اثر ڈالا اور معاشرے میں تدریجی انقلاب پیدا کیا، پاکستان و ہند کے مفکرین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور ڈاکٹر محمد اقبال امام ربانی سے بہت متاثر ہیں_(تقدیم مکتوبات امام ربانی بحیثیت ماخذ ایمانیات ص١٨)اب امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اور اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ کے چند عقائد و نظریات پیش خدمت ہیں_🌼🌻شان لولاک🌼🌻1_ امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں_ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عالم دنیا میں ظہور نہ فرمانا ہوتا تو اللہ سبحانہ تعلی مخلوق کو پیدا ہی نہ کرتا اور آپ نبی تھے، دراں حالیکہ آدم علیہ السلام ابھی پانی اور مٹی کی حالت میں تھے_ (مکتوب 1،دفتر دوم). 1۔ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ الله تعلی نے تمام جہان کو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے واسطے پیدا فرمایا، حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا ;لولاک لما خلقت الدنیا آدم علیہ السلام سے ارشاد ہوا یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نہ ہوتے تو میں تمہیں بناتا نہ زمین نہ آسمان کو، (مطالع المسرات ص262، صلوۃ الصفا فی نور المصطفے از اعلی حضرت) 🌼🌻 حضور نور ہیں 🌻🌼 2_ مجدّد الف ثانی قدس سرہ فرماتے ہیں جاننا چاہیے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی پیدائش دیگر انسانوں کی طرح نہیں ہوئی کہ آپ باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالٰی کے نور سے پیدا ہوئے جیسا کہ آپ نے فرمایا ;خلقت من نور اللہ ;کسی دوسرے کو یہ سعادت میسر نہیں ہوئی_(مکتوب ١٠٠ دفتر سوم) 2_ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیدا ہوئے، حدیث میں وارد ہے ; بے شک اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا (صلوۃ الصفا)🌼🌻 حضور کو اپنے جیسا بشر کہنا 🌻🌼. 3_ مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جن محجوبوں نے حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بشر کہا اور دوسرے انسانوں کی طرح تصور کیا بالآخر منکر ہو گئے اور جن سعادت مندوں نے ان کو رسالت و رحمت عالیمان کے طور پر دیکھا اور دیگر لوگوں سے ممتاز اور سرفراز سمجھا وہ ایمان کی سعادت سے مشرف ہو گئے اور نجات پانے والوں میں شامل ہو گئے_(مکتوب 64 دفتر سوم) 3_ اعلی حضرت بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ وہ بشر ہیں لیکن عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف و احسن وہ انسان ہیں مگر ارواح و ملائکہ سے ہزار درجہ الطف وہ خود فرماتے ہیں_ میں تم جیسا نہیں میں تمہاری ہیئت پر نہیں (قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام) 🌼🌻 عقیدہ حیات النبی 🌼🌻 4_ امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں_آپ نے سنا ہوگا کہ الانبیاء یصلون فی القبور ; نبی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہمارے پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام معراج کی رات جب حضرت کلیم اللہ علیہ السلام کی قبر پر گزرے تو دیکھا کہ قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں اور جب اسی وقت آسمان پر پہنچے تو ان کو وہاں پایا اس مقام کے معاملات نہایت عجیب و غریب ہیں_(دفتر دوم مکتوب 16) 4_ اعلی حضرت بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ دردو و سلام ہی نہیں بلکہ امت کے تمام اعمال و افعال روزانہ دو وقت سرکار عرش وقار حضور سید الابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم میں عرض کیے جاتے ہیں_ احادیث کثیرہ میں تصریح ہے_ معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اور اپنی امت کے احوال و واقعات سے آگاہ ہیں (حیات الموات فی بیان سماع الاموات اور فرماتے ہیں_ انبیاء کو بھی اجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے پھر اسی آن کے بعد ان کی حیات مثل سابق وہی جسمانی ہے یہ ہیں حسی ابدی ان کو رضا صدق وعدہ کی قضا مانی ہے اور فرماتے ہیں_ تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے 🌼🌻 حضور علم غیب جانتے ہیں 🌼🌻 5_ حضرت امام ربانی مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں_ علم غیب جو اس کے ساتھ مخصوص ہے اپنے خاص رسولوں کو اطلاع بخشتا ہے (مکتوب 310 دفتر اول) ایک جگہ اور فرماتے ہیں_ حروف مقطعات قرآنی سب کے سب حالات کی حقیقتوں اور اسرار کی باریکیوں کے متعلق رموز اور اشارے ہیں جو محب اور محبوب کے درمیان وارد ہیں اور کون ہے جو ان کو پاسکے (مکتوب ١٠٠ دفتر سوم) 5_ اعلی حضرت مولانا احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں_ علم الہی ذاتی ہے اور علم خلق عطائی وہ واجب ہے یہ ممکن، وہ قدیم یہ حادث، وہ نامخلوق یہ مخلوق، وہ نامقدور یہ مقدور، وہ ضروری البقا یہ جائز الفنا، وہ ممتنع التغیر یہ ممکن التبدل (انباء المصطفے) اور فرماتے ہیں_ فضل خدا سے غیب شہادت ہوا انہیں اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع مولا کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے ان پر کتاب اتری بیان لکل شئ تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے۔ __________________________ دعا گو ناچیز عمران سیفی رضوی
x
गुरुवार, 29 जून 2017
حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری بریلوی مد ظلہ العالی پر محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گستاخی کرنے کا الزام اور اس کا جواب! ________________________________________________ ابھی کچھ دنوں سے سنابلی اینڈ ادریسی کمپنی کا فتنہ نمودار ہوا ہے، جو *حضور شیخ الاسلام و المسلمین حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان؛عرف ازہری میاں (اطال اللہ عمرہ و علمه و فضله : و دام ظله علینا)* کو ہوائی فائرینگ چیلنج کرتا ہے اور اپنے بیان بازی میں گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر قوم مسلم کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ازہری میاں نے "شیخِ طریقت، امیرِ راہِ تصوف،حضور نظام الدین اولیاء دہلی رحمة اللہ علیه کی شان میں گستاخی کی، جیسا کہ اُن کے فتاویٰ میں موجود ہے *" ازہری میاں نے گستاخی کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ حضرت نظام الدین اولیاء سے خطأ ایسا ہوا ہے، نہ کہ انھوں نے دانستہ حق کو چھوڑا اور باطل کو اپنایا"* *جاء الحق وزھق الباطل* اس عبارت کا پہلے ہم سیاق و سباق دیکھیں پھر اہل علم فیصلہ کریں کہ مسلکِ رضا کا باغی و گستاخ کون ہے، اور حق کس کے ساتھ پایا جاتا ہے، عدل و انصاف کا ترازو ہم آپ پر چھوڑتے ہیں! آپ چاہیں تو حق بجانب تولیں یا پھر باطل کا ساتھ دیں یہ عنداللہ آپ کو جواب دینا ہے، *مسئلہ* حضور تاج الشریعہ سے سائل نے سوال کیا؛ سجدۂ تعظیمی کے جواز و عدم جواز پر اور سائل نے جواز کا قول رکھتے ہوئے حضور نطام الدین اولیاء کا قول نقل فرمایا کہ حضرت نظام الدین اولیاء نے سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دیا ہے وغیرہ اقوال کو پیش کرنے کے بعد سائل نے پوچھا کیا سجدہ تعظیمی جائز ہے! اگر نہیں تو پھرحضرت نظام الدین اولیاء نے جائز کیوں لکھا؟ (یہ تھا سائل کا سوال) *حضور تاج الشریعہ نے جواباً ارشاد فرمایا* سجدہ تعظیمی ہماری شریعتِ محمّدی میں جائز نہیں. اور آپ نے بےشمار دلائل سے ثابت کیا کی سجدۂ تعظیمی جائز نہیں اور آگے فرمایا کہ *"حضرت نظام الدین اولیاء سے اس مسئلہ میں خطأ ایسا ہوگیا، نہ کہ انہوں نے دانستہ حق کو چھوڑا اور باطل کو اپنا"* یعنی حضرت سے لکھنے میں خطا، لغزش واقع ہوگئی....آپ نے جان بوجھ کرکر ایسا نہیں لکھا کہ سجدہ تعظیم جائز ہے بلکہ غلطی سے ایسا ہو گیا..اور ہو جاتا ہے کیوں کہ انسان خطا کا پوتلہ ہے اور غلطیاں صادر ہونا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہیں یہ الگ بات ہے کہ اللہ کی نصرت کے قریب ہو جائیں.مگر معصوم نہیں، منزہ عن الخطا صرف انبیاء کی ذات ہے....! اب سنا بلیّ اینڈ ادریسی کمپنی نے حضور تاج الشریعہ کی ذات با برکت پہ گستاخی کا الزام لگاتے ہوئے یہ کہا کہ آپ نے لفظ *'خطا*' لکھ کر حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں گستاخی کی (معاذاللہ ثم معاذ اللہ) کیا لفظ "خطا" لکھ دینے کی وجہ سے حضور تاج الشریعہ گستاخ ہیں (معاذ اللہ) ــــــــــ اگر ہاں تو لفظ خطا پر حضور تاج الشریعہ ہی کی ذات کیوں.؟؟ بلکہ جن جن اکابرین نے اپنے اسلاف کی لکھی ہوئی عبارتوں پر لفظ خطا اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ان کو بھی آپ گستاخ کہیئے...اور *فرید الحسن* جیسے جاہل ملاؤں سے فتویٰ لکھوائیے... *ملاحظہ فرمائیے* علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں: *المجتھد قد یخطی وقد یصیب* یعنی مجتھد کبھی خطا کرتا ہے اور کبھی درستگی کو پہونچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کی زبان و قلم میں لغزش آتی ہے تو علمائے کرام لفظ ' خطا، سہو، تطفل، اور بھول چوک جیسے الفاظ سے اس کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور اس توجہ کو دلانے کو کسی بھی دور میں گستاخی نہیں کہا گیا... فارسی مقولہ ہم نے پڑھ لیا مگر سمجھ نہ سکے… ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ … یعنی بزرگوں کی غلطی کو پکڑنا بھی خود ایک خطا ہے۔ مقولہ درست ہے کہ بزرگوں سے اگر کوئی خطا ہوجائے تو اسے نظر انداز کردینا چاہیے۔ لیکن *فقیر قادری* کا خیال ہے کہ ادب اور زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات بزرگوں کے قلم سے نکلی ہوئی غلطیاں جو یقیناً جان بوجھ کر نہیں کی جاتیں لیکن اگر انھیں مندرجہ بالا فارسی کے مقولے پہ عمل کرتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے تو لوگ اسی غلطی کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح غلطی در غلطی ہوتی چلی جاتی ہے... اس لئے لفظ خطا ،سہو لکھ کر بتا دیا جاتا ہے کہ ان سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی، اس غلطی و خطا پر معتقدین و مریدین کا چلنا جائز نہیں... اگر لفظ خطا سے کسی بزرگ کی شان میں گستاخی ہو جاتی ہے تو پھر آپ صحابہ کرام پر بھی فتوی لگائیں معاذ اللہ! فتاوی رضویہ کو عام کرنے والے اشخاص فتاوی رضویہ سے ہی کچھ عبارتیں پڑھ لیں کہ اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں حضرات صحابہ کرام کے درمیان بہت سے اختلافات پائے گئ اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات کو آنے والے علمائے کرام نے حق جن کی طرف تھا ان کی نشاندہی کی اور مدمقابل کی خطا کو خطائے اجتہادی قرار دیا..! کیاحضرت علی بمقابلہ حضرت امیر معاویہ باغی یا خطاکار تھے یا بطور اجتھاد ان کی رائی مختلف تھی؟ بلاشبہ ان کی خطا خطائے اجتھادی تھی، مذکورہ عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا کوئی عقل و خرد سے تعلق رکھنے والا یہ کہ سکتا ہے کہ اعلیٰ حضرت سرکار نے (معاذاللہ) حضرت امیر معاویہ کے ساتھ ساتھ دیگر صحابہ کرام کو بھی خاطی کہ کر ان کی گستاخی اور ان کی توہین کی ہے ⚔ *ہے کوئی ایسا نام نہاد مفتی* اعلیٰ حضرت آگے فرماتے ہیں: ردالمحتار میں اس مقام پر قلمی *خطا* واقع ہوئی ہے... صاحب تذکرہ کا اسے تائے تانیث کے ساتھ بتانا *خطا* ہے اگر امام اسحاق سے ایک دو حدیثوں میں *خطا* واقع ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں اور اس قدر کثیر روایات میں اتنی تھوڑی سی *خطا* سے کون *معصوم* ہے کیا اب بھی حضور تاج الشریعہ کے لکھے ہوئے جملوں کو گستاخی ثابت کروگے؟: اگر ہاں تو پہلے حضور تاج الشریعہ کے جدّ کریم پر فتوی لگایئے کیوں آپ نے تو اولیاء کو ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اختلافات کو بھی لفظ *خطا* سے بیان فرمایا ہے.. دراصل بات یہ ہے کہ فقہائے کرام کی سنت جاریہ ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے ہونے والی بھول چوک کو لفظ *خطا* سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ علامہ *علاءالدین کاسانی* اپنی کتاب مستطاب بدائع صنائع میں نقل فرماتے ہیں: *فقال سعید بن المسیب اخطا شریح* یعنی سعید بن مسیب نے فرمایا کہ شریح نے خطا کی ـ امام محمد کے تعلق سے شمس الائمہ علامہ سرخسی فرماتے ہیں: *یجوز ان محمدا اخطا فی ھذا التخریج* کہ کہ ممکن ہے کہ امام محمد سے اس تخریج میں *خطا* ہوئی... اور امام یوسف آپ کے تعلق سے فرماتے ہیں: *اخطا محمد فی ثلاث مسائل* اور امام بخاری کو کون نہیں جانتا ہے؟ مگر اس کے باوجود *ابن ابی حاتم* نے امام بخاری کی *خطاؤں کو بیان کرنے کے لئے مکمل ایک باب ہی اپنی کتاب میں باندھا ہے: باب کا نام ہے فی بیان ما اخطا فیه البخاری* حضرت نظام الدین اولیاء کے لئے اگر حضور تاج الشریعہ *خطا،سہوا، بھول چوک* کا لفظ استعمال کریں تو گستاخ تو پھر آپ ان حضرات کو بھی گستاخی کی صف میں کھڑا کردیجئے....اولاً اعلیٰ حضرت پر گستاخی کا الزام لگاؤ کیوں کہ آپ نے صحابہ و دیگر اشخاص کو *مخطی* لکھا ہے، حضرت سعید ابن مسیب پر بھی اپنا فتویٰ جاری کیجئے علامہ سرخسی پر بھی فتویٰ لگاؤ امام یوسف پر بھی فتویٰ لگاؤ ابن ابی حاتم پر بھی فتویٰ لگاؤ حضور تاج الشریعہ کے علم و فضل، زہد و تقویٰ سے حسد کرنے والوں کے لئے یہ تو ہم نے نمونہ پیش کیا، اگر لفظ *خطا* پر لکھا جائے تو مفصل ایک کتاب تیار کی جاسکتی ہے حضور تاج الشریعہ نے جو کچھ بھی لکھا سب صحیح لکھا ہےاور شریعت کے دائرہ میں رہ کر لکھا ہے، یہ محبت کی انتہا کی علامت ہے کہ آپ نے لفظ خطا لکھا، اگر غلط لکھا ہے تو سجدہ تعظیمی کا جواز قرآن و حدیث سے پیش کرو، اور اگر جائز ہے تو آپ لوگ حضرت کی بات پہ عمل کیوں نہیں کرتے! سنا بلیّ اینڈ ایدریسی نے کتنے لوگوں سے اپنی ذات کو سجدہ کروایا؟ اگر لفظ خطا لکھ دینا گستاخی ہے تو پھر تم کوئی ایسا لفظ تلاش کرو جو تمہارے نزدیک گستاخی والا نہ ہو، *ھاتوأ برھانکم ان کنتم صادقین* *سنیوں سے اپیل* سنیوں تم اپنی قسمت پر ناز کرو کہ تم کو تاج الشریعہ جیسا امیر و رہنما ملا، آپ نے حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں لفظ *خطا* لکھ آنے والے فتنوں کا سر ابھی سے قلم کر دیا، اور اس کا منہ ابھی سے میرے مرشد حق نے دبوچ لیا...سبحان اللہ یہ ہے اللہ والے! *قارئین کرام:* غور فرمائیں کہ اگر حضور تاج الشریعہ حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں لفظ خطا نہ لکھتے تو باطل عقائد والے حضرت نظام الدین اولیاء کے سجدہ تعظیمی کے جواز کی عبارت کو اہل سنت کے درمیان پیش کرتے اور کہتے دیکھو قرآن و حدیث میں تو سجدہ تعظیم جائز نہیں مگر ان کا ولی جائز کہ رہا ہے، یہ دیکھو فوائد الفوائد ہے خود انہوں نے حدیث کا انکار کرتے ہوئے خود کو سجدہ کروانے کے لئے سجدہ تعظیم کو جائز قرار دیا..جب ان کے ولی ایسے ہوتے ہیں تو ان کے علما کیسے جہلا ہونگے، اس وقت اہل سنت پر کیا بتےگی؟ کیا وہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیه کی اس عبارت کو مانینگے؟ ہرگز نہیں بلکہ آپ سے لوگ بیزار ہوجائے گے....اور سنیت کو چھوڑ دینگے! سنیوں ناز کرو اپنے امیر پر!، اور ان کا دامن کرم تھام کر ان کے پیچھے پیچھے لگ جاؤ تاکہ اہل سنت کے غدار تمہیں راہ حق سے بہکا نہ سکیں..حضور تاج الشریعہ نے لفظ *خطا* لکھ تاریخ کا ایک باب کھڑا کر دیا، اگر فتنہ اٹھا کبھی اِس تعلق سے تو باطل کا منہ بند کرنے کے لئے سنی کی زبان سے اتنا کہ دینے سے باطل کا منہ کالا ہوجائے گا کہ ہمارے امیر نے اپنے فتاویٰ میں کہ دیا کہ آپ سے خطأ ایسا ہو گیا ہے، دانستہ آپ نے ایسا نہیں کہا، اور لفظ خطا کہ دینے سے حضرت کی بارگاہ سے الزام رفع ہو جائےگا اور کیوں کہ خطا پر پکڑ نہیں ہے..یہ علم لدنی ہے جو مستقبل کو بھی آپ نے دیکھ لیا… ہمارے سامنے بہت سی مثالین ہیں جو علمائے دیوبند نے اعلی حضرت کی ذات پر ایسے اعتراضات کیجئے جن کا جواب علمائے اہل سنت کے پاس موجود نہیں تھا، مگر اس غلط اعتراض کا جواب *"بزرگوں کے عقیدے"* کتاب میں موجود تھے! علمائے اہل سنت نے اس کتاب سے دلیل پیش کردی کے اس مسئلہ کا جواب یہ ہے… مگر یہاں پر تو یہ سنا بلیّ ایک فتنہ کا دروازہ کھولنا چاہتا ہے، اور معاذاللہ اہل سنت کو حضرت نظام الدین اولیاء کی بارگاہ سے نفرت اور دلوں میں بغض پیدا کرنا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ آپ سے خطأ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے دانستہ حق کو چھوڑا اور باطل کو اپنا! حضور تاج الشریعہ نے حضرت کی بارگاہ لفظ خطا لکھ بہت بڑی گستاخی کردی کیوں کہ حضرت سے خطا نہیں ہوئی وہ معصوم ہیں ان سے غلطی ہونا محال اس لئے جو بھی آپ نے لکھا سجدہ تعظیم کے تعلق سے وہ حق ہے، خطا نہیں.... معاذ اللہ کیا یہ بہت بڑا گستاخ نہیں ہے...؟ ادریسی اینڈ سنا بلیّ کمپنی اور اس کے جاہل چمچے فرید الحسن جیسے بہت بڑے گستاخ ہیں حضرت نظام الدین اولیاء اور دیگر اولیاء کے بھی اس لئے.......... سنیوں! ہوشیار ہو جاؤ! خبردار ہو جاؤ یہ ایک ادریسی اینڈ سنا بلیّ فتنہ ہے جو اہل سنت کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کو اپنے علاقے میں مت بلاؤ، جو لوگ بلاتے ہیں ان کا بائیکاٹ کیجئے، ورنہ یہ لوگ غیرمقلدین کا روپ اختیار کرلیںگے اس لئے ان سے بچو اور عوام اہل سنت کو بچاؤ.....جزاک اللہ دعا گو فقیر عمران رضوی سیفی
रविवार, 25 जून 2017
کیا عید کے دن معانقہ و مصافحہ کرنا بدعت و حرام ہے؟
https://plus.google.com/117923860772922980153/posts/KKTnfEFjFrX?_utm_source=1-2-2
मंगलवार, 13 जून 2017
پیشہ ور نعت خواں و خطیب ________________________________________________ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لئے بغیر تقریر کرنے کو تیار نہیں، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ)۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدہ میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ دین کے ان علمبرداروں نے باقاعدہ سیکرٹری رکھے ہوئے ہیں جو ایڈوانس روپے لینے کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘ کا وقت دیتے ہیں۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں، گلے میں پٹکے ہیں، عربی جبے پہنتے ہیں، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کا نام لیتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، مگر ٹکے ٹکے کے ساتھ خطبہ جمعہ اور دین کی تقریریں بیچتے ان لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ اگر دین کا نام لینے والوں کا عمل یہ ہو گا تو پھر لوگ انہیں بلائیں گے یا گلوکاروں کو بلائیں گے۔ گانے والوں اور ان کے درمیان کیا فرق رہ گیا۔ اس نے گانا سنانے سے پہلے پیسے طے کئے اور تم نے قرآن و سنت سنانا تھا، مگر پہلے ریٹ طے کر رہے ہو۔ افسوس! یہ وبا ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہے۔ دوسرے لوگ بھی لیتے ہوں گے لیکن شاید اتنا نیچے نہیں گرے ہوں گے۔ پردہ داری میں لیتے ہوں گے۔ افسوس ہم لوگ تو منگتے بن گئے ہیں۔ ریٹ طے کرتے ہیں۔ جتنا بڑا نعت خواں ہے پہلے ریٹ طے کرتا ہے، پھر نعتیں سنا کر عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ یہ کون سا عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کے لیے تم ایک رات کے ہزاروں، لاکھوں روپے لیتے ہو۔ مرنے کے بعد ان سطحی اعمال کی حیثیت معلوم ہوگی جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سامنے ہو گا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے کہ بدبخت میری نعت سنانے اور میرے دین کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے پیسے مانگتا تھا۔ افسوس! ہمارے مسلک میں اس عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلقین ہو رہی ہے۔ حتی کہ قرآن کی قرات کے ریٹ بھی لگتے ہیں۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہی تلقین کی تھی۔۔۔؟ کیا صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا۔۔۔؟ تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین کا یہ طریق تھا۔۔۔؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔ اس وجہ سے ہمارے اندر سے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔ ہم نے لباس کے ڈھونگ رچا رکھے ہیں۔ پٹکے دوہرے کر کے گلے میں ڈال لیے ہیں۔ داڑھیاں لمبی رکھ لیتے ہیں۔ ان بڑی سائز کی داڑھیوں سے کیا ملے گا کہ داڑھی کا دکھلاوا بھی پیسے کا ریٹ بنانے کے لیے ہے۔ اس گلے سے کیا لو گے جو فری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نہیں پڑھتا۔ اس تقریر سے کیا لو گے جو پیسے لیے بغیر نہیں ہوتی۔ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا حتی کہ تقریریں کرنے والوں، نعت پڑھنے والوں نے سیکرٹری اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے پردے میں یہ اپنے مالی معاملات طے کرتے ہیں۔ سیکرٹری کے کنفرم کرنے کے بعد ’’صاحب بہادر‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے نام کی اشاعت کے لئے چلتے ہیں۔ کیا یہ اولیاء و صوفیاء کی پیروکاری ہے۔۔۔؟ کیا یہ اللہ والوں کا طرز عمل ہے۔۔۔؟ اس چیز نے مسلک کو برباد کر دیا ہے اور نوجوان نسلوں کو بیزار کر دیا ہے۔ وہ عقیدے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جس کا نام لو وہی دین کا سوداگر ہے۔ ان حالات میں قوم اور نوجوان نسل کو دین کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔
रविवार, 28 मई 2017
من دون اللہ کا صحیح مفہوم ________________________________________________ 1۔ مِن دُونِ اللّهِ کا معنی و مفہوم ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کوئی مخصوص قرآنی اصطلاح نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھ لیا گیا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے فعل دَانَ یَدُوْنُ کا مادہ دُوْناً ہے جس میں کمزوری، حقارت، خساست، پستی اور گھٹیا پن کا معنی پایا جاتا ہے۔ 1۔ عام روزمرّہ گفتگو میں اہلِ عرب کسی کی حقارت اور گھٹیا پن کے بارے میں یوں اظہار کرتے ہیں : ’’صَارَ دُوْناً خَسِيْساً‘‘ کہ فلاں شحص دُوْن یعنی گھٹیا اور کمینہ ہو گیا۔ اس جملے میں گھٹیا پن، پستی اور حقارت و خساست کا مفہوم مضمر ہے۔ فيروز آبادي، القاموس المحيط، 1 : 1545 2۔ يقال للقاصر عن الشيئی دُون ’’جو شخص اپنی کمزوری کے باعث کوئی کام کرنے سے عاجز و قاصر ہو اسے بھی دُون کہا جاتا ہے۔‘‘ راغب اصفهانی، المفردات : 172 3۔ اگر کوئی چیز کسی کے مقابلے میں مقداراً تھوڑی، کم حقیر اور ہلکی ہو تو اسے بھی دُون کہتے ہیں۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے۔ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَآءُ. ’’اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخشش دیتا ہے۔‘‘ النساء، 4 : 48 روزمرّہ گفتگو میں مِن دُونِ اللَّهِ کا استعمال ’’غیر اﷲ‘‘ کے معنی میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ یا ’’مِن دُونِهِ‘‘ کے الفاظ کفار و مشرکین کے شرک کی نفی اور ابطالِ باطل کے ضمن میں ان کے معبودانِ باطلہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں جس سے نہ صرف ان کا غیرِ خدا ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ ان کی اصل حیثیت یعنی بے مائیگی بھی متعین ہو جاتی ہے اور اس پر مستزاد ان کے الٰہ اور قابلِ پرستش ہونے کا رد بھی ہو جاتا ہے۔ مزید برآں دَانَ یَدُوْنُ کے اصل معنی کی بنا پر ان کا پست و حقیر، گھٹیا اور عاجز و کمزور بلکہ بارگاہِ خداوندی میں ان کا بے مایہ اور بے حیثیت ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ گویا مِن دُونِ اللَّهِ کے الفاظ سے کفار و مشرکین کے مشرکانہ معتقدات اور توہمات کا قلع قمع کرنا اور ان کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ان کے جھوٹے معبود اس قدر بے حیثیت ہیں کہ وہ کسی قسم کے نفع و نقصان کا باعث نہیں ہو سکتے۔ 2۔ مِن دُونِ اللّهِ کی حقیقی مراد قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی مِن دُونِ اللَّهِ یا اس کے مماثل الفاظ کا ذکر ہوا ہے وہاں اس سے مقصود کفار و مشرکین کے باطل عقائد و نظریات کا رد اور معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی کا اظہار ہے۔ بنیادی طور پر ان الفاظ سے درج ذیل امور کا بیان مقصود ہوتا ہے۔ (1) باطل عقائد و نظریات کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کے سیاق و سباق میں ان کے باطل عقائد و نظریات کا ذکر کر کے کسی نہ کسی صورت میں ان کی تردید اور تغلیط مقصود ہے۔ (2) معبودانِ باطلہ ان الفاظ کے ذریعہ عام طور پر ان کے معبودانِ باطلہ یعنی ان بتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں وہ خدا کا شریک ٹھہرا کر مستحقِ عبادت سمجھتے تھے۔ (3) اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اُلوہیت کی نفی ان الفاظ کے ذریعے معبودانِ باطلہ کی ذاتِ حق سے مطلقاً بے تعلقی اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے الُوہیت کی نفی کی گئی ہے۔ (4) معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی مِن دُونِ اللَّهِ سے ان معبودانِ باطلہ کی بے بسی، بے حیثیتی اور بے وقعتی ظاہر کرنا مقصود ہے تاکہ کفار و مشرکین اس حقیقت پر متنبہّ ہو کر اپنے مزعومہ مشرکانہ خیالات سے باز آ جائیں اور انہیں عبادت کے لائق نہ سمجھیں۔ (5) کفار و مشرکین سے خطاب کلامِ الٰہی میں مِن دُونِ اللّهِ کے مخاطب مورد و اطلاق کے اعتبار سے اہلِ ایمان نہیں بلکہ اہلِ کفر مشرکین اور ان کے وہ الٰہ اور جھوٹے معبود مراد ہیں جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ مِن دُونِ اللّهِ سے نہ تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء و رسل علیھم السلام مراد ہیں اور نہ ہی صلحاء و اولیاء جنہیں بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت اور مقامِ قرب و محبوبیت سے نوازا گیا ہے، ان کا ذکر قرآن حکیم میں اس پیرائے میں نہیں کیا گیا۔ اہلِ ایمان انہیں خدا کا شریک یا اپنا معبود نہیں سمجھتے۔ اگر کسی جگہ نصاریٰ کے تذکرے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیھا السلام کے حوالے سے ایسی بات کہی گئی ہے تو وہ بھی صرف اس بناء پر کہ انہوں نے دونوں برگزیدہ ہستیوں کو خدا اور خدا کا بیٹا مان کر واضح شرک کا ارتکاب کیا تھا۔ جس پر اس بات کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے استفسار کیا جائے گا : أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ. (المائدۃ، 5 : 116) ’’کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟‘‘ جس کا جواب وہ نفی میں دیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں بھی تثلیث کے ماننے والوں کے مزعومہ مشرکانہ عقائد کی تردید اور خدا کی الُوہیت کے سوا ہر ایک کی نفی مقصود ہے۔ (6) معبودانِ باطلہ کے ولی اور شفیع ہونے کا انکار مِن دُونِ اللَّهِِ یا مِن دُونِهِ کے الفاظ کے ذریعے کفار کے معبودانِ باطلہ کے ولی اور شفیع ہونے کا انکار کیا گیا ہے مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ. ’’ان کے لئے اس کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ (کوئی) سفارشی۔‘‘ الانعام، 6 : 51 اس آیتِ مبارکہ کا اشارہ بھی منکرین و مشرکین اور ان کے جھوٹے معبودوں کی طرف ہے کیونکہ اہلِ ایمان کے لئے تو ولایت بھی ثابت ہے اور شفاعت بھی حتیٰ کہ خود قرآن کی رو سے انبیاء و صلحاء اہلِ ایمان کے ولی بھی ہیں اور شفیع بھی بلکہ ایمانداروں کو صرف انہی پر اعتماد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 3۔ انبیاء و اولیاء ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا مصداق نہیں مِن دُونِ اللَّهِِ یا مِن دُونِهِ جیسے الفاظ کا اطلاق اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے عام چیزوں پر ہوتا ہے اور ان کا معنی غیرِ خدا ہی لیا جاتا ہے۔ یہاں ’’غیرِ خدا‘‘ کا مفہوم اپنے اندر یہ واضح اشارہ رکھتا ہے کہ ہر وہ چیز غیرِ خدا ہے جو خدا سے دور لے جانے والی ہو۔ خدا سے انکار اور کفر و شرک کا باعث ہو اور خدا کی بارگاہ میں کسی بھی رتبے یا درجے کی حامل نہ ہو بلکہ عنداللہ محض بے حیثیت اور بے عزت و بے وقعت ہو، جہاں تک انبیاء و رسل، اولیاء و عرفاء، مومنین کاملین اور خدا کے مقبول و برگزیدہ بندوں کا تعلق ہے وہ بارگاہِ ایزدی میں مقرب اور محبوب تصور کئے جاتے ہیں، ان پر ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارے میں مختلف آیات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : 1. إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَO ’’بے شک وہ ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔‘‘ الصآفات، 37 : 81، 111 2۔ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو تو غیر سمجھتا ہی نہیں۔ اُس کے نزدیک غیر وہی ہیں جو اس سے دور ہیں۔ ارشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO ’’اے نبی (معظم!) آپ کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی۔‘‘ الانفال، 8 : 64 یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو اپنا مقرب تصور کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پر اعتماد کی تلقین اور ہدایت فرمائی ہے اور بطورِ خاص اپنی بارگاہ میں ان کی حیثیت اور قدر و منزلت کو واضح کیا ہے۔ اولیاء اللہ (اللہ تعالیٰ کے دوست اور محبوب بندے) اللہ تعالیٰ کا غیر اس لئے بھی نہیں ہوسکتے کہ وہ خود زمین پر چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے، ان کی زیارت اللہ کے ذکر کا سبب ہوتی ہے، ان کی قربت اللہ کی قربت اور انکی محبت اللہ کی محبت ہوتی ہے۔ زیرِ بحث موضوع کو سمجھنے میں حضرت ابنِ عباس اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مروی درج ذیل حدیث کا حوالہ دینا مددگار ثابت ہوگا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اولیاء اﷲ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اﷲُ عزوجل. ’’وہ لوگ جنہیں دیکھنے سے اللہ یاد آجائے (اولیاء اﷲ ہیں)۔‘‘ 1. نسائی، السنن الکبری، 6 : 362، رقم : 11235 2. ابن المبارک، کتاب الزهد، 1 : 72، رقم : 217 3. مقدسی، الأحاديث المختارة، 10 : 108، رقم : 105 4. هيثمی، مجمع الزوائد، 10 : 78 حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے معاندین کو اپنا ما سویٰ اور ان کے غیر کو اپنا غیر تصور کرتا ہے۔ ان کے دوست کو اپنا دوست اور ان کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ ازراہِ تمثیل یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ غرباء کے صدقات کو اپنے لئے قرضِ حسنہ اور دین کی خدمت کو اپنے لئے مدد قرار دیتا ہے۔ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے آداب بیان کرتے ہوئے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی عمل میں سبقت لے جانے کو اپنی ذات سے پہل، مؤمنین کی راہ کی پیروی کو اپنی راہِ ہدایت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کو اپنی بیعت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور ان کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو اپنا قول اور ان کے عمل کو اپنا عمل قرار دیتا ہے، اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے جانثار مؤمنین کو ’’حِزْبُ اﷲِ‘‘ اور ان کے غیر کو ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ لہٰذا مِن دُونِ اللَّهِِ جیسے الفاظ اللہ تعالیٰ سے جس غیریت کا مفہوم لئے ہوتے ہیں وہ لغوی، کلامی اور لفظی نہیں بلکہ حکمی، مرادی اور معنوی اعتبار سے ہیں۔ یعنی خدا کے غیر سے مراد وہی ہے جو پیمانۂ محبت کے اعتبار سے غیر ہو اور بے نسبتی و بے تعلقی کے لحاظ سے پرایا ہو۔ اس لئے انبیاء و صالحین کو نگاہِ ربوبیت میں جو اپنائیت حاصل ہے اگر کوئی اسے نظر انداز کرتے ہوئے ان پر بھی مِن دُونِ اللَّهِ کا اطلاق کرتا ہے تو وہ قرآنی تعلیمات کے ساتھ نہ صرف صریح مذاق کرتا ہے بلکہ خود ربِ ذوالجلال کے ارشادات کا کھلا انکار بھی۔ 4۔ آیات کا غیر موزوں اطلاق خوارج کا وطیرہ ہے مِن دُونِ اللّهِِ کے مفہوم کے ضمن میں ان چند بنیادی باتوں کا قدرے تفصیل سے ذکر اس لئے ہوا کہ کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء پر بھی کر دیتے ہیں۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا۔ خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539 2. ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335 3. ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں؟ قابلِ مذمت ہے، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے۔ خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا : کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ. ’’کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939 3. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171 اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔ 5۔ مِن دُونِ اللّهِِ کا درست اِطلاق ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’اللہ کے سوا‘‘ مگر ہر جگہ سیاق و سباق کے حوالے سے اس کے دائرہ اطلاق اور مراد کو متعین کیا جانا ضروری ہے۔ جب ہم توحید اور شرک کے باب میں غیر کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد لغوی معنی میں غیر ہو گا۔ اس میں ذاتِ باری تعالیٰ، اس کی صفات و افعال اور اسماء کے علاوہ باقی ہر چیز مخلوق ہے اور وہی ما سِوَ اﷲ کہلاتی ہے۔ ذیل میں ہم ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا اطلاق آیاتِ قرآنی کی روشنی میں قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل تین معانی میں استعمال ہوا ہے : (1) معبودانِ باطلہ مِن دُونِ اللَّهِ ہیں قرآن مجید میں اکثر و بیشتر مقامات پر کفار و مشرکین کے مزعومہ معبودانِ باطلہ (اصنام، اوثان اور طواغیت) کو ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ درجِ ذیل آیات سے واضح ہوتا ہے : 1. وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ. ’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔ پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔‘‘ الانعام، 6 : 108 2. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَO ’’اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ الاعراف، 7 : 197 اس طرح دیگر بیسیوں آیات میں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مشرکین اور ان کے معبودانِ باطلہ کی مذمت کی ہے، بتوں کی عبادت پر ان کی زجر و توبیخ کی گئی ہے۔ ان آیات کے الفاظ ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ میں انبیاء و اولیاء اور ملائکہ و مقربین قطعاً اور یقیناً شامل نہیں ہیں۔ (2) غیراللہ کو مستحقِ عبادت سمجھنا ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے ذیل میں شمار ہوگا یہ اصول ذہن نشین رہے کہ قرآن حکیم کی جن آیات میں عبادت و اُلوہیت اور پوجنے کا ذکر ہو وہاں انبیاء و اولیاء اور ملائکہ و مقربین ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ عبادت فقط اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے اور استحقاقِ عبادت کے لئے ما سِوَ اﷲ ہر شئے غیر ہے۔ لہٰذا یہ مِن دُونِ اللّهِ ِ کا دوسرا اطلاق ہے جو عبادت و الوہیت سے مشروط ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اسی باطل طرزِ عمل کو قرآن میں بیان کیا : اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَO ’’انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ التوبة، 9 : 31 (3) مظاہرِ فطرت کو معبود جاننا ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے ذیل میں شمار ہو گا قرآن مجید میں کئی مقامات پر ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ سورج، ستاروں، جنات اور شیاطین کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اقوام سابقہ میں مظاہرِ فطرت کی پرستش کا رواج عام تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے ان معبودانِ باطلہ کو ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کہا ہے : وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا يسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اﷲِ. ’’میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے۔‘‘ النمل، 27 : 24 6۔ معبودانِ باطلہ ولی اور نصیر نہیں جبکہ صالحین ولی ہوتے ہیں کفار اور مشرکین بتوں کو اپنا ولی اور نصیر گردانتے اور ان کو مشکل کشا تصور کرتے ہوئے ان سے مرادیں مانگتے تھے۔ وہ ان کے نام کی نذر بھی مانتے تھے جبکہ حقیقی مددگار کو کلیۃً بھول گئے تھے اس لئے قرآن مجید نے ان کے اس عقیدے کو رد فرمایا اور واضح کر دیا کہ حقیقی ولی اور نصیر فقط اللہ تعالیٰ ہے۔ تمہارے یہ بت اور جھوٹے خدا قیامت کے روز تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ یہ تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے اس لئے ان کو چھوڑ کر فقط اللہ ہی کو اپنا ولی اور نصیر سمجھو۔ اس پر درج ذیل آیاتِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے : 1. أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍO ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے، اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگار۔‘‘ البقرة، 2 : 107 2. لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلاَ أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاO ’’(اللہ کا وعدہء مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اورنہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔‘‘ النساء، 4 : 123 3. أُولَـئِكَ لَمْ يَكُونُواْ مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُواْ يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُواْ يُبْصِرُونَO ’’یہ لوگ (اﷲ کو) زمین میں عاجز کر سکنے والے نہیں اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار ہیں۔ ان کے لئے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا (کیونکہ) نہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ (حق کو) دیکھ ہی سکتے تھے۔‘‘ هود، 11 : 20 4. وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًاO ’’اور اﷲ جسے ہدایت فرما دے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ان کے لئے اس کے سوا مدد گار نہیں پائیں گے، اور ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب بھی وہ بجھنے لگے گی ہم انہیں (عذاب دینے کے لئے) اور زیادہ بھڑکا دیں گے۔‘‘ الاسراء، 17 : 97 5. وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًاO ’’اور اس کے لئے کوئی گروہ (بھی) ایسا نہ تھا جو اﷲ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود (ہی اس تباہی کا) بدلہ لینے کے قابل تھا۔‘‘ الکهف، 18 : 43 6. أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي المَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO ’’کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اولیاء بنا لیا ہے، پس اللہ ہی ولی ہے (اسی کے دوست ہی اولیاء ہیں) اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔‘‘ الشوري، 42 : 9 7. إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَO ’’بیشک یہ لوگ اللہ کی جانب سے (اسلام کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کے وقت میں وعدوں کے باوجود) ہرگز آپ کے کام نہیں آئیں گے، اور بیشک ظالم لوگ (دنیا میں) ایک دوسرے کے ہی دوست اور مددگار ہوا کرتے ہیں، اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست اور مددگار ہے۔‘‘ الجاثية، 45 : 19 یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض لوگ مِن دُونِ اللَّهِ پر قیاس کرتے ہوئے (معاذ اﷲ) انبیاء و اولیاء اور صلحاء و متقین کو کافروں اور مشرکوں کی صف میں ہی شمار کرتے ہیں اور ان کے بھی ولی اور نصیر ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ان آیات کو پیش کرتے ہیں جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئیں حالانکہ درحقیقت یہ وہ آیات ہیں جن میں بتوں کے ولی اور نصیر ہونے کی نفی کی گئی ہے لہٰذا ایسی آیات کو دلیل بنا کر انبیاء و مؤمنین کا ایک دوسرے کے لئے ولی اور نصیر ہونے کی نفی کرناخلافِ شریعت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن آیات میں ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں وہاں اس سے مراد بت، اوثان، اصنام اور طواغیت وغیرہ ہیں جو کہ بالکل بے بس و بے اختیار ہیں، وہ کسی چیز کے بھی مالک نہیں، جبکہ انبیاء و اولیاء ان آیات کے تحت ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے زمرے میں شامل ہی نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء و اولیاء کو اذن و اختیار عطا فرمایا ہے پس انہیں ولی اور نصیر ماننا شرک نہیں۔ قرآنی آیات سے مؤمنین کا ایک دوسرے کے لئے ولی و نصیر ہونا صراحتہً ثابت ہے۔ ان سب کی ولایت اور مدد من جانب اللہ ہوتی ہے جبکہ بتوں کے لئے ولایت من جانب اللہ کا کوئی تصور نہیں۔ اس لئے ’’مِن دُونِ اللَّه‘‘ کے حکم کا اطلاق صرف بتوں پر ہوتا ہے اور ان کو ولی اور نصیر ماننا صریحاً شرک اور ظلم ہے۔ 7۔ انبیاء و اولیاء اﷲ کے مقابلے میں ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کی بے وقعتی پر مشتمل آیاتِ قرآنی کا تقابلی مطالعہ آئندہ صفحات میں موضوع سے متعلق آیاتِ مبارکہ کو مختلف موضوعات کے تحت آمنے سامنے درج کیا جا رہا ہے۔ آیاتِ قرآنیہ کے اس تقابلی مطالعے سے موضوعات متذکرہ کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اور غلط اطلاقات کی حقیقت بھی کھل سکے گی۔ 1. اللہ تعاليٰ نے خود انبیاء و اولیاء کو ولی اور نصیر بنایا 1. إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَO ’’بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔‘‘ المائدة، 5 : 55 2. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَـئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ. ’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔‘‘ الانفال، 8 : 72 3. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO ’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ التوبة، 9 : 71 4. إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO ’’اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘ التحريم، 66 : 4 2. انبیاء و اولیاء کو شفاعت کا اِذن حاصل ہوگا 1. مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ. ’’کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے‘‘ البقرة، 2 : 255 2. مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَO ’’ (اس کے حضور) اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں، یہی (عظمت و قدرت والا) اللہ تمہارا رب ہے، سو تم اسی کی عبادت کرو، پس کیا تم (قبولِ نصیحت کے لئے) غور نہیں کرتے؟‘‘ يونس، 10 : 3 3. لاَ يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًاO ’’ (اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے (خدائے) رحمٰن سے وعدہِء (شفاعت) لے لیا ہے۔‘‘ مريم، 19 : 87 4. يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًاO ’’اس دن سفارش سود مند نہ ہوگی سوائے اس شخص (کی سفارش) کے جسے (خدائے) رحمٰن نے اذن (و اجازت) دے دی ہے اور جس کی بات سے وہ راضی ہوگیا ہے (جیسا کہ انبیاء و مرسلین، اولیاء، متقین، معصوم بچوں اور دیگر کئی بندوں کا شفاعت کرنا ثابت ہے) ۔‘‘ طه، 20 : 109 5. يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَO ’’وہ (اﷲ ) ان چیزوں کو جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اس کے حضور) سفارش بھی نہیں کرتے مگر اس کے لئے (کرتے ہیں) جس سے وہ خوش ہوگیا ہو اور وہ اس کی ہیبت و جلال سے خائف رہتے ہیں۔‘‘ الانبياء، 21 : 28 3. انبیاء و اولیاء اللہ تعاليٰ کے معزز مہمان ہوں گے انبیاء و رسل اور مؤمنین خدا کی بارگاہ میں صاحبانِ عزت، باحیثیت اور اعليٰ جنتوں میں مہمان ہوگے نہ کہ بے عزت و ذلیل اور بے حیثیت. ارشادِ باری تعاليٰ ہے : 1. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍO ’’بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے۔‘‘ الحجر، 15 : 45 2. وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْاْ مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ خَيْرًا لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَO جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآؤُونَ كَذَلِكَ يَجْزِي اللّهُ الْمُتَّقِينَO ’’اور پرہیزگار لوگوں سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ وہ کہتے ہیں : (دنیا و آخرت کی) بھلائی (اتاری ہے) ، ان لوگوں کے لئے جو نیکی کرتے رہے اس دنیا میں (بھی) بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی بہتر ہے، اور پرہیزگاروں کا گھر کیا ہی خوب ہےo سدا بہار باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اِن میں اُن کے لئے جو کچھ وہ چاہیں گے (میسّر) ہوگا، اس طرح اللہ پرہیزگاروں کو صلہ عطا فرماتا ہےo‘‘ النحل، 16 : 30 - 31 3. يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًاO ’’جس دن ہم پرہیزگاروں کو جمع کرکے (خدائے) رحمٰن کے حضور (معزز مہمانوں کی طرح) سواریوں پر لے جائیں گے۔‘‘ مريم، 19 : 85 4. وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَO ’’اور (اس دن) جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی۔‘‘ الشعراء، 26 : 90 5. فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَO ’’پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو وہ باغاتِ جنت میں خوشحال و مسرور کر دیئے جائیں گے۔‘‘ الروم، 30 : 15 6. هَذَا ذِكْرٌ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍO جَنَّاتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْأَبْوَابُO مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍO وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌO هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِO إِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍO ’’یہ (وہ) ذکر ہے (جس کا بیان اس سورت کی پہلی آیت میں ہے) ، اور بیشک پرہیزگاروں کے لئے عمدہ ٹھکانا ہےo (جو) دائمی اِقامت کے لئے باغاتِ عدن ہیں جن کے دروازے اُن کے لئے کھلے ہوں گےo وہ اس میں (مسندوں پر) تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اس میں (وقفے وقفے سے) بہت سے عمدہ پھل اور میوے اور (لذیذ) شربت طلب کرتے رہیں گےo اور اُن کے پاس نیچی نگاہوں والی (باحیا) ہم عمر (حوریں) ہوں گیo یہ وہ نعمتیں ہیں جن کا روزِ حساب کے لئے تم سے وعدہ کیا جاتا ہےo بیشک یہ ہماری بخشش ہے اسے کبھی بھی ختم نہیں ہوناo‘‘ ص، 38 : 49 - 54 7. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍO ’’بیشک پرہیزگار لوگ اَمن والے مقام میں ہوں گے۔‘‘ الدخان، 44 : 51 8. إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍO ’’بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گے۔‘‘ الذاريات، 51 : 15 4. انبیاء و اولیاء تر و تازہ چہروں کے ساتھ ہوں گے 1. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌO إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌO ’’بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تر و تازہ ہوں گےo اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال ) کو تک رہے ہوں گےo‘‘ القيامة، 75 : 22 - 23 2. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌO ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌO ’’اسی دن بہت سے چہرے (ایسے بھی ہوں گے جو نور سے) چمک رہے ہوں گےo (وہ) مسکراتے ہنستے (اور) خوشیاں مناتے ہوں گےo‘‘ عبس، 80 : 38 - 39 3. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌO لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌO فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍO لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةًO فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌO فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌO وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌO وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌO وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌO ’’اس دن بہت سے چہرے (حسین) بارونق اور ترو تازہ ہوں گےo اپنی (نیک) کاوشوں کے باعث خوش و خرم ہوں گےo عالی شان جنت میں (قیام پذیر) ہوں گےo اس میں کوئی لغوبات نہ سنیں گے (جیسے اہلِ باطل ان سے دنیا میں کیا کرتے تھے)o اس میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گےo اس میں اونچے (بچھے ہوئے) تخت ہوں گےo اور جام (بڑے قرینے سے) رکھے ہوئے ہوں گےo اور غالیچے اور گاؤ تکیے قطار در قطار لگے ہوں گےo اور نرم و نفیس قالین اور مسندیں بچھی ہوں گیo‘‘ الغاشية، 88 : 8 - 16 5. مؤمنین متقین ایک دوسرے کے دوست ہوں گے 1. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO ’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ التوبة، 9 : 71 2. الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَO ’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی) ۔‘‘ الزخرف، 43 : 67 معبودانِ باطلہ بے بس و بے اختیار ہیں 1. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَO ’’اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ الاعراف، 7 : 197 2. قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْO ’’ (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا : پھر کیا تم اﷲ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘‘ الأنبياء، 21 : 66 3. وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًاO ’’اور ان (مشرکین) نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے لئے کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ وہ موت کے مالک ہیں اور نہ حیات کے اور نہ (ہی مرنے کے بعد) اٹھا کر جمع کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں) ۔‘‘ الفرقان، 25 : 3 4. مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَO ’’ایسے (کافر) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں (یعنی بتوں) کو کارساز بنالیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے (اپنے لئے جالے کا) گھر بنایا اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ بات) جانتے ہوتے۔‘‘ العنکبوت، 29 : 41 من دون اﷲ کو شفاعت کا اِذن نہیں ہوگا 1. وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللّهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ. ’’اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کئے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کردی جائے (پھر) اس کے لئے اﷲ کے سوانہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی۔‘‘ الانعام، 6 : 70 2. فَمَا لَنَا مِن شَافِعِينَO وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍO فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO ’’سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہےo اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہےo سو کاش ہمیں ایک بار (دنیا میں) پلٹنا (نصیب) ہو جاتا تو ہم مومن ہوجاتےo‘‘ الشعراء، 26 : 100 - 102 3. وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَO ’’اور ان کے (خود ساختہ) شریکوںمیں سے ان کے لئے سفارشی نہیں ہوں گے اور وہ (بالآخر) اپنے شریکوں کے (ہی) مُنکِر ہو جائیں گے۔‘‘ الروم، 30 : 13 4. أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَن بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلاَ يُنقِذُونِO ’’کیا میں اس (اللہ) کو چھوڑ کر ایسے معبود بنا لوں کہ اگر خدائے رحمان مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ مجھے اُن کی سفارش کچھ نفع پہنچا سکے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکیں۔‘‘ يس، 36 : 23 5. وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُO ’’اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبطِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے۔ ظالموں کے لئے نہ کوئی مہربان دوست ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔‘‘ المؤمن، 40 : 18 مِنْ دُوْنِ اﷲِ جہنم کا ایندھن ہوں گے مشرکین اور یہود و نصاريٰ قیامت کے دن بے یارومددگار ہوں گے اور ان کے جھوٹے معبود اور بت ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے ان میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت ہر عمل کی بری جزا ملے گی۔ 1. إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَO ’’بیشک تم اور وہ (بت) جن کی تم اﷲ کے سوا پرستش کرتے تھے (سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔‘‘ الانبياء، 21 : 98 2. وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًاO ’’اور اﷲ جسے ہدایت فرما دے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ان کے لئے اس کے سوا مدد گار نہیں پائیں گے، اور ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب بھی وہ بجھنے لگے گی ہم انہیں (عذاب دینے کے لئے) اور زیادہ بھڑکا دیں گے۔‘‘ الاسراء، 17 : 97 3. وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًاO ’’اور ہم مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانک کر لے جائیں گے۔‘‘ مريم، 19 : 86 4. فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَO وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَO ’’سو وہ (بت بھی) اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے اور گمراہ لوگ (بھی) o اور ابلیس کی ساری فوجیں (بھی واصل جہنم ہونگی) o‘‘ الشعراء، 26 : 94 - 95 5. اُحْشُرُوْا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَO مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِO ’’اُن (سب) لوگوں کو جمع کرو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کے ساتھیوں اور پیروکاروں کو (بھی) اور اُن (معبودانِ باطلہ) کو (بھی) جنہیں وہ پوجا کرتے تھےo اللہ کو چھوڑ کر، پھر ان سب کو دوزخ کی راہ پر لے چلوo‘‘ الصافات، 37 : 22 - 23 6. إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَO لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَO وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِن كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَO وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُم مَّاكِثُونَO ’’بیشک مُجرِم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo جو اُن سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں نا امید ہو کر پڑے رہیں گےo اور ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھےo اور وہ (داروغۂِ جہنّم کو) پکاریں گے : اے مالک! آپ کا رب ہمیں موت دے دے (تو اچھا ہے) . وہ کہے گا کہ (تم اب اسی حال میں ہی) ہمیشہ رہنے والے ہوo‘‘ الزخرف، 43 : 74 - 77 7. مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًاO ’’ (بالآخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب غرق کر دئیے گئے، پھر آگ میں ڈال دئیے گئے، سو وہ اپنے لئے اﷲ کے مقابل کسی کو مددگار نہ پا سکے۔‘‘ نوح، 71 : 25 مِنْ دُوْنِ اﷲِ سیاہ چہروں کے ساتھ ذلیل و خوار ہوں گے 1. وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌO تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌO ’’اور کتنے ہی چہرے اُس دن بگڑی ہوئی حالت میں (مایوس اور سیاہ) ہوں گےo یہ گمان کرتے ہوں گے کہ اُن کے ساتھ ایسی سختی کی جائے گی جو اُن کی کمر توڑ دے گیo‘‘ القيامة، 75 : 24، 25 2. وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌO تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌO أُوْلَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُO ’’اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر اس دن گرد پڑی ہوگیo (مزید) ان (چہروں) پر سیاہی چھائی ہوگیo یہی لوگ کافر (اور) فاجر (بدکردار) ہوں گےo‘‘ عبس، 80 : 40 - 42 3. وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌO عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌO تَصْلَى نَارًا حَامِيَةًO تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍO لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍO لاَّ يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍO ’’اس دن کتنے ہی چہرے ذلیل و خوار ہوں گےo (اﷲ کو بھول کر دنیاوی ) محنت کرنے والے ( چند روزہ عیش و آرام کی خاطر سخت) مشقتیںجھیلنے والےo دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo (انہیں) کھولتے ہوئے چشمہ سے (پانی) پلایا جائے گاo ان کے لئے خار دار خشک زہریلی جھاڑیوں کے سوا کچھ کھانا نہ ہو گاo (یہ کھانا) نہ فربہ کرے گا اور نہ بھوک ہی دور کرے گاo ‘‘ الغاشية، 88 : 2 - 7 مِنْ دُوْنِ اﷲِ اور ان کے پیروکاروں کے درمیان پھوٹ ہوگی 1. وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءَ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَO ’’اوربیشک تم (روزِ قیامت) ہمارے پاس اسی طرح تنہا آؤ گے جیسے ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ (تنہا) پیدا کیا تھا اور (اموال و اولاد میں سے) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آؤ گے، اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھیں گے جن کی نسبت تم (یہ) گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے (معاملات) میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک (آج) تمہارا باہمی تعلق (و اعتماد) منقطع ہوگیا اور وہ (سب) دعوے جو تم کیا کرتے تھے تم سے جاتے رہے۔‘‘ الانعام، 6 : 94 2. لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO ’’تمہیں قیامت کے دن ہر گز نہ تمہاری (کافر و مشرک) قرابتیں فائدہ دیں گی اور نہ تمہاری (کافر و مشرک) اولاد، (اُس دن اللہ) تمہارے درمیان مکمّل جدائی کردے گا (مؤمن جنت میں اور کافر دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے)، اور اللہ اُن کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے جو تم کر رہے ہو۔‘‘ الممتحنة، 60 : 3 اس ساری بحث اور تقابلی جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’مِن دُونِ اللَّهِِ‘‘ کے بیان کا اطلاق بلا امتیاز اللہ کے نیک بندوں پر نہیں کیا جا سکتا صرف وہ اس زمرے میں آتے ہیں جن کے باب میں نفیء شرک اور ہر غیر اللہ سے نفیء استحقاقِ عبادت مذکور ہو کیونکہ عبادت و الوہیت فقط اللہ تبارک و تعاليٰ کا خاصہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور اس شان کا مالک نہیں ہو سکتا لیکن وہ مقاماتِ قرآن جہاں نفیء شرک اور نفیء استحقاقِ عبادت کی بات نہ ہو رہی ہو بلکہ کفار و مشرکین اور ان کے مزعومہ معبودانِ باطلہ کی مذمت مقصود ہو وہاں مِن دُونِ اللَّهِ میں انبیائے کرام اور اولیاء و صلحاء اور مقربین شامل نہیں۔ فہمِ دین سے نابلد بعض لوگوں نے اپنے من گھڑت تصورِ توحید کے زعم میں ’’مِن دُونِ اللَّهِ‘‘ کو ایک مستقل اصطلاح بنا ڈالا اور جہاں بھی اس کا تذکرہ آیا سیاق و سباق سمجھے بغیر بعض کو اس میں داخل کیا اور بعض کو اس میں سے خارج کیا. اس نادانی کے نتیجہ کے باعث الزام لگانے والوں کی طرف سے بھی زیادتی ہوئی اور جواب دینے والوں کی طرف سے بھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’’مِن دُونِ اللَّهِ‘‘ کا سیاق و سباق دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس کا مذکورہ چیزوں سے تعلق ہی نہیں، یہ تو صرف ردِ شرک اور نفی استحقاقِ عبادت کے لئے آتا ہے۔ الغرض یہ امر شک و شبہ سے بالا ہے کہ انبیاء و اولیاء قربِ خداوندی کا اور اس کی بارگاہِ اقدس تک رسائی اور وصول کا واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ ان کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام واجب و لازم ہے جو کہ قلبی تقويٰ و طہارت اور ایمانِ خالص کی دلیل و برہان ہے لہٰذا یہ تسلیم کرنا ضُروری ہے کہ من دون اللہ اور ہیں اور انبیاء و رسل اور اولیاء اللہ اور ہیں۔ اللہ تعاليٰ کے تقرب اور توسط کے وسائل و ذرائع سے محرومی اور بُعد و دوری کا اوثان و اصنام کے سوا کسی اور پر اطلاق کرنا سراسر باطل ہے اور منصبِ نبوت و ولایت کی توہین و تحقیر ہے۔
کفر کے اقسام اور لزوم کفر و التزام کفر کی تعریف _________________________________ کُفر کی اَقسام اور تکفیر کے بارے میں سُوال جواب سُوال: کَلماتِ کُفر کی کتنی قسمیں ہیں؟ -------------------------- جواب: کَلِماتِ کُفرکی دوقسمیں ہیں (1)لُزُومِ کُفْر (2)اِلتِزامِ کفر۔ چُنانچِہ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: اقوالِ کُفریہ دو قسم کے ہیں (1) ایک وہ جس میں کسی معنئ صحیح کا بھی اِحتِمال (یعنی پہلو)ہو (2)دوسرے وہ کہ اس میں کوئی ایسے معنیٰ نہیں بنتے جو قائل کو کُفر سے بچاوے ۔ اِس میں اوّل کو لُزُومِ کُفْر کہا جاتا ہے اور قسم دُوُ م کواِلْتِزامِ کُفر۔ لُزُومِ کفرکی صورت میں بھی فُقَہائے کرام(رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام)نے حکمِ کُفر دیا مگر مُتَکَلِّمِین(1)(رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین)اِس سے سُکوت کرتے (یعنی خاموشی اختیار فرماتے )ہیں۔اور فرماتے ہیں جب تک اِلتِزام کی صُورت نہ ہو قائل کو کافِر کہنے سے سُکوت کیا جائیگا اور اَحوَط(یعنی زِیادہ محتاط)یِہی مذہبِ مُتَکَلِّمِین(رَحِمَہُمُ اللہ المُبین)ہے۔ واللہ اعلم. (فتاوٰی امجدیہ ج4 ص 512،513) ======================== (1)جو عُلمائے کرام علمِ کلام یعنی علمِ عقائد کے ماہِر ہوتے ہیں اور نقلی یعنی شرعی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل سے بھی عقائد کو ثابت کرتے ہیں انھیں مُتَکَلِّمِین کہا جاتا ہے۔ ======================== لُزُوم و اِلتِزام کی تفصیل ------------------ سُوال: لُزُومِ کُفْر اور التزام کُفر کی مزید تفصیل بیان کردیجئے ۔ --------------------------------------------- جواب: لُزُومِ کُفْر کی تعریف کا خُلاصہ یہ ہے کہ وہ بات عَینِ کُفْر نہیں مگر کُفْرتک پُہنچانے والی ہے اوراِلْتِزَام کُفْر یہ ہے کہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا صَراحَۃً (یعنی واضح طور پر)خِلاف کرے۔ چُنانچِہ ميرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجَدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرّحمٰن لُزُوم واِلْتِزَام کے مُتَعَلِّق فرماتے ہیں: سَیِّدُالْعٰلَمینَ مُحمَّدُ، رَّسولُ اللہ(عَزَّوَجَلَّ و)صلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہ وسلَّم جو کچھ اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ)کے پاس سے لائے ان سب میں ان کی تصدِیق کرنا اور سچےّ دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ایمان ہے اور مَعَاذاللہ (عَزَّوَجَلَّ)ان میں سے کسی بات کا جُھٹلانا اور اس میں ادنیٰ شک لانا کُفْر (ہے )۔ پھر یہ انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے ،دو طرح ہوتا ہے (1)لُزُومی (2)اِلْتِزَامی۔ اِلتِزَامی یہ کہ ضروریاتِ دین سے کسی شئے کا تَصرِیحاً (یعنی صاف صاف )خِلاف کرے یہ قَطْعاً اِجماعاً کُفر ہے اگرچِہ(خِلاف کرنے والا)نامِ کُفْر سے چِڑے اور کمالِ اسلام کا دعوٰی کرے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے طائِفہ تالِفَہ نَیا چَرہ(یعنی ہلاک وبرباد ہونے والے نَیچری فرقہ والوں) کا ، وُجُودِ مَلَک و جِنّ و شیطان و آسما ن و نارو جِنَان و مُعجِزاتِ انبیاء علیھم افضل الصلوٰۃُ والسلام سے اُن مَعانی پر کہ اہلِ اسلام کے نزدیک حُضُور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم سے مُتَوَاتِرہیں انکار کرنا اور اپنی تأوِیلاتِ باطِلَہ و تَوَہُّماتِ عاطِلہ (یعنی جھوٹی تاویلوں اور خالی وَہموں) کو لے مرنا۔نہ ہرگز ہرگز ان تاویلوں کے شَوشے انہیں کُفْرسے بچائیں گے ،نہ مَحَبَّتِ اسلام و ہمدرد ی کے جھوٹے دعوے کا م آئیں گے ۔۔۔۔۔ اور لُزُومی یہ کہ جو بات اس نے کہی عینِ کُفْرنہیں مگرمُنْجِربِکُفر (یعنی کُفْر کی طرف لے جانے والی ) ہوتی ہے، یعنی مَآلِ سُخَن ولازِمِ حُکْم کوترتیبِ مُقدَّمات و تَتْمِیم ِتَقریبات کرتے لے چلئے تو انجامِ کار اس سے کسی ضَرورئ دین کا انکار لازِم آئے۔ (فتاوٰی رضویہ ج 15 ص 431) اعلیٰ حضرت کے فتوے کا آسان لفظوں میں خلاصہ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سُوال:سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارَک فتوے کے بیان کردہ اقتِباس کاآسان لفظوں میں خلاصہ کر دیجئے۔ جواب:ميرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن اپنے مبارَک فتوے کے مذکورہ اقتِباس میں ایمان و کفر کی تعریف بیان کرنے کے بعد کفر کی دو اقسام لُزُوم و اِلتِزام(اِلْ۔تِ۔زام) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (1) اِلتِزامِ کفر یعنی ضَروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا بھی خِلاف کرنا۔چاہے وہ خلاف کرنے والا بظاہر اسلام کا کیسا ہی شیدائی بنتا ہو اور بے شک کفر کے نام سے چِڑتا ہو مگر اس پر حکمِ کفر ہے اور وہ اسلام سے خارج ہے۔ جیسا کہ نَیچری فرقہ والے جو کہ بظاہر اسلام اور ملّتِ اسلامیہ کی مَحَبتَّوں کا خوب دم بھرتے اور بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کومسلمانوں میں کَھپاتے ہیں مگرکئی ضَرور یا تِ دین کا خلاف کرتے ہیں مَثَلاً ملائکہ ، جِنّات ، شیطان، آسمان، جنّت ، دوزخ اور معجزات انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے وہ مَعانی جو کہ ہمارے مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بتواتُر ثابِت ہیں اور سبھی اہلِ اسلام کا جن پر اتِّفاق ہے ان کو تسلیم کرنے کے بجائے اُلٹی سیدھی تاویلوں کے ذریعے اپنے من گھڑت جُداگانہ معنیٰ بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا نَیچریوں کو ان کے محبّتِ اسلام کے دعوے ہرگز کفر سے نہیں بچا سکتے (2)لُزُومِ کُفر عینِ کُفر تو نہیں ہو تا مگر کفر تک لے جانے والا ہوتا ہے۔ یعنی کلام کا انجام اور حکم کا لازم کفرِ حقیقی ہے۔ مراد یہ کہ اگر مُقَدَّمات کو ترتیب دیا جائے اور تقریبات کو مکمل کرتے جائیں تو بالآخر کسی ضروری دینی کا انکار لازم آئے۔اس کی بَہُت سی صورتیں ہوتی ہیں ۔ ---------------------------------- اختِلافی کُفر کے بارے میں حُکم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سُوال: ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس کے ٭قول٭ کے کُفر ہونے نہ ہونے ميں آئمۂ دِین یعنی فُقہا اور مُتَکِلّمین کا اِختِلاف ہو۔ ------------------------------- جواب: ایسا شخص اگر چِہ اسلام سے خارِج نہیں ،تاہَم اس کیلئے توبہ وتجدیدِ ایمان و نکاح کا حکم ہے۔ چُنانچِہ ميرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: پھر جبکہ اَئِمهٔ دِین (یعنی فُقہا اور مُتَکِلّمین )ان کے کفر میں مُختَلف ہوگئے تو راہ یہ ہے کہ اگر اپنا بھلا چاہیں جلد اَز سرِنَو کلمۂ اسلام پڑھیں ۔ چندسُطُور بعد مزید فرماتے ہیں: اس کے بعد اپنی عورَتوں سے تجدیدِ نکاح کریں کہ کفرِخِلافی(یعنی جس قول یا فعل کے کُفر ہونے میں فُقہا اور مُتَکِلّمین کا اِختِلاف ہو اُس) کا حُکم یِہی ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ ج 15ص 445 ، 446) ======================== کُفرِ لُزُومی میں اَعمال برباد ہو جاتے ہیں یا نہیں؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سُوال: جس کے کسی قول یا فعل کے کفر ہونے میں اَئمّہ دین یعنی فُقہا اور مُتَکِلّمین کا اِختِلاف ہو، کیا اُس کے بھی تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں؟ --------------------------------- جواب:نہیں۔ کیوں کہ یہ کُفرِلُزُومی ہے اور ایسا شخص اسلام سے خارِج نہیں ہوتا ، اِس کا نکاح بھی نہیں ٹوٹتا اس کی بیعت بھی برقرار رہتی ہے اور اس کے سابِقہ اعمال بھی برباد نہیں ہوتے۔ البتّہ اس کیلئے تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح کا حُکم ہے۔ چُنانچِہ ميرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن نقل کرتے ہیں:علامہ حسن بن عَمّار شُرُنبُلا لی(علیہ رحمۃُ اللہِ الوالی)شَرحِ وَھبانِیہ میں پھرعلامہ عَلائی (علیہ رحمۃُ اللہِ الباقی)شَرحِ تَنویر میں فرماتے ہیں: جومُتَّفِقہ کفر ہو وہ اَعمالِ صالِحَہ اور نکاح کو باطِل کر دیتا ہے اور اسکی اولاد اولادِ زِنا ہوگی۔ اور جس(قول یا فِعل کے کفر ہونے) میں خِلاف (یعنی اِختِلاف)ہو تو اسے اِستِغفار ، توبہ ا و ر تجدیدِ (ایمان و) ِکاح کا حکْم دیا جائے گا ۔ (فتاوٰی رضویہ ج 15 ص446) =================== کیاقَطْعی کُفر میں بھی اِختِلاف ہو سکتا ہے؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سُوال: اگر کُفْرقَطْعی ہو (مَثَلاً قادِیانی کا کُفْر)اور کوئی مفتی اس میں اختِلاف کرے تو کیا حکْم ہے؟ ----------------------------------- جواب: وہ مفتی ہی نہیں جوقَطْعی کُفْر میں اختِلاف کرے بلکہ عوام کے ساتھ ساتھ ایسے مفتی کا حکم بھی فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلام کے نزدیک یہ ہے: مَنْ شکَّ فِیْ عَذَابِہٖ وَ کُفْرِہٖ فَقَدْ کَفَرَ۔ یعنی جو اُس(قَطْعی کفر بکنے والے کافِر)کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ خود کافِر ہے۔ (دُرِّمُختار ج6 ص356)
کفاّر کی قسمیں اور سب سے بدترین کافر کون؟ _________________________________ Insaan ki do,2 kisme hai musalman aur kafir Allah ta'ala Har qisam ke kufar o kuffar se bachaye kafir do qisam hai, Asli aur murtad, Asli Asli wo jo shuru se hi kafir aur qalma e islam ka munkir hai, Ye do qisam hai, muzahir o munafiq, muzahir Wo jo alal ailaan qalma ka munkir ho Aur munafiq wo ke ba Zahir qalma padhta aur dil me munkir ho, ye qisam huqam e Aakhirat me sab aksaam se badtar hai, Quran Kareem_ اِنَّ المنفقین فی الدَّرکِ الاسفل Be Shaq munafiqeen sab se niche tabqa e dozakh me hai Kafir muzahir Chaar, 4 qisam hai, 1,Dehariya, ke khuda hi ka munkir hai, 2, mushriq Allah ta'ala ke siwa aur ko bhi mabood aur wajib ul wajood janta hai, jaise Hindu but parast ke buto ko wajib ul wajood to nahi Magar mabood mante hai, aur Aarya ye khud but parast ke rooh o Mada ko mabood to nahi Magar qadeem o gair makhlooq jante hai, dono mushriq hai Aur Aaryo ko mohid samajhna sakhat batil, 3_ majoosi Aatish parast_ 4_ kitaabi yahood o nasara ke Dehariye na ho, IN me(yahood o nasara) Pehle teen,3 kisam ki Pehli ki jabiha murdaar aur in ki aurto se niqah batil Aur qisam Chaar ki aurat se niqah ho Jaega agar Che mamnu o gunah ho, Kafir murtad ke qalma go ho Kar kufar kare, is ki bhi do, 2 qisme hai, muzahir o munafiq, murtad muzahir Wo ke Pehle musalman tha phi ailaniya islam se phir gaya qalma e islam ka munkir ho gya chahe Dehariya ho Jae ya mushriq ya majusi kitaabi Kuchh bhi ho, Murtad munafiq, wo ke qalma e islam Ab bhi padhta hai, apne Aap ko musalman hi kehta hai aur phir Allah ta'ala ya rasool Allah sallallaho ta'ala alaihi wasallam ya kisi Nabi ki tauheen karta hai ya jarooryat deen me se kisi shy ka munkir hai, Jaise Aaj Kal ke wahabi, rafzi, qadiyaani, nechri, chakdalwi, jhoonte sufi ke shariyat par hanste hai Huqam Duniya me (murtad munafiq) sab se badter murtad hai, is se jaziya nahi Liya Ja sakta is ka niqah kisi muslim, kafir, murtad is ke ham mazhab ho ya mukhalif mazhab, Garz insaan haiwaan kisi se nahi ho sakta jis se hoga mehaz Zina hoga, murtad mard ho ya aurat Murtado me sab se badtar murtad munafiq hai, yahi hai wo ke is ki sohbat hazar, 1000,kafir ki sohbat se zyada nuksaan dene wali hai ye musalman ban Kar kufar sikhata hai, khususan wahabiya, deobandiya ke apne Aap ko khaas ahle sunnat wa jamat kehte, hanfi bante, Chishti, Naqshbandi bante, namaz Roza hamara sa karte, hamari kitaabe padhte padhate aur Allah o rasool ko galiya dete hai, Ye sab se badter zehar qatil hai, Hoshiyaar, khabardaar, musalmano! Apna deen o Imaan bachaye hue, فالللہ خیر حافظا وھو الرحم الراحمین_والللہ تعالٰی اعلم 📑 احکام شریعت، ص ١٣١،١٣٢ ناشر مکتبہ، جام نور، دہلی سال طباعت، ١٩٩٤ء Aur musalman ki bhi do,2 qisame hai, Sahi musalman aur gumraah, Sahi musalman wo hai jo jarooryate deen ko tasleem karne ke saath tamam jarooryate ahle sunnat ko bhi manta ho, Aur gumraah musalman wo badmazhab hai jo jarooryate ahle sunnat me se kisi baat ka inkaar karta ho Magar is ki badmazhabi had e kufar ko na pahunchi ho 📒 badmazhabo se rishte, W, faqih e millat mufti jalaluddin Ahmad Amjadi alaihi rehma Page, 6 Nashir: Amjadi manzil aujha ganj, District, basti, u.p
शनिवार, 27 मई 2017
کیا اہلسنت و جماعت(بریلوی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان و عظمت میں غلو کر کے حضور کو اللہ تعالٰی سے ملا دیتے ہیں؟ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح و ستائش کرنا ناجائز ہے؟ حدیث۔لاترونی کما اطرت النصاریٰ عیسٰی بن مریم،، کی تشریح و توضیح _______________________________________________ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے_ لاترونی کما اطرت النصاریٰ عیسٰی بن مریم،، نصرانیوں نے عیسٰی بن مریم کی جس طرح بےجا تعریف کی ویسی میری تعریف نی کرنا اس حدیث سے کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مدح وستائس کرنا ہی بیجا اور غلو مذموم ہے جس سے شرک تک بات جاپہنچتی ہے_( وہابی دیوبندی حضرات کے مذہب میں حضور ﷺ کی تعریف بشر کی سی کی جائے بلکہ اس میں بھی اختصار کیا جائے۔ تقویۃ الایمان کے ص ۶۳ پر لکھا ہے ’’یعنی کسی بزرگ کی تعریف میں زبان سنبھال کر بولو اور جو بشر کی سی تعریف ہو وہی کرو۔ سو اس میں اختصار ہی کرو۔) اور ایسے لوگ یہ بھی سمجھ بیٹھے کہ عامئہ بشر ہے آپ کو ممتاز کرنے والی تعریف اور آپ کی مدح وستائس و نعت و وصف بیان کرنے والا شخص سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سنت کا مخالف اور دین میں بدعت رائج کرنے کا مرتکب ہے_ اس سوء فہم سے ان لوگوں کی قوتِ نظر کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے جس چیز کی ممانعت فرمائ ہے وہ یہاں ہے کہ جس طرح نصارٰی نے عیسٰی بن مریم کو اللہ کا بیٹا کہا، ایسی کوئی بیجا وبے بنیاد میری تعریف نہ کہی جائے_ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ بھی نصرانیوں جیسا ہی ہوجائے گا_ اور آپ کو افضل نوع بشر اللہ کا مقرب ترین بندہ اور معظم ترین رسول قرار دیتے ہوئے وصف و مدح کرنا حق ہے کیونکہ آپ سارے انسانوں میں سب سے کامل توحید والے ہیں اور اس تعریف میں نہ کہیں سے عقیدہ نصارٰی جھلکتا ہے نہ ہی آپ کی ذات حقیقت بشریت سے خارج ہوتی ہے_ 📒 مفاہیم یجب ان تصصح، صفحہ ٢٧٠) پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ ناممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہو کر معرفت کے گوہر حاصل کرتا ہے، پیغمبر اسلام کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن ان کی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔ رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا قرآن پاک نے جس خوبصورت اسلوب میں اور بار بار مقام رسالت کو بیان کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسالت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور قرآن اس حسین اسلوب بیان سے صادق و عاشق اور وفا شعار امت کے دل میں ’’عشق رسول‘‘ پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے کسی سچے اور پکے امتی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد فارغ بیٹھ جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ اب اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اسے نجات کا پروانہ مل گیا ہے اور اب وہ آزاد ہے جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ یہ خیال غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہ معتبر ہے جو امتی کو اپنے نبی کا عاشق و طالب بنا دے اور وہ اپنے نبی کے لئے پروانے کا روپ دھار لے کہ اس کی دید اور یاد کے بغیر اسے قرار ہی نہ آئے، اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے اور ہر کام کے دوران تصورِ جاناں ہی میں مستغرق رہے۔ اس لئے نبی پر ایمان لانے کے کچھ تقاضے ہیں، امتی کے لئے جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ آداب و تقاضے یہ ہیں۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل و جان سے تعظیم کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثل جاننا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کمالات و مراتب عطا فرمائے ہیں، انہیں تسلیم کرے اور ان کے تذکرے سے خوش ہو، جہاں فضائل و معجزات کی تفصیل سنے اس کا دل کنول کی طرح کھل اٹھے۔ دل کی گہرائیوں سے نبی کی تعظیم کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان کی تعظیم و تکریم کو اپنا شعار بنائے۔ تعظیم رسالت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے قرآن پاک نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسے ایسے ایمان افروز اسلوب میں بیان کیا ہے جس سے حسین تر اور معنی خیز اسلوب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی فطرت بھی عجیب ہے، وہ طبعی طور پر علم و حکمت کا رسیا اور فضل و کمال کا قدر دان ہے۔ اسے کسی شخصیت کی خصوصیات اور اس کی ذات میں پائے جانے والے غیر معمولی اور انمول کمالات کا پتہ چل جائے تو وہ بن دیکھے ہی اس پر دل و جاں سے فدا ہو جاتا ہے اور اسی کے تصور میں گم رہنے لگ جاتا ہے اور ہر حال و مجلس میں اس کے ذکر کے سوا اسے کچھ نہیں سوجھتا۔ اسی اصول کے مطابق، قرآن پاک نے اہل ایمان کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عقیدت پیدا کرنے کے لئے سورۃ الفتح کی آیت میں پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچھ اعلیٰ ترین اور یگانہ و یکتا شانیں بیان کی ہیں کہ وہ گواہ اور شاہد ہیں اور بشیر و نذیر بھی، تاکہ امتی اس حقیقت سے آگاہ ہوکر کہ اس کے رسول بڑے ہی مہربان اور شفیق ہیں جو قیامت کے دن اپنی گناہگار امت کے حق میں گواہی دیں گے اور کسی بھی مرحلہ پر اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ اس حوالے سے ان کی ذات نہایت ہی قابل قدر، عظیم و جلیل اور محبت کے لائق ہے اس لئے مومنوں کا حق ہے کہ وہ بھی ان سے ٹوٹ کر پیار کریں اور ان کی عقیدت کو دل میں جگہ دیں چنانچہ ارشاد فرمایا: إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ. (الفتح، 48 : 8، 9) ’’اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت و بشارت اور انذار کے منصب پر فائز کرکے بھیجا ہے، (اے لوگو! یہ اس لئے ہے) تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم و توقیر کرو‘‘۔ قرآن پاک نے دوسری جگہ ٹوٹ کر پیار کرنے اور تعظیم و توقیر کا یہی عمل اختیارکرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo (الْأَعْرَاف ، 7 : 157) ’’پس جو لوگ ایمان لائے اور ان کی خوب تعظیم اور مدد کی اور جو نور ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، اس کی پیروی کی تو یہی لوگ مسرت و کامیابی حاصل کرنے والے ہونگے‘‘۔ دونوں آیات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کا حکم دینے کے لئے لفظ ’’تعزیر‘‘ لایا گیا ہے جو اپنی جگہ بڑا معنی خیز ہے۔ یہ لفظ عام قسم کی تعظیم و تکریم کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ تعظیم کی اس حالت پر بولا جاتا ہے جو تعظیم کی انتہائی حدوں کو چھولے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک وہ بے مثل ذات ہے کہ عام انسانوں کے لئے تو تعظیم میں مبالغہ آ سکتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک وہ بے مثل ذات ہے جہاں مبالغہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے قرآن پاک نے یہ لفظ ذکر کیا ہے تاکہ اہل ایمان تعظیم کے لئے جو بھی عمل اور انداز اختیار کرنا چاہیں وہ بلا تکلف اختیار کرلیں اور اپنے پاک نبی کی صفت وثناء بیان کریں، چاہے ان کا بیان کتنا ہی پر شکوہ اور حسنِ عقیدت سے لبریز ہو اور ان کا نیاز مندانہ انداز، خواہ کتنی ہی عاجزی لئے ہوئے ہو پھر بھی اس میں مبالغہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اتنی ارفع و اعلیٰ ہے اور رب کریم نے ان کو اتنی عظمتیں عطا فرمائی ہیں کہ امتی جو خوبی اور شان بھی بیان کرے گا وہ ان کی ذات اقدس میں موجود ہوگی۔ حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضاء داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری محمد سر بسر حمدِ خدا ہیں محمد جانِ ہر حمد و ثناء ہیں محمد ہیں، محمد ہی محمد ) محمدِ مصطفیٰ ہی مصطفیٰ ) ہیں اس حقیقت ثابتہ اور نورانی ضابطہ کے مطابق امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے قصیدہ بردہ شریف میں ارشاد فرمایا: دَعْ مَا اَدَّعَتْهُ النَّصَارٰی فِی نَبِيِّهِم وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِيْهِ وَاحْتَکِم ’’نصاری نے اپنے نبی کو خدا کا بیٹا کہا تھا تم یہ مت کہو اس کے علاوہ جس طرح چاہو، ان کی شان بیان کرو (سب کچھ بیان واقعہ ہوگا، مبالغہ نہیں ہوگا)‘‘۔ نبی کو خدا کا بیٹا کہنا بے شک مبالغہ اور خلاف واقعہ بات ہے، کفر ہے، اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی. جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مبالغہ کیا تھا، تم اس سے باز رہو اور میری اس قسم کی تعریف نہ کرو کیونکہ یہ تعریف نہیں، کذب بیانی ہے، خلاف واقعہ، غلط اور جھوٹی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے، کوئی نبی اس کا بیٹا نہیں ہوسکتا، اس لئے جو بھی کسی کو اس کا بیٹا کہے گا وہ جھوٹ بولے گا اور مبالغہ کی حدوں سے بھی آگے بڑھ جائے گا، اس لئے یہ غلط بات کہنے اور اس انداز سے تعریف کرنے کی اجازت نہیں، باقی ہر قسم کی تعریف و ستائش، مدح ونعت اور صفت و ثناء کی اجازت ہے۔ اس حدیث کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعریف سے منع فرمایا ہے، اس لئے کسی قسم کی مدح و ستائش جائز نہیں اور وہ مبالغہ کی تعریف میں آ جاتی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ اس حدیث پاک میں خدا کا بیٹا کہہ کر مدح کرنے کی ممانعت ہے، باقی رہے وہ اوصاف جو آپ کی ذات اقدس میں حقیقتاً پائے جاتے ہیں ان کے بیان کی ممانعت نہیں بلکہ ان کا ذکر ضروری اور موجب خیرو برکت ہے, حضرت حسان رضی اللہ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دعا دیا کرتے تھے۔ اَللّٰهمَّ اَيّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُس. ’’اے اللہ! جبریل امین کو حسان کی تائید و تقویت کے لئے مامور فرما‘‘۔ اس لئے ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ حکم قرآن کے مطابق دل کھول کر آپ کی تعظیم کی جائے اور مدح و نعت اور درود و سلام کے مہکتے پھول بطور نذرانہ عقیدت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے حضور بصد ادب و احترام پیش کئے جائیں۔ اپنے نبی مقرب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مدح و تعریف میں خود خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے_ وَاِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیم اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے_ آپ کے ساتھ آدابِ گفتگو کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد باری تعالٰی ہے_ یایھا الذین امنو الاتر فعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولاتجھرو الہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون_(الحجرات) اے ایمان والو! نبی کی آواز پر اپنی آواز اونچی نہ کرو، اور ان کے حضور اس طرح بلند آواز سے بات نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں تمہارے عمل ضائع نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو_ اور ارشاد باری تعالٰی ہے_ لاتجعلوا ادعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً،(نور) رسول کو تم اس طرح نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو_ پکانے اور گفتگو کرنے میں ادب نہ ملحوظ رکھنے کی مذمت میں ارشاد باری تعالٰی ہے_ انَّ الذین ینادؤ نکَ من وَّراء الحجرات الکثرھم لایعقلون،(حجرات) بے شک تمہیں حجروں کے باہر سے پکارنے والوں میں اکثر لوگ بےعقل ہیں_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے سامنے آپ کی موجودگی میں آپ کی نعتیں پیش کیا کرتے تھے، آپ کی تعریف و توصیف کیا کرتے تھے_ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسول میں عرض کرتے ہیں_ اللہ کی طرف سے مشہود اور منور مہر نبوت آپ پر تابندہ اور آپ کی شاہد ہے_ اللہ تعالٰی نے نام نبی کو اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے کہ پنجوقتہ اذان میں مؤذن شہادت توحید کے ساتھ شہادت رسالت بھی دیتا ہے_ وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد، اللہ نے آپ کے اجلال و اکرام کے لئے اپنے نام کو مشتق کیا ہے_ تو مالک عرش بریں کا نام محمود اور زینت فرش زمین کا نام محمد ہے (اور دونوں کا مادہ اشتقاق حمد ہے) قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت انتہائی خوبصورت انداز میں واضح فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے۔لیکن وہابی دیوبندی وغیرہ باطل فرقہ ان لوگوں پر جو تعلیماتِ صحابہ کرام، اہلبیت اطہار و آئمہ اسلام سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو محبت و ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، محبت و عقیدت اولیائے کرام کے سچے عقیدےپر کفر وشرک کے فتوے ان آیات سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو آیات اللہ پاک نے کفار و مشرکین کو توحید و شرک کا فرق سمجھانے کی کوشش میں نازل فرمائیں۔ لیکن قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے کم و بیش 89 مقامات پر یا ایھا الذین آمنو ۔۔ اے ایمان والو! فرما کر براہ راست مومنین سے خطاب فرما کر جتنا بھی قرآن اتار ا ان میں کثرت سے مقام، شان، ادب و تعظیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سکھائی ہیں۔ تو گویا قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے ایک فلسفہ تبلیغ اور اصول دین اپنی سنت بنا کر سمجھا دیا کہ دین کے مبلغین جب کفار و مشرکین سے بات کریں تو انہیں توحید و شرک کا فرق سمجھائیں۔ لیکن جب انکے مخاطب کلمہ گو مسلمان ہوںتو انہیں توحید تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے سے سمجھ آچکی ۔ اب انہیں فضیلت ، محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آگہی دو۔ وہابی دیوبندی، سلفی، اہلحدیث، غیر مقلد وغیرہ باطل فرقہ کے لوگ عام طور پر اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کو جدا جدا سمجھتے پھرتے ہیں۔ بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نعت خوانی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و ثنا پر ُ ُ غلو اور حد سے بڑھ جانے بلکہ شرک‘‘ تک کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ اور الزام لگایا جاتا ہے کہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تعریف و ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرنے والے ، اور رفعت و علوِ مقامِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے والے ، معاذاللہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب تعالی سے ملا دیتے ہیں۔ ایسے متوسوس و متذبذب ذہنوں کے لیے اللہ رب العزت نے یہاں مقام ِ فکر دیا ہے کہ ۔۔ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کوئی تعلق باللہ تعالی کے خلاف یا جدا چیز نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ، کوئی اللہ کا غیر یا معاذاللہ مخالف نہیں ہے۔ بلکہ قرآن حکیم کے اس مقام سمیت متعدد مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی بھی معاملے کو اللہ رب العزت نے خود اپنے ساتھ معاملہ قرار دے کر یہ واضح کیا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ محبوبیت یہ ہے کہ اے لوگو ! جو معاملہ تم میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہو۔ میں اسے اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہوں۔ اے میرے محبوب نبی کے صحابہ ! تم نے بیعت میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی ۔ لیکن میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنا دراصل خود اللہ سے بیعت کرنا ہے۔ میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان کرنا خود اللہ رب العزت سے عہد و پیمان کرنا ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ بندگی پر عاجزی کا اظہار ..ایک غلط فہمی کا ازالہ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف محبوبِ خدا ہی نہ تھے۔ بلکہ امت کے لیے اسوہء کامل بھی تھے ۔ اور اسوہ کامل اس وقت تک نہیں بن سکتے تھے جب تک اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بندگی کی انتہا تک نہ پہنچتے ۔ اور بندگی کی انتہا بارگاہ الہیہ میں عاجزی کی انتہا سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے مقام بندگی پر فائز ہوتے ہیں تو عجز و انکساری کی انتہا ظاہر فرماتے ہیں۔ کہ مولا ! میں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ میرا علم، نہ میری دانش، نہ میرا ادراک، اے اللہ کریم سب کچھ تیری عطا ہے۔ مولا ! میں تو تیرا عاجز عبادت گذار بندہ ہوں۔ مجھے تو کوئی طاقت و اختیار نہیں ، جو کچھ ہے تو ہی قادرِ مطلق ہے (او کما قال ) ۔ ہمیں بطور امتی ، عبادات، مناجات، بارگاہ الہی میں خود کو پیش کرنے کے طریقے سکھانے کے لیے یہ ساری تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں اور ہمیں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو بھی اسی عاجزی کا مظہر بننا چاہیے۔ بلاشبہ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کے لیے ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پہلو اہمیت کا حامل ہے۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عاجزی کو " مقام و عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم " ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ جب ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کو سمجھنے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلقِ غلامی قائم کرنا پیش نظر ہو اور ایمان کی اصل حلاوت حاصل کرنا مقصود ہو ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ یہ بندگی کی انتہا ہے۔ ہمیں بطور امتی جب بارگاہ الہی میں آداب بندگی بجا لانا ہو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کامل کی پیروی کرنا ہے۔ لیکن جب مقام اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعین کرنا ہو اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلب و روح میں جانگزیں کرنے کا مرحلہ ہو تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین متورم ہونے پر بارگاہ الہیہ سے کیا جواب اور رد عمل آتا ہے ۔ آئینہء قرآن میں مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور مقام شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ اس پر بارگاہ الہیہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو اتارا جاتا ہے۔ قرآن بنایا جاتا ہے کہ ۔۔ مَا اَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىO (القرآن ۔ ۲۰:۲) (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیںo قربان جائیں ۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان محبوبیت کو کتنے خوبصورت اور محبت بھرے انداز میں واضح فرمایا ہے ۔ اللہ رب العزت کو اپنے حبیب کا مقام بندگی بھی پسند ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا مشقت میں پڑنا اور طبیعت مقدسہ پر بوجھ پڑنا بھی گوارا نہیں فرماتا اور فوراً قرآن نازل فرما دیا کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم رات کی عبادت اتنی ہی فرمایا کریں کہ جتنا طبعیت مبارکہ پر بوجھ نہ بنے ۔ایسا ہی اظہار محبت کا مضمون قرآن مجید کی سورہ مزمل میں بھی ہمیں ملتا ہے ۔ یہ تخصص بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے۔ سورۃ الفتح کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی نے فرمایا ۔۔ . إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo اللہ حکیم و خبیر نے اپنے حبیب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ قرب و وصل اپنی بارگاہ میں یوں واضح فرما دیا کہ تمہارے ہاتھوں کے اوپر جو ہاتھ بظاہر تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ دیکھ رہے تھے ۔ مگر سنو ! وہ اللہ کا ہاتھ تھا۔ اب عقل پرست ۔ علم پرست ۔۔ اپنے علم و عقل کے گھوڑے دوڑاتے پھریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ ، اللہ کا ہاتھ کیسے ہوگیا ؟ اگر علم و عقل کی وادی میں رہے تو گمراہی مقدر ہوجائے گی ۔ اور معرفت حق کبھی نصیب نہ ہوگی ۔ اگر قرب و عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنا ہے تو محبت و معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بارگاہ الہی میں التجا کرنا ہوگی۔ دل میں محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ جلانا ہوگا۔ اور ذکر و ثنائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا ۔ اور یہ معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔ کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ (مکہ) کی قسم کھا کر، (لا اقسم بھذالبلد۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کی عمر مبارک کی قسم کھا کر (لعمرک۔۔ القرآن) بلکہ اللہ رب العزت تو اپنی قسم بھی خود کو ربِ مصطفیٰ کہہ کر کھاتا ہے (فلاوربک لا یومنون حتیٰ یحکموک ۔۔۔ القرآن) کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر (ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ۔۔ القرآن) تو کبھی ذکرِ محبوب کو انتہائی بلندی دے کر (ورفعنالک ذکرک۔۔ القرآن) کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے (انا اعطینٰک الکوثر۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر (یداللہ فوق ایدیھم ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم پر سبقت لےجانے کو خود پر سبقت لےجانا قرار دے کر ( لا تقدمو بین یدی اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کی اطاعت کو اپنی (اللہ کی) اطاعت قرار دے کر ، (ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کی رضا کو اپنی (اللہ کی) رضا قرار دے کر ، (واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کو دھوکہ دینے کو خود (اللہ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر (یخدعون اللہ والذین امنو۔۔القرآن) کبھی حضور اکرم کو اذیت دینے کو خود اللہ کو اذیت دینا قرار دے کر (ومن یشاقق اللہ ورسولہ ۔۔۔۔ وفی المقام الآخر ۔۔۔ والذین یوذون اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن) کہیں حضور اکرم کو عطاکردہ دائمی علم الہی کے فیض کا ذکر فرمایا (سنقرئک فلا تنسیٰ ۔۔ القرآن) کہیں حضور اکرم کو عطائے الہی کے فیض سے علم غیب کی وسعتوں کا ذکر فرمایا (وما ھو علی الغیب بضنین ۔۔ القرآن) کبھی حضور اکرم کو روز قیامت ، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب " مقام محمود " کا وعدہ دینا (عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا ۔۔ القرآن) بلکہ اللہ رب العزت تو حضور اکرم کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی قرآن میں فرماتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ۔۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔۔ (الطُّوْر ، 52 : 4 اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں گویا اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ محبوب اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ جس پر اور کوئی نبی ، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا ، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ مقام ہے ۔ رضائے مصطفیٰ بذریعہ عطائے الہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کریم سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا ولسوف یعطیک ربک فترضی ٰ (القرآن ۔۔ سورۃ الضحا ) اے محبوب ! عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی نہ ہو جائے گے، اللہ اکبر۔ دوستانِ محترم ! ذرا سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام مسلمان ہی کیا۔ ساری دنیا، ساری کائنات، سارے اولیا، سارے صالحین، سارے اتقیا و اصفیا ، سارے انبیاء و رسولانِ مکرم (علیھم السلام) ، رضائے الہی کے متلاشی ہیں۔ اور خود اللہ رب العزت اپنے محبوب کی رضا کے لیے اپنی عطائیں نچھاور فرمانے کے وعدے فرما رہا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں_ خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد اور پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے میں سمیٹا تھا کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں شان و فضیلت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذکرِ شرک و اصنام کی وجہ آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ لوگ ہر بات میں عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عظمتِ اہلبیت اطہار، تعظیم و اکرامِ صحابہ کبار رضوان اللہ عنھم اور مقامات و شانِ اولیاءاللہ کا ذکر کرتے نظر آئیں گے۔ ان کی گفتگو، انکی تحریر سے ہمہ وقت یہی خوشبو پھوٹتی نظر آئےگی ۔ جبکہ اسکے برعکس کچھ طبقات، کچھ افراد ایسے ہوں گے جو ہمیشہ اپنی بات کا موضوع کفار کے بت، شرک کے مقامات، گمراہی کے فتوی، شیطان وغیرہ ہی کو موضوع بنا کر ہمہ وقت ہر کلمہ گو مسلمان کو یہی کچھ بتانے کی فکر میں سرگرداں نظر آئیں گے۔ اسکی ایک وجہ بہت سادہ ہے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سمجھ آجاتی ہے۔ محبت کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ کہ جس کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے۔ (زرقانی علی المواہب ص314 ج6) پس جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی زیادہ محبت ہوگئی وہ اتنا ہی کثرت سے آپ کا ذکر کرے گا۔ جس کو اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام سے دلی لگن ہوگی وہ انکا ذکر کرتا نظر آئے گا۔ جس کو اللہ اور اسکے ولیوں سے محبت ہوگی وہ انہی کی شان میں رطب اللسان نظر آئے گا۔ اب یہی قاعدہ شرک، اصنام، بت، فتوی، گمراہی، شیطنت وغیرہ کا شور مچانے والوں پر بھی اپنا لیجئے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں اپنے حبیب کریم کی سچی و پختہ محبت کا ایسا بیج بوئے جس سے ایمان کامل کا پودا اگے، پھر ہمیں اتباعِ مصطفیٰ کی دولت عطا کرے جس سے ایمان کا پودا تناور شجر بن جائے ۔ جس کے سایہ پربہار سے نہ صرف ہم خود بلکہ اور لوگ بھی فیضیاب ہوں۔ پھر اس پر معرفتِ مقام ِ مصطفیٰ کا ایسا پھل لگے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی رضا نصیب ہوجائے۔ قبر میں پہچانِ چہرہء مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو اور روز قیامت شفاعتِ مصطفیٰ کا سایہ نصیب ہو جائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین
सदस्यता लें
संदेश (Atom)
کیا اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی؟
کچھ انتشار پسند حضرات بغیر تحقیق کے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ پھیلاتے نہیں تھکتے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت اور اشرف علی تھانوی صاحب نے ...

-
کیا مطلقاً تمام دیوبندی(وہابی) کافر ہیں؟ جو حضرات خد کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہیں، کیا ...
-
کتابوں اور مطالعہ سے دوری علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چرایا نہیں جا سکتا اور اسے حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ کتابوں کا مطالع...